مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ خدا ”‏انصاف“‏ کرے گا

یہوواہ خدا ”‏انصاف“‏ کرے گا

یہوواہ خدا ”‏انصاف“‏ کرے گا

‏”‏کیا خدا اپنے برگزیدوں کا انصاف نہ کرے گا جو رات دن اُس سے فریاد کرتے ہیں؟‏“‏—‏لوقا ۱۸:‏۷‏۔‏

۱.‏ کون آپ کے لئے حوصلہ‌افزائی کا باعث ہیں،‏ اور کیوں؟‏

پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہ کئی سال سے وفاداری سے خدا کی خدمت کرنے والے اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کی رفاقت سے لطف اُٹھا رہے ہیں۔‏ کیا آپ ذاتی طور پر چند ایسے بہن‌بھائیوں کو جانتے ہیں؟‏ ہو سکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں کافی عرصے سے بپتسمہ‌یافتہ ایک عمررسیدہ بہن آئے جو شاید ہی کبھی عبادت سے غیرحاضر ہوئی ہو۔‏ یا پھر آپ کسی ایسے عمررسیدہ بھائی کے بارے میں سوچیں جو سالوں سے ہر ہفتے منادی کے کام میں شریک ہوتا ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ اِن وفادار اشخاص میں سے بیشتر نے سوچا ہوگا کہ اب تک تو ہرمجدون کو آ جانا چاہئے تھا۔‏ تاہم،‏ اِس بےانصاف دُنیا کی ابھی تک موجودگی یہوواہ خدا کے وعدوں پر اُن کے اعتماد اور ”‏آخر تک برداشت“‏ کرنے کے اُن کے عزم کو کمزور نہیں کر سکی۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۳‏)‏ یہوواہ خدا کے اِن وفادار خادموں کا ایسا مضبوط ایمان واقعی پوری کلیسیا کے لئے حوصلہ‌افزائی کا باعث ہے۔‏—‏زبور ۱۴۷:‏۱۱‏۔‏

۲.‏ کونسی صورتحال ہمیں افسردہ کر دیتی ہے؟‏

۲ تاہم،‏ بعض‌اوقات ہمیں ایک بالکل فرق رُجحان نظر آ سکتا ہے۔‏ اگرچہ بعض گواہ کئی سال تک منادی کرتے رہے توبھی آہستہ آہستہ یہوواہ خدا پر اُن کا ایمان کمزور پڑ گیا۔‏ آخرکار،‏ انہوں نے نہ صرف مسیحی کلیسیا کو بلکہ یہوواہ خدا کو بھی چھوڑ دیا۔‏ اُن کا یہ عمل ہمیں افسردہ کر دیتا ہے۔‏ ہم ہر ”‏کھوئی ہوئی بھیڑ“‏ کی گلّہ میں واپس آنے کے لئے مدد کرنا چاہتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۷۶؛‏ رومیوں ۱۵:‏۱‏)‏ تاہم،‏ بعض کے وفاداری سے خدا کی خدمت کرتے رہنے اور دیگر کے ایمان میں کمزور پڑ کر کلیسیا سے دُور چلے جانے کی وجہ سے چند سوال پیدا ہوتے ہیں۔‏ کیا چیز یہوواہ خدا کے بیشتر گواہوں کو اُس کے وعدوں پر ایمان رکھنے کے قابل بناتی ہے جبکہ دیگر کا ایمان کمزور پڑ جاتا ہے؟‏ ہم اپنے اِس اعتماد کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کا روزِعظیم“‏ قریب ہے؟‏ (‏صفنیاہ ۱:‏۱۴‏)‏ آئیے لوقا کی انجیل میں درج ایک تمثیل پر غور کریں۔‏

‏”‏ابنِ‌آدم“‏ کے آنے کے وقت موجودلوگوں کیلئے آگاہی

۳.‏ بیوہ اور قاضی کی تمثیل خاص طور پر کن کے لئے فائدہ‌مند ہے،‏ اور کیوں؟‏

۳ ہم لوقا کی انجیل کے ۱۸ باب میں بیوہ اور قاضی کے بارے میں یسوع مسیح کی تمثیل پڑھتے ہیں۔‏ یہ پچھلے مضمون میں درج مستقل‌مزاج شخص کی تمثیل سے ملتی‌جلتی ہے۔‏ (‏لوقا ۱۱:‏۵-‏۱۳‏)‏ تاہم،‏ بیوہ اور قاضی کی تمثیل کا سیاق‌وسباق ظاہر کرتا ہے کہ اس کا اطلاق خاص طور پر ”‏ابنِ‌آدم“‏ کے آنے یعنی ۱۹۱۴ میں بادشاہتی اختیار سنبھالنے کے وقت موجود لوگوں پر ہوتا ہے۔‏—‏لوقا ۱۸:‏۸‏۔‏ *

۴.‏ یسوع مسیح نے لوقا ۱۸ باب میں درج تمثیل سے پہلے کیا بیان کِیا؟‏

۴ یسوع مسیح نے بیوہ اور قاضی کی تمثیل سے پہلے بیان کِیا کہ ”‏جیسے بجلی آسمان کی ایک طرف سے کوند کر دوسری طرف چمکتی ہے“‏ اُسی طرح اس کا بادشاہتی اختیار حاصل کرنا سب پر واضح ہوگا۔‏ (‏لوقا ۱۷:‏۲۴؛‏ ۲۱:‏۱۰،‏ ۲۹-‏۳۳‏)‏ مگر ”‏آخری زمانہ“‏ میں رہنے والے بیشتر لوگ اِس واضح ثبوت پر دھیان نہیں دیں گے۔‏ (‏دانی‌ایل ۱۲:‏۴‏)‏ مگر کیوں؟‏ اس کی بھی وہی وجہ ہے جس کے باعث نوح اور لوط کے زمانے میں لوگوں نے یہوواہ خدا کی آگاہیوں کو نظرانداز کر دیا تھا۔‏ اُن کے زمانے میں لوگ کھانےپینے،‏ خریدوفروخت کرنے،‏ کاشتکاری کرنے اور گھر بنانے میں اِسقدر مصروف تھے کہ اُنہیں اُس دن کی خبر ہی نہ ہوئی اور خدا نے اُنہیں ہلاک کر دیا۔‏ (‏لوقا ۱۷:‏۲۶-‏۲۹؛‏ متی ۲۴:‏۳۹‏)‏ آجکل بھی عام طور پر لوگ روزمرّہ کے کاموں میں اتنے زیادہ مصروف ہیں کہ وہ اِس بےدین دُنیا پر آنے والے خاتمے کے ثبوت کو دیکھنے میں ناکام ہیں۔‏—‏لوقا ۱۷:‏۳۰‏۔‏

۵.‏ (‏ا)‏ یسوع مسیح نے کن لوگوں کو آگاہی دی،‏ اور کیوں؟‏ (‏ب)‏ بعض لوگوں کا ایمان کیوں کمزور پڑ گیا ہے؟‏

۵ صاف ظاہر ہے کہ یسوع مسیح اپنے شاگردوں کے لئے فکرمند تھا کہ وہ بھی شیطان کی دُنیا کی طرف راغب ہو کر ’‏پیچھے نہ لوٹ‘‏ جائیں۔‏ (‏لوقا ۱۷:‏۲۲،‏ ۳۱‏)‏ بعض مسیحیوں کے ساتھ ایسا ہوا بھی ہے۔‏ کئی سال تک اُنہوں نے شریر دُنیا کو تباہ‌وبرباد کرنے کے یہوواہ خدا کے دن کا انتظار کِیا۔‏ تاہم،‏ جب اُن کی توقع کے مطابق ہرمجدون نہیں آئی تو وہ بےحوصلہ ہو گئے۔‏ یہوواہ خدا کے عدالتی دن کے نزدیک ہونے کے بارے میں اُن کا اعتماد کمزور پڑ گیا۔‏ وہ منادی میں سُست پڑ گئے اور آہستہ آہستہ روزمرّہ کاموں میں اتنے زیادہ مصروف ہو گئے کہ روحانی کاموں کے لئے اُن کے پاس وقت ہی نہ رہا۔‏ (‏لوقا ۸:‏۱۱،‏ ۱۳،‏ ۱۴‏)‏ کسقدر افسوسناک بات ہے کہ آخرکار وہ ’‏پیچھے لوٹ‘‏ گئے!‏

‏”‏ہر وقت دُعا کرتے“‏ رہنے کی اہمیت

۶-‏۸ (‏ا)‏ بیوہ اور قاضی کی تمثیل بیان کریں۔‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح نے اِس تمثیل کا اطلاق کیسے کِیا؟‏

۶ ہم خدا کے وعدوں کی تکمیل پر اپنے اعتماد کو کمزور پڑنے سے بچانے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟‏ (‏عبرانیوں ۳:‏۱۴‏)‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو شیطان کی دُنیا میں واپس چلے جانے کے بارے میں آگاہ کرنے کے فوراً بعد اِس سوال پر بحث کی۔‏

۷ شاگرد لوقا بیان کرتا ہے کہ یسوع مسیح نے ”‏اِس غرض سے کہ ہر وقت دُعا کرتے رہنا اور ہمت نہ ہارنا چاہئے اُن سے یہ تمثیل کہی کہ۔‏ کسی شہر میں ایک قاضی تھا۔‏ نہ وہ خدا سے ڈرتا نہ آدمی کی کچھ پرواہ کرتا تھا۔‏ اور اُسی شہر میں ایک بیوہ تھی جو اُس کے پاس آ کر یہ کہا کرتی تھی کہ میرا انصاف کرکے مجھے مُدعی سے بچا۔‏ اُس نے کچھ عرصہ تک تو نہ چاہا لیکن آخر اُس نے اپنے جی میں کہا کہ گو مَیں نہ خدا سے ڈرتا اور نہ آدمیوں کی کچھ پرواہ کرتا ہوں۔‏ توبھی اس لئے کہ یہ بیوہ مجھے ستاتی ہے مَیں اس کا انصاف کروں گا۔‏ ایسا نہ ہو کہ یہ باربار آ کر آخر کو میرا ناک میں دم کرے۔‏“‏

۸ یسوع مسیح نے یہ تمثیل دینے کے بعد اِس کا اطلاق کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏سنو!‏ یہ بےانصاف قاضی کیا کہتا ہے۔‏ پس کیا خدا اپنے برگزیدوں کا انصاف نہ کرے گا جو رات دن اُس سے فریاد کرتے ہیں؟‏ اور کیا وہ ان کے بارے میں دیر کرے گا؟‏ مَیں تُم سے کہتا ہوں کہ وہ جلد اُن کا انصاف کرے گا۔‏ توبھی جب ابنِ‌آدم آئے گا تو کیا زمین پر ایمان پائے گا؟‏“‏—‏لوقا ۱۸:‏۱-‏۸‏۔‏

‏”‏میرا انصاف کر“‏

۹.‏ قاضی اور بیوہ کی تمثیل میں کس موضوع کو نمایاں کِیا گیا ہے؟‏

۹ اِس تمثیل کا مرکزی خیال اِس کے دونوں کرداروں اور یسوع مسیح کے الفاظ سے بالکل واضح ہے۔‏ بیوہ نے التجا کی:‏ ”‏میرا انصاف کر۔‏“‏ قاضی نے کہا:‏ ”‏مَیں اِس کا انصاف کروں گا۔‏“‏ یسوع مسیح نے پوچھا:‏ ”‏کیا خدا .‏ .‏ .‏ انصاف نہ کرے گا؟‏“‏ یہوواہ خدا کے بارے میں یسوع مسیح نے بیان کِیا:‏ ”‏وہ جلد اُن کا انصاف کرے گا۔‏“‏ (‏لوقا ۱۸:‏۳،‏ ۵،‏ ۷،‏ ۸‏)‏ خدا کب ”‏انصاف“‏ کرے گا؟‏

۱۰.‏ (‏ا)‏ پہلی صدی میں کب انصاف کِیا گیا؟‏ (‏ب)‏ ہمارے زمانے میں خدا کے خادموں کا انصاف کب اور کیسے کِیا جائے گا؟‏

۱۰ پہلی صدی میں ”‏انتقام کے دن“‏ ۷۰ عیسوی میں یروشلیم اور ہیکل کی بربادی کے وقت آئے۔‏ (‏لوقا ۲۱:‏۲۲‏)‏ ہمارے زمانے میں خدا کے لوگوں کا انصاف ’‏[‏یہوواہ]‏ کے روزِعظیم‘‏ پر کِیا جائے گا۔‏ (‏صفنیاہ ۱:‏۱۴؛‏ متی ۲۴:‏۲۱‏)‏ اُس وقت یہوواہ خدا اپنے لوگوں پر ’‏مصیبت لانے والوں پر مصیبت‘‏ لائے گا۔‏ کیونکہ اُس وقت ”‏خداوند یسوؔع .‏ .‏ .‏ جو خدا کو نہیں پہچانتے اور ہمارے خداوند یسوؔع کی خوشخبری کو نہیں مانتے اُن سے بدلہ لے گا۔‏“‏—‏۲-‏تھسلنیکیوں ۱:‏۶-‏۸؛‏ رومیوں ۱۲:‏۱۹‏۔‏

۱۱.‏ کس طرح ”‏جلد“‏ انصاف کِیا جائے گا؟‏

۱۱ تاہم،‏ ہمیں یہوواہ خدا کے ”‏جلد“‏ انصاف کرنے کے بارے میں یسوع مسیح کی یقین‌دہانی کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏ خدا کا کلام ظاہر کرتا ہے کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ تحمل کرتا ہے“‏ مگر وہ جلد اپنے مقررہ وقت پر انصاف کرے گا۔‏ (‏لوقا ۱۸:‏۷،‏ ۸؛‏ ۲-‏پطرس ۳:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ نوح کے زمانے میں جب طوفان آیا تو شریر بِلاتاخیر ختم ہو گئے تھے۔‏ اِسی طرح لوط کے زمانے میں جب آسمان سے آگ نازل ہوئی تو شریر نیست‌ونابود ہو گئے۔‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏ابنِ‌آدم کے ظاہر ہونے کے دن بھی ایسا ہی ہوگا۔‏“‏ (‏لوقا ۱۷:‏۲۷-‏۳۰‏)‏ ایک بار پھر شریر ”‏ناگہاں ہلاکت“‏ کا سامنا کریں گے۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۲،‏ ۳‏)‏ بِلاشُبہ،‏ ہم پورا اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ جب یہوواہ خدا انصاف کرے گا تو وہ اِس شیطانی نظام کو ایک پل بھی نہیں رہنے دے گا۔‏

وہ ”‏انصاف“‏ کرے گا

۱۲،‏ ۱۳.‏ (‏ا)‏ بیوہ اور قاضی کے بارے میں یسوع مسیح کی تمثیل سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہم یہ یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہماری دُعائیں سنے گا اور ہمارا انصاف کرے گا؟‏

۱۲ بیوہ اور قاضی کے بارے میں یسوع مسیح کی تمثیل مزید اہم سچائیوں پر روشنی ڈالتی ہے۔‏ یسوع مسیح نے اِس تمثیل کا اطلاق کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏سنو!‏ یہ بےانصاف قاضی کیا کہتا ہے۔‏ پس کیا خدا اپنے برگزیدوں کا انصاف نہ کرے گا؟‏“‏ یسوع مسیح یہوواہ خدا کا موازنہ قاضی کے ساتھ کرتے ہوئے یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ وہ ایماندار لوگوں کے ساتھ قاضی کی طرح پیش آئے گا۔‏ اس کی بجائے یسوع مسیح خدا اور قاضی کے مابین فرق کو واضح کرتے ہوئے اپنے شاگردوں کو یہوواہ خدا کے بارے میں تعلیم دے رہا تھا۔‏ کس لحاظ سے وہ ایک دوسرے سے فرق ہو سکتے ہیں؟‏

۱۳ یسوع مسیح کی تمثیل میں قاضی ”‏بےانصاف“‏ تھا مگر ”‏خدا صادق منصف ہے۔‏“‏ (‏زبور ۷:‏۱۱؛‏ ۳۳:‏۵‏)‏ قاضی کو بیوہ کی کوئی فکر نہ تھی جبکہ یہوواہ خدا ہر شخص کی فکر رکھتا ہے۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۶:‏۲۹،‏ ۳۰‏)‏ قاضی بیوہ کی مدد نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن یہوواہ خدا اُن لوگوں کی مدد کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہے جو اُس کی خدمت کرتے ہیں۔‏ (‏یسعیاہ ۳۰:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ اِس سے ہم کیا سبق سیکھتے ہیں؟‏ اگر بےانصاف قاضی نے بیوہ کی درخواست سن کر اُس کا انصاف کِیا تو یہوواہ خدا اُس سے کہیں زیادہ اپنے لوگوں کی دُعائیں سنتا اور اُن کا انصاف کرتا ہے!‏—‏امثال ۱۵:‏۲۹‏۔‏

۱۴.‏ ہمیں خدا کے عدالتی دن کے آنے پر اپنے ایمان کو کمزور کیوں نہیں پڑنے دینا چاہئے؟‏

۱۴ خدا کے عدالتی دن کے آنے پر ایمان نہ رکھنے والے لوگ بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔‏ کیوں؟‏ اِسلئےکہ ’‏یہوواہ کے روزِعظیم‘‏ کی نزدیکی پر مضبوط ایمان نہ رکھنے سے وہ یہوواہ خدا کی اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی صلاحیت پر شک ظاہر کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ کوئی بھی خدا کو اپنے وعدوں کو پورا کرنے سے روک نہیں سکتا۔‏ (‏ایوب ۹:‏۱۲‏)‏ اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا ہم وفادار رہیں گے؟‏ یسوع مسیح نے بیوہ اور قاضی کی تمثیل کے آخر میں یہی سوال اُٹھایا تھا۔‏

کیا وہ ”‏زمین پر ایمان پائے گا؟‏“‏

۱۵.‏ (‏ا)‏ یسوع مسیح نے کونسا سوال اُٹھایا،‏ اور کیوں؟‏ (‏ب)‏ ہمیں خود سے کونسا سوال پوچھنا چاہئے؟‏

۱۵ یسوع مسیح نے یہ دلچسپ سوال پوچھا:‏ ”‏جب ابنِ‌آدم آئے گا تو کیا زمین پر ایمان پائے گا؟‏“‏ (‏لوقا ۱۸:‏۸‏)‏ یسوع مسیح نے اِس سوال کا جواب نہیں دیا تھا۔‏ تاہم،‏ اِس آیت میں استعمال ہونے والا لفظ ”‏ایمان“‏ ظاہر کرتا ہے کہ یسوع مسیح عام ایمان کی بجائے ایک خاص قسم کے ایمان کی بات کر رہا تھا۔‏ یہ بالکل ویسا ہی ایمان تھا جیسا بیوہ نے ظاہر کِیا۔‏ اُس نے یہ سوال اس لئے اُٹھایا تھا تاکہ اُس کے شاگرد اپنے ایمان کے بارے میں سوچیں۔‏ کیا اُن کا ایمان آہستہ آہستہ اتنا کمزور ہو رہا تھا کہ وہ اُن چیزوں اور باتوں کی طرف واپس لوٹنے کے خطرے میں تھے جنہیں وہ چھوڑ چکے تھے؟‏ یا وہ بیوہ جیسا ایمان رکھتے تھے؟‏ آجکل ہمیں بھی خود سے پوچھنا چاہئے کہ ”‏ابنِ‌آدم“‏ ’‏میرے دل میں کیسا ایمان پائے گا؟‏‘‏

۱۶.‏ بیوہ کیسا ایمان رکھتی تھی؟‏

۱۶ یہوواہ خدا سے انصاف حاصل کرنے والوں میں شامل ہونے کے لئے ہمیں بیوہ کے نمونے کی نقل کرنی چاہئے۔‏ وہ کیسا ایمان رکھتی تھی؟‏ اُس کا ایمان اِس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ باربار قاضی کے ”‏پاس آ کر یہ کہا کرتی تھی کہ میرا انصاف کر۔‏“‏ اگر ایک بیوہ انصاف حاصل کرنے کے لئے ایک بےانصاف شخص کے پاس باربار جا سکتی تھی تو آجکل خدا کے خادم بھی یہ اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا ضرور اُن کا انصاف کرے گا۔‏ خواہ اِس میں ہماری توقع سے زیادہ وقت کیوں نہ لگ جائے۔‏ اس کے علاوہ،‏ وہ باقاعدگی سے یہوواہ خدا سے دُعا کرنے یعنی ”‏رات دن اُس سے فریاد“‏ کرنے سے اُس کے وعدوں پر اعتماد ظاہر کرتے ہیں۔‏ (‏لوقا ۱۸:‏۷‏)‏ تاہم،‏ جب ایک مسیحی انصاف کے لئے دُعا کرنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ یہ ظاہر کرے گا کہ اُسے یہوواہ خدا کے اپنے خادموں کے لئے جلد کارروائی کرنے پر اعتماد نہیں رہا۔‏

۱۷.‏ ہمیں کن وجوہات کی بِنا پر دُعا کرنے میں مشغول رہنا اور یہوواہ خدا کے عدالتی دن کے آنے پر ایمان رکھنا چاہئے؟‏

۱۷ بیوہ کے حالات ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے پاس دُعا میں مشغول رہنے کی اَور بھی بہت سی وجوہات ہیں۔‏ غور کیجئے کہ اُس کی اور ہماری صورتحال کس لحاظ سے فرق ہے۔‏ اگرچہ کسی نے بھی بیوہ کی قاضی کے پاس جانے کے لئے حوصلہ‌افزائی نہیں کی تھی توبھی وہ اُس کے پاس جاتی رہی۔‏ لیکن آجکل خدا کا کلام ”‏دُعا کرنے میں مشغول“‏ رہنے کے لئے ہماری حوصلہ‌افزائی کرتا ہے۔‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۲‏)‏ بیوہ کو اِس بات کا یقین نہیں تھا کہ اُس کی درخواست قبول کی جائے گی جبکہ یہوواہ خدا ہمیں یقین دلاتا ہے کہ وہ انصاف کرے گا۔‏ اپنے نبی کی معرفت اُس نے فرمایا:‏ ”‏اگرچہ اِس میں دیر ہو تو بھی اِس کا منتظر رہ کیونکہ یہ یقیناً وقوع میں آئے گی۔‏ تاخیر نہ کرے گی۔‏“‏ (‏حبقوق ۲:‏۳؛‏ زبور ۹۷:‏۱۰‏)‏ بیوہ کی شفاعت یا سفارش کرنے والا کوئی نہیں تھا۔‏ لیکن ہمارے پاس ایک مددگار یسوع مسیح موجود ہے جو ”‏خدا کی دہنی طرف ہے اور ہماری شفاعت بھی کرتا ہے۔‏“‏ (‏رومیوں ۸:‏۳۴؛‏ عبرانیوں ۷:‏۲۵‏)‏ پس،‏ اگر بیوہ مشکلات کے باوجود قاضی کے پاس اِس اُمید پر باربار جاکر درخواست کرتی رہی کہ وہ اُس کا انصاف کرے گا توپھر کیا ہمیں یہوواہ کے عدالتی دن کے آنے پر اُس سے کہیں زیادہ ایمان نہیں رکھنا چاہئے!‏

۱۸.‏ دُعا ہمارے ایمان کو مضبوط کرنے اور انصاف حاصل کرنے میں کیسے ہماری مدد کرے گی؟‏

۱۸ بیوہ کی تمثیل سے ہم سیکھتے ہیں کہ دُعا اور ایمان میں بہت گہرا تعلق ہے۔‏ ہماری باقاعدہ دُعائیں ہمارے ایمان کو کمزور کرنے والے اثرات کو ختم کر سکتی ہیں۔‏ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دکھاوے کے لئے کی جانے والی دُعائیں ہمارے ایمان کو کمزور نہیں کریں گی۔‏ (‏متی ۶:‏۷،‏ ۸‏)‏ جب ہم اِس یقین کے ساتھ دُعا کرتے ہیں کہ صرف خدا ہی ہماری ضروریات پوری کر سکتا ہے تو ہماری دُعائیں ہمیں خدا کے قریب لیجاتی اور ہمارے ایمان کو مضبوط کرتی ہیں۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ ایمان ہماری نجات کے لئے ضروری ہے اس لئے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ ”‏ہر وقت دُعا کرتے رہنا اور ہمت نہ ہارنا۔‏“‏ (‏لوقا ۱۸:‏۱؛‏ ۲-‏تھسلنیکیوں ۳:‏۱۳‏)‏ سچ ہے کہ ’‏[‏یہوواہ]‏ کے روزِعظیم‘‏ کا آنا ہماری دُعاؤں پر منحصر نہیں ہے۔‏ یہ اپنے وقت پر آئے گا خواہ ہم اِس کے لئے دُعا کریں یا نہ کریں۔‏ لیکن ہمارے انصاف حاصل کرنے اور خدا کے روزِعظیم کی لڑائی سے بچنے کا انحصار ہمارے ایمان رکھنے اور دُعا کے ساتھ ساتھ راست روش پر چلتے رہنے پر ہے۔‏

۱۹.‏ ہم کیسے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم یہ پُختہ ایمان رکھتے ہیں کہ خدا ”‏انصاف“‏ کریگا؟‏

۱۹ پس یسوع مسیح کے اِس سوال کا جواب کیا ہے کہ ”‏جب ابنِ‌آدم آئے گا تو کیا زمین پر ایمان پائے گا؟‏“‏ ہم کتنے خوش ہیں کہ پوری دُنیا میں یہوواہ کے لاکھوں لاکھ خادم اپنی دُعا،‏ برداشت اور مستقل‌مزاجی سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ایمان رکھتے ہیں!‏ یوں یسوع مسیح کے سوال کا مثبت جواب دیا جا سکتا ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ شیطان کی دُنیا میں بےانصافی کا سامنا کرنے کے باوجود ہم پُختہ ایمان رکھتے ہیں کہ خدا ”‏اپنے برگزیدوں کا انصاف .‏ .‏ .‏ کرے گا۔‏“‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 اس تمثیل کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے براہِ‌مہربانی لوقا ۱۷:‏۲۲-‏۳۳ کو پڑھیں۔‏ غور کریں کہ لوقا ۱۷:‏۲۲،‏ ۲۴،‏ ۳۰ میں ”‏ابنِ‌آدم“‏ کا ذکر لوقا ۱۸:‏۸ میں اُٹھائے گئے سوال کا جواب دینے میں کیسے ہماری مدد کرتا ہے۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• بعض مسیحیوں کا ایمان کمزور کیوں پڑ گیا ہے؟‏

‏• ہم یہوواہ خدا کے عدالتی دن کے آنے پر ایمان کیوں رکھ سکتے ہیں؟‏

‏• ہمارے پاس دُعا کرنے میں مشغول رہنے کی کونسی وجوہات ہیں؟‏

‏• دُعا کرنے میں مشغول رہنا ہمارے ایمان کو کمزور پڑنے سے کیسے بچائے گا؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

بیوہ اور قاضی کی تمثیل سے کس بات کو نمایاں کِیا گیا؟‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویریں]‏

آجکل لاکھوں لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا ”‏انصاف“‏ کرے گا