مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کا خوف مانیں اور خوش رہیں

یہوواہ کا خوف مانیں اور خوش رہیں

یہوواہ کا خوف مانیں اور خوش رہیں

‏”‏[‏یہوواہ]‏ سے ڈرو اَے اُسکے مُقدسو!‏ کیونکہ جو اُس سے ڈرتے ہیں اُنکو کچھ کمی نہیں۔‏“‏—‏زبور ۳۴:‏۹‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ پادری خدا کا خوف ماننے کے بارے میں لوگوں کو کونسی مختلف باتیں سکھاتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہم کن سوالوں پر غور کرینگے؟‏

بہتیرے پادری دوزخ کی آگ کی دھمکی دے کر لوگوں کو خدا کا خوف دلاتے ہیں۔‏ لیکن دوزخ کی تعلیم پاک صحائف میں نہیں پائی جاتی۔‏ اسکی بجائے ہمیں پاک صحائف میں بتایا جاتا ہے کہ خدا کی ذات محبت ہے اور اُسکی سب راہیں انصاف کی ہیں۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۹؛‏ استثنا ۳۲:‏۴؛‏ رومیوں ۶:‏۲۳؛‏ ۱-‏یوحنا ۴:‏۸‏)‏ کئی ایسے پادری بھی ہیں جو لوگوں کو یہ بالکل نہیں سکھاتے کہ اُنہیں خدا کو ناراض کرنے سے ڈرنا چاہئے۔‏ وہ کہتے ہیں کہ خدا کے نزدیک سب جائز ہے۔‏ اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا ہر شخص کو قبول کرتا ہے چاہے وہ کتنا ہی ہٹ‌دھرم اور بُرا کیوں نہ ہو۔‏ لیکن یہ بھی پاک صحائف کی تعلیم نہیں ہے۔‏—‏گلتیوں ۵:‏۱۹-‏۲۱‏۔‏

۲ دراصل پاک صحائف میں ہمیں خدا سے ڈرنے کی تاکید کی گئی ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۴:‏۷‏)‏ یہ جان کر شاید ہمارے دل میں چند سوال اُٹھیں۔‏ اگر خدا کی ذات محبت ہے تو وہ کیوں چاہتا ہے کہ ہم اُس سے ڈریں؟‏ خدا کا خوف رکھنے کا کیا مطلب ہے؟‏ خدا سے ڈرنے کے کونسے فائدے ہیں؟‏ ہم ان سوالوں کے جواب زبور ۳۴ کی باقی آیتوں پر غور کرنے سے حاصل کرینگے۔‏

ہمیں خدا کا خوف کیوں ماننا چاہئے؟‏

۳.‏ (‏ا)‏ آپ خدا سے ڈرنے کے بارے میں کیسا خیال کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا سے ڈرنے والوں کو مبارک کیوں کہا گیا ہے؟‏

۳ کائنات کا خالق اور حاکمِ‌اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اُس سے ڈریں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۷‏)‏ لیکن خدا سے ڈرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں یہوواہ کو ظالم خیال کرکے اُس سے ہول کھانا چاہئے۔‏ اسکی بجائے جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں وہ اُسکی عظمت کو مدِنظر رکھتے ہوئے دل سے اُسکا احترام کرتے ہیں۔‏ وہ احتیاط برتتے ہیں کہ اُن سے کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے خدا ناراض ہو جائے۔‏ خدا کے خوف سے ہم پر دہشت طاری نہیں ہوتی بلکہ ہمارا حوصلہ بڑھتا ہے۔‏ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ انسان خوش رہیں۔‏ لیکن خوش رہنے کیلئے اُنہیں اُسکے احکام پر عمل کرنا ہوگا۔‏ ایسا کرنے کیلئے اُنہیں اپنی سوچ اور چال‌چلن میں تبدیلیاں لانی ہونگے۔‏ جو لوگ خدا کو خوش کرنے کیلئے اپنی زندگی میں تبدیلیاں لاتے ہیں وہ زبورنویس کی اس بات سے متفق ہیں کہ ‏”‏آزما کر دیکھو کہ [‏یہوواہ]‏ کیسا مہربان ہے۔‏ مبارک ہے وہ آدمی جو اُس پر توکل کرتا ہے۔‏ [‏یہوواہ]‏ سے ڈرو اَے اُسکے مُقدسو!‏ کیونکہ جو اُس سے ڈرتے ہیں اُنکو کچھ کمی نہیں۔‏“‏ ‏(‏زبور ۳۴:‏۸،‏ ۹‏)‏ واقعی،‏ جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں اُنہیں کسی اہم چیز کی کمی نہیں کیونکہ اُنہیں خدا کی قربت حاصل ہے۔‏

۴.‏ داؤد اور یسوع نے اپنے پیروکاروں کو کس بات کا یقین دلایا؟‏

۴ غور کریں کہ زبور ۳۴:‏۹ میں داؤد اپنے ساتھیوں کو احتراماً ’‏خدا کے مُقدسو‘‏ کا لقب دیتا ہے۔‏ یہ لوگ نہ صرف خدا کی مقدس قوم میں سے تھے بلکہ وہ اپنی جان پر کھیل کر داؤد کا ساتھ بھی دے رہے تھے۔‏ ساؤل بادشاہ اُنکا پیچھا کر رہا تھا اور اُنکو آئے دن اُس سے بھاگنا پڑ رہا تھا۔‏ اسکے باوجود داؤد کو یقین تھا کہ یہوواہ خدا اُنکی بنیادی ضروریات کو پورا کریگا۔‏ داؤد نے لکھا:‏ ‏”‏ببر کے بچے تو حاجتمند اور بھوکے ہوتے ہیں پر [‏یہوواہ]‏ کے طالب کسی نعمت کے محتاج نہ ہونگے۔‏“‏ ‏(‏زبور ۳۴:‏۱۰‏)‏ اسی طرح یسوع مسیح نے بھی اپنے شاگردوں کو اس بات کا یقین دلایا کہ یہوواہ اُنکی بنیادی ضروریات کو پورا کریگا۔‏—‏متی ۶:‏۳۳‏۔‏

۵.‏ (‏ا)‏ یسوع کی باتوں پر کان لگانے والے بہت سے یہودیوں کو معاشرے میں کیسا خیال کِیا جاتا تھا؟‏ (‏ب)‏ یسوع نے خوف رکھنے کے بارے میں کیا ہدایت دی؟‏

۵ یسوع کی باتوں پر کان لگانے والے بہت سے یہودی حاجتمند تھے اور معاشرے میں اُنکی کوئی حیثیت نہ تھی۔‏ یسوع کو اِن ”‏لوگوں پر ترس آیا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند جنکا چرواہا نہ ہو خستہ‌حال اور پراگندہ تھے۔‏“‏ (‏متی ۹:‏۳۶‏)‏ یسوع کا ساتھ دینے کیلئے اِن لوگوں کو جُرأت‌مند ہونے کی ضرورت تھی۔‏ اُنہیں انسان کا خوف ترک کرکے خدا کا خوف ماننے کی بھی ضرورت تھی۔‏ یسوع نے اُن سے کہا:‏ ”‏ان سے نہ ڈرو جو بدن کو قتل کرتے ہیں اور اُسکے بعد اَور کچھ نہیں کر سکتے۔‏ لیکن مَیں تمہیں جتاتا ہوں کہ کس سے ڈرنا چاہئے۔‏ اس سے ڈرو جسکو اختیار ہے کہ قتل کرنے کے بعد جہنم میں ڈالے [‏یعنی ہمیشہ کیلئے ختم کر دے]‏۔‏ ہاں مَیں تُم سے کہتا ہوں کہ اسی سے ڈرو۔‏ کیا دو پیسے کی پانچ چڑیاں نہیں بکتیں؟‏ تو بھی خدا کے حضور ان میں سے ایک بھی فراموش نہیں ہوتی۔‏ بلکہ تمہارے سر کے سب بال بھی گنے ہوئے ہیں۔‏ ڈرو مت۔‏ تمہاری قدر تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ ہے۔‏“‏—‏لوقا ۱۲:‏۴-‏۷‏۔‏

۶.‏ (‏ا)‏ بہت سے مسیحیوں نے یسوع کے کن الفاظ سے حوصلہ پایا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یسوع مسیح نے خدا کا خوف ماننے کے سلسلے میں سب سے عمدہ مثال قائم کی؟‏

۶ کبھی‌کبھار دُشمن خدا کے خادموں کو اُسکی عبادت کرنے سے روکنا چاہتے ہیں۔‏ ایسی صورت میں جو خدا سے ڈرتے ہیں وہ یسوع کی اس ہدایت کو یاد کرتے ہیں:‏ ”‏جو کوئی آدمیوں کے سامنے میرا اقرار کریگا ابنِ‌آدم بھی خدا کے فرشتوں کے سامنے اسکا اقرار کریگا۔‏ مگر جو آدمیوں کے سامنے میرا انکار کرے خدا کے فرشتوں کے سامنے اسکا انکار کِیا جائیگا۔‏“‏ (‏لوقا ۱۲:‏۸،‏ ۹‏)‏ بہت سے مسیحیوں نے یسوع کی اِس ہدایت سے حوصلہ پایا ہے۔‏ یہ بات خاص طور پر ایسے ممالک میں رہنے والے مسیحیوں کے بارے میں سچ ہے جہاں یہوواہ خدا کی عبادت کرنے پر پابندی ہے۔‏ اِن ممالک میں بھی یہوواہ کے خادم باقاعدگی سے عبادت کیلئے جمع ہوتے ہیں اور تبلیغی کام میں بھی حصہ لیتے ہیں لیکن وہ ہوشمندی اور احتیاط سے ایسا کرتے ہیں۔‏ (‏اعمال ۵:‏۲۹‏)‏ ”‏خداترسی“‏ یعنی خدا کا خوف ماننے میں یسوع مسیح نے سب سے اچھی مثال قائم کی۔‏ (‏عبرانیوں ۵:‏۷‏)‏ اُسکے بارے میں یوں نبوّت کی گئی:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی روح اُس پر ٹھہریگی۔‏ .‏ .‏ .‏ [‏یہوواہ]‏ کے خوف کی روح۔‏ اور اُسکی شادمانی [‏یہوواہ]‏ کے خوف میں ہوگی۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۱۱:‏۲،‏ ۳‏)‏ چونکہ یسوع خدا کا خوف رکھنے کے فائدوں کو اچھی طرح سے جانتا ہے اسلئے وہ ہمیں انکے بارے میں سکھا سکتا ہے۔‏

۷.‏ (‏ا)‏ یسوع نے ہمیں کونسی ہدایت دی ہے؟‏ (‏ب)‏ والدین داؤد کی اچھی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۷ داؤد کی طرح یسوع بھی لوگوں کو یہ ہدایت دے رہا تھا کہ ‏”‏اَے بچو!‏ آؤ میری سنو۔‏ مَیں تُم کو خداترسی سکھاؤنگا۔‏“‏ ‏(‏زبور ۳۴:‏۱۱‏)‏ داؤد اپنے ساتھیوں سے ”‏اَے بچو“‏ کہہ کر مخاطب ہوا کیونکہ وہ اُنکا پیشوا تھا۔‏ داؤد نے اُنکو خدا کا خوف رکھنے کی اہمیت سکھائی تاکہ وہ متحد ہو کر خدا کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔‏ ایسا کرنے میں داؤد نے مسیحی والدین کیلئے کیا ہی عمدہ مثال قائم کی۔‏ یہوواہ خدا نے والدین کو حکم دیا ہے کہ وہ ’‏یہوواہ کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر اپنے بچوں کی پرورش کریں۔‏‘‏ (‏افسیوں ۶:‏۴‏)‏ جب والدین روزانہ اپنے بچوں کیساتھ روحانی موضوعات پر بات‌چیت کرتے ہیں اور باقاعدگی سے اُنکو پاک صحائف کی تعلیم دیتے ہیں تو بچے خدا کا خوف کرنا سیکھ جاتے ہیں۔‏ اور اسطرح بچوں کو زندگی میں خوشی بھی حاصل ہوگی۔‏—‏استثنا ۶:‏۶،‏ ۷‏۔‏

اپنے چال‌چلن سے خدا کا خوف ظاہر کریں

۸،‏ ۹.‏ (‏ا)‏ زبور ۳۴:‏۱۲ کے مطابق خدا سے ڈرنے والوں کو کیا حاصل ہوگا؟‏ (‏ب)‏ زبان کو بدی سے باز رکھنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۸ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں،‏ خدا سے ڈرنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم زندگی کا لطف نہیں اُٹھا سکتے۔‏ داؤد نے پوچھا:‏ ‏”‏وہ کون آدمی ہے جو زندگی کا مشتاق ہے اور بڑی عمر چاہتا ہے تاکہ بھلائی دیکھے؟‏“‏ ‏(‏زبور ۳۴:‏۱۲‏)‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں اُنکی عمر دراز ہوگی اور وہ زندگی سے خوش ہونگے۔‏ لیکن یہ دعویٰ کرنا آسان ہے کہ ”‏مَیں خدا سے ڈرتا ہوں،‏“‏ جبکہ اس دعوے پر پورا اُترنا اتنا آسان نہیں۔‏ اس وجہ سے داؤد اگلی چند آیتوں میں بتاتا ہے کہ ہم اپنے چال‌چلن سے کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم واقعی خدا سے ڈرتے ہیں۔‏

۹ ‏”‏اپنی زبان کو بدی سے باز رکھ اور اپنے ہونٹوں کو دغا کی بات سے۔‏“‏ ‏(‏زبور ۳۴:‏۱۳‏)‏ جب پطرس رسول نے خدا کے الہام سے مسیحیوں کو ایک دوسرے سے محبت رکھنے کو کہا تو اُس نے زبور ۳۴ کی اِس آیت کا حوالہ دیا۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۸-‏۱۲‏)‏ اپنی زبان کو بدی سے باز رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں جھوٹی باتیں نہ پھیلائیں۔‏ اسکی بجائے ہماری یہی کوشش ہونی چاہئے کہ ہم اپنی باتوں سے لوگوں کی حوصلہ‌افزائی کریں۔‏ اسکے علاوہ ہم ہمیشہ سچ بھی بولینگے۔‏—‏افسیوں ۴:‏۲۵،‏ ۲۹،‏ ۳۱؛‏ یعقوب ۵:‏۱۶‏۔‏

۱۰.‏ (‏ا)‏ بدی کو چھوڑنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ (‏ب)‏ نیکی کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۱۰ ‏”‏بدی کو چھوڑ اور نیکی کر۔‏ صلح کا طالب ہو اور اُسی کی پیروی کر۔‏“‏ ‏(‏زبور ۳۴:‏۱۴‏)‏ ہم ان کاموں سے کنارہ کرتے ہیں جن سے خدا کو نفرت ہے۔‏ ان میں جنسی بداخلاقی،‏ فحاشی،‏ چوری،‏ جادوٹونا،‏ تشدد،‏ حد سے زیادہ شراب پینا اور منشیات لینا شامل ہیں۔‏ ہم ایسی موسیقی،‏ فلموں،‏ کتابوں وغیرہ سے بھی کنارہ کرینگے جن میں ایسی بیہودہ باتیں شامل ہیں۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ اسکی بجائے ہم اپنا وقت نیکی کرنے میں صرف کرینگے۔‏ سب سے بڑی نیکی جو ہم کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو بادشاہت کی خوشخبری سنائیں اور اُنکو پاک صحائف کی تعلیم دیں تاکہ وہ بھی یسوع کے شاگرد بن سکیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ نیکی کرنے میں مسیحی اجلاسوں کے مواد کی تیاری کرنا اور باقاعدگی سے اجلاسوں پر حاضر ہونا بھی شامل ہے۔‏ ہم مُنادی کے کام کو فروغ دینے کیلئے عطیات بھی دیتے ہیں اور اپنی عبادت‌گاہ کی دیکھ‌بھال بھی کرتے ہیں۔‏ اسکے علاوہ ہم حاجتمند مسیحیوں کی بھی مدد کرتے ہیں۔‏

۱۱.‏ (‏ا)‏ داؤد نے صلح کا طالب ہونے میں اچھی مثال کیسے قائم کی؟‏ (‏ب)‏ کلیسیا کے اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏

۱۱ داؤد نے صلح کا طالب ہونے میں بھی اچھی مثال قائم کی۔‏ دو مرتبہ اُسے ساؤل بادشاہ کو جان سے مارنے کا موقع ملا لیکن ان دونوں موقعوں پر اُس نے ساؤل پر ہاتھ نہ اُٹھایا۔‏ اسکی بجائے داؤد نے بڑی عاجزی سے ساؤل سے بات کی۔‏ اُسکی یہی کوشش تھی کہ اُن میں صلح ہو جائے۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۲۴:‏۸-‏۱۱؛‏ ۲۶:‏۱۷-‏۲۰‏)‏ اگر مسیحیوں میں کوئی ایسی بدمزگی پیش آئے جس سے کلیسیا کے اتحاد کو خطرہ ہو تو وہ کیا کر سکتے ہیں؟‏ ایسی صورت میں ہمیں بھی ’‏صلح کا طالب ہونا اور اُسی کی پیروی کرنی‘‏ چاہئے۔‏ اگر ہمیں یوں لگے کہ ہمارا مسیحی بھائی یا بہن ہم سے خفا ہے تو ہمیں یسوع کی اس ہدایت پر عمل کرنا چاہئے:‏ ”‏جا کر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر۔‏“‏ ایسا کرنے کے بعد ہم پورے دل سے یہوواہ کی عبادت اور خدمت جاری رکھ سکیں گے۔‏—‏متی ۵:‏۲۳،‏ ۲۴؛‏ افسیوں ۴:‏۲۶‏۔‏

خدا کا خوف رکھنے کے فائدے

۱۲،‏ ۱۳.‏ (‏ا)‏ خدا کا خوف ماننے والوں کے بارے میں کونسی بات سچ ثابت ہو رہی ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ کے خادموں کو کونسا اعزاز ملنے والا ہے؟‏

۱۲ ‏”‏[‏یہوواہ]‏ کی نگاہ صادقوں پر ہے۔‏ اور اُسکے کان اُنکی فریاد پر لگے رہتے ہیں۔‏“‏ ‏(‏زبور ۳۴:‏۱۵‏)‏ یہ الفاظ داؤد کے بارے میں بالکل سچ ثابت ہوئے اور یہی بات آج بھی خدا کے خادموں کے بارے میں سچ ثابت ہو رہی ہے۔‏ یہ جان کر کہ یہوواہ خدا ہمارا ساتھ دے رہا ہے ہم مطمئن اور خوش رہتے ہیں۔‏ چاہے ہمیں کتنی ہی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کیوں نہ ہو ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمیشہ ہماری ضروریات کو پورا کریگا۔‏ ’‏یہوواہ کا خوفناک روزِعظیم‘‏ جلد آنے والا ہے جب جوج کا ماجوج یعنی شیطان،‏ خدا کے خادموں پر حملہ کریگا۔‏ (‏یوایل ۲:‏۱۱،‏ ۳۱؛‏ حزقی‌ایل ۳۸:‏۱۴-‏۱۸،‏ ۲۱-‏۲۳‏)‏ اُس وقت خدا کے خادموں کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا ہوگا۔‏ لیکن ہمیں یقین ہے کہ داؤد کے یہ الفاظ ہم پر بھی سچ ثابت ہونگے:‏ ‏”‏صادق چِلائے اور [‏یہوواہ]‏ نے سنا اور اُنکو اُنکے سب دُکھوں سے چھڑایا۔‏“‏‏—‏زبور ۳۴:‏۱۷‏۔‏

۱۳ اُس وقت ہم یہ دیکھ کر بھی خوش ہونگے کہ پوری کائنات میں یہوواہ خدا کی عظمت مانی جائیگی۔‏ ‏”‏[‏یہوواہ]‏ کا چہرہ بدکاروں کے خلاف ہے تاکہ اُنکی یاد زمین پر سے مٹا دے۔‏“‏ ‏(‏زبور ۳۴:‏۱۶‏)‏ جی‌ہاں،‏ جب خدا اپنے تمام دُشمنوں کو ختم کر دیگا تو ہمارے دل میں یہوواہ خدا کا احترام اَور بھی بڑھ جائیگا۔‏ بھلا ہمارے لئے اس سے بڑا اعزاز کیا ہو سکتا ہے کہ ہم اس بُری دُنیا سے نجات پا کر خدا کی نئی زمین کا حصہ بن سکیں؟‏

تسلی‌بخش اُمید

۱۴.‏ چند ایسے صحیفوں کا ذکر کریں جو ہمارے لئے مصیبتوں کا سامنا کرتے وقت فائدہ‌مند ثابت ہونگے۔‏

۱۴ شیطان کی بُری دُنیا میں مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود یہوواہ کے خادم اُسکے فرمانبردار رہ رہے ہیں۔‏ ایسا کرنا آسان نہیں ہے۔‏ ہم تب ہی یہوواہ خدا کے فرمانبردار رہ سکتے ہیں جب ہمارے دل میں اُسکا خوف بسا ہو۔‏ چونکہ ہم بُرے دنوں میں رہ رہے ہیں اسلئے خدا کے کئی خادموں کو بہت بڑے مسائل کا سامنا ہے جنکی وجہ سے وہ شکستہ‌دل اور مایوس ہو سکتے ہیں۔‏ لیکن اگر وہ یہوواہ خدا پر پورا بھروسہ رکھینگے تو یہوواہ اُنکو ایمان پر مضبوطی سے قائم رہنے میں مدد دیگا۔‏ داؤد کی یہ بات کتنی تسلی‌بخش ہے کہ ‏”‏[‏یہوواہ]‏ شکستہ دلوں کے نزدیک ہے اور خستہ جانوں کو بچاتا ہے۔‏“‏ ‏(‏زبور ۳۴:‏۱۸‏)‏ داؤد نے یہ بھی کہا کہ ‏”‏صادق کی مصیبتیں بہت ہیں لیکن [‏یہوواہ]‏ اُسکو اُن سب سے رِہائی بخشتا ہے۔‏“‏ ‏(‏زبور ۳۴:‏۱۹‏)‏ جی‌ہاں،‏ چاہے ہم پر کتنی ہی آفتیں اور مصیبتیں کیوں نہ ٹوٹ پڑیں،‏ یہوواہ خدا ہمیں اُن سب میں سے بچا سکتا ہے۔‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ (‏ا)‏ زبور ۳۴ کو لکھنے کے کچھ عرصہ بعد داؤد کو کونسی خبر ملی؟‏ (‏ب)‏ ہم کس اُمید کے سہارے آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت اپنے ایمان پر قائم رہتے ہیں؟‏

۱۵ زبور ۳۴ کو لکھنے کے کچھ عرصہ بعد ہی داؤد کو خبر ملی کہ ساؤل بادشاہ نے شہر نوب کے باشندوں اور زیادہ‌تر کاہنوں کو مروا ڈالا ہے۔‏ یہ سُن کر داؤد کو کتنا دُکھ ہوا ہوگا۔‏ وہ جانتا تھا کہ یہ آفت اُن لوگوں پر اُسی کی وجہ سے آن پڑی۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۲۲:‏۱۳،‏ ۱۸-‏۲۱‏)‏ اِس ہولناک خبر کو سُن کر داؤد نے ضرور یہوواہ خدا سے فریاد کی ہوگی۔‏ یقیناً اُس نے یہ جان کر بھی تسلی پائی ہوگی کہ مستقبل میں تمام ’‏راستباز‘‏ زندہ کئے جائینگے۔‏—‏اعمال ۲۴:‏۱۵‏۔‏

۱۶ یہی اُمید ہمارے لئے بھی تسلی کا باعث ہے۔‏ ہم جانتے ہیں کہ چاہے ہمارے دُشمن ہمارے ساتھ کیسا بھی سلوک کریں،‏ وہ ہمیں ہمیشہ کیلئے ختم نہیں کر سکتے۔‏ (‏متی ۱۰:‏۲۸‏)‏ داؤد کو بھی اس بات کا یقین تھا۔‏ اُس نے لکھا کہ ‏”‏[‏خدا صادق]‏ کی سب ہڈیوں کو محفوظ رکھتا ہے۔‏ اُن میں سے ایک بھی توڑی نہیں جاتی۔‏“‏ ‏(‏زبور ۳۴:‏۲۰‏)‏ یہ پیشینگوئی پہلے تو یسوع مسیح میں تکمیل پائی۔‏ حالانکہ اُسکو بڑی بےرحمی سے قتل کِیا گیا لیکن اُسکی ایک بھی ہڈی نہ توڑی گئی۔‏ (‏یوحنا ۱۹:‏۳۶‏)‏ اسکے علاوہ یہ پیشینگوئی ممسوح مسیحیوں اور ’‏دوسری بھیڑوں‘‏ پر بھی لاگو ہوتی ہے۔‏ خدا کا وعدہ ہے کہ چاہے اُنہیں کتنی ہی آزمائشوں کا سامنا کیوں نہ ہو،‏ کوئی بھی اُنہیں ہمیشہ کیلئے ختم نہیں کر سکیگا۔‏ لہٰذا وہ جانتے ہیں کہ علامتی طور پر اُنکی سب ہڈیاں محفوظ رکھی جائینگی۔‏—‏یوحنا ۱۰:‏۱۶‏۔‏

۱۷.‏ یہوواہ کے بندوں کے دُشمنوں پر کونسی آفت ٹوٹ پڑیگی؟‏

۱۷ البتہ بدکار لوگ کوئی ایسی اُمید نہیں رکھ سکتے۔‏ جلد ہی اُنہیں اپنے بُرے کاموں کی سزا بھگتنی پڑیگی۔‏ ‏”‏بدی شریر کو ہلاک کر دیگی اور صادق سے عداوت رکھنے والے مُجرم ٹھہرینگے۔‏“‏ ‏(‏زبور ۳۴:‏۲۱‏)‏ جی‌ہاں،‏ جو لوگ خدا کے بندوں کو اذیت پہنچاتے ہیں وہ یسوع مسیح کے ہاتھ ”‏ابدی ہلاکت کی سزا پائینگے۔‏“‏—‏۲-‏تھسلنیکیوں ۱:‏۹‏۔‏

۱۸.‏ ”‏بڑی بِھیڑ“‏ ابھی سے ہی یسوع کے بہائے ہوئے خون سے کیا فائدہ حاصل کر رہی ہے اور مستقبل میں وہ اسکی بِنا پر کیا فائدہ حاصل کریگی؟‏

۱۸ زبور ۳۴ اس تسلی کیساتھ ختم ہوتا ہے:‏ ‏”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے بندوں کی جان کا فدیہ دیتا ہے اور جو اُس پر توکل کرتے ہیں اُن میں سے کوئی مُجرم نہ ٹھہریگا۔‏“‏ ‏(‏زبور ۳۴:‏۲۲‏)‏ بنی‌اسرائیل پر ۴۰ سال حکومت کرنے کے بعد جب داؤد مرنے کو تھا تو اُس نے کہا کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ .‏ .‏ .‏ نے میری جان کو ہر طرح کی آفت سے رِہائی دی۔‏“‏ (‏۱-‏سلاطین ۱:‏۲۹‏)‏ جو لوگ خدا کا خوف مانتے ہیں بہت جلد وہ بھی داؤد کی طرح خوشی منا سکیں گے کیونکہ اُنکا ضمیر اُنکو کسی گُناہ کی وجہ سے مُجرم نہ ٹھہرائیگا اور اُنکو اپنی تمام مصیبتوں سے رِہائی بھی حاصل ہوگی۔‏ ہم جانتے ہیں کہ یسوع کے زیادہ‌تر ممسوح بھائی آسمان پر جا چکے ہیں۔‏ اِن میں سے جو ابھی تک زمین پر زندہ ہیں اُنکے ساتھ ایک ”‏بڑی بِھیڑ“‏ یہوواہ خدا کی خدمت کر رہی ہے۔‏ خطاکار ہونے کے باوجود ”‏بڑی بِھیڑ“‏ میں شامل لوگ ابھی سے ہی یہوواہ خدا کے سامنے صاف ضمیر رکھ سکتے ہیں کیونکہ وہ ایمان لائے ہیں کہ یسوع کا بہایا ہوا خون اُنکے تمام گُناہوں کو مٹا سکتا ہے۔‏ اور یسوع مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران وہ یسوع کی جان کی قربانی کی بِنا پر ہر لحاظ سے گُناہ کے اثر سے پاک ہو جائینگے۔‏—‏مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۴،‏ ۱۷؛‏ ۲۱:‏۳-‏۵‏۔‏

۱۹.‏ ”‏بڑی بِھیڑ“‏ میں شامل لوگ کیا کرنے کا پکا ارادہ رکھتے ہیں؟‏

۱۹ یہوواہ خدا اِس ”‏بڑی بِھیڑ“‏ کو اِن تمام برکتوں سے کیوں نوازے گا؟‏ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اُسکا خوف مانتے اور دل سے اُسکا احترام کرتے ہوئے اُسکی خدمت کر رہے ہیں۔‏ وہ اُسکی عزت اور تعظیم کرتے ہوئے اُسکے فرمانبردار بھی ہیں۔‏ اور اُنکا پکا ارادہ ہے کہ وہ آئندہ بھی اسی طرح سے یہوواہ خدا کی عبادت کرتے رہینگے۔‏ یہوواہ کا خوف ماننے سے ہماری زندگی خوشگوار بن جاتی ہے اور ہم ’‏حقیقی زندگی پر قبضہ کرنے‘‏ کے قابل بھی ہو جاتے ہیں۔‏ جی‌ہاں،‏ خدا کا خوف ماننے والے اُسکی نئی زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۲،‏ ۱۸،‏ ۱۹؛‏ مکاشفہ ۱۵:‏۳،‏ ۴‏۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• ہمیں خدا سے کیوں ڈرنا چاہئے اور خدا کا خوف رکھنے کا کیا مطلب ہے؟‏

‏• ہم اپنے چال‌چلن سے کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہمارے دل میں خدا کا خوف بسا ہے؟‏

‏• خدا سے ڈرنے والوں کو کونسے فائدے حاصل ہیں؟‏

‏• ہم کس اُمید اور کونسی تسلی کے سہارے اپنے ایمان پر قائم رہتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۸ پر تصویر]‏

جب یہوواہ خدا کی عبادت کرنے پر پابندی عائد ہو تو اُسکا خوف ماننے والے احتیاط سے کام لیتے ہیں

‏[‏صفحہ ۳۰ پر تصویر]‏

سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ ہم لوگوں کو خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنائیں