مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یرمیاہ کی کتاب سے اہم نکات

یرمیاہ کی کتاب سے اہم نکات

یہوواہ کا کلام زندہ ہے

یرمیاہ کی کتاب سے اہم نکات

یرمیاہ نے اپنے لوگوں پر آنے والی جن آفتوں کا اعلان کِیا وہ یقیناً ہولناک رہی ہوں گی!‏ تین صدیوں سے پرستش کے مرکز کے طور پر استعمال ہونے والی عالیشان ہیکل برباد ہو جائے گی۔‏ شہر یروشلیم اور یہوداہ کا ملک ویران ہو جائے گا اور اس کے باشندے اسیر کر لئے جائیں گے۔‏ یہ واقعات اور دیگر عدالتی فیصلے بائبل کی دوسری بڑی کتاب یرمیاہ میں درج ہیں۔‏ یہ کتاب ۶۷ سالوں پر مشتمل یرمیاہ کی وفاداری سے کی جانے والی خدمت کے دوران پیش آنے والی باتوں کو بیان کرتی ہے۔‏ اس کتاب میں تمام معلومات تاریخی ترتیب کی بجائے موضوع کے اعتبار سے پیش کی گئی ہیں۔‏

ہمیں یرمیاہ کی کتاب میں کیوں دلچسپی لینی چاہئے؟‏ اس کی تکمیل‌شُدہ پیشینگوئیاں وعدوں کو پورا کرنے والے کے طور پر یہوواہ خدا پر ہمارے ایمان کو مضبوط کرتی ہیں۔‏ (‏یسعیاہ ۵۵:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ نبی کے طور پر یرمیاہ کا کام اور اس کے پیغام کے لئے لوگوں کا ردعمل ہمارے زمانے سے مماثلت رکھتا ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۱‏)‏ مزیدبرآں،‏ اپنے لوگوں کے ساتھ یہوواہ کے برتاؤ کا ریکارڈ اس کی خوبیوں کو نمایاں کرتا ہے اور ہم پر اس کا گہرا اثر ہونا چاہئے۔‏—‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏۔‏

‏”‏میرے لوگوں نے دو بُرائیاں کیں“‏

‏(‏یرمیاہ ۱:‏۱–‏۲۰:‏۱۸‏)‏

یرمیاہ کو نبی کی ذمہ‌داری ۶۰۷ قبل‌ازمسیح میں یروشلیم کی تباہی سے ۴۰ سال پہلے شاہِ‌یہوداہ یوسیاہ کی حکومت کے ۱۳ ویں سال میں ملی۔‏ (‏یرمیاہ ۱:‏۱،‏ ۲‏)‏ یوسیاہ بادشاہ کی حکومت کے آخری ۱۸ سالوں کے دوران سنائے جانے والے زیادہ‌تر عدالتی فیصلوں نے یہوداہ کی بدی کو فاش کِیا اور اس کے خلاف سزا سنائی۔‏ یہوواہ نے فرمایا:‏ ”‏مَیں یرؔوشلیم کو کھنڈر اور گیدڑوں کا مسکن بنا دوں گا اور یہوؔداہ کے شہروں کو ایسا ویران کروں گا کہ کوئی باشندہ نہ رہے گا۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۹:‏۱۱‏)‏ کیوں؟‏ اسلئےکہ ”‏میرے لوگوں نے دو بُرائیاں کیں۔‏“‏—‏یرمیاہ ۲:‏۱۳‏۔‏

اس پیغام میں تائب بقیے کی بحالی کا ذکر بھی کِیا گیا تھا۔‏ (‏یرمیاہ ۳:‏۱۴-‏۱۸؛‏ ۱۲:‏۱۴،‏ ۱۵؛‏ ۱۶:‏۱۴-‏۲۱‏)‏ تاہم،‏ یرمیاہ کو نبی کے طور پر قبول نہیں کِیا گیا۔‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے گھر میں سردار ناظم“‏ یرمیاہ کو مارپیٹ کر ساری رات کاٹھ میں ٹھونک دیتا ہے۔‏—‏یرمیاہ ۲۰:‏۱-‏۳‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۱:‏۱۱،‏ ۱۲‏—‏یہوواہ خدا کے اپنے کلام کو پورا کرنے کے لئے بیدار رہنے کو ”‏بادام کے درخت کی ایک شاخ“‏ سے کیوں جوڑا گیا ہے؟‏ ‏”‏بادام کا درخت“‏ موسمِ‌بہار میں سب سے پہلے پھوٹنے والے درختوں میں سے ہے۔‏ یہوواہ علامتی مفہوم میں اپنے عدالتی فیصلوں سے آگاہ کرنے کے لئے ”‏جلدی اٹھتا اور [‏اپنے نبیوں کو]‏ بھیجتا ہے“‏ اور جب تک ان کی تکمیل نہیں ہو جاتی ”‏بیدار رہتا“‏ ہے۔‏—‏یرمیاہ ۷:‏۲۵‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔‏

۲:‏۱۰،‏ ۱۱‏—‏کس بات نے بےوفا اسرائیلیوں کے کاموں کو عجیب بنا دیا تھا؟‏ ہو سکتا ہے کہ مغرب کی طرف کِتیم اور مشرق کی طرف قیدار کی بت‌پرست قوموں نے دوسری قوموں کے دیوتاؤں کو اپنے دیوتاؤں میں شامل کر لیا تھا۔‏ لیکن یہ بات کبھی سننے میں نہیں آئی تھی کہ انہوں نے اپنے دیوتاؤں کو چھوڑ کر غیرقوموں کے دیوتاؤں کو اَپنا لیا ہو۔‏ اِس کے برعکس،‏ اسرائیلیوں نے زندہ خدا کی بجائے بےجان بتوں کی بڑائی کرنا شروع کر دی تھی۔‏

۳:‏۱۱-‏۲۲؛‏ ۱۱:‏۱۰-‏۱۲،‏ ۱۷‏—‏سامریہ کے ۷۴۰ قبل‌ازمسیح میں برباد ہو جانے کے باوجود یرمیاہ نے عدالتی فیصلے سناتے وقت دس قبائلی سلطنت کو کیوں شامل کر لیا؟‏ سن ۶۰۷ قبل‌ازمسیح میں یروشلیم کی تباہی یہوداہ کی بجائے سارے اسرائیل پر یہوواہ کے عدالتی فیصلے کا اظہار تھا۔‏ (‏حزقی‌ایل ۹:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ مزیدبرآں،‏ اپنے زوال کے بعد اسرائیل کی دس قبائلی سلطنت کی بحالی یروشلیم ہی سے جڑی ہوئی تھی۔‏ اس وجہ سے خدا کے نبیوں کے پیغامات اسرائیلیوں کو بھی سنائے گئے تھے۔‏

۴:‏۳،‏ ۴‏—‏اس حکم سے کیا مراد ہے؟‏ بےوفا یہودیوں کو اپنے دلوں کی زمین کو تیار کرنے،‏ نرم کرنے اور صاف کرنے کی ضرورت تھی۔‏ انہیں اپنے دلوں کا ”‏ختنہ“‏ کرنا یعنی اپنے دلوں سے ناپاک خیالات،‏ احساسات اور ارادوں کو دُور کرنا تھا۔‏ (‏یرمیاہ ۹:‏۲۵،‏ ۲۶؛‏ اعمال ۷:‏۵۱‏)‏ انہیں اپنے طورطریقے بدلنے اور بُرے کاموں کو چھوڑ کر خدا کی مرضی کے مطابق کام کرنے تھے۔‏

۴:‏۱۰؛‏ ۱۵:‏۱۸‏—‏کس مفہوم میں یہوواہ نے باغی لوگوں کو دغا دی؟‏ یرمیاہ کے دنوں میں ایسے نبی بھی تھے جو ”‏جھوٹی نبوّت“‏ کر رہے تھے۔‏ (‏یرمیاہ ۵:‏۳۱؛‏ ۲۰:‏۶؛‏ ۲۳:‏۱۶،‏ ۱۷،‏ ۲۵-‏۲۸،‏ ۳۲‏)‏ یہوواہ نے انہیں گمراہ‌کُن پیغامات سنانے سے نہ روکا۔‏

۱۶:‏۱۶‏—‏اس بات کا کیا مطلب ہے کہ یہوواہ ”‏بہت سے ماہی‌گیروں“‏ اور ”‏بہت سے شکاریوں“‏ کو بلائے گا؟‏ یہ بےوفا یہودیوں کو تلاش کرنے کے لئے استعمال ہونے والی دشمن فوجوں کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے۔‏ کیونکہ یہوواہ خدا ان بےوفا یہودیوں کو سزا دینا چاہتا تھا۔‏ تاہم،‏ یہ آیت یرمیاہ ۱۶:‏۱۵ کے پیشِ‌نظر تائب اسرائیلیوں کو تلاش کرنے کی طرف بھی اشارہ کر سکتی ہے۔‏

۲۰:‏۷‏—‏یہوواہ یرمیاہ سے کیسے ”‏توانا“‏ ثابت ہوا اور اُس نے کیسے اُسے ترغیب دی تھی؟‏ یہوواہ کے عدالتی فیصلوں کا اعلان کرتے وقت یرمیاہ نے لوگوں کی لاپرواہی،‏ انکار اور اذیت کی وجہ سے محسوس کِیا کہ وہ یہوواہ کی خدمت جاری رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔‏ تاہم،‏ یہوواہ نے یرمیاہ کو خدمت جاری رکھنے کے لئے طاقت بخشنے سے ایسے رجحانات کے خلاف اپنی قوت کو استعمال کِیا۔‏ یوں یہوواہ یرمیاہ نبی سے توانا ثابت ہوا اور اُسے وہ کام انجام دینے کی ترغیب دی جو اُس کے نزدیک ناممکن تھا۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱:‏۸‏۔‏ یہوواہ بعض‌اوقات اپنے لوگوں کو اذیت سے بچا لیتا ہے۔‏ ایسا کرنے کے لئے وہ شاید غیرجانبدار ججوں،‏ سخت‌دل سرکاری انسانوں کی جگہ رحم‌دل لوگوں کو استعمال کر سکتا ہے۔‏ یا پھر اپنے پرستاروں کو قوتِ‌برداشت عطا کر سکتا ہے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۳‏۔‏

۲:‏۱۳،‏ ۱۸‏۔‏ بےوفا اسرائیلیوں نے دو بُرائیاں کی تھیں۔‏ انہوں نے اُس خدا کو چھوڑ دیا جس نے انہیں برکت بخشنے کے علاوہ ان کی راہنمائی اور حفاظت بھی کی تھی۔‏ انہوں نے مصر اور اُسور کے ساتھ عسکری اتحاد کر لینے سے اپنے ہی علامتی حوض سے خود کو دُور کر لیا تھا۔‏ آجکل بھی سچے خدا کو چھوڑ کر انسانی فیلسوفیوں اور نظریات کی حمایت کرنا ”‏آبِ‌حیات کے چشمہ“‏ کو ترک کرکے اپنے لئے ”‏شکستہ حوض“‏ کھودنے کی مانند ہے۔‏

۶:‏۱۶‏۔‏ یہوواہ باغی لوگوں کو رک کر اپنا جائزہ لینے اور اپنے باپ‌دادا کے ”‏راستوں“‏ پر واپس چلنے کی تاکید کرتا ہے۔‏ کیا ہمیں وقتاًفوقتاً اپنا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں کہ آیا ہم واقعی اُسی راستے پر چل رہے ہیں جس پر یہوواہ ہمیں چلانا چاہتا ہے؟‏

۷:‏۱-‏۱۵‏۔‏ انہوں نے ہیکل پر اپنا بھروسا کرنے سے اسے ایک ایسی جادوئی طاقت خیال کِیا جس سے ان کی حفاظت ہو سکتی تھی مگر ایسی سوچ نے یہودیوں کو نہ بچایا۔‏ پس،‏ ہمیں بھی ایمان پر چلنا چاہئے نہ کہ آنکھوں دیکھے پر۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۷‏۔‏

۱۵:‏۱۶،‏ ۱۷‏۔‏ یرمیاہ کی طرح ہم بھی حوصلہ‌شکنی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‏ ہم بائبل کا ذاتی اور بامقصد مطالعہ کرنے،‏ خدمتگزاری میں یہوواہ کے نام کو سربلند کرنے اور بُری صحبتوں سے کنارہ کرنے سے ایسا کر سکتے ہیں۔‏

۱۷:‏۱،‏ ۲‏۔‏ یہوداہ کے لوگوں کے گناہوں نے ان کی قربانیوں کو یہوواہ کے حضور نفرت‌انگیز بنا دیا تھا۔‏ اسی طرح اخلاقی ناپاکی ہماری حمد کی قربانیوں کو نفرت‌انگیز بنا دیتی ہے۔‏

۱۷:‏۵-‏۸‏۔‏ انسانوں اور اداروں پر ہم اُسی صورت میں بھروسا کر سکتے ہیں اگر یہ خدا کی مرضی اور اصولوں کے مطابق کام کرتے ہیں۔‏ جہاں تک نجات،‏ حقیقی امن اور سلامتی کی بات آتی ہے تو اچھا ہوگا کہ ہم صرف یہوواہ پر بھروسا کریں۔‏—‏زبور ۱۴۶:‏۳‏۔‏

۲۰:‏۸-‏۱۱‏۔‏ ہمیں بےحسی،‏ مخالفت یا اذیت کی وجہ سے بادشاہتی منادی کے کام میں اپنے جوش‌وجذبے کو ماند نہیں پڑنے دینا چاہئے۔‏—‏یعقوب ۵:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

‏”‏اپنی گردن شاہِ‌باؔبل کے جوئے تلے رکھ“‏

‏(‏یرمیاہ ۲۱:‏۱–‏۵۱:‏۶۴‏)‏

یرمیاہ یہوداہ کے آخری چار بادشاہوں اور اس کے ساتھ ساتھ جھوٹے نبیوں،‏ شریر چرواہوں اور رشوت‌خور کاہنوں کے خلاف عدالتی فیصلوں کا اعلان کرتا ہے۔‏ وفادار بقیے کا اچھے انجیروں کے طور پر ذکر کرتے ہوئے یہوواہ خدا فرماتا ہے:‏ ’‏مَیں اُن پر کرم کی نظر رکھوں گا۔‏‘‏ (‏یرمیاہ ۲۴:‏۵،‏ ۶‏)‏ باب ۲۵ میں عدالتی فیصلوں کا خلاصہ کرنے والی تین پیشینگوئیوں کا ذکر کِیا گیا ہے جن پر بعد کے ابواب میں تفصیل سے بات کی گئی ہے۔‏

کاہن اور نبی یرمیاہ کو جان سے مارنے کا منصوبہ بناتے ہیں۔‏ یرمیاہ کا پیغام یہ تھا کہ انہیں بابل کے بادشاہ کی خدمت کرنی پڑے گی۔‏ وہ صدقیاہ بادشاہ سے کہتا ہے:‏ ”‏اپنی گردن شاہِ‌بابلؔ کے جوئے تلے رکھ۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۲۷:‏۱۲‏)‏ تاہم،‏ ”‏جس نے اؔسرائیل کو تتربتر کِیا وہی اُسے جمع کریگا۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۳۱:‏۱۰‏)‏ اس کے بعد ریکابیوں سے ان کی وفاداری کی وجہ سے ایک وعدہ کِیا جاتا ہے۔‏ یرمیاہ کو ”‏قیدخانہ کے صحن میں رکھا“‏ جاتا ہے۔‏ (‏یرمیاہ ۳۷:‏۲۱‏)‏ یروشلیم کو برباد کر دیا جاتا ہے اور اس کے زیادہ‌تر باشندوں کو اسیر کرکے لے جایا جاتا ہے۔‏ یرمیاہ اور اس کے مُنشی باروک کا شمار اسیروں کی بجائے ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں ملک میں پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے۔‏ یرمیاہ کی آگاہی کے باوجود خوفزدہ لوگ مصر کو بھاگ جاتے ہیں۔‏ ۴۶ تا ۵۱ ابواب اس پیغام کو بیان کرتے ہیں جو یرمیاہ نے قوموں کو سنایا تھا۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۲۲:‏۳۰‏—‏کیا اس فرمان سے یسوع مسیح کے داؤد کے تخت پر بیٹھنے کا حق ختم ہو گیا تھا؟‏ (‏متی ۱:‏۱،‏ ۱۱‏)‏ ہرگز نہیں۔‏ اس فرمان نے یہویاکین کی اولاد کو ’‏داؤد کے تخت پر بیٹھنے اور یہوداہ پر سلطنت کرنے‘‏ سے روکا تھا۔‏ یسوع نے یہوداہ کے تخت کی بجائے آسمان سے حکمرانی کرنی تھی۔‏

۲۳:‏۳۳‏—‏”‏[‏یہوواہ]‏ کی طرف سے بارِنبوّت“‏ کیا ہے؟‏ یرمیاہ کے دنوں میں اُس نے یروشلیم کی بربادی کے بارے میں جن عدالتی فیصلوں کا اعلان کِیا وہ اُس کے اپنے ملک کے لوگوں کے لئے ایک بار یا بوجھ تھے۔‏ اس کے علاوہ،‏ سخت‌دل لوگ یہوواہ کے لئے ایک بار تھے جنہیں وہ رد کرنے والا تھا۔‏ اسی طرح،‏ دُنیائےمسیحیت کی بربادی کا پیغام اُن کے لئے ایک بوجھ ہے اور جو لوگ یہوواہ خدا کے پیغام پر توجہ نہیں دیتے وہ یہوواہ کے لئے بوجھ ہیں۔‏

۳۱:‏۳۳‏—‏خدا کی شریعت دل پر کیسے لکھی ہے؟‏ جب ایک شخص خدا کی شریعت سے اتنی محبت رکھتا ہے کہ یہ اُس کے اندر یہوواہ کی مرضی پوری کرنے کی دلی خواہش پیدا کر دیتی ہے تو اُس شخص کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کی شریعت اُس کے دل پر لکھی ہے۔‏

۳۲:‏۱۰-‏۱۵‏—‏ایک ہی لین‌دین کے لئے دو قبالے یعنی معاہدے بنانے کا کیا مقصد تھا؟‏ کُھلا قبالہ صلاح‌مشورے کے لئے تھا۔‏ سربُمہر قبالہ بوقتِ‌ضرورت کُھلے قبالے کی تصدیق کرنے کے لئے تھا۔‏ یرمیاہ نے اپنے رشتہ‌دار اور ہم‌ایمان کے ساتھ کاروبار کرتے وقت معقول قانونی طریقۂ‌کار اختیار کرنے سے ہمارے لئے اچھا نمونہ قائم کِیا۔‏

۳۳:‏۲۳،‏ ۲۴‏—‏ان آیات میں بیان کئے جانے والے ’‏دو گھرانے‘‏ کونسے ہیں؟‏ ایک گھرانہ بادشاہ داؤد کے سلسلۂ‌نسب سے شاہی خاندان تھا اور دوسرا ہارون کی اولاد کا کہانتی خاندان تھا۔‏ جب یروشلیم اور یہوواہ کی ہیکل تباہ ہوئی تو بظاہر یہوواہ نے ان دونوں گھرانوں کو رد کر دیا تھا۔‏ زمین پر پھر کبھی ان کی بادشاہی نہیں ہوگی اور نہ ہی اُس میں دوبارہ پرستش بحال ہوگی۔‏

۴۶:‏۲۲‏—‏مصر کیوں سانپ کی مانند چلچلائیگی؟‏ جیسے ایک سانپ سسکار کر پیچھے ہٹتا ہے اسی طرح یہ تباہی کا سامنا کرنے کی وجہ سے ایک قوم کے طور پر مصر کی پسپائی یعنی شکست کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے۔‏ یہاں یہ تشبِیہ اِس بات کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ فرضی تحفظ کے لئے مصری فرعونوں کا ناگ دیوی کی شبِیہ سر پر لگانا باطل تھا۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۲۱:‏۸،‏ ۹؛‏ ۳۸:‏۱۹‏۔‏ یروشلیم کی تباہی سے تھوڑی دیر پہلے تک یہوواہ نے موت کے مستحق،‏ یروشلیم کے غیرتائب باشندوں کے سامنے ایک انتخاب رکھا۔‏ جی‌ہاں،‏ ”‏اُس کی رحمتیں عظیم ہیں۔‏“‏—‏۲-‏سموئیل ۲۴:‏۱۴؛‏ زبور ۱۱۹:‏۱۵۶‏۔‏

۳۱:‏۳۴‏۔‏ ہمیں یہ جاننے سے کتنی تسلی ملتی ہے کہ یہوواہ جنہیں معاف کرتا ہے اُن کے گناہ پھر یاد نہیں رکھتا اور مستقبل میں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا!‏

۳۸:‏۷-‏۱۳؛‏ ۳۹:‏۱۵-‏۱۸‏۔‏ یہوواہ وفاداری سے کی جانے والی ہماری خدمت کو نہیں بھولتا۔‏ اس میں ”‏مُقدسوں کی خدمت“‏ کرنا بھی شامل ہے۔‏—‏عبرانیوں ۶:‏۱۰‏۔‏

۴۵:‏۴،‏ ۵‏۔‏ یہوداہ کے آخری دنوں کی طرح،‏ ہمیں اس دُنیا کے ”‏اخیر زمانہ“‏ میں دولت،‏ شہرت یا مالی تحفظ جیسے ”‏اُمورِعظیم“‏ کی تلاش نہیں کرنی چاہئے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱؛‏ ۱-‏یوحنا ۲:‏۱۷‏۔‏

یروشلیم آگ سے جلا دیا جاتا ہے

‏(‏یرمیاہ ۵۲:‏۱-‏۳۴‏)‏

یہ سن ۶۰۷ قبل‌ازمسیح کی بات ہے۔‏ صدقیاہ بادشاہ کے دورِحکومت کا ۱۱ واں سال ہے۔‏ بابل کے بادشاہ نبوکدنضر نے گزشتہ ۱۸ مہینوں سے یروشلیم کا محاصرہ کِیا ہوا ہے۔‏ نبوکدنضر کے دورِحکومت کے ۱۹ ویں سال کے پانچویں مہینے کے ساتویں دن جلوداروں کا سردار نبوزرادان یروشلیم میں ’‏آتا ہے۔‏‘‏ (‏۲-‏سلاطین ۲۵:‏۸‏)‏ شاید شہرِپناہ سے باہر اپنے خیمے ہی سے نبوزرادان صورتحال کا جائزہ لے کر کارروائی کرنے کا منصوبہ بناتا ہے۔‏ تین دن بعد،‏ اسی مہینے کی دسویں تاریخ کو وہ یروشلیم میں ’‏آتا‘‏ یا داخل ہوتا ہے۔‏ اس کے بعد وہ شہر کو آگ سے جلا ڈالتا ہے۔‏—‏یرمیاہ ۵۲:‏۱۲،‏ ۱۳‏۔‏

یرمیاہ یروشلیم کے زوال کے واقعہ کی تفصیل فراہم کرتا ہے۔‏ اس کا بیان نوحہ یا مرثیہ کرنے کی جائز وجہ فراہم کرتا ہے۔‏ یہ مرثیہ نوحہ نامی بائبل کی اگلی کتاب میں قلمبند ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویر]‏

یرمیاہ کے اعلانات میں یروشلیم کے خلاف یہوواہ کا عدالتی فیصلہ بھی شامل تھا

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

یہوواہ یرمیاہ سے کیسے ”‏توانا“‏ ثابت ہوا؟‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

‏”‏ان اچھے انجیروں کی مانند مَیں یہوؔداہ کے .‏ .‏ .‏ اسیروں پر .‏ .‏ .‏ کرم کی نظر رکھوں گا۔‏“‏—‏یرمیاہ ۲۴:‏۵