مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

داد دینے کے موقعوں کو ہاتھ سے نکلنے نہ دیں

داد دینے کے موقعوں کو ہاتھ سے نکلنے نہ دیں

داد دینے کے موقعوں کو ہاتھ سے نکلنے نہ دیں

کیا کبھی کسی نے آپ سے یہ شکایت کی ہے کہ اُس کا مالک کم ہی موقعوں پر اُسے داد دیتا ہے؟‏ کیا آپ نے خود اس بات کی شکایت کی ہے؟‏ یا کیا آپ ایک نوجوان ہیں جسے اپنے والدین یا اُستادوں سے یہ شکایت رہتی ہے؟‏

شاید ان میں سے کئی لوگوں کو واقعی کم داد دی جاتی ہے۔‏ لیکن جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیق‌دان کا کہنا ہے کہ جب ملازم شکایت کرتے ہیں کہ اُنہیں داد نہیں دی جاتی تو اُنہیں اس سے بھی زیادہ اس بات کی خفگی ہوتی ہے کہ اُن کا مالک اُن میں ذاتی طور پر دلچسپی نہیں لیتا۔‏ اس سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان ملازمین کو کسی کمی کا احساس ضرور ہوتا ہے۔‏ یہ سچ ہے کہ ہم دوسروں کو داد دینے سے اور اُن میں ذاتی دلچسپی لینے سے اُن کے ساتھ اچھے تعلقات بڑھا سکتے ہیں۔‏

یہ بات اُن پر بھی لاگو ہوتی ہے جو سچے خدا کی عبادت کرتے ہیں۔‏ مسیحیوں کو ایک دوسرے کو داد دینی اور دوسروں میں ذاتی دلچسپی لینی چاہئے۔‏ کلیسیا کے اراکین خدا کے کلام میں پائے جانے والے اصولوں کے مطابق چلنے سے ایسا کر سکتے ہیں۔‏ لیکن ایک کلیسیا کا ماحول چاہے کتنا ہی پُرمحبت کیوں نہ ہو اسکے اراکین اس میں بہتری لا سکتے ہیں۔‏ اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے آئیں اس سلسلے میں الیہو،‏ پولس رسول اور یسوع مسیح کی مثال پر غور کرتے ہیں۔‏

احترام سے اصلاح کریں

الیہو غالباً ابرہام کا دُور کا رشتہ‌دار تھا۔‏ الیہو نے ایوب کی مدد کی جس کے نتیجہ میں ایوب خدا کے قریب رہ سکا۔‏ الیہو نے بڑے احترام سے ایوب سے بات کی۔‏ اُس نے بات کرنے کی اپنی باری کا انتظار کِیا۔‏ وہ تین اشخاص جو ایوب کے دوست ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اُنہوں نے ایوب کی بڑی نکتہ‌چینی کی۔‏ لیکن الیہو نے ایوب کی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ اُسے داد بھی دی کیونکہ ایوب نے راست راہ اختیار کی۔‏ دوسرے تین اشخاص کے برعکس الیہو نے ایک دوست کی طرح ایوب میں ذاتی دلچسپی لی اور اُس کو اُس کے نام سے مخاطب کِیا۔‏ اُس نے ایوب سے التجا کی:‏ ”‏اَے اؔیوب ذرا میری تقریر سُن لے اور میری سب باتوں پر کان لگا۔‏“‏ ایوب کے احساسات کو سمجھتے ہوئے اُس نے کہا:‏ ”‏دیکھ!‏ خدا کے حضور مَیں تیرے برابر ہوں۔‏ مَیں بھی مٹی سے بنا ہوں۔‏“‏ الیہو،‏ ایوب کی سفارش کرنا چاہتا تھا اس لئے اُس نے آگے کہا:‏ ”‏اگر تجھے کچھ کہنا ہے تو مجھے جواب دے۔‏ بول کیونکہ مَیں تجھے راست ٹھہرانا چاہتا ہوں۔‏“‏—‏ایوب ۳۳:‏۱،‏ ۶،‏ ۳۲‏۔‏

جب ہم دوسروں کے ساتھ احترام سے پیش آتے ہیں تو ہم ایک طرح سے اُنہیں داد دے رہے ہوتے ہیں۔‏ اپنے لہجے سے ہم اپنے سننے والے سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ’‏مَیں آپ کی قدر کرتا ہوں۔‏ اس لئے مَیں آپ میں ذاتی دلچسپی لیتا اور آپ سے احترام سے پیش آتا ہوں۔‏‘‏

مہذب ہونے اور کسی کے ساتھ احترام سے پیش آنے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ہم ادب کے قاعدوں کے مطابق چلیں۔‏ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دل سے اُن کا احترام کریں اور یوں اُن کے دلوں تک رسائی حاصل کریں۔‏ ہمیں خلوص سے دوسروں میں ذاتی دلچسپی لینی چاہئے۔‏

دوسروں کا لحاظ کریں

پولس رسول کی مثال سے ہم سیکھتے ہیں کہ دوسروں کا لحاظ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اُن کو داد دیں۔‏ جب وہ شہر اتھینے میں تبلیغ کر رہا تھا تو اُس نے یونانی عالموں کے سامنے اپنے ایمان کی دلیلیں پیش کیں۔‏ غور کریں کہ اس مشکل کام کو انجام دیتے وقت اُس نے اُن کا لحاظ کیسے رکھا۔‏ ”‏چند اِپکوری اور ستوئیکی فیلسوف اُس کا مقابلہ کرنے لگے۔‏ بعض نے کہا کہ یہ بکواسی کیا کہنا چاہتا ہے؟‏ اَوروں نے کہا کہ یہ غیرمعبودوں کی خبر دینے والا معلوم ہوتا ہے۔‏“‏ (‏اعمال ۱۷:‏۱۸‏)‏ غصہ کرنے کی بجائے پولس رسول نے ملائم لہجے میں کہا:‏ ”‏اَے اتھینےؔ والو!‏ مَیں دیکھتا ہوں کہ تُم ہر بات میں دیوتاؤں کے بڑے ماننے والے ہو۔‏“‏ غور کریں کہ پولس رسول نے اس بات پر اُن کی ملامت نہیں کی کہ وہ بُت‌پرست تھے بلکہ اُس نے اُن کی دینداری کی تعریف کی۔‏—‏اعمال ۱۷:‏۲۲‏۔‏

کیا پولس رسول ریاکاری سے کام لے رہا تھا؟‏ بالکل نہیں۔‏ وہ جانتا تھا کہ دوسروں کو قصوروار ٹھہرانا اُس کا کام نہیں ہے۔‏ اور اُسے یاد تھا کہ ایک زمانے میں اُس کی آنکھوں پر بھی پردہ تھا اور وہ سچائی سے ناواقف تھا۔‏ اُس کی ذمہ‌داری یہ تھی کہ وہ دوسروں تک خدا کا پیغام پہنچائے۔‏ وہ اپنے تجربے سے جانتا تھا کہ ایسے خلوص دل لوگ جو جھوٹے مذہب کی حمایت کرتے ہیں سچائی سیکھنے پر اکثر بڑے جوش سے سچے مذہب کی حمایت کرنے لگتے ہیں۔‏

پولس رسول کے اس طریقۂ‌کار کے بہت اچھے نتائج نکلے۔‏ ”‏چند آدمی اُس کے ساتھ مل گئے اور ایمان لے آئے۔‏ اُن میں دیونسیؔ‌یس اؔریوپگس کا ایک حاکم اور دؔمرِس نام ایک عورت تھی اور بعض اَور بھی اُن کے ساتھ تھے۔‏“‏ (‏اعمال ۱۷:‏۳۴‏)‏ یہ کتنی اچھی بات تھی کہ پولس رسول نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اتھینے والوں کی ملامت کرنے کی بجائے اُن کی دینداری کی تعریف کی۔‏ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کو غلط تعلیم دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ گمراہ ہوتے ہیں۔‏ لیکن دراصل وہ دل کے سچے ہوتے ہیں۔‏

جب پولس رسول کو ہیرودیس اگرپا دوم کے سامنے اپنے ایمان کا دفاع کرنے کیلئے پیش کِیا گیا تو اُس نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے ہیرودیس کو ٹھیس پہنچے۔‏ ہیرودیس نے اپنی سگی بہن کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر رکھے تھے اور ایسی حرکت کو خدا کے کلام میں ناجائز قرار دیا گیا ہے۔‏ لیکن پولس رسول نے اُس کی ملامت نہیں کی۔‏ اس کی بجائے پولس رسول نے ہیرودیس کے حق میں ایک ایسی بات کا ذکر کِیا جس کی بِنا پر وہ ہیرودیس کی تعریف کر سکا۔‏ پولس رسول نے کہا:‏ ”‏اَے اگرؔپا بادشاہ جتنی باتوں کی یہودی مجھ پر نالش کرتے ہیں آج تیرے سامنے اُن کی جوابدہی کرنا اپنی خوش‌نصیبی جانتا ہوں۔‏ خاص کر اس لئے کہ تُو یہودیوں کی سب رسموں اور مسئلوں سے واقف ہے۔‏“‏—‏اعمال ۲۶:‏۱-‏۳‏۔‏

اگر ہم لوگوں سے بات کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں گے کہ ہم اُنہیں ٹھیس نہ پہنچائیں تو ہم بھی دانشمندی کا ثبوت دے رہے ہوں گے۔‏ اس کے علاوہ ہم اپنے پڑوسیوں،‏ ہم‌جماعتوں اور ملازمت کے ساتھیوں کو داد دینے سے اُن کے ساتھ اچھے تعلقات بڑھانے میں کامیاب رہیں گے۔‏ اور شاید اس کے نتیجے میں وہ نیکی کے کاموں کی طرف مائل ہو جائیں۔‏ جب ہم خلوص دل لوگوں کو داد دیتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ غلط سوچ اور روش کو ترک کرکے خدا کے کلام سے علم حاصل کرنا شروع کر دیں۔‏

یسوع کی مثال

یسوع نے بھی دوسروں کو داد دینے کی اچھی مثال قائم کی۔‏ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد یسوع نے یوحنا رسول کے ذریعے ایشیائےکوچک کی سات کلیسیاؤں کے نام خط لکھوائے۔‏ اُس نے اُن مسیحیوں کو داد دینے کا موقع ہاتھ سے نکلنے نہ دیا۔‏ مثال کے طور پر شہر افسس،‏ شہر پرگمن اور شہر تھواتیرہ کے نام خط میں یسوع نے کہا:‏ ”‏مَیں تیرے کام اور تیری مشقت اور تیرا صبر تو جانتا ہوں اور یہ بھی کہ تُو بدوں کو دیکھ نہیں سکتا۔‏“‏ ’‏تُو میرے نام پر قائم رہتا ہے اور تُو نے مجھ پر ایمان رکھنے سے انکار نہیں کِیا۔‏‘‏ اور یسوع نے اُن سے یہ بھی کہا:‏ ”‏مَیں تیرے کاموں اور محبت اور ایمان اور خدمت اور صبر کو تو جانتا ہوں اور یہ بھی کہ تیرے پچھلے کام پہلے کاموں سے زیادہ ہیں۔‏“‏ شہر سردیس کی کلیسیا کو اصلاح کی سخت ضرورت تھی لیکن پھر بھی یسوع نے اس کلیسیا میں اُن لوگوں کو داد دی جو وفاداری سے خدمت انجام دے رہے تھے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏البتہ سرؔدیس میں تیرے ہاں تھوڑے سے ایسے شخص ہیں جنہوں نے اپنی پوشاک آلودہ نہیں کی۔‏ وہ سفید پوشاک پہنے ہوئے میرے ساتھ سیر کریں گے کیونکہ وہ اِس لائق ہیں۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۲:‏۲،‏ ۱۳،‏ ۱۹؛‏ ۳:‏۴‏)‏ یسوع نے ہمارے لئے کتنی ہی اچھی مثال قائم کی!‏

ایک گروہ کے چند لوگوں کے بُرے چال‌چلن کی وجہ سے یسوع پورے گروہ کو بُرا خیال نہیں کرتا تھا۔‏ ہمیں بھی ایسا نہیں کرنا چاہئے۔‏ اگر ہمیں کسی کی اصلاح کرنے کی ضرورت پڑے بھی تو جہاں تک مناسب ہو اُسے داد بھی دیں۔‏ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہم صرف تب ہی ایک شخص کو داد دیتے ہیں جب ہم اُس کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو شاید وہ ہماری داد کو سنی اَن‌سنی کر دے۔‏ اس لئے اگر ایک شخص داد کے لائق ہے تو دل کھول کر اُسے داد دیں۔‏ اس طرح اگر کبھی آپ کو اُس شخص کی اصلاح کرنی پڑے تو آپ کی بات ماننا اُس کے لئے زیادہ آسان ہو جائے گا۔‏

جب بزرگ داد دیتے ہیں

یورپ میں یہوواہ کے گواہوں کے ایک برانچ دفتر میں کام کرنے والی کورنیلا نامی ایک بہن بتاتی ہیں کہ ایک دفعہ سفری نگہبان نے اُن سے پوچھا کہ وہ کس حد تک ذاتی طور پر بائبل کا مطالعہ کرتی اور رسالوں کو پڑھتی ہیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏مجھے بڑی شرمندگی ہوئی۔‏“‏ اُنہوں نے سفری نگہبان سے اس بات کا اعتراف کِیا کہ وہ رسالوں کے ہر مضمون کو نہیں پڑھ پاتیں۔‏ وہ آگے بتاتی ہیں:‏ ”‏میری اصلاح کرنے کی بجائے اُنہوں نے مجھے اس بات کے لئے داد دی کہ مَیں رسالوں کے چند مضامین کو پڑھتی ہوں۔‏ ان کے الفاظ سے میری اتنی حوصلہ‌افزائی ہوئی کہ مَیں نے رسالوں میں ہر مضمون کو پڑھنے کی ٹھان لی۔‏“‏

یورپ میں یہوواہ کے گواہوں کے ایک برانچ دفتر میں کام کرنے والے رے نامی بھائی کو اپنی پائنیر خدمت کا پہلا دن اچھی طرح یاد ہے۔‏ وہ بتاتے ہیں کہ اُس دن کلیسیا کے ایک بزرگ جن پر ملازمت،‏ خاندان اور کلیسیا کی کئی ذمہ‌داریاں تھیں،‏ وہ کنگڈم ہال میں داخل ہوتے ہی رے کے پاس گئے اور اُن سے پوچھا:‏ ”‏پائنیر خدمت کا تمہارا پہلا دن کیسا رہا؟‏“‏ تقریباً ۶۰ سال بعد بھی رے کو یاد ہے کہ اس بزرگ نے اُن میں ذاتی دلچسپی لی تھی۔‏

جیسا کہ ان دو واقعات سے ظاہر ہوتا ہے بےمعنی الفاظ کہنے کی بجائے دوسروں کے کاموں کی قدر کرنا اور خلوص سے اُن کو داد دینے سے بہت اچھے نتائج نکلتے ہیں۔‏ خاص طور پر مسیحی کلیسیا میں دوسروں کو داد دینے کے بہت سے موقعے ہوتے ہیں۔‏ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کلیسیا میں بہن‌بھائی خدا کی خدمت کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور وہ اجلاسوں پر اچھے تبصرے پیش کرتے ہیں۔‏ شاید وہ دوسروں کے سامنے تقریریں پیش کرنے سے گھبراتے ہیں لیکن پھر بھی وہ ایسا کرتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ وہ بڑے جوش سے خدا کی بادشاہت کی منادی کرتے ہیں اور خدا کی خدمت میں ترقی کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔‏ جب ہم دوسروں کو داد دیتے ہیں تو ہم خود بھی خوشی محسوس کرتے ہیں۔‏—‏اعمال ۲۰:‏۳۵‏۔‏

کلیسیا کے بزرگوں کو چاہئے کہ وہ بہن‌بھائیوں کو اُن کی محنت کے لئے داد دیں۔‏ اور جب اصلاح کی ضرورت پڑے تو وہ محبت اور شفقت سے اُن کی اصلاح کریں۔‏ بزرگوں کو اس بات کی توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ کلیسیا میں ہر ایک کام سو فیصد درست کِیا جائے اور اگر ایسا نہیں ہے تو یہ کمزوری کا نشان ہے۔‏

ایسے مسیحی بزرگ جو الیہو کی طرح دوسروں کے ساتھ احترام سے پیش آتے ہیں،‏ پولس رسول کی طرح دوسروں کا لحاظ کرتے ہیں اور یسوع مسیح کی طرح شفقت ظاہر کرتے ہیں،‏ وہ واقعی دوسروں کے لئے حوصلے کا باعث بنتے ہیں۔‏ دوسروں کو داد دینے سے ہم اُن کی ہمت باندھ سکتے ہیں اور ہمارا آپس کا اتحاد بھی بڑھ سکتا ہے۔‏ جب یسوع نے بپتسمہ لیا تو اپنے آسمانی باپ کے یہ الفاظ سُن کر اُس کا دل کتنا ہی خوش ہوا ہوگا:‏ ”‏تُو میرا پیارا بیٹا ہے۔‏ تجھ سے مَیں خوش ہوں۔‏“‏ (‏مرقس ۱:‏۱۱‏)‏ آئیں ہم بھی اپنے بہن‌بھائیوں کو داد دینے سے اُن کے دلوں کو خوش کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویریں]‏

پولس رسول نے دوسروں کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کو داد دی اور ہمیں بھی ایسا کرنا چاہئے

‏[‏صفحہ ۳۲ پر تصویر]‏

دوسروں کو داد دینے کے اچھے نتیجے نکلتے ہیں