بڑھاپے میں جوشوجذبے سے خدا کی خدمت کریں
بڑھاپے میں جوشوجذبے سے خدا کی خدمت کریں
”جو [یہوواہ] کے گھر میں لگائے گئے ہیں . . . وہ بڑھاپے میں بھی برومند ہوں گے۔“—زبور ۹۲:۱۳، ۱۴۔
۱، ۲. (ا) بڑھاپے کے بارے میں کیا کہا گیا ہے؟ (ب) اس سلسلے میں پاک صحائف میں کونسے وعدے پائے جاتے ہیں؟
بڑھاپا۔ یہ لفظ سن کر زندگی کا وہ مرحلہ آنکھوں سامنے آتا ہے جب ایک شخص کے چہرے پر جُھریاں پڑتی ہیں، وہ اُونچا سننے لگتا ہے اور کمزور پڑ جاتا ہے۔ واعظ ۱۲:۱-۷ میں زندگی کے ان ’بُرے دنوں‘ کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے انسان پر جو کچھ آتا ہے یہ آدم کی نافرمانی کا نتیجہ ہے۔ (رومیوں ۵:۱۲) جب یہوواہ خدا نے انسان کو خلق کِیا تو وہ ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ اُسے ایسی پستیوں سے دو چار ہونا پڑے۔
۲ بِلاشُبہ عمر کا بڑھنا فائدہمند بھی ہوتا ہے کیونکہ جوں جوں سال گزرتے ہیں ہم تجربہ حاصل کرتے ہیں۔ انسان تقریباً ۰۰۰،۶ سال سے آدم کی نافرمانی کی سزا بھگت رہا ہے۔ لیکن جلد ہی وہ وقت آئے گا جب یہوواہ کے تمام وفادار خادم ہمیشہ کی زندگی کا لطف اُٹھائیں گے۔ اُس وقت بڑھاپے اور موت کا نامونشان نہیں رہے گا۔ (پیدایش ۱:۲۸؛ مکاشفہ ۲۱:۴، ۵) تب ”کوئی نہ کہے گا کہ مَیں بیمار ہوں۔“ (یسعیاہ ۳۳:۲۴) اُس وقت عمررسیدہ لوگوں کے ’جوانی کے دن لوٹ آئیں گے‘ اور اُن کا جسم ”بچے کے جسم سے بھی تازہ ہوگا۔“ (ایوب ۳۳:۲۵) آجکل ہمیں آدم کی نافرمانی کی وجہ سے بڑھاپے اور موت کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود یہوواہ کے خادموں کو بڑھتی ہوئی عمر میں بہت سی برکتیں حاصل ہوتی ہیں۔
۳. ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ مسیحی ”بڑھاپے میں بھی برومند ہوں گے“؟
۳ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”جو [یہوواہ] کے گھر میں لگائے گئے ہیں . . . وہ بڑھاپے میں بھی برومند ہوں گے۔“ (زبور ۹۲:۱۳، ۱۴) ان آیتوں میں زبورنویس ایک اٹل حقیقت کا ذکر کر رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ مسیحی بڑھتی ہوئی عمر میں جسمانی طور پر تو کمزور پڑیں گے لیکن روحانی طور پر وہ مضبوط اور کامیاب رہیں گے۔ ہمارے عمررسیدہ بہنبھائیوں کی مثالوں کے علاوہ بائبل میں بھی بہت سے لوگوں کی مثالیں اس حقیقت کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔
’حنّاہ ہیکل سے جُدا نہ ہوتی تھی‘
۴. حنّاہ نبِیّہ نے بڑھاپے میں خدا کی بندگی کیسے کی اور اسے انعام میں کیا حاصل ہوا؟
۴ ذرا حنّاہ نامی ایک نبِیّہ کی مثال پر غور کریں۔ حالانکہ اُس کی عمر ۸۴ سال کے لگبھگ تھی، وہ ”ہیکل سے جُدا نہ ہوتی تھی بلکہ رات دن روزوں اور دُعاؤں کے ساتھ عبادت کِیا کرتی تھی۔“ حنّاہ نبِیّہ کا باپ ”آشرؔ کے قبیلہ میں سے“ تھا یعنی وہ لاوی نہیں تھا۔ اس وجہ سے حنّاہ نبِیّہ کو ہیکل میں رہائش کی اجازت نہ تھی۔ اس کے باوجود وہ صبح کی قربانی کے وقت سے لے کر شام کی قربانی کے وقت تک ہیکل میں ہوتی۔ بِلاشُبہ ایسا کرنا اُس کے لئے آسان نہ تھا۔ یہوواہ خدا نے حنّاہ نبِیّہ کو اُس کی بندگی کا بڑا انعام دیا۔ جب یوسف اور مریم شریعت پر عمل کرتے ہوئے ننھے یسوع کو ہیکل میں لائے تو حنّاہ نبِیّہ کو اُسے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ اِس پر وہ ”خدا کا شکر کرنے لگی اور ان سب سے جو یرؔوشلیم کے چھٹکارے کے منتظر لوقا ۲:۲۲-۲۴، ۳۶-۳۸؛ گنتی ۱۸:۶، ۷۔
تھے [بچے] کی بابت باتیں کرنے لگی۔“—۵، ۶. ہمارے زمانے میں عمررسیدہ مسیحی بہنبھائی حنّاہ نبِیّہ جیسا جذبہ کیسے ظاہر کر رہے ہیں؟
۵ آج بھی بہت سے عمررسیدہ مسیحی حنّاہ نبِیّہ کی طرح باقاعدگی سے اجلاسوں پر حاضر ہوتے ہیں، دُعا کرنے میں مشغول رہتے ہیں اور بڑے جوش سے دوسروں کو بادشاہت کی خوشخبری سناتے ہیں۔ ایک مسیحی جن کی عمر ۸۰ سال سے اُوپر ہے وہ اپنی بیوی کے ساتھ باقاعدگی سے اجلاسوں پر حاضر ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ”عبادت کے لئے اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے ساتھ جمع ہونا ہمارا معمول ہے۔ ہم وہیں ہونا چاہتے ہیں جہاں خدا کے بندے جمع ہوتے ہیں۔ وہیں ہمیں سکون ملتا ہے۔“ یہ مسیحی بھائی ہمارے لئے کتنی اچھی مثال قائم کر رہے ہیں۔—عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵۔
۶ جین نامی ایک مسیحی بیوہ کی عمر ۸۰ سال سے زیادہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ”مَیں خدا کی خدمت اور عبادت کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نکلنے نہیں دیتی۔ کبھیکبھار مَیں اُداس ہو جاتی ہوں۔ لیکن مَیں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے دوسرے لوگ بھی اُداس ہو جائیں۔“ وہ خوش ہو کر اُن موقعوں کے بارے میں بتاتی ہیں جب اُنہوں نے خاص مسیحی تقریبات کے سلسلے میں دوسرے ممالک کی سیر کی تھی۔ ایک ایسے موقعے پر اُنہوں نے اپنے ہمسفروں سے کہا کہ ”مَیں نے بہت سے قلعے دیکھ لئے ہیں۔ اب مَیں قلعے نہیں دیکھنا چاہتی بلکہ مُنادی کے کام میں حصہ لینا چاہتی ہوں۔“ جین اُس ملک کے باشندوں کی زبان نہیں بول سکتی تھیں لیکن اُن کی کوششوں کی وجہ سے کئی لوگوں میں خدا کے کلام کے بارے میں سننے کی خواہش بیدار ہوئی۔ اس کے علاوہ جین نے کئی سال تک ایک ایسی کلیسیا کی مدد کی جسے مُنادوں کی ضرورت تھی۔ اس کلیسیا کے اجلاسوں پر حاضر ہونے کے لئے اُنہیں ایک گھنٹے کا سفر طے کرنا پڑتا تھا اور اُنہیں ایک نئی زبان بھی سیکھنی پڑی تھی۔
اپنے ذہن کو تیز رکھیں
۷. بڑھاپے میں موسیٰ نے خدا کے بارے میں علم حاصل کرنے کی اپنی خواہش کیسے ظاہر کی؟
۷ جوں جوں ہماری عمر بڑھتی ہے ہم زندگی میں تجربہ حاصل کرتے ہیں۔ (ایوب ۱۲:۱۲) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ کئے بغیر ہی روحانی طور پر پُختہ بن جائیں گے۔ اس وجہ سے ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ”خدا کے بارے میں جو علم مَیں حاصل کر چکا ہوں یہی کافی ہے۔“ اس کی بجائے خدا کے وفادار خادم بڑھتی ہوئی عمر میں بھی ”علم میں ترقی“ کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ (امثال ۹:۹) جب یہوواہ خدا نے موسیٰ کو بنیاسرائیل کے پیشوا کے طور پر مقرر کِیا تو اُس کی عمر ۸۰ سال تھی۔ (خروج ۷:۷) اُس زمانے میں کم ہی لوگ اتنے عرصے تک زندہ رہتے تھے۔ موسیٰ ہی نے لکھا تھا کہ ”ہماری عمر کی میعاد ستر برس ہے۔ یا قوت ہو تو اَسی برس۔“ (زبور ۹۰:۱۰) اس کے باوجود موسیٰ نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ بہت بوڑھا ہے لہٰذا وہ خدا کے بارے میں مزید سیکھنے کے قابل نہیں رہا۔ کئی سال تک بنیاسرائیل کے پیشوا کے طور پر خدا کی خدمت کرنے اور بڑی بڑی ذمہداریوں کو پورا کرنے کے بعد بھی موسیٰ نے یہوواہ خدا سے یوں فریاد کی: ”مجھ کو اپنی راہ بتا جس سے مَیں تجھے پہچان لوں۔“ (خروج ۳۳:۱۳) جیہاں، موسیٰ بڑھاپے میں بھی خدا کے بارے میں علم حاصل کرنے کی دلی خواہش رکھتا تھا۔
۸. بڑھاپے میں اپنے ذہن کو تیز رکھنے کے لئے دانیایل نبی نے کیا کِیا اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟
۸ دانیایل نبی کو بڑھاپے میں بھی پاک صحائف کا مطالعہ کرنے اور ان پر سوچبچار کرنے کا بڑا شوق تھا۔ اُس کی عمر ۹۰ برس سے زیادہ تھی جب اُس نے ”کتابوں میں“ سے ایک ایسی بات سیکھی جس کی وجہ سے وہ یہوواہ خدا سے دلی فریاد کرنے لگا۔ (ہو سکتا ہے کہ ان کتابوں میں احبار، یسعیاہ، یرمیاہ، ہوسیع اور عاموس کی کتابیں شامل تھیں۔) (دانیایل ۹:۱، ۲) یہوواہ خدا نے دانیایل نبی کی سنی اور اُس کو مسیحا کے آنے اور سچے مذہب کے بارے میں اہم معلومات دیں۔—دانیایل ۹:۲۰-۲۷۔
۹، ۱۰. کئی عمررسیدہ بہنبھائیوں نے اپنے ذہن کو تیز رکھنے کے لئے کیا کِیا ہے؟
۹ موسیٰ اور دانیایل کی طرح ہمیں بھی اپنے ذہن کو تیز رکھنے کے لئے زندگیبھر خدا کے کلام پر سوچبچار کرتے رہنا چاہئے۔ بہت سے عمررسیدہ بہنبھائی ایسا ہی کرتے ہیں۔ ورتھ نامی ایک مسیحی، کلیسیا کے بزرگ ہیں۔ اُنکی عمر ۸۰ سال سے زیادہ ہے۔ ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ جماعت جتنی بھی روحانی خوراک مہیا کرتی ہے، ورتھ اسکا مطالعہ کرتے ہیں۔ (متی ۲۴:۴۵) وہ کہتے ہیں کہ ”مجھے بائبل کی سچائیوں کے بارے میں جاننے کا جنون سا ہے۔ مَیں یہ جان کر بہت خوش ہوتا ہوں کہ ان سچائیوں کی روشنی بڑھتی رہتی ہے۔“ (امثال ۴:۱۸) ایک اَور مسیحی بھائی کی مثال پر غور کریں۔ ان کا نام فریڈ ہے اور وہ ۶۰ سال سے کُلوقتی طور پر یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔ اُنہیں اپنے مسیحی بہنبھائیوں کیساتھ بائبل کے بارے میں باتچیت کرنے کا بڑا شوق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”مَیں بائبل کے علم کو اپنے ذہن میں تازہ رکھنا چاہتا ہوں۔“ وہ یہ بھی نصیحت کرتے ہیں کہ ”یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ بائبل میں سے آپ جو باتیں سیکھتے ہیں انکا ’صحیح باتوں کے خاکہ‘ سے کیا تعلق ہے۔ اسطرح آپ اس معلومات کو اپنے ذہن میں وہی ترتیب دے سکیں گے جو اُسے اس ’خاکے‘ میں بھی دی گئی ہے۔“—۲-تیمتھیس ۱:۱۳۔
۱۰ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ بڑھاپے میں لوگ نئی اور مشکل باتیں سیکھنے کے قابل نہیں رہتے۔ لوگوں نے ۶۰، ۷۰ یہاں تک کہ ۸۰ سال کی عمر میں بھی پڑھنالکھنا سیکھا ہے اور بعض نے اس عمر میں ایک نئی زبان بھی سیکھی ہے۔ مثال کے طور پر کئی عمررسیدہ یہوواہ کے گواہوں نے غیرملکی لوگوں کو خوشخبری سنانے کی خاطر ایک نئی زبان سیکھ لی ہے۔ (مرقس ۱۳:۱۰) ہیری اور اُن کی بیوی کی عمر ۶۰ سال سے اُوپر تھی جب اُنہوں نے اپنے ملک میں رہنے والے پُرتگالی غیرملکیوں کو خوشخبری سنانے کا فیصلہ کِیا۔ ہیری کہتے ہیں: ”سیدھی سی بات ہے، بڑھاپے میں ہر کام زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔“ لیکن اُنہوں نے خوب محنت کی اور اُن کی محنت رنگ لائی کیونکہ وہ لوگوں کو پُرتگالی زبان میں پاک صحائف کی تعلیم دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہیری کئی سالوں سے ڈسٹرکٹ کنونشنوں پر پُرتگالی زبان میں تقریریں پیش کر رہے ہیں۔
۱۱. ہمیں اُن کاموں پر کیوں غور کرنا چاہئے جو عمررسیدہ مسیحی انجام دے رہے ہیں؟
۱۱ جن عمررسیدہ مسیحیوں کا اب تک ذکر ہوا ہے اُن کی صحت اور اُن کے حالات ایسے ہیں کہ وہ یہوواہ کی خدمت کرنے کے لئے مزید کام انجام دے سکتے ہیں۔ لیکن تمام عمررسیدہ بہنبھائی ایسا نہیں کر سکتے۔ توپھر ہم اِن کاموں کا ذکر کیوں کر رہے ہیں جو یہ عمررسیدہ مسیحی انجام دے رہے ہیں؟ ایسا کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ تمام عمررسیدہ مسیحیوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایسے کام انجام دیں۔ اس کی بجائے ہمیں ان مسیحیوں کے بارے میں پڑھ کر پولس رسول کی اس ہدایت پر عمل کرنا چاہئے: ”ان کی زندگی کے انجام پر غور کرکے ان جیسے ایماندار ہو جاؤ۔“ (عبرانیوں ۱۳:۷) جیہاں، ان عمررسیدہ مسیحیوں کے جوشوجذبے پر غور کرنے سے ہمارے دل میں ان جیسا ایمان پیدا کرنے کی خواہش اُبھرتی ہے۔ ہیری جن کی عمر اب ۸۷ سال ہے وہ کہتے ہیں کہ ”جتنی زندگی باقی ہے، اِسے مَیں یہوواہ خدا کی خدمت میں صرف کرنا چاہتا ہوں۔“ فریڈ جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے وہ آج بھی بڑی خوشی سے بیتایل میں یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ”آپ کو یہ دیکھنا چاہئے کہ آپ کس قسم کی خدمت کرنے سے یہوواہ خدا کے سب سے زیادہ کام آ سکتے ہیں اور پھر اس خدمت کو زندگیبھر جاری رکھیں۔“
بڑھاپے میں جوشوجذبے سے خدا کی خدمت کریں
۱۲، ۱۳. ضعیف ہونے کے باوجود برزلی جلعادی نے یہوواہ خدا کی خدمت کیسے کی؟
۱۲ اکثر اس تلخ حقیقت سے نپٹنا آسان نہیں ہوتا کہ بڑھاپے میں جسم کمزور پڑ جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی عمررسیدہ مسیحی جوشوجذبے سے یہوواہ خدا کی خدمت کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں برزلی جلعادی کی مثال پر غور کریں۔ جب وہ ۸۰ سال کا تھا تو ابیسلوم نے اپنے باپ داؤد کا تخت اُلٹنے کی ۲-سموئیل ۱۷:۲۷-۲۹؛ ۱۹:۳۱-۴۰۔
کوشش کی۔ ایسے میں برزلی جلعادی نے داؤد اور اُس کے لشکر کو خوراک اور رہائش مہیا کی۔ جب داؤد واپس یروشلیم لوٹ رہا تھا تو برزلی جلعادی اُس کو یردن کے پار پہنچانے کے لئے اُس کے ساتھ گیا۔ داؤد نے اُسے شاہی دربار میں رہنے کی دعوت دی۔ اس پر برزلی جلعادی نے کہا: ”آج مَیں اَسی برس کا ہوں۔ کیا تیرا بندہ جو کچھ کھاتا پیتا ہے اُس کا مزہ جان سکتا ہے؟ کیا مَیں گانے والوں اور گانے والیوں کی آواز پھر سُن سکتا ہوں؟“ پھر اُس نے کہا: ”دیکھ تیرا بندہ کمہاؔم حاضر ہے۔ وہ میرے مالک بادشاہ کے ساتھ پار جائے اور جو کچھ تجھے بھلا معلوم دے اُس سے کر۔“—۱۳ حالانکہ برزلی جلعادی ضعیف تھا پھر بھی اُس نے یہوواہ خدا کے مقررشُدہ بادشاہ کا ساتھ دیا۔ وہ خوراک کا مزہ چکھنے اور سُریلے گیت سننے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا تھا لیکن اس بات کی وجہ سے وہ مایوسی کا شکار نہیں ہوا۔ اُس نے داؤد سے درخواست کی کہ اُس کی بجائے کمہام کو شاہی دربار میں رہنے کی اجازت دی جائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ برزلی جلعادی بہت ہی بےغرض اور فیاض تھا۔ برزلی جلعادی کی طرح آج بھی عمررسیدہ مسیحی بےغرضی اور فیاضی سے کام لیتے ہیں۔ جہاں تک اُن کے لئے ممکن ہے وہ یہوواہ خدا کی خدمت کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ”خدا ایسی قربانیوں سے خوش ہوتا ہے۔“ کلیسیا کے لئے ایسے مسیحی یہوواہ خدا کی برکت سے کم نہیں۔—عبرانیوں ۱۳:۱۶۔
۱۴. یہ جان کر کہ داؤد نے زبور ۳۷:۲۳-۲۵ کے بند بڑھاپے میں نظم کئے تھے یہ آیتیں ہمارے دل کو کیوں چھو لیتی ہیں؟
۱۴ داؤد کو زندگی میں اکثر نئی صورتحال اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اُسے یقین تھا کہ یہوواہ خدا اپنے وفادار خادموں کی ہر صورتحال میں دیکھبھال کرتا ہے۔ بڑھاپے میں داؤد نے زبور ۳۷ کو نظم کِیا۔ ذرا تصور کرنے کی کوشش کریں کہ داؤد بادشاہ کے ذہن میں کونسی یادیں تھیں جب وہ بربط بجاتے ہوئے یہ گیت گا رہا تھا: ”انسان کی روشیں [یہوواہ] کی طرف سے قائم ہیں اور وہ اُس کی راہ سے خوش ہے۔ اگر وہ گِر بھی جائے تو پڑا نہ رہے گا کیونکہ [یہوواہ] اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھالتا ہے۔ مَیں جوان تھا اور اب بوڑھا ہوں تو بھی مَیں نے صادق کو بیکس اور اُس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا۔“ (زبور ۳۷:۲۳-۲۵) ان آیات میں داؤد کے بڑھاپے کا ذکر ہے۔ داؤد نے خود تجربہ کِیا تھا کہ یہوواہ اپنے خادموں کی دیکھبھال کرتا ہے۔ اس وجہ سے اس زبور کے الفاظ دل کو چھو لیتے ہیں۔
۱۵. یوحنا رسول نے بڑھاپے میں وفاداری سے اپنی خدمت کیسے جاری رکھی؟
۱۵ یوحنا رسول نے بڑھاپے میں مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود وفاداری سے اپنی خدمت جاری رکھی۔ ستر سال تک خدا کی خدمت کرنے کے بعد اُسے ”خدا کے کلام اور یسوؔع کی نسبت گواہی دینے کے باعث“ پتمُس نامی جزیرے پر اسیر کر دیا گیا۔ (مکاشفہ ۱:۹) اس کے باوجود یہوواہ خدا نے اُس سے بڑے کام کروائے۔ بائبل میں جتنی کتابیں یوحنا رسول کی لکھی ہوئی ہیں ان سب کو اُس نے اپنی زندگی کے اس مرحلے میں درج کیں۔ جب یوحنا پتمُس پر قید تھا تو خدا نے اُسے وہ باتیں رویا میں دکھائیں جو اُس نے مکاشفہ کی کتاب میں درج کیں۔ (مکاشفہ ۱:۱، ۲) تاریخدانوں کا خیال ہے کہ اس کے بعد یوحنا کو رومی شہنشاہ نروا کی حکمرانی کے دوران رِہا کر دیا گیا۔ پھر تقریباً ۹۸ عیسوی میں جب یوحنا کی عمر ۹۰ سال سے زیادہ تھی تو اُس نے اپنے نام کی انجیل اور تین خط لکھے جو آج بائبل کا حصہ ہیں۔
صبر کی داستان
۱۶. جو اشخاص زبان سے یہوواہ خدا کی بڑائی کرنے کے قابل نہیں رہے وہ یہوواہ خدا کے لئے اپنی محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
۱۶ بڑھاپے کا اثر ہر شخص پر مختلف طرح سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر زبور ۱۱۹:۹۷) یہوواہ خدا جانتا ہے کہ کون ”اُس کے نام کو یاد کرتے“ ہیں اور وہ اِن اشخاص کی قدر بھی کرتا ہے کیونکہ وہ اُن لوگوں سے بالکل فرق ہیں جو اُس کو نظرانداز کرتے ہیں۔ (ملاکی ۳:۱۶؛ زبور ۱۰:۴) جب ہم دل ہی دل میں یہوواہ خدا کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں تو وہ خوش ہوتا ہے۔ کیا یہ جان کر ہماری حوصلہافزائی نہیں ہوتی؟—۱-تواریخ ۲۸:۹؛ زبور ۱۹:۱۴۔
کئی اشخاص کو اس عمر میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا مشکل لگتا ہے۔ اس کے باوجود وہ یہوواہ خدا کی محبت اور مہربانی کی اپنی یادیں تازہ رکھتے ہیں۔ حالانکہ وہ زبان سے پہلے کی طرح یہوواہ خدا کی بڑائی کرنے کے قابل نہیں رہے لیکن دل میں وہ اپنے خدا سے کہتے ہیں کہ ”آہ! مَیں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں۔ مجھے دنبھر اُسی کا دھیان رہتا ہے۔“ (۱۷. جو اشخاص بڑے عرصے سے یہوواہ خدا کی خدمت کرتے آ رہے ہیں اُن کی زندگی کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟
۱۷ یہ بھی یاد رکھیں کہ جو لوگ بڑے عرصے سے یہوواہ خدا کی خدمت کرتے آ رہے ہیں اُن کی زندگی بذاتخود صبر کی داستان ہوتی ہے۔ یسوع مسیح نے کہا: ”اپنے صبر سے تُم اپنی جانیں بچائے رکھو گے۔“ (لوقا ۲۱:۱۹) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صبر کرنے سے یعنی وفاداری سے یہوواہ خدا کی خدمت کرنے سے ہی ہم ہمیشہ کی زندگی پا سکتے ہیں۔ جن مسیحیوں نے ”خدا کی مرضی پوری“ کی ہے اور زندگیبھر خدا کے وفادار رہے ہیں وہ ’وعدہ کی ہوئی چیز حاصل کرنے‘ کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔—عبرانیوں ۱۰:۳۶۔
۱۸. (ا) یہوواہ خدا عمررسیدہ مسیحیوں کی خدمت کو کیسا خیال کرتا ہے؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
۱۸ یہوواہ خدا یہ نہیں دیکھتا کہ آپ اُس کی خدمت میں کتنا کچھ انجام دے رہے ہیں بلکہ یہ کہ آپ اُس کی خدمت پورے دل سے کر رہے ہیں۔ وہ ایسی خدمت کی قدر کرتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے ہماری ”ظاہری انسانیت“ یعنی ہمارا جسم کمزور پڑ جاتا ہے۔ لیکن اس کا ہماری ”باطنی انسانیت“ پر کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ یہ دن بہ دن زور پکڑتی ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۱۶) بےشک یہوواہ خدا اُن کاموں کو نہیں بھولے گا جو آپ نے ماضی میں اُس کی خدمت میں انجام دئے تھے۔ لیکن وہ اِن کاموں کی بھی قدر کرتا ہے جو آپ بڑھاپے میں اُس کے نام کی خاطر انجام دے رہے ہیں۔ (عبرانیوں ۶:۱۰) اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ جب عمررسیدہ مسیحی وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرتے ہیں تو اِس کا دوسروں پر کیسا اثر پڑتا ہے۔
آپ کا جواب کیا ہوگا؟
• حنّاہ نبِیّہ نے عمررسیدہ مسیحیوں کے لئے کونسی عمدہ مثال قائم کی؟
• عمررسیدہ ہونے کے باوجود مسیحی خدا کی خدمت میں کیا کچھ انجام دے سکتے ہیں؟
• عمررسیدہ اشخاص خدا کے لئے اپنی محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
• یہوواہ خدا اُن کاموں کو کیسا خیال کرتا ہے جو عمررسیدہ مسیحی اُس کی خدمت میں انجام دیتے ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
دانیایل نبی نے بڑھاپے میں ”کتابوں“ کا مطالعہ کرنے سے جان لیا کہ یہودیوں کی اسیری کب ختم ہوگی
[صفحہ ۲۶ پر تصویریں]
بہتیرے ضعیف مسیحی باقاعدگی سے اجلاسوں پر حاضر ہونے، مُنادی کے کام میں حصہ لینے اور سیکھنے کے شوق کو برقرار رکھنے میں عمدہ مثال قائم کر رہے ہیں