مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مذہب کا انتخاب—‏ایک اہم فیصلہ

مذہب کا انتخاب—‏ایک اہم فیصلہ

مذہب کا انتخاب—‏ایک اہم فیصلہ

ہر شخص اپنی ہی پسند کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔‏ مثال کے طور پر منڈی پر طرح طرح کی سبزیاں اور پھل بکتے ہیں اور ہم ان میں سے اپنے انتخاب کی سبزیاں اور پھل خریدتے ہیں۔‏ کپڑے کی دُکان پر ہم مختلف اسٹائل اور رنگ کے کپڑوں میں سے وہی خریدتے ہیں جو ہمیں سب سے اچھے لگتے ہیں۔‏ ایسے معاملوں میں اہم نہیں کہ ہمارا انتخاب کیا ہوگا۔‏ البتہ جو انتخاب ہم دوسرے معاملوں میں کرتے ہیں اس کا ہماری آئندہ کی خوشحالی پر بڑا اثر پڑ سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ اچھی خوراک خریدنے سے ہماری صحت برقرار رہے گی اور اچھے دوستوں کا انتخاب کرنے سے ہم خوش رہیں گے۔‏ تو پھر مذہب کے سلسلے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟‏ کیا ہمیں اپنی پسند کے مطابق اس کا انتخاب کرنا چاہئے؟‏ کیا یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ ہم کونسا مذہب اپناتے ہیں؟‏

دُنیا کے زیادہ‌تر ممالک میں لوگوں کو یہ قانونی حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کا انتخاب خود کریں۔‏ اور آج‌کل ان لوگوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے جو اپنے والدین کا مذہب چھوڑنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔‏ ایک جائزے کے مطابق ۸۰ فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ ”‏لوگ صرف ایک ہی مذہب کے ذریعے نہیں بلکہ بہت سے مختلف مذاہب کے ذریعے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔‏“‏ اس جائزے میں حصہ لینے والوں میں سے ”‏۲۰ فیصد نے بیان کِیا کہ اُنہوں نے بالغ‌پن میں اپنا مذہب بدل لیا۔‏“‏ ایک اَور جائزے کے مطابق مُلک برازیل کے تقریباً ۲۵ فیصد لوگوں نے اپنا مذہب بدل لیا ہے۔‏

ماضی میں لوگ اکثر مذہبی عقیدوں پر بحث کِیا کرتے۔‏ وہ مختلف مذاہب کی تعلیم کو یہ دیکھنے کے لئے جانچتے کہ کونسے عقیدے زیادہ درست ہیں۔‏ لیکن آج‌کل بہتیرے لوگوں کا خیال ہے کہ ”‏کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مَیں کونسا مذہب اپناتا ہوں۔‏“‏ کیا یہ نظریہ درست ہے؟‏ کیا اس بات سے آپ کی خوشحالی پر کوئی اثر پڑتا ہے کہ آپ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں؟‏

کسی چیز کو خریدنے سے پہلے ہم اس کے بارے میں سوال کرتے ہیں،‏ مثلاً ”‏یہ کہاں کی ہے؟‏“‏ اسی طرح مذہب کے سلسلے میں بھی یہ سوال کرنا مناسب ہے کہ ”‏ان مذاہب کا آغاز کیسے ہوا؟‏“‏ غور کیجئے کہ پاک صحائف میں اس سوال کا کیا جواب دیا گیا ہے۔‏

نئے مذہب کا آغاز کیسے ہوتا ہے؟‏

یسوع مسیح کے زمانے سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے،‏ یربعام بادشاہ نے ایک نئے مذہب کا آغاز کِیا۔‏ اُس وقت اسرائیل کی سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔‏ ایک تو یہوداہ کی سلطنت تھی اور دوسری شمالی اسرائیل کی سلطنت جس کا بادشاہ یربعام تھا۔‏ اپنی حکومت کو مضبوط بنانے کیلئے اُس نے اپنی رعایا کی حمایت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔‏ پاک صحائف میں اس کے بارے میں یوں بتایا گیا ہے:‏ ”‏اُس بادشاہ نے مشورت لیکر سونے کے دو بچھڑے بنائے اور لوگوں سے کہا یرؔوشلیم کو جانا تمہاری طاقت سے باہر ہے۔‏ اَے اؔسرائیل اپنے دیوتاؤں کو دیکھ۔‏“‏ (‏۱-‏سلاطین ۱۲:‏۲۸‏)‏ اس سے پہلے لوگ عبادت کیلئے یروشلیم جایا کرتے تھے جو یہوداہ کے علاقے میں واقع تھا۔‏ لیکن یربعام بادشاہ کو ڈر تھا کہ اس وجہ سے لوگ یہوداہ کے بادشاہ کی حمایت کرنے لگیں گے۔‏ اسلئے وہ لوگوں کو یروشلیم جانے سے روکنا چاہتا تھا۔‏ لہٰذا اُس نے ایک نئے مذہب کی بنیاد ڈالی۔‏ کئی صدیوں تک بہت سے اسرائیلی اس مذہب کی پیروی کرتے رہے۔‏ لیکن آخرکار یہ مذہب انکی بربادی کا باعث بنا کیونکہ خدا نے اسرائیلیوں کی بُت‌پرستی کی وجہ سے ان پر اپنا عذاب نازل کِیا۔‏ غور کیجئے کہ یربعام بادشاہ نے اپنی حکومت کو مضبوط بنانے کیلئے ہی اس نئے مذہب کو تشکیل دیا۔‏ اسی طرح کئی موجودہ مذاہب کی بنیاد بھی سیاسی طاقتوں کو مضبوط بنانے کی کوشش میں ڈالی گئی ہے۔‏

پولس رسول نے ایک اَور وجہ بتائی جس سے نئے مذاہب وجود میں آتے ہیں۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں یہ جانتا ہوں کہ میرے جانے کے بعد پھاڑنے والے بھیڑئے تُم میں آئیں گے جنہیں گلّہ پر کچھ ترس نہ آئے گا۔‏ اور خود تُم میں سے ایسے آدمی اٹھیں گے جو اُلٹی اُلٹی باتیں کہیں گے تاکہ شاگردوں کو اپنی طرف کھینچ لیں۔‏“‏ (‏اعمال ۲۰:‏۲۹،‏ ۳۰‏)‏ اس آیت کے عین مطابق کئی مغرور رہنماؤں نے مشہور بننے کی غرض سے مذہبی تحریکوں کا آغاز کِیا۔‏ بہت سے ایسے مذاہب جو عیسائی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں،‏ وہ اسی وجہ سے لاتعداد فرقوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔‏

گاہکوں کی مانگ

آج‌کل یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی مذہبی رہنما لوگوں کی پسند اور ناپسند کے مطابق نئے مذاہب کو وجود دیتے ہیں۔‏ حال ہی میں امریکہ میں بہت سے نئے چرچ وجود میں آئے ہیں اور ان کے ارکان کی تعداد میں بڑا اضافہ ہو رہا ہے۔‏ ایک جریدے میں اس کی وجہ یوں بتائی گئی ہے:‏ ”‏یہ چرچ اُس اصول پر عمل کرتے ہیں جسے ہر کاروباری بھی کام میں لاتا ہے،‏ یعنی گاہکوں کی ہر مانگ کو پورا کرو۔‏“‏ اس لئے ان چرچوں میں ”‏عبادت کے دوران ویڈیو اور ڈرامے دکھائے جاتے ہیں اور جدید قسم کی موسیقی پیش کی جاتی ہے۔‏“‏ ان چرچوں کے پادری اپنے واعظ میں لوگوں کو ”‏دولت اور اچھی صحت حاصل کرنے اور بےفکر رہنے“‏ کا فارمولا بتاتے ہیں۔‏ اکثر ان چرچوں کی نکتہ‌چینی کی جاتی ہے کیونکہ وہ تفریح اور ”‏نفسیاتی مشوروں کا انتظام کرتے ہوئے پیسے کماتے ہیں۔‏“‏ لیکن اس مضمون میں یہ بھی تسلیم کِیا گیا ہے کہ ”‏وہ تو محض لوگوں کی مانگ کو پورا کر رہے ہیں۔‏“‏ پھر مضمون میں یہ خلاصہ دیا گیا ہے:‏ ”‏کاروبار اور مذہب کا یہ ملاپ بہت ہی کامیاب رہا ہے۔‏“‏

یہ بات سچ ہے کہ زیادہ‌تر مذاہب اتنا کھلم‌کُھلا کاروبار نہیں چلاتے۔‏ لیکن پھر بھی وہ اکثر ’‏لوگوں کی مانگ کو پورا کرنے‘‏ کی کوشش میں ہوتے ہیں۔‏ ایسے مذاہب کے بارے میں جو اپنی تعلیم لوگوں کی خواہش کے مطابق ڈھالتے ہیں،‏ پولس رسول نے کہا:‏ ”‏ایسا وقت آئے گا کہ لوگ صحیح تعلیم کی برداشت نہ کریں گے بلکہ کانوں کی کھجلی کے باعث اپنی اپنی خواہشوں کے موافق بہت سے اُستاد بنا لیں گے۔‏ اور اپنے کانوں کو حق کی طرف سے پھیر کر کہانیوں پر متوجہ ہوں گے۔‏“‏—‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۳،‏ ۴‏۔‏

ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سے مذاہب کی بنیاد ایسے رہنماؤں نے ڈالی تھی جو سیاسی طاقت چاہتے تھے،‏ خودپرست تھے یا پھر لوگوں میں مقبولیت حاصل کرنا چاہتے تھے۔‏ اس صورت میں حیرانی کی بات نہیں کہ مذہب کے پردے پیچھے دھوکابازی،‏ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی،‏ جنگ اور دہشت‌گردی کو فروغ دیا جاتا ہے۔‏ بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ مذہب بذاتخود ایک دھوکا ہے۔‏ آپ دھوکا کھانے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۴ پر عبارت]‏

بہت سے مذاہب کی بنیاد ایسے رہنماؤں نے ڈالی تھی جو سیاسی طاقت چاہتے تھے،‏ خودپرست تھے یا پھر لوگوں میں مقبولیت حاصل کرنا چاہتے تھے