’یہوواہ کا روزِعظیم قریب ہے‘
’یہوواہ کا روزِعظیم قریب ہے‘
”[یہوواہ] کا روزِعظیم قریب ہے ہاں وہ نزدیک آ گیا۔ وہ آ پہنچا!“—صفنیاہ ۱:۱۴۔
۱، ۲. (ا) مسیحی کس خاص دن کے منتظر ہیں؟ (ب) ہمیں خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں، اور کیوں؟
ایک لڑکی بڑی بیتابی سے اپنی شادی کے دن کا انتظار کرتی ہے۔ ایک حاملہ عورت بڑی بےچینی سے اپنے بچے کی پیدائش کی منتظر ہوتی ہے۔ ایک مزدور اپنی چھٹیاں شروع ہونے کا خواہشمند ہوتا ہے جن کا وہ کافی عرصے سے انتظار کر رہا ہے۔ ان سب میں کونسی بات مشترک ہے؟ یہ تمام اشخاص اپنی زندگی میں آنے والے ایک خاص اور خوشکُن دن کے منتظر ہیں۔ اگرچہ ان سب کے جذباتواحساسات بہت گہرے ہیں مگر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ آخرکار وہ دن جس کے وہ منتظر ہیں آ جاتا ہے۔ لہٰذا، ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس دن کے لئے تیار ہوں۔
۲ اسی طرح آجکل سچے مسیحی بھی ایک خاص دن کے منتظر ہیں۔ یہ ’یہوواہ کا دن‘ ہے۔ (یسعیاہ ۱۳:۹؛ یوایل ۲:۱؛ ۲-پطرس ۳:۱۲) ’یہوواہ کا دن‘ کیا ہے اور اس کا آنا انسانوں پر کیسے اثرانداز ہوگا؟ اس کے علاوہ، ہم اُس دن کے لئے کیسے تیار رہ سکتے ہیں؟ ہمارے لئے اس وقت ان سوالات کے جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ اِسلئےکہ حالات بائبل کے ان الفاظ کی صداقت کو ظاہر کرتے ہیں: ”[یہوواہ] کا روزِعظیم قریب ہے ہاں وہ نزدیک آ گیا۔ وہ آ پہنچا!“—صفنیاہ ۱:۱۴۔
’یہوواہ کا روزِعظیم‘
۳. ”[یہوواہ] کا روزِعظیم“ کیا ہے؟
۳ ”[یہوواہ] کا روزِعظیم“ کیا ہے؟ پاک صحائف میں ’یہوواہ کا دن‘ اُن خاص موقعوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جب یہوواہ خدا نے اپنے دشمنوں کے خلاف کارروائی کی اور اپنے عظیم نام کو جلال بخشا۔ یہوداہ اور یروشلیم کے بےوفا لوگوں اور بابل اور مصر کے باشندوں کو اُن مواقع پر ’یہوواہ کے دن‘ کا سامنا کرنا پڑ۱ جب یہوواہ خدا نے اُن کی عدالت کی اور اُنہیں سزا دی۔ (یسعیاہ ۲:۱، ۱۰-۱۲؛ ۱۳:۱-۶؛ یرمیاہ ۴۶:۷-۱۰) تاہم، ”[یہوواہ] کا روزِعظیم“ ابھی تک نہیں آیا۔ اُس ”دن“ یہوواہ خدا اُس کے نام کے لئے رسوائی کا باعث بننے والے لوگوں کی عدالت کرے گا۔ اس دن کا آغاز ’بڑے شہر بابل‘ یعنی جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت کی تباہی کے ساتھ ہوگا اور اس کا اختتام ہرمجدون کی جنگ پر تمام شریر نظام کی تباہی کے ساتھ ہوگا۔—مکاشفہ ۱۶:۱۴، ۱۶؛ ۱۷:۵، ۱۵-۱۷؛ ۱۹:۱۱-۲۱۔
۴. بیشتر لوگوں کو یہوواہ خدا کے تیزی سے قریب آنے والے دن سے کیوں خوفزدہ ہونا چاہئے؟
۴ اس سے قطعنظر کہ انسان اسے سمجھتے ہیں یا نہیں، بیشتر لوگوں کو اس تیزی سے قریب آنے والے دن سے خوفزدہ ہونا چاہئے۔ مگر کیوں؟ یہوواہ خدا صفنیاہ نبی کے ذریعے اس سوال کا جواب دیتا ہے: ”وہ دن قہر کا صفنیاہ ۱:۱۵، ۱۷۔
دن ہے۔ دُکھ اور رنج کا دن۔ ویرانی اور خرابی کا دن۔ تاریکی اور اُداسی کا دن۔ ابر اور تیرگی کا دن۔“ یہ دن واقعی خوفزدہ کر دینے والا ہے! نبی نے مزید بیان کِیا: ”مَیں بنیآدم پر مصیبت لاؤں گا . . . کیونکہ وہ [یہوواہ] کے گنہگار ہوئے۔“—۵. لاکھوں لوگ یہوواہ کے دن کے سلسلے میں کونسا نظریہ رکھتے ہیں، اور کیوں؟
۵ لاکھوں لوگ بڑی بےچینی سے یہوواہ خدا کے دن کے منتظر ہیں۔ مگر کیوں؟ اِسلئےکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ راستبازوں کی نجات اور مخلصی کا دن ہے۔ ایک ایسا دن جس میں یہوواہ خدا اور اس کے نام کو جلال ملے گا۔ (یوایل ۳:۱۶، ۱۷؛ صفنیاہ ۳:۱۲-۱۷) لوگ اُس دن سے خوفزدہ ہوں گے یا بےچینی سے اُس کے منتظر رہیں گے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اب اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ آپ اُس دن کے آنے کو کیسا خیال کرتے ہیں؟ کیا آپ اس کے لئے تیار ہیں؟ کیا یہوواہ کے دن کا قریب ہونا اس وقت آپ کی روزمرّہ زندگی کو متاثر کرتا ہے؟
”ہنسیٹھٹھا کرنے والے آئیں گے“
۶. بہتیرے لوگ ’یہوواہ کے دن‘ کو کیسا خیال کرتے ہیں، اور سچے مسیحی اس بات سے حیران کیوں نہیں ہوتے؟
۶ صورتحال کی اہمیت کو سمجھنے کی بجائے، دُنیا میں بیشتر لوگ ’یہوواہ کے دن‘ کی نزدیکی کی بابت بالکل فکرمند نہیں ہیں۔ وہ اس دن کی بابت آگاہی دینے والے لوگوں کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ مگر سچے مسیحی اس سے حیران نہیں ہوتے۔ وہ پطرس رسول کی اس آگاہی کو یاد رکھتے ہیں: ”یہ پہلے جان لو کہ اخیر دنوں میں ایسے ہنسیٹھٹھا کرنے والے آئیں گے جو اپنی خواہشوں کے موافق چلیں گے۔ اور کہیں گے کہ اُس کے آنے کا وعدہ کہاں گیا؟ کیونکہ جب سے باپدادا سوئے ہیں اُس وقت سے اب تک سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا خلقت کے شروع سے تھا۔“—۲-پطرس ۳:۳، ۴۔
۷. کونسی چیز فوری کارروائی کرنے کی ضرورت کو سمجھنے میں ہماری مدد کرے گی؟
۷ کونسی چیز ایسی غلط سوچ کا مقابلہ کرنے اور فوری کارروائی کرنے کی ضرورت کو سمجھنے میں مدد دے گی؟ پطرس رسول نے بیان کِیا: ”مَیں . . . یاددہانی کے طور پر . . . تمہارے صاف دلوں کو اُبھارتا ہوں۔ کہ تُم اُن باتوں کو جو پاک نبیوں نے پیشتر کہیں اور خداوند اور مُنجی کے اُس حکم کو یاد رکھو جو تمہارے رسولوں کی معرفت آیا تھا۔“ (۲-پطرس ۳:۱، ۲) نبوّتی آگاہیوں پر دھیان دینا ہمارے ’صاف دلوں کو اُبھارنے‘ میں مدد دے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ہم نے بارہا ان یاددہانیوں کو سنا ہو لیکن اب ان آگاہیوں پر دھیان دینا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔—یسعیاہ ۳۴:۱-۴؛ لوقا ۲۱:۳۴-۳۶۔
۸. زیادہتر لوگ بائبل کی یاددہانیوں کو کیوں نظرانداز کر دیتے ہیں؟
۸ بعض لوگ ان یاددہانیوں کو کیوں نظرانداز کر دیتے ہیں؟ پطرس رسول مزید بیان کرتا ہے: ”وہ تو جانبُوجھ کر یہ بھول گئے کہ خدا کے کلام کے ذریعہ سے آسمان قدیم سے موجود ہیں اور زمین پانی میں سے بنی اور پانی میں قائم ہے۔ اِن ہی کے ذریعہ سے اُس وقت کی دُنیا ڈوب کر ہلاک ہوئی۔“ (۲-پطرس ۳:۵، ۶) واقعی، ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ یہوواہ کا دن آئے۔ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی اُن کی روزمرّہ زندگی میں کسی طرح کی مداخلت کرے۔ وہ اپنی خودغرضانہ طرزِزندگی کے لئے یہوواہ خدا کو جواب دینا نہیں چاہتے۔ جیساکہ پطرس رسول نے بیان کِیا، وہ ”اپنی خواہشوں کے موافق“ زندگی بسر کرتے ہیں۔
۹. نوح اور لوط کے دنوں میں لوگوں نے کیسا رُجحان دکھایا تھا؟
۹ ٹھٹھاباز لوگ ”اپنی خواہشوں“ کی وجہ سے جانبوجھ کر اس بات کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ ماضی میں یہوواہ خدا نے انسانی معاملات میں مداخلت کی تھی۔ یسوع مسیح اور پطرس رسول نے ایسے ہی دو واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ”نوح کے دنوں“ اور ”لوط کے دنوں“ کا حوالہ دیا۔ (لوقا ۱۷:۲۶-۳۰؛ ۲-پطرس ۲:۵-۹) طوفان سے پہلے لوگوں نے نوح کی آگاہی پر کوئی دھیان نہ دیا۔ اسی طرح سدوم اور عمورہ کی تباہی سے پہلے لوط ”اپنے دامادوں کی نظر میں مضحک سا معلوم ہوا۔“—پیدایش ۱۹:۱۴۔
۱۰. آگاہیوں پر دھیان نہ دینے والے لوگوں کے لئے یہوواہ خدا کا ردِعمل کیسا ہے؟
۱۰ آجکل بھی لوگ نوح اور لوط کے دنوں جیسے ہیں۔ تاہم، آگاہیوں پر دھیان نہ دینے والے لوگوں کے لئے یہوواہ خدا کے ردِعمل پر غور کریں۔ وہ فرماتا ہے: ”جتنے اپنی تلچھٹ پر جم گئے ہیں اور دل میں کہتے ہیں کہ [یہوواہ] سزاوجزا نہ دے گا اُن کو سزا دوں گا۔ تب اُن کا مال لٹ جائے گا اور اُن کے گھر اُجڑ جائیں گے۔ وہ گھر تو بنائیں گے پر اُن میں بودوباش نہ کریں گے اور تاکستان لگائیں گے پر اُن کی مے نہ پئیں گے۔“ (صفنیاہ ۱:۱۲، ۱۳) لوگ اپنے ”معمول“ کے کاموں یعنی روزمرّہ کاموں میں مصروف تو ہوں گے لیکن انہیں اُن کی محنت سے کوئی دائمی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ مگر کیوں؟ اسلئےکہ یہوواہ خدا کا دن اچانک آ جائے گا اور اُن کا مالودولت اُنہیں بچا نہیں سکے گا۔—صفنیاہ ۱:۱۸۔
”اس کا منتظر رہ“
۱۱. ہمیں کس آگاہی کو ذہن میں رکھنا چاہئے؟
۱۱ اپنے اردگرد کی شریر دُنیا کے برعکس ہمیں حبقوق نبی کی اس آگاہی کو ذہن میں رکھنا چاہئے: ”یہ رویا ایک مقررہ وقت کے لئے ہے۔ یہ جلد وقوع میں آئے گی اور خطا نہ کرے گی۔ اگرچہ اس میں دیر ہو توبھی اس کا منتظر رہ کیونکہ یہ یقیناً وقوع میں آئے گی۔ تاخیر نہ کرے گی۔“ (حبقوق ۲:۳) اگرچہ انسانی نقطۂنظر سے اس دن کے آنے میں دیر معلوم ہو توبھی ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ خدا دیر نہیں کرتا۔ جب انسان توقع بھی نہ کر رہے ہوں گے تو اس کا دن مقررہ وقت پر آ جائے گا۔—مرقس ۱۳:۳۳؛ ۲-پطرس ۳:۹، ۱۰۔
۱۲. یسوع مسیح نے کس بات سے آگاہ کِیا، اور اس آگاہی کے برعکس اُس کے وفادار شاگرد کیا کر رہے ہیں؟
۱۲ یہوواہ خدا کے دن کے منتظر رہنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے یسوع مسیح نے آگاہ کِیا کہ اس کے بعض شاگرد بھی فوری کارروائی کرنے کی ضرورت کو سمجھ نہیں پائیں گے۔ اُس نے انہیں بتایا: ”اگر متی ۲۴:۴۸-۵۱) اس کے برعکس، عقلمند اور دیانتدار نوکر جماعت فوری کارروائی کرنے کی ضرورت کو سمجھتی ہے۔ نوکر جماعت نے خود کو ہر وقت جاگتے اور تیار ثابت کِیا ہے۔ اِس لئے یسوع مسیح نے اسے زمین پر ”اپنے سارے مال کا مختار“ مقرر کِیا ہے۔—متی ۲۴:۴۲-۴۷۔
وہ خراب نوکر اپنے دل میں یہ کہہ کر کہ میرے مالک کے آنے میں دیر ہے۔ اپنے ہمخدمتوں کو مارنا شروع کرے اور شرابیوں کے ساتھ کھائے پئے۔ تو اُس نوکر کا مالک اَیسے دن کہ وہ اُس کی راہ نہ دیکھتا ہو اور اَیسی گھڑی کہ وہ نہ جانتا ہو آ موجود ہوگا۔ اور خوب کوڑے“ لگائے گا۔ (فوری کارروائی کرنے کی ضرورت
۱۳. یسوع مسیح نے فوری کارروائی کرنے کی ضرورت کو کیسے نمایاں کِیا؟
۱۳ پہلی صدی کے مسیحیوں کے لئے فوری کارروائی کرنے کی اہمیت کو سمجھنا بہت ضروری تھا۔ اُنہیں ”یروشلیم کو فوجوں سے گھرا ہوا“ دیکھ کر فوری طور پر وہاں سے بھاگ جانے کی ضرورت تھی۔ (لوقا ۲۱:۲۰، ۲۱) یہ ۶۶ عیسوی میں واقع ہوا۔ غور کریں کہ یسوع مسیح نے فوری کارروائی کرنے کی ضرورت کو کیسے نمایاں کِیا: ”جو کوٹھے پر ہو وہ اپنے گھر کا اسباب لینے کو نیچے نہ اُترے۔ اور جو کھیت میں ہو وہ اپنا کپڑا لینے کو پیچھے نہ لوٹے۔“ (متی ۲۴:۱۷، ۱۸) تاریخی حقائق کے مطابق رومی فوجوں نے ۶۶ عیسوی میں یروشلیم کا محاصرہ کِیا لیکن پھر اچانک چار سال کے لئے چلے گئے۔ ایسے میں مسیحیوں کو یسوع مسیح کے الفاظ پر دھیان دینے کی ضرورت کیوں تھی؟
۱۴، ۱۵. پہلی صدی کے مسیحیوں کے لئے یروشلیم کو فوجوں سے گھرا ہوا دیکھ کر فوری کارروائی کرنا ضروری کیوں تھا؟
۱۴ رومی فوج نے یروشلیم کو ۷۰ عیسوی میں تباہ کِیا تھا۔ لیکن ۶۶ عیسوی سے ۷۰ عیسوی تک کا درمیانی عرصہ یعنی چار سال مشکلات سے پُر تھے۔ اس عرصے میں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اُن کا خون بہایا گیا۔ ایک مؤرخ کے مطابق، اُس وقت کے دوران یروشلیم میں ”خونریز خانہجنگی اور ہولناک مظالم“ ہو رہے تھے۔ جوانوں کو فصیلوں کی حفاظت کرنے اور ہتھیار اُٹھانے کے لئے فوج میں بھرتی کِیا جا رہا تھا۔ وہ ہر روز فوجی مشقوں میں حصہ لیتے تھے۔ ان اقدامات کی تائید نہ کرنے والے لوگوں کو غدار خیال کِیا جاتا تھا۔ اگر مسیحی ان حالات میں شہر میں رہتے تو وہ بہت خطرناک صورتحال میں پڑ جاتے۔—متی ۲۶:۵۲؛ مرقس ۱۲:۱۷۔
۱۵ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ یسوع مسیح نے نہ صرف یروشلیم سے بلکہ ”جو یہودیہ میں ہوں“ اُن کو بھی بھاگ جانے کے لئے کہا تھا۔ یہ بہت اہم تھا کیونکہ رومی فوجوں نے یروشلیم سے پسپائی اختیار کرنے کے چند مہینے بعد پھر سے جنگی کارروائیاں شروع کر دی تھیں۔ پہلے تو گلیل کو ۶۷ عیسوی میں زیر کِیا گیا اور اس کے اگلے سال یہودیہ کو بھی رفتہ رفتہ فتح کر لیا گیا۔ اس کے نتیجے میں پورے مُلک میں بڑی مصیبت برپا ہوئی۔ کسی بھی یہودی کے لئے یروشلیم سے بچکر نکلنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ شہر کے پھاٹکوں پر پہرے لگا دئے گئے تھے اور جو کوئی بھاگنے کی کوشش کرتا اس کے بارے میں یہ خیال کِیا جاتا کہ وہ یہودیوں کو چھوڑ کر رومیوں کے پاس جا رہا ہے۔
۱۶. پہلی صدی کے مسیحیوں کو مصیبت سے بچنے کے لئے کس قسم کا رُجحان ظاہر کرنے کی ضرورت تھی؟
۱۶ ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یسوع مسیح نے فوری کارروائی کرنے کی ضرورت پر کیوں زور دیا تھا۔ مسیحیوں کو اپنے مالودولت کی وجہ سے غلط راستے پر جانے کی بجائے قربانیاں دینے کے لئے تیار رہنا تھا۔ اُنہیں یسوع مسیح کی بات مانتے ہوئے ”اپنا سب کچھ ترک“ کر دینا تھا۔ (لوقا ۱۴:۳۳) یسوع مسیح کی بات پر عمل کرتے ہوئے یردن کے پار بھاگ جانے والے لوگ بچ گئے۔
فوری کارروائی کرنے کے لئے تیار رہیں
۱۷. ہمیں فوری کارروائی کرنے کی ضرورت کو کیوں سمجھنا چاہئے؟
۱۷ بائبل کی پیشینگوئیاں صاف ظاہر کرتی ہیں کہ ہم خاتمہ کے بالکل قریب رہ رہے ہیں۔ اس لئے ہمیں اب پہلے سے کہیں زیادہ فوری کارروائی کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ایک سپاہی امن کے دَور میں لوقا ۲۱:۳۶؛ ۱-تھسلنیکیوں ۵:۴) اگر کوئی شخص ’یہوواہ خدا سے برگشتہ ہو گیا ہے‘ تو اُس کے لئے خدا کے طالب ہونے کا وقت اب ہے۔—صفنیاہ ۱:۳-۶؛ ۲-تھسلنیکیوں ۱:۸، ۹۔
کسی قسم کی پریشانی یا خطرہ محسوس نہیں کرتا۔ تاہم، اگر وہ فوری کارروائی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور اُسے اچانک جنگ کے لئے بلا لیا جاتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے لئے تیار نہ ہو۔ اس کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ یہ بات ہماری روحانی لڑائی کے سلسلے میں بھی سچ ہے۔ اگر فوری کارروائی کرنے کا احساس ہم میں ماند پڑ جاتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ ہم خود پر ہونے والے حملوں کا دفاع کرنے کے لئے تیار نہ ہوں اور یہوواہ خدا کا دن ہم پر اچانک آ پڑے۔ (۱۸، ۱۹. کونسی چیز یہوواہ ”خدا کے اُس دن کے آنے“ کے منتظر رہنے میں ہماری مدد کرے گی؟
۱۸ غور کریں کہ پطرس رسول نے ہمیں یہوواہ ”خدا کے اُس دن کے آنے“ کے منتظر رہنے کی نصیحت کی۔ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ اس کا ایک طریقہ ”پاک چالچلن اور دینداری میں“ مصروف رہنا ہے۔ (۲-پطرس ۳:۱۱، ۱۲) ایسے کاموں میں مصروف رہنے سے مستعدی کے ساتھ ’یہوواہ خدا کے دن‘ کے منتظر رہنے میں ہماری مدد ہوگی۔ یونانی لفظ جس کا ترجمہ ”منتظر اور مشتاق“ کِیا گیا ہے اُس کا لفظی مطلب ”تیزی پیدا کرنا“ ہے۔ ہم یہوواہ خدا کے دن کے آنے تک وقت میں تیزی پیدا نہیں کر سکتے۔ تاہم، اگر ہم اُس دن کا انتظار کرتے ہوئے یہوواہ خدا کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں تو وقت بہت تیزی سے گزر جائے گا۔—۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸۔
۱۹ خدا کے کلام پر غوروخوض کرنا اور اس کی یاددہانیوں پر دھیان دینا ہمیں اُس دن کے آنے کا ”اشتیاق کے ساتھ انتظار کرنے (اُمید رکھنے اور تیزی پیدا کرنے) جیہاں ”مستقل توقع رکھنے“ کے قابل بنائے گا۔ (۲-پطرس ۳:۱۲، دی ایمفائیڈ بائبل؛ ولیم بارکلے کی دی نیو ٹسٹامنٹ) ان یاددہانیوں میں یہوواہ خدا کے دن کے آنے اور اُس کے ”منتظر“ رہنے والوں کے لئے بیشمار برکات کی پیشینگوئیاں شامل ہیں۔—صفنیاہ ۳:۸۔
۲۰. ہمیں کس تاکید پر دھیان دینا چاہئے؟
۲۰ اب وقت ہے کہ ہم سب صفنیاہ نبی کی اس مشورت پر دھیان دیں: ”اِس سے پہلے کہ . . . [یہوواہ] کا قہرِشدید تُم پر نازل ہو اور اُس کے غضب کا دن تُم پر آ پہنچے۔ اَے مُلک کے سب حلیم لوگو جو [یہوواہ] کے احکام پر چلتے ہو اُس کے طالب ہو! راستبازی کو ڈھونڈو۔ فروتنی کی تلاش کرو۔ شاید [یہوواہ] کے غضب کے دن تُم کو پناہ ملے۔“—صفنیاہ ۲:۲، ۳۔
۲۱. سن ۲۰۰۷ کے دوران خدا کے لوگوں کا عزم کیا ہوگا؟
۲۱ سن ۲۰۰۷ کی ہماری سالانہ آیت کسقدر موزوں ہے: ”[یہوواہ] کا روزِعظیم قریب ہے۔“ خدا کے لوگوں کو یقین ہے کہ ”وہ نزدیک آ گیا۔ وہ آ پہنچا“ ہے۔ (صفنیاہ ۱:۱۴) ”یہ تاخیر نہ“ کرے گا۔ (حبقوق ۲:۳) پس جب ہم اُس دن کے منتظر ہیں تو دُعا ہے کہ ہم اس دَور میں رہتے ہوئے ہوشیار رہیں اور اس بات کو سمجھیں کہ ان پیشینگوئیوں کی تکمیل جلد ہونے والی ہے!
کیا آپ جواب دے سکتے ہیں؟
• ”[یہوواہ] کا روزِعظیم“ کیا ہے؟
• بیشتر لوگ فوری کارروائی کرنے کی ضرورت کو نظرانداز کیوں کر دیتے ہیں؟
• پہلی صدی کے مسیحیوں کو فوری کارروائی کرنے کی ضرورت کیوں تھی؟
• ہم فوری کارروائی کرنے کے احساس کو کیسے بڑھا سکتے ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۲ پر عبارت]
سن ۲۰۰۷ کی سالانہ آیت: ”[یہوواہ] کا روزِعظیم قریب ہے۔“—صفنیاہ ۱:۱۴۔
[صفحہ ۸، ۹ پر تصویریں]
نوح کے زمانے کی طرح ٹھٹھاباز لوگوں پر یہوواہ کا دن اچانک آ پڑے گا
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
مسیحیوں کو یروشلیم کو ”فوجوں سے گھرا ہوا“ دیکھ کر فوری کارروائی کرنی تھی