مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ ”‏خدا کے نزدیک دولتمند“‏ ہیں؟‏

کیا آپ ”‏خدا کے نزدیک دولتمند“‏ ہیں؟‏

کیا آپ ”‏خدا کے نزدیک دولتمند“‏ ہیں؟‏

‏”‏ایسا ہی وہ شخص ہے جو اپنے لئے خزانہ جمع کرتا ہے اور خدا کے نزدیک دولتمند نہیں۔‏“‏—‏لوقا ۱۲:‏۲۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ لوگ کس چیز کیلئے قربانیاں دینے کیلئے تیار رہے ہیں؟‏ (‏ب)‏ آجکل مسیحیوں کو کس مشکل کا سامنا ہے؟‏

انسانی تاریخ میں بہت سے لوگوں نے دولت حاصل کرنے کے لئے سخت محنت کی ہے۔‏ یہانتک‌کہ بعض نے تو اپنی جان تک جوکھوں میں ڈال دی۔‏ مثال کے طور پر،‏ ۱۹ ویں صدی میں سونے کی تلاش میں لوگ دُوردراز سے آسٹریلیا،‏ جنوبی افریقہ،‏ کینیڈا اور امریکہ چلے آئے۔‏ وہ دولت حاصل کرنے کے لئے غیر اور بعض اوقات خطرناک علاقوں میں جانے کے لئے تیار تھے۔‏ جی‌ہاں،‏ بہتیرے لوگ دولت کی آرزو میں خطرہ مول لینے اور بہت سی قربانیاں دینے کے لئے تیار تھے۔‏

۲ اگرچہ آجکل بہتیرے لوگ حقیقی معنوں میں تو کسی خزانے کی تلاش نہیں کر رہے ہیں توبھی انہیں گزارا کرنے کے لئے سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔‏ اس موجودہ نظام میں ایسا کرنا مشکل،‏ مشقت‌طلب اور بوجھ ہو سکتا ہے۔‏ روٹی،‏ کپڑے اور مکان کی فکر میں پڑ جانا اتنا آسان ہے کہ اس سے زیادہ اہم باتوں سے غفلت برتی جاتی ہے۔‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۱۷‏)‏ یسوع مسیح نے اہم باتوں سے غفلت برتنے کے رُجحان کو واضح کرنے والی ایک تمثیل دی۔‏ اس کا ذکر لوقا ۱۲:‏۱۶-‏۲۱ میں پایا جاتا ہے۔‏

۳.‏ لوقا ۱۲:‏۱۶-‏۲۱ میں درج یسوع کی تمثیل کو مختصراً بیان کریں۔‏

۳ یسوع مسیح نے لالچ سے خبردار رہنے کی ضرورت کے بارے میں بات کرتے ہوئے لوقا ۱۲:‏۱۶-‏۲۱ میں تمثیل بیان کی۔‏ ہم نے لالچ کے سلسلے میں تفصیل کے ساتھ پچھلے مضمون میں بات کی ہے۔‏ لالچ کے بارے میں خبردار کرنے کے بعد،‏ یسوع مسیح نے ایک دولتمند آدمی کے بارے میں بیان کِیا جو مال سے بھری ہوئی اپنی کوٹھریوں سے مطمئن نہیں تھا۔‏ وہ انہیں ڈھا کر اَور بڑی بنانا چاہتا تھا تاکہ ان میں زیادہ چیزوں کا ذخیرہ کر سکے۔‏ جونہی وہ سوچتا ہے کہ وہ بےفکر ہو کر آرام‌دہ زندگی گزار سکتا ہے خدا اُسے کہتا ہے کہ اُس کی زندگی ختم ہونے والی ہے اور جو کچھ اُس نے جمع کِیا ہے وہ کسی اَور کا ہو جائے گا۔‏ اس کے بعد یسوع اپنی بات ختم کرتا ہے:‏ ”‏ایسا ہی وہ شخص ہے جو اپنے لئے خزانہ جمع کرتا ہے اور خدا کے نزدیک دولتمند نہیں۔‏“‏ (‏لوقا ۱۲:‏۲۱‏)‏ ہم اس تمثیل سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏ ہم اپنی زندگی میں اس سبق کا اطلاق کیسے کر سکتے ہیں؟‏

ایک آدمی کا مسئلہ

۴.‏ یسوع کی تمثیل میں جس شخص کا ذکر کِیا گیا وہ کیسا آدمی تھا؟‏

۴ یسوع مسیح کی یہ تمثیل بہت سے ممالک میں مشہور ہے۔‏ غور کریں کہ یسوع نے اس کہانی کو بڑے سادہ الفاظ سے شروع کِیا:‏ ”‏کسی دولتمند کی زمین میں بڑی فصل ہوئی۔‏“‏ یسوع یہاں یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ اُس آدمی نے اپنی دولت دھوکے یا غیرقانونی طریقے سے حاصل کی ہے۔‏ دوسرے لفظوں میں،‏ وہ اُسے کوئی بُرا آدمی نہیں کہہ رہا تھا۔‏ یسوع مسیح کے بیان مطابق تمثیل میں جس آدمی کا ذکر کِیا گیا ہے وہ محنتی آدمی تھا۔‏ اس تمثیل سے اتنا تو سمجھا جا سکتا ہے کہ اُس آدمی نے مستقبل کے لئے منصوبہ‌سازی کی اور فصل کا ذخیرہ کِیا۔‏ شاید اُسے اپنے خاندان کی فکر تھی۔‏ لہٰذا،‏ دُنیاوی نقطۂ‌نظر سے،‏ اُسے ایک محنتی آدمی خیال کِیا جا سکتا ہے جو اپنی ذمہ‌داری کو بخوبی سمجھتا تھا۔‏

۵.‏ یسوع کی تمثیل میں بیان‌کردہ آدمی کا مسئلہ کیا تھا؟‏

۵ خواہ کچھ بھی تھا یسوع نے اس تمثیل میں بیان‌کردہ آدمی کو دولتمند کہا۔‏ اس کا مطلب ہے کہ وہ ایسا شخص تھا جس کے پاس پہلے ہی بہت کچھ تھا۔‏ تاہم،‏ یسوع کے مطابق اس آدمی کا ایک مسئلہ تھا۔‏ اس آدمی کی فصل اس کی توقع اور ضرورت سے زیادہ ہوئی تھی۔‏ اُسے کیا کرنا چاہئے تھا؟‏

۶.‏ آجکل خدا کے بہتیرے خادموں کو کونسے انتخاب کرنے پڑتے ہیں؟‏

۶ آجکل یہوواہ خدا کے بہت سے خادموں کو اس دولتمند آدمی جیسی حالت کا سامنا ہے۔‏ سچے مسیحی دیانتدار،‏ محنتی اور فرض‌شناس ہونے کی بہت کوشش کرتے ہیں۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ چاہے وہ ملازمت‌پیشہ ہیں یا ان کا اپنا کاروبار ہے وہ اکثراوقات دوسروں کے مقابلہ میں اپنا کام بہت اچھی طرح کرتے ہیں۔‏ جب انہیں ترقی کرنے کے مواقع ملتے ہیں تو انہیں فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ کیا انہیں اسے قبول کرکے مزید پیسہ بنانا چاہئے؟‏ اسی طرح بہتیرے یہوواہ کے گواہ نوجوان سکول میں دوسرے بچوں سے سبقت لے جاتے ہیں۔‏ اس کے نتیجے میں،‏ انہیں بڑے بڑے اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے اسکالرشپ کی پیشکش ہو سکتی ہے۔‏ کیا انہیں اس پیشکش کو قبول کرنا چاہئے جیساکہ زیادہ‌تر لوگ کرتے ہیں؟‏

۷.‏ یسوع کی تمثیل میں بیان‌کردہ آدمی اپنے مسئلے کا حل کیسے نکالتا ہے؟‏

۷ یسوع کی تمثیل پر واپس آتے ہیں۔‏ جب دولتمند آدمی کی اتنی بڑی فصل ہوتی ہے کہ اُس کے پاس اس کے رکھنے کی جگہ نہیں رہتی تو وہ کیا کرتا ہے؟‏ وہ اضافی اناج اور مال رکھنے کے لئے اپنی کوٹھریاں ڈھا کر بڑی بنانے کا فیصلہ کرتا ہے۔‏ یہ ارادہ بظاہر اسے احساسِ‌تحفظ اور اطمینان دیتا ہے اور وہ اپنے آپ سے کہتا ہے:‏ ”‏اَے جان!‏ تیرے پاس بہت برسوں کے لئے بہت سا مال جمع ہے۔‏ چین کر۔‏ کھا پی۔‏ خوش رہ۔‏“‏—‏لوقا ۱۲:‏۱۹‏۔‏

وہ آدمی ”‏نادان“‏ کیوں تھا؟‏

۸.‏ یسوع کی تمثیل میں بیان‌کردہ آدمی نے کس اہم بات سے غفلت برتی تھی؟‏

۸ تاہم،‏ یسوع کے مطابق دولتمند کے فیصلے نے اُسے جھوٹا احساسِ‌تحفظ فراہم کِیا۔‏ اُس کا ارادہ بظاہر عملی لگتا تھا لیکن اس میں ایک اہم بات رہ گئی تھی اور وہ خدا کی مرضی تھی۔‏ وہ آدمی صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ وہ کیسے چین کر سکتا،‏ کھا پی سکتا اور خوش رہ سکتا ہے۔‏ اس نے سوچا کہ اس کے ’‏بہت سے مال‘‏ سے اس کے ’‏بہت برس‘‏ آرام سے گزر سکتے ہیں۔‏ لیکن افسوس کہ اُس کے ارادے پر پانی پھر گیا۔‏ جیساکہ یسوع نے پہلے کہا تھا کہ ”‏کسی کی زندگی اُس کے مال کی کثرت پر موقوف نہیں۔‏“‏ (‏لوقا ۱۲:‏۱۵‏)‏ اُس آدمی کا سب کچھ اُس کے کسی کام نہ آیا کیونکہ خدا نے اُس سے کہا:‏ ”‏اَےنادان!‏ اسی رات تیری جان تجھ سے طلب کر لی جائے گی۔‏ پس جو کچھ تو نے تیار کِیا ہے وہ کس کا ہوگا؟‏“‏—‏لوقا ۱۲:‏۲۰‏۔‏

۹.‏ تمثیل میں آدمی کو نادان کیوں کہا گیا ہے؟‏

۹ یہاں ہم یسوع مسیح کی تمثیل کے مرکزی نکتے پر پہنچ جاتے ہیں۔‏ خدا نے اس آدمی کو نادان کہا۔‏ ایک لغت کے مطابق ”‏نادان“‏ کے لئے جو یونانی لفظ استعمال کِیا گیا وہ ”‏ہمیشہ ناسمجھی کو ظاہر کرتا ہے۔‏“‏ اس لغت کے مطابق تمثیل میں یہ لفظ استعمال کرنے سے خدا ظاہر کرتا ہے کہ ”‏دولتمند آدمی کے مستقبل کے منصوبے فضول“‏ ہیں۔‏ اس تمثیل میں یہ لفظ ایسے شخص کی طرف اشارہ نہیں کرتا جو عقلمند نہیں ہے بلکہ یہ ”‏خدا پر بھروسا رکھنے سے انکار کرنے والے شخص“‏ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‏ دولتمند کے بارے میں یسوع کا بیان ہمیں اُس کے الفاظ کی یاد دلاتا ہے جو اُس نے پہلی صدی میں لودیکیہ کی کلیسیا کے مسیحیوں کے نام قلمبند کروائے تھے:‏ ”‏تُو کہتا ہے کہ مَیں دولتمند ہوں اور مالدار بن گیا ہوں اور کسی چیز کا محتاج نہیں اور یہ نہیں جانتا کہ تُو کمبخت اور خوار اور غریب اور اندھا اور ننگا ہے۔‏“‏—‏مکاشفہ ۳:‏۱۷‏۔‏

۱۰.‏ ”‏بہت سا مال“‏ حاصل کرنا ”‏بہت برسوں“‏ تک جینے کی ضمانت کیوں نہیں ہے؟‏

۱۰ ہمیں اس سبق پر ضرور غور کرنا چاہئے۔‏ کیا ہم تمثیل میں بیان‌کردہ آدمی کی مانند ہیں جو ”‏بہت سا مال“‏ حاصل کرنے کے لئے سخت محنت تو کرتا ہے لیکن ”‏بہت برسوں“‏ تک جینے کے لئے اہم کام کرنے سے انکار کرتا ہے؟‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶؛‏ ۱۷:‏۳‏)‏ بائبل کے مطابق ”‏قہر کے دن مال کام نہیں آتا“‏ اور ”‏جو اپنے مال پر بھروسا کرتا ہے گِر پڑے گا۔‏“‏ (‏امثال ۱۱:‏۴،‏ ۲۸‏)‏ لہٰذا،‏ یسوع مسیح نے تمثیل میں یہ آخری نصیحت کی:‏ ”‏ایسا ہی وہ شخص ہے جو اپنے لئے خزانہ جمع کرتا ہے اور خدا کے نزدیک دولتمند نہیں۔‏“‏—‏لوقا ۱۲:‏۲۱‏۔‏

۱۱.‏ مال‌ودولت پر اُمید لگانا کیوں بیکار ہے؟‏

۱۱ جب یسوع نے لوقا ۱۲:‏۲۱ میں الفاظ ”‏ایسا ہی“‏ استعمال کئے تو وہ یہ بات واضح کر رہا تھا کہ تمثیل میں بیان‌کردہ دولتمند شخص کے ساتھ جوکچھ ہوا وہی ان لوگوں کے ساتھ بھی ہوگا جن کی زندگی کا محور صرف مال‌ودولت ہے۔‏ ”‏اپنے لئے خزانہ جمع“‏ کرنے میں کوئی خرابی نہیں ہے۔‏ خرابی ”‏خدا کے نزدیک دولتمند“‏ نہ ہونے میں ہے۔‏ شاگرد یعقوب نے اس سے ملتی‌جلتی آگاہی دی:‏ ”‏تُم جو یہ کہتے ہو کہ ہم آج یا کل فلاں شہر میں جا کر وہاں ایک برس ٹھہریں گے اور سوداگری کرکے نفع اٹھائیں گے۔‏ اور یہ نہیں جانتے کہ کل کیا ہوگا۔‏ یوں کہنے کی جگہ تمہیں یہ کہنا چاہیے کہ اگر [‏یہوواہ]‏ چاہے تو ہم زندہ بھی رہیں گے اور یہ یا وہ کام بھی کریں گے۔‏“‏ (‏یعقوب ۴:‏۱۳-‏۱۵‏)‏ کوئی شخص کتنا ہی دولتمند کیوں نہ ہو اگر وہ خدا کے نزدیک دولتمند نہیں تو سب بیکار ہے۔‏ خدا کے نزدیک دولتمند ہونے کا کیا مطلب ہے؟‏

خدا کے نزدیک دولتمند

۱۲.‏ کونسی چیز ہمیں خدا کے نزدیک دولتمند بناتی ہے؟‏

۱۲ یسوع کے بیان میں،‏ اپنے لئے مال‌ودولت جمع کرنا لیکن خدا کے نزدیک دولتمند نہ ہونا غلط ہے۔‏ لہٰذا،‏ یسوع کے مطابق ہمیں زندگی میں مال‌ودولت جمع کرنے یا جوکچھ ہمارے پاس ہے اس سے تسکین حاصل کرنے کے بارے میں ہی نہیں سوچنا چاہئے۔‏ اس کے برعکس،‏ ہمیں اپنے وسائل کو یہوواہ خدا کے ساتھ اپنے رشتے کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔‏ ایسا کرنا ہمیں خدا کے نزدیک واقعی دولتمند بنائے گا۔‏ ایسا کیوں ہے؟‏ اسلئےکہ اس سے ہمیں خدا کی طرف سے بہت سی برکتیں ملیں گی۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ ہی کی برکت دولت بخشتی ہے اور وہ اُس کے ساتھ دُکھ نہیں ملاتا۔‏“‏—‏امثال ۱۰:‏۲۲‏۔‏

۱۳.‏ یہوواہ کی برکت کیسے ’‏دولتمند بناتی‘‏ ہے؟‏

۱۳ یہوواہ خدا اپنے لوگوں کو ہمیشہ بہترین چیزیں عطا کرتا ہے۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۱۷‏)‏ مثال کے طور پر،‏ یہوواہ خدا نے اسرائیلیوں کو ایک ایسے مُلک میں بسایا ’‏جس میں دودھ اور شہد بہتا‘‏ تھا۔‏ اگرچہ یہی بات مُلکِ‌مصر کے بارے میں بھی کہی گئی تھی توبھی اسرائیلیوں کو دیا جانے والا مُلک ایک اہم لحاظ سے فرق تھا۔‏ اس سلسلے میں موسیٰ نے اسرائیلیوں کو بتایا:‏ ”‏اُس مُلک پر [‏یہوواہ]‏ تیرے خدا کی توجہ رہتی ہے۔‏“‏ دوسرے لفظوں میں،‏ وہ خوشحال ہوں گے کیونکہ یہوواہ ان کی دیکھ‌بھال کرے گا۔‏ جبتک اسرائیلی یہوواہ خدا کے وفادار رہے انہیں اُس کی طرف سے کثیر برکتیں ملیں اور انہوں نے اپنے اردگرد کی قوموں سے اعلیٰ زندگی بسر کی۔‏ یقیناً،‏ یہوواہ کی برکت ’‏دولتمند بناتی‘‏ ہے۔‏—‏گنتی ۱۶:‏۱۳؛‏ استثنا ۴:‏۵-‏۸؛‏ ۱۱:‏۸-‏۱۵‏۔‏

۱۴.‏ خدا کے نزدیک دولتمند لوگوں کو کیا کچھ حاصل ہے؟‏

۱۴ مادی لحاظ سے دولتمند ہونے کی خواہش رکھنے والے لوگ عام طور پر اس بات کے لئے فکرمند ہوتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کے نزدیک ان کی کیا حیثیت ہوگی۔‏ یہ بات اکثر ان کی زندگی سے نظر آتی ہے۔‏ وہ لوگوں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔‏ بائبل میں اس عمل کو ”‏زندگی کی شیخی“‏ کہا گیا ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۶‏)‏ اس کے برعکس،‏ خدا کے نزدیک دولتمند اشخاص خدا کی خوشنودی،‏ کرمفرمائی اور فضل حاصل کرتے اور اس کے ساتھ مضبوط رشتہ رکھتے ہیں۔‏ اس سے انہیں خوشی اور تحفظ کا وہ احساس حاصل ہوتا ہے جو دُنیا کی کوئی دولت نہیں دے سکتی۔‏ (‏یسعیاہ ۴۰:‏۱۱‏)‏ لیکن سوال پھر بھی رہتا ہے کہ خدا کے نزدیک دولتمند بننے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۵.‏ ہمیں خدا کے نزدیک دولتمند بننے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۵ یسوع کی تمثیل میں،‏ اُس آدمی نے صرف دولتمند بننے کے لئے منصوبہ‌سازی اور محنت کی اور اس لئے اسے نادان کہا گیا۔‏ لہٰذا،‏ خدا کے نزدیک دولتمند بننے کے لئے ہمیں محنت کرنے اور ایسے کام کرنے کی ضرورت ہے جو خدا کے نزدیک واقعی قابلِ‌قدر ہے۔‏ ان میں سے ایک کام کا حکم یسوع مسیح نے دیتے ہوئے بیان کِیا:‏ ”‏پس تُم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ۔‏“‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹‏)‏ اپنے وقت،‏ توانائی اور صلاحیتوں کو اپنی ترقی کی بجائے خدا کی بادشاہت کی منادی اور شاگرد بنانے کے کام کے لئے استعمال کرنا ایک طرح سے سرمایہ لگانا ہے۔‏ ایسی سرمایہ‌کاری کرنے والوں نے روحانی طور پر بہت کچھ حاصل کِیا ہے۔‏ یہ بات درج‌ذیل تجربات سے ظاہر ہوتی ہے۔‏—‏امثال ۱۹:‏۱۷‏۔‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ چند ایسے تجربات بیان کریں جس سے ظاہر ہو کہ ہم کیسے یہوواہ کے نزدیک دولتمند بن سکتے ہیں۔‏

۱۶ ایک ایشیائی مُلک کے مسیحی شخص کے معاملے پر غور کریں۔‏ وہ کمپیوٹر ٹیکنیشن تھا اور اس کی تنخواہ بہت زیادہ تھی۔‏ مگر اس کا کام اس کا تمام وقت لے لیتا تھا۔‏ اس وجہ سے وہ محسوس کرنے لگا کہ خدا کے ساتھ اس کا رشتہ کمزور ہو گیا ہے۔‏ بالآخر اس نے اپنی نوکری میں مزید ترقی کرنے کی بجائے اسے چھوڑ کر آئس‌کریم بنانا اور گلیوں میں فروخت کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ اپنی روحانی ضروریات اور ذمہ‌داریوں کو پورا کر سکے۔‏ اس کے ساتھ کمپیوٹر کا کام کرنے والے سابقہ ساتھیوں نے اس کا مذاق اُڑایا۔‏ لیکن اس سب کا کیا نتیجہ نکلا؟‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏مجھے آئس‌کریم بنانے کے اس کام میں سابقہ ملازمت سے زیادہ پیسے ملے۔‏ اس سے مَیں خوش ہوں کیونکہ مجھ پر کام کے سلسلے میں کوئی دباؤ نہیں ہے جیسا سابقہ ملازمت میں تھا۔‏ سب سے بڑھکر اب مَیں یہوواہ خدا کی قربت میں آ گیا ہوں۔‏“‏ اس تبدیلی سے یہ مسیحی کُل‌وقتی خدمت کو اختیار کرنے کے قابل ہو گیا۔‏ اس وقت وہ اپنے مُلک میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر میں خدمت کر رہا ہے۔‏ واقعی،‏ یہوواہ کی برکت ”‏دولت بخشتی“‏ ہے۔‏

۱۷ ایک اَور مثال ایک خاتون کی ہے جس نے ایسے خاندان میں پرورش پائی جہاں اعلیٰ تعلیم پر بہت زور دیا جاتا تھا۔‏ اُس نے فرانس،‏ میکسیکو اور سوئٹزرلینڈ کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی اور اس کے پاس اچھے پیشے کا انتخاب کرنے کے امکانات تھے۔‏ وہ کہتی ہے:‏ ”‏کامیابی نے میرے قدم چومے؛‏ میری بہت عزت تھی اور میرے پاس دولت کمانے کے بہت سے مواقع تھے۔‏ لیکن میرے اندر بہت بےسکونی اور کھوکھلاپن تھا۔‏“‏ پھر اُس نے یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھا۔‏ اس نے کہا:‏ ”‏جب مَیں نے روحانی ترقی کرنا شروع کی تو مَیں یہوواہ خدا کو خوش کرنا اور جوکچھ اُس نے مجھے دیا ہے اُس میں سے کچھ اُسے دینا چاہتی تھی۔‏ اس سے میری مدد ہوئی کہ مَیں یہوواہ خدا کی کُل‌وقتی خدمت کو اختیار کر سکوں۔‏“‏ اس نے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے کر جلد ہی بپتسمہ لے لیا۔‏ پچھلے بیس سالوں سے وہ خوشی سے کُل‌وقتی خدمت کر رہی ہے۔‏ وہ بیان کرتی ہے:‏ ”‏بعض کے خیال میں مَیں نے اپنی صلاحیتوں کو ضائع کر دیا ہے۔‏ لیکن وہ اس بات کو دیکھ سکتے ہیں کہ مَیں خوش ہوں اور جن اصولوں کے تحت مَیں اپنی زندگی بسر کرتی ہوں وہ ان کی تعریف کرتے ہیں۔‏ مَیں ہر روز یہوواہ خدا سے دُعا کرتی ہوں کہ وہ فروتن بننے میں میری مدد کرے تاکہ مجھے اس کی خوشنودی حاصل ہو۔‏“‏

۱۸.‏ ہم پولس کی طرح خدا کے نزدیک کیسے دولتمند بن سکتے ہیں؟‏

۱۸ ساؤل جو پولس رسول بن گیا اس کے سامنے اچھا پیشہ اختیار کرنے کے روشن امکان تھے۔‏ تاہم اُس نے بعدازاں لکھا:‏ ”‏مَیں اپنے خداوند مسیح یسوؔع کی پہچان کی بڑی خوبی کے سبب سے سب چیزوں کو نقصان سمجھتا ہوں۔‏“‏ (‏فلپیوں ۳:‏۷،‏ ۸‏)‏ پولس کی نظر میں مسیح کی پہچان کے سبب سے حاصل ہونے والی دولت دُنیا کی دولت سے کہیں بڑھکر تھی۔‏ اسی طرح،‏ ہم بھی خودغرضانہ آرزوؤں کو ترک کرکے خدا کی راہوں پر چلنے سے خدا کے نزدیک دولتمند بن سکتے ہیں۔‏ خدا کا کلام یقین دلاتا ہے:‏ ”‏دولت اور عزت‌وحیات [‏یہوواہ]‏ کے خوف اور فروتنی کا اجر ہیں۔‏“‏—‏امثال ۲۲:‏۴‏۔‏

وضاحت کریں

‏• یسوع کی تمثیل میں بیان کئے جانے والے آدمی کا مسئلہ کیا تھا؟‏

‏• تمثیل میں بیان کئے جانے والے آدمی کو نادان کیوں کہا گیا؟‏

‏• خدا کے نزدیک دولتمند ہونے کا کیا مطلب ہے؟‏

‏• ہم خدا کے نزدیک کیسے دولتمند ہو سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۳۲ پر تصویر]‏

دولتمند آدمی نادان کیوں تھا؟‏

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر]‏

دُنیا میں ترقی کرنے کے مواقع کیسے ایک حقیقی آزمائش بن سکتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۳۰،‏ ۳۱ پر تصویر]‏

‏”‏[‏یہوواہ]‏ ہی کی برکت دولت بخشتی ہے“‏