مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏پہلی قیامت“‏ جاری ہے!‏

‏”‏پہلی قیامت“‏ جاری ہے!‏

‏”‏پہلی قیامت“‏ جاری ہے!‏

‏”‏پہلے تو وہ جو مسیح میں موئے جی اُٹھیں گے۔‏“‏—‏۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۱۶‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ مرنے والے لوگوں کے لئے کیا اُمید ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ کس وجہ سے مُردوں کی قیامت پر ایمان رکھتے ہیں؟‏ (‏فٹ‌نوٹ دیکھیں۔‏)‏

‏”‏زندہ جانتے ہیں کہ وہ مریں گے۔‏“‏ آدم کے گُناہ کے وقت سے لیکر یہ حقیقت اٹل رہی ہے۔‏ ہر پیدا ہونے والا شخص جانتا ہے کہ وہ ضرور مرے گا۔‏ لہٰذا بہتیرے سوچتے ہیں:‏ ’‏مرنے کے بعد کیا ہوگا؟‏ مُردے کس حالت میں ہیں؟‏‘‏ بائبل جواب دیتی ہے:‏ ”‏مُردے کچھ بھی نہیں جانتے۔‏“‏—‏واعظ ۹:‏۵‏۔‏

۲ پس جو لوگ مر چکے ہیں کیا اُن کے لئے کوئی اُمید ہے؟‏ یقیناً۔‏ اگر انسانوں کے لئے خدا کے اصل مقصد کو پورا ہونا ہے تو مُردوں کے لئے ضرور اُمید ہے۔‏ صدیوں سے یہوواہ خدا کے وفادار خادم،‏ نسل کی بابت اُس کے وعدہ پر ایمان رکھتے ہیں۔‏ یہی نسل شیطان کو ختم کرے گی اور جو نقصان اُس نے پہنچایا ہے اُس کا ازالہ کرے گی۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۵‏)‏ اگر مرنے والوں کی بڑی تعداد نے یہوواہ خدا کے اس وعدے اور دیگر وعدوں کی تکمیل دیکھنی ہے تو اُن کے لئے مُردوں میں سے جی اُٹھنا ضرور ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۱۳‏)‏ کیا ایسا ممکن ہے؟‏ جی‌ہاں،‏ یہ ممکن ہے۔‏ پولس رسول نے بیان کِیا:‏ ”‏راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی۔‏“‏ (‏اعمال ۲۴:‏۱۵‏)‏ پولس رسول نے بھی یوتخس نامی ایک نوجوان کو زندہ کِیا تھا۔‏ یہ تیسری منزل کی کھڑکی سے گر پڑا تھا اور جب اُسے اُٹھایا گیا تو وہ ”‏مُردہ“‏ تھا۔‏ بائبل میں درج مُردوں کو زندہ کرنے کے نو واقعات میں سے یہ آخری واقعہ ہے۔‏—‏اعمال ۲۰:‏۷-‏۱۲‏۔‏ *

۳.‏ آپ نے ذاتی طور پر یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹ میں درج یسوع کے الفاظ سے کیا تسلی پائی ہے،‏ اور کیوں؟‏

۳ مُردوں کی قیامت کے یہ نو واقعات پولس کے الفاظ کی صداقت پر ہمارے ایمان کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔‏ یہ یسوع کی اس یقین‌دہانی پر ہمارے اعتماد کو بڑھاتے ہیں کہ ”‏وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں [‏یسوع]‏ کی آواز سُن کر نکلیں گے۔‏“‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ یہ الفاظ بہت ہی حوصلہ‌افزا ہیں!‏ نیز یہ اُن لاکھوں لوگوں کے لئے کتنے تسلی‌بخش ہیں جن کے عزیز موت کی نیند سو رہے ہیں!‏

۴،‏ ۵.‏ بائبل کن مختلف قیامتوں کا ذکر کرتی ہے،‏ اور اس مضمون میں کس قیامت پر بات کی جائے گی؟‏

۴ قیامت پانے والے لاکھوں لوگ خدا کی بادشاہت کے تحت پُرامن زمین پر زندہ کئے جائیں گے۔‏ (‏زبور ۳۷:‏۱۰،‏ ۱۱،‏ ۲۹؛‏ یسعیاہ ۱۱:‏۶-‏۹؛‏ ۳۵:‏۵،‏ ۶؛‏ ۶۵:‏۲۱-‏۲۳‏)‏ تاہم،‏ اس واقعہ سے پہلے کچھ مُردوں کا زندہ کِیا جانا ضروری تھا۔‏ سب سے پہلے یسوع مسیح کو زندہ کِیا جانا تھا تاکہ وہ خدا کے حضور اپنی قربانی کی قیمت ادا کر سکے۔‏ یسوع مسیح مؤا اور ۳۳ عیسوی میں زندہ کِیا گیا۔‏

۵ اس کے بعد،‏ ”‏خدا کے اسرائیل“‏ کے ممسوح اراکین کو یسوع مسیح کے ساتھ آسمانی جلال میں شریک ہونا تھا جہاں وہ ”‏ہمیشہ خداوند کے ساتھ رہیں گے۔‏“‏ (‏گلتیوں ۶:‏۱۶؛‏ ۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۱۷‏)‏ اس واقعے کو ”‏پہلی قیامت“‏ کہا گیا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۲۰:‏۶‏)‏ جب یہ قیامت یا مُردوں کا زندہ کِیا جانا مکمل ہو جاتا ہے توپھر زمین پر فردوس میں زندگی پانے کے لئے لاکھوں لوگوں کو زندہ کِیا جائے گا۔‏ پس،‏ خواہ ہماری اُمید آسمانی ہے یا زمینی ہم ”‏پہلی قیامت“‏ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‏ یہ کس قسم کی قیامت ہے؟‏ یہ کب واقع ہوتی ہے؟‏

‏”‏کیسے جسم کے ساتھ؟‏“‏

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏ اس سے پہلے کہ ممسوح مسیحی آسمان پر جائیں کیا واقع ہونا ضروری ہے؟‏ (‏ب)‏ وہ کیسے جسم کے ساتھ مُردوں میں سے زندہ ہوں گے؟‏

۶ کرنتھیوں کے نام اپنے پہلے خط میں پولس رسول پہلی قیامت کے بارے میں ایک سوال کرتا ہے:‏ ”‏مُردے کس طرح جی اُٹھتے ہیں اور کیسے جسم کے ساتھ آتے ہیں؟‏“‏ وہ خود ہی اس سوال کا جواب دیتا ہے:‏ ”‏تُو خود جوکچھ بوتا ہے جب تک وہ نہ مرے زندہ نہیں کِیا جاتا۔‏ .‏ .‏ .‏ مگر خدا نے جیسا ارادہ کر لیا ویسا ہی اُس کو جسم دیتا ہے .‏ .‏ .‏ آسمانیوں کا جلال اَور ہے زمینیوں کا اَور۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳۵-‏۴۰‏۔‏

۷ پولس رسول کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ رُوح‌اُلقدس سے مسح‌شُدہ مسیحیوں کے لئے آسمانی انعام پانے سے پہلے مرنا ضروری ہے۔‏ موت کے وقت اُن کا جسم خاک میں مل جاتا ہے۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۹‏)‏ خدا کے مقررہ وقت پر وہ ایسے جسم کے ساتھ زندہ کئے جاتے ہیں جو آسمانی زندگی کے لئے موزوں ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۳:‏۲‏)‏ خدا اُنہیں غیرفانی بنا دیتا ہے۔‏ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو اُنہیں پیدائشی طور پر حاصل ہے گویا اُن کے اندر غیرفانی جان پھونک دی گئی ہو۔‏ پولس رسول بیان کرتا ہے،‏ ”‏ضرور ہے کہ یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہنے۔‏“‏ بقا یا غیرفانی زندگی خدا کی بخشش ہے جسے وہ لوگ ’‏پہنتے‘‏ ہیں جو پہلی قیامت میں شریک ہوتے ہیں۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۰،‏ ۵۳؛‏ پیدایش ۲:‏۷؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۱،‏ ۲،‏ ۸‏۔‏

۸.‏ ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ کا انتخاب مختلف مذاہب سے نہیں کرتا؟‏

۸ صرف ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ پہلی قیامت میں شریک ہوتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا نے پنتِکُست ۳۳ عیسوی میں یسوع مسیح کے مُردوں میں سے زندہ کئے جانے کے کچھ عرصہ بعد ان کا انتخاب کرنا شروع کر دیا تھا۔‏ ان سب کے ”‏ماتھے پر [‏یسوع]‏ کا اور اُس کے باپ کا نام لکھا ہوا ہے۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۱۴:‏۱،‏ ۳‏)‏ اُن کا انتخاب مختلف مذاہب سے نہیں کِیا گیا۔‏ وہ سب کے سب مسیحی ہیں اور بڑے فخر سے یہوواہ اپنے باپ کے نام سے کہلاتے ہیں۔‏ جب وہ زندہ کئے جاتے ہیں تو اُنہیں آسمان پر کام کرنے کی ذمہ‌داری سونپی جاتی ہے۔‏ براہِ‌راست خدا کی خدمت کرنے کا یہ شرف اُن کے لئے خوشی کا باعث ہوتا ہے۔‏

کیا یہ قیامت اب بھی جاری ہے؟‏

۹.‏ پہلی قیامت کے شروع ہونے کے وقت کا اندازہ لگانے کے لئے مکاشفہ ۱۲:‏۷ اور ۱۷:‏۱۴ کیسے ہماری مدد کرتی ہیں؟‏

۹ پہلی قیامت کب واقع ہوتی ہے؟‏ اس کا بڑا مستند ثبوت ہے کہ یہ اس وقت جاری ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ مکاشفہ کے دو ابواب کا موازنہ کریں۔‏ سب سے پہلے،‏ مکاشفہ ۱۲ باب کو دیکھیں۔‏ وہاں ہم پڑھتے ہیں کہ تخت‌نشین بادشاہ یسوع مسیح اپنے مُقدس فرشتوں کے ساتھ شیطان اور اُس کے شیاطین سے لڑائی کرتا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۷-‏۹‏)‏ جیسےکہ یہ رسالہ بارہا بیان کر چکا ہے یہ لڑائی سن ۱۹۱۴ میں شروع ہوئی تھی۔‏ * غور کریں کہ مسیح کے ممسوح بھائیوں میں سے کوئی بھی اس آسمانی لڑائی میں مسیح کے ساتھ نہیں ہے۔‏ اب مکاشفہ ۱۷ باب کو دیکھیں۔‏ یہاں ہم پڑھتے ہیں کہ ’‏بڑے بابل‘‏ کی بربادی کے بعد برّہ قوموں کو فتح کرے گا۔‏ اس کے بعد لکھا ہے کہ ”‏جو بلائے ہوئے اور برگزیدہ اور وفادار اُس کے ساتھ ہیں وہ بھی غالب آئیں گے۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۱۷:‏۵،‏ ۱۴‏)‏ اگر شیطان کی دُنیا کو مکمل طور پر شکست دینے کے لئے ”‏بلائے ہوئے اور برگزیدہ اور وفادار“‏ لوگوں نے یسوع کا ساتھ دینا ہے تو اس سے پہلے اُن کا مُردوں میں سے زندہ کِیا جانا ضروری ہے۔‏ پس ہرمجدون سے پہلے وفات پا جانے والے ممسوح لوگ موزوں طور پر،‏ ۱۹۱۴ اور ہرمجدون کے درمیانی عرصے میں کسی بھی وقت مُردوں میں سے زندہ کئے جاتے ہیں۔‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ (‏ا)‏ چوبیس بزرگ کون ہیں،‏ اور ان میں سے ایک یوحنا پر کیا آشکارا کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ اس سے ہم کس نتیجے پر پہنچتے ہیں؟‏

۱۰ کیا ہم اس بات کو مزید واضح کر سکتے ہیں کہ پہلی قیامت کا آغاز کب ہوا؟‏ اس کا ایک اشارہ مکاشفہ ۷:‏۹-‏۱۵ میں ملتا ہے جہاں یوحنا رسول اپنی رویا میں ”‏ایک ایسی بڑی بِھیڑ جِسے کوئی شمار نہیں کر سکتا“‏ کا ذکر کرتا ہے۔‏ چوبیس بزرگوں میں سے ایک یوحنا رسول کو بڑی بِھیڑ کی شناخت کراتا ہے۔‏ یہ بزرگ ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ کی نمائندگی کرتے ہیں جوکہ آسمانی جلال میں مسیح کے ہم‌میراث ہیں۔‏ (‏لوقا ۲۲:‏۲۸-‏۳۰؛‏ مکاشفہ ۴:‏۴‏)‏ یوحنا رسول بھی آسمانی اُمید رکھتا تھا اس لئے جب بزرگ رویا میں اُس سے بات کرتا ہے تو وہ اُن ممسوح مسیحیوں کی نمائندگی کرتا ہے جو ابھی تک زمین پر ہیں اور اُنہوں نے اپنا آسمانی انعام حاصل نہیں کِیا۔‏

۱۱ پس ہم اس حقیقت سے کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ان ۲۴ بزرگوں میں سے ایک یوحنا کو بڑی بِھیڑ کی شناخت کراتا ہے؟‏ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ۲۴ بزرگوں پر مشتمل گروہ کے مُردوں میں سے زندہ کئے جانے والے لوگ آجکل خدائی سچائیوں کو ہم تک پہنچانے کا کام کر رہے ہیں۔‏ یہ کیوں ضروری ہے؟‏ اسلئےکہ بڑی بِھیڑ کی صحیح شناخت زمین پر خدا کے ممسوح خادموں پر سن ۱۹۳۵ میں آشکارا کی گئی تھی۔‏ اگر ان ۲۴ بزرگوں میں سے ایک کو یہ اہم سچائی بیان کرنے کے لئے استعمال کِیا جانا تھا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ۱۹۳۵ سے پہلے مُردوں میں زندہ کِیا گیا ہوگا۔‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی قیامت ۱۹۱۴ اور ۱۹۳۵ کے درمیان شروع ہوئی تھی۔‏ اس بات کو ہم اَور کیسے واضح طور پر سمجھ سکتے ہیں؟‏

۱۲.‏ واضح کریں کہ یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ پہلی قیامت ۱۹۱۸ کے موسمِ‌بہار میں شروع ہوئی تھی؟‏

۱۲ اب یہ مناسب ہوگا کہ بائبل میں سے ایک موازنے پر غور کریں۔‏ یسوع مسیح کو ۲۹ عیسوی کے موسمِ‌خزاں میں خدا کی بادشاہت کے مستقبل کے بادشاہ کے طور پر مسح کِیا گیا تھا۔‏ اس کے ساڑھے تین سال بعد،‏ ۳۳ عیسوی کے موسمِ‌بہار میں اُسے روحانی مخلوق کے طور پر مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا تھا۔‏ کیا اس لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یسوع مسیح چونکہ ۱۹۱۴ کے آخر پر تخت‌نشین ہوا تھا اس لئے اُس کے وفادار ممسوح پیروکاروں کا مُردوں میں سے زندہ کِیا جانا بھی ۱۹۱۴ کے ساڑھے تین سال بعد ۱۹۱۸ کے موسمِ‌بہار میں شروع ہونا تھا؟‏ یہ ایک انتہائی دلچسپ امکان ہے۔‏ اگرچہ اس کی تصدیق بائبل سے تو نہیں کی جا سکتی توبھی یہ اُن صحائف کی مطابقت میں ہے جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مُردوں کی پہلی قیامت مسیح کے بادشاہتی اختیار میں آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد شروع ہو گئی تھی۔‏

۱۳.‏ پہلا تھسلنیکیوں ۴:‏۱۵-‏۱۷ کس لحاظ سے یہ خیال پیش کرتی ہے کہ پہلی قیامت کا آغاز مسیح کے بادشاہتی اختیار میں آنے کے اوائل میں ہوا تھا؟‏

۱۳ مثال کے طور پر،‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏ہم جو زِندہ ہیں اور خداوند کے آنے تک [‏اُس کی موجودگی کے آخر پر نہیں]‏ باقی رہیں گے سوئے ہوؤں سے ہرگز آگے نہ بڑھیں گے۔‏ کیونکہ خداوند خود آسمان سے للکار اور مقرب فرشتہ کی آواز اور خدا کے نرسنگے کے ساتھ اُتر آئے گا اور پہلے تو وہ جو مسیح میں موئے اُٹھیں گے۔‏ پھر ہم جو زندہ باقی ہوں گے اُن کے ساتھ بادلوں پر اُٹھائے جائیں گے تاکہ ہوا میں خداوند کا اِستقبال کریں اور اِس طرح ہمیشہ خداوند کے ساتھ رہیں گے۔‏“‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ پس مسیح کے بادشاہتی اختیار میں آنے سے پہلے جو ممسوح مسیحی وفات پا چکے تھے وہ اُن لوگوں سے پہلے آسمانی زندگی کے لئے مُردوں میں سے زندہ کئے جاتے ہیں جو مسیح کے شاہی اختیار میں آنے کے وقت ابھی زندہ تھے۔‏ اس کا مطلب ہے کہ پہلی قیامت مسیح کے شاہی اختیار حاصل کرنے کے وقت شروع ہو گئی تھی اور اُس کے ”‏آنے“‏ یعنی حکمرانی کرنے کے دوران جاری رہتی ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۳‏)‏ پس پہلی قیامت ایک ہی وقت میں مکمل ہونے کی بجائے کچھ عرصہ تک جاری رہتی ہے۔‏

‏”‏اُن میں سے ہر ایک کو سفید جامہ دیا گیا“‏

۱۴.‏ (‏ا)‏ مکاشفہ ۶ باب میں درج رویتیں کب تکمیل پاتی ہیں؟‏ (‏ب)‏ مکاشفہ ۶:‏۹ میں کس چیز کی تصویرکشی کی گئی ہے؟‏

۱۴ مکاشفہ ۶ باب میں درج ثبوت پر بھی غور کریں۔‏ وہاں یسوع کو فاتح بادشاہ کے طور پر گھوڑے پر سوار دکھایا گیا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۶:‏۲‏)‏ تمام قومیں جنگ میں اُلجھی ہوئی ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۶:‏۴‏)‏ خوراک کی بہت زیادہ کمی ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۶:‏۵،‏ ۶‏)‏ خوفناک وبائی بیماریوں نے انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۶:‏۸‏)‏ سن ۱۹۱۴ سے یہ تمام پیشینگوئیاں واضح طور پر پوری ہو رہی ہیں۔‏ مگر کچھ اَور بھی واقع ہوتا ہے۔‏ ہماری توجہ ایک قربانگاہ کی طرف دلائی جاتی ہے۔‏ جس کے نیچے اُن جانوں کو دیکھا گیا ”‏جو خدا کے کلام کے سبب سے اور گواہی پر قائم رہنے کے باعث مارے گئے تھے۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۶:‏۹‏)‏ چونکہ ”‏جسم کی جان خون میں ہے،‏“‏ تو جو چیز مذبح کے نیچے ہے وہ دراصل یسوع کے وفادار خادموں کا خون ہے جنہیں دلیری اور سرگرمی سے گواہی دینے کی وجہ سے قتل کر دیا گیا تھا۔‏—‏احبار ۱۷:‏۱۱‏۔‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ وضاحت کریں کہ مکاشفہ ۶:‏۱۰،‏ ۱۱ کے الفاظ پہلی قیامت کی طرف کیوں اشارہ کرتے ہیں۔‏

۱۵ راستباز ہابل کے خون کی طرح ان مسیحی شہیدوں کا خون بھی انصاف کے لئے پکارتا ہے۔‏ (‏پیدایش ۴:‏۱۰‏)‏ ”‏وہ بڑی آواز سے چلّا کر بولیں کہ اَے مالک!‏ اَے قدوس‌وبرحق!‏ تُو کب تک انصاف نہ کرے گا اور زمین کے رہنے والوں سے ہمارے خون کا بدلہ نہ لے گا؟‏“‏ اس کے بعد کیا واقعہ ہوتا ہے؟‏ ”‏اُن میں سے ہر ایک کو سفید جامہ دیا گیا اور اُن سے کہا گیا کہ اَور تھوڑی مدت آرام کرو جب تک کہ تمہارے ہمخدمت اور بھائیوں کا بھی شمار پورا نہ ہو لے جو تمہاری طرح قتل ہونے والے ہیں۔‏“‏—‏مکاشفہ ۶:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

۱۶ کیا یہ سفید جامے قربانگاہ کے نیچے پڑے ہوئے خون کو دئے گئے تھے؟‏ بیشک نہیں!‏ جامے اُن تمام لوگوں کو دئے گئے تھے جن کا خون علامتی معنوں میں قربانگاہ پر بہایا گیا تھا۔‏ اُنہوں نے اپنی جانیں یسوع کے نام پر قربان کر دی تھیں اور اب وہ روحانی طور پر زندہ کئے گئے ہیں۔‏ ہم یہ کیسے جانتے ہیں؟‏ مکاشفہ کی کتاب کے شروع کے ابواب میں ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏جو غالب آئے اُسے اِسی طرح سفید پوشاک پہنائی جائے گی اور مَیں اُس کا نام کتابِ‌حیات سے ہرگز نہ کاٹوں گا۔‏“‏ یہ بھی یاد رکھیں کہ ۲۴ بزرگ بھی ”‏سفید پوشاک پہنے ہوئے بیٹھے ہیں اور اُن کے سروں پر سونے کے تاج ہیں۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۳:‏۵؛‏ ۴:‏۴‏)‏ پس جنگ،‏ خوراک کی کمی اور وبائی بیماریوں کے زمین پر تباہی پھیلانے کے بعد ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ کے وفات پانے والے اراکین جن کی نمائندگی قربانگاہ کے نیچے پڑے خون سے ہوتی ہے آسمانی زندگی کے لئے زندہ کئے گئے اور اُنہوں نے علامتی مفہوم میں سفید جامے پہنے۔‏

۱۷.‏ سفید جامے حاصل کرنے والے کس مفہوم میں ”‏آرام“‏ کرتے ہیں؟‏

۱۷ نئے قیامت پانے یا مُردوں میں سے زندہ کئے جانے والوں کو ”‏آرام“‏ کرنا ہے۔‏ اُنہیں صبر کے ساتھ خدا کے روزِانتقام کا انتظار کرنا ہے۔‏ اُن کے ”‏ہمخدمت“‏ ممسوح مسیحی جو ابھی تک زمین پر ہیں اُنہیں بھی آزمائش کے تحت اپنی وفاداری ثابت کرنی ہے۔‏ جب خدائی انصاف کا وقت آ جائے گا تو ”‏آرام“‏ کرنا بھی ختم ہو جائے گا۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۳‏)‏ اُس وقت یہ قیامت پانے والے لوگ یسوع مسیح کے ساتھ ملکر اس شریر نظام کو ختم کریں گے۔‏ اس تباہی میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جنہوں نے بےگُناہ مسیحیوں کا خون بہایا ہے۔‏—‏۲-‏تھسلنیکیوں ۱:‏۷-‏۱۰‏۔‏

ہمارے لئے اس کا کیا مطلب ہے؟‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ (‏ا)‏ آپ اس نتیجے پر کیسے پہنچے ہیں کہ پہلی قیامت جاری ہے؟‏ (‏ب)‏ پہلی قیامت کی بابت سمجھ حاصل کرکے آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏

۱۸ خدا کا کلام پہلی قیامت کی کوئی حتمی تاریخ بیان نہیں کرتا۔‏ مگر یہ اس بات کو ضرور آشکارا کرتا ہے کہ یہ مسیح کے بادشاہتی اختیار میں آنے کے بعد کچھ وقت تک جاری رہتی ہے۔‏ سب سے پہلے اُن ممسوح مسیحیوں کو مُردوں میں سے زندہ کِیا جاتا ہے جو مسیح کے بادشاہتی اختیار میں آنے سے پہلے وفات پا چکے ہیں۔‏ مسیح کی حکمرانی کے دوران،‏ وفاداری سے زمینی زندگی کا اختتام کرنے والے ممسوح مسیحیوں کو ”‏ایک پل میں“‏ روحانی مخلوق میں بدل دیا جائے گا۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۲‏)‏ کیا تمام ممسوح مسیحی ہرمجدون سے پہلے اپنا آسمانی انعام حاصل کر لیں گے؟‏ ہم یہ نہیں جانتے۔‏ تاہم،‏ ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ خدا کے مقررہ وقت پر تمام کے تمام ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ آسمانی کوہِ‌صیون پر کھڑے ہوں گے۔‏

۱۹ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ کی اکثریت پہلے ہی مسیح کے ساتھ متحد ہو چکی ہے۔‏ زمین پر اُن کی بہت کم تعداد باقی ہے۔‏ یہ اس بات کی پُرزور نشاندہی ہے کہ خدا کا عدالت کرنے کا وقت نزدیک آ رہا ہے!‏ بہت جلد شیطان کا سارا نظام تباہ‌وبرباد ہو جائے گا۔‏ شیطان کو بھی اتھاہ‌گڑھے میں ڈال دیا جائے گا۔‏ اس کے بعد عام لوگوں کا زندہ کِیا جانا شروع ہو جائے گا۔‏ یسوع مسیح کی فدیے کی قربانی کی بِنا پر وفادار انسانوں کو کاملیت کے اُسی درجے تک پہنچا دیا جائے گا جو آدم نے کھو دیا تھا۔‏ پیدایش ۳:‏۱۵ میں درج یہوواہ خدا کی پیشینگوئی کتنے شاندار طریقے سے تکمیل پا رہی ہے۔‏ ان ایّام میں زندہ رہنا اور یہ سب کچھ ہوتے دیکھنا کتنا بڑا شرف ہے!‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 9 اس بات کے صحیفائی ثبوت کے لئے کہ مسیح نے ۱۹۱۴ میں بادشاہتی اختیار سنبھالا تھا براہِ‌مہربانی کتاب دانی‌ایل کی نبوّت پر دھیان دیں!‏ کے صفحہ ۹۴-‏۹۷ پیراگراف ۲۴-‏۲۹ کو دیکھیں۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

مندرجہ‌ذیل صحائف ”‏پہلی قیامت“‏ کے وقت کو سمجھنے میں ہماری مدد کیسے کرتے ہیں؟‏

‏• مکاشفہ ۱۲:‏۷؛‏ ۱۷:‏۱۴

‏• مکاشفہ ۷:‏۱۳،‏ ۱۴

‏• ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۳؛‏ ۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۱۵-‏۱۷

‏• مکاشفہ ۶:‏۲،‏ ۹-‏۱۱

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

موت کی نیند سونے والے بعض لوگوں کو سفید جامے کیسے دئے جاتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۳۲ پر تصویریں]‏

عام انسانوں کے مُردوں میں سے زندہ کئے جانے سے پہلے کونسی قیامت ہوتی ہے؟‏