مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مُردوں کے جی اُٹھنے پر آپکا ایمان کتنا مضبوط ہے؟‏

مُردوں کے جی اُٹھنے پر آپکا ایمان کتنا مضبوط ہے؟‏

مُردوں کے جی اُٹھنے پر آپکا ایمان کتنا مضبوط ہے؟‏

‏”‏قیامت ہوگی۔‏“‏—‏اعمال ۲۴:‏۱۵‏۔‏

۱.‏ ایسا کیوں لگتا ہے کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے؟‏

‏”‏اِس دُنیا میں صرف ٹیکس کا وصول اور موت کا آنا ہی اٹل حقیقتیں ہیں۔‏“‏ امریکی سیاستدان بینجمن فرینک‌لن نے ۱۷۸۹ میں اپنے اس بیان کو درج کِیا تھا۔‏ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بیان بالکل سچ ہے کیونکہ سب پر موت آتی ہے اور ہر ایک سے ٹیکس وصول ہوتا ہے۔‏ لیکن غور کیجئے کہ بہت سے لوگ ٹیکس کی ادائیگی میں کمی‌بیشی کرتے ہیں۔‏ اس لئے ایسا لگتا ہے کہ موت ہی اٹل حقیقت ہے۔‏ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی شخص اپنی کوششوں کے ذریعے موت سے بچ نہیں سکتا۔‏ شیول،‏ یعنی وہ علامتی جگہ جہاں مُردے موت کی نیند سو رہے ہیں،‏ کبھی سیر نہیں ہوتا۔‏ (‏امثال ۲۷:‏۲۰‏)‏ لیکن ہمت باندھیں۔‏ موت اتنی اٹل نہیں جنتا لوگ اسے سمجھتے ہیں۔‏

۲،‏ ۳.‏ (‏ا)‏ موت اتنی اٹل کیوں نہیں ہے جنتا لوگ اسے سمجھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

۲ یہوواہ خدا نے اپنے کلام میں وعدہ کِیا ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔‏ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کیونکہ کائنات کے خالق یہوواہ خدا کو اپنا وعدہ پورا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔‏ اس کے علاوہ ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ اُمید رکھتے ہیں کہ وہ کبھی نہیں مریں گے۔‏ وہ کیوں؟‏ آنے والی ”‏بڑی مصیبت“‏ میں سے ایک ”‏بڑی بِھیڑ“‏ زندہ بچ نکلے گی۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۰،‏ ۱۴‏)‏ جو لوگ اس بِھیڑ میں شامل ہوں گے،‏ انہیں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع دیا جائے گا۔‏ اُن کے لئے موت اٹل نہیں ہے۔‏ اور آخرکار موت کو بھی ”‏نیست کِیا جائے گا۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۶‏۔‏

۳ مُردوں کے جی اُٹھنے پر ہمارا یقین پولس رسول کے یقین جیسا پُختہ ہونا چاہئے۔‏ وہ اِس بات کو حقیقت سمجھتا تھا کہ ”‏راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی۔‏“‏ (‏اعمال ۲۴:‏۱۵‏)‏ آئیے ہم اس سلسلے میں تین سوالوں پر غور کریں۔‏ پہلا یہ ہے کہ ہمیں مُردوں کے جی اُٹھنے کو اٹل حقیقت کیوں سمجھنا چاہئے؟‏ دوسرا،‏ یہ اُمید آپ کے لئے تسلی کا باعث کیسے بن سکتی ہے؟‏ اور تیسرا،‏ مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھنے سے آپ کو کونسے فائدے ہوں گے؟‏

مُردوں کا جی اُٹھنا ایک اٹل حقیقت ہے

۴.‏ خدا کے مقصد کے پورا ہونے کے لئے مُردوں کا جی اُٹھنا کیوں لازمی ہے؟‏

۴ ہم کئی ٹھوس وجوہات کی بِنا پر مُردوں کے جی اُٹھنے پر پورا یقین رکھ سکتے ہیں۔‏ سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ خدا کے مقصد کے پورا ہونے کے لئے مُردوں کا جی اُٹھنا لازمی ہے۔‏ یاد رکھیں کہ شیطان ہی نے انسان کو گُناہ کرنے پر اُکسایا تھا۔‏ اس طرح انسان موت کے پھندے میں پھنس گیا۔‏ اس لئے یسوع مسیح نے شیطان کے بارے میں کہا کہ ”‏وہ شروع ہی سے خونی ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۸:‏۴۴‏)‏ لیکن یہوواہ خدا نے وعدہ کِیا تھا کہ ”‏عورت“‏ (‏یعنی خدا کی آسمانی تنظیم)‏ ایک ”‏نسل“‏ پیدا کرے گی جو شیطان کے سر کو کچل کر اس ’‏پُرانے سانپ‘‏ کا نام‌ونشان مٹا دے گی۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱-‏۶،‏ ۱۵؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۹،‏ ۱۰؛‏ ۲۰:‏۱۰‏)‏ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہوواہ نے اس نسل یعنی مسیح کے متعلق مزید معلومات فراہم کی۔‏ اس معلومات سے واضح ہو گیا کہ خدا کا مقصد صرف یہ نہیں کہ عورت کی نسل شیطان کا نام‌ونشان ختم کر دے۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏خدا کا بیٹا اسی لئے ظاہر ہوا تھا کہ اِبلیس کے کاموں کو مٹائے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۳:‏۸‏)‏ موت بھی اِبلیس کے کاموں کا ہی نتیجہ ہے کیونکہ ہم نے اِسے آدم کے گُناہ کی وجہ سے ورثے میں پایا ہے۔‏ یسوع مسیح اپنی جان کی قربانی کی بِنا پر موت کو ہمیشہ کے لئے مٹا دے گا۔‏ مُردوں کا جی اُٹھنا لازمی ہے تاکہ خدا کا یہ مقصد پورا ہو سکے۔‏—‏اعمال ۲:‏۲۲-‏۲۴؛‏ رومیوں ۶:‏۲۳‏۔‏

۵.‏ مُردوں کے جی اُٹھنے سے یہوواہ خدا اپنے نام کی بڑائی کیسے کرے گا؟‏

۵ یہوواہ خدا شیطان کو جھوٹا ثابت کرکے اپنے نام کی بڑائی کرے گا۔‏ شیطان نے خدا پر جھوٹے الزام لگائے اور اُس کے بارے میں طرح طرح کے جھوٹ پھیلائے ہیں۔‏ اُس نے دعویٰ کِیا کہ اگر آدم اور حوا خدا کے حکم کی خلاف‌ورزی کرکے پھل سے کھائیں گے تو وہ ’‏ہرگز نہ مریں گے۔‏‘‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۶،‏ ۱۷؛‏ ۳:‏۴‏)‏ اُس وقت سے لے کر آج تک شیطان نے ایسے ہی جھوٹ پھیلائے ہیں۔‏ مثال کے طور پر اُس کا دعویٰ ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد اُس کی روح یا جان زندہ رہتی ہے۔‏ لیکن جب مُردے جی اُٹھیں گے تو یہ دعویٰ ہمیشہ کے لئے جھوٹا ثابت ہو جائے گا۔‏ یہوواہ خدا سب پر واضح کرے گا کہ وہ ہی انسان کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور ہماری زندگی اُسی کے ہاتھ میں ہے۔‏

۶،‏ ۷.‏ مُردوں کو زندہ کرنے کے بارے میں یہوواہ کیسے محسوس کرتا ہے،‏ اور ہم کیسے جانتے ہیں کہ وہ ایسے احساسات رکھتا ہے؟‏

۶ یہوواہ خدا مُردوں کو زندہ کرنے کی دلی خواہش رکھتا ہے۔‏ اس بات کو اُس نے اپنے کلام میں واضح کِیا ہے۔‏ ذرا خدا کے بندے ایوب کے ان الہامی الفاظ پر غور کریں:‏ ”‏تُو مجھے پکارے گا اور مَیں تجھے جواب دُونگا۔‏ تجھے اپنے ہاتھوں کی بنی ہوئی چیز کی دلی آرزو ہوگی۔‏“‏ (‏ایوب ۱۴:‏۱۴،‏ ۱۵‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏)‏ اس کا کیا مطلب ہے؟‏

۷ ایوب جانتا تھا کہ مرنے کے بعد وہ بہت عرصہ تک موت کی نیند سوئے گا۔‏ اُس نے اس عرصے کی تشبیہ ”‏غلامی“‏ سے کی جس سے وہ ایک دن رِہا کِیا جائے گا۔‏ ایوب کے لئے یہ ایک اٹل حقیقت تھی کہ اُسے موت کی گرفت سے رِہا کِیا جائے گا۔‏ وہ اس بات پر اس لئے پورا یقین رکھ سکتا تھا کیونکہ وہ یہوواہ خدا کے احساسات سے خوب واقف تھا۔‏ وہ جانتا تھا کہ یہوواہ اپنے تمام وفادار بندوں کو زندہ کرنے کی ”‏دلی آرزو“‏ رکھتا ہے۔‏ ان وفاداروں کے علاوہ یہوواہ خدا دوسروں کو بھی زمینی فردوس میں ہمیشہ تک زندہ رہنے کا موقع دے گا۔‏ (‏لوقا ۲۳:‏۴۳؛‏ یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ یہوواہ کو ایسا کرنے سے کون روک سکتا ہے؟‏

۸.‏ یہوواہ خدا نے یہ بات کیسے ”‏ثابت کر دی ہے“‏ کہ وہ مُردوں کو زندہ کرے گا؟‏

۸ چونکہ یسوع مسیح مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا اس لئے ہم یہ اُمید رکھ سکتے ہیں کہ مُردے جی اُٹھیں گے۔‏ پولس رسول نے شہر اتھینے کے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:‏ ”‏[‏خدا]‏ نے ایک دن ٹھہرایا ہے جس میں وہ راستی سے دُنیا کی عدالت اُس آدمی کی معرفت کرے گا جسے اُس نے مقرر کِیا ہے اور اُسے مُردوں میں سے جِلا کر یہ بات سب پر ثابت کر دی ہے۔‏“‏ (‏اعمال ۱۷:‏۳۱‏)‏ مُردوں کے جی اُٹھنے کے بارے میں سُن کر کئی لوگ پولس کا مذاق اُڑانے لگے۔‏ لیکن بعض لوگ ایمان لا کر مسیحی بن گئے۔‏ وہ اس لئے ایمان لائے کیونکہ پولس نے پاک صحائف میں سے دلیلیں پیش کرکے ثابت کر دیا تھا کہ مُردے جی اُٹھیں گے۔‏ یسوع کو زندہ کرنے سے یہوواہ خدا نے عظیم‌ترین معجزہ کر دکھایا۔‏ اُس نے اپنے بیٹے کو ایک طاقتور روحانی ہستی کے طور پر زندہ کِیا۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۸‏)‏ اُس وقت یسوع مسیح کو ایک ایسا رُتبہ دیا گیا جو اس رُتبے سے بھی اعلیٰ ہے جو وہ زمین پر آنے سے پہلے رکھتا تھا۔‏ وہ اب غیرفانی ہے اور یہوواہ خدا کے سوا اَور کوئی ہستی اُس سے زیادہ قوت نہیں رکھتی۔‏ یہوواہ خدا اُسے ایک بہت ہی شاندار شرف عطا کرنے والا ہے۔‏ خدا مُردوں کو یسوع مسیح ہی کے ذریعے زندہ کرے گا،‏ چاہے وہ آسمان یا زمین پر زندہ کئے جائیں۔‏ اس لئے یسوع نے اپنے بارے میں کہا:‏ ”‏قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں۔‏“‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۵؛‏ ۱۱:‏۲۵‏)‏ اپنے بیٹے کو زندہ کرنے سے یہوواہ نے ثابت کِیا کہ وہ اپنے تمام وفادار خادموں کو بھی زندہ کرے گا۔‏

۹.‏ پاک صحائف اس بات کی تصدیق کیسے کرتے ہیں کہ مُردوں کا جی اُٹھنا ایک اٹل حقیقت ہے؟‏

۹ کئی لوگوں نے مُردوں کو زندہ ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔‏ ایسے کئی واقعات خدا کے کلام میں درج ہیں۔‏ پاک صحائف میں آٹھ ایسے مُردہ اشخاص کے بارے میں بتایا گیا ہے جنہیں زمین پر زندہ کِیا گیا۔‏ یہ معجزے پوشیدگی میں نہیں بلکہ کُھلِ‌عام واقع ہوئے تھے۔‏ یسوع نے لعزر کو جو چار دن سے مُردہ تھا،‏ ایک ایسی بڑی بِھیڑ کے سامنے زندہ کِیا جس میں لعزر کے گھروالے،‏ دوست اور پڑوسی بھی شامل تھے۔‏ اس معجزے کے ذریعے یسوع نے ثابت کِیا کہ وہ خدا کا بھیجا ہوا ہے۔‏ اُس کے دُشمنوں نے کبھی اس بات پر سوال نہیں اُٹھایا کہ آیا لعزر کو واقعی زندہ کِیا گیا تھا یا نہیں۔‏ پھربھی وہ یسوع اور لعزر دونوں کو قتل کرنا چاہتے تھے۔‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۱۷-‏۴۴،‏ ۵۳؛‏ ۱۲:‏۹-‏۱۱‏)‏ پاک صحائف میں درج ایسے واقعات کی وجہ سے ہم مُردوں کے جی اُٹھنے پر پورا یقین رکھ سکتے ہیں۔‏ خدا نے ان واقعات کو اس لئے درج کروایا تاکہ ہمارا ایمان مضبوط ہو جائے اور ہم تسلی پائیں۔‏

تسلی کا باعث

۱۰.‏ پاک صحائف سے تسلی پانے کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

۱۰ جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے تو ہمیں تسلی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔‏ ایسی صورتحال میں تسلی پانے کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏ پاک صحائف میں ایسے بیانات پڑھیں جن میں مُردوں کے جی اُٹھنے کے بارے بتایا گیا ہے۔‏ ان واقعات پر غوروفکر کریں اور ان مناظر کو تصور کرنے کی کوشش کریں۔‏ اس طرح مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید آپ کے دل میں اَور بھی مضبوط ہو جائے گی۔‏ (‏رومیوں ۱۵:‏۴‏)‏ یہ بیانات محض گڑھی ہوئی کہانیاں نہیں ہیں۔‏ ان میں جن واقعات کا ذکر ہے یہ حقیقی لوگوں کے ساتھ پیش آئے تھے اور ان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ کب اور کہاں واقع ہوئے۔‏ آئیے ہم اس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔‏ یہ بائبل میں درج وہ پہلا واقعہ ہے جس میں ایک مُردے کو زندہ کِیا گیا۔‏

۱۱،‏ ۱۲.‏ (‏ا)‏ صارپت کی بیوہ پر کونسی آفت ٹوٹ پڑی،‏ اور شروع میں اُس کا کیا ردِعمل رہا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نے ایلیاہ نبی کے ذریعے بیوہ کے لئے کیا کر دکھایا؟‏

۱۱ ذرا اس منظر کا تصور کریں۔‏ ایلیاہ نبی شہر صارپت میں ایک بیوہ کا مہمان ہے۔‏ وہ کئی ہفتوں سے اُس کے گھر کے بالاخانے میں رہ رہا ہے۔‏ وہ علاقہ قحط اور خشک‌سالی کی گرفت میں ہے۔‏ لوگ دھڑادھڑ مر رہے ہیں۔‏ کچھ ہفتے پہلے بیوہ اور اُس کا بیٹا بھی بھوک سے مرنے والے تھے۔‏ وہ اپنا آخری نوالہ کھانے والے تھے کہ ایلیاہ نبی ان کے گھر پہنچ گیا۔‏ یہوواہ خدا کی قدرت سے نبی نے ایک معجزہ دکھایا جس کی وجہ سے بیوہ کے گھر میں آٹا اور تیل کم نہیں ہوئے۔‏ لیکن اب بیوہ پر آفت ٹوٹ پڑی ہے۔‏ اُس کا بیٹا اچانک بیمار پڑ جاتا ہے اور دم توڑ دیتا ہے۔‏ ذرا بیوہ کے غم کا تصور کریں۔‏ اُسے شوہر کے سہارے کے بغیر اپنا گزربسر چلانا پڑ رہا تھا اور اب وہ اپنے اِکلوتے بیٹے کو بھی کھو بیٹھی ہے۔‏ سخت صدمے کا شکار ہو کر وہ ایلیاہ نبی اور اُس کے خدا یہوواہ کو اپنے بیٹے کی موت کا قصوروار ٹھہراتی ہے۔‏ خدا کا نبی کیا کرے گا؟‏

۱۲ ایلیاہ نبی بیوہ کو ٹوکنے کی بجائے اُس سے کہتا ہے:‏ ”‏اپنا بیٹا مجھ کو دے۔‏“‏ پھر وہ بچے کو بالاخانے میں لے جاتا ہے۔‏ وہاں وہ کئی بار خدا سے التجا کرتا ہے کہ بچہ دوبارہ زندہ ہو جائے۔‏ یہوواہ اُس کی مانگ پوری کرتا ہے۔‏ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایلیاہ نبی کتنا خوش ہوا تھا جب اُس نے دیکھا کہ بچہ سانس لینے لگتا ہے اور اپنی آنکھیں کھول رہا ہے؟‏ وہ بچے کو اُٹھا کر اُسے ماں کے پاس لاتا ہے اور اُس سے کہتا ہے:‏ ”‏دیکھ تیرا بیٹا جیتا ہے۔‏“‏ ماں کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں۔‏ وہ کہتی ہے:‏ ”‏اب مَیں جان گئی کہ تُو مردِخدا ہے اور [‏یہوواہ]‏ کا جو کلام تیرے مُنہ میں ہے وہ حق ہے۔‏“‏ (‏۱-‏سلاطین ۱۷:‏۸-‏۲۴‏)‏ یوں بیوہ یہوواہ خدا اور اُس کے نبی پر ایمان لاتی ہے۔‏

۱۳.‏ یہ پڑھ کر کہ ایلیاہ نے بیوہ کے بیٹے کو زندہ کِیا ہم تسلی کیوں پاتے ہیں؟‏

۱۳ ایسے بیانات پر غور کرنے سے آپ کو بہت تسلی ملے گی۔‏ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہوواہ خدا ہمارے جانی دُشمن یعنی موت کو شکست دینے کے قابل ہے۔‏ ذرا اُس دن کے بارے میں سوچیں جب اُس بیوہ کی طرح لاکھوں لوگ اپنے مُردہ عزیزوں کو زندہ پائیں گے۔‏ یہوواہ خدا بھی بہت خوش ہوگا جب وہ اپنے بیٹے یسوع مسیح کو پوری زمین پر مُردوں کو زندہ کرنے کا حکم دے گا۔‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ کیا موت نے آپ کے کسی عزیز کو آپ سے چھین لیا ہے؟‏ توپھر یقیناً آپ کو یہ جان کر تسلی ہوگی کہ یہوواہ خدا مُردوں کو زندہ کرے گا۔‏

مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھنے کے فائدے

۱۴.‏ مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھنے سے آپ کو کونسا فائدہ ہوگا؟‏

۱۴ مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھنے سے آپ کو کونسے فائدے ہوں گے؟‏ آپ آزمائشوں،‏ مشکلات اور اذیت کا سامنا کرتے وقت ہمت ہارنے کی بجائے ثابت‌قدم رہنے کے قابل ہوں گے۔‏ شیطان ہمیں موت کا خوف دلانا چاہتا ہے تاکہ ہم اپنی جان بچانے کی خاطر خدا کے حکموں کی نافرمانی کریں۔‏ آپ کو یاد ہوگا کہ شیطان نے یہوواہ خدا سے کہا تھا:‏ ”‏انسان اپنا سارا مال اپنی جان کے لئے دے ڈالے گا۔‏“‏ (‏ایوب ۲:‏۴‏)‏ ایسا دعویٰ کرنے سے شیطان نے ہم سب پر الزام لگایا۔‏ کیا آپ اذیت کا سامنا کرتے وقت خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دیں گے؟‏ آپ نے ضرور خدا کے وفادار رہنے کی ٹھان لی ہوگی۔‏ مُردوں کے جی اُٹھنے کی شاندار اُمید پر غور کرنے سے یہ عزم آپ کے دل میں اَور بھی مضبوط ہو جائے گا۔‏

۱۵.‏ اذیت کا سامنا کرتے وقت ہم متی ۱۰:‏۲۸ سے ہمت کیوں باندھ سکتے ہیں؟‏

۱۵ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏جو بدن کو قتل کرتے ہیں اور رُوح کو قتل نہیں کر سکتے اُن سے نہ ڈرو بلکہ اُسی سے ڈرو جو رُوح اور بدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کر سکتا ہے۔‏“‏ (‏متی ۱۰:‏۲۸‏)‏ ہمیں شیطان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی اُن انسانوں سے جو اُس کے قابو میں ہیں۔‏ یہ بات سچ ہے کہ وہ ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں،‏ یہاں تک کہ ہمیں قتل بھی کر سکتے ہیں۔‏ لیکن وہ ہمیں جو بھی نقصان پہنچائیں وہ محض عارضی ہوگا۔‏ یہوواہ اسے دُور کر سکتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے وفادار خادموں کو دوبارہ زندہ بھی کر سکتا ہے۔‏ اس لئے ہمیں یہوواہ خدا ہی سے ڈرنا چاہئے یعنی دل سے اُس کی عزت اور فرمانبرداری کرنی چاہئے۔‏ وہ ہی بدن اور رُوح کو جہنم میں ہلاک کر سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ ہماری زندگی ہمیشہ کے لئے ختم کر سکتا ہے۔‏ خوشی کی بات ہے کہ یہوواہ ایسا نہیں کرنا چاہتا۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۹‏)‏ یہ جاننے سے کہ مُردے جی اُٹھیں گے خدا کے خادم پورا بھروسہ رکھ سکتے ہیں کہ وہ محفوظ ہیں۔‏ اگر ہم خدا کے وفادار رہیں گے تو ہمیں ہمیشہ کی زندگی عطا کی جائے گی۔‏ نہ تو شیطان اور نہ ہی اُس کی پیروی کرنے والے انسان ہمارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔‏—‏زبور ۱۱۸:‏۶؛‏ عبرانیوں ۱۳:‏۶‏۔‏

۱۶.‏ مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھنے سے ہماری سوچ اور ہمارے چال‌چلن پر کیا اثر پڑتا ہے؟‏

۱۶ اگر ہم مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں تو اس کا ہماری سوچ اور ہمارے چال‌چلن پر اثر پڑتا ہے۔‏ ہم جانتے ہیں کہ چاہے ’‏ہم جئیں یا مریں ہم یہوواہ ہی کے ہیں۔‏‘‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۷،‏ ۸‏)‏ اس لئے ہم پولس رسول کی اِس نصیحت پر عمل کرتے ہیں:‏ ”‏اِس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۲‏)‏ ایسے لوگ جو زندگی کو صرف چند دنوں کا مہمان سمجھتے ہیں وہ اپنی ہر خواہش فوراً پوری کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔‏ ان پر اپنا شوق پورا کرنے کا جنون سا سوار ہوتا ہے۔‏ اگر وہ خدا کی عبادت کرتے بھی ہیں تو وہ اُس کی ”‏کامل مرضی“‏ کے مطابق ایسا ہرگز نہیں کرتے۔‏

۱۷،‏ ۱۸.‏ (‏ا)‏ زندگی کے مختصر ہونے کے بارے میں خدا کے کلام میں کیا بتایا گیا ہے،‏ لیکن اس سلسلے میں خدا نے کونسا وعدہ کِیا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم روزانہ یہوواہ کی حمد کیوں کرنا چاہتے ہیں؟‏

۱۷ سچ تو یہ ہے کہ زندگی محض چند دنوں کی مہمان ہے۔‏ ستر یا اَسی سال کے بعد ہماری زندگی ”‏جلد جاتی رہتی ہے اور ہم اُڑ جاتے ہیں۔‏“‏ (‏زبور ۹۰:‏۱۰‏)‏ زمین پر انسان اس طرح آتے جاتے ہیں جس طرح گھاس تھوڑی دیر کے لئے اُگتی اور پھر مُرجھا جاتی ہے۔‏ انسان کے دن ڈھلتے ہوئے سائے کی مانند ہیں۔‏ (‏زبور ۱۰۳:‏۱۵؛‏ ۱۴۴:‏۳،‏ ۴‏)‏ لیکن خدا نے انسان کو اس لئے نہیں بنایا کہ وہ چند سال تک سمجھداری اور تجربہ حاصل کرے اور پھر اپنی باقی عمر ضعیف ہو کر موت کے انتظار میں گزارے۔‏ ہمارے خالق نے ہمارے دل میں ہمیشہ تک زندہ رہنے کی خواہش ڈالی ہے۔‏ خدا کا کلام بتاتا ہے کہ ”‏اُس نے ابدیت کو بھی اُن کے دل میں جاگزین کِیا ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۳:‏۱۱‏)‏ اگر خدا ہمارے دل میں ایک ایسی خواہش ڈالتا اور پھر اُسے کبھی پورا نہ کرتا تو کیا وہ بےرحم نہ ہوتا؟‏ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ”‏خدا محبت ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۴:‏۸‏)‏ لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مُردوں کو زندہ کرکے اُن کو ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع دے گا۔‏

۱۸ مُردوں کے جی اُٹھنے پر ہمارا ایمان ہمارے لئے اُمید کا باعث ہے۔‏ ہم دوسرے لوگوں کی طرح اپنی ہر خواہش فوراً پوری کرنے کے لئے بےچین نہیں ہیں۔‏ ہم جانتے ہیں کہ یہ دُنیا جلد ختم ہونے والی ہے۔‏ اس لئے ہم ’‏دُنیا ہی کے نہیں ہوتے‘‏ یعنی اس میں پوری طرح سے مگن نہیں ہو جاتے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۲۹-‏۳۱؛‏ ۱-‏یوحنا ۲:‏۱۷‏)‏ اِس دُنیا کے بےاُمید لوگوں کے برعکس ہم اُمید رکھ سکتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم یہوواہ خدا کے وفادار رہیں گے تو ہمیں ہمیشہ تک اُس کی ستائش کرنے اور زندگی کا بھرپور لطف اُٹھانے کا شرف حاصل ہوگا۔‏ آئیے ہم ہر روز یہوواہ خدا کی حمد کریں جو مُردوں کو ضرور زندہ کرے گا۔‏

آپ کا کیا جواب ہوگا؟‏

‏• ہمیں مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏

‏• ہم کن وجوہات کی بِنا پر مُردوں کے جی اُٹھنے پر پورا یقین رکھ سکتے ہیں؟‏

‏• مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید سے تسلی پانے کے لئے آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏

‏• مُردوں کے جی اُٹھنے پر آپ کا ایمان آپ کی سوچ اور آپکے چال‌چلن پر کیسے اثر کرتا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

ایوب جانتا تھا کہ یہوواہ خدا اپنے وفادار خادموں کو زندہ کرنے کی دلی خواہش رکھتا ہے

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

‏”‏دیکھ تیرا بیٹا جیتا ہے“‏