مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ نے رُوح‌اُلقدس کے خلاف گُناہ کِیا ہے؟‏

کیا آپ نے رُوح‌اُلقدس کے خلاف گُناہ کِیا ہے؟‏

کیا آپ نے رُوح‌اُلقدس کے خلاف گُناہ کِیا ہے؟‏

‏”‏گُناہ ایسا بھی ہے جس کا نتیجہ موت ہے۔‏“‏—‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۶‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ خدا کی پاک رُوح کے خلاف گُناہ ہو سکتا ہے؟‏

جرمنی سے خدا کی ایک خادمہ نے لکھا:‏ ”‏مَیں اس خوف میں مبتلا تھی کہ مَیں نے رُوح‌اُلقدس کے خلاف گُناہ کِیا ہے۔‏“‏ کیا واقعی ایک مسیحی خدا کی پاک رُوح کے خلاف گُناہ کر سکتا ہے؟‏

۲ جی‌ہاں،‏ یہوواہ خدا کی پاک رُوح کے خلاف گُناہ ہو سکتا ہے۔‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏آدمیوں کا ہر گُناہ اور کفر تو معاف کِیا جائے گا مگر جو کفر رُوح کے حق میں ہو وہ معاف نہ کِیا جائے گا۔‏“‏ (‏متی ۱۲:‏۳۱‏)‏ ہمیں آگاہی دی گئی ہے:‏ ”‏حق کی پہچان حاصل کرنے کے بعد اگر ہم جان‌بُوجھ کر گُناہ کریں تو گُناہوں کی کوئی اور قربانی باقی نہیں رہی۔‏ ہاں عدالت کا ایک ہولناک انتظار اور غضبناک آتش باقی ہے جو مخالفوں کو کھا لے گی۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۶،‏ ۲۷‏)‏ اس کے علاوہ،‏ یوحنا رسول نے لکھا:‏ ”‏گُناہ ایسا بھی ہے جس کا نتیجہ موت ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۶‏)‏ لیکن کیا گُناہ کرنے والا شخص خود اس بات کا فیصلہ کر سکتا ہے کہ آیا اُس نے ایسا گُناہ کِیا ہے ”‏جس کا نتیجہ موت ہے؟‏“‏

توبہ کرنے سے معافی ملتی ہے

۳.‏ اگر ہم گُناہ سرزد ہو جانے کی وجہ سے بہت زیادہ غمزدہ ہیں تو اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟‏

۳ یہوواہ خدا خطاکاروں کو جانچنے والا ہے۔‏ اِسلئے ہم سب اُسکے حضور جوابدہ ہیں۔‏ وہ ہمیشہ وہی کام کرتا ہے جو دُرست ہے۔‏ (‏پیدایش ۱۸:‏۲۵؛‏ رومیوں ۱۴:‏۱۲‏)‏ یہوواہ خدا ہی اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ آیا ہم نے کوئی ناقابلِ‌معافی گُناہ کِیا ہے یا نہیں۔‏ یہوواہ خدا ہی اپنی پاک رُوح کو ہم سے ہٹا سکتا ہے۔‏ (‏زبور ۵۱:‏۱۱‏)‏ تاہم،‏ اگر ہم گُناہ سرزد ہو جانے کی وجہ سے بہت زیادہ غمزدہ ہیں تو اسکا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ ہم دل سے تائب ہیں۔‏ لیکن دلی یا حقیقی توبہ کیا ہے؟‏

۴.‏ (‏ا)‏ توبہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟‏ (‏ب)‏ زبور ۱۰۳:‏۱۰-‏۱۴ کے الفاظ تسلی‌بخش کیوں ہیں؟‏

۴ توبہ کرنے کا مطلب ہے کہ ہم سے جو غلطی ہو گئی ہے ہم اس کی بابت اپنا نظریہ بدل لیتے ہیں یعنی ہم اپنی گنہگارانہ روش پر پشیمان ہوتے ہوئے اُسے چھوڑ دیتے ہیں۔‏ اگر ہم نے کوئی سنگین گُناہ کِیا ہے لیکن پھر ایسے ضروری اقدام اُٹھائے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم واقعی تائب ہیں تو ہم زبورنویس کے اِن الفاظ سے تسلی حاصل کر سکتے ہیں:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ نے ہمارے گُناہوں کے موافق ہم سے سلوک نہیں کِیا اور ہماری بدکاریوں کے مطابق ہم کو بدلہ نہیں دیا۔‏ کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اُسی قدر اُس کی شفقت اُن پر ہے جو اُس سے ڈرتے ہیں۔‏ جیسے پورب پچھّم سے دُور ہے ویسے ہی اُس نے ہماری خطائیں ہم سے دُور کر دیں جیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے ویسے ہی [‏یہوواہ]‏ اُن پر جو اُس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے۔‏ کیونکہ وہ ہماری سرِشت سے واقف ہے۔‏ اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔‏“‏—‏زبور ۱۰۳:‏۱۰-‏۱۴‏۔‏

۵،‏ ۶.‏ پہلا یوحنا ۳:‏۱۹-‏۲۲ کا خلاصہ بیان کریں،‏ اور یوحنا رسول کے الفاظ کی وضاحت کریں۔‏

۵ یوحنا رسول کے یہ الفاظ بھی تسلی‌بخش ہیں:‏ ”‏اِس سے ہم جانیں گے کہ حق کے ہیں اور جس بات میں ہمارا دل ہمیں الزام دے گا اُس کے بارے میں ہم اُس کے حضور اپنی دلجمعی کریں گے۔‏ کیونکہ خدا ہمارے دل سے بڑا اور سب کچھ جانتا ہے۔‏ اَے عزیزو!‏ جب ہمارا دل ہمیں اِلزام نہیں دیتا تو ہمیں خدا کے سامنے دلیری ہو جاتی ہے۔‏ اور جوکچھ ہم مانگتے ہیں وہ ہمیں اُس کی طرف سے ملتا ہے کیونکہ ہم اُس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں اور جوکچھ وہ پسند کرتا ہے اُسے بجا لاتے ہیں۔‏“‏—‏۱-‏یوحنا ۳:‏۱۹-‏۲۲‏۔‏

۶ ہمارا برادرانہ محبت ظاہر کرنا اور عادتاً گُناہ نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ’‏ہم حق پر ہیں۔‏‘‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۱‏)‏ اگر ہم کسی وجہ سے خود کو قصوروار سمجھتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ”‏خدا ہمارے دل سے بڑا اور سب کچھ جانتا ہے۔‏“‏ یہوواہ خدا ہم پر اس لئے رحم کرتا ہے کیونکہ وہ ’‏بھائیوں کے لئے ہماری بےریا محبت‘‏ سے واقف ہے۔‏ اس کے علاوہ،‏ وہ گُناہ کے خلاف ہماری لڑائی اور اُس کی مرضی پوری کرنے کی کوششوں کو جانتا ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۱:‏۲۲‏)‏ اگر ہم یہوواہ خدا پر توکل رکھتے،‏ برادرانہ محبت ظاہر کرتے اور جان‌بوجھ کر گُناہ نہیں کرتے تو ہمارا دل ”‏ہمیں اِلزام نہیں“‏ دے گا۔‏ ہم خدا کے حکموں پر عمل کرتے ہیں اس لئے ہم ”‏دلیری“‏ کے ساتھ خدا سے دُعا کر سکتے اور یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمیں جواب دے گا۔‏

رُوح‌اُلقدس کے خلاف گُناہ کرنے والوں کی مثالیں

۷.‏ اس بات کا فیصلہ کس بِنا پر کِیا جاتا ہے کہ آیا گُناہ قابلِ‌معافی ہے یا نہیں؟‏

۷ کونسے گُناہ معاف نہیں کئے جاتے؟‏ آئیں اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے بائبل کی چند مثالوں پر غور کریں۔‏ اگر ہم اپنی سنگین غلطیوں پر تائب ہونے کے باوجود ابھی تک بہت زیادہ پریشان ہیں تو یہ مثالیں ہمارے لئے تسلی کا باعث ہوں گی۔‏ ہم دیکھیں گے کہ کسی شخص کے گُناہ کے قابلِ‌معافی ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ محض اس بات سے نہیں کِیا جا سکتا کہ اُس نے کس قسم کا گُناہ کِیا ہے۔‏ اس کے برعکس،‏ اس بات کا فیصلہ اس بِنا پر کِیا جاتا ہے کہ گُناہ کرنے والے شخص کی نیت اور دلی حالت کیسی تھی اور ایسا کرنے میں کس حد تک اُس کا ارادہ شامل تھا۔‏

۸.‏ پہلی صدی کے بعض یہودی مذہبی پیشواؤں نے رُوح‌اُلقدس کے خلاف کیسے گُناہ کِیا؟‏

۸ پہلی صدی میں یہودی مذہبی پیشوا بدنیتی سے یسوع مسیح کی مخالفت کرنے سے رُوح‌اُلقدس کے خلاف گُناہ کر رہے تھے۔‏ جب یسوع مسیح نے یہوواہ خدا کو جلال دینے والے معجزے کئے تو لوگوں نے اُسے خدا کی رُوح کی مدد سے کام کرتے ہوئے دیکھا۔‏ اس کے باوجود یسوع مسیح کے ان دُشمنوں نے اس قوت کو شیطان اِبلیس کے ساتھ منسوب کِیا۔‏ یسوع مسیح کے مطابق،‏ خدا کی رُوح کے خلاف کفر بکنے سے وہ ایسا گُناہ کر رہے تھے جسے ”‏نہ اِس عالم میں نہ آنے والے میں“‏ معاف کِیا جائے گا۔‏—‏متی ۱۲:‏۲۲-‏۳۲‏۔‏

۹.‏ کفر بکنا کیا ہے،‏ اور یسوع مسیح نے اس کے بارے میں کیا کہا؟‏

۹ کفر بکنا دراصل بےادبی کرنا،‏ بےحرمتی کرنا یا کسی کی شہرت کو نقصان پہنچانا ہے۔‏ رُوح‌اُلقدس خدا کی قوت ہے اِس لئے اس کی رُوح کے خلاف بولنا یہوواہ خدا کے خلاف بولنے کے برابر ہے۔‏ تائب ہوئے بغیر ایسی باتیں کہتے رہنا ناقابلِ‌معافی ہے۔‏ یسوع مسیح نے اس قسم کے گُناہ کے بارے میں جو کچھ کہا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اُن لوگوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو جان‌بوجھ کر خدا کی پاک رُوح کی مخالفت کرتے ہیں۔‏ اِسلئےکہ فریسیوں نے یہ دیکھنے کے باوجود کہ یہوواہ خدا کی رُوح یسوع مسیح کی مدد کر رہی ہے اس قوت کو شیطان کے ساتھ منسوب کِیا۔‏ ایسا کرنے سے اُنہوں نے رُوح کے خلاف کفر بکنے کا گُناہ کِیا تھا۔‏ لہٰذا،‏ یسوع مسیح نے بیان کِیا:‏ ”‏جو کوئی رُوح‌اُلقدس کے حق میں کفر بکے وہ ابد تک معافی نہ پائے گا بلکہ ابدی گُناہ کا قصوروار ہے۔‏“‏—‏مرقس ۳:‏۲۰-‏۲۹‏۔‏

۱۰.‏ یسوع مسیح نے یہوداہ کو ’‏ہلاکت کا فرزند‘‏ کیوں کہا؟‏

۱۰ یہوداہ اسکریوتی کی مثال پر بھی غور کریں۔‏ وہ ایک بددیانت شخص تھا کیونکہ وہ پیسوں کی تھیلی میں سے جو اُس کے پاس رہتی تھی پیسے چوری کِیا کرتا تھا۔‏ (‏یوحنا ۱۲:‏۵،‏ ۶‏)‏ بعدازاں،‏ یہوداہ مذہبی پیشواؤں کے پاس گیا اور یسوع مسیح کو چاندی کے ۳۰ سکوں کے عوض اُن کے حوالے کرنے کا بندوبست بنایا۔‏ اگرچہ یسوع مسیح کو اُن کے حوالے کرنے کے بعد یہوداہ بہت پچھتایا توبھی اُس نے اپنے اس گُناہ کے لئے توبہ نہ کی جو اُس نے جان‌بوجھ کر کِیا تھا۔‏ یسوع مسیح نے اُسے ’‏ہلاکت کا فرزند‘‏ کہا۔‏ پس یہوداہ مُردوں میں سے زندہ ہونے کے لائق نہیں ہے۔‏—‏یوحنا ۱۷:‏۱۲؛‏ متی ۲۶:‏۱۴-‏۱۶‏۔‏

رُوح‌اُلقدس کے خلاف گُناہ نہ کرنے والوں کی مثالیں

۱۱-‏۱۳.‏ داؤد نے بت‌سبع کے سلسلے میں کیسے گُناہ کِیا،‏ اور ہم ان کے ساتھ خدا کے برتاؤ سے کونسی تسلی حاصل کر سکتے ہیں؟‏

۱۱ ہو سکتا ہے کہ ماضی میں خدا کے احکام کی خلاف‌ورزی کرنے والے مسیحی اپنے سنگین گُناہ کا اقرار کرنے اور کلیسیا کے بزرگوں کی مدد سے یہوواہ خدا کے ساتھ اپنے رشتے کو بحال کرنے کے باوجود کبھی‌کبھار پریشان ہوتے ہوں۔‏ (‏یعقوب ۵:‏۱۴‏)‏ اگر ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا ہے تو ہم صحائف میں درج اُن لوگوں کی مثالوں پر غور کرنے سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جن کے گُناہ معاف کئے گئے تھے۔‏

۱۲ بادشاہ داؤد نے اُوریاہ کی بیوی بت‌سبع کے سلسلے میں گُناہ کِیا۔‏ اپنی چھت پر سے اُس خوبصورت عورت کو نہاتے دیکھ کر داؤد اسے اپنے محل میں لے آیا اور اُس سے صحبت کی۔‏ بعدازاں جب داؤد کے پاس یہ خبر پہنچی کہ بت‌سبع حاملہ ہے تو اُس نے اپنی زناکاری کو چھپانے کے لئے اُس کے شوہر اُوریاہ کو بت‌سبع کے پاس جانے کے لئے کہا۔‏ جب داؤد کا یہ منصوبہ ناکام ہو گیا تو اُس نے اُوریاہ کو جنگ میں مروا دیا۔‏ اس کے بعد داؤد نے بت‌سبع سے شادی کر لی اور اُن کا ایک بچہ پیدا ہوا جو بعدازاں مر گیا۔‏—‏۲-‏سموئیل ۱۱:‏۱-‏۲۷‏۔‏

۱۳ یہوواہ خدا نے داؤد اور بت‌سبع کے معاملے کو نپٹایا۔‏ اُس نے داؤد کی توبہ اور اس کے ساتھ باندھے گئے بادشاہتی عہد کو مدِنظر رکھتے ہوئے اُسے معاف کر دیا۔‏ (‏۲-‏سموئیل ۷:‏۱۱-‏۱۶؛‏ ۱۲:‏۷-‏۱۴‏)‏ بت‌سبع نے بھی تائب رُجحان ظاہر کِیا اس لئے اُسے بادشاہ سلیمان کی ماں بننے اور یسوع کے اسلاف میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔‏ (‏متی ۱:‏۱،‏ ۶،‏ ۱۶‏)‏ اگر ہم نے گُناہ کِیا ہے تو ہم یاد رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمارے تائب رُجحان پر غور کرتا ہے۔‏

۱۴.‏ بادشاہ منسی کی مثال سے یہ کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا کس حد تک معاف کر سکتا ہے؟‏

۱۴ یہوواہ خدا کس حد تک معاف کر سکتا ہے اس کا اندازہ یہوداہ کے بادشاہ منسی کی مثال سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔‏ اُس نے یہوواہ خدا کی نظر میں بہت بدکاری کی۔‏ منسی نے بعل کے لئے مذبحے بنائے اور ”‏سارے آسمانی لشکر کو سجدہ“‏ کِیا۔‏ یہانتک‌کہ اُس نے ہیکل کے دونوں صحنوں میں جھوٹے معبودوں کے لئے مذبحے بنائے۔‏ اُس نے اپنے بیٹوں کو آگ میں چلوایا،‏ جادوگری کو فروغ دیا اور یہوداہ اور یروشلیم کے لوگوں کو ”‏یہاں تک گمراہ کِیا کہ اُنہوں نے اُن قوموں سے بھی زیادہ بدی کی جن کو [‏یہوواہ]‏ نے بنی‌اسرائیل کے سامنے سے ہلاک کِیا تھا۔‏“‏ اُس نے خدا کے نبیوں کی طرف سے دی جانے والی آگاہیوں پر بالکل دھیان نہ دیا۔‏ آخرکار،‏ شاہِ‌اسور بادشاہ منسی کو اسیر کرکے لے گیا۔‏ اسیری میں منسی نے توبہ کی اور فروتنی کے ساتھ یہوواہ خدا سے دُعا کی۔‏ خدا نے منسی کو معاف کر دیا اور اُسے دوبارہ یروشلیم کا بادشاہ بنایا جہاں اُس نے سچی پرستش کو فروغ دیا۔‏—‏۲-‏تواریخ ۳۳:‏۲-‏۱۷‏۔‏

۱۵.‏ پطرس رسول کی زندگی کا کونسا واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ یہوواہ خدا ”‏کثرت سے معاف“‏ کرتا ہے؟‏

۱۵ بادشاہ منسی کے کئی صدیاں بعد،‏ پطرس رسول نے یسوع مسیح کا انکار کرتے ہوئے سنگین گُناہ کِیا۔‏ (‏مرقس ۱۴:‏۳۰،‏ ۶۶-‏۷۲‏)‏ تاہم،‏ یہوواہ خدا نے پطرس کو ”‏کثرت سے معاف“‏ کِیا۔‏ (‏یسعیاہ ۵۵:‏۷‏)‏ مگر کیوں؟‏ اِسلئےکہ پطرس رسول نے دل سے توبہ کی تھی۔‏ (‏لوقا ۲۲:‏۶۲‏)‏ یسوع مسیح کا انکار کرنے کے ۵۰ دن بعد،‏ عیدِپنتِکُست پر اس بات کا واضح ثبوت مل گیا کہ یہوواہ خدا نے پطرس رسول کو معاف کر دیا ہے۔‏ اس موقع پر پطرس رسول کو دلیری کے ساتھ یسوع مسیح کی بابت گواہی دینے کا شرف حاصل ہوا۔‏ (‏اعمال ۲:‏۱۴-‏۳۶‏)‏ آجکل بھی خدا دل سے توبہ کرنے والے مسیحیوں کو معاف کرتا ہے۔‏ زبورنویس نے گیت گایا:‏ ”‏اَے [‏یاہ]‏!‏ اگر تُو بدکاری کو حساب میں لائے تو اَے [‏یہوواہ]‏!‏ کون قائم رہ سکے گا؟‏ پر مغفرت تیرے ہاتھ میں ہے تاکہ لوگ تجھ سے ڈریں۔‏“‏—‏زبور ۱۳۰:‏۳،‏ ۴‏۔‏

رُوح‌اُلقدس کے خلاف گُناہ کرنے کی پریشانی پر قابو پانا

۱۶.‏ کن حالات کے تحت خدا معاف کر دیتا ہے؟‏

۱۶ اُوپر دی گئی مثالوں پر غور کرنے سے ہمیں رُوح‌اُلقدس کے خلاف گُناہ کرنے کی پریشانی پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔‏ یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ یہوواہ خدا توبہ کرنے والے گنہگاروں کو معاف کرتا ہے۔‏ بنیادی چیز خلوصدلی کے ساتھ خدا سے دُعا کرنا ہے۔‏ اگر ہم نے گُناہ کِیا ہے تو ہم یسوع مسیح کے فدیے،‏ یہوواہ خدا کے رحم،‏ ہمارے موروثی گُناہ اور ہماری خدمت کی بِنا پر معافی کی التجا کر سکتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا کے فضل کو جاننے سے ہم یہ اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمیں ضرور معاف کرے گا۔‏—‏افسیوں ۱:‏۷‏۔‏

۱۷.‏ اگر ہم نے گُناہ کِیا ہے اور ہمیں مدد کی ضرورت ہے تو ایسی صورتحال میں کیا کِیا جانا چاہئے؟‏

۱۷ اگر ہم نے گُناہ کِیا ہے اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم روحانی طور پر اس حد تک کمزور ہو چکے ہیں کہ ہم خدا سے دُعا نہیں کر سکتے تو ایسی صورتحال میں کیا کِیا جانا چاہئے؟‏ اس سلسلے میں یعقوب شاگرد نے لکھا:‏ ”‏اگر تُم میں کوئی بیمار ہو تو کلیسیا کے بزرگوں کو بلائے اور وہ [‏یہوواہ]‏ کے نام سے اُس کو تیل مل کر اُس کے لئے دُعا کریں۔‏ جو دُعا ایمان کے ساتھ ہوگی اُس کے باعث بیمار بچ جائے گا اور [‏یہوواہ]‏ اُسے اُٹھا کھڑا کرے گا اور اگر اُس نے گُناہ کئے ہوں تو ان کی بھی معافی ہو جائے گی۔‏“‏—‏یعقوب ۵:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏

۱۸.‏ اگر ایک شخص کو کلیسیا سے نکال دیا جاتا ہے توبھی یہ کیوں نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا گُناہ ناقابلِ‌معافی ہے؟‏

۱۸ اگر غلطی کرنے والا شخص اِس وقت توبہ نہیں کرتا اور اُسے مسیحی کلیسیا سے نکال دیا جاتا ہے توبھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُس کا گُناہ ناقابلِ‌معافی ہے۔‏ کرنتھس کی کلیسیا میں غلطی کرنے والے ایک خارج‌شُدہ ممسوح شخص کا ذکر کرتے ہوئے پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏یہی سزا جو اُس نے اکثروں کی طرف سے پائی ایسے شخص کے واسطے کافی ہے۔‏ پس برعکس اس کے یہی بہتر ہے کہ اس کا قصور معاف کرو اور تسلی دو تاکہ وہ غم کی کثرت سے تباہ نہ ہو۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۲:‏۶-‏۸؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۵:‏۱-‏۵‏)‏ یہوواہ خدا کے ساتھ اپنے رشتے کو بحال کرنے کے لئے غلطی کرنے والے اشخاص کو مسیحی بزرگوں کی طرف سے بائبل پر مبنی مدد کو قبول کرنے اور دلی توبہ ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔‏ اس کے علاوہ،‏ انہیں ”‏توبہ کے موافق پھل“‏ لانے چاہئیں۔‏—‏لوقا ۳:‏۸‏۔‏

۱۹.‏ کونسی چیز ’‏ایمان میں صحیح‘‏ رہنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏

۱۹ ہمارے اس سوچ میں مبتلا ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ہم نے رُوح‌اُلقدس کے خلاف گُناہ کِیا ہے؟‏ اس کی وجہ ہمارے ضمیر کا ہمیں حد سے زیادہ ملامت کرنا یا ہماری کمزور جسمانی اور ذہنی صحت ہو سکتی ہے۔‏ ایسی صورتحال میں دُعا اور اضافی آرام مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔‏ ہمیں شیطان کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ ہمیں بےحوصلہ کرے۔‏ کیونکہ ایسا کرنا خدا کی خدمت چھوڑنے کا باعث بن سکتا ہے۔‏ جب یہوواہ خدا کو کسی شریر کے مرنے سے خوشی نہیں ہوتی تو یقیناً اُسے اپنے کسی خادم کو کھو دینے سے بھی خوشی نہیں ہوتی۔‏ پس اگر ہم اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ ہم نے رُوح کے خلاف گُناہ کِیا ہے تو ہمیں زبور کی کتاب سمیت خدا کے کلام کے دیگر تسلی‌بخش حصوں پر غور کرتے رہنا چاہئے۔‏ ہمیں باقاعدگی کے ساتھ کلیسیائی اجلاسوں پر حاضر ہونے اور بادشاہتی منادی کے کام میں شرکت کرنے کی ضرورت ہے۔‏ ایسا کرنا ’‏ایمان میں صحیح ہونے‘‏ میں ہماری مدد کرے گا اور ہمیں اس پریشانی سے آزاد کرے گا کہ ہم نے شاید کوئی ناقابلِ‌معافی گُناہ کِیا ہے۔‏—‏ططس ۲:‏۲‏۔‏

۲۰.‏ کن باتوں پر غور کرنے سے ایک شخص کو یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ اُس نے رُوح‌اُلقدس کے خلاف گُناہ نہیں کِیا؟‏

۲۰ جو لوگ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اُنہوں نے رُوح‌اُلقدس کے خلاف گُناہ کِیا ہے وہ خود سے پوچھ سکتے ہیں:‏ کیا مَیں نے رُوح‌اُلقدس کے خلاف کفر بکا ہے؟‏ کیا مَیں واقعی اپنے گُناہ پر تائب ہوں؟‏ کیا مَیں خدا کی معافی پر ایمان رکھتا ہوں؟‏ کیا مَیں ایک برگشتہ شخص ہوں جس نے روحانی روشنی کو ترک کر دیا ہے؟‏ شاید ایسے اشخاص یہ سمجھ لیں کہ اُنہوں نے نہ تو خدا کی پاک رُوح کے خلاف کفر بکا ہے اور نہ ہی وہ برگشتہ ہوئے ہیں۔‏ اُنہوں نے توبہ کر لی ہے اور وہ یہوواہ خدا کی معافی پر ایمان رکھتے ہیں۔‏ اگر ایسا ہے تو اُنہوں نے یہوواہ خدا کی پاک رُوح کے خلاف گُناہ نہیں کِیا ہے۔‏

۲۱.‏ اگلے مضمون میں کن سوالات پر غور کِیا جائے گا؟‏

۲۱ اس بات کا یقین کر لینا کسقدر تسلی‌بخش ہے کہ ہم نے رُوح‌اُلقدس کے خلاف گُناہ نہیں کِیا!‏ اگلے مضمون میں رُوح‌اُلقدس سے متعلق مزید سوالات پر غور کِیا جائے گا۔‏ مثال کے طور پر،‏ ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ’‏کیا مَیں واقعی خدا کی پاک رُوح کی راہنمائی میں چل رہا ہوں؟‏ کیا اس کے پھل میری زندگی سے ظاہر ہوتے ہیں؟‏‘‏

آپ کا جواب کیا ہوگا؟‏

‏• ہم کیوں یہ کہہ سکتے ہیں کہ رُوح‌اُلقدس کے خلاف گُناہ کرنا ممکن ہے؟‏

‏• توبہ کرنے یا تائب ہونے کا کیا مطلب ہے؟‏

‏• جب یسوع مسیح زمین پر تھا تو کس نے رُوح کے خلاف گُناہ کِیا تھا؟‏

‏• ناقابلِ‌معافی گُناہ کرنے کی پریشانی پر کس طرح قابو پایا جا سکتا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

یسوع مسیح کی معجزے کرنے کی قوت کو شیطان کے ساتھ منسوب کرنے والے لوگوں نے خدا کی پاک رُوح کے خلاف گُناہ کِیا تھا

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

اگرچہ پطرس نے یسوع مسیح کا انکار کِیا توبھی اُس نے ناقابلِ‌معافی گُناہ نہیں کِیا تھا