بدی کا راج
بدی کا راج
ایک چھوٹا بچہ کھیت میں ایک چیز کو اُٹھا کر اسے تجسّس بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔ یہ ایک بارودی سُرنگ ہے جو اُسے زندگی بھر کے لئے نابینا اور معذور کر دیتی ہے۔ ایک ماں اپنے ننھے بچے کو سڑک کے کنارے پڑے ہوئے کچرے کے ڈھیر کے پاس چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ معاشرے کا ایک معزز شخص معصوم بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا ہے۔ جب ایک آدمی کو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے تو وہ اپنی ملازمت کی جگہ لوٹ کر جس جس پر اُس کی نظر پڑتی ہے، اُسے گولی سے اُڑا دیتا ہے۔ پھر وہ خود پر گولی چلا دیتا ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ ہمارے زمانے میں اس قسم کی بدکاری عام ہو گئی ہے۔ اور اِس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسے واقعات کی نسبت نسلی قتلِعام اور دہشتگردی جیسی بدکاریوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ سن ۱۹۹۵ کی ایک رپورٹ کے مطابق ”اِس صدی میں ہونے والی بدکاریوں کی وجہ سے اسے شیطان کی صدی کا نام دیا جا سکتا ہے۔ کسی اور دَور میں لوگوں نے اتنی مہارت اور اتنی گرمجوشی سے دوسروں کو اُن کے طبقے، مذہب اور اُن کی نسل کی وجہ سے قتل نہیں کِیا۔“
اِس کے علاوہ انسان ہوا کو آلودہ کر رہا ہے اور قدرتی وسائل اِس حد تک استعمال کر رہا ہے کہ اُن کا ختم ہو جانے کا امکان ہے۔ وہ مختلف جانوروں کو اتنی بڑی تعداد میں ہلاک کر رہا ہے کہ اُن کا نامونشان مٹ جانے کا خطرہ ہے۔ کیا انسان ایسے مسائل اور بدکاریوں پر غالب آ کر دُنیا کو ایک محفوظ جگہ بنا سکتے ہیں؟ ایسا کرنے کی کوششیں کس حد تک کامیاب رہیں گی؟ ایک پروفیسر جس نے بدی کے موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے، وہ کہتا ہے: ”میری دلی خواہش اور کوشش یہی تھی کہ مَیں دنیا کے حالات میں بہتری لاؤں۔ لیکن دُنیا کے حالات میں بہتری نہیں آئی۔“ شاید آپ بھی اسی طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔
دُنیا ایک ایسے جہاز کی طرح ہے جو طوفانی سمندر پر سفر کر رہا ہے۔ اُونچی اُونچی لہروں اور تیز آندھیوں کی وجہ سے دن بہ دن اِس جہاز کی حالت بگڑتی جا رہی ہے۔ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ یہ جہاز ڈوب جائے لیکن اِس کو بچانے کی سب کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔ جہاز ڈوبتا چلا جا رہا ہے اور کوئی بھی اِسے بچا نہیں سکتا۔
اِس دُنیا کے بگڑتے حالات کی ایک وجہ یہ ہے کہ انسان گنہگار ہے۔ (رومیوں ۳:۲۳) لیکن دُنیا میں بدی اِس حد تک پائی جاتی ہے کہ صرف انسان ہی قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک اندیکھی اور بدکار ہستی نے انسان کو اپنے قابو میں جکڑ رکھا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ ہستی کون ہے اور ہم خود کو اُس سے محفوظ کیسے رکھ سکتے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب اگلے مضمون میں دئے جائیں گے۔
[صفحہ ۳ پر تصویر کا حوالہ]
Heldur Netocny/Panos Pictures ©