یہوواہ خدا آپ کی خدمت کی قدر کرتا ہے
یہوواہ خدا آپ کی خدمت کی قدر کرتا ہے
”خدا بےانصاف نہیں جو تمہارے کام اور اس محبت کو بھول جائے جو تُم نے اُس کے نام کے واسطے . . . ظاہر کی۔“—عبرانیوں ۶:۱۰۔
۱. یہوواہ نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ رُوت کی خدمت کی قدر کرتا تھا؟
یہوواہ خدا اپنے بندوں کی خدمت کی بہت قدر کرتا ہے۔ جب وہ خدا کی مرضی بجا لانے کی پوری کوشش کرتے ہیں تو خدا ان کو اجر ضرور دیتا ہے۔ (عبرانیوں ۱۱:۶) خدا کا خادم بوعز اس بات سے خوب واقف تھا۔ اس لئے جب اُس نے دیکھا کہ موآبی عورت رُوت بڑے لگاؤ سے اپنی بیوہ ساس کی دیکھبھال کر رہی ہے تو بوعز نے اُس سے کہا: ”[یہوواہ] تیرے کام کا بدلہ دے بلکہ [یہوواہ] اؔسرائیل کے خدا کی طرف سے . . . تجھ کو پورا اجر ملے۔“ (روت ۲:۱۲) کیا خدا نے رُوت کو واقعی اجر دیا؟ جیہاں! ایک تو رُوت کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اُس کا ذکر خدا کے کلام میں کِیا گیا۔ دوسرا یہ کہ بوعز نے اُسے اپنی بیوی بنا لیا اور یوں رُوت کی اولاد کے ذریعے داؤد بادشاہ اور یسوع مسیح پیدا ہوئے۔ (روت ۴:۱۳، ۱۷؛ متی ۱:۵، ۶، ۱۶) پاک صحائف میں اس طرح کی بےشمار مثالیں پائی جاتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ اپنے خادموں کی بڑی قدر کرتا ہے۔
۲، ۳. (ا) یہ خدا کا ہم پر احسان کیوں ہے کہ وہ ہماری خدمت کی قدر کرتا ہے؟ (ب) یہوواہ گنہگار انسانوں کی خدمت کی قدر کیوں کرتا ہے؟ مثال دے کر واضح کریں۔
۲ یہوواہ خدا کے نزدیک یہ بےانصافی ہوتی اگر وہ اپنے خادموں کی قدر نہ کرتا۔ عبرانیوں ۶:۱۰ میں لکھا ہے: ”خدا بےانصاف نہیں جو تمہارے کام اور اس محبت کو بھول جائے جو تُم نے اُس کے نام کے واسطے اس طرح ظاہر کی کہ مُقدسوں کی خدمت کی اور کر رہے ہو۔“ ذرا سوچیں، اس کے باوجود کہ ہم گنہگار ہیں اور خدا کے جلال سے محروم ہیں، خدا ہمارے نیک کاموں کی قدر کرتا ہے۔ (رومیوں ۳:۲۳) یہ اُس کا ہم پر بڑا احسان ہے۔
۳ ہم شاید یہ سوچیں کہ گنہگار ہونے کی وجہ سے ہم خدا کی برکت حاصل کرنے کے لائق نہیں اور ہماری عبادت اُس کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ لیکن یہوواہ ہماری نیت اور ہمارے حالات سے باخبر ہے۔ جب ہم پورے دل سے اُس کی عبادت کرتے ہیں تو اُس کی نظروں میں ہماری خدمت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ (متی ۲۲:۳۷) ایک مثال پر غور کیجئے۔ ایک ماں کو تحفے میں ایک سستا سا ہار ملتا ہے۔ کیا وہ تحفے کو یہ سوچ کر رد کر دے گی کہ ”اِس ہار کی قیمت تو کچھ بھی نہیں“؟ جینہیں۔ کیونکہ تحفے کے ساتھ ساتھ اُسے ایک کارڈ بھی ملا ہے جس سے اُسے پتا چلتا ہے کہ یہ تحفہ اُس کی چھوٹی بیٹی نے اُسے دیا ہے اور بیٹی نے اپنا سارا جیبخرچ لگا کر اِس تحفے کو خریدا ہے۔ یہ جان کر ماں کی نظروں میں یہ تحفہ بیشقیمت بن جاتا ہے۔ وہ بیٹی کو بڑے پیار سے چُوم لیتی ہے اور اُس کا شکریہ ادا کرتی ہے۔
۴، ۵. ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ کی طرح یسوع بھی ہماری خدمت کی قدر کرتا ہے؟
لوقا ۲۱:۱-۴ میں درج ہے: ”[یسوع] نے آنکھ اُٹھا کر اُن دولتمندوں کو دیکھا جو اپنی نذروں کے روپے ہیکل کے خزانہ میں ڈال رہے تھے۔ اور ایک کنگال بیوہ کو بھی اس میں دو دمڑیاں ڈالتے دیکھا۔ اس پر اس نے کہا مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ اِس کنگال بیوہ نے سب سے زیادہ ڈالا۔ کیونکہ اُن سب نے تو اپنے مال کی بہتات سے نذر کا چندہ ڈالا مگر اِس نے اپنی ناداری کی حالت میں جتنی روزی اُسکے پاس تھی سب ڈال دی۔“
۴ یہوواہ جانتا ہے کہ ہم کس نیت سے اُسکی خدمت کرتے ہیں اور وہ ہمارے حالات کا لحاظ بھی رکھتا ہے۔ اسلئے جب ہم اُسکی خدمت میں پوری کوشش کرتے ہیں تو وہ اسکی قدر کرتا ہے چاہے ہم بہت زیادہ کر پائیں یا کم۔ اس سلسلے میں یسوع مسیح کی سوچ بالکل اپنے آسمانی باپ کی سوچ کی طرح ہے۔ ذرا اس واقعے پر غور کریں جو۵ یسوع نے اس بات کا لحاظ رکھا کہ وہ عورت ایک غریب بیوہ تھی۔ اس لئے یسوع کی نظروں میں اُس کا چندہ بیشقیمت تھا اور وہ بیوہ کی بہت قدر کرتا تھا۔ یہوواہ خدا بھی اُس بیوہ کے بارے میں ایسا ہی محسوس کرتا ہے۔ (یوحنا ۱۴:۹) آپ کے حالات چاہے کچھ بھی ہوں، آپ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔ کیا اس بات سے آپ کی حوصلہافزائی نہیں ہوتی؟
کوشی خوجہ عبدملک کا اجر
۶، ۷. یہوواہ خدا عبدملک کی قدر کیوں کرتا تھا، اور اُس نے اپنی قدر کا اظہار کیسے کِیا؟
۶ پاک صحائف میں بہت سی مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ اپنے وفادار بندوں کی قدر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر غور کیجئے کہ کوشی خوجہ عبدملک کے ساتھ کیا واقع ہوا۔ وہ یرمیاہ نبی کے زمانے میں صدقیاہ بادشاہ کے شاہی محل میں خدمت کرتا تھا۔ صدقیاہ بادشاہ نے یہوواہ کی عبادت کرنا چھوڑ دیا تھا۔ کئی اُمرا نے یرمیاہ نبی پر وطن دُشمن ہونے کا جھوٹا الزام لگایا۔ پھر اُنہوں نے اُسے ایک حوض میں ڈال دیا جہاں اُسے بھوکا مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ (یرمیاہ ۳۸:۱-۷) عبدملک جانتا تھا کہ ان لوگوں کو یرمیاہ نبی سے سخت نفرت تھی کیونکہ اُس کا پیغام اُنہیں ناگوار گزرا تھا۔ یرمیاہ نبی کی جان چھڑانے کے لئے عبدملک نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر بادشاہ سے بات کی۔ اُس نے صدقیاہ سے کہا: ”اَے بادشاہ میرے آقا! اِن لوگوں نے یرؔمیاہ نبی سے جو کچھ کِیا بُرا کِیا کیونکہ اُنہوں نے اُسے حوض میں ڈال دیا ہے اور وہ وہاں بھوک سے مر جائے گا۔“ اس پر بادشاہ نے عبدملک کو حکم دیا کہ جا، ۳۰ آدمی اپنے ساتھ لے جا اور یرمیاہ نبی کو حوض میں سے نکال۔—یرمیاہ ۳۸:۸-۱۳۔
۷ عبدملک کو ڈر ضرور لگا ہوگا لیکن اُس کا ایمان اتنا مضبوط تھا کہ وہ اپنے ڈر سے نپٹ سکا۔ یہوواہ اُس کے ایمان کی بڑی قدر کرتا تھا۔ یرمیاہ نبی کے ذریعے یہوواہ نے عبدملک سے یوں کہا: ”دیکھ مَیں اپنی باتیں اِس شہر کی بھلائی کے لئے نہیں بلکہ خرابی کے لئے پوری کروں گا۔ . . . پر اُس دن مَیں تجھے رِہائی دوں گا . . . اور تُو اُن لوگوں کے حوالہ نہ کِیا جائے گا جن سے تُو ڈرتا ہے۔ کیونکہ مَیں تجھے ضرور بچاؤں گا اور . . . تیری جان تیرے لئے غنیمت ہوگی اِس لئے کہ تُو نے مجھ پر توکل کِیا۔“ (یرمیاہ ۳۹:۱۶-۱۸) جیہاں، یہوواہ نے یرمیاہ کے ساتھ ساتھ عبدملک کو بھی یہوداہ کے اُمرا اور بعد میں بابلی لشکروں کے ہاتھ سے بچایا۔ زبور ۹۷:۱۰ کے الفاظ کتنے سچ ثابت ہوئے کہ ”[یہوواہ] اپنے مُقدسوں کی جانوں کو محفوظ رکھتا ہے۔ وہ اُن کو شریروں کے ہاتھ سے چھڑاتا ہے۔“
”تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا“
۸، ۹. جیسا کہ ہم یسوع کی مثال سے سیکھتے ہیں یہوواہ کس قسم کی دُعاؤں سے خوش ہوتا ہے؟
۸ جو کچھ بائبل میں دُعا کے بارے میں لکھا ہے اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ اپنے وفادار خادموں کی قدر کرتا ہے۔ سلیمان بادشاہ نے خدا کے بارے میں لکھا: ”راستکار کی دُعا اُس کی خوشنودی ہے۔“ (امثال ۱۵:۸) یسوع کے زمانے میں مذہبی رہنما اکثر دکھاوے کے لئے لوگوں کے سامنے دُعا کرتے تھے۔ یسوع نے ان کے بارے میں کہا: ”وہ اپنا اجر پا چکے۔“ پھر اُس نے اپنے شاگردوں کو یوں ہدایت دی: ”جب تُو دُعا کرے تو اپنی کوٹھری میں جا اور دروازہ بند کرکے اپنے باپ سے جو پوشیدگی میں ہے دُعا کر۔ اِس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔“—متی ۶:۵، ۶۔
۹ یسوع یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ لوگوں کے سامنے دُعائیں پیش کرنا غلط ہے کیونکہ اُس نے خود بھی کئی بار ایسا کِیا تھا۔ (لوقا ۹:۱۶) وہ یہ ظاہر کر رہا تھا کہ یہوواہ ہماری اُن دُعاؤں سے خوش ہوتا ہے جو ہم سچے دل سے پیش کرتے ہیں، لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے نہیں۔ اور یہ بات سچ ہے کہ اکیلے میں دُعا کرتے وقت ہم ظاہر کر سکتے ہیں کہ خدا سے ہماری محبت کتنی گہری ہے اور ہم اس پر کتنا بھروسہ کرتے ہیں۔ یسوع بھی اکثر اکیلے میں دُعا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ اُس نے ”صبح ہی دن نکلنے سے بہت پہلے“ دُعا کی۔ ایک اَور موقعے پر وہ ”تنہا دُعا کرنے کے لئے پہاڑ پر چڑھ گیا۔“ اور اپنے ۱۲ رسولوں کا انتخاب کرنے سے پہلے اُس نے ساری رات دُعا میں گزاری۔—مرقس ۱:۳۵؛ متی ۱۴:۲۳؛ لوقا ۶:۱۲، ۱۳۔
۱۰. جب ہم یہوواہ کے سامنے اپنا دل کھولتے ہیں تو ہمیں کس بات کا پورا یقین ہوتا ہے؟
۱۰ جب یسوع نے دل کی گہرائیوں سے یہوواہ خدا سے دُعا کی تو یہوواہ نے اُس کی باتوں پر پوری توجہ دی ہوگی۔ بعض اوقات یسوع ”زور زور سے پکار کر اور آنسو بہا بہا کر“ دُعا کرتا اور ”خداترسی کے سبب سے اُس کی سنی گئی۔“ (عبرانیوں ۵:۷؛ لوقا ۲۲:۴۱-۴۴) ہمیں پورا یقین ہے کہ جب ہم اسی طرح خلوص سے دُعا کرتے ہوئے یہوواہ کے سامنے اپنا دل کھولتے ہیں تو وہ ہماری سنتا ہے۔ واقعی، ’یہوواہ اُن سب کے قریب ہے جو سچائی سے اُس سے دُعا کرتے ہیں۔‘—زبور ۱۴۵:۱۸۔
۱۱. جو کام ہم اکیلے میں کرتے ہیں، یہوواہ ان کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے؟
۱۱ اگر یہوواہ تنہائی میں پیش کی جانے والی دُعاؤں سے خوش ہوتا ہے تو وہ اُس وقت کتنا خوش ہوگا جب ہم اکیلے میں بھی اُس کے فرمانبردار رہتے ہیں؟ یہوواہ ہمارے سب کام دیکھتا ہے۔ (۱-پطرس ۳:۱۲) اکیلے میں بھی اُس کی فرمانبرداری کرنے سے ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اُس کی خدمت ”پورے دل“ سے کر رہے ہیں، یعنی ہمارا دل صاف ہے اور ہم نیکی کی راہ پر چلنے کی دلی خواہش رکھتے ہیں۔ (۱-تواریخ ۲۸:۹) ایسے چالچلن سے ہم یہوواہ کا دل شاد کریں گے۔—امثال ۲۷:۱۱؛ ۱-یوحنا ۳:۲۲۔
۱۲، ۱۳. ہم اپنے دل کی حفاظت کرنے سے نتنایل کی طرح کیسے بن سکتے ہیں؟
عبرانیوں ۴:۱۳؛ لوقا ۸:۱۷) جب ہم ایسے کاموں سے گریز کرتے ہیں جن سے یہوواہ کو نفرت ہے تو ہم اپنے ضمیر کو صاف رکھتے ہیں اور ہمیں خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ اس بات میں شک کی گنجائش نہیں کہ یہوواہ ایک ایسے شخص کی دلی قدر کرتا ہے ”جو راستی سے چلتا اور صداقت کا کام کرتا اور دل سے سچ بولتا ہے۔“—زبور ۱۵:۱، ۲۔
۱۲ وفادار مسیحی پردے پیچھے بھی ایسے کاموں میں ملوث نہیں ہوں گے جو دل اور دماغ پر بُرا اثر ڈالتے ہیں، مثلاً وہ فحش تصویریں یا پُرتشدد فلمیں ہرگز نہیں دیکھیں گے۔ ہم ایسے گُناہ انسانوں سے تو چھپا سکتے ہیں لیکن خدا ”کی نظروں میں سب چیزیں کُھلی اور بےپردہ ہیں۔“ (۱۳ ہماری دُنیا بُرائی سے بھری ہے۔ ایک ایسے ماحول میں ہم اپنے دل کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں؟ (امثال ۴:۲۳؛ افسیوں ۲:۲) سب سے پہلے تو ہمیں ان تمام باتوں کا بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہئے جن کے ذریعے یہوواہ ہمارے ایمان کو مضبوط بناتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں بُرائی کو رد کرنے اور اچھے کام کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ جب بھی ہمارے دل میں بُری خواہشات آتی ہیں، ہمیں انہیں فوراً دُور کرنا چاہئے، ورنہ یہ خواہشات حاملہ ہو کر گُناہ پیدا کریں گی۔ (یعقوب ۱:۱۴، ۱۵) یسوع نے نتنایل کو دیکھ کر کہا: ”دیکھو! . . . اس میں مکر نہیں۔“ (یوحنا ۱:۴۷) نتنایل جس کا دوسرا نام برتلمائی بھی تھا، بعد میں یسوع کے ۱۲ رسولوں میں شمار کِیا گیا۔ (مرقس ۳:۱۶-۱۹) اگر یسوع آپ کے بارے میں کہتا کہ ”اس میں مکر نہیں“ تو یقیناً آپ خوش ہوتے۔
”ایک رحمدل اور دیانتدار سردارکاہن“
۱۴. مریم کے نیک کام پر لوگوں نے کیا کہا، لیکن یسوع کا کیا ردِعمل رہا؟
۱۴ یسوع مسیح ”اندیکھے خدا کی صورت“ ہونے کے ناطے ہر معاملے میں اپنے باپ کی سوچ رکھتا ہے۔ (کلسیوں ۱:۱۵) وہ بھی ان لوگوں کی قدر کرتا ہے جو خلوص سے خدا کی خدمت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اپنی موت کے پانچ دن پہلے یسوع اور اُس کے چند شاگردوں کو شہر بیتعنیاہ میں شمعون کے گھر بلایا گیا۔ ضیافت کے دوران لعزر کی بہن مریم نے ”جٹاماسی کا آدھ سیر خالص اور بیشقیمت عطر لے کر“ یسوع کے سر اور پاؤں پر ڈالا۔ (یوحنا ۱۲:۳) بعض لوگوں نے اعتراض کِیا کہ ”یہ کس لئے ضائع کِیا گیا؟“ لیکن یسوع نے مریم کو ٹوکا نہیں بلکہ اُس نے اُس کے اِس نیک کام کی بڑی قدر کی۔ یہ جان کر کہ اُسے جلد ہی قتل کِیا جائے گا، اُس نے مریم کے اِس نیک کام کو اپنے دفن کی تیاری کے طور پر خیال کِیا۔ اس لئے یسوع نے مریم کو یوں داد دی: ”تمام دُنیا میں جہاں کہیں اِس خوشخبری کی مُنادی کی جائے گی یہ بھی جو اِس نے کِیا اِس کی یادگاری میں کہا جائے گا۔“—متی ۲۶:۶-۱۳۔
۱۵، ۱۶. ہمیں اس بات سے کیا فائدہ حاصل ہے کہ یسوع نے انسان کے طور پر زندگی گزاری؟
۱۵ ہم بہت خوش ہیں کہ ہمارا رہنما یسوع مسیح اپنے پیروکاروں کی اتنی قدر کرتا ہے۔ انسان کے طور پر زندگی گزارنے سے یسوع کو ایک خاص کام کے لئے تیار کِیا گیا جو یہوواہ اُسے سونپنے والا تھا۔ اُسے سردارکاہن اور بادشاہ کے طور پر پہلے تو ممسوح مسیحیوں کی کلیسیا کو اور بعد میں پوری دُنیا کو فائدہ پہنچانا تھا۔—کلسیوں ۱:۱۳؛ عبرانیوں ۷:۲۶؛ مکاشفہ ۱۱:۱۵۔
۱۶ زمین پر آنے سے پہلے ہی یسوع کی خوشنودی بنیآدم میں تھی۔ (امثال ۸:۳۱) البتہ انسان کے طور پر زندگی گزارنے سے یسوع نے خود ان آزمائشوں کا تجربہ کِیا جن کا سامنا انسانوں کو ہوتا ہے۔ پولس رسول نے یسوع کے بارے میں لکھا: ”اُس کو سب باتوں میں اپنے بھائیوں کی مانند بننا لازم ہوا تاکہ . . . ایک رحمدل اور دیانتدار سردارکاہن بنے۔ کیونکہ جس صورت میں اُس نے خود ہی آزمایش کی حالت میں دُکھ اُٹھایا تو وہ ان کی بھی مدد کر سکتا ہے جن کی آزمایش ہوتی ہے۔“ چونکہ یسوع ”سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تو بھی بےگُناہ رہا“ اس لئے وہ ’ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد ہو سکتا ہے‘۔—عبرانیوں ۲:۱۷، ۱۸؛ ۴:۱۵، ۱۶۔
۱۷، ۱۸. (ا) ایشیائےکوچک کی سات کلیسیاؤں کے نام یسوع کے خطوط سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کی تکلیف کو سمجھتا ہے؟ (ب) یسوع کی مثال نے ممسوح مسیحیوں کو کس کام کے لئے تیار کِیا؟
۱۷ یسوع کے جی اُٹھنے کے بعد اُس کے پیروکاروں نے محسوس مکاشفہ ۲:۸-۱۰۔
کِیا کہ زمین پر رہنے سے اُس کی ہمدردی اَور بھی زیادہ بڑھ گئی تھی۔ یہ بات اُن خطوط سے واضح ہوتی ہے جنہیں یسوع نے یوحنا رسول کے ذریعے ایشیائےکوچک کی کلیسیاؤں کے نام لکھوائے۔ مثال کے طور پر سمرنہ کی کلیسیا سے یسوع نے کہا: ”مَیں تیری مصیبت اور غریبی کو جانتا ہوں۔“ دراصل یسوع اُن مسیحیوں سے یہ کہہ رہا تھا کہ ”مَیں پوری طرح سے سمجھتا ہوں کہ تمہیں کس قسم کی مشکلات کا سامنا ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ تُم کتنی تکلیف برداشت کر رہے ہو۔“ یسوع نے خود بھی مرتے دم تک تکلیف برداشت کی۔ اس لئے وہ بڑی ہمدردی سے سمرنہ کے مسیحیوں کی حوصلہافزائی کر سکتا تھا کہ ”جان دینے تک بھی وفادار رہ تو مَیں تجھے زندگی کا تاج دوں گا۔“—۱۸ ان سات کلیسیاؤں کے نام یسوع کے خطوط سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کی مشکلات سے خوب واقف ہے اور وہ اُن کی وفاداری کی قدر کرتا ہے۔ (مکاشفہ ۲:۱–۳:۲۲) غور کیجئے کہ یسوع ان خطوط میں ممسوح مسیحیوں سے مخاطب تھا جو آسمان پر اُس کے ساتھ حکمرانی کرنے کی اُمید رکھتے تھے۔ دراصل یسوع ان کے لئے ہمدردی اور مہربانی کی مثال قائم کر رہا تھا۔ آسمانی حکمرانوں کی حیثیت سے وہ یسوع کی جان کی قربانی کی بِنا پر انسانوں کو بہت سے فائدے پہنچائیں گے۔ ایسا کرنے میں وہ یسوع کی طرح بڑی ہمدردی دکھائیں گے۔—مکاشفہ ۵:۹، ۱۰؛ ۲۲:۱-۵۔
۱۹، ۲۰. دوسری بھیڑیں یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے لئے اپنی شکرگزاری کا اظہار کیسے کرتی ہیں؟
۱۹ ظاہری بات ہے کہ یسوع نہ صرف ممسوح مسیحیوں سے بلکہ اپنی لاکھوں ’دوسری بھیڑوں‘ سے بھی محبت رکھتا ہے۔ ان کو ”بڑی بِھیڑ“ بھی کہا جاتا ہے جو ”بڑی مصیبت“ میں سے بچ نکلے گی۔ (یوحنا ۱۰:۱۶؛ مکاشفہ ۷:۹، ۱۴) یہ لوگ یسوع کی جان کی قربانی اور ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کی بہت قدر کرتے ہیں۔ اپنی شکرگزاری کا اظہار کرتے ہوئے وہ ”رات دن [خدا] کی عبادت کرتے ہیں۔“—مکاشفہ ۷:۱۵-۱۷۔
۲۰ صفحہ ۲۸ تا ۳۱ پر ۲۰۰۶ کے خدمتی سال کی رپورٹ دی گئی ہے۔ اس رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہوواہ کے خادم واقعی ”رات دن اُس کی عبادت کرتے ہیں۔“ ممسوح مسیحیوں کے چھوٹے گروہ کے ساتھ ملکر دوسری بھیڑوں نے اس سال کُل ۱۹۹،۶۶،۳۹،۳۳،۱ گھنٹے مُنادی کے کام میں صرف کئے۔ ان گھنٹوں کا شمار ایک لاکھ ۵۰ ہزار سال سے کہیں زیادہ ہے۔
شکرگزاری دکھاتے رہیں
۲۱، ۲۲. (ا) آجکل مسیحیوں کو اپنی شکرگزاری ظاہر کرنے کے لئے چوکس کیوں رہنا پڑتا ہے؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
۲۱ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ وہ گنہگار انسانوں کے احساسات اور ان کی مشکلات کو پوری طرح سے سمجھتے ہیں۔ البتہ افسوس کی بات ہے کہ زیادہتر انسان خدا کی خدمت کرنے کی بجائے اپنی خواہشوں کو پورا کرنے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ پولس رسول نے لکھا کہ ”اخیر زمانہ میں“ لوگ ’خودغرض، زردوست اور ناشکر‘ ہوں گے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) ان کے برعکس سچے مسیحی ان تمام نعمتوں کی بہت قدر کرتے ہیں جن سے خدا نے اُنہیں نوازا ہے۔ یہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سچے دل سے دُعا کرتے، خدا کے فرمانبردار رہتے اور اُس کی خدمت میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔—زبور ۶۲:۸؛ مرقس ۱۲:۳۰؛ ۱-یوحنا ۵:۳۔
۲۲ اگلے مضمون میں ہم چند ایسی نعمتوں پر غور کریں گے جو یہوواہ ہمیں عطا کرتا ہے۔ ایسا کرنے سے ان ’اچھی بخششوں‘ کے لئے ہماری شکرگزاری اَور بھی بڑھ جائے گی۔—یعقوب ۱:۱۷۔
آپ کا جواب کیا ہے؟
• ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے خادموں کی قدر کرتا ہے؟
• ہم اُن کاموں سے جو ہم اکیلے میں کرتے ہیں، یہوواہ کا دل کیسے شاد کر سکتے ہیں؟
• یسوع نے اپنے پیروکاروں کی قدر کا اظہار کیسے کِیا؟
• انسان کے طور پر زندگی گزارنے سے یسوع میں ہمدردی کی خوبی کیسے بڑھ گئی؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
جیسا کہ ماں اپنی چھوٹی بیٹی کے تحفے کی قدر کرتی ہے اس طرح خدا ہماری پُرخلوص خدمت کی بھی قدر کرتا ہے