مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یسوع مسیح کے ”‏آنے“‏ سے کیا مُراد ہے؟‏

یسوع مسیح کے ”‏آنے“‏ سے کیا مُراد ہے؟‏

یسوع مسیح کے ”‏آنے“‏ سے کیا مُراد ہے؟‏

‏”‏تیرے آنے اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہوگا؟‏“‏—‏متی ۲۴:‏۳‏۔‏

۱.‏ شاگردوں نے یسوع مسیح سے کونسے اہم سوال پوچھے؟‏

آج سے تقریباً ۰۰۰،‏۲ سال پہلے زیتون کے پہاڑ پر شاگردوں نے یسوع مسیح سے کچھ سوال پوچھے۔‏ وہ جاننا چاہتے تھے کہ ”‏یہ باتیں کب ہونگی؟‏ اور تیرے آنے اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہوگا؟‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۳‏)‏ اِن سوالوں میں شاگردوں نے ”‏تیرے آنے“‏ اور ”‏دُنیا کے آخر ہونے“‏ کا ذکر کِیا۔‏ اِن دو اصطلاحات کا کیا مطلب ہے؟‏

۲.‏ اصطلاح ”‏دُنیا کے آخر ہونے“‏ کا کیا مطلب ہے؟‏

۲ آئیں سب سے پہلے ہم اصطلاح ”‏دُنیا کے آخر ہونے“‏ پر غور کرتے ہیں جو یونانی لفظ سِنٹےلیا کا ترجمہ ہے۔‏ یونانی زبان میں یہ اصطلاح ”‏ایک عرصے کے آخری حصے“‏ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔‏ اِس لفظ کا معنی یونانی لفظ ٹیلوس سے فرق ہے جس کا مطلب ”‏خاتمہ“‏ ہے۔‏ ایک مثال پر غور کیجئے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اِن دونوں الفاظ کے معنی میں کیا فرق ہے۔‏ جب کنگڈم ہال میں تقریر پیش کی جاتی ہے تو مقرر اِس کے آخری حصے میں سامعین کو بتاتا ہے کہ وہ اِس مواد کو کیسے عمل میں لا سکتے ہیں۔‏ یہ خلاصہ پیش کرنے میں وہ کئی منٹ صرف کرتا ہے۔‏ لیکن تقریر اُس وقت ختم ہوتی ہے جب مقرر پلیٹ‌فارم سے اُترتا ہے۔‏ اِسی طرح جب بائبل میں ”‏دُنیا کے آخر ہونے“‏ کا ذکر آتا ہے تو یہ ایک خاص عرصے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‏ یہ عرصہ ابھی جاری ہے اور اُس وقت ختم ہوگا جب یسوع مسیح اِس بُری دُنیا کو تباہ کر دے گا۔‏

۳.‏ یسوع کی موجودگی میں کونسے اہم واقعات پیش آتے ہیں؟‏

۳ یسوع مسیح کے شاگردوں نے اُس کے ”‏آنے“‏ کے بارے میں بھی سوال کِیا۔‏ بائبل کی اصلی زبان میں شاگردوں نے یونانی لفظ پیروسیا استعمال کِیا۔‏ * یسوع مسیح کے ”‏آنے“‏ کا وقت یعنی اُس کی موجودگی ‏(‏پیروسیا)‏ ۱۹۱۴ میں شروع ہوئی تھی جب اُس نے آسمان پر بادشاہ کے طور پر اپنی حکمرانی شروع کی تھی۔‏ اور یہ عرصہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب یسوع ”‏بڑی مصیبت“‏ میں اپنے دُشمنوں کو ختم کرے گا۔‏ (‏متی ۲۴:‏۲۱‏)‏ یسوع مسیح کی موجودگی میں بہت سے اہم واقعات پیش آتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر اِس دوران شیطان کی دُنیا کے ”‏اخیر زمانہ“‏ کے نشان دیکھنے میں آتے ہیں،‏ ممسوح مسیحیوں کو جمع کِیا جاتا ہے اور اُنہیں مُردوں میں سے زندہ کرکے آسمان پر زندگی دی جاتی ہے۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱؛‏ ۱-‏کر ۱۵:‏۲۳؛‏ ۱-‏تھس ۴:‏۱۵-‏۱۷؛‏ ۲-‏تھس ۲:‏۱‏)‏ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ”‏دُنیا کے آخر ہونے“‏ کا وقت (‏یعنی سِنٹےلیا‏)‏ یسوع کی موجودگی (‏یعنی پیروسیا‏)‏ کے برابر ہے۔‏

ایک لمبا عرصہ

۴.‏ نوح کے دنوں پر غور کرنے سے ہم یسوع مسیح کی موجودگی کے بارے میں کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟‏

۴ جوکچھ یسوع مسیح نے اپنے ”‏آنے“‏ یعنی اپنی موجودگی کے بارے میں بتایا تھا اِس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ لفظ پیروسیا ایک لمبے عرصے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۳۷-‏۳۹ کو پڑھیں۔‏)‏ غور کریں کہ یسوع نے اپنے آنے کو اُس طوفان سے تشبیہ نہیں دی جو نوح کے دنوں میں آیا تھا۔‏ اِس کی بجائے اُس نے اپنے آنے کو طوفان سے پہلے کے اُس پورے عرصے سے تشبیہ دی جس کے دوران نوح نے کشتی بنائی اور آنے والے طوفان کی مُنادی کی تھی۔‏ ہو سکتا ہے کہ یہ عرصہ ۵۰ سال یا اس سے بھی زیادہ لمبا تھا۔‏ یہ عرصہ تب ختم ہوا جب یہوواہ خدا نے طوفان کے ذریعے اُس بُری دُنیا کو تباہ کر دیا۔‏ اِسی طرح یسوع مسیح کے آنے یعنی اُس کی موجودگی میں وہ واقعات شامل ہیں جو بڑی مصیبت سے پہلے اور اِس کے دوران بھی پیش آئیں گے۔‏—‏۲-‏تھس ۱:‏۶-‏۹‏۔‏

۵.‏ مکاشفہ ۶ باب کی پیشینگوئی سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع کا ’‏آنا‘‏ ایک لمبے عرصے کی طرف اشارہ کرتا ہے؟‏

۵ متی ۲۴:‏۳ میں یسوع کے ”‏آنے“‏ سے مُراد صرف وہ وقت نہیں ہے جب وہ بُرے لوگوں کو ہلاک کرنے کیلئے آئے گا بلکہ یہ اصطلاح بادشاہ کے طور پر اُس کی موجودگی یعنی ایک لمبے عرصے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔‏ اِس بات کو بائبل کی کئی پیشینگوئیاں ظاہر کرتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر مکاشفہ کی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ یسوع مسیح ایک سفید گھوڑے پر سوار ہے اور اُسے ایک تاج دیا گیا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۶:‏۱-‏۸ کو پڑھیں۔‏)‏ جب یسوع ۱۹۱۴ میں بادشاہ بنا تو ”‏وہ فتح کرتا ہوا نکلا تاکہ اَور بھی فتح کرے۔‏“‏ پیشینگوئی میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یسوع مسیح کے پیچھے پیچھے مختلف رنگوں والے گھوڑوں کے سوار آتے ہیں جو جنگ،‏ کال اور وبا کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔‏ یہ تمام باتیں اُس عرصے کے دوران واقع ہو رہی ہیں جسے بائبل میں ”‏اخیر زمانہ“‏ کہا گیا ہے۔‏ اس کا مطلب ہے کہ اِس پیشینگوئی کی تکمیل ہمارے زمانے میں ہو رہی ہے۔‏

۶.‏ مکاشفہ ۱۲ باب میں یسوع مسیح کی موجودگی کے بارے میں کیا ظاہر کِیا گیا ہے؟‏

۶ مکاشفہ ۱۲ باب میں اُس وقت کے بارے میں تفصیل دی گئی ہے جب یسوع مسیح نے آسمان پر حکمرانی شروع کی۔‏ اِس باب میں بتایا گیا ہے کہ میکائیل یعنی یسوع مسیح آسمان پر شیطان اور اُس کے بُرے فرشتوں سے لڑا اور اُن کو زمین پر گِرا دیا۔‏ اِس پر شیطان بہت غصہ ہوا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ”‏میرا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۷-‏۱۲ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس پیشینگوئی سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس وقت یسوع مسیح نے آسمان پر حکمرانی شروع کی تھی اُس وقت شیطان کی بُری دُنیا کا خاتمہ نہیں آیا تھا بلکہ خاتمے کے آنے میں کچھ وقت باقی ہے۔‏ البتہ اس عرصے کے دوران زمین پر حالات بگڑتے جا رہے ہیں۔‏

۷.‏ (‏ا)‏ زبور ۲ میں کس وقت کے بارے میں پیشینگوئی کی گئی ہے؟‏ (‏ب)‏ اِس پیشینگوئی کے مطابق لوگوں کو کیا کرنے کا موقع دیا جاتا ہے؟‏

۷ زبور ۲ کی پیشینگوئی میں بھی اُس وقت کے بارے میں بتایا گیا ہے جب یسوع مسیح کوہِ‌مُقدس صیون پر یعنی آسمان پر تخت‌نشین ہوا۔‏ (‏زبور ۲:‏۵-‏۹ اور ۱۱۰:‏۱،‏ ۲ کو پڑھیں۔‏)‏ غور کیجئے کہ زبور ۲ میں آگے ایک ایسے عرصے کے بارے میں بتایا جاتا ہے جس کے دوران زمین کے رہنماؤں کو یسوع مسیح کی حکمرانی کو تسلیم کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔‏ اُنہیں یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ ”‏دانشمند بنو“‏ اور ”‏تربیت پاؤ۔‏“‏ جو لوگ اُس عرصے کے دوران یہوواہ خدا اور اُس کے بادشاہ کی تابعداری کرتے ہیں ان کو ”‏مبارک“‏ کہا جاتا ہے کیونکہ ’‏اُن کا توکل خدا پر ہے۔‏‘‏ اِس پیشینگوئی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع کے آنے پر ایک عرصے تک لوگوں کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اُس کی حکمرانی کو قبول کریں۔‏—‏زبور ۲:‏۱۰-‏۱۲‏۔‏

کون نشان کو پہچانتے ہیں؟‏

۸،‏ ۹.‏ کون لوگ مسیح کے آنے کا نشان پہچان سکتے ہیں؟‏

۸ جب فریسیوں نے یسوع مسیح سے پوچھا کہ ”‏خدا کی بادشاہی کب آئے گی؟‏“‏ تو اُس نے جواب دیا کہ ”‏خدا کی بادشاہی ظاہری طور پر نہ آئے گی۔‏“‏ (‏لو ۱۷:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ اس کا مطلب ہے کہ بےایمان لوگ یسوع مسیح کی موجودگی کو نہیں پہچان سکتے۔‏ یہ حیرانی کی بات نہیں کیونکہ وہ یسوع مسیح کو بادشاہ کے طور پر تسلیم نہیں کرتے۔‏ تو پھر کون لوگ مسیح کے آنے یعنی اُس کی موجودگی کا نشان پہچانتے ہیں؟‏

۹ فریسیوں کو جواب دیتے ہوئے یسوع نے آگے کہا کہ اُس کے آنے کا نشان اُس کے شاگردوں پر اس طرح صاف ظاہر ہوگا ”‏جیسے بجلی آسمان کی ایک طرف سے کوند کر دوسری طرف چمکتی ہے۔‏“‏ (‏لوقا ۱۷:‏۲۴-‏۲۹ کو پڑھیں۔‏)‏ یسوع نے متی ۲۴:‏۲۳-‏۲۷ میں بھی اپنے آنے کے سلسلے میں یہی الفاظ استعمال کئے۔‏

نسل کی پہچان

۱۰،‏ ۱۱.‏ (‏ا)‏ متی ۲۴:‏۳۴ میں جس ”‏نسل“‏ کا ذکر ہوا ہے،‏ اُس کے بارے میں مینارِنگہبانی میں کچھ سال پہلے کونسی وضاحت دی گئی تھی؟‏ (‏ب)‏ یسوع کے شاگردوں کی سمجھ کے مطابق اُس ”‏نسل“‏ میں کون شامل تھے؟‏

۱۰ متی ۲۴:‏۳۴ میں جس ”‏نسل“‏ کا ذکر ہوا ہے،‏ اِس میں کون شامل ہیں؟‏ کچھ سال پہلے مینارِنگہبانی میں یہ وضاحت دی گئی تھی کہ پہلی صدی میں یہ نسل ”‏اُس وقت کے غیرتائب یہودیوں“‏ پر مشتمل تھی۔‏ * یہ وضاحت اس لئے دی گئی تھی کیونکہ جب بھی یسوع مسیح نے دوسرے موقعوں پر لفظ ”‏نسل“‏ استعمال کِیا (‏جس کا ترجمہ اُردو بائبل میں ”‏لوگ“‏ اور ”‏قوم“‏ بھی کِیا گیا ہے)‏ تو اُس نے اس کے ساتھ ساتھ ”‏بُرے،‏“‏ ”‏کجرو“‏ اور ”‏خطاکار“‏ جیسے الفاظ بھی استعمال کئے۔‏ (‏متی ۱۲:‏۳۹؛‏ ۱۷:‏۱۷؛‏ مر ۸:‏۳۸‏)‏ اِس وجہ سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ جدید زمانے کی تکمیل میں متی ۲۴:‏۳۴ اُس بےدین ”‏نسل“‏ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو ”‏دُنیا کے آخر ہونے“‏ (‏یعنی سِنٹےلیا‏)‏ کے وقت زندہ ہے اور جو دُنیا کے خاتمے (‏یعنی ٹیلوس‏)‏ میں ہلاک ہوگی۔‏

۱۱ سچ ہے کہ جن موقعوں پر یسوع مسیح نے لفظ ”‏نسل“‏ کو منفی مفہوم میں استعمال کِیا،‏ اُس وقت وہ یا تو بُرے لوگوں سے بات کر رہا تھا یا پھر اُن کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔‏ لیکن کیا وہ متی ۲۴:‏۳۴ میں بھی بُرے لوگوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا؟‏ یاد رکھیں کہ اُس موقع پر اُس کے چار شاگرد ’‏الگ اُس کے پاس آئے‘‏ تھے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۳‏)‏ اُن سے بات کرتے ہوئے یسوع نے اُس ”‏نسل“‏ کے سلسلے میں کوئی منفی لفظ استعمال نہیں کِیا۔‏ اس لئے شاگردوں نے یہ سمجھا ہوگا کہ وہ بھی اُس ”‏نسل“‏ میں شامل ہیں جو ہرگز ختم نہ ہوگی ”‏جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں۔‏“‏

۱۲.‏ متی ۲۴:‏۳۴ کے سیاق‌وسباق کے مطابق جب یسوع مسیح نے لفظ ”‏نسل“‏ استعمال کِیا تو وہ کس کی طرف اشارہ کر رہا تھا؟‏

۱۲ متی ۲۴:‏۳۴ کے سیاق‌وسباق پر غور کرنے سے بھی ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں ”‏یہ نسل“‏ یسوع کے شاگردوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔‏ یسوع نے متی ۲۴:‏۳۲،‏ ۳۳ میں کہا:‏ ”‏اب انجیر کے درخت سے ایک تمثیل سیکھو۔‏ جونہی اُس کی ڈالی نرم ہوتی اور پتے نکلتے ہیں تُم جان لیتے ہو کہ گرمی نزدیک ہے۔‏ اِسی طرح جب تُم اِن سب باتوں کو دیکھو تو جان لو کہ وہ نزدیک ہے بلکہ دروازہ پر ہے۔‏“‏ (‏مرقس ۱۳:‏۲۸-‏۳۰ اور لوقا ۲۱:‏۳۰-‏۳۲ پر غور کریں۔‏)‏ غور کیجئے کہ یسوع اِس موقعے پر اپنے شاگردوں سے بات کر رہا تھا۔‏ پھر اگلی آیت میں اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں یہ نسل ہرگز تمام نہ ہوگی۔‏“‏—‏متی ۲۴:‏۳۴‏۔‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ جب یسوع نے اُس ”‏نسل“‏ کا ذکر کِیا تو وہ اپنے شاگردوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا؟‏

۱۳ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ صرف وہ ”‏اِن سب باتوں کو“‏ دیکھ کر صحیح نتیجے پر پہنچیں گے۔‏ لہٰذا جب اُس نے کہا کہ ”‏جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں یہ نسل ہرگز تمام نہ ہوگی“‏ تو وہ یقیناً اپنے شاگردوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔‏

۱۴ یسوع مسیح نے کہا کہ اُس کے شاگرد نہ صرف اُس کے آنے کے نشان کو دیکھیں گے بلکہ بےایمان لوگوں کے برعکس وہ اِس نشان کا مطلب بھی سمجھیں گے۔‏ شاگرد ’‏سیکھیں گے‘‏ اور ’‏جان لیں گے‘‏ کہ ”‏وہ نزدیک ہے بلکہ دروازہ پر ہے۔‏“‏ پہلی صدی میں یہ پیشینگوئی ایک حد تک پوری ہوئی۔‏ یسوع کے شاگردوں کے علاوہ بےدین یہودیوں نے بھی اِن تمام واقعات کو دیکھا جن کے ذریعے یسوع کی پیشینگوئی پوری ہوئی۔‏ لیکن صرف اُس کے ممسوح شاگرد اِن واقعات کی اہمیت کو سمجھ سکے۔‏

۱۵.‏ (‏ا)‏ یسوع نے جس ”‏نسل“‏ کا ذکر کِیا تھا،‏ ہمارے زمانے میں یہ کن لوگوں پر مشتمل ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم اِس ”‏نسل“‏ میں شامل لوگوں کی عمر سے اس بات کا اندازہ کیوں نہیں لگا سکتے ہیں کہ خاتمہ کب آئے گا؟‏ (‏صفحہ ۲۵ پر بکس کو دیکھیں۔‏)‏

۱۵ چونکہ یسوع مسیح کی موجودگی ”‏ظاہری“‏ نہیں ہے اس لئے ہمارے زمانے میں زیادہ‌تر لوگ اِسے نہیں پہچانتے ہیں۔‏ اُن کا خیال ہے کہ سب کچھ ویسا ہی ہو رہا ہے جیسا کہ ماضی میں ہوا کرتا تھا۔‏ (‏۲-‏پطر ۳:‏۴‏)‏ اِن کے برعکس مسیح کے ممسوح بھائی اُس کی موجودگی کے نشان کو اچھی طرح سے پہچانتے ہیں۔‏ اُن کی نظروں میں یہ نشان چمکتی بجلی کی طرح ہے۔‏ ممسوح مسیحیوں کی جماعت ہی وہ ”‏نسل“‏ ہے جو ہرگز ختم نہ ہوگی ”‏جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں۔‏“‏ * اِس بات سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ جب پیشینگوئی کے مطابق زمین پر بڑی مصیبت شروع ہوگی تو مسیح کے چند ممسوح بھائی زمین پر باقی ہوں گے۔‏

‏”‏جاگتے رہو“‏

۱۶.‏ مسیحیوں کو کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‏

۱۶ یسوع مسیح کی موجودگی کا نشان پہچاننا ہی کافی نہیں۔‏ یسوع نے کہا تھا:‏ ”‏جو کچھ مَیں تُم سے کہتا ہوں وہی سب سے کہتا ہوں کہ جاگتے رہو۔‏“‏ (‏مر ۱۳:‏۳۷‏)‏ چاہے ہم ممسوح مسیحیوں کی جماعت یا بڑی بِھیڑ میں شامل ہوں،‏ یہ بات ہم سب کے لئے بہت ضروری ہے۔‏ یسوع مسیح نے سن ۱۹۱۴ میں آسمان پر حکمرانی شروع کی۔‏ تب سے لے کر آج تک ۹۰ سال سے زیادہ گزر گئے ہیں۔‏ چاہے یہ کتنا مشکل کیوں نہ ہو،‏ ہم سب کو تیار رہنے اور جاگتے رہنے کی اشد ضرورت ہے۔‏ جب ہم اِس بات سے واقف رہتے ہیں کہ یسوع مسیح بادشاہ کے طور پر آ چکا ہے تو اِس سے ہمیں جاگتے رہنے میں مدد ملتی ہے۔‏ اس کے علاوہ ہم اِس بات کو بھی نہیں بھولتے کہ ’‏جس گھڑی ہمیں گمان بھی نہ ہوگا‘‏ یسوع مسیح اپنے دُشمنوں کو تباہ کرنے کے لئے آئے گا۔‏—‏لو ۱۲:‏۴۰‏۔‏

۱۷.‏ مسیح کی موجودگی کے بارے میں تفصیلات جان کر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۷ مسیح کی موجودگی کے بارے میں تفصیلات جان کر ہمیں خوشخبری سنانے کے کام کو اَور بھی اہمیت دینی چاہئے۔‏ ہم جانتے ہیں کہ یسوع مسیح ۱۹۱۴ سے آسمان پر حکمرانی کر رہا ہے۔‏ جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے جب وہ بُرے لوگوں کو ہلاک کر دے گا اور زمین پر شاندار تبدیلیاں لائے گا۔‏ یہ جان کر ہمیں اُس کام میں بڑھ‌چڑھ کر حصہ لینے کا عزم کرنا چاہئے جس کی پیشینگوئی یسوع نے کی تھی:‏ ”‏بادشاہی کی اِس خوشخبری کی مُنادی تمام دُنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کے لئے گواہی ہو۔‏ تب خاتمہ [‏ٹیلوس‏]‏ ہوگا۔‏“‏—‏متی ۲۴:‏۱۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 لفظ پیروسیا کا مطلب ”‏کے پاس ہونا“‏ اور ”‏موجودگی“‏ ہے۔‏ اس اصطلاح کا مطلب ۲-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۰،‏ ۱۱ اور فلپیوں ۲:‏۱۲ سے واضح ہوتا ہے جہاں پیروسیا کا ترجمہ ”‏موجودگی“‏ اور ”‏حاضری“‏ کِیا گیا ہے۔‏

^ پیراگراف 10 مینارِنگہبانی دسمبر ۱،‏ ۱۹۹۵،‏ صفحہ ۲۰-‏۲۳‏،‏ ۲۷ کو دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 15 ایسا لگتا ہے کہ ”‏یہ نسل“‏ ”‏خداوند کے دن“‏ کے دوران ظاہر ہوئی جس کے بارے میں مکاشفہ ۱:‏۱۰–‏۳:‏۲۲ میں بتایا گیا ہے۔‏ ’‏خداوند کا دن‘‏ ۱۹۱۴ میں شروع ہوا تھا اور تب ختم ہوگا جب تمام ممسوح مسیحی وفات پا چکے ہوں گے اور اُنہیں آسمان پر زندہ کِیا جائے گا۔‏

آپ کا جواب کیا ہوگا؟‏

‏• ہم کیسے جانتے ہیں کہ یسوع کے ”‏آنے“‏ یعنی اُس کی موجودگی سے مُراد ایک لمبا عرصہ ہے؟‏

‏• یسوع مسیح کے آنے کا نشان کون لوگ پہچانتے ہیں؟‏

‏• متی ۲۴:‏۳۴ میں جس ”‏نسل“‏ کا ذکر ہوا ہے یہ ہمارے زمانے میں کن لوگوں پر مشتمل ہے؟‏

‏• ہم اِس ”‏نسل“‏ میں شامل لوگوں کی عمر سے اِس بات کا اندازہ کیوں نہیں لگا سکتے کہ خاتمہ کب آئے گا؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر بکس]‏

یہ ”‏نسل“‏ کب تک زندہ رہے گی؟‏

کئی لوگوں نے متی ۲۴:‏۳۴ کی ”‏نسل“‏ میں شامل لوگوں کی عمر سے اِس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ خاتمہ کب آئے گا۔‏ لیکن ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔‏ ایک نسل یا پُشت میں عام طور پر ہر عمر کے لوگ شامل ہوتے ہیں جو ایک خاص عرصے کے دوران زندہ ہیں۔‏ مثال کے طور پر خروج ۱:‏۶ میں بتایا گیا ہے کہ ”‏یوؔسف اور اُس کے سب بھائی اور اُس پُشت کے سب لوگ مر مٹے۔‏“‏ یوسف اور اُس کے بھائیوں کی عمر میں کافی فرق تھا۔‏ لیکن اُن سب نے ایک ہی عرصے کے دوران ہونے والے واقعات کو دیکھا۔‏ ”‏اُس پُشت“‏ میں یوسف کے ایسے بھائی بھی شامل تھے جو یوسف سے پہلے پیدا ہوئے تھے لیکن اُس کے مرنے کے بعد زندہ تھے۔‏ (‏پید ۵۰:‏۲۴‏)‏ اس کے علاوہ ”‏اُس پُشت“‏ میں بنیمین سمیت ایسے بھی لوگ شامل تھے جو یوسف کے بعد پیدا ہوئے اور اُس کے مرنے کے بعد کافی دیر تک زندہ رہے۔‏

اسی طرح جب لفظ ”‏نسل“‏ ایک خاص زمانے میں رہنے والے لوگوں کے لئے استعمال ہوتا ہے تو ہم اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ یہ نسل کتنے سالوں کے بعد ختم ہوگی۔‏ البتہ اتنا ضرور ہے کہ ”‏یہ نسل“‏ ایک دن ختم ہو جائے گی اور یہ دن دُور نہیں ہے۔‏ لیکن جب یسوع مسیح نے متی ۲۴:‏۳۴ میں لفظ ”‏نسل“‏ استعمال کِیا تو وہ ”‏اخیر زمانہ“‏ کے خاتمے کی تاریخ کا اندازہ لگانے کا فارمولا نہیں دے رہا تھا۔‏ اُس نے آگے اِس بات پر زور دیا کہ ”‏اُس دن اور اُس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا۔‏“‏—‏۲-‏تیم ۳:‏۱؛‏ متی ۲۴:‏۳۶‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۲،‏ ۲۳ پر تصویر]‏

جب یسوع ۱۹۱۴ میں بادشاہ بنا تو ”‏وہ فتح کرتا ہوا نکلا“‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

‏”‏جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں یہ نسل ہرگز تمام نہ ہوگی“‏