یہوواہ ”اپنے مانگنے والوں کو رُوحاُلقدس“ دیتا ہے
یہوواہ ”اپنے مانگنے والوں کو رُوحاُلقدس“ دیتا ہے
”جب تُم بُرے ہوکر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو رُوحاُلقدس کیوں نہ دے گا؟“—لوقا ۱۱:۱۳۔
۱. ہمیں رُوحاُلقدس کی خاص طور پر کب ضرورت ہوتی ہے؟
’مَیں اپنی طاقت سے کچھ نہیں کر سکتا۔ مَیں آزمائش کو صرف رُوحاُلقدس کی مدد سے برداشت کرنے کے قابل ہوا ہوں!‘ کیا آپ نے کبھی ایسے ہی دلی احساسات کا اظہار کِیا ہے؟ بہتیرے مسیحیوں نے ایسا کِیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے بھی سنگین بیماری، بیاہتا ساتھی کی وفات یا پھر اپنی خوشی کے مایوسی میں بدل جانے کے وقت ایسے ہی احساسات کا اظہار کِیا ہو۔ شاید زندگی کے مشکل اوقات میں آپ نے یہ محسوس کِیا ہو کہ آپ یہوواہ خدا کی رُوحاُلقدس کی فراہمکردہ ”حد سے زیادہ قدرت“ کی وجہ سے قائم ہیں۔—۲-کرنتھیوں ۴:۷-۹؛ زبور ۴۰:۱، ۲۔
۲. (ا) سچے مسیحیوں کے طور پر ہمیں کن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کن سوالات پر غور کریں گے؟
۲ سچے مسیحیوں کے طور پر آجکل ہمیں بےدین دُنیا کی مخالفت اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ (۱-یوحنا ۵:۱۹) اس کے علاوہ، ہمیں شیطان کے حملوں کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ وہ ’خدا کے حکموں پر عمل کرنے اور یسوع کی گواہی دینے پر قائم رہنے‘ والے تمام لوگوں کے خلاف سخت لڑائی کر رہا ہے۔ (مکاشفہ ۱۲:۱۲، ۱۷) لہٰذا، اب ہمیں خدا کی رُوح کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ خدا کی رُوحاُلقدس حاصل کرتے رہنے کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم اس بات کا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمیں آزمائش میں ضروری طاقت فراہم کرنے کے لئے تیار ہے؟ ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لئے یسوع مسیح کی دو تمثیلوں پر غور کریں۔
مستقلمزاجی سے دُعا کریں
۳، ۴. یسوع مسیح نے کونسی تمثیل بیان کی، اور اُس نے اس کا اطلاق دُعا پر کیسے کِیا؟
۳ یسوع مسیح کے شاگردوں میں سے ایک نے درخواست کی: ”اَے خداوند ہم کو دُعا کرنا سکھا۔“ (لوقا ۱۱:۱، کیتھولک ترجمہ) اس درخواست کے جواب میں یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کے سامنے دو تمثیلیں بیان کیں۔ پہلی تمثیل ایک مہماننواز شخص اور دوسری اپنے بیٹے کی بات سننے والے باپ کے بارے میں ہے۔ آئیے ان دونوں تمثیلوں پر باری باری غور کریں۔
۴ یسوع مسیح نے کہا: ”تُم میں سے کون ہے جس کا ایک دوست ہو اور وہ آدھی رات کو اُس کے پاس جاکر اُس سے کہے اَے دوست مجھے تین روٹیاں دے۔ کیونکہ میرا ایک دوست سفر کرکے میرے پاس آیا ہے اور میرے پاس کچھ نہیں کہ اُس کے آگے رکھوں۔ اور وہ اندر سے جواب میں کہے مجھے تکلیف نہ دے۔ اب دروازہ بند ہے اور میرے لڑکے میرے پاس بچھونے لوقا ۱۱:۵-۱۰۔
پر ہیں۔ مَیں اُٹھ کر تجھے دے نہیں سکتا۔ مَیں تُم سے کہتا ہوں کہ اگرچہ وہ اس سبب سے کہ اُس کا دوست ہے اُٹھ کر اُسے نہ دے تَوبھی اُس کی بےحیائی کے سبب سے اُٹھ کر جتنی درکار ہیں اُسے دے گا۔“ اس کے بعد یسوع مسیح نے اس تمثیل کا اطلاق دُعا پر کرتے ہوئے کہا: ”مَیں تُم سے کہتا ہوں مانگو تو تمہیں دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔ کیونکہ جو کوئی مانگتا ہے اُسے ملتا ہے اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے واسطے کھولا جائے گا۔“—۵. ہم مستقلمزاج شخص کی تمثیل سے دُعا کرتے وقت اپنے رُجحان کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟
۵ ایک مستقلمزاج آدمی کی یہ واضح تمثیل ظاہر کرتی ہے کہ دُعا کرتے وقت ہمارا رُجحان کیسا ہونا چاہئے۔ غور کریں کہ یسوع مسیح کہتا ہے وہ شخص اپنی ”بےحیائی کے سبب سے“ اپنی ضرورت کی چیز حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ (لوقا ۱۱:۸) لفظ بےحیائی اکثر ایک بُری خصلت کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم، کسی اچھے مقصد کے لئے بےحیائی یعنی کوئی بات کہنے میں شرم محسوس نہ کرنا یا مستقلمزاجی دکھانا قابلِتعریف ہو سکتا ہے۔ تمثیل میں بیانکردہ مہماننواز شخص کے سلسلے میں بھی یہی بات سچ ہے۔ وہ مستقلمزاجی سے اپنی ضرورت کی چیز مانگنے میں شرم محسوس نہیں کرتا۔ یسوع مسیح نے مہماننواز شخص کی مثال پیش کرتے ہوئے یہ واضح کِیا کہ ہمیں بھی اس کی طرح مستقلمزاجی سے دُعا کرنی چاہئے۔ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم ’مانگتے رہیں، ڈھونڈتے رہیں، اور کھٹکھٹاتے رہیں۔‘ اس کے جواب میں وہ ”اپنے مانگنے والوں کو رُوحاُلقدس“ دیتا ہے۔
۶. یسوع مسیح کے زمانے میں مہماننوازی کی رسم کو کیسا خیال کِیا جاتا تھا؟
۶ یسوع مسیح نے نہ صرف یہ ظاہر کِیا کہ ہمیں مستقلمزاجی سے دُعا کرنی چاہئے، بلکہ اس بات کو بھی واضح کِیا کہ ہمیں ایسا کیوں کرنا چاہئے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں یہ جائزہ لینا چاہئے کہ یسوع مسیح کی مستقلمزاج شخص کی تمثیل کو سننے والے لوگ مہماننوازی کی رسم کو کیسا خیال کرتے تھے۔ پاک صحائف میں درج بہت سے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ بائبل وقتوں میں مہماننوازی کی رسم کو خدا کے خادم بہت اہم خیال کرتے تھے۔ (پیدایش ۱۸:۲-۵؛ عبرانیوں ۱۳:۲) مہماننوازی ظاہر کرنے میں ناکامی بےعزتی کا باعث تھی۔ (لوقا ۷:۳۶-۳۸، ۴۴-۴۶) اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیے یسوع مسیح کی تمثیل پر دوبارہ غور کریں۔
۷. یسوع مسیح کی تمثیل میں بیانکردہ شخص نے اپنے دوست کو جگانے میں شرم محسوس کیوں نہ کی؟
۷ اس تمثیل میں بیانکردہ شخص کے گھر آدھی رات کو ایک مہمان آتا ہے۔ وہ شخص اپنے مہمان کو کھانا کھلانا اپنا فرض سمجھتا ہے لیکن اُس کے ”پاس کچھ نہیں کہ اُس کے آگے“ رکھے۔ اُس کے خیال میں اُسے فوری طور پر کچھ روٹیوں کا انتظام کرنا تھا، اس کے لئے خواہ اُسے کتنی ہی مشکل کیوں نہ اُٹھانی پڑے۔ اِس لئے وہ اپنے ایک دوست کے پاس گیا اور اُسے جگانے میں کوئی شرم محسوس نہ کی۔ اُس نے اپنے دوست سے کہا: ”اَے دوست مجھے تین روٹیاں دے۔“ وہ اُس وقت تک مستقلمزاجی سے درخواست کرتا رہا جبتککہ اُس کی ضرورت پوری نہ ہو گئی۔ روٹی حاصل کرنے کے بعد ہی وہ مناسب طریقے سے مہماننوازی ظاہر کر سکتا تھا۔
اپنی ضرورت کے مطابق مانگنا
۸. کیا چیز ہمیں رُوحاُلقدس کے لئے مستقلمزاجی سے دُعا کرنے کی تحریک دے گی؟
۸ یہ تمثیل ہمارے مستقلمزاجی سے دُعا کرنے کے بارے میں کیا ظاہر کرتی ہے؟ اُس شخص نے محسوس کِیا کہ مہماننوازی ظاہر کرنے کیلئے اُسے روٹیوں یسعیاہ ۵۸:۵-۷) روٹی کے بغیر وہ مہماننوازی ظاہر کرنے کی اپنی ذمہداری کو پورا نہیں کر سکتا تھا۔ اسی طرح سچے مسیحیوں کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ منادی کے کام کو جاری رکھنے کے لئے خدا کی رُوحاُلقدس کی ضرورت ہے، اس لئے ہمیں اس کے لئے دُعا کرتے رہنا چاہئے۔ (زکریاہ ۴:۶) اس کے بغیر ہم کامیاب نہیں ہوں گے۔ (متی ۲۶:۴۱) ہم اس تمثیل سے کونسا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟ اگر ہم خدا کی رُوح کی اشد ضرورت محسوس کرتے ہیں تو ہم مستقلمزاجی سے اس کے لئے دُعا کرتے رہیں گے۔
کی ضرورت ہے، اس لئے اُس نے بار بار اس کیلئے درخواست کی۔ (۹، ۱۰. (ا) مستقلمزاجی سے خدا سے اُس کی رُوح کے لئے درخواست کرنے کی ضرورت کیوں ہے، مثال دیں۔ (ب) ہمیں خود سے کونسا سوال پوچھنا چاہئے، اور کیوں؟
۹ اپنی موجودہ زندگی پر اس سبق کا اطلاق کرتے ہوئے تصور کریں کہ آپ کے خاندان کا کوئی شخص آدھی رات کو بیمار پڑ جاتا ہے۔ کیا آپ اُس وقت کسی ڈاکٹر کو مدد کے لئے نہیں جگائیں گے؟ کسی معمولی بیماری کی صورت میں تو آپ ایسا نہیں کریں گے۔ تاہم، اگر اُسے دل کا دورہ پڑا ہے تو آپ ڈاکٹر کو بلانے میں شرم محسوس نہیں کریں گے۔ مگر کیوں؟ اِسلئےکہ اس وقت آپ کو ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ کسی ماہر کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ مدد کے لئے درخواست نہ کرنے سے مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ اسی طرح سچے مسیحیوں کو علامتی مفہوم میں ہر وقت ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شیطان ”گرجنے والے شیرببر“ کی طرح ہمیں پھاڑ کھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ (۱-پطرس ۵:۸) پس خدا کے ساتھ مضبوط رشتہ برقرار رکھنے کے لئے ہمیں رُوحاُلقدس کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ خدا سے مدد کی درخواست نہ کرنا نقصاندہ ہو سکتا ہے۔ اِس لئے ہم رُوحاُلقدس حاصل کرنے کے لئے خدا سے مستقلمزاجی سے درخواست کرتے ہیں۔ (افسیوں ۳:۱۴-۱۶) ایسا کرنے سے ہم ”آخر تک برداشت“ کرنے کی طاقت حاصل کریں گے۔—متی ۱۰:۲۲؛ ۲۴:۱۳۔
۱۰ لہٰذا، ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ’مَیں کتنی مستقلمزاجی سے دُعا کرتا ہوں؟‘ یاد رکھیں کہ جب ہم خدا کی مدد کی اشد ضرورت کو سمجھ جاتے ہیں تو ہم اَور زیادہ مستقلمزاجی سے رُوحاُلقدس کے لئے دُعا کرنے لگتے ہیں۔
کیا چیز ہمیں اعتماد کے ساتھ دُعا کرنے کی تحریک دیتی ہے؟
۱۱. یسوع مسیح نے باپ اور بیٹے کی تمثیل کا اطلاق دُعا پر کیسے کِیا؟
۱۱ یسوع مسیح کی مستقلمزاج آدمی کی تمثیل دُعا کرنے والے شخص کے ایمان کو ظاہر کرتی ہے۔ اگلی تمثیل دُعا کے سننے والے یہوواہ خدا کے رُجحان کو نمایاں کرتی ہے۔ یسوع مسیح نے پوچھا: ”تُم میں سے ایسا کونسا باپ ہے کہ جب اُس کا بیٹا روٹی مانگے تو اُسے پتھر دے؟ یا مچھلی مانگے تو مچھلی کے بدلے اُسے سانپ دے؟ یا انڈا مانگے تو اُس کو بچھو دے؟“ اس کا اطلاق کرتے ہوئے یسوع مسیح مزید کہتا ہے: ”جب تُم بُرے ہوکر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو رُوحاُلقدس کیوں نہ دے گا؟“—لوقا ۱۱:۱۱-۱۳۔
۱۲. ایک باپ کی اپنے بیٹے کی بات سننے کی تمثیل یہوواہ خدا کے ہماری دُعائیں سننے کے لئے تیار رہنے کو کیسے ظاہر کرتی ہے؟
۱۲ یسوع مسیح نے تمثیل میں واضح کِیا کہ جیسے ایک باپ اپنے بیٹے کی درخواست سنتا ہے ویسے ہی یہوواہ خدا اُن لوگوں کی فکر رکھتا ہے جو اُس سے دُعا کرتے ہیں۔ (لوقا ۱۰:۲۲) ان دونوں تمثیلوں میں پائے جانے والے فرق پر غور کریں۔ پہلی تمثیل میں ایک ایسے شخص کا ذکر کِیا گیا جو مدد کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اس کے برعکس یہوواہ خدا ایک انسانی باپ کی طرح اپنے بچے کی خواہش پوری کرنے کا مشتاق ہے۔ (زبور ۵۰:۱۵) اس کے علاوہ، یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ اگر ایک ادنیٰ انسانی باپ مدد کرنے کے لئے تیار ہے تو یہوواہ جو نہایت عظیم ہے وہ اُس سے کہیں زیادہ مدد کرنے کو تیار ہے۔ وہ کہتا ہے، اگر ایک انسانی باپ آدم سے ورثے میں ملنے والے گُناہ کی وجہ سے ’بُرا‘ ہوکر بھی اپنے بیٹے کو اچھی چیز دیتا ہے تو ہم اپنے آسمانی باپ سے اس سے کہیں زیادہ کی توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے پرستاروں کو فیاض ہوتے ہوئے رُوحاُلقدس دے گا!—یعقوب ۱:۱۷۔
۱۳. یہوواہ خدا سے دُعا کرتے وقت ہم کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟
۱۳ ہمارے لئے کیا سبق ہے؟ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ جب ہم اپنے آسمانی باپ سے رُوحاُلقدس مانگتے ہیں تو وہ ہماری درخواست کا جواب دینے کے لئے تیار رہتا ہے۔ (۱-یوحنا ۵:۱۴) جب ہم باربار یہوواہ خدا سے دُعا کرتے ہیں تو وہ کبھی یہ نہیں کہے گا، ”مجھے تکلیف نہ دے۔ اب دروازہ بند ہے۔“ (لوقا ۱۱:۷) اس کے برعکس، یسوع مسیح نے بیان کِیا: ”مانگو تو تمہیں دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔“ (لوقا ۱۱:۹، ۱۰) جیہاں، یہوواہ خدا ”جس دن ہم پکاریں . . . ہمیں جواب“ دے گا۔—زبور ۲۰:۹؛ ۱۴۵:۱۸۔
۱۴. (ا) آزمائشوں کا سامنا کرنے والے بعض لوگ کونسی غلط سوچ سے پریشان ہوتے ہیں؟ (ب) آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت ہم یہوواہ خدا سے اعتماد کے ساتھ دُعا کیوں کر سکتے ہیں؟
۱۴ یسوع مسیح کی شفیق باپ کی تمثیل اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ یہوواہ خدا کسی بھی انسانی باپ سے زیادہ بھلائی دکھاتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں کبھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم پر آنے والی آزمائشیں یہوواہ خدا کی ناپسندیدگی کا اظہار ہیں۔ ہمارا دشمن شیطان چاہتا ہے کہ ہم ایسی سوچ رکھیں۔ (ایوب ۴:۱، ۷، ۸؛ یوحنا ۸:۴۴) خود کو بُرابھلا کہنے کی کوئی صحیفائی بنیاد نہیں ہے۔ یہوواہ خدا ہمیں ”بدی سے“ نہیں آزماتا۔ (یعقوب ۱:۱۳) وہ ہم پر سانپ یا بچھو جیسی آزمائشیں نہیں لاتا۔ ہمارا آسمانی باپ ”اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں“ دیتا ہے۔ (متی ۷:۱۱؛ لوقا ۱۱:۱۳) بِلاشُبہ، ہم جس قدر یہوواہ خدا کی بھلائی اور ہماری مدد کرنے کی رضامندی کے لئے قدردانی ظاہر کرتے ہیں اُسی قدر ہم اعتماد کے ساتھ اُس سے دُعا کریں گے۔ ایسا کرنے سے ہم زبورنویس جیسے جذبات کا اظہار کرنے کے قابل ہوں گے: ”خدا نے یقیناً سُن لیا ہے۔ اُس نے میری دُعا کی آواز پر کان لگایا ہے۔“—زبور ۱۰:۱۷؛ ۶۶:۱۹۔
رُوحاُلقدس کیسے ہماری مدد کرتی ہے؟
۱۵. (ا) یسوع مسیح نے رُوحاُلقدس کے بارے میں کیا وعدہ کِیا؟ (ب) رُوحاُلقدس کس طرح ہماری مدد کرتی ہے؟
۱۵ یسوع مسیح نے اپنی موت سے تھوڑا عرصہ پہلے اپنی تمثیلوں میں پیشکردہ یقیندہانی کو دُہرایا۔ اُس نے رُوحاُلقدس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے اپنے شاگردوں کو بتایا: ”مَیں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابدتک تمہارے ساتھ رہے۔“ (یوحنا ۱۴:۱۶) یسوع مسیح نے وعدہ کِیا کہ مددگار یا رُوحاُلقدس مستقبل میں اُس کے شاگردوں کے ساتھ رہے گی۔ آجکل رُوحاُلقدس کس خاص طریقے سے ہماری مدد کرتی ہے؟ رُوحاُلقدس مختلف آزمائشوں کا مقابلہ کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ مگر کیسے؟ اس سلسلے میں پولس رسول کی مثال پر غور کریں۔ اُسے بہت سی مشکلات کا سامنا ہوا۔ اُس نے کرنتھس کے مسیحیوں کے نام اپنے خط میں بیان کِیا کہ خدا کی رُوح نے کیسے اُس کی مدد کی۔ آئیے اُس کے الفاظ کا مختصراً جائزہ لیں۔
۱۶. ہماری صورتحال پولس رسول کی مانند کیسے ہو سکتی ہے؟
۱۶ سب سے پہلے پولس نے اپنے ہمایمان ساتھیوں کو بتایا کہ اُسے ’جسم میں کانٹے‘ یعنی کسی آزمائش کا سامنا ہے۔ اس کے بعد اُس نے کہا: ”اس کے بارے میں مَیں نے تین بار [یہوواہ] سے التماس کِیا کہ یہ مجھ سے دُور ہو جائے۔“ (۲-کرنتھیوں ۱۲:۷، ۸) اگرچہ پولس نے خدا سے مصیبت کو ختم کرنے کے لئے التجا کی توبھی اُس کی تکلیف ختم نہ ہوئی۔ شاید آپ کو بھی آجکل ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ پولس رسول کی طرح آپ نے بھی آزمائش کو ختم کرنے کے لئے یہوواہ خدا سے مستقلمزاجی اور اعتماد کے ساتھ دُعا کی ہو۔ تاہم، آپ کے باربار التجا کرنے کے باوجود آپ کی مشکل ابھی تک قائم ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ یہوواہ خدا ہماری دُعاؤں کا جواب نہیں دیتا اور اُس کی رُوح ہماری مدد نہیں کر رہی؟ ہرگز نہیں! (زبور ۱۰:۱، ۱۷) غور کریں کہ پولس رسول نے اس کے بعد کیا کہا۔
۱۷. یہوواہ خدا نے پولس رسول کی دُعا کا جواب کیسے دیا؟
۱۷ خدا نے پولس رسول کی دُعا کے جواب میں کہا: ”میرا فضل تیرے لئے کافی ہے کیونکہ میری قدرت کمزوری میں پوری ہوتی ہے۔“ اس کے بعد پولس رسول کہتا ہے: ”مَیں بڑی خوشی سے اپنی کمزوری پر فخر کروں گا تاکہ مسیح کی قدرت مجھ پر چھائی رہے۔“ (۲-کرنتھیوں ۱۲:۹؛ زبور ۱۴۷:۵) پولس رسول جانتا تھا کہ خدا کی اثرآفرین طاقت یسوع مسیح کے ذریعے ایک خیمہ کی مانند اُس پر تان دی گئی تھی۔ اسی طرح آجکل بھی یہوواہ خدا ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔ وہ اپنے خادموں کو ایک پناہگاہ کی طرح تحفظ فراہم کرتا ہے۔
۱۸. ہم آزمائشوں کو برداشت کرنے کے قابل کیوں ہیں؟
۱۸ اگرچہ ایک خیمہ بارش یا تیز ہوا کو نہیں روکتا توبھی یہ ان سے کسی حد تک تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح ”مسیح کی قدرت“ کے ذریعے حاصل ہونے والی پناہ ہماری مشکلات اور آزمائشوں کو نہیں روکتی۔ مگر یہ اس دُنیا کے نقصاندہ عناصر اور اس کے حاکم شیطان کے حملوں سے روحانی تحفظ فراہم کرتی ہے۔ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۵، ۱۶) لہٰذا، اگر آپ کسی آزمائش کا سامنا کر رہے ہیں جو آپ سے ’دُور نہیں ہوتی‘ تو آپ یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا آپ کی کوشش سے واقف ہے اور اُس نے آپ کی ”فریاد کی آواز“ کا جواب دیا ہے۔ (یسعیاہ ۳۰:۱۹؛ ۲-کرنتھیوں ۱:۳، ۴) پولس رسول نے لکھا: ”خدا سچا ہے۔ وہ تُم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمایش میں نہ پڑنے دے گا بلکہ آزمایش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کر دے گا تاکہ تُم برداشت کر سکو۔“—۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳؛ فلپیوں ۴:۶، ۷۔
۱۹. ہم کس بات کے لئے پُرعزم ہیں، اور کیوں؟
۱۹ واقعی، اس بےدین دُنیا کے ”اخیر زمانہ“ کو ’بُرے دنوں‘ کے طور پر بیان کِیا گیا ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱) تاہم، خدا کے خادموں کے لئے ان دنوں کا مقابلہ کرنا ممکن ہے۔ اسلئےکہ یہوواہ خدا مستقلمزاجی اور اعتماد کے ساتھ اس سے دُعا کرنے والوں کو رضامندی اور فیاضی سے رُوحاُلقدس کی مدد اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔ دُعا ہے کہ ہم ہر روز پُرعزم ہوکر رُوحاُلقدس کے لئے درخواست کرتے رہیں۔—زبور ۳۴:۶؛ ۱-یوحنا ۵:۱۴، ۱۵۔
آپ کیسے جواب دیں گے؟
• خدا کی رُوحاُلقدس حاصل کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
• ہم کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا رُوحاُلقدس کے لئے کی جانے والی ہماری دُعاؤں کا جواب دے گا؟
• رُوحاُلقدس آزمائشوں کا مقابلہ کرنے میں ہماری مدد کیسے کرتی ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
ہم یسوع مسیح کی مستقلمزاج شخص کی تمثیل سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
[صفحہ ۱۴ پر تصویر]
کیا آپ مستقلمزاجی سے خدا کی رُوحاُلقدس کے لئے دُعا کرتے ہیں؟
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
ہم ایک پُرمحبت باپ کی تمثیل سے یہوواہ خدا کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟