مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہم ”‏عجیب‌وغریب طور سے“‏ بنائے گئے ہیں

ہم ”‏عجیب‌وغریب طور سے“‏ بنائے گئے ہیں

ہم ”‏عجیب‌وغریب طور سے“‏ بنائے گئے ہیں

‏”‏مَیں عجیب‌وغریب طور سے بنا ہوں۔‏“‏—‏زبور ۱۳۹:‏۱۴‏۔‏

۱.‏ بیشتر صاحبِ‌فکر لوگ کیوں یہ کہتے ہیں کہ خدا ہی نے حیرت‌انگیز زمینی مخلوقات کو پیدا کِیا ہے؟‏

کائنات حیرت‌انگیز مخلوقات سے بھری ہوئی ہے۔‏ یہ سب کیسے وجود میں آئی ہیں؟‏ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فہیم خالق کا حوالہ دئے بغیر بھی اس سوال کا جواب حاصل کِیا جا سکتا ہے۔‏ دیگر یہ مانتے ہیں کہ خالق کے وجود سے انکار کرنا کائنات کے بارے میں جاننے کی ہماری صلاحیت کو محدود کر دیتا ہے۔‏ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ زمینی مخلوقات بہت ہی پیچیدہ،‏ وسیع اور حیرت‌انگیز ہیں۔‏ یہ خودبخود وجود میں نہیں آ سکتیں۔‏ بعض سائنس‌دانوں سمیت بیشتر لوگوں کے لئے حقائق واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ اس کائنات کا خالق،‏ دانا،‏ طاقتور اور شفیق خدا ہے۔‏ *

۲.‏ کس چیز نے داؤد کو یہوواہ خدا کی ستائش کرنے کی تحریک دی؟‏

۲ قدیم اسرائیلی بادشاہ داؤد نے اس بات کو تسلیم کِیا کہ خالق اپنی حیرت‌انگیز تخلیق کے لئے ستائش کا مستحق ہے۔‏ اگرچہ داؤد جدید سائنسی دَور سے بہت پہلے رہتا تھا توبھی وہ جانتا تھا کہ اس کے اردگرد خدا کے تخلیقی کاموں کی شاندار مثالیں موجود ہیں۔‏ اپنے دل میں خدا کی تخلیقی صلاحیت کے لئے گہرا احترام پیدا کرنے کی خاطر داؤد کو محض اپنی بناوٹ پر غور کرنے کی ضرورت تھی۔‏ اُس نے لکھا:‏ ”‏مَیں تیرا شکر کروں گا کیونکہ مَیں عجیب‌وغریب طور سے بنا ہوں تیرے کام حیرت‌انگیز ہیں۔‏ میرا دل اِسے خوب جانتا ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۳۹:‏۱۴‏۔‏

۳،‏ ۴.‏ ہمارے لئے سنجیدگی کے ساتھ یہوواہ خدا کے کاموں کی بابت سوچنا کیوں ضروری ہے؟‏

۳ داؤد کو سنجیدگی کے ساتھ سوچ‌بچار کرنے سے یہ اعتماد حاصل ہوا تھا۔‏ آجکل سکولوں کا نصاب اور میڈیا انسان کی ابتدا کے بارے میں لوگوں کے ایمان کو بگاڑنے والے نظریات سے بھرا پڑا ہے۔‏ اس لئے داؤد جیسا ایمان رکھنے کے لئے ہمیں بھی سنجیدگی کے ساتھ سوچ‌بچار کرنے کی ضرورت ہے۔‏ خالق کی موجودگی اور اُس کے کردار جیسے بنیادی معاملات کی بابت دوسروں کے نظریات سے متاثر ہونا ہمارے لئے نقصاندہ ہو سکتا ہے۔‏

۴ اس کے علاوہ،‏ یہوواہ خدا کے کاموں پر غوروخوض کرنا اس کے لئے ہماری قدردانی کو بڑھاتا اور مستقبل کی بابت اس کے وعدوں پر ہمارے اعتماد کو مضبوط کرتا ہے۔‏ اس سے ہمیں یہوواہ خدا کو زیادہ اچھی طرح جاننے اور اُس کی خدمت کرنے کی تحریک مل سکتی ہے۔‏ آئیں اس بات پر غور کریں کہ جدید سائنس ہمارے ”‏عجیب‌وغریب طور سے“‏ خلق کئے جانے کی بابت داؤد کے نظریے کی تصدیق کیسے کرتی ہے۔‏

ہماری حیرت‌انگیز بناوٹ

۵،‏ ۶.‏ (‏ا)‏ ہم سب کی زندگی کا آغاز کیسے ہوا تھا؟‏ (‏ب)‏ ہمارے گردے کیا کام انجام دیتے ہیں؟‏

۵ ‏”‏میرے دل [‏”‏گردوں،‏“‏ این ڈبلیو]‏ کو تُو ہی نے بنایا ہے۔‏ میری ماں کے پیٹ میں تُو ہی نے مجھے صورت بخشی۔‏“‏ ‏(‏زبور ۱۳۹:‏۱۳‏)‏ ہم سب کی زندگی کا آغاز ماں کے رحم میں اس جملے کے اختتام پر دئے گئے فل‌سٹاپ (‏ختمے)‏ سے بھی چھوٹے خلیے سے ہوا تھا۔‏ خوردبین سے دکھائی دینے والا یہ خلیہ انتہائی پیچیدہ تھا!‏ اسے ایک چھوٹی سی کیمیکل لیبارٹری کہا جا سکتا ہے۔‏ اس نے بہت تیزی سے نشوونما پائی۔‏ دو مہینے تک ماں کے رحم میں رہنے کے بعد آپ کے بڑے بڑے اعضا تشکیل پا چکے تھے۔‏ اِن میں آپ کے گردے بھی شامل تھے۔‏ آپ کی پیدائش کے وقت آپ کے گردے خون میں سے زہریلے مادّوں اور اضافی پانی کو چھاننے اور مفید مادّوں کو محفوظ رکھنے کے لئے تیار تھے۔‏ اگر آپ کے دونوں گردے صحت‌مند ہیں تو یہ ہر ۴۵ منٹ میں ایک بالغ شخص کے خون میں سے تقریباً پانچ لیٹر پانی چھانتے ہیں!‏

۶ اس کے علاوہ،‏ آپ کے گردے خون میں نمکیات،‏ تیزابیت اور دباؤ کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتے ہیں۔‏ یہ دیگر اہم کام بھی انجام دیتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ یہ وٹامن ڈی کو ایک دوسری شکل میں تبدیل کر دیتے ہیں تاکہ ہڈیوں کی مناسب نشوونما ہو سکے اور ان میں خون کے سُرخ خلیوں کی تعداد کو بڑھانے والا ہارمون ارتھروپوٹین پیدا ہو سکے۔‏ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ گردوں کو ”‏جسم کے ماہر کیمیادان“‏ کہا جاتا ہے!‏

۷،‏ ۸.‏ (‏ا)‏ ایک نازائیدہ بچے کی ابتدائی نشوونما کے متعلق بیان کریں۔‏ (‏ب)‏ کس طرح ایک بچہ ”‏زمین کے اسفل“‏ میں پرورش پاتا ہے؟‏

۷ ‏”‏جب مَیں پوشیدگی میں بن رہا تھا اور زمین کے اسفل میں عجیب طور سے مرتب ہو رہا تھا تو میرا قالب [‏ہڈیاں]‏ تجھ سے چھپا نہ تھا۔‏“‏ ‏(‏زبور ۱۳۹:‏۱۵‏)‏ آپ کا ابتدائی خلیہ تقسیم ہو گیا اور اس سے بننے والے نئے خلیے بھی تقسیم‌درتقسیم ہوتے رہے۔‏ جلد ہی یہ خلیے اعصابی خلیوں،‏ عضلاتی خلیوں،‏ جِلدی خلیوں اور دیگر خلیوں میں تبدیل ہوتے گئے۔‏ ایک جیسے خلیوں کے آپس میں ملنے سے بافتیں اور بافتوں کے ملنے سے اعضا تشکیل پانے لگے۔‏ مثال کے طور پر،‏ حمل ٹھہرنے کے تیسرے ہفتے کے دوران آپ کے بدن کی تمام ہڈیاں بننا شروع ہو گئی تھیں۔‏ جب آپ سات ہفتے کے تھے اور آپ کی لمبائی ایک انچ تھی تو آپ کے جسم کی ۲۰۶ ہڈیاں جو ابھی تک سخت نہیں ہوئی تھیں اپنی اپنی جگہ پر موجود تھیں۔‏

۸ نشوونما پانے کا یہ حیرت‌انگیز عمل آپ کی ماں کے رحم کے اندر واقع ہوا تھا۔‏ یہ انسانی نظروں سے ایسے اوجھل تھا گویا زمین کے اسفل میں واقع ہو رہا تھا۔‏ بِلاشُبہ،‏ ہماری نشوونما کے متعلق انسان زیادہ نہیں جانتے۔‏ مثال کے طور پر،‏ جسم کے مختلف حصوں کے خاص خلیوں میں انفرادیت پیدا کرنے والے جینز کی بابت کیا ہے؟‏ ہو سکتا ہے کہ سائنس ان کے متعلق دریافت کر لے لیکن جیساکہ داؤد نے آگے چل کر بیان کِیا ہمارا خالق یہوواہ شروع ہی سے ان سب کی بابت جانتا ہے۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ ایک بےترتیب مادّے کے اعضا کی تشکیل سے متعلق معلومات کیسے خدا کی ’‏کتاب میں درج‘‏ ہیں؟‏

۹ ‏”‏تیری آنکھوں نے میرے بےترتیب مادّے کو دیکھا اور جو ایاّم میرے لئے مقرر تھے وہ سب تیری کتاب میں لکھے تھے۔‏ جبکہ ایک بھی وجود میں نہ آیا تھا۔‏“‏ ‏(‏زبور ۱۳۹:‏۱۶‏)‏ آپ کے پہلے خلیے میں آپ کے پورے جسم کی تشکیل کے بارے میں مکمل معلومات موجود تھیں۔‏ انہی معلومات کے ذریعے آپ کی پیدائش سے پہلے نو ماہ تک ماں کے رحم میں اور اس کے بعد ۲۰ سال سے زائد عرصہ یعنی بالغ ہونے تک آپ کی نشوونما ہوتی ہے۔‏ اس تمام عرصہ کے دوران آپ کا جسم مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔‏ یہ مختلف تبدیلیاں آپ کے ابتدائی خلیے میں موجود معلومات کے تحت واقع ہوتی ہیں۔‏

۱۰ داؤد کے پاس نہ تو خوردبین تھی اور نہ ہی وہ خلیوں اور جینز کے بارے میں جانتا تھا۔‏ مگر وہ اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ اس کے جسم کی نشوونما پہلے سے طےشُدہ معلومات کے مطابق ہوئی ہے۔‏ شاید داؤد کے پاس بےترتیب مادّے کی نشوونما کے بارے میں کچھ علم ہو۔‏ اس لئے وہ یہ دلیل پیش کر سکتا تھا کہ ہر مرحلہ پہلے سے طےشُدہ ترتیب اور وقت کے مطابق ہوتا ہے۔‏ اُس نے شاعرانہ انداز میں اس ترتیب کے بارے میں بیان کِیا کہ یہ خدا کی ’‏کتاب میں درج‘‏ ہے۔‏

۱۱.‏ ہماری جسمانی خصوصیات کا تعیّن کس چیز کی بدولت ہوتا ہے؟‏

۱۱ آجکل لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ والدین یا باپ‌دادا سے ورثے میں ملنے والی خصوصیات جیسےکہ قد،‏ چہرے کے خدوخال،‏ آنکھوں اور بال وغیرہ کا تعیّن جینز کی بدولت ہوتا ہے۔‏ آپ کے ہر خلیے میں لاکھوں جینز ہوتے ہیں اور ہر جین ڈی‌این‌اے ‏(‏ڈی‌آکسی‌رائبونیوکلک ایسڈ)‏ سے بنی ایک لمبی لڑی کا حصہ ہوتا ہے۔‏ آپ کے بدن کی نشوونما کے سلسلے میں معلومات آپ کے ڈی‌این‌اے کی کیمیائی ساخت میں ’‏درج‘‏ ہوتی ہیں۔‏ ہر مرتبہ جب آپ کے خلیے نئے خلیے بنانے یا پُرانے خلیوں کی تجدید کرنے کے لئے تقسیم ہوتے ہیں تو آپ کا ڈی‌این‌اے یہ معلومات فراہم کرتا ہے۔‏ اس طرح آپ زندہ رہتے ہیں اور آپ کی بنیادی وضع‌قطع قائم رہتی ہیں۔‏ ہمارے آسمانی خالق کی حکمت اور قوت کی کیا ہی شاندار مثال!‏

ہمارا بےمثال دماغ

۱۲.‏ کونسی باتیں خاص طور پر انسانوں کو جانوروں سے فرق کرتی ہیں؟‏

۱۲ ‏”‏اَے خدا!‏ تیرے خیال میرے لئے کیسے بیش‌بہا ہیں۔‏ اُن کا مجموعہ کیسا بڑا ہے!‏ اگر مَیں اُن کو گنوں تو وہ شمار میں ریت سے بھی زیادہ ہیں۔‏“‏ ‏(‏زبور ۱۳۹:‏۱۷،‏ ۱۸ الف)‏ جانوروں کو بھی حیرت‌انگیز طریقے سے خلق کِیا گیا ہے۔‏ اِن میں سے بعض کے اندر ایسی خصوصیات اور حواس ہیں جو انسانوں سے بھی بڑھ کر ہیں۔‏ لیکن خدا نے انسانوں کو دانائی عطا کی ہے جس کی وجہ سے وہ تمام جانوروں سے اعلیٰ ہیں۔‏ ایک سائنسی کتاب نے بیان کِیا:‏ ”‏ہم انسان کئی طریقوں سے دیگر زمینی مخلوقات کی طرح ہیں لیکن ہم اس لحاظ سے ان سے فرق ہیں کہ ہم بولنے اور سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‏ ہمارے منفرد ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بارے میں جاننے کی خواہش رکھتے ہیں۔‏ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے جسم کو کیسے ترتیب دیا گیا ہے؟‏ ہمیں کس طرح سے خلق کِیا گیا تھا؟‏“‏ داؤد نے بھی ان سوالوں پر اسی طرح سے غوروخوض کِیا تھا۔‏

۱۳.‏ (‏ا)‏ داؤد خدا کے خیالات پر غوروخوض کرنے کے قابل کیسے ہوا تھا؟‏ (‏ب)‏ ہم داؤد کے نمونے کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۳ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جانوروں کے برعکس ہم خدا کے خیالات پر غوروخوض کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‏ * ہمیں یہ خاص بخشش اس لئے حاصل ہے کیونکہ ہم ”‏خدا کی صورت“‏ پر بنائے گئے ہیں۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۷‏)‏ داؤد نے بھی اس بخشش یا صلاحیت کا اچھا استعمال کِیا تھا۔‏ اُس نے خدا کی موجودگی کی شہادتوں اور زمین پر اس کے اردگرد موجود چیزوں سے ظاہر ہونے والی خدا کی خوبیوں پر غوروخوض کِیا۔‏ داؤد کے پاس پاک صحائف کی ابتدائی کتابیں بھی موجود تھیں جن میں خدا نے اپنی ذات اور اپنے کاموں کے بارے میں بیان کِیا تھا۔‏ ان الہامی کتابوں نے داؤد کی خدا کے خیالات،‏ اُس کی شخصیت اور اُس کے مقاصد کو جاننے کے لئے مدد کی تھی۔‏ صحائف،‏ کائنات اور اس کے ساتھ خدا کے برتاؤ پر غوروخوض کرنے سے داؤد کو اپنے خالق کی ستائش کرنے کی تحریک ملی تھی۔‏

ایمان میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۱۴.‏ خدا پر ایمان رکھنے کیلئے ہمیں اسکے بارے میں ہر بات جاننے کی ضرورت کیوں نہیں ہے؟‏

۱۴ داؤد نے تخلیق اور صحائف پر جتنا زیادہ غور کِیا اتنا ہی وہ جان گیا کہ خدا کے علم اور صلاحیت کی بابت جاننا اُس کی سمجھ سے باہر ہے۔‏ (‏زبور ۱۳۹:‏۶‏)‏ یہ بات ہمارے سلسلے میں بھی سچ ہے۔‏ ہم کبھی بھی خدا کے تخلیقی کاموں کے بارے میں سب کچھ نہیں جان سکیں گے۔‏ (‏واعظ ۳:‏۱۱؛‏ ۸:‏۱۷‏)‏ لیکن خدا نے صحائف اور کائنات کے ذریعے کسی بھی دَور میں رہنے والے سچائی کے متلاشیوں کے لئے ایمان پیدا کرنے کے لئے کافی زیادہ علم ”‏ظاہر کر دیا“‏ ہے۔‏—‏رومیوں ۱:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ عبرانیوں ۱۱:‏۱،‏ ۳‏۔‏

۱۵.‏ مثال دیں کہ کیسے ایمان اور یہوواہ خدا کے ساتھ ہمارا رشتہ ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔‏

۱۵ ایمان رکھنے میں محض یہ تسلیم کرنا شامل نہیں کہ زندگی اور کائنات کا ضرور کوئی فہیم خالق ہوگا۔‏ اس میں یہوواہ خدا پر ایک ہستی کے طور پر توکل کرنا شامل ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم اسے جانیں اور اس کے ساتھ ایک اچھا رشتہ قائم کریں۔‏ (‏یعقوب ۴:‏۸‏)‏ ہم اس بھروسے یا توکل کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جو ایک شخص اپنے پُرمحبت باپ پر کرتا ہے۔‏ اگر ایک شکی آدمی پوچھتا ہے کہ آیا آپ کا والد واقعی کسی مشکل وقت میں آپ کی مدد کرے گا تو شاید آپ اُسے قائل نہ کر سکیں کہ آپ کا والد واقعی قابلِ‌بھروسا ہے۔‏ لیکن اگر آپ نے اپنے والد کی محبت اور شفقت کا تجربہ کِیا ہے تو آپ یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ آپ کو کبھی مایوس نہیں کرے گا۔‏ اسی طرح ہمیں یہوواہ خدا کو جاننے کے لئے صحائف کا مطالعہ کرنے،‏ کائنات پر غوروخوض کرنے اور ہماری دُعاؤں کے جواب میں اس کی مدد کا تجربہ کرنے سے اس پر توکل کرنے کی تحریک ملتی ہے۔‏ اس سے ہمارے اندر اس کے بارے میں مزید جاننے اور بےغرض محبت اور عقیدت کے ساتھ ہمیشہ تک اس کی ستائش کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔‏ یہ ایک ایسا شرف ہے جو کوئی بھی شخص حاصل کر سکتا ہے۔‏—‏افسیوں ۵:‏۱،‏ ۲‏۔‏

اپنے خالق سے راہنمائی حاصل کریں

۱۶.‏ ہم یہوواہ خدا کے ساتھ داؤد کے قریبی رشتے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۶ ‏”‏اَے خدا!‏ تُو مجھے جانچ اور میرے دل کو پہچان۔‏ مجھے آزما اور میرے خیالوں کو جان لے اور دیکھ کہ مجھ میں کوئی بُری روش تو نہیں اور مجھ کو ابدی راہ میں لے چل۔‏“‏ ‏(‏زبور ۱۳۹:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ داؤد جانتا تھا کہ یہوواہ خدا اُس کی سوچ،‏ بات‌چیت اور کاموں سے اچھی طرح واقف ہے۔‏ (‏زبور ۱۳۹:‏۱-‏۱۲؛‏ عبرانیوں ۴:‏۱۳‏)‏ جیسے ایک چھوٹا بچہ اپنے پُرمحبت والدین کے ہاتھوں میں خود کو محفوظ سمجھتا ہے ویسے ہی خدا کے بارے میں گہرے علم نے داؤد کو تحفظ کا احساس بخشا۔‏ داؤد یہوواہ خدا کے ساتھ اپنے قریبی رشتے کو عزیز رکھتا تھا اور اس کے کاموں کی بابت سوچ‌بچار کرنے اور اس سے دُعا کرنے سے اس رشتے کو قائم رکھنے کی کوشش کِیا کرتا تھا۔‏ درحقیقت،‏ زبور ۱۳۹ سمیت داؤد کے بیشتر زبور بنیادی طور پر دُعائیں ہیں جنہیں موسیقی کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔‏ اسی طرح غوروخوض اور دُعا کرنا ہمیں بھی یہوواہ خدا کے نزدیک جانے میں مدد دے سکتا ہے۔‏

۱۷.‏ (‏ا)‏ داؤد کیوں چاہتا تھا کہ یہوواہ خدا اس کے دل کو جانچے؟‏ (‏ب)‏ جس طریقے سے ہم آزاد مرضی کی بخشش کو استعمال کرتے ہیں اس سے ہماری زندگیاں کیسے متاثر ہوتی ہیں؟‏

۱۷ خدا کی صورت پر خلق کئے جانے کی وجہ سے ہمیں آزاد مرضی کی بخشش حاصل ہے۔‏ ہم خود اچھے اور بُرے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔‏ مگر اس آزادی کے ساتھ ہم اخلاقی طور پر جوابدہ بھی ہیں۔‏ داؤد شریر لوگوں میں شمار ہونا نہیں چاہتا تھا۔‏ (‏زبور ۱۳۹:‏۱۹-‏۲۲‏)‏ وہ خدا کے خلاف گناہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔‏ یہوواہ خدا کے وسیع علم پر غوروخوض کرتے ہوئے داؤد نے فروتنی کے ساتھ خدا سے درخواست کی کہ وہ اُس کی باطنی شخصیت کو جانچے اور زندگی کی طرف لیجانے والی راہ پر اُس کی راہنمائی کرے۔‏ خدا کے راست اخلاقی معیاروں کا اطلاق ہر شخص پر ہوتا ہے،‏ اس لئے ہمیں بھی دُرست فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔‏ یہوواہ ہم میں سے ہر ایک کو فرمانبردار رہنے کی تاکید کرتا ہے۔‏ ایسا کرنے سے ہم اُس کی خوشنودی اور بہت سی برکات حاصل کرتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۲:‏۵۰؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۴:‏۸‏)‏ ہر روز یہوواہ خدا کے ساتھ چلنا سنگین مشکلات کا سامنا کرتے وقت بھی ہمیں دلی اطمینان حاصل کرنے میں مدد دے گا۔‏—‏فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏۔‏

اپنے خالق کی فرمانبرداری کریں

۱۸.‏ داؤد کائنات پر غوروخوض کرنے سے کس نتیجے پر پہنچا تھا؟‏

۱۸ داؤد ایک نوجوان کے طور پر اپنی بھیڑوں کو چرانے کے لئے اکثر باہر رہتا تھا۔‏ جب بھیڑیں سر جھکائے ہوئے چر رہی ہوتی تھیں تو داؤد اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اُٹھا لیتا تھا۔‏ شام کے دُھندلکے میں داؤد کائنات کی وسعت اور اس کے مقصد پر غور کِیا کرتا تھا۔‏ داؤد نے لکھا:‏ ”‏آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ہے اور فضا اُس کی دستکاری دکھاتی ہے۔‏ دن سے دن بات کرتا ہے اور رات کو رات حکمت سکھاتی ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۹:‏۱،‏ ۲‏)‏ داؤد ان تمام چیزوں کو عجیب‌وغریب طور سے بنانے والے خالق کے طالب ہونے اور اس کی فرمانبرداری کرنے کی ضرورت کو سمجھ گیا تھا۔‏ ہمیں بھی ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے۔‏

۱۹.‏ بوڑھے اور جوان ”‏عجیب‌وغریب طور سے“‏ بنائے جانے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۹ داؤد نے اُس مشورت پر عمل کرنے کے سلسلے میں عمدہ مثال قائم کی جو بعدازاں اُس کے بیٹے سلیمان نے نوجوانوں کو دی:‏ ”‏اپنی جوانی کے دنوں میں اپنے خالق کو یاد کر .‏ .‏ .‏ خدا سے ڈر اور اُس کے حکموں کو مان کہ انسان کا فرضِ‌کُلی یہی ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۱۲:‏۱،‏ ۱۳‏)‏ ایک نوجوان کے طور پر داؤد یہ جان گیا تھا کہ وہ ”‏عجیب‌وغریب طور سے بنا“‏ ہے۔‏ اس سمجھ کے ساتھ زندگی گزارنے سے اسے بہت سے فوائد حاصل ہوئے۔‏ اگر ہم سب بوڑھے اور جوان اپنے عظیم خالق کی ستائش کرتے اور اس کی خدمت کرتے ہیں تو ہماری اب کی اور آئندہ کی زندگی خوشیوں سے معمور ہوگی۔‏ یہوواہ خدا کی قربت حاصل کرنے اور اُس کی راست راہوں کے مطابق زندگی گزارنے والوں کے متعلق بائبل وعدہ کرتی ہے:‏ ”‏وہ بڑھاپے میں بھی برومند ہوں گے۔‏ وہ تروتازہ اور سرسبز رہیں گے تاکہ واضح کریں کہ [‏یہوواہ]‏ راست ہے۔‏“‏ (‏زبور ۹۲:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ اس کے علاوہ،‏ ہمارے پاس یہ اُمید بھی ہوگی کہ ہم ہمیشہ تک اپنے خالق کے حیرت‌انگیز کاموں سے لطف اُٹھائیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 1 یہوواہ کے گواہوں کے شائع‌کردہ بروشر کیا خدا واقعی ہماری پرواہ کرتا ہے؟‏ کے حصہ ۳ کو دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 13 ایسا لگتا ہے کہ زبور ۱۳۹:‏۱۸ آیت کے دوسرے حصے کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ یہوواہ خدا کے خیالات پر غوروخوض کرنے میں اپنا سارا دن گزار دیتا ہے جبتک‌کہ اُسے نیند نہیں آ جاتی توبھی اگلے دن صبح اُٹھنے پر اس کے پاس غوروخوض کرنے کے لئے بہت کچھ ہوگا۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• ایک بےترتیب مادّے کی نشوونما کیسے ظاہر کرتی ہے کہ ہم ”‏عجیب‌وغریب طور سے“‏ خلق کئے گئے ہیں؟‏

‏• ہمیں یہوواہ خدا کے خیالات پر کیوں غوروخوض کرنا چاہئے؟‏

‏• ایمان اور یہوواہ خدا کے ساتھ ہمارے رشتے کے درمیان کیا تعلق ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویریں]‏

رحم میں بچے کی نشوونما پہلے سے متعین ترتیب کے مطابق ہوتی ہے

ڈی‌این‌اے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Unborn fetus: Lennart Nilsson

‏[‏صفحہ ۱۴ پر تصویر]‏

ایک پُرمحبت باپ پر بھروسا رکھنے والے بچے کی طرح ہم بھی یہوواہ خدا پر توکل رکھتے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

یہوواہ خدا کی دستکاری پر غوروخوض کرنے سے داؤد کو اس کی ستائش کرنے کی تحریک ملی