مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بدی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟‏

بدی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟‏

بدی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟‏

پہلی صدی عیسوی میں بہتیرے اسرائیلی،‏ مسیحا کے انتظار میں تھے۔‏ (‏یوحنا ۶:‏۱۴‏)‏ جب یسوع مسیح زمین پر آیا تو اُس نے لوگوں کو خدا کے کلام کے بارے میں مزید سکھایا اور اُن کو تسلی دی۔‏ یسوع نے بیماروں کو شفا بخشی،‏ بھوکوں کو کھانا کھلایا،‏ آندھیوں کو تھمایا،‏ یہاں تک کہ مُردوں کو بھی زندہ کِیا۔‏ (‏متی ۸:‏۲۶؛‏ ۱۴:‏۱۴-‏۲۱؛‏ ۱۵:‏۳۰،‏ ۳۱؛‏ مرقس ۵:‏۳۸-‏۴۳‏)‏ اُس نے لوگوں تک خدا کا پیغام پہنچایا اور اُنہیں ہمیشہ کی زندگی کی اُمید دلائی۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۳۴‏)‏ اپنی باتوں اور اپنے اعمال سے یسوع نے ظاہر کِیا کہ وہ دُنیا کو بدی اور اُس کے سب اثرات سے نجات دلائے گا۔‏

بلاشُبہ یہودی مذہبی رہنماؤں کو چاہئے تھا کہ وہ یسوع کی باتوں پر کان لگاتے اور اُس کی راہنمائی قبول کرتے۔‏ لیکن ایسا کرنے کی بجائے اُنہوں نے یسوع سے نفرت کی اور اُسے اذیت کا نشانہ بنایا۔‏ ان مذہبی رہنماؤں نے یسوع کے خلاف سازش کی اور آخرکار اُسے قتل کر دیا۔‏—‏مرقس ۱۴:‏۱؛‏ ۱۵:‏۱-‏۳،‏ ۱۰-‏۱۵‏۔‏

یسوع مسیح نے اپنے زمانے کے مذہبی رہنماؤں کی ملامت کی۔‏ (‏متی ۲۳:‏۳۳-‏۳۵‏)‏ وہ بدکار تھے لیکن یسوع جانتا تھا کہ اُن کی بدکاری کے پیچھے کسی اَور کا ہاتھ بھی ہے۔‏ یسوع نے مذہبی رہنماؤں سے کہا:‏ ”‏تُم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔‏ وہ شروع ہی سے خونی ہے اور سچائی پر قائم نہیں رہا کیونکہ اُس میں سچائی ہے نہیں۔‏ جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو اپنی ہی سی کہتا ہے کیونکہ وہ جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ کا باپ ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۸:‏۴۴‏)‏ یسوع کو معلوم تھا کہ انسان بدی کر سکتا ہے لیکن اُسے اس بات کا بھی علم تھا کہ بدی کی اصل جڑ ابلیس یعنی شیطان ہے۔‏

یسوع نے شیطان کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ”‏سچائی پر قائم نہیں رہا۔‏“‏ اِس کا مطلب ہے کہ ایک ایسا بھی وقت تھا جب شیطان سچائی پر قائم تھا،‏ یعنی خدا کا ایک وفادار خادم تھا۔‏ توپھر شیطان نے خدا کے خلاف بغاوت کیوں کی؟‏ اس لئے کہ وہ مغرور بن گیا تھا۔‏ اُس کے دل میں یہ خواہش اُبھری کہ خدا کی عبادت کی بجائے اُس کی عبادت کی جائے۔‏ *‏—‏متی ۴:‏۸،‏ ۹‏۔‏

شیطان کی باغی نیت کا اثر ہم باغِ‌عدن میں ہونے والے واقعات سے دیکھ سکتے ہیں۔‏ شیطان نے حوا کو ورغلایا جس کے نتیجہ میں حوا نے اُس درخت کا پھل کھا لیا جس سے خدا نے اُسے منع کِیا تھا۔‏ جھوٹ بولنے اور یہوواہ خدا پر جھوٹا الزام لگانے کی وجہ سے شیطان ”‏جھوٹ کا باپ“‏ کہلانے لگا۔‏ چونکہ شیطان نے آدم اور حوا کو خدا کی نافرمانی کرنے پر اُکسایا تھا اِس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان پر گناہ کا داغ لگنے کا ذمہ‌دار شیطان ہے۔‏ اور شیطان کی ہی وجہ سے آدم،‏ حوا اور اُن کی آئندہ نسلوں پر موت کا سایہ پڑ گیا۔‏ اِس طرح شیطان ”‏خونی“‏ بھی بن گیا،‏ جی‌ہاں تمام انسانوں کا خون اُسی کے سر ہے۔‏—‏پیدایش ۳:‏۱-‏۶؛‏ رومیوں ۵:‏۱۲‏۔‏

شیطان کی بدکاری کا اثر دوسری روحانی ہستیوں پر بھی ہوا۔‏ کئی فرشتوں نے خدا کے خلاف بغاوت میں شیطان کا ساتھ دیا۔‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۴‏)‏ شیطان کی طرح اِن بدکار روحانی ہستیوں نے بھی بُری نیت سے انسان میں دلچسپی لی۔‏ ان بُرے فرشتوں نے انسانوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کئے۔‏ اور اس کا نتیجہ بدکاری اور مصیبتیں ہی رہا۔‏

بدکاری کی انتہا

پاک صحائف میں ہمیں بتایا جاتا ہے:‏ ”‏جب رویِ‌زمین پر آدمی بہت بڑھنے لگے اور اُن کے بیٹیاں پیدا ہوئیں۔‏ تو خدا کے بیٹوں نے آدمی کی بیٹیوں کو دیکھا کہ وہ خوبصورت ہیں اور جن کو اُنہوں نے چُنا اُن سے بیاہ کر لیا۔‏“‏ (‏پیدایش ۶:‏۱،‏ ۲‏)‏ اس آیت میں ”‏خدا کے بیٹوں“‏ کا ذکر کِیا گیا ہے۔‏ یہ کون تھے؟‏ یہ انسان نہیں بلکہ بُرے فرشتے یعنی بدروحیں تھیں۔‏ (‏ایوب ۱:‏۶؛‏ ۲:‏۱‏)‏ ہم یہ کیسے جانتے ہیں؟‏ اِس لئے کہ اس واقعے سے پہلے ۵۰۰،‏۱ سال تک انسانوں میں شادیاں ہوتی آ رہی تھیں،‏ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔‏ لیکن اِس بات کا خاص ذکر کِیا گیا ہے کہ ”‏خدا کے بیٹوں“‏ نے انسانی بدن اختیار کرکے ”‏آدمی کی بیٹیوں“‏ کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کئے۔‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور یہ تعلقات بالکل ناجائز تھے۔‏

ان تعلقات کا ناجائز ہونے کا ثبوت وہ بچے تھے جو ان شادیوں سے پیدا ہوئے۔‏ ان کو ”‏جبار“‏ کہا گیا۔‏ عبرانی زبان میں اِن کو جو نام دیا گیا ہے اس کا لفظی مطلب ”‏گِرا دینے والے“‏ ہے۔‏ دیوقامت ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بہت ظالم تھے۔‏ خدا کا کلام بتاتا ہے کہ وہ ”‏قدیم زمانہ کے سُورما ہیں جو بڑے نامور ہوئے ہیں۔‏“‏—‏پیدایش ۶:‏۴‏۔‏

بُرے فرشتوں اور اُن کی اولاد کی بدکاریاں انتہا درجے تک پہنچ گئیں۔‏ ”‏زمین خدا کے آگے ناراست ہو گئی تھی اور وہ ظلم سے بھری تھی۔‏“‏ (‏پیدایش ۶:‏۱۱‏)‏ جی‌ہاں،‏ فرشتوں کی اولاد کی طرح عام انسانوں نے بھی ظلم اور تشدد کی راہ اپنا لی تھی۔‏

بدکار روحانی ہستیوں اور اُن کی اولاد نے اِس حد تک انسان پر اثر کیسے کِیا؟‏ اُنہوں نے اِس بات کا فائدہ اُٹھایا کہ انسان کا رُجحان گُناہ کی طرف ہے۔‏ اِس کا نتیجہ یہ تھا کہ ”‏بشر نے زمین پر اپنا طریقہ بگاڑ لیا۔‏“‏ (‏پیدایش ۶:‏۵،‏ ۱۲-‏۲۲‏)‏ آخرکار یہوواہ خدا نے طوفان کے ذریعے اُن بدکاروں کو تباہ کر دیا۔‏ صرف نوح اور اُس کا خاندان اس تباہی سے بچا رہا۔‏ بُرے فرشتوں نے اپنا انسانی جسم ترک کر دیا اور ذلیل ہو کر آسمان پر واپس چلے گئے۔‏ آسمان پر اِن بدروحوں نے خدا اور اُس کے وفادار فرشتوں کی مخالفت جاری رکھی۔‏ اُس وقت سے لے کر آج تک خدا نے ان بدروحوں کو دوبارہ سے انسانی جسم اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی۔‏ (‏یہوداہ ۶‏)‏ لیکن آج تک بدروحیں انسانوں کو بدی کرنے پر اُکساتی ہیں۔‏

بدی کے پیچھے کس کا ہاتھ؟‏

پاک صحائف میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ شیطان کی بدی کا اثر اِس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ”‏ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ شیطان،‏ انسانوں پر زیادہ سے زیادہ مصیبتیں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔‏ اُس نے انسانوں پر اذیتیں ڈھانے کی ٹھان لی ہے۔‏ کیوں؟‏ کیونکہ ۱۹۱۴ عیسوی میں جب خدا کی بادشاہت نے حکمرانی کرنا شروع کی تو شیطان اور بدروحوں کو آسمان سے نکال دیا گیا۔‏ اِس واقعہ کے بارے میں پاک صحائف میں یوں بتایا جاتا ہے:‏ ”‏اَے خشکی [‏یعنی زمین]‏ .‏ .‏ .‏ تُم پر افسوس!‏ کیونکہ اِبلیس بڑے قہر میں تمہارے پاس اُتر کر آیا ہے۔‏ اِس لئے کہ جانتا ہے کہ میرا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۷-‏۱۲‏)‏ شیطان آج انسان پر کیسے اثر کرتا ہے؟‏

شیطان لوگوں کی سوچ پر اثر کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ بدکاری کرنے پر اُتر آتے ہیں۔‏ پاک صحائف میں بتایا جاتا ہے کہ شیطان ’‏ہوا کی عملداری کا حاکم ہے‘‏ اور وہ ایک ایسی ’‏روح ہے جو اب نافرمانی کے فرزندوں میں تاثیر کرتی ہے۔‏‘‏ (‏افسیوں ۲:‏۲‏)‏ اِس آیت میں ”‏ہوا“‏ سے مُراد وہ بُری سوچ ہے جسے شیطان انسانوں میں فروغ دیتا ہے۔‏ شیطان لوگوں کو خدا کا خوف اور نیکی کرنے کی بجائے خدا کے معیاروں کے خلاف بغاوت کرنے پر اُکساتا ہے۔‏ اِس طرح شیطان اور بدروحیں انسانوں میں بدی کو فروغ دیتے ہیں۔‏

‏”‏اپنے دل کی خوب حفاظت کر“‏

یہ ”‏ہوا“‏ یعنی بُری سوچ مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتی ہے۔‏ مثال کے طور پر فحش‌نگاری لوگوں میں نامناسب جنسی خواہشات پیدا کرتی ہے۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۳-‏۵‏)‏ فحش‌نگاری کے ذریعے لوگوں میں آبروریزی،‏ جانوروں کے ساتھ جنسی تعلقات اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی جیسی حرکتوں کی خواہش بیدار ہوتی ہے۔‏ فحش‌نگاری اس لئے بھی بہت نقصان‌دہ ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک ایسی عادت بن سکتی ہے جو ایک شخص کو جکڑ لیتی ہے۔‏ * جو شخص اس عادت میں پڑ جاتا ہے اُس کا دوسرے لوگوں سے بندھن ٹوٹ جاتا ہے اور وہ خدا کی خوشنودی بھی کھو بیٹھتا ہے۔‏ فحش‌نگاری اُن بدکار روحانی ہستیوں کی سوچ کی عکاسی کرتی ہے جنہوں نے نوح کے زمانے میں ناجائز جنسی تعلقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔‏

بادشاہ سلیمان نے نصیحت کی کہ ”‏اپنے دل کی خوب حفاظت کر کیونکہ زندگی کا سرچشمہ وہی ہے۔‏“‏ (‏امثال ۴:‏۲۳‏)‏ فحش‌نگاری کے معاملے میں ہم اپنے دل کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں؟‏ اگر آپ ٹی‌وی دیکھ رہے ہیں یا پھر کمپیوٹر استعمال کر رہے ہیں اور ایک دم سے فحش تصویریں دکھائی جاتی ہیں تو آپ کو چینل بدلنا یا کمپیوٹر کو بند کرنا چاہئے۔‏ یہ بہت اہم ہے کہ آپ فحش تصویروں کو آنکھوں سامنے سے ہٹانے کے لئے فوراً اقدام اُٹھائیں۔‏ خود کو ایک ایسے سپاہی کی طرح خیال کریں جس کا دُشمن اُس کے دل کی طرف بھالا پھینک رہا ہے۔‏ اسی طرح ہمارا دُشمن شیطان ہمارے دل پر وار کرتے ہوئے اِس میں بُری سوچ بھرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‏ اُسے ایسا نہ کرنے دیں۔‏

اپنے دل کو ظلم اور تشدد سے لطف اُٹھانے سے بھی محفوظ رکھیں کیونکہ شیطان جانتا ہے کہ ”‏ظلم دوست سے [‏یہوواہ خدا]‏ کی رُوح کو نفرت ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۱:‏۵‏)‏ یہ ضروری نہیں کہ شیطان آپ کو ایک وحشیانہ ظالم بنانے میں کامیاب رہے۔‏ لیکن اگر وہ آپ میں تشدد کا شوق پیدا کر سکے تو اُس کے لئے یہی کافی ہے۔‏ یہ اتفاق کی بات نہیں کہ آج فلموں میں ظلم اور تشدد عام ہو گئے ہیں۔‏ بُرے فرشتوں کی اولاد تو کب کی مر چکی ہے لیکن اُس کی سوچ اور روش آج بھی دوسروں میں دکھائی دیتی ہے۔‏ آپ جس قسم کی تفریح کا انتخاب کرتے ہیں کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ شیطان کی سوچ کو اپنانے سے انکار کرتے ہیں؟‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۱‏۔‏

شیطان کا مقابلہ کریں

بدکار روحانی ہستیوں کا مقابلہ کرنا شاید ہمیں بہت مشکل لگے۔‏ پاک صحائف میں بتایا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو خدا کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اُنہیں ’‏روحانی فوجوں سے کشتی کرنا پڑتی ہے۔‏‘‏ ان روحانی فوجوں کے خلاف لڑنے اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہمیں اُن وسائل کو استعمال میں لانا چاہئے جو خدا ہماری دفاع کے لئے فراہم کرتا ہے۔‏—‏افسیوں ۶:‏۱۲؛‏ رومیوں ۷:‏۲۱-‏۲۵‏۔‏

ان میں خدا کی رُوح‌اُلقدس شامل ہے جو کائنات کی سب سے طاقتور قوت ہے۔‏ پولس رسول نے پہلی صدی کے مسیحیوں کو خط میں لکھا:‏ ”‏ہم نے نہ دُنیا کی روح بلکہ وہ روح پایا جو خدا کی طرف سے ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۲‏)‏ خدا کی روح جن لوگوں کی راہنمائی کرتی ہے وہ بدی سے نفرت اور نیکی سے محبت رکھتے ہیں۔‏ (‏عاموس ۵:‏۱۵‏)‏ ہم خدا کی روح کے ذریعے راہنمائی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏ اِس کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم دُعا کریں،‏ پاک صحائف کا مطالعہ کریں اور اُن لوگوں کے ساتھ رفاقت رکھیں جو یہوواہ خدا سے محبت کرتے ہیں۔‏—‏لوقا ۱۱:‏۱۳؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶؛‏ عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏

اِن وسائل کو استعمال میں لانے سے ہم ”‏خدا کے سب ہتھیار“‏ باندھنے میں پہلا قدم اُٹھاتے ہیں۔‏ یہ ہتھیار ”‏ابلیس کے منصوبوں“‏ کا مقابلہ کرنے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۱-‏۱۸‏)‏ یہ بہت اہم ہے کہ آپ خدا کے سب ہتھیار کا بھرپور استعمال کرنے کی ٹھان لیں۔‏ لیکن کیوں؟‏

بدی کا خاتمہ

خدا کے کلام میں بتایا جاتا ہے کہ ”‏جب شریر گھاس کی طرح اُگتے ہیں اور سب بدکردار پھولتے پھلتے ہیں تو یہ اِسی لئے ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے فنا ہوں۔‏“‏ (‏زبور ۹۲:‏۷‏)‏ جی‌ہاں،‏ نوح کے دنوں کی طرح آج بھی بدی کا راج ہے۔‏ اور یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ نہ صرف بدکار انسانوں بلکہ آخرکار شیطان اور اُس کی بدروحوں کو بھی فنا کِیا جائے گا۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵؛‏ مکاشفہ ۲۰:‏۱-‏۳،‏ ۷-‏۱۰‏)‏ یہ سب کچھ کون انجام دے گا؟‏ یہ سب یسوع مسیح انجام دے گا۔‏ پاک صحائف میں اُس کے بارے میں لکھا ہے:‏ ”‏خدا کا بیٹا اِسی لئے ظاہر ہوا تھا کہ ابلیس کے کاموں کو مٹائے۔‏“‏—‏۱-‏یوحنا ۳:‏۸‏۔‏

کیا آپ چاہتے ہیں کہ بدکاری کا خاتمہ ہو؟‏ اگر ایسا ہے تو آپ بائبل میں پائے جانے والے خدا کے وعدوں سے ہمت باندھ سکتے ہیں۔‏ اِس کتاب میں اُس بدکار یعنی شیطان کی شناخت کی گئی ہے جو دُنیا میں پائی جانے والی بدی کا ذمہ‌دار ہے۔‏ بائبل میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ شیطان کو کیسے تباہ کِیا جائے گا۔‏ کیوں نہ آپ بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھیں۔‏ اِس طرح آپ جان جائیں گے کہ آپ خود کو شیطان کے واروں سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ آپ ایک ایسی زمین پر ہمیشہ تک رہنے کی اُمید پائیں گے جس میں بدی کا نام‌ونشان تک نہ ہوگا۔‏—‏زبور ۳۷:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 ہم اُس فرشتے کا اصلی نام نہیں جانتے جو بعد میں شیطان بن گیا۔‏ جس لفظ کا ترجمہ ”‏اِبلیس“‏ سے کِیا گیا ہے یونانی زبان میں اس کا مطلب ”‏جھوٹے الزام لگانے والا“‏ ہے اور لفظ ”‏شیطان“‏ کا مطلب ”‏مخالفت کرنے والا“‏ ہے۔‏ شیطان اور قدیم زمانے کے شہر صور کے بادشاہ میں کچھ مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔‏ (‏حزقی‌ایل ۲۸:‏۱۲-‏۱۹‏)‏ دونوں ہی سچائی کی راہ پر چل رہے تھے لیکن پھر غرور میں آ کر اُنہوں نے اِس راہ پر چلنا چھوڑ دیا۔‏

^ پیراگراف 17 مزید معلومات کے لئے جاگو!‏ اکتوبر-‏دسمبر ۲۰۰۳ کے شمارے میں مضمون ”‏فحش‌نگاری—‏بےضرر یا مُضر؟‏“‏ کو دیکھیں۔‏ یہوواہ کے گواہوں کا شائع‌کردہ۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر بکس/‏تصویر]‏

داستانوں میں سچائی کے عناصر

دُنیابھر میں دیوتاؤں،‏ دیوقامت انسانوں اور ایک بہت بڑے سیلاب کے بارے میں قدیم زمانے کی داستانیں پائی جاتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر گل‌گامیش جسے دیوتا خیال کِیا جاتا تھا اُس کی داستان میں طوفان اور کشتی کا ذکر ہے۔‏ اور اِس داستان میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ طوفان میں سے کچھ لوگ بچ نکلے تھے۔‏ گل‌گامیش کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ عیاش اور ظالم تھا۔‏ آزٹک قوم کی داستانوں میں قدیم زمانے کے دیوقامت انسانوں اور سیلاب کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔‏ ملک ناروے کی داستانوں میں دیوقامت انسانوں کی نسل کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔‏ اور یہ بھی کہ بیرگل‌میر نامی ایک شخص نے ایک بہت بڑی کشتی بنائی تھی جس میں وہ خود اور اُس کی بیوی محفوظ رہے تھے۔‏ یہ داستانیں پاک صحائف کی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ ہم سب نوح کی اولاد سے ہیں جسے خدا نے بچائے رکھا تھا جب اُس نے بدکار لوگوں کو طوفان میں تباہ کِیا تھا۔‏

‏[‏تصویر]‏

تختی پر لکھی ہوئی گل‌گامیش کی داستان

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏(The University Museum, University of Pennsylvania )‎neg. # 22065‎

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

بُرے فرشتوں کی اولاد کی سوچ اور روش آج بھی لوگوں میں دکھائی دیتی ہے

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

خدا کے کلام کی سچائیوں کے بارے میں سیکھنے سے آپ شیطان کے واروں سے محفوظ رہیں گے