مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏ہوشیاری کے ساتھ اپنی خدمت انجام دیتے رہیں‘‏

‏’‏ہوشیاری کے ساتھ اپنی خدمت انجام دیتے رہیں‘‏

‏’‏ہوشیاری کے ساتھ اپنی خدمت انجام دیتے رہیں‘‏

‏”‏جو خدمت خداوند میں تیرے سپرد ہوئی ہے اُسے ہوشیاری کے ساتھ انجام دے۔‏“‏—‏کل ۴:‏۱۷‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ مسیحیوں کو کونسی اہم ذمہ‌داری سونپی گئی ہے؟‏

ہمیں دوسرے لوگوں کو ایک اہم پیغام سنانے کی ذمہ‌داری سونپی گئی ہے۔‏ اس پیغام کو سننے کے بعد لوگ جو فیصلہ کریں گے اس کے مطابق وہ ”‏بڑی مصیبت“‏ میں یا تو ہلاک ہوں گے یا پھر اِس سے بچ جائیں گے۔‏ (‏مکا ۷:‏۱۴‏)‏ امثال کی کتاب میں خدا کا یہ حکم پایا جاتا ہے:‏ ”‏جو قتل کے لئے گھسیٹے جاتے ہیں اُن کو چھڑا۔‏ جو مارے جانے کو ہیں اُن کو حوالہ نہ کر۔‏“‏ ہمیں اس حکم پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔‏ آجکل لوگوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ یہوواہ خدا کی عبادت کریں گے یا نہیں۔‏ اگر ہم لوگوں کو اس فیصلے کی اہمیت سے آگاہ نہیں کریں گے تو اُن کا خون ہماری گردن پر ہوگا۔‏ امثال کی کتاب میں آگے بیان کِیا گیا ہے کہ ”‏اگر تُو کہے دیکھو ہم کو یہ معلوم نہ تھا تو کیا دلوں کو جانچنے والا یہ نہیں سمجھتا؟‏ اور کیا تیری جان کا نگہبان یہ نہیں جانتا؟‏ اور کیا وہ ہر شخص کو اُس کے کام کے مطابق اجر نہ دے گا؟‏“‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ کے خادم یہ بہانہ نہیں بنا سکیں گے کہ ”‏ہم کو یہ معلوم نہ تھا“‏ کہ لوگ کس خطرے میں تھے اور ان کو آگاہی دینا کتنا اہم تھا۔‏—‏امثا ۲۴:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

۲ یہوواہ خدا انسانوں کی زندگی کو بہت اہم خیال کرتا ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ اُس کے خادم دوسروں کی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔‏ اس لئے ہر مسیحی کی یہ ذمہ‌داری ہے کہ وہ خدا کے کلام میں پائے جانے والے پیغام کو لوگوں تک پہنچائے۔‏ ہماری ذمہ‌داری اُس نگہبان یا چوکیدار کی ذمہ‌داری جیسی ہے جو لوگوں کو کسی خطرے سے آگاہ کرتا ہے۔‏ بِلاشُبہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ اُن لوگوں کا خون ہماری گردن پر ہو جو بڑی مصیبت میں ہلاک ہونے کے خطرے میں ہیں۔‏ (‏حز ۳۳:‏۱-‏۷‏)‏ اس وجہ سے یہ بہت ہی اہم ہے کہ ہم سرگرمی سے ”‏کلام کی مُنادی“‏ کرتے رہیں۔‏—‏۲-‏تیم ۴:‏۱،‏ ۲،‏ ۵ کو پڑھیں۔‏

۳.‏ اِس مضمون میں اور اگلے دو مضامین میں کن موضوعات پر بات کی جائے گی؟‏

۳ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم اُن مشکلات سے کیسے نپٹ سکتے ہیں جن کا ہمیں منادی کے کام میں سامنا ہوتا ہے۔‏ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں تک خدا کا پیغام کیسے پہنچا سکتے ہیں۔‏ اگلے مضمون میں ہم اِس بات پر غور کریں گے کہ ہم خدا کے کلام کی تعلیم دینے کے سلسلے میں مہارت کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔‏ اور تیسرے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ جب یہوواہ کے گواہ بادشاہت کی منادی کرتے ہیں تو اِس کے کون سے اچھے نتائج نکلے ہیں۔‏ لیکن اس سے پہلے کہ ہم اِن موضوعات پر بات کریں آئیے دیکھیں کہ ہمارے زمانے میں حالات اتنے کٹھن کیوں ہیں۔‏

لوگ نااُمید کیوں ہیں؟‏

۴،‏ ۵.‏ (‏ا)‏ آجکل انسانوں کو کن حالات کا سامنا ہے؟‏ (‏ب)‏ ایسے حالات پر لوگوں کا کیا ردِعمل ہوتا ہے؟‏

۴ دُنیا کے بُرے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ ہم اُس زمانے میں رہ رہے ہیں جب ”‏دُنیا کے آخر ہونے“‏ کے نشان دکھائی دے رہے ہیں اور خاتمہ نزدیک ہے۔‏ یسوع اور اُس کے شاگردوں نے کہا تھا کہ ”‏اخیر زمانہ“‏ میں لوگوں کو ”‏مصیبتوں“‏ کا سامنا ہوگا۔‏ اور واقعی آجکل دُنیابھر میں لوگ قحط،‏ جنگوں اور زلزلوں جیسی دیگر مصیبتوں کا شکار ہیں۔‏ اس کے علاوہ بہت سے لوگ بغاوت کرتے ہیں اور خودغرض اور نافرمان بھی ہیں۔‏ اِن ’‏بُرے دنوں‘‏ میں تو ایسے لوگوں کو بھی طرح طرح کی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو خدا کے حکموں پر عمل کرتے ہیں۔‏—‏متی ۲۴:‏۳،‏ ۶-‏۸،‏ ۱۲؛‏ ۲-‏تیم ۳:‏۱-‏۵‏۔‏

۵ زیادہ‌تر لوگ اِس بات کو نہیں جانتے کہ دُنیا کے حالات کیوں بگڑ رہے ہیں۔‏ اس وجہ سے وہ اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لئے پریشان رہتے ہیں۔‏ جب اُن کا کوئی عزیز مر جاتا ہے یا اُن کی زندگی میں کوئی اَور آفت ٹوٹ پڑتی ہے تو وہ آزردہ ہو جاتے ہیں۔‏ اِن لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ اُنہیں اِن مصیبتوں اور مسئلوں کا سامنا کیوں ہے اور ان کا حل کیا ہے۔‏ اس لئے وہ نااُمید ہو جاتے ہیں۔‏—‏افس ۲:‏۱۲‏۔‏

۶.‏ ”‏بڑا شہر بابلؔ“‏ لوگوں کی پریشانی کو دُور کرنے میں کیوں ناکام رہا ہے؟‏

۶ ‏”‏بڑا شہر بابلؔ“‏ یعنی دُنیا کے تمام جھوٹے مذاہب لوگوں کی پریشانیوں کو دُور کرنے میں ناکام رہا ہے۔‏ اِسکی بجائے اُس کی ”‏حرامکاری کی مے“‏ سے لوگ روحانی طور پر متوالے ہو گئے ہیں یعنی خدا سے دُور ہو گئے ہیں۔‏ ایک کسبی کی طرح جھوٹے مذاہب کے رہنما ”‏زمین کے بادشاہوں“‏ سے میٹھی میٹھی باتیں کرکے اُنہیں اپنے قابو میں کرتے ہیں۔‏ وہ جھوٹے عقیدوں اور جادوگری کو فروغ دیتے ہیں جسکی وجہ سے قومیں خدا کی تابعداری کرنے کی بجائے حکومتوں کی حمایت کرتی ہیں۔‏ اس وجہ سے جھوٹے مذاہب نے بڑا اختیار حاصل کر لیا ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ اُنہوں نے سچے خدا کی عبادت کو بالکل ترک کر دیا ہے۔‏—‏مکا ۱۷:‏۱،‏ ۲،‏ ۵؛‏ ۱۸:‏۲۳‏۔‏

۷.‏ (‏ا)‏ زیادہ‌تر لوگوں کے ساتھ مستقبل میں کیا ہوگا؟‏ (‏ب)‏ کشادہ راستے پر چلنے والے کچھ لوگوں کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے؟‏

۷ یسوع مسیح نے کہا کہ زیادہ‌تر لوگ اُس کشادہ راستے پر چل رہے ہیں جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے۔‏ (‏متی ۷:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ بعض لوگ اس لئے کشادہ راستے پر چل رہے ہیں کیونکہ اُنہوں نے جان‌بوجھ کر خدا کے حکموں کو نہ ماننے کا فیصلہ کِیا ہے۔‏ لیکن کئی لوگ کشادہ راستے پر اس لئے چل رہے ہیں کیونکہ اُنہیں دھوکے میں رکھا گیا ہے اور اُنہیں معلوم نہیں کہ خدا کس قسم کی عبادت کو قبول کرتا ہے۔‏ اگر اِن لوگوں کو خدا اور اُس کے کلام کے بارے میں سکھایا جائے تو شاید وہ اپنی زندگی میں تبدیلیاں لانے کو تیار ہو جائیں۔‏ البتہ جب لوگ بڑے شہر بابل میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں یا پھر جب لوگ بائبل کی تعلیمات کو ترک کرتے ہیں تو وہ ”‏بڑی مصیبت“‏ میں ہلاک ہوں گے۔‏—‏مکا ۷:‏۱۴‏۔‏

‏’‏خوشخبری سنانے سے باز نہ آئیں‘‏

۸،‏ ۹.‏ (‏ا)‏ پہلی صدی میں مسیحیوں نے مخالفت کا سامنا کرتے وقت کیا کِیا؟‏ (‏ب)‏ اُنہوں نے ایسا ردِعمل کیوں دکھایا؟‏

۸ یسوع مسیح نے پیشینگوئی کی تھی کہ اُس کے پیروکار بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کریں گے اور شاگرد بنائیں گے۔‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ سچے مسیحیوں نے ہمیشہ اِس کام کو بڑی اہمیت دی کیونکہ اس میں حصہ لینے سے وہ خدا کے لئے اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔‏ اِس وجہ سے یسوع کے پیروکاروں نے مخالفت کا سامنا کرتے وقت بھی اِس کام کو نہیں چھوڑا۔‏ اُنہوں نے یہوواہ خدا کی قوت پر بھروسہ کِیا اور دُعا کی کہ خدا اُنہیں اپنا ’‏کلام کمال دلیری کے ساتھ سنانے‘‏ کی توفیق دے۔‏ یہوواہ خدا نے اُن کی دُعا قبول کی اور اُنہیں رُوحُ‌القدس سے بھر دیا۔‏ یوں وہ خدا کا کلام دلیری سے سناتے رہے۔‏—‏اعما ۴:‏۱۸،‏ ۲۹،‏ ۳۱‏۔‏

۹ جب مخالفین نے پہلی صدی میں مسیحیوں پر اذیت ڈھانا شروع کی تو کیا وہ منادی کرنے سے باز آ گئے؟‏ ہرگز نہیں۔‏ یہودیوں کے مذہبی پیشوا اِس بات پر بہت ناراض تھے کہ رسول،‏ یسوع کا نام لے کر لوگوں کو تعلیم دے رہے تھے۔‏ اس لئے اُنہوں نے رسولوں کو گرفتار کروا کر اُنہیں دھمکایا اور پٹوایا۔‏ لیکن رسول ”‏ہر روز تعلیم دینے اور اِس بات کی خوشخبری سنانے سے کہ یسوؔع ہی مسیح ہے باز نہ آئے۔‏“‏ وہ جانتے تھے کہ اُن پر ”‏آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔‏“‏—‏اعما ۵:‏۲۸،‏ ۲۹،‏ ۴۰-‏۴۲‏۔‏

۱۰.‏ (‏ا)‏ آجکل سچے مسیحیوں کو کن آزمائشوں کا سامنا ہے؟‏ (‏ب)‏ جب مسیحی اپنا چال‌چلن نیک رکھتے ہیں تو اِس کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے؟‏

۱۰ یہ سچ ہے کہ آجکل زیادہ‌تر یہوواہ کے گواہوں کو منادی کے کام کی وجہ سے نہ تو قید کِیا جاتا ہے اور نہ ہی مارا پیٹا جاتا ہے۔‏ لیکن تمام سچے مسیحیوں کو طرح طرح کی آزمائشوں کا سامنا ہوتا ہے۔‏ آپ نے خدا کے معیاروں پر چلنے کا فیصلہ کِیا ہے اس لئے آپ کی سوچ اور آپ کا چال‌چلن دوسرے لوگوں سے فرق ہے۔‏ اور اِس وجہ سے شاید کئی لوگ آپ کو ناپسند کریں۔‏ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کے ساتھ ملازمت کرنے والے لوگ،‏ ہم جماعت یا پڑوسی آپ کو عجیب نظروں سے دیکھیں کیونکہ آپ ہر معاملے میں خدا کے معیاروں کے مطابق چلتے ہیں۔‏ اِس وجہ سے شاید وہ آپ کا مذاق اُڑائیں یا آپ کو بُرابھلا کہیں لیکن اُن کے رویے سے ہمت نہ ہاریں۔‏ یاد رکھیں کہ دُنیا روحانی لحاظ سے اندھیرے میں ہے جبکہ سچے مسیحیوں کو ”‏دُنیا میں چراغوں کی طرح دِکھائی“‏ دینا چاہئے۔‏ (‏فل ۲:‏۱۵‏)‏ اگر آپ اپنا چال‌چلن نیک رکھیں گے تو ہو سکتا ہے کہ خلوص‌دل لوگ اِس سے متاثر ہو کر خدا کی تمجید کرنے لگیں۔‏—‏متی ۵:‏۱۶ کو پڑھیں۔‏

۱۱.‏ (‏ا)‏ جب ہم بادشاہت کی مُنادی کرتے ہیں تو بعض لوگ کیسا ردِعمل دکھاتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ پولس رسول کی مخالفت کیسے کی گئی؟‏ (‏پ)‏ اُس نے اِس مخالفت پر کیسا ردِعمل دکھایا؟‏

۱۱ بادشاہت کی مُنادی کرنے کے لئے ہمیں دلیر بننا ہوگا۔‏ شاید آپ کے رشتہ‌دار یا دوسرے لوگ آپ کا مذاق اُڑائیں اور آپ کو اِس کام سے روکنے کی کوشش کریں۔‏ (‏متی ۱۰:‏۳۶‏)‏ پولس رسول وفاداری سے لوگوں کو خوشخبری سناتا رہا جس کی وجہ سے اُسے اکثر مارا پیٹا گیا۔‏ اس پر اُس کا کیا ردِعمل ہوتا تھا؟‏ اُس نے کہا کہ ”‏دُکھ اُٹھانے اور بےعزت ہونے کے [‏باوجود]‏ ہم کو اپنے خدا میں یہ دلیری حاصل ہوئی کہ خدا کی خوشخبری بڑی جانفشانی سے تمہیں سنائیں۔‏“‏ (‏۱-‏تھس ۲:‏۲‏)‏ پولس رسول کو گرفتار کِیا گیا،‏ اُس کے کپڑے پھاڑے گئے،‏ اُسے بینت لگائے گئے اور اُسے قید کر دیا گیا۔‏ بِلاشُبہ اِس صورتحال میں اُس کے لئے خوشخبری سنانے کا کام جاری رکھنا آسان نہ تھا۔‏ (‏اعما ۱۶:‏۱۹-‏۲۴‏)‏ اس کے باوجود اُس نے اِس کام کو دلیری سے جاری رکھا۔‏ اُسے یہ دلیری اس لئے حاصل ہوئی کیونکہ وہ خدا کا کلام سنانے کی دلی خواہش رکھتا تھا۔‏—‏۱-‏کر ۹:‏۱۶‏۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ (‏ا)‏ مسیحیوں کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟‏ (‏ب)‏ مسیحی اِن مشکلات سے کیسے نپٹ پائے ہیں؟‏

۱۲ شاید ہمیں منادی کے کام میں حصہ لینا اُس وقت بھی مشکل لگے جب زیادہ‌تر لوگ گھر پر نہیں ملتے یا پھر جب وہ ہمارے پیغام میں دلچسپی نہیں لیتے۔‏ اِس صورت میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏ ہمیں دلیر بننے کی ضرورت ہے تاکہ جب بھی موقع ملے ہم لوگوں کو خدا کی بادشاہت کے بارے میں بتائیں۔‏ شاید ہمیں اپنے معمول میں تبدیلیاں لانی پڑیں تاکہ ہم دوسرے اوقات پر منادی کے کام میں حصہ لے سکیں۔‏ یا پھر ہم خوشخبری سنانے کے لئے ایسے علاقوں میں جا سکتے ہیں جہاں لوگوں سے ملاقات کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔‏—‏یوح ۴:‏۷-‏۱۵؛‏ اعما ۱۶:‏۱۳؛‏ ۱۷:‏۱۷ پر غور کریں۔‏

۱۳ کئی مسیحی بڑھاپے یا پھر بیماری کی وجہ سے منادی کے کام میں اِس حد تک حصہ نہیں لے سکتے جتنا کہ وہ پہلے حصہ لیتے تھے۔‏ اگر یہ آپ کے بارے میں بھی سچ ہے تو ہمت نہ ہاریں۔‏ یہوواہ خدا آپ کی صورتحال کو بخوبی جانتا ہے۔‏ آپ اُس کی خدمت میں جتنا کچھ کر سکتے ہیں وہ اِس کی قدر کرتا ہے۔‏ (‏۲-‏کر ۸:‏۱۲ کو پڑھیں۔‏)‏ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے مسیحیوں کو مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا ہے۔‏ لیکن چاہے آپ کو کسی بھی مشکل کا سامنا ہو اس بات کی ٹھان لیں کہ آپ اپنے حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے دل‌وجان سے منادی کے کام میں حصہ لیں گے۔‏—‏امثا ۳:‏۲۷‏؛‏ اس کے علاوہ مرقس ۱۲:‏۴۱-‏۴۴ پر غور کریں۔‏

‏’‏ہوشیاری کے ساتھ خدمت انجام دیتے رہیں‘‏

۱۴.‏ (‏ا)‏ پولس رسول نے دوسرے مسیحیوں کے لئے کونسی اچھی مثال قائم کی؟‏ (‏ب)‏ پولس رسول نے ارخپس کو کونسی ہدایت دی؟‏

۱۴ پولس رسول بادشاہت کی منادی کرنے کی اہمیت کو جانتا تھا۔‏ وہ خود اِس کام میں جوش‌وخروش سے حصہ لیتا تھا اور دوسروں کی بھی حوصلہ‌افزائی کرتا تھا کہ وہ اِس کام میں دل‌وجان سے حصہ لیں۔‏ (‏اعما ۲۰:‏۲۰،‏ ۲۱؛‏ ۱-‏کر ۱۱:‏۱‏)‏ اِس سلسلے میں اُس نے ارخپس نامی ایک مسیحی کی بھی حوصلہ‌افزائی کی۔‏ شہر کُلسّے کے مسیحیوں کے نام خط میں اُس نے لکھا:‏ ”‏ارخپسؔ سے کہنا کہ جو خدمت خداوند میں تیرے سپرد ہوئی ہے اُسے ہوشیاری کے ساتھ انجام دے۔‏“‏ (‏کل ۴:‏۱۷‏)‏ ہم نہیں جانتے کہ ارخپس کون تھا اور اُسے کن حالات کا سامنا تھا۔‏ لیکن اُس نے بادشاہت کی منادی کے سلسلے میں ایک خاص ذمہ‌داری قبول کی تھی۔‏ اسی طرح جب ہم نے خود کو یہوواہ خدا کے لئے وقف کِیا تھا تو ہم نے بھی منادی کرنے کی ذمہ‌داری قبول کی تھی۔‏ کیا آپ اِس خدمت کو ہوشیاری سے انجام دے رہے ہیں جو آپ کے سپرد ہوئی ہے؟‏

۱۵.‏ (‏ا)‏ بپتسمہ لینے سے پہلے ہم نے یہوواہ خدا سے کیا کرنے کا وعدہ کِیا تھا؟‏ (‏ب)‏ اِس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہمیں خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

۱۵ بپتسمہ لینے سے پہلے ہم نے یہوواہ خدا سے وعدہ کِیا تھا کہ آئندہ ہم اُس کی مرضی کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیں گے۔‏ لہٰذا ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ”‏کیا مَیں خدا کی مرضی بجا لانے کو اپنی زندگی میں واقعی پہلا درجہ دے رہا ہوں؟‏“‏ یہ بات درست ہے کہ ہماری اَور بھی ذمہ‌داریاں ہوتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر یہوواہ خدا نے ہمیں اپنے خاندان کی ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ‌داری سونپی ہے۔‏ (‏۱-‏تیم ۵:‏۸‏)‏ لیکن ایسا کرنے کے بعد جو وقت بچتا ہے اِس میں ہم کیا کرتے ہیں؟‏ ہم اپنی زندگی میں کن باتوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں؟‏—‏۲-‏کر ۵:‏۱۴،‏ ۱۵ کو پڑھیں۔‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ جن مسیحیوں پر دوسروں کی ضروریات پورا کرنے کی ذمہ‌داری نہیں ہے وہ کیا کرنے کا ارادہ کر سکتے ہیں؟‏

۱۶ کیا آپ ایک ایسے نوجوان ہیں جس نے بپتسمہ لے لیا ہے اور آپ اپنی پڑھائی بھی مکمل کرنے والے ہیں؟‏ یا پھر کیا آپ نے حال ہی میں اپنی پڑھائی مکمل کی ہے؟‏ اِس عمر میں زیادہ‌تر نوجوانوں کو خاندان کی دیکھ‌بھال کرنے کی ذمہ‌داری نہیں اُٹھانی پڑتی۔‏ اگر یہ آپ کے بارے میں بھی سچ ہے تو آپ آئندہ کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟‏ آپ نے یہوواہ خدا کی دل‌وجان سے خدمت کرنے کا جو وعدہ کِیا ہے اس کو پورا کرنے کے لئے آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏ بہت سے نوجوانوں نے کُل‌وقتی طور پر یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کا فیصلہ کِیا ہے۔‏ اِس خدمت میں وہ بڑی خوشی اور اطمینان محسوس کرتے ہیں۔‏—‏زبور ۱۱۰:‏۳؛‏ واعظ ۱۲:‏۱‏۔‏

۱۷ کیا آپ جوان ہیں اور ملازمت کر رہے ہیں؟‏ کیا آپ پر کسی دوسرے کی مالی ضروریات پورا کرنے کی ذمہ‌داری نہیں ہے؟‏ یقیناً آپ خوشی سے اجلاسوں پر حاضر ہوتے اور منادی کے کام میں حصہ لیتے ہیں۔‏ لیکن کیا آپ اِس خوشی کو بڑھانے کے لئے خدا کی خدمت میں زیادہ وقت صرف کر سکتے ہیں؟‏ (‏زبور ۳۴:‏۸؛‏ امثا ۱۰:‏۲۲‏)‏ کئی علاقوں میں بادشاہت کا پیغام کم ہی لوگوں کو سنایا گیا ہے۔‏ کیا آپ اپنی زندگی میں تبدیلیاں لا کر ایک ایسے علاقے میں خدمت کر سکتے ہیں؟‏—‏۱-‏تیم ۶:‏۶-‏۸ کو پڑھیں۔‏

۱۸.‏ ایک شادی‌شُدہ جوڑے نے اپنی زندگی میں کونسی تبدیلیاں لائیں اور اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟‏

۱۸ ذرا کیوِن اور ایلنا نامی ایک شادی‌شُدہ جوڑے کی مثال پر غور کریں جو امریکہ کے رہنے والے ہیں۔‏ * اُن کے علاقے میں جوان لوگ عام طور پر شادی کرتے ہی اپنے لئے گھر خرید لیتے ہیں۔‏ لہٰذا اُنہوں نے بھی ایسا ہی کِیا۔‏ وہ دونوں دن‌بھر ملازمت کرتے تھے۔‏ اُنہیں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔‏ لیکن ملازمت اور گھریلو کاموں کی وجہ سے اُن کے پاس بادشاہت کی مُنادی کرنے کے لئے کم ہی وقت بچتا۔‏ اُنہیں یہ احساس ہوا کہ وہ اپنا وقت اور اپنی قوت مال‌ودولت حاصل کرنے کے لئے ہی صرف کر رہے ہیں۔‏ پھر اُنہوں نے ایک ایسے شادی‌شُدہ جوڑے کو دیکھا جو سادہ زندگی گزارنے کی وجہ سے کُل‌وقتی طور پر یہوواہ خدا کی خدمت کر رہا تھا۔‏ یہ جوڑا بہت ہی خوش نظر آتا تھا۔‏ یہ دیکھ کر اُنہوں نے اپنی زندگی میں تبدیلیاں لانے کا پکا ارادہ کر لیا۔‏ دُعا کرنے کے بعد اُنہوں نے اپنا گھر بیچنے کا فیصلہ کِیا اور ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہنے لگے۔‏ پھر ایلنا ملازمت کرنے میں کم وقت صرف کرنے لگی۔‏ اس کے نتیجے میں وہ کُل‌وقتی طور پر خدمت کرنے کے قابل ہو گئی۔‏ جب کیوِن نے دیکھا کہ ایلنا اس خدمت میں کتنی خوشی حاصل کر رہی ہے تو اُس نے بھی دوسری ملازمت تلاش کی اور اِس خدمت میں ایلنا کا ساتھ دیا۔‏ اس کے کچھ عرصے بعد وہ دونوں جنوبی امریکہ کے ایک ایسے ملک میں جا کر رہنے لگے جہاں یہوواہ کے گواہوں کی تعداد کم ہے۔‏ کیوِن کہتا ہے کہ ”‏ہماری شادی شروع ہی سے بڑی کامیاب گزر رہی تھی۔‏ لیکن جب سے ہم دونوں نے خدا کی خدمت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینا شروع کِیا ہے ہماری خوشی دوبالا ہو گئی ہے۔‏“‏—‏متی ۶:‏۱۹-‏۲۲ کو پڑھیں۔‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ اِس زمانے میں بادشاہت کی خوشخبری سنانا سب سے اہم کام کیوں ہے؟‏

۱۹ دُنیا میں اِس سے زیادہ اہم اَور کوئی کام نہیں کہ لوگوں کو بادشاہت کی خوشخبری سنائی جائے۔‏ (‏مکا ۱۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ اِس کام سے یہوواہ خدا کے نام کی بڑائی ہوتی ہے۔‏ (‏متی ۶:‏۹‏)‏ ہر سال ہزاروں لوگ خوشخبری کو سُن کر سچے خدا کی عبادت کرنے لگتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے اُن کی زندگی میں بہتری آتی ہے اور وہ نجات حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہیں۔‏ لیکن پولس رسول نے سوال کِیا کہ لوگ ”‏بغیر مُنادی کرنے والے کے کیونکر سنیں؟‏“‏ (‏روم ۱۰:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ واقعی جب تک خوشخبری کی منادی نہیں کی جائے گی لوگ سچے خدا کی عبادت کرنے کی اہمیت کو کیسے جان سکیں گے؟‏ اِس لئے آئیں ہم بادشاہت کی منادی کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینے اور دل‌وجان سے خدا کی خدمت کرنے کی ٹھان لیں۔‏

۲۰ ہمیں بائبل کی تعلیم دینے میں مہارت حاصل کرنے کی بھی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔‏ اِس طرح ہم لوگوں کو بہتر طور پر بتا سکیں گے کہ ہم اخیر زمانے میں رہ رہے ہیں اور اُنہیں نجات حاصل کرنے کے لئے کون سے قدم اُٹھانے چاہئیں۔‏ اِس لئے ہم اگلے مضمون میں اِس بات پر غور کریں گے کہ ہم خدا کے کلام کی تعلیم دینے کے سلسلے میں مہارت کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 18 نام بدل دئے گئے ہیں۔‏

آپ کا جواب کیا ہوگا؟‏

‏• مسیحیوں پر کونسی اہم ذمہ‌داری آتی ہے؟‏

‏• جب ہمیں منادی کرتے وقت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

‏• ہم نے بپتسمہ لیتے وقت کس خدمت کو قبول کِیا تھا اور ہم اِسے کیسے پورا کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

مخالفت کا سامنا کرتے وقت بھی بادشاہت کی مُنادی کو جاری رکھنے کے لئے مسیحیوں کو دلیر بننے کی ضرورت ہے

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

جس علاقے میں آپ مُنادی کرتے ہیں اگر وہاں کم ہی لوگ گھر پر ملتے ہیں تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏