بنیاسرائیل کی غلطیوں سے سیکھیں
بنیاسرائیل کی غلطیوں سے سیکھیں
جب بنیاسرائیل موعودہ مُلک میں داخل ہوئے تو وہ یہوواہ خدا کے حکموں سے اچھی طرح سے واقف تھے۔ موسیٰ کے ذریعے خدا نے حکم کِیا تھا: ”تُم اُس مُلک کے سب باشندوں کو وہاں سے نکال دینا اور اُن کے شبِیہدار پتھروں کو اور اُن کے ڈھالے ہوئے بُتوں کو توڑ ڈالنا اور اُن کے سب اُونچے مقاموں کو مسمار کر دینا۔“—گن ۳۳:۵۲۔
بنیاسرائیل کو مُلک کے باشندوں یعنی کنعانیوں سے نہ تو امن کا معاہدہ کرنا تھا اور نہ ہی اُن سے بیاہ شادی کرنی تھی۔ (است ۷:۲، ۳) خدا نے اپنے لوگوں سے کہا تھا: ”خبردار رہنا کہ جس مُلک کو تُو جاتا ہے اُس کے باشندوں سے کوئی عہد نہ باندھنا۔ اَیسا نہ ہو کہ وہ تیرے لئے پھندا ٹھہرے۔“ (خر ۳۴:۱۲) لیکن بنیاسرائیل نے خدا کے اِس حکم پر عمل نہیں کِیا اور وہ بدکاری کے پھندے میں پھنس گئے۔ اُن کے گمراہ ہونے کا باعث کِیا تھا؟ ہم اُن کی غلطیوں سے کونسے سبق سیکھ سکتے ہیں؟—۱-کر ۱۰:۱۱۔
بُتپرستوں کے ساتھ دوستی
جب بنیاسرائیل موعودہ مُلک پر قبضہ کرنے لگے تو شروع میں وہ اِس مُلک کے باشندوں پر فتحمند رہے۔ لیکن اسرائیلیوں نے خدا کے اِس حکم پر عمل نہیں کِیا کہ وہ تمام دُشمنوں کو مُلک سے نکالیں۔ (قضا ۱:۱–۲:۱۰) جب وہ موعودہ مُلک میں رہنے لگے تو اُن کے بیچ وہ ”ساتوں قومیں“ بھی موجود تھیں جنہیں ان کو اُس مُلک سے نکال لینا چاہئے تھا۔ (است ۷:۱) وہ اِن قوموں کے ساتھ میلجول رکھتے تھے اور اُن کے ساتھ دوستیاں بھی کرتے تھے۔ اِس کا اسرائیلیوں پر کیسا اثر پڑا؟ بائبل میں لکھا ہے: ”بنیاسرائیل . . . اُن کی بیٹیوں سے آپ نکاح کرنے اور اپنی بیٹیاں اُن کے بیٹوں کو دینے اور اُن کے دیوتاؤں کی پرستش کرنے لگے۔ اور بنیاسرائیل نے [یہوواہ] کے آگے بدی کی اور [یہوواہ] اپنے خدا کو بھول کر بعلیم اور یسیرتوں کی پرستش کرنے لگے۔“ (قضا ۳:۵-۷) مُلک کے باشندوں سے میلجول رکھنے کے نتیجے میں بنیاسرائیل اِن کے ساتھ رشتہداری قائم کرنے لگے۔ لہٰذا اِس بات کا کم ہی امکان تھا کہ وہ بُتپرستوں کو مُلک سے نکالیں گے۔ آخرکار بنیاسرائیل خود بھی بُتوں کی پرستش کرنے لگے۔
جب مُلک کے باشندے اسرائیلیوں کے دُشمن تھے تو وہ ان کے لئے اتنے خطرناک نہیں تھے جتنے کہ وہ بنیاسرائیل کے دوستوں کے طور پر خطرناک ثابت ہوئے کیونکہ دوستوں کے بھیس میں وہ اسرائیلیوں کی سوچ بگاڑنے لگے۔ اس طرح بنیاسرائیل خدا کی خوشنودی سے محروم ہو گئے۔ آئیں اب ہم ایک اَور طریقے پر غور کریں جس سے کنعانیوں نے بنیاسرائیل کی سوچ بگاڑی تھی۔
کھیتیباڑی کی رسومات
موعودہ مُلک میں داخل ہونے سے پہلے بنیاسرائیل خانہبدوش تھے۔ لیکن جب وہ موعودہ مُلک میں آباد ہوئے تو بہتیرے اسرائیلیوں نے کھیتیباڑی کرنا شروع کی۔ غالباً اُنہوں نے کھیتیباڑی کرنے کے ایسے ہی طریقے اپنائے جو کنعانی کسان بھی استعمال کرتے تھے۔ لیکن اسرائیلیوں نے کھیتیباڑی کے طریقوں کے ساتھ ساتھ کنعانیوں کی اِن رسومات کو بھی اپنا لیا جو کھیتیباڑی سے تعلق رکھتی تھیں۔
کنعانی لوگ بعل کی پرستش کرتے تھے۔ یہ مختلف ایسے معبودوں کا نام تھا جو کنعانیوں کے عقیدے کے مطابق زمین کو زرخیز بناتے تھے۔ اِس اُمید میں کہ کنعانیوں کے بعل اُنہیں اچھی فصلیں بخشیں گے، بنیاسرائیل ان بعلوں کی پرستش کرنے لگے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے اسرائیلی یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کا بھی دعویٰ کر رہے تھے۔ لیکن اصل میں وہ بُتپرستی میں ملوث تھے۔
ہمارے لئے آگاہی
یقیناً جب بنیاسرائیل نے کنعانیوں سے میلجول رکھنا شروع کِیا تو وہ بعل کی پرستش کرنے اور بداخلاقی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ لیکن بُتپرستوں سے رفاقت رکھنے کا یہی نتیجہ نکلا۔ اگر ہم ایسے لوگوں کے ساتھ دوستی کریں گے جو یہوواہ خدا کی عبادت نہیں کرتے اور اُس کے معیاروں پر نہیں چلتے ہیں تو کیا اس کا ہم پر بُرا اثر نہیں پڑے گا؟ یہ بات سچ ہے کہ ملازمت کی جگہ پر، سکول میں یا شاید گھر پر بھی ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑتا ہو۔ لیکن بنیاسرائیل کی بُری مثال سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے ساتھ دوستی کرنا بہت خطرناک ہوتا ہے۔ بائبل میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ ”بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔“—۱-کر ۱۵:۳۳۔
بنی اسرائیل کو جن آزمائشوں کا سامنا تھا آجکل ہمیں بھی کچھ ایسی ہی آزمائشوں کا سامنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی بُتپرستی عام ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر لوگوں نے روپے پیسے، نامور اداکاروں یا کھلاڑیوں، مذہبی رہنماؤں، یہاں تک کہ خاندان کے افراد کو بھی اپنا خدا بنا رکھا ہے۔ اگر ہم اِن چیزوں یا اشخاص کو اپنی زندگی میں حد سے زیادہ اہمیت دیں گے تو ہم روحانی طور پر بڑے خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اس لئے ہمیں ایسے لوگوں کے ساتھ گہری دوستی نہیں قائم کرنی چاہئے جو یہوواہ خدا سے محبت نہیں رکھتے ہیں۔
بعل کی پرستش کے سلسلے میں جنسی بداخلاقی بھی کی جاتی تھی۔ یہ بنیاسرائیل کے لئے ایک پھندا ثابت ہوا۔ آجکل یہوواہ کے کئی خادم جنسی بداخلاقی کے پھندے میں پھنس گئے ہیں۔ انٹرنیٹ پر فحش مواد آسانی سے حاصل کِیا جا سکتا ہے۔ ایک مسیحی شاید تجسّس میں پڑ کر اِسے دیکھنے لگے۔ لیکن ایسا کرنے سے وہ یہوواہ خدا کے ساتھ اپنی دوستی کھو دے گا اور اُس کا ضمیر اُس کی ملامت کرتا رہے گا۔ یہ کتنی افسوس کی بات ہوگی اگر ایک مسیحی اِس پھندے میں پھنس جائے۔
”مبارک ہیں وہ جو اُس کی شہادتوں کو مانتے ہیں“
ہم میں سے ہر ایک کو فیصلہ کرنا چاہئے کہ آیا ہم رفاقت کے سلسلے میں یہوواہ خدا کے حکم پر عمل کریں گے یا نہیں۔ (است ۳۰:۱۹، ۲۰) ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ مَیں تفریح کرتے وقت کن کے ساتھ میلجول رکھتا ہوں؟ یہ لوگ خدا کے معیاروں کو کیسا خیال کرتے ہیں؟ کیا وہ یہوواہ خدا کی عبادت کرتے ہیں؟ کیا مسیحی معیاروں پر چلنے کا میرا عزم اِن کی رفاقت سے زیادہ مضبوط ہو جائے گا؟
زبورنویس نے لکھا: ”مبارک ہیں وہ جو کامل رفتار ہیں۔ جو [یہوواہ] کی شریعت پر عمل کرتے ہیں۔ مبارک ہیں وہ جو اُس کی شہادتوں کو مانتے ہیں اور پورے دل سے اُس کے طالب ہیں۔“ (زبور ۱۱۹:۱، ۲) واقعی، ”مبارک ہے ہر ایک جو [یہوواہ] سے ڈرتا اور اُس کی راہوں پر چلتا ہے۔“ (زبور ۱۲۸:۱) آئیں ہم بنیاسرائیل کی غلطیوں سے سیکھ کر دوستوں کے انتخاب میں احتیاط برتیں۔ دُعا ہے کہ ہم ہر معاملے میں یہوواہ خدا کے فرمانبردار رہیں گے۔—امثا ۱۳:۲۰۔
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
اگر ہم ایسے لوگوں کے ساتھ دوستی کرتے ہیں جو یہوواہ خدا سے محبت نہیں رکھتے تو ہم گمراہ ہونے کے خطرے میں ہیں