مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آؤ“‏

‏”‏نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آؤ“‏

‏”‏نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آؤ“‏

‏”‏بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آؤ۔‏“‏—‏رومیوں ۱۲:‏۲۱‏۔‏

۱ .‏ ہم کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہم بدی پر غالب آ سکتے ہیں؟‏

کیا سچی پرستش کی شدید مخالفت کرنے والوں کا مقابلہ کرنا ممکن ہے؟‏ کیا بےدین دُنیا کی طرف واپس لے جانے کی کوشش کرنے والی شیطانی قوتوں کی مزاحمت کرنا ممکن ہے؟‏ جی‌ہاں،‏ ایسا ممکن ہے!‏ ہم ایسا کیوں کہتے ہیں؟‏ اسلئےکہ پولس رسول نے رومیوں کے نام اپنے خط میں بیان کِیا:‏ ”‏بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آؤ۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۲۱‏)‏ اگر ہم یہوواہ خدا پر بھروسا رکھتے اور اس دُنیا کو اپنے اُوپر غالب آنے کی اجازت نہ دینے کا پُختہ ارادہ رکھتے ہیں تو اس دُنیا کی بدی ہمیں مغلوب نہیں کر سکے گی۔‏ مزیدبرآں،‏ اصطلاح ”‏بدی پر غالب آؤ“‏ ظاہر کرتی ہے کہ بدی کے خلاف روحانی جنگ جاری رکھنے سے ہم اس پر غالب آ سکتے ہیں۔‏ لیکن جو لوگ غفلت برتتے اور اپنی لڑائی جاری نہیں رکھتے وہی اس شریر دُنیا اور اس کے حاکم شیطان ابلیس سے مغلوب ہو سکتے ہیں۔‏—‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏۔‏

۲.‏ ہم نحمیاہ کی زندگی کے چند واقعات پر کیوں غور کریں گے؟‏

۲ پولس رسول کے زمانے سے تقریباً ۵۰۰ سال پہلے یروشلیم میں رہنے والے خدا کے ایک خادم نحمیاہ نے بدی کے خلاف جنگ کرنے کے پولس کے الفاظ کی سچائی کو ثابت کِیا۔‏ نحمیاہ نے نہ صرف شریر لوگوں کی مخالفت کا مقابلہ کِیا بلکہ نیکی کے ذریعہ بدی پر غالب بھی آیا۔‏ اُسے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟‏ کس چیز نے اُسے کامیابی بخشی؟‏ ہم اُس کے نمونے کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟‏ ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لئے آئیں نحمیاہ کی زندگی کے چند واقعات پر غور کریں۔‏ *

۳.‏ نحمیاہ کن حالات میں رہتا تھا،‏ اور اُسے کونسی کامیابی حاصل ہوئی؟‏

۳ نحمیاہ فارس کے بادشاہ ارتخششتا کے محل میں خدمت کرتا تھا۔‏ اگرچہ نحمیاہ بےدین لوگوں کے درمیان رہتا تھا توبھی وہ اُس زمانے کا ”‏ہمشکل“‏ نہیں بنا۔‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۲‏)‏ جب یہوداہ میں ضرورت پڑی تو اُس نے اپنی پُرآسائش زندگی قربان کر دی،‏ یروشلیم جانے کے لئے ایک مشکل سفر کِیا اور شہر کی دیوار تعمیر کرنے کے بھاری کام کی ذمہ‌داری قبول کی۔‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱‏)‏ اگرچہ وہ یروشلیم کا گورنر تھا توبھی وہ ہر روز ساتھی اسرائیلیوں کے ساتھ ملکر ”‏تاروں کے دکھائی دینے تک“‏ کام کِیا کرتا تھا۔‏ نیتجتاً،‏ دو مہینوں کے اندر اندر کام مکمل ہو گیا!‏ (‏نحمیاہ ۴:‏۲۱؛‏ ۶:‏۱۵‏)‏ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی کیونکہ تعمیر کے کام کے دوران اسرائیلیوں کو مختلف طرح سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔‏ نحمیاہ کے مخالف کون تھے،‏ اور اُن کا مقصد کیا تھا؟‏

۴.‏ نحمیاہ کے مخالفوں کا مقصد کیا تھا؟‏

۴ یہوداہ کے قریب رہنے والے بااختیار اشخاص سنبلط،‏ طوبیاہ اور جشم خاص طور پر نحمیاہ کے مخالف تھے۔‏ یہ خدا کے لوگوں کے دُشمن تھے اس لئے جب اُنہوں نے سنا کہ ”‏[‏نحمیاہ]‏ بنی‌اسرائیل کی بہبودی کا خواہان آیا ہے تو وہ نہایت رنجیدہ ہوئے۔‏“‏ (‏نحمیاہ ۲:‏۱۰،‏ ۱۹‏)‏ نحمیاہ کے دُشمن اس کے تعمیر کے کام کو روکنے پر بضد تھے اور اس کے لئے اُنہوں نے اُس کے خلاف بُرے منصوبے بھی باندھے۔‏ مگر کیا نحمیاہ ’‏بدی سے مغلوب‘‏ ہوا؟‏

‏”‏جل گیا اور بہت غصہ ہوا“‏

۵،‏ ۶.‏ (‏ا)‏ نحمیاہ کے دُشمنوں نے تعمیر کے کام کے لئے کیسا ردِعمل دکھایا؟‏ (‏ب)‏ نحمیاہ مخالفوں سے کیوں خوف‌زدہ نہیں ہوا تھا؟‏

۵ نحمیاہ نے دلیری سے اپنے لوگوں کو تاکید کی:‏ ”‏آؤ ہم یرؔوشلیم کی فصیل بنائیں۔‏“‏ اُنہوں نے جواب دیا:‏ ’‏ہم تعمیر کریں گے۔‏‘‏ نحمیاہ نے بیان کِیا:‏ ”‏اِس اچھے کام کے لئے اُنہوں نے اپنے ہاتھوں کو مضبوط کِیا۔‏“‏ مگر مخالف ”‏ہم کو ٹھٹھوں میں اُڑانے اور ہماری حقارت کرکے کہنے لگے تُم یہ کیا کام کرتے ہو؟‏ کیا تُم بادشاہ سے بغاوت کرو گے؟‏“‏ تاہم،‏ نحمیاہ اُن کے تمسخر اور جھوٹے الزامات سے خوف‌زدہ نہ ہوا۔‏ اُس نے مخالفوں کو جواب دیا:‏ ”‏آسمان کا خدا وہی ہم کو کامیاب کرے گا۔‏ اِسی سبب سے ہم جو اُس کے بندے ہیں اُٹھکر تعمیر کریں گے۔‏“‏ (‏نحمیاہ ۲:‏۱۷-‏۲۰‏)‏ نحمیاہ اس ”‏اچھے کام“‏ کو جاری رکھنے کے لئے پُرعزم تھا۔‏

۶ ان مخالفوں میں سے ایک سنبلط،‏ ”‏جل گیا اور بہت غصہ ہوا“‏ وہ تمسخر اُڑاتے ہوئے کہنے لگا:‏ یہ ”‏کمزور یہودی کیا کر رہے ہیں؟‏ .‏ .‏ .‏ کیا وہ جلے ہوئے پتھروں کو کوڑے کے ڈھیروں میں سے نکالکر پھر نئے کر دیں گے؟‏“‏ طوبیاؔہ بھی اُس کے ساتھ مل گیا اور یہ کہہ کر اُن کا مذاق اُڑانے لگا:‏ ”‏اگر اُس پر لومڑی چڑھ جائے تو وہ اُن کی پتھر کی شہرِپناہ کو گِرا دے گی۔‏“‏ (‏نحمیاہ ۴:‏۱-‏۳‏)‏ نحمیاہ نے کیسا ردِعمل دکھایا؟‏

۷.‏ نحمیاہ نے اپنے مخالفوں کے جھوٹے الزامات کے لئے کیسا ردِعمل دکھایا؟‏

۷ نحمیاہ نے تمسخر کو نظرانداز کر دیا۔‏ اُس نے خدا کے حکم پر عمل کرتے ہوئے انتقام لینے کی کوشش نہ کی۔‏ (‏احبار ۱۹:‏۱۸‏)‏ اس کے برعکس،‏ اُس نے معاملے کو یہوواہ کے ہاتھ میں چھوڑ دیا اور دُعا کی:‏ ”‏سُن لے اَے ہمارے خدا کیونکہ ہماری حقارت ہوتی ہے اور اُن کی ملامت اُن ہی کے سر پر ڈال۔‏“‏ (‏نحمیاہ ۴:‏۴‏)‏ نحمیاہ کو یہوواہ خدا کی اس یقین‌دہانی پر بھروسا تھا:‏ ”‏انتقام لینا اور بدلہ دینا میرا کام“‏ ہے۔‏ (‏استثنا ۳۲:‏۳۵‏)‏ نحمیاہ اور اُس کے لوگ ”‏دیوار بناتے رہے۔‏“‏ اُنہوں نے اپنی توجہ کام پر مُرتکز رکھی۔‏ یہانتک کہ ”‏ساری دیوار آدھی بلندی تک جوڑی گئی کیونکہ لوگ دل لگاکر کام کرتے تھے۔‏“‏ (‏نحمیاہ ۴:‏۶‏)‏ سچی پرستش کے دُشمن تعمیر کے کام کو روکنے میں ناکام ہو گئے!‏ ہم نحمیاہ کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۸.‏ (‏ا)‏ جب مخالف ہم پر جھوٹے الزام لگاتے ہیں تو ہم نحمیاہ کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ کوئی ایسا تجربہ بیان کریں جو آپ کو پیش آیا ہو یا آپ نے سنا ہو کہ بدلہ نہ لینا دانشمندی کی بات ہے۔‏

۸ آجکل،‏ سکول میں،‏ کام کی جگہ پر یا گھر میں ہمارے مخالف ہم پر لعن‌طعن کر سکتے اور جھوٹے الزامات لگا سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ اکثر ان جھوٹے الزامات سے نپٹنے کا بہترین طریقہ اس صحیفائی اصول کا اطلاق کرنا ہے:‏ ”‏چپ رہنے کا ایک وقت ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۳:‏۱،‏ ۷‏)‏ نحمیاہ کی طرح،‏ ہم بھی بدلے میں تلخ‌کلامی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۷‏)‏ ہم یہوواہ خدا سے دُعا کرتے اور اُس پر بھروسا کرتے ہیں جو ہمیں یقین‌دہانی کراتا ہے کہ ”‏بدلہ مَیں ہی دُونگا۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۹؛‏ ۱-‏پطرس ۲:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ اس طرح،‏ ہم اپنے مخالفوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہمیں بادشاہی کی منادی کرنے اور شاگرد بنانے کے اُس کام سے ہٹا سکیں جو آج کِیا جا رہا ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ جب بھی ہم مخالفت سے خوف‌زدہ ہوئے بغیر منادی کے کام میں حصہ لیتے ہیں تو ہم نحمیاہ جیسی وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‏

‏’‏ہم ضرور تمہیں قتل کر ڈالیں گے‘‏

۹.‏ نحمیاہ کے دُشمنوں نے کس قسم کی مخالفت شروع کر دی،‏ اور نحمیاہ نے کیسا ردِعمل دکھایا؟‏

۹ جب نحمیاہ کے زمانے میں سچی پرستش کے مخالفوں نے سنا کہ ”‏یروشلیمؔ کی فصیل مرمت ہوتی جاتی ہے“‏ تو اُنہوں نے اپنی تلواریں نکال لیں تاکہ ”‏یروشلیمؔ سے لڑیں۔‏“‏ اس صورتحال سے یہودی سخت مایوس ہو گئے۔‏ کیونکہ یروشلیم کے شمال میں سامری،‏ مشرق میں عمونی،‏ جنوب میں عربی اور مغرب میں اشدودی رہتے تھے۔‏ یروشلیم چاروں طرف سے گِھرا ہوا تھا؛‏ ایسا لگ رہا تھا جیسے تعمیر کرنے والے پھنس چکے ہیں!‏ اب اُنہیں کیا کرنا تھا؟‏ نحمیاہ بیان کرتا ہے،‏ ”‏ہم نے اپنے خدا سے دُعا کی۔‏“‏ تاہم،‏ دُشمن دھمکیاں دیتے رہے:‏ ’‏ہم تمہیں قتل کر ڈالیں گے اور کام کو موقوف کر دیں گے۔‏‘‏ اس کے جواب میں نحمیاہ نے تعمیر کرنے والوں کو ”‏اپنی اپنی تلوار اور برچھی اور کمان“‏ سے شہر کی حفاظت کرنے کے لئے کہا۔‏ یہ سچ ہے کہ انسانی نقطۂ‌نظر سے تھوڑے سے یہودیوں کے لئے دُشمنوں کے اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کرنا مشکل تھا،‏ تاہم نحمیاہ نے اُن کی حوصلہ‌افزائی کی:‏ ”‏مت ڈرو۔‏ [‏یہوواہ]‏ کو جو بزرگ اور مہیب ہے یاد کرو۔‏“‏—‏نحمیاہ ۴:‏۷-‏۹،‏ ۱۱،‏ ۱۳،‏ ۱۴‏۔‏

۱۰.‏ (‏ا)‏ کس وجہ سے نحمیاہ کے دُشمنوں کی صورتحال اچانک بدل گئی؟‏ (‏ب)‏ نحمیاہ نے کونسے اقدام اُٹھائے؟‏

۱۰ اس کے بعد حالات نے اچانک پلٹا کھایا۔‏ دُشمنوں نے حملہ روک دیا۔‏ مگر کیوں؟‏ نحمیاہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏خدا نے اُن کا منصوبہ باطل کر دیا۔‏“‏ تاہم،‏ نحمیاہ کو اس بات کا اندازہ تھا کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔‏ لہٰذا،‏ اُس نے دانشمندی سے تعمیر کرنے والوں کے کام کے طریقۂ‌کار کو بدل دیا۔‏ اُس وقت سے لیکر ”‏ہر ایک اپنے ایک ہاتھ سے کام کرتا تھا اور دوسرے میں اپنا ہتھیار لئے رہتا تھا۔‏“‏ نحمیاہ نے ایک شخص کو ’‏نرسنگا پھونکنے‘‏ کی ذمہ‌داری بھی دی تاکہ دُشمن کے اچانک حملہ‌آور ہونے کی صورت میں کام کرنے والوں کو آگاہ کِیا جا سکے۔‏ سب سے بڑھکر نحمیاہ نے لوگوں کو یقین‌دہانی کرائی:‏ ”‏ہمارا خدا ہمارے لئے لڑے گا۔‏“‏ (‏نحمیاہ ۴:‏۱۵-‏۲۰‏)‏ حملہ‌آوروں کا مقابلہ کرنے کے لئے پُراعتماد اور تیار رہتے ہوئے اُنہوں نے کام کو جاری رکھا۔‏ اس سرگزشت سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۱.‏ کس چیز نے سچے مسیحیوں کو ایسے علاقوں میں بدی کا مقابلہ کرنے کے قابل بنایا ہے جہاں منادی کے کام پر پابندی ہے،‏ اور وہ کیسے نیکی کے ذریعے بدی پر غالب آئے ہیں؟‏

۱۱ بعض‌اوقات سچے مسیحیوں کو بھی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ بعض ممالک میں سچی پرستش کے مخالفین بہت سے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔‏ انسانی نقطۂ‌نظر سے ایسے علاقوں میں رہنے والے سچے مسیحیوں کے لئے اُن کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے۔‏ اس کے باوجود،‏ ان کو پورا بھروسا ہے کہ ’‏خدا اُن کے لئے لڑے گا۔‏‘‏ واقعی،‏ اپنے ایمان کی وجہ سے ستائے جانے والے اشخاص اکثر اس بات کا تجربہ کرتے ہیں کہ یہوواہ خدا اُن کی دُعاؤں کا جواب دیتا اور اُن کے دُشمنوں کے ’‏منصوبوں کو باطل‘‏ کر دیتا ہے۔‏ یہانتک‌کہ جن ملکوں میں منادی کے کام پر پابندی ہے وہاں بھی مسیحی خوشخبری سنانے کے کام کو جاری رکھنے کے لئے نئے نئے طریقوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔‏ جس طرح یروشلیم کی دیوار بنانے والوں نے اپنے کام کرنے کے طریقے میں ردوبدل کِیا تھا اُسی طرح آجکل یہوواہ کے گواہ بھی مشکلات کا سامنا کرتے وقت منادی کرنے کے اپنے طریقۂ‌کار میں تبدیلی لاتے ہیں۔‏ مگر وہ ہتھیاروں کا استعمال نہیں کرتے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۴‏)‏ تشدد کی دھمکیاں بھی اُنہیں منادی کرنے سے روک نہیں سکتیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۱۶‏)‏ اس کے برعکس،‏ یہ دلیر بہن بھائی ”‏نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب“‏ آتے ہیں۔‏

‏”‏آ ہم .‏ .‏ .‏ باہم ملاقات کریں“‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ (‏ا)‏ نحمیاہ کے دُشمنوں نے کونسی چال چلی؟‏ (‏ب)‏ نحمیاہ نے اپنے مخالفوں سے ملنے کی دعوت کو کیوں رد کر دیا؟‏

۱۲ جب نحمیاہ کے دُشمنوں کو یہ احساس ہو گیا کہ اُن کے براہِ‌راست حملے ناکام ہو چکے ہیں تو وہ خفیہ طریقوں سے مخالفت کرنے لگے۔‏ اس کے لئے اُنہوں نے تین طریقے آزمائے۔‏ وہ کیا تھے؟‏

۱۳ پہلا طریقہ،‏ نحمیاہ کے دُشمنوں نے اُسے دھوکا دینے کی کوشش کی۔‏ اُنہوں نے اُسے کہا:‏ ”‏آ ہم اؔونو کے میدان کے کسی گاؤں میں باہم ملاقات کریں۔‏“‏ اونو یروشلیم اور سامریہ کے درمیان کا علاقہ تھا۔‏ اس لئے نحمیاہ کے دُشمنوں نے اُسے اس جگہ ملکر آپس کے مسائل کو حل کرنے کی دعوت دی۔‏ نحمیاہ سوچ سکتا تھا:‏ ’‏یہ بات معقول ہے۔‏ لڑائی سے بہتر ہے کہ آپس میں بات‌چیت کر لی جائے۔‏‘‏ لیکن نحمیاہ نے اس پیشکش کو رد کر دیا۔‏ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے اُس نے کہا:‏ ”‏وہ مجھ سے بدی کرنے کی فکر میں تھے۔‏“‏ اُس نے اُن کے ارادوں کو جان لیا اور دھوکا کھانے سے بچ گیا۔‏ اُس نے چار مرتبہ اپنے مخالفوں کو بتایا:‏ ”‏مَیں بڑے کام میں لگا ہوں اور آ نہیں سکتا۔‏ میرے اِسے چھوڑ کر تمہارے پاس آنے سے یہ کام کیوں موقوف رہے؟‏“‏ نحمیاہ کو مصالحت کرنے پر مجبور کرنے کی دُشمنوں کی تمام‌تر کوششیں ناکام ہو گئیں۔‏ اُس نے اپنی توجہ تعمیر کے کام پر مُرتکز رکھی۔‏—‏نحمیاہ ۶:‏۱-‏۴‏۔‏

۱۴.‏ نحمیاہ نے جھوٹے الزام لگانے والوں کے لئے کیسا ردِعمل دکھایا؟‏

۱۴ دوسرا طریقہ،‏ نحمیاہ کے دُشمنوں نے یہ افواہ پھیلا دی کہ نحمیاہ ارتخششتا بادشاہ کے خلاف ’‏بغاوت کرنے کا ارادہ‘‏ رکھتا ہے۔‏ ایک مرتبہ پھر اُنہوں نے نحمیاہ سے کہا:‏ ”‏آ ہم باہم مشورہ کریں۔‏“‏ نحمیاہ نے پھر انکار کر دیا کیونکہ وہ دُشمنوں کے ارادے کو سمجھ گیا تھا۔‏ نحمیاہ نے بیان کِیا:‏ ”‏وہ سب تو ہم کو ڈرانا چاہتے تھے اور کہتے تھے کہ اِس کام میں اُن کے ہاتھ اَیسے ڈھیلے پڑ جائیں گے کہ وہ ہونے ہی کا نہیں۔‏“‏ تاہم،‏ اس مرتبہ نحمیاہ نے اپنے دُشمنوں کے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏اِس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ تُو یہ باتیں اپنے دل ہی سے بناتا ہے۔‏“‏ اس کے علاوہ،‏ نحمیاہ نے مدد کے لئے یہوواہ خدا سے دُعا کی:‏ ”‏میرے ہاتھوں کو زور بخش۔‏“‏ اُسے اعتماد تھا کہ یہوواہ کی مدد سے وہ اس بُرے منصوبے کو ناکام بنانے اور تعمیر کے کام کو آگے بڑھانے کے قابل ہوگا۔‏—‏نحمیاہ ۶:‏۵-‏۹‏۔‏

۱۵.‏ ایک جھوٹے نبی نے کونسا مشورہ دیا،‏ اور نحمیاہ نے اُسے کیوں قبول نہ کِیا؟‏

۱۵ تیسرا طریقہ،‏ نحمیاہ کے دُشمنوں نے ایک اسرائیلی غدار سمعیاہ کے ذریعے نحمیاہ سے خدا کی شریعت کی خلاف‌ورزی کرانے کی کوشش کی۔‏ سمعیاہ نے نحمیاہ سے کہا:‏ ”‏ہم خدا کے گھر میں ہیکل کے اندر ملیں اور ہیکل کے دروازوں کو بند کر لیں کیونکہ وہ تجھے قتل کرنے کو آئیں گے۔‏“‏ سمعیاہ نے نحمیاہ سے کہا کہ اُس کی جان خطرے میں ہے لیکن وہ اُسے ہیکل میں چھپا کر اُس کی زندگی بچا سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ نحمیاہ کاہن نہیں تھا۔‏ اس لئے اگر وہ ہیکل میں جاکر چھپ جاتا تو گناہ کرتا۔‏ کیا وہ اپنی جان بچانے کی خاطر خدا کے حکم کو توڑے گا؟‏ نحمیاہ نے جواب دیا:‏ ”‏کون ہے جو مجھ سا ہو اور اپنی جان بچانے کو ہیکل میں گھسے؟‏ مَیں اندر نہیں جانے کا۔‏“‏ نحمیاہ اُن کے پھندے میں پھنسنے سے کیونکر بچ گیا؟‏ اسلئےکہ نحمیاہ جانتا تھا کہ اگرچہ سمعیاہ اسرائیلی ہے توبھی ”‏خدا نے اُسے نہیں بھیجا تھا۔‏“‏ اگر وہ سچا نبی ہوتا تو کبھی بھی نحمیاہ کو خدا کی شریعت کی خلاف‌ورزی کرنے کا مشورہ نہ دیتا۔‏ ایک مرتبہ پھر نحمیاہ اپنے مخالفوں سے مغلوب نہ ہوا۔‏ اس کے کچھ عرصے بعد وہ یہ کہنے کے قابل تھا:‏ ”‏باون دن میں اؔلول مہینے کی پچیسویں تاریخ کو شہرِپناہ بن چکی۔‏“‏—‏نحمیاہ ۶:‏۱۰-‏۱۵؛‏ گنتی ۱:‏۵۱؛‏ ۱۸:‏۷‏۔‏

۱۶.‏ (‏ا)‏ ہمیں جھوٹے دوستوں،‏ جھوٹے الزام لگانے والوں اور جھوٹے بھائیوں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ آپ یہ کیسے ظاہر کرتے ہیں کہ آپ گھر میں،‏ سکول میں،‏ یا ملازمت کی جگہ پر اپنے اعتقادات کے سلسلے میں مصالحت نہیں کرتے؟‏

۱۶ نحمیاہ کی طرح ہمیں بھی جھوٹے دوستوں،‏ جھوٹے الزام لگانے والوں اور جھوٹے بھائیوں کی شکل میں مخالفین کا سامنا ہو سکتا ہے۔‏ بعض ہمیں اپنی بات ماننے پر مجبور کر سکتے ہیں۔‏ شاید وہ ہمیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کریں کہ اگر ہم یہوواہ کی خدمت میں کچھ کم وقت صرف کرتے ہیں تو ہم دُنیاوی نشانے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ خدا کی بادشاہت کو اپنی زندگیوں میں پہلا درجہ دینے کی وجہ سے ہم اس بات کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔‏ (‏متی ۶:‏۳۳؛‏ لوقا ۹:‏۵۷-‏۶۲‏)‏ مخالفین ہمارے خلاف جھوٹی باتیں بھی پھیلاتے ہیں۔‏ جیسے نحمیاہ کو بادشاہ کے خلاف بغاوت کرنے والا کہا گیا تھا اسی طرح بعض ممالک میں ہمیں بھی مُلک کے لئے خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔‏ بعض الزامات کو بڑی کامیابی کے ساتھ عدالتوں میں جھوٹا ثابت کِیا گیا ہے۔‏ تاہم،‏ ہمیں انفرادی طور پر خواہ کیسی ہی صورتحال کا سامنا کیوں نہ ہو ہم اس اعتماد کے ساتھ دُعا کرتے ہیں کہ یہوواہ معاملات کو اپنے طریقے سے ضرور حل کرے گا۔‏ (‏فلپیوں ۱:‏۷‏)‏ یہوواہ خدا کی خدمت کا دعویٰ کرنے والے لوگ بھی مخالفت کر سکتے ہیں۔‏ جس طرح نحمیاہ کے اسرائیلی ساتھی نے اُسے اپنی زندگی بچانے کے لئے خدا کی شریعت کی خلاف‌ورزی کرنے کا مشورہ دیا اُسی طرح برگشتہ گواہ ہم پر بھی کسی نہ کسی طرح مصالحت کرنے کے لئے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ ہم برگشتہ لوگوں کی بات نہیں سنتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری زندگیاں خدا کے حکموں کو توڑنے کی بجائے اُن پر عمل کرنے کی وجہ سے محفوظ ہیں۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۴:‏۱‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ خدا کی مدد سے ہم ہر طرح کی بدی پر غالب آ سکتے ہیں۔‏

بدی کا سامنا کرنے کے باوجود منادی کرنا

۱۷،‏ ۱۸.‏ (‏ا)‏ شیطان اور اُس کے ساتھی کیا کرنا چاہتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ آپ کیا کرنے کے لئے پُرعزم ہیں،‏ اور کیوں؟‏

۱۷ یسوع مسیح کے ممسوح بھائیوں کی بابت خدا کا کلام بیان کرتا ہے:‏ ”‏وہ .‏ .‏ .‏ اپنی گواہی کے کلام کے باعث [‏شیطان]‏ پر غالب آئے۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۱‏)‏ لہٰذا،‏ بدی کے ماخذ شیطان پر غالب آنے اور خوشخبری کی منادی کرنے میں براہِ‌راست تعلق ہے۔‏ اِسی لئے شیطان ممسوح مسیحیوں کے باقی‌ماندہ اشخاص اور بڑی بِھیڑ کی مخالفت کرانے سے اُن پر لگاتار حملے کرتا ہے!‏—‏مکاشفہ ۷:‏۹؛‏ ۱۲:‏۱۷‏۔‏

۱۸ جیساکہ ہم دیکھ چکے ہیں مخالفت زبانی حملوں،‏ تشدد کی دھمکیوں یا دیگر خفیہ طریقوں سے آ سکتی ہے۔‏ بہرصورت،‏ شیطان کا مقصد منادی کے کام کو بند کرنا ہے۔‏ تاہم،‏ وہ بُری طرح ناکام ہوگا کیونکہ نحمیاہ کی طرح خدا کے لوگ ”‏نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب“‏ آنے کے لئے پُرعزم ہیں۔‏ وہ اُس وقت تک خوشخبری کی منادی کرتے رہیں گے جبتک یہوواہ خدا یہ حکم نہیں دیتا کہ بس اب کام مکمل ہو چکا ہے!‏—‏مرقس ۱۳:‏۱۰؛‏ رومیوں ۸:‏۳۱؛‏ فلپیوں ۱:‏۲۷،‏ ۲۸‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 2 ان واقعات کے پس‌منظر کو جاننے کے لئے نحمیاہ ۱:‏۱-‏۴؛‏ ۲:‏۱-‏۶،‏ ۹-‏۲۰؛‏ ۴:‏۱-‏۲۳؛‏ ۶:‏۱-‏۱۵ کو پڑھیں۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• ماضی میں خدا کے خادموں کو اور آجکل مسیحیوں کو کس قسم کی مخالفت کا سامنا ہے؟‏

‏• نحمیاہ کے دُشمنوں اور آجکل خدا کے دُشمنوں کا بنیادی مقصد کیا ہے؟‏

‏• آجکل ہم کیسے نیکی کے ذریعے بدی پر غالب آتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۸ پر بکس/‏تصویر]‏

نحمیاہ کی کتاب سے حاصل ہونے والے اسباق

خدا کے لوگوں کو اِِن مشکلات کا سامنا ہے

‏• تمسخر

‏• دھمکیاں

‏• دھوکابازی

دھوکا دینے والے

‏• جھوٹے دوست

‏• جھوٹے الزام لگانے والے

‏• جھوٹے بھائی

خدا کے خادم بدی پر غالب آ سکتے ہیں

‏• اپنے خداداد کام کو کرتے رہنے سے

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

نحمیاہ اور اُس کے ساتھیوں نے شدید مخالفت کے باوجود یروشلیم کی دیوار کو تعمیر کِیا

‏[‏صفحہ ۳۰ پر تصویر]‏

سچے مسیحی دلیری سے خوشخبری کی منادی کرتے ہیں