”بدی کے عوض کسی سے بدی نہ کرو“
”بدی کے عوض کسی سے بدی نہ کرو“
”بدی کے عوض کسی سے بدی نہ کرو۔ جو باتیں سب لوگوں کے نزدیک اچھی ہیں اُن کی تدبیر کرو۔“—رومیوں ۱۲:۱۷۔
۱. کونسا رُجحان بہت عام ہے؟
جب ایک بچہ دوسرے بچے کو دھکا دیتا ہے تو فوری ردِعمل یہی ہوتا ہے کہ بدلے میں وہ بھی اکثر اُسے دھکا دیتا ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ بدلہ لینے کا رُجحان صرف بچوں تک محدود نہیں۔ بہتیرے بالغ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ جب کوئی اُنہیں دُکھ پہنچاتا ہے تو وہ اُس کے ساتھ ویسا ہی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ زیادہتر بالغ حقیقت میں دوسروں کو دھکا نہیں دیں گے لیکن وہ اُنہیں خفیہ طریقوں سے نقصان پہنچانے کی کوشش ضرور کریں گے۔ جس شخص نے اُنہیں دُکھ پہنچایا ہے شاید وہ اُس کے خلاف جھوٹی باتیں پھیلائیں یا ایسے طریقے تلاش کریں جو اُس کی ترقی کی راہ میں حائل ہو سکتے ہیں۔ بہرصورت اُن کا مقصد بدلہ لینا ہوتا ہے۔
۲. (ا) سچے مسیحی بدلہ لینے کے رُجحان کی مزاحمت کیوں کرتے ہیں؟ (ب) ہم کن سوالوں پر اور بائبل کے کس باب پر باتچیت کریں گے؟
۲ اگرچہ ہر شخص میں بدلہ لینے کا رُجحان پایا جاتا ہے توبھی سچے مسیحی اس کی مزاحمت کرتے ہیں۔ وہ پولس رسول کی اس نصیحت پر چلنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں: ”بدی کے عوض کسی سے بدی نہ کرو۔“ (رومیوں ۱۲:۱۷) کیا چیز ہمیں اس اعلیٰ معیار کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تحریک دے گی؟ ہمیں کن کے ساتھ بدی کے عوض بدی نہیں کرنی چاہئے؟ اگر ہم بدلہ لینے سے باز رہتے ہیں تو ہمیں کونسے فوائد حاصل ہوں گے؟ ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لئے آئیں پولس رسول کے الفاظ کے سیاقوسباق پر غور کریں اور دیکھیں کہ رومیوں ۱۲ باب کیسے ظاہر کرتا ہے کہ بدلہ نہ لینا ایک دُرست، پُرمحبت اور مناسب روش ہے۔ ہم ان تینوں حلقوں پر باری باری بات کریں گے۔
’پس مَیں تم سے التماس کرتا ہوں‘
۳، ۴. (ا) پولس رسول نے رومیوں ۱۲ باب کے شروع میں کیا بیان کِیا اور لفظ ”پس“ استعمال کرنے سے اُس کی کیا مُراد تھی؟ (ب) روم میں رہنے والے مسیحیوں پر خدا کی رحمت کا کیا اثر ہونا چاہئے تھا؟
۳ پولس رسول نے رومیوں ۱۲ باب کے شروع میں چار ایسے موضوعات پر بات کی جو مسیحیوں کی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اُس نے یہوواہ خدا کے ساتھ، ساتھی ایمانداروں کے ساتھ، بےایمانوں کے ساتھ اور حکومت والوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کی بابت بیان کِیا۔ پولس رسول بدلہ لینے اور دیگر غلط رُجحانات کی مزاحمت کرنے کی بنیادی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے: ”پس اَے بھائیو۔ مَیں خدا کی رحمتیں یاد دِلا کر تُم سے التماس کرتا ہوں۔“ (رومیوں ۱۲:۱) غور کریں کہ لفظ ”پس“ کا مطلب ہے ”مذکورہ بالا باتوں کے پیشِنظر۔“ پولس رسول درحقیقت یہ کہہ رہا تھا کہ ’جو باتیں مَیں نے پہلے بیان کی ہیں اُن کے پیشِنظر مَیں تم سے التماس کرتا ہوں کہ جو باتیں مَیں مزید بیان کروں گا اُن پر عمل کرو۔‘ پولس رسول روم میں رہنے والے مسیحیوں کے سامنے کیا بیان کر چکا تھا؟
۴ پولس رسول نے اپنے اس خط کے پہلے ۱۱ ابواب میں یہودیوں اور غیراقوام کے لئے دستیاب شاندار موقع کی بابت بیان کِیا۔ یہ خدا کی رومیوں ۱۱:۱۳-۳۶) یہ عظیم شرف صرف ’خدا کی رحمت‘ کی بدولت ممکن ہوا۔ مسیحیوں کو خدا کے اس غیرمستحق فضل کے لئے کیسا جوابیعمل دکھانا تھا؟ اُن کے دلوں کو گہری قدردانی سے معمور ہونا چاہئے تھا تاکہ وہ پولس رسول کے اگلے الفاظ پر عمل کرنے کی تحریک پا سکیں، ”اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔ یہی تمہاری معقول عبادت ہے۔“ (رومیوں ۱۲:۱) یہ مسیحی اپنے آپ کو خدا کے لئے ”قربانی“ کے طور پر کیسے پیش کر سکتے تھے؟
بادشاہت میں یسوع مسیح کے ساتھ حکمرانی کرنے کا موقع تھا۔ ایک ایسی اُمید جسے اسرائیلی قوم حاصل کرنے میں ناکام رہ گئی تھی۔ (۵. (ا) ایک شخص خود کو خدا کے لئے ”قربانی“ کے طور پر کیسے پیش کر سکتا ہے؟ (ب) کس اُصول کو مسیحیوں کی روزمرّہ زندگی پر اثرانداز ہونا چاہئے؟
۵ پولس رسول مزید بیان کرتا ہے: ”اِس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو۔“ (رومیوں ۱۲:۲) دُنیا کی رُوح کو اپنی سوچ کو متاثر کرنے کی اجازت دینے کی بجائے اُنہیں مسیح جیسی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔ (۱-کرنتھیوں ۲:۱۶؛ فلپیوں ۲:۵) اس اُصول کو تمام مسیحیوں کی روزمرّہ زندگی پر اثرانداز ہونا چاہئے۔
۶. رومیوں ۱۲:۱، ۲ میں درج پولس رسول کے استدلال کی بِنا پر کونسی چیز ہمیں بدلہ لینے سے گریز کرنے کی تحریک دیتی ہے؟
۶ رومیوں ۱۲:۱، ۲ میں پولس رسول کا استدلال کیسے ہماری مدد کرتا ہے؟ روم میں رہنے والے ممسوح مسیحیوں کی طرح ہم بھی خدا کی اُن بےشمار رحمتوں کے لئے دل سے شکرگزار ہوتے ہیں جن سے وہ ہمیں ہر روز نوازتا ہے۔ اس بات کے پیشنظر شکرگزاری سے معمور دل ہمیں اپنی ساری طاقت، وسائل اور صلاحتیوں کے ساتھ خدا کی خدمت کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ ایسی دلی خواہش ہمیں دُنیا کی بجائے مسیح جیسی سوچ پیدا کرنے کی بھی تحریک دیتی ہے۔ مسیح کی عقل رکھنا ساتھی ایمانداروں اور بےایمانوں کے ساتھ ہمارے برتاؤ پر اثرانداز ہوتا ہے۔ (گلتیوں ۵:۲۵) مثال کے طور پر: اگر ہم مسیح کی طرح سوچتے ہیں تو ہم دوسروں سے بدلہ لینے کے رُجحان کی مزاحمت کریں گے۔—۱-پطرس ۲:۲۱-۲۳۔
”محبت بےریا ہو“
۷. رومیوں ۱۲ باب میں کس قسم کی محبت پر بات کی گئی ہے؟
۷ ہم بدی کے عوض بدی کرنے سے نہ صرف اس لئے انکار کرتے ہیں کہ یہ دُرست روش ہے بلکہ اس لئے بھی کہ یہ ایک پُرمحبت روش ہے۔ غور کریں کہ پولس رسول آگے چل کر محبت رکھنے کی وجہ پر کیسے بات کرتا ہے۔ رومیوں کی کتاب میں پولس رسول نے یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی محبت کا ذکر کرتے ہوئے کئی مرتبہ لفظ محبت (یونانی میں اگاپے) استعمال کِیا ہے۔ (رومیوں ۵:۵، ۸؛ ۸:۳۵، ۳۹) تاہم، رومیوں ۱۲ باب میں پولس رسول ساتھی انسانوں کے لئے دکھائی جانے والی محبت کا ذکر کرتے ہوئے اگاپے کو ایک مختلف طریقے سے استعمال کرتا ہے۔ بعض ایمانداروں میں پائی جانے والی مختلف روحانی نعمتوں کی بابت بیان کرنے کے بعد پولس رسول اُس خوبی کا ذکر کرتا ہے جو تمام مسیحیوں کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔ وہ بیان کرتا ہے: ”محبت بےریا ہو۔“ (رومیوں ۱۲:۴-۹) دوسروں کے لئے محبت ظاہر کرنا سچے مسیحیوں کا شناختی نشان ہے۔ (مرقس ۱۲:۲۸-۳۱) پولس رسول ہمیں اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ مسیحیوں کے طور پر ہمیں دوسروں کے لئے سچی محبت ظاہر کرنی چاہئے۔
۸. ہم بےریا محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
۸ اس کے علاوہ، پولس رسول بیان کرتا ہے کہ بےریا محبت کیسے ظاہر کی جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے: ”بدی سے نفرت رکھو۔ نیکی سے لپٹے رہو۔“ (رومیوں ۱۲:۹) ”نفرت رکھو“ اور ”لپٹے رہو“ بہت زوردار الفاظ ہیں۔ ”نفرت رکھو“ کا ترجمہ ”کراہیت کرنا“ بھی کِیا جا سکتا ہے۔ ہمیں نہ صرف بدی کے نتائج سے بلکہ بدی سے نفرت رکھنی چاہئے۔ (زبور ۹۷:۱۰) جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”لپٹے رہو“ کِیا گیا ہے اُس کا لفظی مطلب ”جڑے رہو“ ہے۔ سچی محبت رکھنے والا مسیحی نیکی سے اس حد تک جڑا رہتا ہے کہ یہ اُس کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔
۹. پولس رسول بار بار کیا نصیحت کرتا ہے؟
۹ پولس رسول نے محبت کے ایک خاص اظہار کا بار بار ذکر کِیا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے: ”جو تمہیں ستاتے ہیں اُن کے واسطے برکت چاہو۔ برکت چاہو۔ لعنت نہ کرو۔“ ”بدی کے عوض کسی سے بدی نہ کرو۔“ ”اَے رومیوں ۱۲:۱۴، ۱۷-۱۹، ۲۱) پولس رسول کے الفاظ واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ ہمیں بےایمانوں یہانتک کہ ہماری مخالفت کرنے والوں کے ساتھ بھی کیسا برتاؤ کرنا چاہئے۔
عزیزو! اپنا انتقام نہ لو۔“ ”بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آؤ۔“ (”جو تمہیں ستاتے ہیں اُن کے واسطے برکت چاہو“
۱۰. اپنے ستانے والوں کے لئے برکت چاہنے کا ایک طریقہ کیا ہے؟
۱۰ ہم پولس رسول کی اس نصیحت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں کہ ”جو تمہیں ستاتے ہیں اُن کے واسطے برکت چاہو“؟ (رومیوں ۱۲:۱۴) یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو بتایا: ”اپنے دُشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کرو۔“ (متی ۵:۴۴؛ لوقا ۶:۲۷، ۲۸) لہٰذا، اپنے ستانے والوں کے لئے برکت چاہنے کا ایک طریقہ اُن کے لئے دُعا کرنا ہے۔ خدا سے درخواست کریں کہ اگر لوگ انجانے میں ہماری مخالفت کر رہے ہیں تو یہوواہ سچائی کے لئے اُن کی آنکھیں کھول دے۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۴) یہ سچ ہے کہ اپنے ستانے والے کے لئے خدا سے برکت کی دُعا کرنا عجیب لگ سکتا ہے۔ تاہم، جتنا زیادہ ہم مسیح جیسی سوچ پیدا کریں گے اُتنا ہی ہم اپنے دُشمنوں سے محبت رکھنے کے قابل ہوں گے۔ (لوقا ۲۳:۳۴) ایسی محبت ظاہر کرنے کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟
۱۱. (ا) ستفنس کی مثال سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ (ب) جیسےکہ پولس رسول کی زندگی سے ظاہر ہوتا ہے بعض ستانے والوں میں کیا تبدیلی واقع ہو سکتی ہے؟
۱۱ ستفنس نے اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کی اور اُس کی دُعا سنی گئی۔ پنتِکُست ۳۳ عیسوی کے تھوڑے عرصے بعد مسیحی کلیسیا کے مخالفوں نے ستفنس کو گرفتار کر لیا اور یروشلیم سے باہر لیجا کر سنگسار کر دیا۔ اپنی موت سے پہلے اُس نے بڑی آواز میں پکار کر کہا: ”اَے [یہوواہ]! یہ گُناہ اِن کے ذمہ نہ لگا۔“ (اعمال ۷:۵۸–۸:۱) جن لوگوں کیلئے ستفنس نے دُعا کی اُن میں سے ایک ساؤل تھا جو اُس وقت وہاں موجود تھا اور ستفنس کے قتل پر راضی تھا۔ بعدازاں، قیامتیافتہ یسوع ساؤل پر ظاہر ہوا۔ نتیجتاً، یہ ستانے والا یسوع کا شاگرد بن گیا اور پولس رسول کہلایا۔ اسی نے رومیوں کے نام خط لکھا۔ (اعمال ۲۶:۱۲-۱۸) ستفنس کی دُعا کے مطابق یہوواہ خدا نے پولس کو معاف کر دیا۔ (۱-تیمتھیس ۱:۱۲-۱۶) اسی لئے پولس رسول نے مسیحیوں کو نصیحت کی: ”جو تمہیں ستاتے ہیں اُن کے واسطے برکت چاہو“! اُسے اس بات کا تجربہ تھا کہ بعض ستانے والے بھی خدا کے خادم بن سکتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے زمانہ میں بھی بعض ستانے والے یہوواہ کے خادموں کے امنپسند رویے کو دیکھ کر اُن کے ہمایمان بن گئے ہیں۔
”سب آدمیوں کے ساتھ میلملاپ رکھو“
۱۲. رومیوں ۱۲:۹، ۱۷ میں درج نصیحت کیسے ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہے؟
۱۲ اس کے بعد پولس رسول نے ہمایمانوں اور بےایمانوں کے ساتھ برتاؤ کے سلسلے میں نصیحت کی کہ ”بدی کے عوض کسی سے بدی نہ کرو۔“ یہ بیان اُس کے پہلے الفاظ ”بدی سے نفرت رکھو“ کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ اگر ایک شخص دوسروں کے ساتھ بدی کے عوض بدی کرتا ہے توپھر وہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہ بدی یا بُرائی سے نفرت رکھتا ہے؟ ایسا کرنا ”بےریا محبت“ ظاہر کرنے کے بالکل برعکس ہوگا۔ اس کے بعد پولس رسول کہتا ہے: ”جو باتیں سب لوگوں کے نزدیک اچھی ہیں اُن کی تدبیر کرو۔“ (رومیوں ۱۲:۹، ۱۷) ہم ان الفاظ پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
۱۳. ہم ’سب لوگوں‘ کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں؟
۱۳ پولس رسول نے کرنتھیوں کے نام اپنے خط میں اُن مشکلات ۱-کرنتھیوں ۴:۹-۱۳) اسی طرح آجکل بھی سچے مسیحیوں کے ساتھ جوکچھ ہوتا ہے وہ دُنیا کی نظر سے چھپا نہیں۔ جب ہمارے اردگرد کے لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ہم بےانصافی کا سامنا کرنے کے باوجود اچھے کام کرتے ہیں تو وہ ہمارے پیغام میں زیادہ دلچسپی لینے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔—۱-پطرس ۲:۱۲۔
کی بابت لکھا جن کا رسولوں کو سامنا ہوا تھا۔ اُس نے کہا: ”ہم دُنیا اور فرشتوں اور آدمیوں کے لئے ایک تماشا ٹھہرے۔ . . . لوگ بُرا کہتے ہیں ہم دُعا دیتے ہیں۔ وہ ستاتے ہیں ہم سہتے ہیں۔ وہ بدنام کرتے ہیں ہم مِنتسماجت کرتے ہیں۔“ (۱۴. ہمیں میلملاپ رکھنے کے لئے کس حد تک کوشش کرنی چاہئے؟
۱۴ ہمیں میلملاپ کو فروغ دینے کے لئے کس حد تک کوشش کرنی چاہئے؟ اس کے لئے ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ پولس رسول نے اپنے مسیحی بھائیوں کو بتایا: ”جہاں تک ہو سکے تُم اپنی طرف سے سب آدمیوں کے ساتھ میلملاپ رکھو۔“ (رومیوں ۱۲:۱۸) ”جہاں تک ہو سکے“ اور ”تُم اپنی طرف سے“ جیسے الفاظ محدود کرنے والے اظہارات ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دوسروں کے ساتھ میلملاپ رکھنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر، کسی شخص کے ساتھ میلملاپ رکھنے کی خاطر ہم خدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کریں گے۔ (متی ۱۰:۳۴-۳۶؛ عبرانیوں ۱۲:۱۴) تاہم، راست اُصولوں کی خلافورزی کئے بغیر ہم ”سب آدمیوں کے ساتھ“ میلملاپ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
”اپنا انتقام نہ لو“
۱۵. رومیوں ۱۲:۱۹ میں بدلہ نہ لینے کی کونسی وجہ بیان کی گئی ہے؟
۱۵ پولس رسول بدلہ نہ لینے کی ایک اَور معقول وجہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ ایک مناسب روش ہے۔ وہ بیان کرتا ہے: ”اَے عزیزو! اپنا انتقام نہ لو بلکہ غضب کو موقع دو کیونکہ یہ لکھا ہے کہ [یہوواہ] فرماتا ہے انتقام لینا میرا کام ہے۔ بدلہ مَیں ہی دوں گا۔“ (رومیوں ۱۲:۱۹) بدلہ لینے کی کوشش کرنے والا مسیحی متکبر ہوتا ہے۔ وہ انتقام لینے کے لئے خدا کا انتظار نہیں کرتا۔ (متی ۷:۱) اس کے علاوہ، وہ معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینے سے یہوواہ خدا کی اس یقیندہانی پر ایمان کی کمی ظاہر کرتا ہے کہ ”بدلہ مَیں ہی دوں گا۔“ اس کے برعکس، سچے مسیحی یہ ایمان رکھتے ہیں کہ یہوواہ ”اپنے برگزیدوں کا انصاف“ کرے گا۔ (لوقا ۱۸:۷، ۸؛ ۲-تھسلنیکیوں ۱:۶-۸) وہ فروتنی کے ساتھ انتقام لینے کے معاملے کو خدا کے ہاتھ میں چھوڑ دیتے ہیں۔—یرمیاہ ۳۰:۲۳، ۲۴؛ رومیوں ۱:۱۸۔
۱۶، ۱۷. (ا) کسی کے سر پر ”آگ کے انگاروں کا ڈھیر“ لگانے کا کیا مطلب ہے؟ (ب) کیا آپ کو ذاتی طور پر اس بات کا تجربہ ہوا ہے کہ کیسے نیک کاموں نے کسی بےایمان کے دل کو نرم کِیا؟ کوئی مثال دیں۔
۱۶ اپنے دُشمن سے بدلہ لینا شاید اُس کے دل کو سخت کر دے لیکن اُس کے ساتھ محبت سے پیش آنا اُس کے دل کو نرم کر سکتا ہے۔ مگر کیوں؟ روم میں رہنے والے مسیحیوں سے کہے گئے پولس رسول کے الفاظ پر غور کریں۔ اُس نے کہا: ”اگر تیرا دُشمن بھوکا ہو تو اُس کو کھانا کھلا۔ اگر پیاسا ہو تو اُسے پانی پلا کیونکہ ایسا کرنے سے تُو اُس کے سر پر آگ کے انگاروں کا ڈھیر لگائے گا۔“ (رومیوں ۱۲:۲۰؛ امثال ۲۵:۲۱، ۲۲) اس کا کیا مطلب ہے؟
۱۷ ”سر پر انگاروں کا ڈھیر“ لگانا ایک ایسی تشبِیہ ہے جو قدیم زمانے میں دھاتوں کو پگھلانے کے لئے استعمال ہونے والے طریقۂکار سے لی گئی ہے۔ خام دھات کو انگیٹھی میں رکھ کر اس کے اُوپر نیچے کوئلے ڈال دئے جاتے تھے۔ کوئلوں کی تپش سے دھات پگھل جاتی اور اس میں موجود میل الگ ہو جاتی تھی۔ بالکل اسی طرح، مخالفت کرنے والے شخص کے ساتھ نیکی کرنا اُس کے دل کو نرم کر سکتا اور اُس کی خوبیوں کو نمایاں کر سکتا ہے۔ (۲-سلاطین ۶:۱۴-۲۳) درحقیقت مسیحی کلیسیا کے زیادہتر اشخاص خدا کے خادموں کے نیک کاموں کو دیکھ کر ہی سچی پرستش کی طرف راغب ہوئے تھے۔
ہم بدلہ کیوں نہیں لیتے؟
۱۸. کیوں بدلہ نہ لینا دُرست، پُرمحبت اور مناسب روش ہے؟
۱۸ رومیوں ۱۲ باب پر مختصراً غوروخوض کرنے سے ہم ”بدی کے عوض کسی سے بدی“ نہ کرنے کی چند اہم وجوہات کو جان گئے ہیں۔ ایسا نہ کرنے کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ ایک دُرست روش ہے۔ خدا نے ہم پر جو رحم ظاہر کِیا ہے اُس کے پیشِنظر ہمارا خود کو یہوواہ کے لئے پیش کرنا اور اُس کے حکموں پر عمل کرنا دُرست اور معقول ہے۔ اُس کے حکموں میں سے ایک اپنے دُشمنوں سے محبت رکھنا ہے۔ بدی کے عوض بدی نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ ایک پُرمحبت روش ہے۔ انتقام نہ لینے اور میلملاپ رکھنے سے ہم شدید مخالفت کرنے والے بعض لوگوں کو بھی یہوواہ کے پرستار بننے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اپنا بدلہ نہ لینے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ ایک مناسب روش ہے۔ اپنا انتقام خود لینے سے ہم متکبر بن جائیں گے اسلئےکہ یہوواہ خدا فرماتا ہے: ”انتقام لینا میرا کام ہے۔“ خدا کا کلام خبردار کرتا ہے: ”تکبّر کے ہمراہ رسوائی آتی ہے لیکن خاکساروں کے ساتھ حکمت ہے۔“ (امثال ۱۱:۲) دانشمندی کے ساتھ معاملے کو یہوواہ کے ہاتھ میں چھوڑ دینے سے ہماری فروتنی ظاہر ہوتی ہے۔
۱۹. اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
۱۹ پولس رسول دوسروں کے ساتھ ہمارے برتاؤ کی بابت اپنی باتچیت کے اختتام پر مسیحیوں کو تاکید کرتا ہے: ”بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آؤ۔“ (رومیوں ۱۲:۲۱) آجکل ہمیں کن شیطانی قوتوں کا سامنا ہے؟ ہم اُن پر کیسے غالب آ سکتے ہیں؟ ان سوالات اور اسی طرح کے دیگر سوالوں کے جواب اگلے مضمون میں دئے جائیں گے۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• رومیوں ۱۲ باب میں بار بار کیا نصیحت کی گئی ہے؟
• کیا چیز ہمیں بدلہ نہ لینے کی تحریک دے گی؟
• اگر ہم ”بدی کے عوض بدی“ نہیں کرتے تو اس سے ہمیں اور دوسروں کو کونسے فوائد حاصل ہوں گے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۱ پر بکس]
رومیوں ۱۲ باب میں درجذیل کے ساتھ مسیحیوں کے تعلقات پر بات کی گئی ہے
• یہوواہ خدا
• ہمایمانوں
• بےایمانوں
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
رومیوں کے نام پولس رسول کا خط مسیحیوں کو عملی مشورت فراہم کرتا ہے
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
شاگرد ستفنس کی مثال سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟