مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کا کلام زندہ ہے متی کی کتاب سے اہم نکات

یہوواہ کا کلام زندہ ہے متی کی کتاب سے اہم نکات

یہوواہ کا کلام زندہ ہے

متی کی کتاب سے اہم نکات

متی رسول نے سب سے پہلے یسوع مسیح کی زندگی اور خدمتگزاری کی بابت دلچسپ واقعات تحریر کئے۔‏ اگرچہ پہلے وہ محصول لینے والا تھا مگر بعدازاں،‏ یسوع کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گیا۔‏ متی کی انجیل اصل میں عبرانی زبان میں لکھی گئی۔‏ لیکن بعد میں اِس کا ترجمہ یونانی زبان میں کِیا گیا۔‏ یہ تقریباً ۴۱ عیسوی میں مکمل ہوئی۔‏ یہ کتاب عبرانی صحائف کو مسیحی یونانی صحائف سے جوڑنے کے لئے ایک پُل کا کام دیتی ہے۔‏

متی کی انجیل خاص طور پر یہودیوں کے لئے لکھی گئی تھی۔‏ یہ مؤثر کتاب خدا کے بیٹے اور موعودہ مسیحا کے طور پر یسوع مسیح کے کردار کو نمایاں کرتی ہے۔‏ متی کی انجیل کے پیغام پر دھیان دینا سچے خدا یہوواہ اور اُس کے بیٹے یسوع پر ہمارے ایمان کو مضبوط کرے گا۔‏ نیز،‏ اِس سے خدا کے وعدوں پر ہمارے اعتماد کو تقویت ملے گی۔‏—‏عبر ۴:‏۱۲‏۔‏

‏”‏آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے“‏

‏(‏متی ۱:‏۱–‏۲۰:‏۳۴‏)‏

متی رسول بادشاہت کے موضوع اور یسوع مسیح کی تعلیمات کو واضح طور پر بیان کرنے کے لئے تاریخی ترتیب کی پابندی نہیں کرتا۔‏ مثال کے طور،‏ پہاڑی وعظ کا ذکر کتاب کے شروع میں کِیا گیا ہے جبکہ یسوع مسیح نے اِسے اپنی خدمتگزاری کے تقریباً ایک سال بعد پیش کِیا تھا۔‏

گلیل میں اپنی خدمتگزاری کے دوران یسوع نے معجزات کئے،‏ ۱۲ رسولوں کو خدمتگزاری کے بارے میں ہدایات دیں،‏ فریسیوں کو ملامت کی اور بادشاہت سے متعلق تمثیلیں پیش کیں۔‏ اِس کے بعد وہ ”‏گلیلؔ سے روانہ ہوکر یرؔدن کے پار یہوؔدیہ کی سرحدوں میں“‏ آ جاتا ہے۔‏ (‏متی ۱۹:‏۱‏)‏ راستے میں یسوع اپنے شاگردوں سے کہتا ہے:‏ ’‏دیکھو ہم یروشلیم کو جا رہے ہیں وہاں ابنِ‌آدم کو قتل کر دیا جائے گا لیکن وہ تیسرے دن زندہ کِیا جائے گا۔‏‘‏—‏متی ۲۰:‏۱۸،‏ ۱۹‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۳:‏۱۶‏—‏کس مفہوم میں یسوع کے بپتسمے کے وقت ”‏آسمان کھل گیا“‏؟‏ اِس کا مطلب ہے کہ یسوع مسیح کو اپنی آسمانی زندگی یاد آ گئی تھی جو وہ انسان بننے سے پہلے گزار چکا تھا۔‏

۵:‏۲۱،‏ ۲۲‏—‏اپنا غصہ نکال دینا اِسے دل میں رکھنے سے زیادہ سنجیدہ بات کیوں ہے؟‏ یسوع مسیح نے آگاہ کِیا کہ جو شخص اپنے بھائی کے خلاف غصے کو دل میں رکھتا ہے دراصل وہ سنگین گناہ کرتا ہے۔‏ مگر غصے کے اظہار میں سخت الفاظ کہنا اِس سے بھی زیادہ سنجیدہ بات ہے۔‏ کیونکہ اِس کی وجہ سے کسی شخص کی عدالت میں جواب‌طلبی ہو سکتی ہے۔‏

۵:‏۴۸‏—‏کیا ہمارے لئے اپنے آسمانی باپ کی طرح ”‏کامل“‏ ہونا ممکن ہے؟‏ جی‌ہاں،‏ کسی حد تک یہ ممکن ہے۔‏ جب یسوع مسیح نے یہ کہا تو اُس وقت وہ محبت کے موضوع پر بات کر رہا تھا۔‏ اُس نے اپنے سننے والوں سے کہا کہ خدا کی نقل کرتے ہوئے محبت میں کامل ہو جائیں۔‏ (‏متی ۵:‏۴۳-‏۴۷‏)‏ مگر وہ یہ کیسے کر سکتے تھے؟‏ اپنے دُشمنوں سے بھی محبت رکھنے سے وہ ایسا کر سکتے تھے۔‏

۷:‏۱۶‏—‏کونسے ”‏پھل“‏ سچے مذہب کی شناخت کراتے ہیں؟‏ اِن پھلوں میں ہمارے چال‌چلن سے زیادہ کچھ شامل ہے۔‏ اِن میں ہمارے عقائد یعنی وہ تعلیمات بھی شامل ہیں جن کی ہم پابندی کرتے ہیں۔‏

۱۰:‏۳۴-‏۳۸‏—‏کیا خاندان کے اندر تقسیم کا الزام اِس صحیفے پر لگایا جا سکتا ہے؟‏ ہرگز نہیں۔‏ جو لوگ ہمارے ہم‌ایمان نہیں اُن کی طرف سے اُٹھائے جانے والے اقدام خاندان کے اندر تقسیم کا باعث بنتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏اُنکے مسیحیت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے خاندان تقسیم ہو سکتے ہیں۔‏—‏لو ۱۲:‏۵۱-‏۵۳‏۔‏

۱۱:‏۲-‏۶‏—‏اگر خدا کی آواز سننے کی وجہ سے یوحنا پہلے ہی سے جانتا تھا کہ یسوع مسیحا ہے توپھر اُس نے یسوع سے یہ کیوں پچھوایا کہ ”‏آنے والا تُو ہی ہے“‏؟‏ غالباً یوحنا نے یسوع کی زبانی اِس بات کی تصدیق کرنے کے لئے یہ پچھوایا تھا۔‏ مزیدبرآں،‏ یوحنا یہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا کوئی ’‏دوسرا‘‏ شخص ہے جو بادشاہتی اختیار کے ساتھ آئے گا اور یہودیوں کی سب اُمیدوں کو پورا کرے گا۔‏ لیکن یسوع کے جواب نے ظاہر کر دیا کہ اُس کے علاوہ کوئی اَور نہیں آئے گا۔‏

۱۹:‏۲۸‏—‏’‏اسرائیل کے بارہ قبیلے‘‏ جن کا انصاف کِیا جائے گا،‏ کس کی نمائندگی کرتے ہیں؟‏ یہ روحانی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔‏ (‏گل ۶:‏۱۶؛‏ مکا ۷:‏۴-‏۸‏)‏ یسوع جن رسولوں سے بات کر رہا تھا،‏ وہ روحانی اسرائیل کا حصہ بننے والے تھے۔‏ لیکن وہ روحانی اسرائیل کے ارکان کے منصف نہیں تھے۔‏ یسوع مسیح نے اُن سے ’‏بادشاہی کا عہد‘‏ باندھا اور اُنہیں خدا کے لئے ایک بادشاہی اور کاہن ہونا تھا۔‏ (‏لو ۲۲:‏۲۸-‏۳۰؛‏ مکا ۵:‏۱۰‏)‏ روحانی اسرائیل کو ”‏دُنیا کا انصاف“‏ کرنا تھا۔‏ (‏۱-‏کر ۶:‏۲‏)‏ پس،‏ ’‏اسرائیل کے بارہ قبیلے‘‏ جن کا انصاف آسمان میں تختوں پر بیٹھنے والے کریں گے وہ عام انسانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔‏ یہ لوگ اُن شاہی کاہنوں کی جماعت کا حصہ نہیں ہیں جن کی تصویرکشی احبار ۱۶ باب میں یومِ‌کفارہ پر حاضر ۱۲ قبیلوں سے کی گئی ہے۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۴:‏۱-‏۱۰‏۔‏ یہ سرگزشت ہمیں سکھاتی ہے کہ شیطان ایک حقیقی ہستی ہے نہ کہ بدی کی کوئی کیفیت۔‏ وہ ہمیں آزمانے کے لئے ”‏جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی“‏ کو استعمال کرتا ہے۔‏ تاہم،‏ صحیفائی اصولوں کا اطلاق ہمیں خدا کا وفادار رہنے میں مدد دے گا۔‏—‏۱-‏یوح ۲:‏۱۶‏۔‏

۵:‏۱–‏۷:‏۲۹‏۔‏ اپنی روحانی ضروریات سے باخبر رہیں۔‏ صلح‌پسند بنیں۔‏ بُری سوچ سے دُور رہیں۔‏ اپنے وعدوں کو پورا کریں۔‏ دُعا کرتے وقت مادی ضروریات کی بجائے روحانی معاملات کو ترجیح دیں۔‏ خدا کے نزدیک دولتمند بنیں۔‏ پہلے خدا کی بادشاہی اور راستبازی کی تلاش کریں۔‏ عیب‌جوئی نہ کریں۔‏ خدا کی مرضی کو پورا کریں۔‏ واقعی،‏ یسوع کے پہاڑی وعظ میں کتنے عملی اسباق شامل ہیں!‏

۹:‏۳۷،‏ ۳۸‏۔‏ ہمیں مالک یعنی یہوواہ خدا سے اپنی اِس درخواست کہ ”‏اپنی فصل کاٹنے کے لئے مزدور بھیج دے“‏ کی مطابقت میں عمل کرنا اور سرگرمی سے شاگرد بنانے کے کام میں حصہ لینا چاہئے۔‏—‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

۱۰:‏۳۲،‏ ۳۳‏۔‏ ہمیں کبھی بھی اپنے ایمان کا اظہار کرتے وقت ڈرنا نہیں چاہئے۔‏

۱۳:‏۵۱،‏ ۵۲‏۔‏ جب ہم بادشاہتی سچائیوں کو سمجھ جاتے ہیں تو پھر یہ ہماری ذمہ‌داری ہے کہ دوسروں کو اِن کے بارے میں بتائیں اور تعلیم دیں۔‏

۱۴:‏۱۲،‏ ۱۳،‏ ۲۳‏۔‏ بامقصد غوروخوض کے لئے پُرسکون ماحول بہت ضروری ہے۔‏—‏مر ۶:‏۴۶؛‏ لو ۶:‏۱۲‏۔‏

۱۷:‏۲۰‏۔‏ ہمیں روحانی ترقی کی راہ میں حائل پہاڑنما رکاوٹوں اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے ایمان کی ضرورت ہے۔‏ اِس لئے ہمیں یہوواہ خدا اور اُس کے وعدوں پر اپنے ایمان کو ہمیشہ مضبوط رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏—‏مر ۱۱:‏۲۳؛‏ لو ۱۷:‏۶‏۔‏

۱۸:‏۱-‏۴؛‏ ۲۰:‏۲۰-‏۲۸‏۔‏ انسانی ناکاملیت اور اعلیٰ مرتبے پر زور دینے والے مذہبی پس‌منظر نے یسوع کے شاگردوں کو بڑا بننے کی بابت حد سے زیادہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔‏ لہٰذا،‏ ہمیں گنہگارانہ رُجحانات کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے اندر فروتنی کی خوبی کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‏ نیز،‏ ہمیں کلیسیا میں ملنے والے شرف اور ذمہ‌داریوں کے بارے میں بھی مناسب نقطۂ‌نظر رکھنا چاہئے۔‏

‏”‏ابنِ‌آدم مصلوب ہونے کو پکڑوایا جائے گا“‏

‏(‏متی ۲۱:‏۱–‏۲۸:‏۲۰‏)‏

یسوع مسیح ۹ نیسان،‏ ۳۳ عیسوی کو ”‏گدھے پر سوار“‏ ہو کر یروشلیم میں آیا۔‏ (‏متی ۲۱:‏۵‏)‏ اگلے دن وہ ہیکل میں گیا اور اُسے پاک‌صاف کِیا۔‏ اُس نے ۱۱ نیسان کو ہیکل میں تعلیم دی،‏ فقیہوں اور فریسیوں کو ملامت کی اور اِس کے بعد اپنے شاگردوں کو ”‏[‏اپنے]‏ آنے اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان“‏ بتایا۔‏ (‏متی ۲۴:‏۳‏)‏ اگلے دن اُس نے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏تُم جانتے ہو کہ دو دن کے بعد عیدِفسح ہوگی اور ابنِ‌آدم مصلوب ہونے کو پکڑوایا جائے گا۔‏“‏—‏متی ۲۶:‏۱،‏ ۲‏۔‏

یہ ۱۴ نیسان ہے۔‏ اپنی آنے والی موت کی یادگار کو رائج کرنے کے بعد یسوع کو دھوکے سے پکڑوایا جاتا ہے،‏ اُس پر مقدمہ چلایا جاتا ہے اور بالآخر سولی دے دیا جاتا ہے۔‏ تیسرے دن اُسے مُردوں میں سے زندہ کر دیا جاتا ہے۔‏ آسمان پر جانے سے پہلے قیامت‌یافتہ یسوع اپنے شاگردوں کو حکم دیتا ہے:‏ ”‏تُم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناؤ۔‏“‏—‏متی ۲۸:‏۱۹‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۲۲:‏۳،‏ ۴،‏ ۹‏—‏شادی کی ضیافت کے لئے تین بلاوے کب دئے جاتے ہیں؟‏ دلہن جماعت کو جمع کرنے کے لئے پہلا بلاوا ۲۹ عیسوی میں دیا گیا جب یسوع مسیح اور اُس کے شاگردوں نے منادی کا کام شروع کِیا اور یہ بلاوا ۳۳ عیسوی تک جاری رہا۔‏ دوسرا بلاوا ۳۳ عیسوی پنتِکُست میں رُوح‌اُلقدس کے نزول سے لے کر ۳۶ عیسوی تک جاری رہا۔‏ دونوں بلاوے براہِ‌راست یہودیوں،‏ نومُرید یہودیوں اور سامریوں کے لئے تھے۔‏ تاہم،‏ تیسرا بلاوا غیریہودیوں کے لئے تھا جوکہ ۳۶ عیسوی میں رومی فوج کے افسر کُرنیلیس کے ساتھ بات‌چیت سے شروع ہوا اور آج ہمارے زمانے تک جاری ہے۔‏

۲۳:‏۱۵‏—‏فریسیوں کے مقابلے میں نومُرید ’‏دُونے جہنم کے فرزند‘‏ کیوں تھے؟‏ ہو سکتا ہے کہ فریسیوں کے مُرید بننے والے بعض اشخاص پہلے ہی سے بہت گنہگار ہوں۔‏ تاہم،‏ فریسیوں کی طرح انتہاپسند بننے سے اُن کی حالت اَور زیادہ بُری ہوگئی۔‏ شاید وہ اپنے سزا کے لائق اُستادوں سے بھی زیادہ انتہاپسند بن گئے ہوں۔‏ لہٰذا،‏ فریسیوں کے مقابلے میں نومُرید ’‏دُونے جہنم کے فرزند‘‏ تھے۔‏

۲۷:‏۳-‏۵‏—‏یہوداہ کس بات پر پچھتایا؟‏ اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ یہوداہ حقیقی توبہ کی وجہ سے پشیمان تھا۔‏ اپنے گناہ کے لئے خدا سے معافی مانگنے کی بجائے اُس نے سردار کاہنوں اور بزرگوں کے سامنے اپنے گناہ کا اقرار کِیا۔‏ ایسا گناہ کرنے کے بعد ”‏جس کا نتیجہ موت“‏ تھا یہوداہ جُرم اور مایوسی کے احساسات سے مغلوب تھا۔‏ (‏۱-‏یوح ۵:‏۱۶‏)‏ وہ اپنی نااُمیدی یا مایوسی کی حالت پر پچھتایا تھا۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۲۱:‏۲۸-‏۳۱‏۔‏ یہوواہ خدا کے نزدیک اہم بات یہ ہے کہ ہم اُس کی مرضی کو پورا کریں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ہمیں بادشاہت کی منادی کرنے اور شاگرد بنانے کے کام میں سرگرمی سے حصہ لینا چاہئے۔‏—‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

۲۲:‏۳۷-‏۳۹‏۔‏ اِن آیات میں درج دو بڑے احکام کتنے مختصر انداز میں بیان کرتے ہیں کہ خدا اپنے پرستاروں سے کیا تقاضا کرتا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

کیا آپ سرگرمی سے کٹائی کے کام میں حصہ لے رہے ہیں؟‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

2003 BiblePlaces.com ©

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

متی بادشاہت کے موضوع کو اُجاگر کرتا ہے