مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا ظلم‌وتشدد کبھی ختم ہوگا؟‏

کیا ظلم‌وتشدد کبھی ختم ہوگا؟‏

کیا ظلم‌وتشدد کبھی ختم ہوگا؟‏

بیشتر لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ آجکل کی دُنیا میں ظلم‌وتشدد کی بنیادی وجہ خودغرضی ہے۔‏ اس خودغرضی نے ایک ایسے معاشرے کو تشکیل دیا ہے جس میں زیادہ‌تر لوگ صرف اپنی بابت سوچتے ہیں۔‏ بیشتر لوگ ہر قیمت پر اپنی خواہش کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور یہ اکثر پُرتشدد کاموں پر منتج ہوتا ہے۔‏ نہ صرف مختلف لوگ بلکہ قومیں بھی ایسا ہی کر رہی ہیں۔‏

ایسا لگتا ہے کہ انسانی زندگی کی اب کوئی اہمیت نہیں رہی۔‏ بعض لوگ ظلم‌وتشدد سے لطف‌اندوز ہوتے اور اسے تفریح خیال کرتے ہیں۔‏ بہتیرے جرائم‌پیشہ افراد اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اُنہوں نے محض اپنی خوشی کی خاطر دوسروں کو نقصان پہنچایا تھا۔‏ پُرتشدد فلمیں پسند کرنے والے اُن لاکھوں لوگوں کی بابت کیا ہے جن کی وجہ سے فلمی صنعت زیادہ منافع کمانے کے لئے ایسے موضوعات پر فلمیں بناتی ہے؟‏ بہتیرے لوگ مسلسل تفریحی پروگراموں اور خبروں کے ذریعے دکھائے جانے والے پُرتشدد کاموں کو دیکھنے اور سننے سے بےحس ہو گئے ہیں۔‏

ظلم‌وتشدد اکثر جذباتی اور ذہنی تکلیف کا باعث بنتا ہے۔‏ اس کا نشانہ بننے والے لوگ دوسروں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرنے کی طرف راغب ہو سکتے ہیں جیسا اُن کے ساتھ کِیا گیا تھا۔‏ میکسیکو کی ایک یونیورسٹی میں پڑھانے والی نعومی ڈائز مارکوئین ظلم‌وستم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تشدد کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہے:‏ ”‏تشدد سیکھا جاتا ہے،‏ یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے .‏ .‏ .‏ جب ہمارا ماحول پُرتشدد طریقوں کی حوصلہ‌افزائی کرتا ہے تو ہم تشدد کرنا سیکھتے ہیں۔‏“‏ اس طرح بدسلوکی کا نشانہ بننے والے لوگ دوسروں کو بالکل اُسی طرح تکلیف پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں جیسے اُنہیں پہنچائی گئی تھی۔‏

دیگر صورتوں میں،‏ شراب اور منشیات جیسی چیزوں کا استعمال کرنے والے لوگ ظلم‌وتشدد کر سکتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ،‏ حکومتوں کی کارکردگی سے مایوس لوگ بھی ظلم‌وتشدد کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔‏ ان میں سے بعض اپنے خیالات کو دوسروں پر ظاہر کرنے کے لئے پُرتشدد کاموں اور دہشت‌گردی کا سہارا لیتے ہیں اور اکثر بےقصور لوگوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔‏

شاید آپ سوچیں:‏ ’‏کیا انسانوں نے خود ہی ظلم‌وتشدد کرنا سیکھ لیا ہے؟‏ اس موجودہ صورتحال کا ذمہ‌دار کون ہے؟‏‘‏

ظلم‌وتشدد کا ذمہ‌دار کون ہے؟‏

بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ شیطان اِبلیس اس دُنیا پر بہت زیادہ اختیار رکھتا ہے۔‏ اس لئے اُسے ’‏اِس جہان کا خدا‘‏ کہا گیا ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۴‏)‏ وہ اس کائنات کی سب سے زیادہ خودغرض اور ظالم ہستی ہے۔‏ یسوع مسیح نے اُسے معقول طور پر ”‏خونی“‏ اور ”‏جھوٹ کا باپ“‏ کہا تھا۔‏—‏یوحنا ۸:‏۴۴‏۔‏

پہلے انسانی جوڑے آدم اور حوا کی نافرمانی کے بعد سے انسان بڑی حد تک شیطان کے زیرِاثر ہیں۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱-‏۷،‏ ۱۶-‏۱۹‏)‏ آدم اور حوا کے خدا کی نافرمانی کرنے کے تقریباً ۱۵ صدیاں بعد باغی فرشتوں نے انسانی جسم اختیار کئے اور زمین پر آکر عورتوں سے شادیاں کر لیں۔‏ اس ملاپ کے نتیجے میں ایک دوغلی نسل پیدا ہوئی جو جبار کہلائی۔‏ یہ عام انسانوں سے کیسے فرق تھے؟‏ لفظ جبار کے مطلب پر غور کرنے سے ہمیں اس سوال کا جواب مل جاتا ہے۔‏ اس کا مطلب ”‏مار گرانے والے“‏ ہے۔‏ ان پُرتشدد اشخاص کی وجہ سے زمین ظلم اور بداخلاقی سے بھر گئی۔‏ صرف خدا کی طرف سے آنے والا طوفان ہی اُنہیں ختم کر سکتا تھا۔‏ (‏پیدایش ۶:‏۴،‏ ۵،‏ ۱۷‏)‏ جبار تو طوفان میں ہلاک ہو گئے مگر ان کے باپ روحانی بدن اختیار کرکے واپس آسمان پر چلے گئے۔‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

باغی فرشتوں کے ظلم‌وتشدد کی ایک مثال یسوع مسیح کے زمانے میں بدروح‌گرفتہ لڑکے کے واقعے سے ملتی ہے۔‏ بدروح اسے باربار مروڑتی اور ہلاک کرنے کے لئے آگ اور پانی میں ڈالتی تھی۔‏ (‏مرقس ۹:‏۱۷-‏۲۲‏)‏ صاف ظاہر ہے کہ ’‏شرارت کی روحانی فوجیں‘‏ یا یہ باغی فرشتے اپنے ظالم سردار شیطان ابلیس کی بےرحم شخصیت کو ظاہر کرتے ہیں۔‏—‏افسیوں ۶:‏۱۲‏۔‏

آجکل بھی یہ شیطانی اثر انسانوں کو ظلم کرنے کی تحریک دیتا ہے۔‏ اس سلسلے میں بائبل پیشینگوئی کرتی ہے:‏ ”‏اخیر زمانہ میں بُرے دن آئیں گے۔‏ کیونکہ آدمی خودغرض۔‏ .‏ .‏ .‏ شیخی‌باز۔‏ مغرور۔‏ .‏ .‏ .‏ ناشکر۔‏ ناپاک۔‏ طبعی محبت سے خالی۔‏ سنگدل۔‏ تہمت لگانے والے۔‏ بےضبط۔‏ تُندمزاج۔‏ نیکی کے دُشمن۔‏ دغاباز۔‏ ڈھیٹھ۔‏ گھمنڈ کرنے والے۔‏ خدا کی نسبت عیش‌وعشرت کو زیادہ دوست رکھنے والے ہوں گے۔‏ وہ دینداری کی وضع تو رکھیں گے مگر اُس کے اثر کو قبول نہ کریں گے۔‏“‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵‏۔‏

بائبل پیشینگوئیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ۱۹۱۴ میں یسوع مسیح کے بادشاہ بننے کے بعد شیطان اور اُس کے شیاطین کو آسمان سے نکال دیا گیا تھا۔‏ اس لئے ہمارا زمانہ خاص طور پر بُرا ہے۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏اَے خشکی اور تری تُم پر افسوس!‏ کیونکہ اِبلیس بڑے قہر میں تمہارے پاس اُتر کر آیا ہے۔‏ اِسلئےکہ جانتا ہے کہ میرا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔‏“‏—‏مکاشفہ ۱۲:‏۵-‏۹،‏ ۱۲‏۔‏

کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ حالات کبھی بہتر نہیں ہو سکتے؟‏ ڈائز مارکوئین جس کا پہلے ذکر کِیا گیا،‏ کہتی ہے کہ لوگ نامناسب رویے پر ”‏قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‏“‏ تاہم،‏ آجکل زمین پر شیطان کے بڑھتے ہوئے اثر کی وجہ سے ایک شخص اُس وقت تک تشدد پر قابو پانا نہیں سیکھ سکتا جبتک وہ کسی اعلیٰ قوت کو اپنی سوچ اور کاموں پر اثرانداز نہیں ہونے دیتا۔‏ یہ کونسی قوت ہے؟‏

تبدیلیاں کیسے ممکن ہیں؟‏

دُنیا میں سب سے زیادہ طاقتور قوت خدا کی پاک رُوح ہے جو شیاطینی اثر پر غالب آ سکتی ہے۔‏ یہ رُوح محبت اور انسانوں کی فلاح‌وبہبود کو فروغ دیتی ہے۔‏ یہوواہ خدا کو خوش کرنے کی خواہش رکھنے والے ہر شخص کو خدا کی رُوح سے معمور ہونے کے لئے پُرتشدد چال‌چلن سے گریز کرنا چاہئے۔‏ یہ خدا کی مرضی کے مطابق اپنی شخصیت میں تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے۔‏ خدا کی مرضی کیا ہے؟‏ خدا چاہتا ہے کہ ہم اُس کی راہوں پر چلنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔‏ اس میں دوسروں کی بابت یہوواہ خدا جیسا نظریہ رکھنا شامل ہے۔‏—‏افسیوں ۵:‏۱،‏ ۲؛‏ کلسیوں ۳:‏۷-‏۱۰‏۔‏

جب آپ معاملات کو حل کرنے کے خدائی طریقے پر غور کریں گے تو آپ اس بات کے قائل ہو جائیں گے کہ یہوواہ خدا ہمیشہ دوسروں کے لئے فکرمندی ظاہر کرتا ہے۔‏ اس کے علاوہ،‏ اُس نے نہ تو کبھی کسی انسان اور نہ ہی کسی جانور سے بےانصافی کی ہے۔‏ (‏استثنا ۲۲:‏۱۰؛‏ زبور ۳۶:‏۷؛‏ امثال ۱۲:‏۱۰‏)‏ یہوواہ خدا نہ صرف ظلم‌وتشدد کو بلکہ ایسا کرنے والوں کو بھی ناپسند کرتا ہے۔‏ (‏امثال ۳:‏۳۱،‏ ۳۲‏)‏ یہوواہ خدا مسیحیوں سے جس نئی انسانیت کو پہننے کا تقاضا کرتا ہے وہ انہیں دوسروں کو خود سے بہتر سمجھنے اور ان کا احترام کرنے میں مدد دیتی ہے۔‏ (‏فلپیوں ۲:‏۲-‏۴‏)‏ نئی مسیحی انسانیت میں ”‏دردمندی اور مہربانی اور فروتنی اور حلم اور تحمل“‏ شامل ہیں۔‏ محبت کو بھی نظرانداز نہیں کِیا جا سکتا کیونکہ یہ ”‏کمال کا پٹکا“‏ ہے۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۱۲-‏۱۴‏)‏ کیا آپ اس بات سے متفق نہیں کہ اگر زیادہ‌تر لوگوں میں ایسی خوبیاں ہوں تو یہ دُنیا کتنی مختلف ہوگی؟‏

تاہم،‏ آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں کہ شخصیت میں تبدیلیاں ممکن ہیں۔‏ اس سلسلے میں ایک حقیقی مثال پر غور کریں۔‏ مارٹن * اپنے بچوں کے سامنے اپنی بیوی کو بُرابھلا کہتا اور اُسے مارتاپیٹتا تھا۔‏ ایک دفعہ تو صورتحال اتنی خراب ہوگئی کہ بچوں کو مدد کے لئے پڑوسیوں کو بلانا پڑا۔‏ کچھ سال بعد اس خاندان نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل مطالعہ شروع کر دیا۔‏ اس سے مارٹن نے یہ سیکھا کہ اُسے کس طرح کا شخص ہونا چاہئے اور اُسے دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہئے۔‏ کیا وہ تبدیلی لانے کے قابل ہوا؟‏ اس کی بیوی جواب دیتی ہے:‏ ”‏پہلے میرا شوہر بہت زیادہ غصے میں آ جاتا تھا۔‏ اسی وجہ سے کافی عرصے تک ہماری زندگی پریشانی میں گزری ہے۔‏ مارٹن کو تبدیل ہونے میں مدد دینے کے لئے یہوواہ خدا کا شکر ادا کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں۔‏ اب وہ ایک اچھا شوہر اور باپ ہے۔‏“‏

یہ صرف ایک خاندان کا ذکر ہے۔‏ پوری دُنیا میں لاکھوں لوگوں نے یہوواہ کے گواہوں سے مطالعہ کرنے کے بعد ظلم‌وتشدد کو چھوڑ دیا ہے۔‏ واقعی،‏ تبدیلی ممکن ہے۔‏

ظلم‌وتشدد کا خاتمہ نزدیک ہے

خدا کی بادشاہت رحمدل حکمران یسوع مسیح کے ذریعے آسمان پر قائم ہو چکی ہے۔‏ مستقبل قریب میں یہ بادشاہت پوری زمین کا اختیار سنبھال لے گی۔‏ اس بادشاہت نے ظلم‌وتشدد کے ذمہ‌دار شیطان اور اُس کے شیاطین کو پہلے ہی آسمان سے نکال دیا ہے۔‏ خدا کی بادشاہت جلد ہی زمین پر پُرامن رعایا کی ضروریات پوری کرے گی۔‏ (‏زبور ۳۷:‏۱۰،‏ ۱۱؛‏ یسعیاہ ۱۱:‏۲-‏۵‏)‏ یہی بادشاہت دُنیا کی مشکلات کا واحد حل ہے۔‏ لیکن اُس صورت میں کیا ہو اگر آپ خدا کی بادشاہت کا انتظار کرتے ہوئے ظلم‌وتشدد کا نشانہ بن جاتے ہیں؟‏

ظلم کے بدلے ظلم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‏ اس سے ظلم میں اضافہ ہوگا۔‏ بائبل ہمیں یہوواہ خدا پر بھروسا رکھنے کی دعوت دیتی ہے جو اپنے مقررہ وقت پر ”‏ہر ایک آدمی کو اُس کی چال کے موافق اور اُس کے کاموں کے پھل کے مطابق بدلہ“‏ دے گا۔‏ (‏یرمیاہ ۱۷:‏۱۰‏)‏ (‏بکس ”‏ظلم‌وتشدد کے لئے کیسا ردِعمل دکھائیں“‏ کو پڑھیں۔‏)‏ ہو سکتا ہے کہ آپ کو بھی ظلم‌وتشدد کا سامنا کرنا پڑے۔‏ (‏واعظ ۹:‏۱۱‏)‏ تاہم،‏ خدا ظلم‌وتشدد کی وجہ سے واقع ہونے والی موت اور دیگر صورتحال کو بدل سکتا ہے۔‏ ظلم‌وتشدد کی وجہ سے اپنی جان گنوا دینے والے لوگ خدا کے وعدہ کے مطابق زندہ کئے جائیں گے۔‏—‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

اگرچہ ظلم‌وتشدد کا نشانہ بننے کا خطرہ موجود ہے توبھی ہم خدا کے ساتھ مضبوط رشتے اور اُس کے وعدوں پر اعتماد رکھنے سے تسلی حاصل کر سکتے ہیں۔‏ سارہ کی مثال پر غور کریں۔‏ جس نے شوہر کے بغیر اکیلے ہی اپنے دو بچوں کی پرورش کی،‏ اور انہیں اعلیٰ تعلیم دلائی۔‏ مگر بڑھاپے میں اُس کے بیٹوں نے اسے چھوڑ دیا۔‏ وہ نہ تو مالی طور پر اُس کی مدد کرتے اور نہ ہی بیماری میں اُس کی دیکھ‌بھال کرتے تھے۔‏ تاہم،‏ سارہ اب یہوواہ کی گواہ بننے کے بعد بیان کرتی ہے:‏ ”‏اگرچہ مَیں افسردہ ہو جاتی ہوں توبھی یہوواہ خدا نے مجھے نہیں چھوڑا۔‏ مَیں یہوواہ خدا کی مدد کو اپنے روحانی بہن بھائیوں کے ذریعے محسوس کرتی ہوں جو ہمیشہ میرا خیال رکھتے ہیں۔‏ مجھے یقین ہے کہ جلد ہی وہ نہ صرف میرے بلکہ اُن تمام لوگوں کے مسائل کو بھی حل کرے گا جو اُس کی قوت پر بھروسا رکھتے اور اُس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں۔‏“‏

سارہ نے جن روحانی بہن بھائیوں کا ذکر کِیا،‏ وہ کون ہیں؟‏ یہ اُس کے ساتھی یہوواہ کے گواہ ہیں جو پوری دُنیا میں رحمدل لوگوں کی عالمگیر برادری کو تشکیل دیتے ہیں۔‏ اُنہیں یقین ہے کہ بہت جلد ظلم‌وتشدد ختم ہو جائے گا۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۷‏)‏ ظلم‌وتشدد کے اصل ذمہ‌دار شیطان اِبلیس اور اس جیسے کام کرنے والے لوگوں کو ہلاک کر دیا جائے گا۔‏ ایک مصنف کے مطابق ”‏ظلم‌وتشدد کا دَور“‏ زیادہ دیر تک نہیں رہے گا۔‏ ایسی اُمید پر غور کرنے کے لئے کیوں نہ یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ رابطہ کریں؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 17 فرضی نام استعمال کِیا گیا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر بکس]‏

ظلم‌وتشدد کے لئے کیسا ردِعمل دکھائیں

خدا کا کلام ظلم‌وتشدد کا سامنا کرنے کے سلسلے میں عملی مشورت فراہم کرتا ہے۔‏ غور کریں کہ آپ حکمت کے مندرجہ‌ذیل اصولوں کی پیروی کیسے کر سکتے ہیں:‏

”‏تُو یہ نہ کہنا کہ مَیں بدی کا بدلہ لوں گا۔‏ [‏یہوواہ]‏ کی آس رکھ اور وہ تجھے بچائے گا۔‏“‏—‏امثال ۲۰:‏۲۲‏۔‏

”‏اگر تُو .‏ .‏ .‏ مسکینوں کو مظلوم اور عدل‌وانصاف کو متروک دیکھے تو اِس سے حیران نہ ہو کیونکہ ایک بڑوں سے بڑا ہے جو نگاہ کرتا ہے۔‏“‏—‏واعظ ۵:‏۸‏۔‏

”‏مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہوں گے۔‏“‏—‏متی ۵:‏۵‏۔‏

”‏جوکچھ تُم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تُم بھی اُن کے ساتھ کرو۔‏“‏—‏متی ۷:‏۱۲‏۔‏

”‏بدی کے عوض کسی سے بدی نہ کرو۔‏ جو باتیں سب لوگوں کے نزدیک اچھی ہیں اُن کی تدبیر کرو۔‏ جہاں تک ہو سکے تُم اپنی طرف سے سب آدمیوں کے ساتھ میل‌ملاپ رکھو۔‏ اَے عزیزو!‏ اپنا انتقام نہ لو بلکہ غضب کو موقع دو کیونکہ یہ لکھا ہے کہ [‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے انتقام لینا میرا کام ہے۔‏ بدلہ مَیں ہی دوں گا۔‏“‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱۷-‏۱۹‏۔‏

”‏مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھاکر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ اُس کے نقشِ‌قدم پر چلو۔‏ .‏ .‏ .‏ نہ وہ گالیاں کھاکر گالی دیتا تھا اور نہ دُکھ پاکر کسی کو دھمکاتا تھا بلکہ اپنے آپ کو سچے انصاف کرنے والے کے سپرد کرتا تھا۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱-‏۲۳‏۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویریں]‏

یہوواہ خدا نے بہتیرے لوگوں کو ظلم‌وتشدد سے باز آنے کی تعلیم دی ہے