مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خلوص‌دل لوگ خوشخبری کو قبول کر رہے ہیں

خلوص‌دل لوگ خوشخبری کو قبول کر رہے ہیں

خلوص‌دل لوگ خوشخبری کو قبول کر رہے ہیں

‏”‏جتنے لوگ ہمیشہ کی زندگی کی طرف مائل تھے ایمان لائے۔‏“‏—‏اعما ۱۳:‏۴۸‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن

۱،‏ ۲.‏ ابتدائی مسیحیوں نے تمام دُنیا میں خوشخبری کی منادی کرنے کے حکم پر کس طرح عمل کِیا؟‏

یسوع مسیح نے پیشینگوئی کی کہ بادشاہت کی خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہوگی۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ اعمال کی کتاب کو پڑھنے سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ پیشینگوئی پہلی صدی میں شاندار طریقے سے پوری ہوئی۔‏ یسوع کے شاگردوں نے بڑے جوش سے بادشاہت کی خوشخبری سنانے کے کام میں حصہ لیا۔‏ مثال کے طور پر اُن کی گواہی کے نتیجے میں یروشلیم میں ہزاروں لوگ مسیحی بن گئے۔‏ ان میں ”‏کاہنوں کی بڑی گروہ“‏ بھی شامل تھی۔‏ (‏اعما ۲:‏۴۱؛‏ ۴:‏۴؛‏ ۶:‏۷‏)‏ واقعی،‏ اُن ابتدائی شاگردوں نے بعد میں آنے والے تمام مسیحیوں کے لئے عمدہ مثال قائم کی۔‏

۲ پہلی صدی میں کئی مسیحی،‏ شاگرد بنانے کی خاطر دوسرے ممالک بھی گئے۔‏ مثال کے طور پر فلپس،‏ سامریہ کو گیا جہاں ایک بڑی بِھیڑ نے اُس کی باتوں پر توجہ دی۔‏ (‏اعما ۸:‏۵-‏۸‏)‏ پولس رسول نے بہت سے علاقوں کا سفر کِیا،‏ مثلاً کُپرس،‏ ایشیائےکوچک،‏ مکدنیہ،‏ یونان اور اطالیہ۔‏ جہاں جہاں اُس نے خوشخبری کی منادی کی،‏ بہتیرے یہودیوں اور یونانیوں نے مسیحی ایمان اپنا لیا۔‏ (‏اعما ۱۴:‏۱؛‏ ۱۶:‏۵؛‏ ۱۷:‏۴‏)‏ ططس نے کریتے میں جا کر خدمت کی۔‏ (‏طط ۱:‏۵‏)‏ پطرس رسول کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ اُس نے شہر بابل میں خوشخبری کی منادی کی۔‏ اُس نے اپنا پہلا خط سن ۶۲-‏۶۴ کے لگ‌بھگ لکھا۔‏ اُس وقت پنطس،‏ گلتیہ،‏ کپدُکیہ،‏ آسیہ اور بتُھنیہ میں مسیحی کلیسیائیں موجود تھیں۔‏ (‏۱-‏پطر ۱:‏۱؛‏ ۵:‏۱۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ اُس زمانے میں مسیحیوں کے کام میں خوب ترقی ہوئی۔‏ ابتدائی مسیحیوں کے بےمثال جوش‌وخروش کی وجہ سے اُن کے دُشمنوں نے اُن پر یہ الزام لگایا کہ اِنہوں نے تو پوری ”‏دُنیا کو اُلٹ دیا۔‏“‏—‏اعما ۱۷:‏۶؛‏ ۲۸:‏۲۲‏،‏ کیتھولک ترجمہ۔‏

۳.‏ (‏ا)‏ ہمارے زمانے میں خوشخبری کی منادی کے کون سے نتائج نکلے ہیں؟‏ (‏ب)‏ آپ اِس ترقی کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏

۳ جدید زمانے میں بھی پوری دُنیا میں سچے مسیحیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ یہوواہ کے گواہوں کی سالانہ رپورٹ کو پڑھنے سے ہماری بڑی حوصلہ‌افزائی ہوتی ہے۔‏ کیا آپ یہ جان کر خوش نہیں ہیں کہ ۲۰۰۷ کے خدمتی سال کے دوران ۶۰ لاکھ سے زائد بائبل کے مطالعے کرائے گئے؟‏ مسیح کی موت کی یادگاری کے لئے تقریباً ایک کروڑ ایسے لوگ حاضر ہوئے جو فی‌الحال یہوواہ کے گواہوں کے خوشخبری سنانے کے کام میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت زیادہ لوگ بادشاہت کی خوشخبری میں دلچسپی لے رہے ہیں اور شاگرد بنانے کا کام ابھی اپنے اختتام تک نہیں پہنچا ہے۔‏

۴.‏ کس قسم کے لوگ بادشاہت کی خوشخبری پر ایمان لاتے ہیں؟‏

۴ پہلی صدی کی طرح آجکل بھی ”‏جتنے لوگ ہمیشہ کی زندگی کی طرف مائل“‏ ہیں بادشاہت کی خوشخبری پر ایمان لا رہے ہیں۔‏ (‏اعما ۱۳:‏۴۸‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏)‏ یہوواہ خدا ایسے لوگوں کو اپنی تنظیم کی طرف کھینچتا ہے۔‏ (‏حج ۲:‏۷ کو پڑھیں۔‏)‏ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منادی کے کام میں بڑھ‌چڑھ کر حصہ لینے کے لئے ہمیں لوگوں کے بارے میں کیسا نظریہ اپنانا چاہئے؟‏

تعصب کئے بغیر مُنادی کریں

۵.‏ خدا کو کس قسم کے لوگ پسند ہیں؟‏

۵ پہلی صدی کے مسیحی سمجھ گئے تھے کہ ”‏خدا کسی کا طرفدار نہیں بلکہ ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُس کو پسند آتا ہے۔‏“‏ (‏اعما ۱۰:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ ایک ایسا شخص جو یہوواہ کے قریب جانا چاہتا ہے اُسے یسوع مسیح کی جان کی قربانی پر ایمان لانے کی ضرورت ہے۔‏ (‏یوح ۳:‏۱۶،‏ ۳۶‏)‏ یہوواہ خدا ”‏چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔‏“‏—‏۱-‏تیم ۲:‏۳،‏ ۴‏۔‏

۶.‏ سچے مسیحیوں کو کس سوچ سے کنارہ کرنا چاہئے اور اس کی کیا وجہ ہے؟‏

۶ لوگ اکثر دوسروں کو اُن کی نسل،‏ رنگ،‏ حلیہ،‏ معاشرتی درجے یا مذہب کی وجہ سے حقیر جانتے ہیں۔‏ لیکن ایسی سوچ رکھنا سچے مسیحیوں کے لئے غلط ہے۔‏ ذرا سوچیں کہ آپ نے جس شخص سے پہلی بار بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سنا تھا اُس نے بھی تعصب کئے بغیر آپ سے بات کی تھی۔‏ کیا آپ اُس کے شکرگزار نہیں ہیں؟‏ اسی طرح ہمیں بھی ہر ایسے شخص سے سچائی کے بارے میں بات کرنی چاہئے جو ہماری بات سننے کو تیار ہے کیونکہ جو پیغام ہم لوگوں کو سناتے ہیں یہ ان کے لئے ہمیشہ کی زندگی کا باعث بن سکتا ہے۔‏—‏متی ۷:‏۱۲ کو پڑھیں۔‏

۷.‏ ہمیں کسی کے بارے میں یہ کیوں نہیں سوچنا چاہئے کہ اُسے سچائی کا پیغام سنانے کا کوئی فائدہ نہیں؟‏

۷ یہوواہ خدا نے انسانوں کی عدالت کرنے کا کام یسوع مسیح کو سونپا ہے۔‏ ”‏وہ نہ اپنی آنکھوں کے دیکھنے کے مطابق اِنصاف کرے گا اور نہ اپنے کانوں کے سننے کے موافق فیصلہ کرے گا۔‏“‏ (‏یسع ۱۱:‏۱-‏۵؛‏ ۲-‏تیم ۴:‏۱‏)‏ لیکن یسوع مسیح کے برعکس ہم دوسروں کے خیالات اور ان کے دلی رجحان کو نہیں پہچان سکتے۔‏ اس لئے ہم کسی شخص کے بارے میں یہ فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتے کہ اُسے سچائی کا پیغام سنایا جائے یا نہیں۔‏

۸،‏ ۹.‏ (‏ا)‏ مسیحی بننے سے پہلے ساؤل کس قسم کا شخص تھا؟‏ (‏ب)‏ ہم پولس رسول کے تجربے سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

۸ اب تک ہر طرح کے لوگ یہوواہ خدا کے خادم بن چکے ہیں۔‏ ذرا ترسس کے رہنے والے ساؤل کی مثال پر غور کریں جو پولس رسول کے طور پر مشہور ہوا۔‏ وہ فریسی تھا اور اُسے پکا یقین تھا کہ مسیحیوں کے عقیدے جھوٹے ہیں۔‏ اس لئے اُس نے مسیحیوں کی سخت مخالفت کی۔‏ (‏گل ۱:‏۱۳‏)‏ انسانی نقطۂ‌نظر سے اِس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ ساؤل جیسا ہٹ‌دھرم مخالف ایک دن مسیحی بن جائے گا۔‏ لیکن یسوع مسیح نے ساؤل میں اچھی خوبیاں دیکھیں۔‏ اس لئے اُس نے ساؤل کو ایک خاص کام کے لئے چُنا۔‏ اور یوں ساؤل کا شمار پہلی صدی کی کلیسیا کے سب سے سرگرم مسیحیوں میں ہوا۔‏

۹ ہم پولس رسول کے تجربے سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏ ہو سکتا ہے کہ ہمارے علاقے میں لوگوں کا ایک ایسا گروہ ہو جو ہمارے منادی کے کام کی سخت مخالفت کرتا ہے۔‏ ہم شاید سوچیں کہ اُن لوگوں میں سے کوئی بھی سچائی کو قبول نہیں کرے گا۔‏ اس کے باوجود ہمیں سچائی کے بارے میں ان کے ساتھ بات‌چیت کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔‏ بیشک ہم ہر طرح کے لوگوں کو خوشخبری سنانے سے ’‏باز نہ آئیں گے۔‏‘‏—‏اعما ۵:‏۴۲ کو پڑھیں۔‏

خوشخبری سنانے سے ’‏باز نہ آنے‘‏ کے اچھے نتائج

۱۰.‏ ہمیں ایسے لوگوں سے بائبل کے بارے میں بات کرنے سے کیوں باز نہیں آنا چاہئے جن سے ہمیں ڈر لگتا ہے؟‏ مقامی تجربے سنائیں۔‏

۱۰ اگر ہم ایک شخص کے حلیہ کے مطابق اُس کے بارے میں رائے قائم کریں گے تو ہم آسانی سے غلط نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔‏ جنوبی امریکہ کے ایک مُلک میں رہنے والے اِیناسیو کی مثال پر غور کیجئے۔‏ * وہ قید میں تھا۔‏ اُس کا رویہ اتنا پُرتشدد تھا کہ دوسرے قیدی اُس سے ڈرتے تھے۔‏ کئی قیدی چیزیں بنا کر اِنہیں دوسرے قیدیوں کو بیچا کرتے تھے۔‏ جب کوئی قیدی رقم ادا کرنے میں دیر لگاتا تو اُسے دھمکانے کے لئے اِیناسیو کو بھیجا جاتا۔‏ پھر اِیناسیو نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ شروع کِیا۔‏ جوں جوں اُس نے روحانی طور پر ترقی کی اُس کی شخصیت میں تبدیلی آنے لگی۔‏ خدا کے کلام پر عمل کرنے کی وجہ سے وہ نرم‌دل اور مہربان بن گیا ہے۔‏ واقعی،‏ بائبل کی سچائی اور خدا کی پاک روح نے اُس کی شخصیت پر گہرا اثر کِیا۔‏ اِیناسیو اِن بھائیوں کا بےحد شکرگزار ہے جنہوں نے تعصب کئے بغیر اُس کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کِیا۔‏

۱۱.‏ ہم لوگوں سے بار بار ملاقات کیوں کرتے ہیں؟‏

۱۱ بعض لوگ بادشاہت کی خوشخبری پر کان نہیں لگاتے ہیں۔‏ اس کے باوجود ہم ایسے لوگوں سے بار بار ملاقات کیوں کرتے ہیں؟‏ اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ شاید اُن کی زندگی یا سوچ میں تبدیلیاں آ گئی ہوں۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ بےروزگار ہو گئے ہوں یا بیماری کا شکار ہو گئے ہوں یا پھر ان کا کوئی عزیز فوت ہو گیا ہو۔‏ (‏واعظ ۹:‏۱۱ کو پڑھیں۔‏)‏ اس کے علاوہ شاید وہ دُنیا کے بگڑتے حالات کی وجہ سے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں۔‏ ایسی باتوں کی وجہ سے ایک ایسے شخص کی سوچ میں بھی تبدیلیاں آ سکتی ہیں جو پہلے ہمارے پیغام میں دلچسپی نہیں لیتا تھا یا پھر ہماری مخالفت کرتا تھا۔‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں ہر مناسب موقعے پر لوگوں کو بادشاہت کی خوشخبری سنانی چاہئے۔‏

۱۲.‏ منادی کے کام میں ہمیں لوگوں کے بارے میں کونسا نظریہ اپنانا چاہئے؟‏

۱۲ انسانوں کی فطرت یہ ہے کہ وہ کسی کے پس‌منظر یا اُس کی ظاہری صورت کو دیکھتے ہی اُس کے بارے میں رائے قائم کر لیتے ہیں۔‏ لیکن یہوواہ خدا ایسا نہیں کرتا۔‏ وہ ہر ایک کی خوبیوں اور لیاقتوں کو خاطر میں لاتا ہے۔‏ (‏۱-‏سمو ۱۶:‏۷ کو پڑھیں۔‏)‏ ہمیں بھی منادی کے کام میں ایسا ہی کرنا چاہئے۔‏ بہت سے بہن‌بھائیوں نے یہ تجربہ کِیا ہے کہ جب اُنہوں نے لوگوں کے بارے میں اچھا نظریہ اپنایا ہے تو اس کے بہت اچھے نتائج نکلے ہیں۔‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ (‏ا)‏ ایک بہن نے ایک عورت کے بارے میں کیسی رائے قائم کی؟‏ (‏ب)‏ ہم اِس تجربے سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۳ سینڈرا نامی ایک بہن کریبیئن جزائر میں پائنیر کے طور پر خدمت کرتی ہے۔‏ مُنادی کے کام کے دوران ایک دن اُس کی ملاقات رُوت سے ہوئی۔‏ رُوت بڑے جوش سے کارنیوال نامی ایک تہوار کو مناتی تھی۔‏ اِس تہوار کے سلسلے میں وہ بڑے بڑے میلوں میں ناچتی تھی۔‏ وہ اِس ناچ کے قومی مقابلوں میں دو بار جیت چکی تھی۔‏ سینڈرا سے بات کرتے ہوئے رُوت نے پاک صحائف میں بڑی دلچسپی دکھائی اور بائبل کا مطالعہ کرنے کی پیشکش کو فوراً قبول کر لیا۔‏ سینڈرا بتاتی ہے:‏ ”‏رُوت کے گھر کے اندر داخل ہوتے ہی مجھے ایک بڑی تصویر نظر آئی جس میں وہ ناچتے ہوئے دکھائی دی۔‏ پھر مَیں نے وہ تمغے دیکھے جو اُس نے ناچ کے سلسلے میں جیتے تھے۔‏ مَیں نے غلطی سے یہ سوچ لیا کہ ایک ایسی عورت تو سچائی کو کبھی نہیں اپنائے گی۔‏ اس لئے مَیں دوبارہ اُس کے گھر نہیں گئی۔‏“‏

۱۴ اس کے کچھ عرصہ بعد رُوت کنگڈم ہال میں آئی۔‏ جب اجلاس ختم ہوا تو اُس نے سینڈرا سے پوچھا کہ ”‏آپ بائبل کا مطالعہ کرانے کے لئے میرے پاس کیوں نہیں آئیں؟‏“‏ سینڈرا نے معذرت چاہی اور رُوت کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنے پر راضی ہو گئی۔‏ رُوت نے جلدی سے ترقی کی۔‏ اُس نے کارنیوال کی تصویریں ہٹا دیں۔‏ وہ اجلاسوں میں اور منادی کے کام میں حصہ لینے لگی اور پھر اُس نے اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لئے وقف کر دی۔‏ اِس تجربے سے سینڈرا سمجھ گئی کہ ہمیں کسی کے بارے میں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ وہ کبھی سچائی کو نہیں اپنائے گا۔‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ (‏ا)‏ جب ایک بہن نے اپنے رشتہ‌دار کو گواہی دی تو اس کا کیا نتیجہ نکلا؟‏ (‏ب)‏ چاہے ہمارے رشتہ‌داروں کا چال‌چلن کیسا بھی ہو ہمیں ان کو گواہی کیوں دینی چاہئے؟‏

۱۵ خاندان والوں کو گواہی دینے سے بھی بہت اچھے نتائج نکلتے ہیں۔‏ اِن کے بارے میں ہمیں کبھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ وہ سچائی کو نہیں اپنائیں گے۔‏ اس سلسلے میں جوئس نامی ایک بہن کے تجربے پر غور کریں۔‏ اُس کے بہنوئی کو بار بار قید کی سزا بھگتنی پڑی۔‏ جوئس اُس کے بارے میں بتاتی ہے:‏ ”‏لوگوں کا کہنا تھا کہ اُس کی زندگی بےکار ہے کیونکہ وہ منشیات فروخت کرنے اور چوری کرنے کے علاوہ اَور بھی بہت سے بُرے کام کرتا تھا۔‏ اس کے باوجود مَیں ۳۷ سال تک اُسے بائبل کی سچائیوں کے بارے میں بتاتی رہی۔‏“‏ آخرکار جوئس کا صبر رنگ لایا اور اُس کے بہنوئی نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ شروع کر دیا۔‏ اِس کے نتیجے میں اُس کی زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آئیں۔‏ حال ہی میں اُس نے ۵۰ سال کی عمر میں بپتسمہ لے لیا۔‏ جوئس کہتی ہے:‏ ”‏یہ دیکھ کر میری آنکھیں نم ہو گئیں۔‏ مَیں بہت خوش ہوں کہ مَیں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اپنے بہنوئی کو گواہی دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔‏“‏

۱۶ آپ شاید اپنے کسی رشتہ‌دار سے بائبل کی سچائیوں کے بارے میں بات‌چیت کرنے سے اس لئے ہچکچائیں کیونکہ وہ بُرے کاموں میں ملوث ہے۔‏ اس کے باوجود بھی جوئس نے اپنے بہنوئی کو گواہی دی۔‏ ایک شخص کے دل کو کون جان سکتا ہے؟‏ ہو سکتا ہے کہ وہ خلوص‌دل ہے اور سچائی کی تلاش میں ہے۔‏ اُسے سچائی کے بارے میں سیکھنے کے موقعے سے محروم نہ رکھیں۔‏—‏امثا ۳:‏۲۷ کو پڑھیں۔‏

پاک صحائف کی تعلیم دینے کے لئے ایک مؤثر کتاب

۱۷،‏ ۱۸.‏ (‏ا)‏ پوری دُنیا سے جو رپورٹیں مل رہی ہیں اِن سے کتاب پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں کے اثر کے بارے میں کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ اِس کتاب کو استعمال کرتے ہوئے آپ کے ساتھ کونسے اچھے تجربے پیش آئے ہیں؟‏

۱۷ پوری دُنیا سے کتاب پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں کے بارے میں رپورٹیں مل رہی ہیں۔‏ اِن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے خلوص‌دل لوگ اِس کتاب کی مدد سے سچائی کو اَپنا رہے ہیں۔‏ مثال کے طور پر پینی نامی ایک بہن امریکہ میں پائنیر کے طور پر خدمت انجام دیتی ہے۔‏ اُس نے کئی لوگوں کے ساتھ بائبل کے مطالعے شروع کئے ہیں اور ایسا کرنے کے لئے وہ کتاب پاک صحائف کی تعلیم استعمال کرتی ہے۔‏ اُس نے دو ایسے عمررسیدہ لوگوں کو بائبل کے مطالعے کی پیشکش کی جو اپنے چرچ کے معزز رُکن تھے۔‏ پینی کو اِس بات کی فکر تھی کہ کتاب پاک صحائف کی تعلیم میں بائبل کی سچائیوں کے بارے میں پڑھ کر اُن کا ردِعمل کیا ہوگا۔‏ لیکن وہ لکھتی ہے:‏ ”‏کتاب میں جو معلومات پیش کی گئی ہے یہ واضح،‏ معقول اور سادہ ہے۔‏ اس لئے جب بھی اِن اشخاص نے کوئی نئی بات سیکھی تو اُنہوں نے بحث کئے بغیر اِسے سچائی کے طور پر قبول کر لیا۔‏“‏

۱۸ ماریہ نامی ایک بہن برطانیہ میں رہتی ہے۔‏ اُس نے ایک ایسی عورت کے ساتھ بائبل کا مطالعہ شروع کِیا جو ایشیا کے ایک ملک سے ہے اور جس نے برطانیہ میں پناہ لی ہے۔‏ اُس عورت کے وطن میں باغی سپاہیوں نے اُس کے شوہر اور اُس کے بیٹوں کو اغوا کر لیا تھا اور وہ اب تک لاپتہ ہیں۔‏ اُس کے گھر کو آگ لگا دی گئی،‏ اُسے موت کی دھمکی دی گئی اور اُس کی عزت لُوٹی گئی۔‏ اِس ہولناک تجربے کی وجہ سے اُس عورت کی زندگی برباد ہو گئی اور اُس نے خودکُشی کرنا چاہی۔‏ تاہم جب وہ بائبل کا مطالعہ کرنے لگی تو اُس نے ہمت باندھی۔‏ ماریہ یوں لکھتی ہے:‏ ”‏کتاب پاک صحائف کی تعلیم کی سادہ وضاحتوں اور تمثیلوں نے اُس کے دل پر گہرا اثر کِیا۔‏“‏ وہ عورت خوب ترقی کرنے لگی۔‏ وہ جلد ہی پبلشر بننے کی شرائط پر پورا اُتری۔‏ اب وہ اگلی اسمبلی پر بپتسمہ لینا چاہتی ہے۔‏ ہمیں اُس وقت کتنی خوشی ہوتی ہے جب ہم خلوص‌دل لوگوں کو پاک صحائف میں سے اُمید دِلاتے ہیں۔‏

‏”‏ہم نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں“‏

۱۹.‏ بادشاہت کی منادی کرنے کا کام اِس وقت اتنا ضروری کیوں ہے؟‏

۱۹ ہمارے زمانے میں بادشاہت کی منادی کرنا اور شاگرد بنانا بہت ہی ضروری ہے۔‏ ہر سال ہزاروں ایسے لوگ جو ہمیشہ کی زندگی کی طرف مائل ہیں وہ سچائی کے بارے میں سُن کر اِسے قبول کر لیتے ہیں۔‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کا روزِعظیم قریب ہے۔‏“‏ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ وقت نزدیک آ گیا ہے جب ایسے لوگ ’‏قتل کے لئے گھسیٹے جائیں گے‘‏ جو یہوواہ خدا کی عبادت نہیں کرتے ہیں۔‏—‏صفن ۱:‏۱۴؛‏ امثا ۲۴:‏۱۱‏۔‏

۲۰.‏ ہم میں سے ہر ایک کو کیا کرنے کا پکا ارادہ کر لینا چاہئے؟‏

۲۰ ابھی ہمیں لوگوں کی مدد کرنے کا موقع حاصل ہے۔‏ اس لئے ہمیں پہلی صدی کے مسیحیوں کی نقل کرنی چاہئے جو ”‏اس بات کی خوشخبری سنانے سے کہ یسوؔع ہی مسیح ہے باز نہ آئے۔‏“‏ (‏اعما ۵:‏۴۲‏)‏ اُن کی مثال پر عمل کرتے ہوئے ہمیں مشکلات کے باوجود منادی کے کام میں بڑھ‌چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔‏ ہمیں تعلیم دینے میں مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔‏ اور ہمیں تعصب کئے بغیر بادشاہت کی منادی کرنی چاہئے۔‏ آئیں ”‏ہم نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں“‏ کیونکہ اگر ہم منادی کے کام کو جوش کے ساتھ جاری رکھیں گے تو ہمیں یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل ہوگی اور ہم عین وقت پر اُس کی برکات حاصل کریں گے۔‏—‏۲-‏تیم ۴:‏۲‏؛‏ برائےمہربانی گل ۶:‏۹ کو پڑھیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 10 بعض نام تبدیل کئے گئے ہیں۔‏

آپ کا جواب کیا ہوگا؟‏

‏• کس قسم کے لوگ خوشخبری کو قبول کرتے ہیں؟‏

‏• ہمیں اُن لوگوں کے بارے میں پہلے سے رائے کیوں نہیں قائم کرنی چاہئے جنہیں ہم خوشخبری سناتے ہیں؟‏

‏• کتاب ”‏پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں“‏ کتنی مؤثر ثابت ہوئی ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

ہزاروں خلوص‌دل لوگ سچائی کو قبول کر رہے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

ہم اس بات سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں کہ پولس رسول نے اپنی زندگی میں بڑی تبدیلیاں لائی تھیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

خوشخبری کی منادی کرنے والے تعصب نہیں کرتے