مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏اپنے آپ کو ہر طرح کے لالچ سے بچائے رکھو“‏

‏”‏اپنے آپ کو ہر طرح کے لالچ سے بچائے رکھو“‏

‏”‏اپنے آپ کو ہر طرح کے لالچ سے بچائے رکھو“‏

‏”‏کسی کی زندگی اُس کے مال کی کثرت پر موقوف نہیں۔‏“‏—‏لوقا ۱۲:‏۱۵‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ آپ نے آجکل لوگوں کی دلچسپیوں کے سلسلے میں کیا دیکھا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم ایسے رُجحانات سے کیسے متاثر ہو سکتے ہیں؟‏

بیشتر لوگ روپےپیسے،‏ جائیداد،‏ عزت‌ووقار،‏ زیادہ تنخواہ والی ملازمت یا بڑے خاندان کو ایک محفوظ مستقبل کی ضمانت خیال کرتے ہیں۔‏ یہ بات واضح ہے کہ غریب اور امیر ممالک میں بہتیرے لوگ مادی چیزوں اور ترقی میں دلچسپی رکھتے اور انہیں حاصل کرنے کی تگ‌ودو میں رہتے ہیں۔‏ اس کے برعکس،‏ خدا کی پرستش سے وابستہ معاملات میں لوگوں کی دلچسپی تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔‏

۲ بائبل میں اسی بات کی پیشینگوئی کی گئی ہے۔‏ یہ بیان کرتی ہے:‏ ”‏اخیر زمانہ میں بُرے دن آئیں گے۔‏ کیونکہ آدمی خودغرض۔‏ زردوست۔‏ .‏ .‏ .‏ خدا کی نسبت عیش‌وعشرت کو زیادہ دوست رکھنے والے ہوں گے۔‏ وہ دینداری کی وضع تو رکھیں گے مگر اُس کے اثر کو قبول نہ کریں گے۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵‏)‏ ایسے لوگوں کے درمیان رہنے کی وجہ سے سچے مسیحیوں پر ہر وقت ان کی طرح بننے کا دباؤ رہتا ہے۔‏ کونسی چیز ’‏اس جہان کے ہمشکل نہ بننے‘‏ میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏—‏رومیوں ۱۲:‏۲‏۔‏

۳.‏ ہم یسوع کی کس مشورت پر غور کریں گے؟‏

۳ ‏”‏ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے“‏ یسوؔع مسیح نے اس بارے میں ہمیں اثرآفریں سبق سکھائے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۲‏)‏ ایک موقع پر جب یسوع بِھیڑ کو سچی پرستش سے متعلق سکھا رہا تھا تو ایک آدمی نے اس درخواست کے ساتھ اُس کی بات کاٹ دی:‏ ”‏اَے استاد!‏ میرے بھائی سے کہہ کہ میراث کا میرا حصہ مجھے دے۔‏“‏ اس کے جواب میں یسوع مسیح نے اُس آدمی اور تمام سننے والوں کو ایک سنجیدہ پیغام دیا۔‏ اُس نے لالچ کے خلاف زبردست آگاہی دی اور اس آگاہی کی حمایت میں ایک دلچسپ تمثیل پیش کی۔‏ اس موقع پر یسوع مسیح نے جو کچھ کہا ہم اس پر دھیان دیکر اور اس بات کا جائزہ لیکر اچھا کرتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی میں اس پر عمل کرکے کیسے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔‏—‏لوقا ۱۲:‏۱۳-‏۲۱‏۔‏

ایک لالچی آدمی کی درخواست

۴.‏ اُس آدمی کا یسوع کی بات کاٹنا کیوں غلط تھا؟‏

۴ اس آدمی کے دخل‌اندازی کرنے سے پہلے،‏ یسوع مسیح اپنے شاگردوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ ریاکاری سے خبردار رہنے،‏ یسوع کا اقرار کرنے کی جُرأت رکھنے اور رُوح‌اُلقدس کے ذریعے مدد حاصل کرنے کے بارے میں بات کر رہا تھا۔‏ (‏لوقا ۱۲:‏۱-‏۱۲‏)‏ یقیناً یہ اہم موضوعات تھے جن پر شاگردوں کو دھیان دینے کی ضرورت تھی۔‏ مگر اچانک ایک آدمی ان دل میں اُتر جانے والی باتوں کو کاٹ کر یسوع سے جائیداد سے متعلق جھگڑے کا تصفیہ کرانے کی درخواست کرتا ہے۔‏ ہم اس واقعہ سے ایک اہم سبق سیکھتے ہیں۔‏

۵.‏ اُس آدمی کی درخواست نے اس کے بارے میں کیا ظاہر کِیا؟‏

۵ کسی نے خوب کہا ہے کہ ”‏ایک آدمی کا کردار اس بات سے پہچانا جاتا ہے کہ وہ وعظ سنتے وقت کیا سوچتا ہے۔‏“‏ جب یسوع خدا کی پرستش کے متعلق سنجیدہ بات‌چیت کر رہا تھا تو وہ آدمی غالباً یہ سوچ رہا تھا کہ وہ مالی فائدہ کیسے حاصل کر سکتا ہے۔‏ میراث کے متعلق اس کی شکایت جائز تھی یا نہیں،‏ اس کے بارے میں کچھ بیان نہیں کِیا گیا۔‏ شاید وہ یسوع کے اختیار اور شہرت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہو۔‏ (‏یسعیاہ ۱۱:‏۳،‏ ۴؛‏ متی ۲۲:‏۱۶‏)‏ وجہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن اس کے سوال نے ظاہر کِیا کہ دال میں کچھ کالا تھا۔‏ اس کا مسئلہ روحانی باتوں کے لئے قدردانی کی کمی تھا۔‏ کیا یہ ہمارے لئے خود کو جانچنے کی اچھی وجہ نہیں ہے؟‏ مثال کے طور پر،‏ مسیحی اجلاسوں پر ہمارا ذہن آسانی سے بھٹک سکتا یا اُن باتوں پر لگ سکتا ہے جو ہم اجلاس کے بعد کرنا چاہتے ہیں۔‏ اس کے برعکس،‏ ہمیں کہی جانے والی باتوں پر دھیان دینا چاہئے اور معلومات کا ذاتی اطلاق کرنے کے طریقوں کے بارے میں سوچنا چاہئے تاکہ ہم اپنے آسمانی باپ یہوواہ خدا اور اپنے ہمخدمت مسیحیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو خوشگوار بنا سکیں۔‏—‏زبور ۲۲:‏۲۲؛‏ مرقس ۴:‏۲۴‏۔‏

۶.‏ یسوع مسیح نے اس آدمی کی درخواست کیوں رد کر دی؟‏

۶ اس آدمی کی درخواست کی وجہ کوئی بھی ہو،‏ یسوع مسیح نے اس کی درخواست کو رد کر دیا۔‏ یسوع مسیح نے اُس سے کہا:‏ ”‏میاں!‏ کس نے مجھے تمہارا منصف یا بانٹنے والا مقرر کِیا ہے؟‏“‏ (‏لوقا ۱۲:‏۱۴‏)‏ ایسا کہنے سے یسوع ایک ایسی بات کا حوالہ دے رہا تھا جس سے لوگ اچھی طرح باخبر تھے کیونکہ موسوی شریعت کے تحت شہروں میں ایسے معاملات کو نپٹانے کے لئے قاضی مقرر کئے گئے تھے۔‏ (‏استثنا ۱۶:‏۱۸-‏۲۰؛‏ ۲۱:‏۱۵-‏۱۷؛‏ روت ۴:‏۱ ۲)‏ یسوع مسیح زیادہ اہم باتوں پر توجہ دے رہا تھا جس میں خدا کی بادشاہت کے بارے میں گواہی دینا اور لوگوں کو خدا کی مرضی کی تعلیم دینا شامل تھا۔‏ (‏یوحنا ۱۸:‏۳۷‏)‏ روزمرّہ کی معمولی باتوں میں اُلجھنے کی بجائے،‏ ہم یسوع مسیح کی نقل کرتے ہوئے اپنا وقت اور توانائی خوشخبری کی منادی کرنے اور ”‏سب قوموں کو شاگرد“‏ بنانے میں صرف کرتے ہیں۔‏—‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲۸:‏۱۹‏۔‏

لالچ سے خبردار رہیں

۷.‏ یسوع نے اُس آدمی کی اصلی خواہش کو بھانپنے کے بعد کیا کہا؟‏

۷ دل کے خیالوں کو جاننے کی وجہ سے یسوع مسیح اس بات سے باخبر تھا کہ اس آدمی کی نیت ٹھیک نہیں تھی۔‏ اس لئے وہ آدمی یسوع سے ایک ذاتی معاملے میں مداخلت کرانا چاہتا تھا۔‏ لہٰذا،‏ اُس آدمی کی درخواست کو رد کرنے کی بجائے یسوع نے اُس کے اصلی خواہش کو بھانپنے کے بعد کہا:‏ ”‏خبردار!‏ اپنے آپ کو ہر طرح کے لالچ سے بچائے رکھو کیونکہ کسی کی زندگی اُس کے مال کی کثرت پر موقوف نہیں۔‏“‏—‏لوقا ۱۲:‏۱۵‏۔‏

۸.‏ لالچ کیا ہے اور یہ کہاں تک لیجا سکتا ہے؟‏

۸ لالچ محض روپےپیسے یا دیگر چیزوں کی خواہش ہی نہیں ہے۔‏ اس میں دوسروں کی چیزیں حاصل کرنے کی حرص بھی شامل ہو سکتی ہے۔‏ لالچی شخص کو وہ چیز چاہئے ہوتی ہے جس کی وہ خواہش کرتا ہے۔‏ اسے نہ تو دوسروں کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ اس بات کی کہ اس کا کیا اثر پڑتا ہے۔‏ ایک لالچی شخص جس چیز کی خواہش کرتا ہے اسے اپنی سوچ اور کاموں پر اس قدر حاوی کر لیتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر اس کا معبود بن جاتی ہے۔‏ یاد کریں کہ پولس رسول نے لالچی لوگوں کو بُت‌پرست کہا جن کی خدا کی بادشاہت میں کچھ میراث نہیں ہے۔‏—‏افسیوں ۵:‏۵؛‏ کلسیوں ۳:‏۵‏۔‏

۹.‏ لالچ کس طرح ظاہر ہو سکتا ہے؟‏ اس کی چند مثالیں دیں۔‏

۹ دلچسپی کی بات ہے کہ یسوع نے ”‏ہر طرح کے لالچ“‏ سے خبردار کِیا تھا۔‏ لالچ کے کئی روپ ہیں۔‏ دس حکموں میں سے آخری حکم اس کے کچھ روپ ظاہر کرتا ہے:‏ ”‏تُو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کرنا۔‏ تُو اپنے پڑوسی کی بیوی کا لالچ نہ کرنا اور نہ اُس کے غلام اور اُس کی لونڈی اور اُس کے بیل اور اُس کے گدھے کا اور نہ اپنے پڑوسی کی کسی اَور چیز کا لالچ کرنا۔‏“‏ (‏خروج ۲۰:‏۱۷‏)‏ بائبل میں ایسے اشخاص کی عبرتناک مثالیں پائی جاتی ہیں جو لالچ کرکے سنگین گُناہ میں پڑ گئے۔‏ سب سے پہلے شیطان نے لالچ کِیا۔‏ اُس نے اُس جاہ‌وجلال اور اختیار کا لالچ کِیا جس کا حق صرف یہوواہ خدا ہی رکھتا تھا۔‏ (‏مکاشفہ ۴:‏۱۱‏)‏ حوا نے خدا جیسی حیثیت کا لالچ کِیا اور اس دھوکے میں آکر نسلِ‌انسانی کو گناہ اور موت کی راہ پر ڈال دیا۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۴-‏۷‏)‏ شیاطین بن جانے والے فرشتے اپنی اعلیٰ حیثیت سے مطمئن نہیں تھے لہٰذا انہوں نے اُس چیز کے لئے جس کا وہ حق نہیں رکھتے تھے ”‏اپنے خاص مقام کو چھوڑ دیا۔‏“‏ (‏یہوداہ ۶؛‏ پیدایش ۶:‏۲‏)‏ ذرا بلعام،‏ عکن،‏ جیحازی اور یہوداہ اسکریوتی کی مثالوں پر غور کریں۔‏ انہیں زندگی میں جوکچھ حاصل تھا اس پر قناعت کرنے کی بجائے انہوں نے مادی چیزوں کے لئے خواہش پروان چڑھنے دی جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے اختیار کا ناجائز استعمال کِیا اور ہلاک ہو گئے۔‏

۱۰.‏ ہمیں یسوع کی تاکید کے مطابق کس بات سے ”‏خبردار“‏ رہنا چاہئے؟‏

۱۰ یسوع مسیح کا لالچ کے بارے میں ان الفاظ سے آگاہی دینا کتنا موزوں تھا کہ ”‏خبردار رہو۔‏“‏ مگر کیوں؟‏ اس لئے کہ لوگوں کے لئے یہ دیکھنا بہت آسان ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص کتنا لالچی ہے۔‏ لیکن انہیں یہ تسلیم کرنا مشکل لگتا ہے کہ وہ خود کتنے لالچی ہیں۔‏ تاہم،‏ پولس رسول نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ”‏زر کی دوستی ہر قسم کی بُرائی کی جڑ ہے۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ شاگرد یعقوب نے واضح کِیا کہ غلط ”‏خواہش حاملہ ہو کر گُناہ کو جنتی ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۱:‏۱۵‏)‏ یسوع کی تاکید کے مطابق ہمیں ”‏خبردار“‏ رہنا چاہئے کہ ہم دوسروں پر لالچی ہونے کا الزام نہ لگائیں۔‏ اس کے برعکس ہمیں اپنی جانچ کرنی چاہئے کہ ہمارے دل میں کونسی خواہشیں ہیں تاکہ ہم ’‏اپنے آپ کو ہر طرح کے لالچ سے بچائے رکھیں۔‏‘‏

مال کی کثرت

۱۱،‏ ۱۲.‏ (‏۱)‏ یسوع مسیح نے لالچ کے خلاف کونسی آگاہی دی؟‏ (‏ب)‏ ہمیں یسوع کی آگاہی پر دھیان دینے کی ضرورت کیوں ہے؟‏

۱۱ لالچ سے خبردار رہنے کی ایک اَور وجہ بھی ہے۔‏ یسوع کے اگلے بیان پر غور کریں:‏ ”‏کسی کی زندگی اُس کے مال کی کثرت پر موقوف نہیں۔‏“‏ (‏لوقا ۱۲:‏۱۵‏)‏ یقیناً ہمارے دَور میں جب لوگ خوشی اور کامیابی کو مال‌ودولت سے وابستہ کرتے ہیں تو یہ بیان غوروفکر کا حامل ہے۔‏ ان الفاظ سے یسوع اس بات کی نشاندہی کر رہا تھا کہ ایک بامقصد اور تسکین‌بخش زندگی مال‌ودولت کی زیادتی سے حاصل نہیں ہوتی۔‏

۱۲ تاہم،‏ بعض شاید اس سے متفق نہ ہوں۔‏ وہ کہہ سکتے ہیں کہ مال‌ودولت سے زندگی زیادہ آرام‌دہ اور کامیاب بنتی ہے اس لئے یہ بہت ضروری ہے۔‏ لہٰذا،‏ وہ خود کو ایسی سرگرمیوں کے لئے وقف کر لیتے ہیں جن کے ذریعے وہ حسبِ‌خواہش جدید موبائل،‏ نئے ماڈل کی گاڑیاں یا کمپیوٹر وغیرہ حاصل کر سکیں۔‏ ان کے خیال میں اس سے اُن کی زندگی کامیاب اور سہل ہوگی۔‏ لیکن ایسی سوچ رکھنے والے یسوع مسیح کی بات نہیں سمجھتے۔‏

۱۳.‏ زندگی اور مال‌ودولت کی بابت متوازن نظریہ کیا ہے؟‏

۱۳ اس بات پر توجہ دینے کی بجائے کہ آیا زندگی میں کافی مال‌ودولت رکھنا غلط ہے یا صحیح،‏ یسوع مسیح اس بات پر زور دے رہا تھا کہ آدمی کی زندگی اُس کے ”‏مال“‏ یعنی جو کچھ اس کے پاس موجود ہے اُس پر موقوف نہیں ہے۔‏ اس سلسلے میں،‏ ہم جانتے ہیں کہ زندہ رہنے کے لئے اتنی زیادہ چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔‏ کچھ کھانے،‏ اوڑھنے اور سر چھپانے کے لئے ہونا چاہئے۔‏ امیروں کے پاس یہ سب کثرت سے ہوتا ہے لیکن غریبوں کو اپنی ضرورت کی چیز حاصل کرنے کے لئے بہت زیادہ کوشش کرنی پڑتی ہے۔‏ جبکہ موت کے وقت امیروغریب کا فرق مٹ جاتا ہے۔‏ (‏واعظ ۹:‏۵،‏ ۶‏)‏ لہٰذا،‏ زندگی کا بامقصد ہونا اور اس کی قدر کرنا کسی کے مال جمع کرنے پر موقوف نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہونا چاہئے۔‏ جب ہم لوقا ۱۲:‏۱۵ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ خیال اَور زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔‏

۱۴.‏ یسوع کی اس بات کا کیا مطلب ہے کہ ”‏کسی کی زندگی اُس کے مال کی کثرت پر موقوف نہیں“‏؟‏

۱۴ جب یسوع نے کہا کہ ”‏کسی کی زندگی اُس کے مال کی کثرت پر موقوف نہیں“‏ تو وہ کہہ رہا تھا کہ خواہ ہم امیر ہیں یا غریب،‏ ہمارے پاس سب کچھ ہے یا ہم دانے دانے کے لئے ترس رہے ہیں ہمیں اپنی زندگی پر کوئی اختیار نہیں۔‏ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ہم کل تک زندہ رہیں گے یا نہیں۔‏ یسوع نے اپنے پہاڑی وعظ میں بیان کِیا:‏ ”‏تُم میں اَیسا کون ہے جو فکر کرکے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟‏“‏ (‏متی ۶:‏۲۷‏)‏ بائبل واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ ”‏زندگی کا چشمہ“‏ صرف یہوواہ خدا کے پاس ہے۔‏ وہی اپنے وفادار بندوں کو آسمان یا زمین پر ”‏حقیقی زندگی“‏ یا ”‏ہمیشہ کی زندگی“‏ دے سکتا ہے۔‏—‏زبور ۳۶:‏۹؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۲،‏ ۱۹‏۔‏

۱۵.‏ بہتیرے لوگ مال‌ودولت پر بھروسا کیوں کرتے ہیں؟‏

۱۵ یسوع کے الفاظ واضح کرتے ہیں کہ زندگی کے متعلق غلط نظریہ اپنا لینا بہت آسان ہے۔‏ امیروغریب سب انسان گنہگار ہیں اور سب کو ایک ہی جگہ جانا ہے۔‏ موسیٰ نبی نے بیان کِیا:‏ ”‏ہماری عمر کی میعاد ستر برس ہے۔‏ یا قوت ہو تو اَسی برس۔‏ تو بھی اُن کی رونق محض مشقت اور غم ہے کیونکہ وہ جلد جاتی رہتی ہے اور ہم اُڑ جاتے ہیں۔‏“‏ (‏زبور ۹۰:‏۱۰؛‏ ایوب ۱۴:‏۱،‏ ۲؛‏ ۱-‏پطرس ۱:‏۲۴‏)‏ اس وجہ سے خدا کے ساتھ قربت پیدا نہ کرنے والے لوگوں نے وہ نقطۂ‌نظر اپنا لیا ہے جس کے بارے میں پولس رسول نے بیان کِیا:‏ ”‏آؤ کھائیں پئیں کیونکہ کل تو مر ہی جائیں گے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳۲‏)‏ دیگر لوگ زندگی کو عارضی اور بےثبات سمجھتے ہوئے مال‌ودولت جمع کرنے سے تحفظ کی تلاش کرتے ہیں۔‏ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ مادی چیزوں سے اُن کی زندگی کسی حد تک محفوظ ہو جائے گی۔‏ لہٰذا،‏ وہ مال‌ودولت کا انبار لگانے میں انتھک محنت کرتے ہیں اور اس غلط‌فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ ان چیزوں سے انہیں خوشی اور تحفظ ملے گا۔‏—‏زبور ۴۹:‏۶،‏ ۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

ایک محفوظ مستقبل

۱۶.‏ زندگی کی حقیقی قدر کس بات پر موقوف نہیں ہے؟‏

۱۶ اس میں کوئی شک نہیں کہ اعلیٰ معیارِزندگی سے ہمارے پاس روٹی،‏ کپڑا،‏ مکان اور دیگر آسائشوں کی بہتات ہو سکتی ہے۔‏ اس سے زندگی سہل ہو سکتی یا اچھی طبّی سہولتیں حاصل ہو سکتی ہیں جس سے کسی شخص کی زندگی کے چند سال اَور بڑھ سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ کیا ایسی زندگی واقعی زیادہ بامقصد اور محفوظ ہو سکتی ہے؟‏ زندگی کی حقیقی قدر اُن سالوں سے ناپی نہیں جا سکتی جن کے دوران کوئی شخص زندہ رہتا ہے۔‏ نہ ہی ان مادی چیزوں سے ناپی جا سکتی ہے جو کسی شخص کے پاس ہیں یا جن سے وہ لطف اُٹھاتا ہے۔‏ پولس رسول نے ان چیزوں پر بہت زیادہ بھروسا رکھنے کے خطرے سے خبردار کِیا۔‏ اس نے تیمتھیس کے نام لکھا:‏ ”‏اس موجودہ جہان کے دولتمندوں کو حکم دے کہ مغرور نہ ہوں اور ناپایدار دولت پر نہیں بلکہ خدا پر اُمید رکھیں جو ہمیں لطف اٹھانے کے لئے سب چیزیں افراط سے دیتا ہے۔‏“‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۷‏۔‏

۱۷،‏ ۱۸.‏ (‏ا)‏ ہمیں مال‌ودولت کے سلسلے میں کونسی عمدہ مثالوں کی نقل کرنی چاہئے؟‏ (‏ب)‏ یسوع کی کس تمثیل پر اگلے مضمون میں غور کِیا جائے گا؟‏

۱۷ کسی شخص کا دولت پر اُمید رکھنا بیوقوفی ہے کیونکہ یہ ”‏ناپایدار“‏ ہے۔‏ ایوب نبی بہت امیر تھا لیکن اچانک مصیبت آ پڑنے سے اس کی دولت اس کے کسی کام نہ آ سکی۔‏ اس کا سب کچھ آناًفاناً ختم ہو گیا۔‏ خدا کے ساتھ اس کے رشتے نے اُسے اس کی سب آزمائشوں اور مصیبتوں میں سنبھالے رکھا۔‏ (‏ایوب ۱:‏۱،‏ ۳،‏ ۲۰-‏۲۲‏)‏ ابرہام کو خدا کی طرف سے ایک خاص خدمت ملی تھی۔‏ اُس نے اس خدمت کو قبول کرنے میں مال‌ودولت کو راہ کی رکاوٹ بننے نہیں دیا۔‏ اور اُسے ”‏بہت قوموں کا باپ“‏ ہونے کی برکت ملی۔‏ (‏پیدایش ۱۲:‏۱،‏ ۴؛‏ ۱۷:‏۴-‏۶‏)‏ ہمیں ان سب مثالوں کی نقل کرنی چاہئے۔‏ چاہے ہم جوان ہیں یا بوڑھے ہم سب کو اس بات کی جانچ کرنی چاہئے کہ ہماری زندگی میں کونسی بات واقعی اہم ہے اور ہماری اُمید کس پر ہے۔‏—‏افسیوں ۵:‏۱۰؛‏ فلپیوں ۱:‏۱۰‏۔‏

۱۸ یسوع نے لالچ اور زندگی کے متعلق مناسب نقطۂ‌نظر رکھنے کے موضوع پر جو چند باتیں کیں وہ سب اہم اور مفید ہیں۔‏ تاہم،‏ یسوع کے ذہن میں کچھ اَور بھی تھا اور اُس نے ایک نامعقول دولتمند شخص کے بارے میں ایک دلچسپ تمثیل بیان کی۔‏ یہ تمثیل آجکل ہماری زندگی سے کیسے تعلق رکھتی ہے اور ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ اگلا مضمون ان سوالات کا جواب دے گا۔‏

آپ کیسے جواب دیں گے؟‏

‏• یسوع کے ایک آدمی کی درخواست کو رد کر دینے سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

‏• ہمیں لالچ سے خبردار کیوں رہنا چاہئے اور ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏

‏• کسی کی زندگی مال کی کثرت پر موقوف کیوں نہیں ہے؟‏

‏• زندگی کو کونسی بات قابلِ‌قدر اور محفوظ بنا سکتی ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

یسوع نے ایک آدمی کی درخواست کیوں رد کر دی؟‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

لالچ بُری بلا ہے

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویریں]‏

ابرہام نے مال‌ودولت کے بارے میں کونسا مناسب نقطۂ‌نظر رکھا؟‏