مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

نوحہ کی کتاب سے اہم نکات

نوحہ کی کتاب سے اہم نکات

یہوواہ کا کلام زندہ ہے

نوحہ کی کتاب سے اہم نکات

چالیس سال تک یرمیاہ نبی نے شہر یروشلیم کی تباہی کی پیشینگوئی کی۔‏ اب وہ پیشینگوئی کی تکمیل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔‏ دُشمن ۱۸ ماہ تک یروشلیم کو گھیرے میں لئے ہیں اور آخرکار اسے آگ سے جلا کر راکھ کر دیتے ہیں۔‏ (‏یرمیاہ ۵۲:‏۳-‏۵،‏ ۱۲-‏۱۴‏)‏ ان واقعات کو دیکھ کر یرمیاہ نبی کیسا محسوس کرتا ہے؟‏ سپتواجنتا نامی یونانی ترجمے میں نوحہ کی کتاب کی تمہید میں یوں لکھا ہے:‏ ”‏یرمیاہ نبی نے یروشلیم پر رو کر نوحہ کِیا۔‏“‏ واقعی،‏ نوحہ کی کتاب میں یرمیاہ نبی نے پُرزور اور مؤثر الفاظ میں اپنے غم کا اظہار کِیا۔‏ اُس نے نوحہ کی کتاب کو ۶۰۷ قبلِ‌مسیح میں درج کِیا جب یروشلیم کی تباہی کے مناظر اُس کے ذہن میں تازہ تھے۔‏ اپنے عزیز شہر پر اُس کا یہ واویلا تاریخِ‌ادب میں بےمثال ہے۔‏

نوحہ کی کتاب پانچ نظموں پر مشتمل ہے۔‏ پہلی چار نظمیں یروشلیم پر نوحہ ہیں جبکہ پانچویں نظم ایک دُعا ہے۔‏ پہلی چار نظمیں ۲۲ بندوں پر مشتمل ہیں۔‏ عبرانی زبان میں ۲۲ حروف ہیں۔‏ لہٰذا ہر ایک بند عبرانی الف بے کی ترتیب کے مطابق ایک مختلف حرف سے شروع ہوتا ہے۔‏ پانچویں نظم کے بھی ۲۲ بند ہیں لیکن اُن کو اس طرح سے ترتیب نہیں کِیا گیا ہے۔‏

‏”‏میری آنکھیں روتے روتے دُھندلا گئیں“‏

‏(‏نوحہ ۱:‏۱–‏۲:‏۲۲‏)‏

‏”‏وہ بستی جو خلقت سے معمور تھی کیسی خالی پڑی ہے!‏ وہ خاتونِ‌اقوام بیوہ سی ہو گئی۔‏ وہ ملکہِ‌ممالک باجگذار بن گئی۔‏“‏ ان الفاظ سے شہر یروشلیم پر یرمیاہ نبی کا نوحہ شروع ہوتا ہے۔‏ یہ آفت یروشلیم پر کیوں ٹوٹ پڑی؟‏ یرمیاہ نبی اس کی وجہ یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ نے اُس کے گُناہوں کی کثرت کے باعث اُسے رنج میں ڈالا۔‏“‏—‏نوحہ ۱:‏۱،‏ ۵‏۔‏

شہر یروشلیم کی تشبیہ ایک غمزدہ بیوہ سے کی جاتی ہے جو اپنے شوہر اور اپنے بچوں سے محروم ہو گئی ہے۔‏ وہ پوچھتی ہے کہ ”‏کیا کوئی غم میرے غم کی مانند ہے جو مجھ پر آیا ہے؟‏“‏ وہ اپنے دُشمنوں کے متعلق خدا سے یوں التجا کرتی ہے:‏ ”‏اُن کی تمام شرارت تیرے سامنے آئے۔‏ اُن سے وہی کر جو تُو نے میری تمام خطاؤں کے باعث مجھ سے کِیا ہے۔‏ کیونکہ میری آہیں بیشمار ہیں اور میرا دل نڈھال ہے۔‏“‏—‏نوحہ ۱:‏۱۲،‏ ۲۲‏۔‏

دُکھ بھرے دل سے یرمیاہ نبی کہتا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ نے قہرِشدید میں اؔسرائیل کا سینگ بالکل کاٹ ڈالا۔‏ اُس نے دُشمن کے سامنے سے دہنا ہاتھ کھینچ لیا اور اُس نے شعلہ‌زن آگ کی طرح جو چاروں طرف بھسم کرتی ہے یعقوؔب کو جلا دیا۔‏“‏ یرمیاہ نبی اپنے شدید غم کے بارے میں یوں بتاتا ہے:‏ ”‏میری آنکھیں روتے روتے دُھندلا گئیں۔‏ میرے اندر پیچ‌وتاب ہے۔‏ میری دُخترِقوم کی بربادی کے باعث میرا کلیجہ نکل آیا۔‏“‏ جو مسافر یروشلیم کے پاس سے گزرتے ہیں وہ سر ہلا کر کہتے ہیں:‏ ”‏کیا یہ وہی شہر ہے جِسے لوگ کمالِ‌حسن اور فرحتِ‌جہان کہتے تھے؟‏“‏—‏نوحہ ۲:‏۳،‏ ۱۱،‏ ۱۵‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۱:‏۱۵‏—‏یہوواہ نے کس طرح ”‏یہوؔداہ کی کنواری بیٹی کو گویا کولھو میں کچل ڈالا“‏؟‏ اِس آیت میں یروشلیم کی تشبیہ ایک کنواری سے کی جاتی ہے۔‏ جب بابلیوں نے یروشلیم پر حملہ کِیا تو اس کے باشندوں کا خون اتنی کثرت سے بہایا گیا جتنا کولھو سے رس بہتا ہے جب اس میں انگور کچلے جاتے ہیں۔‏ چونکہ یہوواہ نے اس بات کی پیشینگوئی کی تھی اور بابلیوں کو ایسا کرنے سے نہیں روکا اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہوواہ نے ہی یروشلیم کو ”‏کولھو میں کچل ڈالا“‏ تھا۔‏

۲:‏۱‏—‏اسرائیل کے جمال کو کس طرح ”‏آسمان سے زمین پر گِرا دیا“‏ گیا؟‏ چونکہ ”‏آسمان زمین سے بلند ہے“‏ اس لئے یہ محاورہ ”‏آسمان سے زمین پر گِرا دینا“‏ ظاہر کرتا ہے کہ کسی شاندار چیز کو ذلیل کِیا گیا ہے۔‏ جب تک بنی‌اسرائیل کو یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل تھی تب تک ان کا ”‏جمال“‏ یعنی شان‌وشوکت بھی قائم تھا۔‏ لیکن جب یروشلیم اور یہوداہ کو تباہ‌وبرباد کر دیا گیا تو ان کا جمال بھی گِرا دیا گیا۔‏—‏یسعیاہ ۵۵:‏۹‏۔‏

۲:‏۱،‏ ۶‏—‏یہوواہ کے ”‏پاؤں کی چوکی“‏ اور اُس کا ”‏مسکن“‏ کیا ہے؟‏ زبورنویس نے لکھا:‏ ”‏ہم اُس کے مسکنوں میں داخل ہوں گے۔‏ ہم اُس کے پاؤں کی چوکی کے سامنے سجدہ کریں گے۔‏“‏ (‏زبور ۱۳۲:‏۷‏)‏ لہٰذا نوحہ ۲:‏۱ میں یہوواہ کے ”‏پاؤں کی چوکی“‏ سے مُراد یروشلیم میں اُس کی عبادت‌گاہ یعنی ہیکل ہے۔‏ بابلی فوجوں نے ’‏یہوواہ کا گھر آگ سے جلا دیا‘‏ گویا وہ باغ میں ایک خیمہ یا جھونپڑی ہو۔‏—‏یرمیاہ ۵۲:‏۱۲،‏ ۱۳‏۔‏

۲:‏۱۷‏—‏یہوواہ نے یروشلیم کے متعلق کونسے ’‏کلام کو پورا کِیا‘‏؟‏ ہو سکتا ہے کہ اس آیت کا اشارہ احبار ۲۶:‏۱۷ کی طرف ہو جس میں لکھا ہے:‏ ”‏مَیں خود بھی تمہارا مخالف ہو جاؤں گا اور تُم اپنے دشمنوں کے آگے شکست کھاؤ گے اور جن کو تُم سے عداوت ہے وہی تُم پر حکمرانی کریں گے اور جب کوئی تُم کو رگیدتا بھی نہ ہوگا تب بھی تُم بھاگو گے۔‏“‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱:‏۱-‏۹‏۔‏ یروشلیم رات کو زار زار روتا ہے۔‏ اُس کے رخساروں پر آنسو بہتے ہیں۔‏ اُس کے سب پھاٹک سنسان ہیں۔‏ اُس کے کاہن آہیں بھرتے ہیں۔‏ اُس کی کنواریاں مصیبت‌زدہ ہیں۔‏ پورا شہر غمگین ہے۔‏ یروشلیم پر یہ مصیبتیں کیوں آئی ہیں؟‏ کیونکہ اُس نے سخت گُناہ کِیا ہے۔‏ اُس کی نجاست اُس کے دامن میں ہے۔‏ ظاہر ہے کہ گُناہ کرنے سے ایک شخص کو خوشی حاصل نہیں ہوتی۔‏ گُناہ کے پھل آنسو،‏ آہیں،‏ مصیبت اور غم ہی ہیں۔‏

۱:‏۱۸‏۔‏ چونکہ یہوواہ صادق ہے اس لئے وہ گنہگاروں کو سزا ضرور دے گا۔‏

۲:‏۲۰‏۔‏ بنی‌اسرائیل کو آگاہ کِیا گیا تھا کہ اگر اُنہوں نے یہوواہ خدا کی بات نہ مانی تو ان پر لعنتیں نازل ہوں گی۔‏ ان لعنتوں میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اُنہیں ”‏اپنے ہی بیٹوں اور بیٹیوں کا گوشت“‏ کھانا پڑے گا۔‏ (‏استثنا ۲۸:‏۱۵،‏ ۴۵،‏ ۵۳‏)‏ بیشک،‏ خدا کی نافرمانی کرنا دانشمندی کی بات نہیں ہے۔‏

‏”‏میری آہ‌وفریاد سے اپنا کان بند نہ کر“‏

‏(‏نوحہ ۳:‏۱–‏۵:‏۲۲‏)‏

نوحہ کی کتاب کے تیسرے باب میں بنی‌اسرائیل کو ایک ”‏شخص“‏ سے تشبیہ دی گئی ہے۔‏ وہ اپنے دُکھوں کے باوجود کہتا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اُن پر مہربان ہے جو اُس کے منتظر ہیں۔‏ اُس جان پر جو اُس کی طالب ہے۔‏“‏ پھر وہ یوں دُعا کرتا ہے:‏ ”‏تُو نے میری آواز سنی ہے۔‏ میری آہ‌وفریاد سے اپنا کان بند نہ کر۔‏“‏ اپنے دُشمنوں سے متعلق وہ خدا سے التجا کرتا ہے:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ اُن کے اعمال کے مطابق اُن کو بدلہ دے۔‏“‏—‏نوحہ ۳:‏۱،‏ ۲۵،‏ ۵۶،‏ ۶۴‏۔‏

اُن ۱۸ مہینوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جب یروشلیم دُشمنوں کے گھیرے میں تھا،‏ یرمیاہ نبی یوں واویلا کرتا ہے:‏ ”‏میری دُخترِقوم کی بدکرداری سدؔوم کے گُناہ سے بڑھکر ہے جو ایک لمحہ میں برباد ہوا اور کسی کے ہاتھ اُس پر دراز نہ ہوئے۔‏“‏ نبی آگے یوں کہتا ہے:‏ ”‏تلوار سے قتل ہونے والے بھوکوں مرنے والوں سے بہتر ہیں کیونکہ یہ کھیت کا حاصل نہ ملنے سے کڑھ کر ہلاک ہوتے ہیں۔‏“‏—‏نوحہ ۴:‏۶،‏ ۹‏۔‏

پانچویں نظم یروشلیم کے باشندوں کی دُعا ہے۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ جو کچھ ہم پر گذرا اُسے یاد کر!‏ نظر کر اور ہماری رسوائی کو دیکھ۔‏“‏ وہ خدا کو اپنی مصیبتوں کے بارے میں بتا کر یوں فریاد کرتے ہیں:‏ ”‏تُو اَے [‏یہوواہ]‏ ابد تک قائم ہے اور تیرا تخت پُشت‌درپُشت۔‏ اَے [‏یہوواہ]‏ ہم کو اپنی طرف پھرا تو ہم پھرینگے۔‏ ہمارے دن بدل دے جیسے قدیم سے تھے۔‏“‏—‏نوحہ ۵:‏۱،‏ ۱۹،‏ ۲۱‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۳:‏۱۶‏—‏اس جملے کا کیا مطلب ہے کہ ”‏اُس نے سنگریزوں سے میرے دانت توڑے“‏؟‏ ایک لغت میں اس کی یوں وضاحت کی گئی ہے:‏ ”‏جب یہودیوں کو قید کرکے بابل لے جایا جا رہا تھا تو راستے میں وہ زمین میں گڑھے کھود کر اِن میں روٹی پکاتے۔‏ اس طرح روٹی میں بہت سے کنکر مل جاتے۔‏“‏ ایسی روٹی کھانے سے دانت آسانی سے ٹوٹ جاتے۔‏

۴:‏۳،‏ ۱۰‏—‏یرمیاہ نبی اپنی ”‏دُخترِقوم“‏ کی تشبیہ ”‏بیابانی شترمُرغ“‏ سے کیوں کرتا ہے؟‏ ایوب ۳۹:‏۱۶ میں مادہ شترمُرغ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ”‏وہ اپنے بچوں سے ایسی سخت‌دلی کرتی ہے کہ گویا وہ اُس کے نہیں۔‏“‏ مثال کے طور پر،‏ شترمُرغ انڈے دینے کے بعد گھونسلے کو چھوڑ کر دوسری مادہ شترمُرغوں کے ساتھ چلی جاتی ہے۔‏ چُوزوں کی دیکھ‌بھال نر شترمُرغ ہی کرتا ہے۔‏ اور جب اُسے کسی خطرے کا سامنا ہو تو وہ بھی چُوزوں کو چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔‏ جب بابلی فوج نے یروشلیم کو گھیر لیا تھا تو شہر میں اتنا شدید قحط پڑا کہ عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ ظلم کرنے لگیں۔‏ واقعی،‏ ایسی عورتیں جو عام طور پر رحمدل ہوتیں وہ شترمُرغ کی طرح بےرحم بن گئیں۔‏ ان کے برعکس گیدڑ کٹھن حالات میں بھی اپنے بچوں کی دیکھ‌بھال کرتے ہیں۔‏

۵:‏۷‏—‏کیا یہوواہ خدا واقعی لوگوں کو اُن کے باپ‌دادا کے گُناہوں کے لئے سزا بھگتنے دیتا ہے؟‏ جی‌نہیں۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏ہم میں سے ہر ایک خدا کو اپنا حساب دے گا۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۱۲‏)‏ لہٰذا یہوواہ خدا اولاد کو باپ‌دادا کے گُناہوں کے لئے جوابدہ نہیں ٹھہراتا۔‏ لیکن لوگوں کو اکثر اپنے باپ‌دادا کی غلطیوں کے بُرے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر قدیم اسرائیل میں بُت‌پرستی بہت عام ہو گئی تھی۔‏ اس لئے کئی صدیوں تک وفادار اسرائیلیوں کو خدا کی خدمت کرنے میں بہت سی مشکلات اُٹھانی پڑیں۔‏—‏خروج ۲۰:‏۵‏۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۳:‏۸،‏ ۴۳،‏ ۴۴‏۔‏ جب یروشلیم کے باشندوں پر آفت ٹوٹ پڑی تو یہوواہ نے اُن کی فریاد سننے سے انکار کر دیا۔‏ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن لوگوں نے اُس کی نافرمانی کرنے پر توبہ نہیں کی۔‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہماری دُعا سنے تو ہمیں اُس کے فرمانبردار رہنا ہوگا۔‏—‏امثال ۲۸:‏۹‏۔‏

۳:‏۲۱-‏۲۶،‏ ۲۸-‏۳۳‏۔‏ ان آیات میں یرمیاہ نبی ہمیں بتاتا ہے کہ ہم شدید اذیت کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔‏ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ کی شفقت اور اُس کی رحمت لازوال ہے۔‏ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک ہم زندہ ہیں ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہئے۔‏ شکایت کرنے کی بجائے ہمیں صبر کرنا اور خاموشی سے یہوواہ کی نجات کا انتظار کرنا چاہئے۔‏ اس کے علاوہ ہمیں ’‏اپنا مُنہ خاک پر رکھنا‘‏ چاہئے یعنی فروتنی سے آزمائشوں کو قبول کرنا چاہئے۔‏ یہ نہ بھولیں کہ اگر یہوواہ ہمیں دُکھ سہنے دیتا ہے تو ایسا کرنے کے لئے اس کے پاس ٹھوس وجوہات ہوتی ہیں۔‏

۳:‏۲۷‏۔‏ جوانی میں آزمائشوں کا سامنا کرنا بےشک آسان نہیں ہوتا۔‏ لیکن ”‏آدمی کے لئے یہ اچھا ہے کہ لڑکپن ہی سے جُوا اُٹھائے۔‏“‏ ‏(‏کیتھولک ترجمہ)‏ یہ اُس کے لئے اچھا کیوں ہے؟‏ جو شخص جوانی میں دُکھ کا جُوا اُٹھاتا ہے وہ بالغ ہو کر بھی مشکلات سے نپٹنے میں کامیاب ہوگا۔‏

۳:‏۳۹-‏۴۲‏۔‏ اپنے گُناہوں کی سزا بھگتتے وقت ’‏شکایت کرنا‘‏ دانشمندی کی بات نہیں ہے۔‏ اس سے بہتر یہ ہے کہ ”‏ہم اپنی راہوں کو ڈھونڈیں اور جانچیں اور [‏یہوواہ]‏ کی طرف پھریں۔‏“‏ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں توبہ کرکے اپنے چال‌چلن میں بہتری لانی چاہئے۔‏

یہوواہ پر بھروسہ رکھیں

نوحہ کی کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا نے یروشلیم اور یہوداہ کی بربادی کو کیسا خیال کِیا۔‏ یہوواہ نے واضح کِیا کہ اس علاقے پر یہ آفت اس لئے ٹوٹ پڑی کیونکہ اُس کے لوگوں نے سخت بدکاری کی تھی۔‏ سچ تو یہ ہے کہ یرمیاہ نبی کے زمانے میں زیادہ‌تر لوگ اپنا بُرا چال‌چلن ترک کرنے کو تیار نہیں تھے۔‏ لیکن نوحہ کی کتاب سے ہم یہ بھی جان جاتے ہیں کہ یرمیاہ نبی کے علاوہ کئی ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے اپنے گُناہوں کا اقرار کِیا،‏ یہوواہ پر بھروسہ کِیا اور اچھا چال‌چلن اختیار کرنے کی ٹھان لی۔‏

نوحہ کی کتاب پڑھنے سے ہم دو اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏ ایک سبق ہم یروشلیم اور یہوداہ کی بربادی سے سیکھ سکتے ہیں۔‏ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ یہوواہ خدا کی فرمانبرداری کرنا اور اُس کی مرضی بجا لانی چاہئے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۱‏)‏ دوسرا سبق ہم یرمیاہ نبی سے سیکھ سکتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۱۵:‏۴‏)‏ مایوس‌کُن حالات کا سامنا کرتے وقت بھی یرمیاہ نبی کو پورا بھروسہ تھا کہ یہوواہ اُسے نجات دلائے گا۔‏ دُعا ہے کہ ہم بھی یہوواہ خدا اور اُس کے کلام پر اسی طرح سے بھروسہ رکھیں۔‏—‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏۔‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

یرمیاہ نبی نے اپنی پیشینگوئی کی تکمیل اپنی آنکھوں سے دیکھی

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

ملک کوریا کے ان گواہوں نے فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرنے سے اپنا مضبوط ایمان ظاہر کِیا