مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یسعیاہ کی کتاب سے اہم نکات—‏حصہ دوم

یسعیاہ کی کتاب سے اہم نکات—‏حصہ دوم

یہوواہ کا کلام زندہ ہے

یسعیاہ کی کتاب سے اہم نکات—‏حصہ دوم

یسعیاہ نبی کئی سال سے لوگوں تک وفاداری سے خدا کے پیغامات پہنچا رہا ہے۔‏ جو پیشینگوئیاں اُس نے خدا کے الہام سے اسرائیل کے ۱۰ قبیلوں کے متعلق کی تھیں،‏ یہ سب کی سب پوری ہو چکی ہیں۔‏ اب اُسے یروشلیم کے مستقبل کے بارے میں خدا کی طرف سے ایک پیغام ملا ہے۔‏

خدا نے اُسے بتایا کہ شہر یروشلیم تباہ‌وبرباد ہو جائےگا اور اُس کے باشندے اسیر کئے جائیں گے۔‏ لیکن یروشلیم ہمیشہ کے لئے برباد نہ رہے گا۔‏ کچھ عرصہ کے بعد اس شہر میں دوبارہ سے یہوواہ خدا کی عبادت کی جائے گی۔‏ یہی اس پیغام کا نچوڑ ہے جو یسعیاہ ۳۶:‏۱–‏۶۶:‏۲۴ میں پایا جاتا ہے۔‏ * یسعیاہ کی کتاب کے اس حصے میں بہت سی ایسی پیشینگوئیاں پائی جاتی ہیں جن کی آخری تکمیل ہمارے زمانے میں یا پھر مستقبل میں ہوگی۔‏ اس میں مسیحا کے متعلق بھی بہت سی حیران‌کُن پیشینگوئیاں درج ہیں۔‏ ہمیں ان پر غور کرنے سے بڑا فائدہ ہوگا۔‏

‏”‏دیکھ وہ دن آتے ہیں“‏

‏(‏یسعیاہ ۳۶:‏۱–‏۳۹:‏۸‏)‏

یہ سن ۷۳۲ قبلِ‌مسیح کی بات ہے۔‏ حزقیاہ بادشاہ کی حکومت کے چودھویں سال میں اسُوریوں کی فوج یہوداہ کے علاقے پر حملہ کرتی ہے۔‏ یہوواہ خدا یروشلیم کو بچانے کا وعدہ کرتا ہے۔‏ اور اس وعدے کے عین مطابق خدا کا ایک ہی فرشتہ ۰۰۰،‏۸۵،‏۱ اسُوریوں کو ہلاک کر دیتا ہے۔‏ اس طرح یروشلیم کے باشندے دُشمن کے ہاتھ سے بچ جاتے ہیں۔‏

پھر حزقیاہ سخت بیمار پڑتا ہے۔‏ جب وہ یہوواہ خدا سے فریاد کرتا ہے تو یہوواہ اُس سے وعدہ کرتا ہے کہ حزقیاہ مزید ۱۵ سال زندہ رہے گا۔‏ بابل کا بادشاہ،‏ حزقیاہ کی صحت‌یابی کے بارے میں سُن کر اُسے مبارک‌بادیاں دینے کے لئے ایلچی بھیجتا ہے۔‏ حزقیاہ اُنہیں وہ سارا مال دکھاتا ہے جو اُس کے خزانوں میں ہے۔‏ اس پر یسعیاہ نبی حزقیاہ کو یہوواہ کا یہ پیغام سناتا ہے:‏ ”‏دیکھ وہ دن آتے ہیں کہ سب کچھ جو تیرے گھر میں ہے اور جو کچھ تیرے باپ‌دادا نے آج کے دن تک جمع کرکے رکھا ہے بابلؔ کو لے جائیں گے۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۳۹:‏۵،‏ ۶‏)‏ یہ پیشینگوئی اس کے تقریباً ۱۰۰ سال بعد تکمیل پاتی ہے۔‏

صحیفائی سوال کا جواب:‏

۳۸:‏۸‏—‏سایہ کس چیز پر دس درجے پیچھے لوٹا؟‏ آٹھویں صدی قبلِ‌مسیح میں مصر اور بابل میں دھوپ گھڑیاں عام تھیں۔‏ لہٰذا،‏ حزقیاہ کے باپ آخز نے اس دھوپ گھڑی کو وہاں سے منگوایا ہوگا۔‏ جس عبرانی لفظ کا ترجمہ اس آیت میں ”‏دھوپ گھڑی“‏ سے کِیا گیا ہے اس کا مطلب دراصل ”‏سیڑھیاں“‏ ہے۔‏ اس لئے ہو سکتا ہے کہ یہ لفظ شاہی محل میں خاص سیڑھیوں کی طرف اشارہ کرتا ہو۔‏ شاید ان کے پاس ایک ستون تھا جس کا سایہ سیڑھیوں پر پڑتا تھا۔‏ سیڑھیوں پر سایہ کے چڑھنے سے وقت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۳۶:‏۲،‏ ۳،‏ ۲۲۔‏ حالانکہ شبناہ کو خزانچی کے عہدے سے ہٹا لیا گیا توبھی اُسے بادشاہ کی خدمت میں رہنے کی اجازت دی گئی۔‏ اُسے اُس شخص کا منشی بنایا گیا جو اُس کی بجائے خزانچی کے عہدے پر فائز ہوا۔‏ (‏یسعیاہ ۲۲:‏۱۵،‏ ۱۹‏)‏ یہوواہ کی تنظیم میں اگر کسی نہ کسی وجہ سے ہماری ذمہ‌داری اُٹھا لی جائے تو ہمیں پھر بھی وہ کام کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے جس کی خدا ہمیں اجازت دیتا ہے۔‏

۳۷:‏۱‏،‏ ۱۴،‏ ۱۵‏؛‏ ۳۸:‏۱،‏ ۲‏۔‏ مصیبت کے وقت دانشمندی کی بات یہی ہے کہ ہم یہوواہ سے دُعا کریں اور اُس پر بھروسہ رکھیں۔‏

۳۷:‏۱۵-‏۲۰‏؛‏ ۳۸:‏۲،‏ ۳‏۔‏ جب یروشلیم کو اسُوریوں کی طرف سے خطرہ تھا تو حزقیاہ کی سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ اس شہر کی شکست پر یہوواہ خدا کی توہین ہوگی۔‏ اور جب اُسے بتایا گیا کہ وہ اپنی بیماری کے باعث مر جائے گا تو حزقیاہ اپنی ذات کے لئے پریشان نہیں تھا بلکہ وہ اس بات کی وجہ سے زیادہ پریشان تھا کہ اُس کی کوئی اولاد نہیں تھی اور اس لئے داؤد کی شاہی نسل کو ختم ہونے کا خطرہ تھا۔‏ وہ اس بات پر بھی پریشان تھا کہ اسُوریوں کا مقابلہ کرنے میں بنی‌اسرائیل کی پیشوائی کون کرے گا۔‏ حزقیاہ کی طرح ہم بھی اپنے ذاتی بچاؤ کی بجائے اس بات کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں کہ یہوواہ کا نام پاک ٹھہرایا جائے اور اُس کی مرضی پوری ہو۔‏

۳۸:‏۹-‏۲۰‏۔‏ حزقیاہ کے اس گیت سے ہم یہ سبق سیکھتے ہیں کہ کسی دوسرے کام کی نسبت یہوواہ خدا کی ستائش کرنا زیادہ اہم ہے۔‏

‏”‏وہ تعمیر کِیا جائے گا“‏

‏(‏یسعیاہ ۴۰:‏۱–‏۵۹:‏۲۱‏)‏

بابلیوں کے ہاتھ یروشلیم کی تباہی اور اس کے باشندوں کی اسیری کی پیشینگوئی کرنے کے فوراً بعد یسعیاہ نبی یہ بھی بتاتا ہے کہ اس شہر میں دوبارہ سے یہوواہ کی عبادت کی جائے گی۔‏ (‏یسعیاہ ۴۰:‏۱،‏ ۲‏)‏ یروشلیم کے بارے میں وہ بتاتا ہے کہ ”‏وہ تعمیر کِیا جائے گا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۴۴:‏۲۸‏)‏ اور بابلیوں کے بُت ”‏جانوروں اور چوپایوں پر لدے“‏ ہٹا لئے جائیں گے۔‏ (‏یسعیاہ ۴۶:‏۱‏)‏ شہر بابل کو شکست دی جائے گی۔‏ یہ تمام پیشینگوئیاں ۲۰۰ سال بعد پوری ہوتی ہیں۔‏

یہوواہ اپنے خادم کو ”‏قوموں کے لئے نُور“‏ بنائے گا۔‏ (‏یسعیاہ ۴۹:‏۶‏)‏ ”‏آسمان“‏ یعنی بابل کے حکمران ”‏دُھوئیں کی مانند غائب ہو جائیں گے“‏ اور اُس شہر کے باشندے ”‏مچھروں کی طرح مر جائیں گے۔‏“‏ لیکن ’‏اسیر دخترِصیون [‏یعنی یروشلیم]‏ اپنی گردن کے بندھنوں کو کھول ڈالے گی۔‏‘‏ (‏یسعیاہ ۵۱:‏۶؛‏ ۵۲:‏۲‏)‏ ان لوگوں سے جو خدا کی طرف رجوع لا کر اُس کی فرمانبرداری کرتے ہیں،‏ یہوواہ کہتا ہے کہ ”‏مَیں تُم کو ابدی عہد یعنی داؔؤد کی سچی نعمتیں بخشوں گا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۵۵:‏۳‏)‏ جو شخص خدا کی مرضی بجا لاتا ہے وہ ”‏[‏یہوواہ]‏ میں مسرور ہوگا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۵۸:‏۱۴‏)‏ اس کے برعکس لوگوں کی بدکرداری ’‏اُن کے اور اُن کے خدا کے درمیان جُدائی کر دیتی ہے۔‏‘‏—‏یسعیاہ ۵۹:‏۲‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۴۰:‏۲۷،‏ ۲۸‏—‏اسرائیلیوں نے کیوں کہا کہ ”‏میری راہ [‏یہوواہ]‏ سے پوشیدہ ہے اور میری عدالت میرے خدا سے گذر گئی“‏؟‏ بابل کی اسیری میں بعض یہودیوں کو ایسا لگا ہوگا جیسے یہوواہ اُن کے دُکھ اور تکلیف سے بےخبر ہے۔‏ یسعیاہ نبی نے اُنہیں اس حقیقت کی یاد دلائی کہ شہر بابل زمین کے خالق یہوواہ کی پہنچ سے باہر نہیں۔‏ اُن کا خدا کبھی تھکتا نہیں۔‏

۴۳:‏۱۸-‏۲۱‏—‏بابل کی اسیری سے واپس لوٹنے والے یہودیوں سے کیوں کہا گیا کہ ”‏پچھلی باتوں کو یاد نہ کرو اور قدیم باتوں پر سوچتے نہ رہو“‏؟‏ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُنہیں بھول جانا تھا کہ یہوواہ نے انہیں کیسے نجات دلائی تھی۔‏ بلکہ یہوواہ یہ چاہتا تھا کہ وہ ’‏ایک نئے کام‘‏ کی وجہ سے اُس کی ستائش کریں جو وہ یہودیوں کے لئے کرنے والا تھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ وہ اپنے لوگوں کو بابل سے بیابان کے راستے صحیح‌سلامت یروشلیم تک پہنچانے والا تھا۔‏ اسی طرح ”‏بڑی بِھیڑ“‏ کے افراد جب ’‏بڑی مصیبت میں سے نکل کر آئیں گے‘‏ تو اُن کے پاس یہوواہ کی ستائش کرنے کی بہت سی نئی وجوہات ہوں گی۔‏—‏مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۴‏۔‏

۴۹:‏۶‏—‏جبکہ مسیحا نے صرف اسرائیل کے علاقے میں خدمت کی تو پھر یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ اُسے ”‏قوموں کے لئے نُور“‏ بنایا گیا؟‏ یہ بات یسوع کی موت کے بعد ہی پوری ہوئی۔‏ بائبل میں یسعیاہ ۴۹:‏۶ کا اطلاق یسوع کے شاگردوں پر کِیا گیا ہے۔‏ (‏اعمال ۱۳:‏۴۶،‏ ۴۷‏)‏ ہمارے دنوں میں ممسوح مسیحی بھی ”‏قوموں کے لئے نُور“‏ ہیں۔‏ بڑی بِھیڑ کی مدد سے وہ ”‏زمین کے کناروں تک“‏ لوگوں کو تعلیم دے کر بائبل کی سچائیوں پر روشنی ڈال رہے ہیں۔‏—‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

۵۳:‏۱۰‏—‏اس بات کا کیا مطلب ہے کہ یہوواہ کو پسند آیا کہ یسوع کو کچلے؟‏ چونکہ یہوواہ رحم‌دل اور مہربان ہے اس لئے اُسے اپنے بیٹے کا دُکھ دیکھ کر ضرور صدمہ ہوا ہوگا۔‏ لیکن یہوواہ کو یہ بات پسند آئی کہ یسوع ہچکچائے بغیر اپنی جان کی قربانی دینے کو تیار تھا۔‏ وہ جانتا تھا کہ اس قربانی کے بہت اچھے نتائج نکلیں گے۔‏—‏امثال ۲۷:‏۱۱؛‏ یسعیاہ ۶۳:‏۹‏۔‏

۵۳:‏۱۱‏—‏اس عرفان سے کیا مُراد ہے جس کے ذریعے مسیحا ”‏بہتوں کو راستباز ٹھہرائے گا“‏؟‏ یسوع نے انسان کے طور پر زندگی گزارنے اور موت تک اذیت سہنے کا تجربہ کِیا۔‏ اس طرح اُس نے ان باتوں کے بارے میں عرفان یعنی علم حاصل کِیا۔‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۱۵‏)‏ اپنی جان کی قربانی دینے سے اُس نے فدیہ فراہم کِیا جس کی بِنا پر ممسوع مسیحی اور بڑی بِھیڑ خدا کی نظروں میں راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔‏—‏رومیوں ۵:‏۱۹؛‏ یعقوب ۲:‏۲۳،‏ ۲۵‏۔‏

۵۶:‏۶‏—‏”‏بیگانہ کی اولاد“‏ کون ہے اور وہ کس طرح ’‏یہوواہ کے عہد پر قائم رہتے ہیں‘‏؟‏ یہ یسوع کی ’‏دوسری بھیڑیں‘‏ ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۰:‏۱۶‏)‏ نیا عہد تو ممسوع مسیحیوں کے ساتھ باندھا گیا ہے۔‏ لیکن ’‏دوسری بھیڑیں‘‏ اس پر اس طرح قائم رہتی ہیں کہ وہ اس عہد کے سلسلے میں دئے گئے حکموں پر عمل کرتی ہیں،‏ اُنہیں وہی روحانی خوراک حاصل ہے جس سے ممسوح مسیحی بھی فائدہ اُٹھاتے ہیں اور وہ ممسوح مسیحیوں کے ساتھ بادشاہت کی منادی کرکے لوگوں کو تعلیم دیتی ہیں۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۴۰:‏۱۰-‏۱۴،‏ ۲۶،‏ ۲۸‏۔‏ یہوواہ خدا طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ نرم‌دل بھی ہے۔‏ اُس کی قدرت اور حکمت ہماری سمجھ سے باہر ہے۔‏

۴۰:‏۱۷،‏ ۲۳؛‏ ۴۱:‏۲۹؛‏ ۴۴:‏۹؛‏ ۵۹:‏۴‏۔‏ سیاسی معاہدوں اور بُتوں پر توکل کرنا فضول ہے کیونکہ یہ سب کے سب ”‏ناچیز“‏ اور ”‏باطل“‏ ہیں۔‏

۴۲:‏۱۸،‏ ۱۹؛‏ ۴۳:‏۸‏۔‏ اگر ہم ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کی طرف سے ہدایت پا کر اِسے سنی اَن سنی کرتے ہیں اور خدا کے کلام کو نظرانداز کرتے ہیں تو ہم روحانی طور پر بہرے اور اندھے ہوتے ہیں۔‏—‏متی ۲۴:‏۴۵‏۔‏

۴۳:‏۲۵‏۔‏ یہوواہ اپنے نام کی خاطر ہمارے گُناہوں کو مٹاتا ہے۔‏ اس طرح ہم گُناہ اور موت کی گِرفت سے آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔‏ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہوواہ کا نام پاک ٹھہرایا جائے۔‏

۴۴:‏۸‏۔‏ یہوواہ چٹان کی طرح پائدار اور مضبوط ہے۔‏ چونکہ وہ ہماری حمایت کرتا ہے اس لئے ہمیں اُس کے بارے میں گواہی دینے سے جھجکنا نہیں چاہئے۔‏—‏۲-‏سموئیل ۲۲:‏۳۱،‏ ۳۲‏۔‏

۴۴:‏۱۸-‏۲۰‏۔‏ بُت‌پرستوں کا دل سخت ہوتا ہے۔‏ ہمیں اپنے دلوں میں کسی اَور چیز کو وہ مقام نہیں دینا چاہئے جو یہوواہ کا ہے۔‏

۴۶:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏ یہوواہ کی ’‏مصلحت قائم رہتی ہے‘‏ یعنی وہ اپنی مرضی ہمیشہ پوری کرتا ہے۔‏ یہ اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ یہوواہ ہی سچا خدا ہے۔‏

۴۸:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ ۵۷:‏۱۹-‏۲۱‏۔‏ اگر ہم نجات کے لئے یہوواہ پر بھروسہ رکھیں گے،‏ اُس کے نزدیک جائیں گے اور اُس کے حکموں پر عمل کریں گے تو ہماری سلامتی اتنی ہوگی جتنا نہر میں پانی بہتا ہے اور ہم صداقت کے اتنے کام کریں گے جتنی سمندر میں موجیں ہوتی ہیں۔‏ لیکن جو خدا کے کلام کو رد کرتے ہیں وہ ”‏سمندر کی مانند ہیں جو ہمیشہ موجزن اور بےقرار ہے۔‏“‏ انہیں سلامتی نہیں ملے گی۔‏

۵۲:‏۵،‏ ۶‏۔‏ یہوواہ نے اپنی قوم کو اس وجہ سے بابلیوں کی اسیری میں جانے دیا کیونکہ اُنہوں نے اُس کی نافرمانی کی تھی۔‏ لیکن بابلی اس غلط‌فہمی کا شکار تھے کہ یہوواہ خدا کمزور ہے اور اِس وجہ سے اپنی قوم کو بچا نہیں سکا۔‏ جب دوسروں پر مصیبت آن پڑتی ہے تو ہم آسانی سے اس مصیبت کی وجوہات کے بارے میں غلط نتیجے اخذ کر سکتے ہیں۔‏ اس لئے ہمیں کسی نتیجے پر پہنچنے میں جلدبازی نہیں کرنی چاہئے۔‏

۵۲:‏۷-‏۹؛‏ ۵۵:‏۱۲،‏ ۱۳‏۔‏ بادشاہت کی منادی کرنے اور لوگوں کو تعلیم دینے کے کام میں شادمان ہونے کی کم سے کم تین وجوہات ہیں۔‏ ان لوگوں کی نظروں میں جو روحانی طور پر ضرورتمند ہیں،‏ ہمارے پاؤں خوشنما ہیں۔‏ ہمیں یہوواہ کی قُربت حاصل ہے،‏ گویا ہم اُسے ”‏رُوبُرو“‏ دیکھتے ہوں۔‏ اس کے علاوہ ہم ایک روحانی فردوس کا لطف اُٹھا رہے ہیں۔‏

۵۲:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏ ‏”‏[‏یہوواہ]‏ کے ظروف اُٹھانے“‏ یعنی اُس کی خدمت کرنے کے لائق ہونے کے لئے ہمیں روحانی اور اخلاقی طور پر پاک رہنا چاہئے۔‏

۵۸:‏۱-‏۱۴‏۔‏ دینداری اور صداقت کا محض دکھاوا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‏ سچے مسیحی دل سے دیندار ہیں اور وہ اپنے بہن‌بھائیوں سے سچی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔‏—‏یوحنا ۱۳:‏۳۵؛‏ ۲-‏پطرس ۳:‏۱۱‏۔‏

۵۹:‏۱۵ب-‏۱۹‏۔‏ یہوواہ کی نظر انسانوں پر ہے۔‏ وہ عین وقت پر ان کی مدد کو آتا ہے۔‏

‏’‏صیون جلالی تاج ہوگی‘‏

‏(‏یسعیاہ ۶۰:‏۱–‏۶۶:‏۲۴‏)‏

قدیم زمانے میں اور ہمارے دَور میں بھی یہوواہ نے سچی عبادت کو زوال سے بچائے رکھا۔‏ اس سلسلے میں یسعیاہ ۶۰:‏۱ میں کہا گیا ہے:‏ ”‏اُٹھ منور ہو کیونکہ تیرا نُور آ گیا ہے اور [‏یہوواہ]‏ کا جلال تجھ پر ظاہر ہوا۔‏“‏ صیون ’‏یہوواہ کے ہاتھ میں جلالی تاج ہوگی۔‏‘‏—‏یسعیاہ ۶۲:‏۳‏۔‏

یسعیاہ نبی اُن اسرائیلیوں کے لئے دُعا کرتا ہے جو بابل کی اسیری کے دوران توبہ کریں گے۔‏ (‏یسعیاہ ۶۳:‏۱۵–‏۶۴:‏۱۲‏)‏ پھر وہ خدا کے خادموں کا مقابلہ اُن لوگوں سے کرتا ہے جنہوں نے یہوواہ کی راہ کو چھوڑ دیا ہے۔‏ یسعیاہ نبی ظاہر کرتا ہے کہ یہوواہ اپنے خادموں کو بہت سی برکتوں سے نوازے گا۔‏—‏یسعیاہ ۶۵:‏۱–‏۶۶:‏۲۴‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۶۱:‏۸،‏ ۹‏—‏ان آیات میں ”‏ابدی عہد“‏ اور ”‏نسل“‏ سے کیا مُراد ہے؟‏ ‏”‏ابدی عہد“‏ سے مُراد وہ نیا عہد ہے جسے یہوواہ نے ممسوح مسیحیوں کے ساتھ باندھا ہے۔‏ ”‏نسل“‏ سے مُراد ’‏دوسری بھیڑیں‘‏ ہیں جو ممسوح مسیحیوں کے پیغام پر کان لگاتی ہیں۔‏—‏یوحنا ۱۰:‏۱۶‏۔‏

۶۳:‏۵‏—‏یہوواہ کا قہر اُسے کیسے سنبھالتا ہے؟‏ خدا اپنے قہر میں کبھی بےقابو نہیں ہوتا۔‏ اُسے بُرائی کو دیکھ کر قہر آتا ہے اور وہ بُرے لوگوں پر اپنا عذاب نازل کرنے کا عزم رکھتا ہے۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۶۴:‏۶‏۔‏ گنہگار انسان خود اپنی نجات کا باعث نہیں بن سکتے۔‏ گنہگار ہونے کی وجہ سے اُن کے اچھے کام ایک ناپاک لباس کی طرح ہوتے ہیں جو گُناہوں کا کفارہ کرنے یعنی ان کو ڈھانپنے کے لئے کافی نہیں۔‏—‏رومیوں ۳:‏۲۳،‏ ۲۴‏۔‏

۶۵:‏۱۳،‏ ۱۴‏۔‏ یہوواہ اپنے وفادار خادموں کو بہت سی برکتوں سے نوازتا ہے اور اُن کی روحانی ضروریات پوری کرتا ہے۔‏

۶۶:‏۳-‏۵‏۔‏ یہوواہ کو ریاکار لوگوں سے نفرت ہے۔‏

‏”‏ابدی خوشی اور شادمانی کرو“‏

بابل کی اسیری میں یہودیوں نے یسعیاہ نبی کی اُن پیشینگوئیوں کو یاد کِیا ہوگا جن میں اُس نے بتایا تھا کہ یروشلیم میں دوبارہ سے یہوواہ کی عبادت کی جائے گی۔‏ بِلاشُبہ یہ تمام پیشینگوئیاں ان کے لئے بڑی تسلی کا باعث تھیں۔‏ یہوواہ نے اُن سے کہا:‏ ”‏تُم میری اس نئی خلقت سے ابدی خوشی اور شادمانی کرو کیونکہ دیکھو مَیں یرؔوشلیم کو خوشی اور اُس کے لوگوں کو خرمی بناؤں گا۔‏“‏—‏یسعیاہ ۶۵:‏۱۸‏۔‏

ہمارے زمانے میں بھی زمین پر تاریکی چھائی ہوئی ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۶۰:‏۲‏)‏ ہم ’‏بُرے دنوں‘‏ میں رہ رہے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱‏)‏ لیکن یہوواہ نے یسعیاہ نبی کے ذریعے وعدہ کِیا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو نجات دلائے گا۔‏ واقعی،‏ یسعیاہ کی کتاب ہمارے حوصلے کو بڑھاتی ہے۔‏—‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 یسعیاہ ۱:‏۱–‏۳۵:‏۱۰ کے متعلق مضمون ”‏یسعیاہ کی کتاب سے اہم نکات—‏حصہ اوّل“‏ کو دیکھیں جو دسمبر ۱،‏ ۲۰۰۶ کے مینارِنگہبانی میں شائع ہوا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

اسُوریوں سے چھٹکارا پانے کی دُعا کرتے وقت حزقیاہ بادشاہ کی سب سے بڑی فکر کیا تھی؟‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

‏”‏اُس کے پاؤں پہاڑوں پر کیا ہی خوشنما ہیں جو خوشخبری لاتا ہے“‏