مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دوسروں کی فکر کرنے میں خدا سے سیکھیں

دوسروں کی فکر کرنے میں خدا سے سیکھیں

دوسروں کی فکر کرنے میں خدا سے سیکھیں

‏”‏اپنی ساری فکر اُس پر ڈال دو کیونکہ اُس کو تمہاری فکر ہے۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۷‏)‏ واقعی،‏ یہوواہ خدا کو اپنے ہر خادم کی فکر ہے اور وہ ان کی دیکھ‌بھال کرتا ہے۔‏ اس کے تحفظ کی وجہ سے ہمیں چین اور اطمینان حاصل ہے۔‏

یہوواہ خدا کی طرح ہمیں بھی دوسروں کی فکر رکھنی چاہئے۔‏ البتہ ہم سب سے غلطیاں ہو جاتی ہیں۔‏ اسلئے ہمیں دوسروں میں دلچسپی دکھانے کے غلط طریقوں سے خبردار رہنا چاہئے۔‏ آگے جا کر ہم اسکی چند مثالوں پر غور کرینگے۔‏ لیکن اس سے پہلے،‏ آئیں ہم دیکھیں کہ یہوواہ خدا کن طریقوں سے اپنے لوگوں کیلئے فکر ظاہر کرتا ہے۔‏

اس بات کو واضح کرنے کیلئے زبورنویس داؤد نے یہوواہ کی تشبیہ ایک چوپان سے کی۔‏ اُس نے لکھا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ میرا چوپان ہے۔‏ مجھے کمی نہ ہوگی۔‏ وہ مجھے ہری ہری چراگاہوں میں بٹھاتا ہے۔‏ وہ مجھے راحت کے چشموں کے پاس لے جاتا ہے۔‏ وہ میری جان کو بحال کرتا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ خواہ موت کے سایہ کی وادی میں سے میرا گذر ہو مَیں کسی بلا سے نہیں ڈروں گا کیونکہ تُو میرے ساتھ ہے۔‏“‏—‏زبور ۲۳:‏۱-‏۴‏۔‏

داؤد خود بھی چوپان تھا اس لئے وہ جانتا تھا کہ گلّے کی دیکھ‌بھال کرنے میں کیا کچھ شامل ہے۔‏ چوپان گلّے کو شیرببر،‏ بھیڑیے اور ریچھ وغیرہ کے حملوں سے بچائے رکھتا ہے۔‏ وہ ہوشیار رہتا ہے کہ گلّہ بکھر نہ جائے اور وہ بھٹکی ہوئی بھیڑوں کو ڈھونڈتا ہے۔‏ جب بھیڑ کے بچے تھک جاتے ہیں تو وہ ان کو اپنی بغل میں اُٹھا لیتا ہے۔‏ وہ بیمار یا زخمی بھیڑوں کو سنبھالتا ہے۔‏ اس کے علاوہ وہ ہر روز بھیڑوں کو پانی پلاتا ہے۔‏ اس کا مطلب یہ نہیں کہ چوپان بھیڑوں کو قدم قدم پر راستہ دکھاتا ہے۔‏ بھیڑوں کو اس بات پر اختیار ہے کہ وہ کہاں کہاں چرنا چاہتی ہیں۔‏ لیکن چوپان ان کی نگہبانی کرتا ہے۔‏

اسی طرح یہوواہ خدا بھی اپنے لوگوں کی دیکھ‌بھال کرتا ہے۔‏ پطرس رسول نے لکھا کہ ’‏خدا کی قدرت سے تمہاری حفاظت کی جاتی ہے۔‏‘‏ (‏۱-‏پطرس ۱:‏۵‏)‏ اس آیت میں جس لفظ کا ترجمہ ”‏حفاظت“‏ سے کِیا گیا ہے یونانی زبان میں اس کا لفظی مطلب ”‏نگہبانی“‏ ہے۔‏ چونکہ یہوواہ کو ہماری فکر ہے اس لئے وہ ہمیشہ ہماری نگہبانی کرتا ہے۔‏ اور جب بھی ہم اُس سے مدد مانگتے ہیں وہ ہماری مدد کرنے کے لئے تیار ہے۔‏ لیکن خدا نے ہمیں خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے ساتھ خلق کِیا ہے۔‏ اس لئے وہ ہمارے اُٹھنے بیٹھنے میں دخل نہیں دیتا۔‏ ہم اس سلسلے میں خدا سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

بچوں کی دیکھ‌بھال کرنے میں خدا سے سیکھیں

‏”‏اولاد [‏یہوواہ]‏ کی طرف سے میراث ہے۔‏“‏ اس لئے والدین کی ذمہ‌داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ‌بھال کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی حفاظت بھی کریں۔‏ (‏زبور ۱۲۷:‏۳‏)‏ ایسا کرنے کے لئے انہیں بچوں کے خیالات اور احساسات کو جاننے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏ اس طرح وہ اُن کے احساسات کو خاطر میں لا سکیں گے۔‏ اگر والدین اپنے بچوں سے یہ توقع رکھیں گے کہ وہ اُن کے حکم پر ہی اُٹھیں بیٹھیں اور بچوں کو کبھی خود فیصلہ کرنے کی اجازت نہ دیں تو وہ ایک ایسے چوپان کی مانند ہوں گے جو بھیڑوں کے گلے میں رسی باندھ کر اُنہیں چلاتا ہے۔‏ لیکن ایک اچھا چوپان گلّے کی حفاظت کرنے کا یہ طریقہ نہیں اپناتا اور نہ ہی یہوواہ خدا ہمارے ساتھ ایسے پیش آتا ہے۔‏

ماریکو * نامی ایک ماں بتاتی ہے:‏ ”‏کافی عرصے تک مَیں اپنے بچوں سے بات کرتے ہوئے اُنہیں یہی کہا کرتی کہ ’‏یہ کرو‘‏ یا ’‏یہ مت کرو۔‏‘‏ میرا خیال تھا کہ والدین کی ذمہ‌داری یہی ہے کہ وہ بچوں کو حکم دیں۔‏ مَیں کبھی اپنے بچوں کو داد نہیں دیتی اور ہم ایک دوسرے کو اپنے دل کی بات نہیں بتاتے۔‏“‏ حالانکہ ماریکو کی بیٹی اُس کے ساتھ بات‌چیت نہیں کرتی تھی لیکن فون پر وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گھنٹوں تک بات‌چیت کرتی۔‏ ماریکو آگے بتاتی ہے:‏ ”‏پھر مجھے احساس ہوا کہ میری بیٹی اپنی سہیلیوں سے بات‌چیت کرنا اتنا پسند کیوں کرتی ہے۔‏ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک دوسرے کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرتیں۔‏ مثال کے طور پر مَیں نے اکثر اپنی بیٹی کو یوں کہتے سنا کہ ’‏تمہاری بات صحیح ہے‘‏ یا ’‏میرا بھی یہی خیال ہے۔‏‘‏ لہٰذا مَیں نے بھی ایسے انداز میں بات کرنا شروع کر دیا۔‏ اس طرح مَیں اپنی بیٹی کے دل تک پہنچ سکی اور ہم بڑے شوق سے ایک دوسرے سے بات‌چیت کرنے لگے۔‏“‏ اس تجربہ سے ہم بات‌چیت کرنے کے صحیح طریقے کو اپنانے کی اہمیت سمجھ سکتے ہیں۔‏ والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں سے نہ صرف بات کریں بلکہ اُن کی بات پر بھی غور کریں۔‏

والدین کو اپنے بچوں کے خیالات اور احساسات کو جاننے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏ اور بچوں کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جب والدین اُن کی راہنمائی کرتے ہیں تو یہ اُن کی بھلائی کے لئے ہوتا ہے۔‏ بائبل میں بچوں کو ماں‌باپ کے فرمانبردار رہنے کو کہا گیا ہے۔‏ یہ حکم اس لئے دیا گیا ہے ”‏تاکہ تیرا بھلا ہو اور تیری عمر زمین پر دراز ہو۔‏“‏ (‏افسیوں ۶:‏۱،‏ ۳‏)‏ اگر بچوں کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ فرمانبردار رہنے میں اُن کی بھلائی ہے تو ان کو ماں‌باپ کی بات ماننا مشکل نہیں لگے گا۔‏

یہوواہ کی بھیڑوں کی گلّہ‌بانی کریں

یہوواہ کلیسیا کے ذریعے ہمارے لئے اپنی فکر ظاہر کرتا ہے۔‏ یسوع مسیح کلیسیا کا سردار ہے اور اُس نے کلیسیا کے بزرگوں کو اپنی بھیڑوں کی گلّہ‌بانی کرنے کی ذمہ‌داری سونپی ہے۔‏ (‏یوحنا ۲۱:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ بائبل میں جس لفظ کا ترجمہ ”‏نگہبان“‏ سے کِیا گیا ہے یہ ایک ایسے یونانی فعل سے تعلق رکھتا ہے جس کا مطلب ”‏ہوشیاری سے نگاہ رکھنا“‏ ہے۔‏ پطرس رسول نے کلیسیا کے بزرگوں کو یوں ہدایت دی:‏ ”‏خدا کے اُس گلّہ کی گلّہ‌بانی کرو جو تُم میں ہے۔‏ لاچاری سے نگہبانی نہ کرو بلکہ خدا کی مرضی کے موافق خوشی سے اور ناجائز نفع کے لئے نہیں بلکہ دلی شوق سے۔‏ اور جو لوگ تمہارے سپرد ہیں اُن پر حکومت نہ جتاؤ بلکہ گلّہ کے لئے نمونہ بنو۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۵:‏۲،‏ ۳‏۔‏

اس صحیفے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کلیسیا کے بزرگوں کا کام ایک چوپان کے کام کی طرح ہوتا ہے۔‏ جب کلیسیا میں کوئی شخص روحانی طور پر کمزور پڑ جاتا ہے تو بزرگ اس کی مدد اور راہنمائی کرتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ سے مسیحی معیاروں پر پورا اُترے۔‏ اس کے علاوہ کلیسیا کے بزرگ اجلاسوں اور منادی کے کام کا انتظام بھی کرتے ہیں۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۴:‏۳۳‏۔‏

البتہ،‏ پطرس رسول نے بزرگوں کو خبردار کِیا کہ وہ ’‏کلیسیا پر حکومت نہ جتائیں۔‏‘‏ اگر ایک بزرگ غیرضروری قواعد بنانے لگے تو وہ دراصل کلیسیا پر حکومت جتانا شروع کر دے گا۔‏ بیشک بزرگ کلیسیا کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔‏ لیکن چاہے اُن کی نیت اچھی کیوں نہ ہو اگر وہ کلیسیا پر بہت سی پابندیاں لگاتے ہیں تو وہ یہوواہ خدا کی نقل ہرگز نہیں کرتے۔‏ ایک مشرقی مُلک کی ایک کلیسیا کے بزرگوں نے قواعد بنائے کہ کنگڈم ہال میں بہن‌بھائیوں کو ایک دوسرے سے سلام کیسے کرنا چاہئے،‏ مثلاً کس کو بات میں پہل کرنی چاہئے۔‏ ان بزرگوں کا خیال تھا کہ ایسے قواعد کے ذریعے وہ کلیسیا میں امن کو فروغ دیں گے۔‏ ان کی نیت بیشک اچھی تھی۔‏ لیکن کیا اُنہوں نے کلیسیا کی فکر رکھنے میں یہوواہ خدا کی نقل کی؟‏ ذرا پولس رسول کی اس بات پر غور کریں:‏ ”‏یہ نہیں کہ ہم ایمان کے بارے میں تُم پر حکومت جتاتے ہیں بلکہ خوشی میں تمہارے مددگار ہیں کیونکہ تُم ایمان ہی سے قائم رہتے ہو۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۲۴‏)‏ یہوواہ خدا کو اپنے خادموں پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ بہت سے قواعد کے بغیر بھی اُس کے معیاروں پر چلیں گے۔‏

لہٰذا،‏ ایسے بزرگ جنہیں واقعی خدا کے گلّے کی فکر ہے وہ ایسے قواعد بنانے سے باز آئیں گے جو پاک صحائف پر مبنی نہیں ہیں۔‏ اس کے علاوہ بھیڑوں کے لئے ان کی فکر اس سے بھی ظاہر ہوگی کہ وہ دوسروں کے راز فاش نہیں کریں گے۔‏ وہ خدا کے کلام کی اس آگاہی کو یاد رکھتے ہیں کہ ”‏کسی دوسرے کا راز فاش نہ کر۔‏“‏—‏امثال ۲۵:‏۹‏۔‏

پولس رسول نے ممسوح مسیحیوں کی کلیسیا کی تشبیہ انسانی بدن سے کی۔‏ اُس نے لکھا:‏ ”‏خدا نے بدن کو اِس طرح مرکب کِیا ہے .‏ .‏ .‏ تاکہ بدن میں تفرقہ نہ پڑے بلکہ اعضا ایک دوسرے کی برابر فکر رکھیں۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۱۲،‏ ۲۴-‏۲۶‏)‏ لہٰذا،‏ کلیسیا کے اراکین کو ایک دوسرے کی خیرخیریت میں دلچسپی لینی چاہئے۔‏—‏فلپیوں ۲:‏۴‏۔‏

سچے مسیحی ایک دوسرے کیلئے اپنی فکر کا اظہار کیسے کرتے ہیں؟‏ وہ دوسروں کی خاطر دُعا کر سکتے ہیں اور کلیسیا میں ضرورت‌مندوں کی مدد کر سکتے ہیں۔‏ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو دوسروں میں مسیحی خوبیوں کو عمل میں لانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔‏ اس سلسلے میں ٹاڈاٹاکا نامی ایک بھائی کے تجربے پر غور کریں۔‏ جب اُس نے ۱۷ سال کی عمر میں بپتسمہ لیا تو اُس کا خاندان یہوواہ کی عبادت کرنے میں اُس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔‏ وہ یوں بتاتا ہے:‏ ”‏کلیسیا میں ایک خاندان تھا جو مجھے اکثر کھانے کی دعوت دیتا تھا۔‏ صبح کو سکول جانے سے پہلے مَیں اکثر ان کے گھر جاتا اور ہم مل کر روزانہ کی آیت پر بات کرتے۔‏ جب سکول میں مسئلے کھڑے ہوتے تو وہ مجھے ان سے نپٹنے کے مشورے دیتے اور ہم مل کر ان مسئلوں کے سلسلے میں دُعا بھی کرتے۔‏ اس خاندان کی مثال سے مَیں نے سیکھا کہ دوسروں کی فکر رکھنے کا اصلی مطلب کیا ہے۔‏“‏ جو کچھ ٹاڈاٹاکا نے اس خاندان سے سیکھا آجکل وہ اسے یہوواہ کے گواہوں کے ایک برانچ دفتر میں خدمت کرتے ہوئے عمل میں لا رہا ہے۔‏

پولس رسول نے ہمیں دوسروں میں دلچسپی دکھانے کے غلط طریقوں سے بھی آگاہ کِیا۔‏ اُس نے ایسی عورتوں کا ذکر کِیا جو ”‏بک بک کرتی رہتی اور اَوروں کے کام میں دخل بھی دیتی ہیں اور ناشایستہ باتیں کہتی ہیں۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۵:‏۱۳‏)‏ دوسروں کی فکر رکھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں خبردار رہنا چاہئے کہ ہم ان کے ذاتی معاملوں میں دخل‌اندازی نہ کریں۔‏ اگر ہم دوسروں کے ذاتی معاملوں میں حد سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں تو ہم ”‏ناشایستہ باتیں“‏ کرنے کے خطرے میں ہوں گے،‏ مثلاً ہم شاید ان کی نکتہ‌چینی یا تنقید کرنے لگیں گے۔‏

ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کھانے پینے یا تفریح جیسے ذاتی معاملوں میں ہر ایک کی پسند اور ناپسند فرق ہوتی ہے۔‏ پاک صحائف کے معیاروں کا پابند رہتے ہوئے ایک مسیحی ان معاملوں کے بارے میں خود فیصلہ کر سکتا ہے۔‏ پولس رسول نے روم کے مسیحیوں کو یوں نصیحت کی:‏ ”‏آیندہ کو ہم ایک دوسرے پر الزام نہ لگائیں بلکہ .‏ .‏ .‏ ہم ان باتوں کے طالب رہیں جن سے میل‌ملاپ اور باہمی ترقی ہو۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۱۳،‏ ۱۹‏)‏ جی‌ہاں،‏ دوسروں کے ذاتی معاملوں میں دخل‌اندازی کرنا ان میں دلچسپی لینے کا غلط طریقہ ہوتا ہے۔‏ اس کی بجائے دوسروں کے لئے ہماری فکر اس سے ظاہر ہونی چاہئے کہ ہم اُن کی مدد کرنے کو ہر وقت تیار رہیں۔‏ اس طرح دوسروں کی فکر کرنے سے ہم خاندان اور کلیسیا میں محبت اور اتحاد کو فروغ دیں گے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 9 بعض نام تبدیل کئے گئے ہیں۔‏