مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ خدا کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں

یہوواہ خدا کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں

یہوواہ خدا کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں

‏”‏مَیں نے [‏یہوواہ]‏ کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھا ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۶:‏۸‏۔‏

۱.‏ ہم خدا کے کلام میں درج واقعات سے کیسے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں؟‏

خدا کے کلام میں بڑے دل‌کش انداز میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ خدا انسانوں سے کیسے پیش آتا رہا ہے۔‏ اِس میں بہت سے ایسے لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے خدا کی مرضی پوری کی۔‏ خدا کے کلام میں اِن لوگوں کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا ہے یہ محض کہانیاں نہیں ہیں جن سے ہم محظوظ ہوتے ہیں۔‏ خدا نے اِن واقعات کو اس لئے اپنے کلام میں درج کروایا ہے تاکہ ہم اِن کو پڑھ کر اُس کے اَور زیادہ نزدیک جا سکیں۔‏—‏یعقو ۴:‏۸‏۔‏

۲،‏ ۳.‏ زبور ۱۶:‏۸ کا پس‌منظر کیا ہے؟‏

۲ بائبل میں خدا کے کئی ایسے خادموں کا ذکر ہے جن سے ہم اچھی طرح سے واقف ہیں،‏ مثلاً ابرہام،‏ سارہ،‏ موسیٰ،‏ رُوت،‏ داؤد،‏ آستر اور پولس رسول۔‏ بِلاشُبہ ہم اِن کی زندگی کے بارے میں پڑھنے سے بہت فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔‏ لیکن بائبل میں خدا کے ایسے خادموں کا بھی ذکر ہے جن سے ہم زیادہ واقف نہیں ہیں۔‏ اِن کے بارے میں بائبل میں جو کچھ بتایا گیا ہے،‏ ہمیں اِس پر بھی غور کرنا چاہئے۔‏ یوں ہم زبورنویس کی طرح کہہ سکیں گے کہ ”‏مَیں نے [‏یہوواہ]‏ کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھا ہے۔‏ چُونکہ وہ میرے دہنے ہاتھ ہے اس لئے مجھے جنبش نہ ہوگی۔‏“‏ (‏زبور ۱۶:‏۸‏)‏ اِس آیت کا پس‌منظر کیا ہے؟‏

۳ پُرانے زمانے میں سپاہی بائیں ہاتھ میں اپنی سپر اور دائیں ہاتھ میں اپنی تلوار رکھتے تھے۔‏ اس وجہ سے وہ دائیں ہاتھ پر زخمی ہونے کے خطرے میں ہوتے تھے۔‏ لیکن اگر اُن کا کوئی ساتھی اُن کے دہنے ہاتھ کھڑا ہو کر دُشمن کا مقابلہ کرتا تو وہ محفوظ رہتے۔‏ اسی طرح اگر ہم یہوواہ خدا کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں گے اور اُس کی مرضی بجا لائیں گے تو وہ ہماری حفاظت کرے گا۔‏ آئیں دیکھتے ہیں کہ بائبل میں درج واقعات پر غور کرنے سے ہمارا ایمان کیسے مضبوط ہوتا ہے۔‏ ایسا کرنے سے ہم ’‏یہوواہ کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھ سکیں گے۔‏‘‏

یہوواہ خدا ہماری دُعائیں سنتا ہے

۴.‏ بائبل سے ایک مثال دے کر واضح کریں کہ یہوواہ خدا اپنے خادموں کی دُعائیں سنتا ہے۔‏

۴ اگر ہم یہوواہ خدا کو اپنے سامنے رکھیں گے تو وہ ہماری دُعائیں سنے گا۔‏ ‏(‏زبور ۶۵:‏۲؛‏ ۶۶:‏۱۹‏)‏ اِس کا ثبوت ہمیں اُس واقعہ سے ملتا ہے جو ابرہام کے سب سے پُرانے خادم،‏ الیعزر کے ساتھ پیش آیا تھا۔‏ ابرہام چاہتا تھا کہ اُس کا بیٹا اضحاق ایک خداترس لڑکی سے شادی کرے۔‏ اس لئے اُس نے الیعزر کو ایک ایسی لڑکی کو تلاش کرنے کی ذمہ‌داری سونپی اور اُسے مسوپتامیہ کے علاقے میں بھیج دیا۔‏ وہاں پہنچ کر الیعزر نے یہوواہ سے راہنمائی کی درخواست کی۔‏ پھر جب ربقہ نے اُس کے اُونٹوں کو پانی پلایا تو الیعزر جان گیا کہ یہوواہ نے اُس کی دُعا سُن لی ہے۔‏ چونکہ الیعزر نے یہوواہ خدا سے مدد مانگی تھی اس لئے اُسے وہ لڑکی مل گئی جو بعد میں اضحاق کی بیوی بنی۔‏ (‏پید ۲۴:‏۱۲-‏۱۴،‏ ۶۷‏)‏ الیعزر نے ایک خاص ذمہ‌داری کے سلسلے میں یہوواہ خدا سے مدد مانگی تھی۔‏ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہماری دُعائیں بھی سنتا ہے۔‏

۵.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا دل میں کی جانے والی مختصر دُعاؤں کو بھی سنتا ہے؟‏

۵ بعض اوقات ہم صرف مختصر سی دُعا کر سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ایک موقعے پر فارس کے بادشاہ ارتخششتا نے دیکھا کہ اُس کا ساقی نحمیاہ اُداس ہے۔‏ جب بادشاہ نے اُس سے پوچھا:‏ ”‏کس بات کے لئے تیری درخواست ہے؟‏ تب [‏نحمیاہ]‏ نے آسمان کے خدا سے دُعا کی۔‏“‏ اِس موقعے پر نحمیاہ نے دل ہی دل میں مختصر سی دُعا کی۔‏ کیا یہوواہ خدا نے اُس کی دُعا سنی؟‏ جی بالکل،‏ کیونکہ بادشاہ نے نحمیاہ کو یروشلیم کی دیواروں کو تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔‏ (‏نحمیاہ ۲:‏۱-‏۸ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا دل میں کی جانے والی مختصر دُعاؤں کو بھی سنتا ہے۔‏

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏ دُعا کے سلسلے میں اِپفراس نے کونسی مثال قائم کی؟‏ (‏ب)‏ ہمیں دوسروں کے لئے دُعا کیوں کرنی چاہئے؟‏

۶ مسیحیوں کو ”‏ایک دوسرے کے لئے دُعا ”‏کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔‏ حالانکہ کبھی‌کبھار ہمیں فوراً اِس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ ہماری یہ دُعائیں سنی گئی ہیں لیکن پھر بھی ہمیں اِس ہدایت پر عمل کرتے رہنا چاہئے۔‏ (‏یعقو ۵:‏۱۶‏)‏ اِس سلسلے میں اِپفراس پر غور کریں جو ”‏مسیح کا دیانتدار خادم“‏ تھا۔‏ وہ اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کے لئے دل سے دُعا کرتا تھا۔‏ جب پولس رسول روم میں تھا تو اُس نے کُلسّے کے مسیحیوں کے نام خط میں لکھا کہ اِپفراس ”‏تمہارے لئے دُعا کرنے میں ہمیشہ جانفشانی کرتا ہے تاکہ تُم کامل ہو کر پورے اعتقاد کے ساتھ خدا کی پوری مرضی پر قائم رہو۔‏ مَیں اُس کا گواہ ہوں کہ وہ تمہارے اور لودِیکیہؔ اور ہیرؔاپلس کے لوگوں کے واسطے بڑی کوشش کرتا ہے۔‏“‏—‏کل ۱:‏۷؛‏ ۴:‏۱۲،‏ ۱۳‏۔‏

۷ کُلسّے،‏ لودِیکیہ اور ہیراپلس کے شہر ایشیائےکوچک میں واقع تھے۔‏ اِن شہروں میں رہنے والے مسیحیوں کو طرح طرح کی آزمائشوں کا سامنا تھا۔‏ مثال کے طور پر شہر ہیراپلس میں لوگ سی‌بلی نامی دیوی کی پوجا کرتے تھے،‏ لودِیکیہ کے لوگوں نے مال‌ودولت کو اپنا خدا بنا رکھا تھا اور کُلسّے کے لوگ انسانی نظریوں اور فلسفوں کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔‏ (‏کل ۲:‏۸‏)‏ اِس وجہ سے اِپفراس جو خود بھی کُلسّے کا تھا،‏ اِن شہروں میں رہنے والے مسیحیوں کے لئے ’‏دُعا کرنے میں جانفشانی کرتا‘‏ تھا۔‏ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہوواہ نے اُس کی دُعاؤں کے جواب میں کیا کِیا لیکن اِپفراس نے اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کے لئے دُعا کرنا بند نہیں کی۔‏ اُس کی طرح ہمیں بھی اپنے بہن‌بھائیوں کے لئے دُعا کرنے میں جانفشانی کرنی چاہئے۔‏ یہ سچ ہے کہ ہمیں ’‏اَوروں کے کام میں دست انداز ہونے‘‏ یعنی دخل دینے سے خبردار رہنا چاہئے۔‏ (‏۱-‏پطر ۴:‏۱۵‏)‏ لیکن اگر ہمارا کوئی مسیحی عزیز کسی آزمائش کا سامنا کر رہا ہو تو ہمیں اِس کے لئے ضرور دُعا کرنی چاہئے۔‏ جب دوسرے مسیحیوں نے پولس رسول کے لئے دُعا کی تو اُس کی مدد ہوئی۔‏ اسی طرح ہم بھی دوسروں کے لئے دُعا کرنے سے اُن کی مدد کر سکتے ہیں۔‏—‏۲-‏کر ۱:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

۸.‏ (‏ا)‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ افسس کی کلیسیا کے بزرگ دُعا کرنے کی اہمیت سے واقف تھے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں دُعا کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏

۸ کیا لوگ آپ کو ایک ایسے شخص کے طور پر جانتے ہیں جو اکثر دُعا کرتا ہے؟‏ کیا آپ دُعا کرنے کو ایک شرف خیال کرتے ہیں؟‏ جب پولس رسول نے شہر افسس کی کلیسیا کے بزرگوں سے ملاقات کی تو ”‏اُس نے .‏ .‏ .‏ گھٹنے ٹیکے اور اُن سب کے ساتھ دُعا کی۔‏ اور وہ سب بہت روئے اور پولسؔ کے گلے لگ لگ کر اُس کے بوسے لئے۔‏ اور خاص کر اِس بات پر غمگین تھے جو اُس نے کہی تھی کہ تُم پھر میرا مُنہ نہ دیکھو گے۔‏“‏ (‏اعما ۲۰:‏۳۶-‏۳۸‏)‏ ہم اِن بزرگوں کے نام تو نہیں جانتے لیکن اِس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دُعا کرنے کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔‏ ہمیں بھی خدا سے دُعا کرنے کے شرف کے لئے شکرگزار ہونا چاہئے۔‏ جی‌ہاں،‏ ہمیں اِس یقین کے ساتھ ”‏پاک ہاتھوں کو اُٹھا کر دُعا“‏ کرنی چاہئے کہ وہ ہماری سنتا ہے۔‏—‏۱-‏تیم ۲:‏۸‏۔‏

ہر بات میں یہوواہ خدا کے فرمانبردار رہیں

۹،‏ ۱۰.‏ (‏ا)‏ صلافحاد کی بیٹیوں نے کونسی مثال قائم کی؟‏ (‏ب)‏ ایسے مسیحی جو شادی‌شُدہ نہیں ہیں صلافحاد کی بیٹیوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۹ جب ہم یہوواہ خدا کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں گے تو ہم اُس کے فرمانبردار رہیں گے اور وہ ہمیں اپنی برکتوں سے نوازے گا۔‏ ‏(‏است ۲۸:‏۱۳؛‏ ۱-‏سمو ۱۵:‏۲۲‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں ہر بات میں یہوواہ خدا کی مرضی کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔‏ اِس سلسلے میں صلافحاد کی پانچ بیٹیوں کی مثال پر غور کریں جو موسیٰ کے زمانے میں رہتی تھیں۔‏ بنی‌اسرائیل میں عام طور پر بیٹوں کو اپنے باپ کی میراث ملتی تھی۔‏ لیکن صلافحاد کا کوئی بیٹا نہ تھا۔‏ اس لئے جب وہ مر گیا تو یہوواہ خدا نے حکم دیا کہ صلافحاد کی میراث اُس کی بیٹیوں کو دی جائے۔‏ لیکن اِس کے ساتھ ایک شرط بھی رکھی گئی تھی۔‏ صلافحاد کی بیٹیوں کو منسی کے قبیلے میں سے کسی سے شادی کرنی تھی تاکہ اُن کے باپ کی میراث کسی دوسرے قبیلے کی نہ ہو جائے۔‏—‏گن ۲۷:‏۱-‏۸؛‏ ۳۶:‏۶-‏۸‏۔‏

۱۰ صلافحاد کی بیٹیوں کو یقین تھا کہ خدا کے حکم پر عمل کرنے میں اُن کی بہتری ہے۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏صلاؔفحاد کی بیٹیوں نے جیسا [‏یہوواہ]‏ نے موسیٰؔ کو حکم دیا تھا ویسا ہی کِیا۔‏ کیونکہ محلاؔہ اور ترؔضاہ اور حجلاؔہ اور ملکاؔہ اور نوؔعاہ جو صلاؔفحاد کی بیٹیاں تھیں وہ اپنے چچیرے بھائیوں کے ساتھ بیاہی گئیں۔‏ یعنی وہ یوؔسف کے بیٹے منسیؔ کی نسل کے خاندانوں میں بیاہی گئیں اور اُن کی میراث اُن کے آبائی خاندان کے قبیلہ میں قائم رہی۔‏“‏ (‏گن ۳۶:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِن خداترس عورتوں نے یہوواہ خدا کے حکم پر عمل کِیا۔‏ (‏یشو ۱۷:‏۳،‏ ۴‏)‏ اسی طرح روحانی طور پر پُختہ مسیحی جو شادی‌شُدہ نہیں ہیں وہ بھی اِس بات پر پورا یقین رکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا کے حکم پر عمل کرنے میں اُن کی بہتری ہے۔‏ اس لئے وہ ”‏صرف خداوند میں“‏ شادی کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔‏—‏۱-‏کر ۷:‏۳۹‏۔‏

۱۱،‏ ۱۲.‏ کالب نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ خدا پر دل سے بھروسہ کرتا تھا؟‏

۱۱ ہمیں کالب کی طرح پورے طور پر یہوواہ کی پیروی کرنی چاہئے۔‏ (‏است ۱:‏۳۶‏)‏ جب بنی‌اسرائیل نے مصر سے آزادی حاصل کی تو موسیٰ نے ۱۲ جاسوسوں کو ملک کنعان کا حال دریافت کرنے کے لئے بھیجا۔‏ اِن میں سے صرف یشوع اور کالب نے واپس آ کر لوگوں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ اُنہیں یہوواہ پر بھروسہ کرکے ملک پر چڑھائی کرنی چاہئے۔‏ (‏گن ۱۴:‏۶-‏۹‏)‏ اِس واقعے کے تقریباً ۴۰ سال بعد بھی یشوع اور کالب ہر بات میں خدا کی مرضی بجا لا رہے تھے۔‏ یہوواہ خدا نے یشوع کو بنی‌اسرائیل کا پیشوا بنا دیا۔‏ اُسی کی پیشوائی میں بنی‌اسرائیل موعودہ ملک میں داخل ہوئے۔‏ لیکن اُن دَس جاسوسوں کا کیا بنا جنہوں نے بنی‌اسرائیل کو گمراہ کِیا تھا؟‏ وہ اُس بیابان میں مر گئے جس میں بنی‌اسرائیل ۴۰ سال تک بھٹکتے رہے تھے۔‏—‏گن ۱۴:‏۳۱-‏۳۴‏۔‏

۱۲ لیکن کالب اِس عرصے کے بعد بھی زندہ تھا۔‏ اپنی فرمانبرداری کا ذکر کرتے ہوئے اُس نے یشوع سے کہا کہ ”‏مَیں نے [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کی پوری پیروی کی۔‏“‏ (‏یشوع ۱۴:‏۶-‏۹ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس کے بعد کالب نے درخواست کی کہ اُسے وہ پہاڑی علاقہ میراث میں دیا جائے جس کا وعدہ یہوواہ خدا نے اُس سے کِیا تھا۔‏ حالانکہ اُس علاقے میں دُشمنوں کے شہر بڑے اور فصیل‌دار تھے اور کالب کی عمر ۸۵ سال تھی لیکن پھر بھی اُس نے یہوواہ پر دل سے بھروسہ کرتے ہوئے اپنی میراث طلب کی۔‏—‏یشو ۱۴:‏۱۰-‏۱۵‏۔‏

۱۳.‏ آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت بھی ہمیں کیا کرتے رہنا چاہئے؟‏

۱۳ کالب زندگی‌بھر یہوواہ خدا کا فرمانبردار اور وفادار رہا جس کی وجہ سے خدا نے اُس کی مدد کی۔‏ اِسی طرح اگر ہم آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت بھی ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کی پوری پیروی“‏ کرتے رہیں گے تو وہ ہماری مدد کرے گا اور ہمیں برکتوں سے نوازے گا۔‏ لیکن زندگی‌بھر یہوواہ خدا کی پیروی کرنا آسان نہیں ہوتا۔‏ اس سلسلے میں بادشاہ سلیمان کی مثال پر غور کریں۔‏ شروع میں تو وہ یہوواہ خدا کا فرمانبردار رہا لیکن جب وہ بوڑھا ہو گیا تو اُس کی بیویوں نے اُس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کر دیا اور ”‏اُس نے [‏یہوواہ]‏ کی پوری پیروی نہ کی جیسی اُس کے باپ داؔؤد نے کی تھی۔‏“‏ (‏۱-‏سلا ۱۱:‏۴-‏۶‏)‏ آئیں ہم اِس بات کا پکا اِرادہ کریں کہ چاہے ہمیں کسی بھی آزمائش کا سامنا ہو ہم یہوواہ خدا کے فرمانبردار رہیں گے اور اُسے ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں گے۔‏

پورے دل سے یہوواہ خدا پر بھروسہ رکھیں

۱۴،‏ ۱۵.‏ نعومی کے ساتھ جو کچھ واقع ہوا اِس سے آپ یہوواہ خدا پر بھروسہ رکھنے کے سلسلے میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۴ ہمیں خاص طور پر اُس وقت یہوواہ خدا پر بھروسہ کرنا چاہئے جب ہم دُکھی اور نااُمید ہوتے ہیں۔‏ اس سلسلے میں نعومی کی مثال پر غور کریں جس کا شوہر اور دونوں بیٹے ملک موآب میں وفات پا گئے تھے۔‏ جب نعومی واپس اپنے دیس یہوداہ کو لوٹی تو اُس نے عورتوں سے کہا:‏ ”‏مجھ کو نعوؔمی [‏یعنی خوشحالی]‏ نہیں بلکہ ماؔرہ [‏یعنی تلخی]‏ کہو اِس لئے کہ قادرِمطلق میرے ساتھ نہایت تلخی سے پیش آیا ہے۔‏ مَیں بھری پوری گئی اور [‏یہوواہ]‏ مجھ کو خالی پھیر لایا۔‏ پس تُم کیوں مجھے نعوؔمی کہتی ہو حالانکہ [‏یہوواہ]‏ میرے خلاف مُدعی ہوا اور قادرِمطلق نے مجھے دُکھ دیا؟‏“‏—‏روت ۱:‏۲۰،‏ ۲۱‏۔‏

۱۵ روت کی کتاب پر غور کرنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دُکھی اور پریشان ہونے کے باوجود بھی نعومی نے یہوواہ خدا پر بھروسہ رکھا۔‏ آخرکار اُس کے حالات بالکل بدل گئے۔‏ نعومی کی بہو رُوت نے بوعز سے شادی کر لی اور اُس کا بیٹا ہوا۔‏ نعومی اِس لڑکے کی دایہ بن گئی۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ نعومی کی ”‏پڑوسنوں نے اُس بچے کو ایک نام دیا اور کہنے لگیں کہ نعوؔمی کے لئے بیٹا پیدا ہوا سو اُنہوں نے اُس کا نام عوؔبید رکھا۔‏ وہ یسیؔ کا باپ تھا جو داؔؤد کا باپ ہے۔‏“‏ (‏روت ۴:‏۱۴-‏۱۷‏)‏ جب نعومی کو نئی دُنیا میں زندہ کِیا جائے گا تو اُسے یہ سُن کر بڑی خوشی ہوگی کہ یسوع مسیح اُس کی بہو رُوت کے بیٹے کی نسل میں سے پیدا ہوا تھا۔‏ (‏متی ۱:‏۵،‏ ۶،‏ ۱۶‏)‏ نعومی کی طرح ہم بھی یہ نہیں جانتے کہ کسی کٹھن صورتحال کا انجام اچھا ہوگا یا بُرا۔‏ اس کے باوجود ہمیں پورے دل سے یہوواہ خدا پر بھروسہ رکھنا چاہئے جیسا کہ امثال ۳:‏۵،‏ ۶ میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏سارے دل سے [‏یہوواہ]‏ پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔‏ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کرے گا۔‏“‏

یہوواہ خدا کی پاک روح کے لئے دُعا کریں

۱۶.‏ خدا کی پاک روح نے بنی‌اسرائیل میں بعض بزرگوں کی مدد کیسے کی تھی؟‏

۱۶ اگر ہم یہوواہ خدا کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں گے تو وہ اپنی پاک روح کے ذریعے ہماری راہنمائی کرے گا۔‏ ‏(‏گل ۵:‏۱۶-‏۱۸‏)‏ خدا نے اُن ۷۰ بزرگوں پر اپنی روح ڈالی جنہیں موسیٰ کے ساتھ ’‏قوم کا بوجھ اُٹھانے‘‏ کے لئے چُنا گیا تھا۔‏ اِن میں سے بائبل صرف دو بزرگوں یعنی الداد اور میداد کا نام بتاتی ہے۔‏ لیکن خدا کی پاک روح نے اِن سب کو اپنی اپنی ذمہ‌داریوں کو پورا کرنے میں مدد دی تھی۔‏ (‏گن ۱۱:‏۱۳-‏۲۹‏)‏ اِس واقعے سے پہلے بھی بنی‌اسرائیل کی پیشوائی کرنے کے لئے کچھ بزرگوں کو چُنا گیا تھا۔‏ اِن کی طرح یہ ۷۰ بزرگ بھی لائق،‏ خداترس،‏ قابلِ‌بھروسہ اور دیانتدار تھے۔‏ (‏خر ۱۸:‏۲۱‏)‏ آجکل مسیحی کلیسیا کے بزرگ بھی ایسی ہی خوبیوں کے مالک ہیں۔‏

۱۷.‏ خدا کی پاک روح نے خیمۂ‌اجتماع کی تعمیر میں کونسا کردار ادا کِیا؟‏

۱۷ خدا کی پاک روح نے خیمۂ‌اجتماع کی تعمیر میں بھی اہم کردار ادا کِیا۔‏ یہوواہ خدا نے اِس کو تعمیر کرنے کی ذمہ‌داری بضلی‌ایل نامی ایک ماہر کاریگر کے سپرد کی۔‏ یہوواہ خدا نے وعدہ کِیا کہ وہ بضلی‌ایل کو ”‏حکمت اور فہم اور علم اور ہر طرح کی صنعت میں روحُ‌اللہ سے معمور“‏ کرے گا تاکہ وہ اِس بڑی ذمہ‌داری کو پورا کر سکے۔‏ (‏خر ۳۱:‏۳-‏۵‏)‏ یہوواہ خدا نے بضلی‌ایل اور اُس کے ساتھی اہلیاب کی مدد کرنے والے کاریگروں کے ’‏دل میں سمجھ رکھی‘‏ تاکہ وہ اُن تمام چیزوں کو بنا سکیں جن کا حکم یہوواہ نے دیا تھا۔‏ اِس کے علاوہ خدا کی پاک روح نے لوگوں کے دلوں پر اثر کِیا اور وہ خوشی سے خیمۂ‌اجتماع کی تعمیر کے لئے ہدیے لائے۔‏ (‏خر ۳۱:‏۶؛‏ ۳۵:‏۵،‏ ۳۰-‏۳۴‏)‏ خدا کی پاک روح آج بھی اُس کے خادموں کے دلوں پر اثر کرتی ہے تاکہ وہ اُس کی بادشاہت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیں۔‏ (‏متی ۶:‏۳۳‏)‏ ہو سکتا ہے کہ ہم کسی کام میں مہارت رکھتے ہوں لیکن اس کے باوجود بھی ہمیں خدا کی پاک روح کے لئے درخواست کرنی چاہئے اور اِس کی راہنمائی میں چلنا چاہئے۔‏ صرف ایسا کرنے سے ہی ہم اُس ذمہ‌داری کو پورا کر سکیں گے جسے یہوواہ خدا نے ہمارے سپرد کِیا ہے۔‏—‏لو ۱۱:‏۱۳‏۔‏

یہوواہ خدا کا خوف پیدا کریں

۱۸،‏ ۱۹.‏ (‏ا)‏ خدا کی پاک روح کے ذریعے ہمارے دل میں کیا پیدا ہو سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ نے شمعون اور حنّاہ کی مثال سے کیا سیکھا ہے؟‏

۱۸ پاک روح کے ذریعے ہمارے دل میں خدا کا خوف پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہم یہوواہ خدا کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھتے ہیں۔‏ خدا کے خادموں کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ اُس ”‏کی تقدیس کریں گے اور اؔسرائیل کے خدا سے ڈریں گے۔‏“‏ (‏یسع ۲۹:‏۲۳‏)‏ شمعون اور حنّاہ ایسے عمررسیدہ اشخاص تھے جو خدا سے ڈرتے تھے۔‏ یہ دونوں خداترس اشخاص پہلی صدی میں یروشلیم میں رہتے تھے۔‏ (‏لوقا ۲:‏۲۵-‏۳۸ کو پڑھیں۔‏)‏ شمعون کو پورا یقین تھا کہ مسیح کے بارے میں پاک صحائف میں جو پیشینگوئیاں درج ہیں وہ پوری ہوں گی۔‏ لہٰذا وہ ”‏اؔسرائیل کی تسلی کا منتظر تھا۔‏“‏ خدا نے شمعون پر اپنی پاک روح ڈالی اور اُس سے وعدہ کِیا کہ وہ اُس وقت تک نہ مرے گا جب تک کہ مسیح کو نہ دیکھ لے۔‏ اور بالکل ایسا ہی ہوا۔‏ ایک دن یوسف اور مریم ننھے یسوع کو ہیکل میں لائے۔‏ شمعون نے خدا کی پاک روح کے زیرِاثر مسیح کے بارے میں پیشینگوئی کی اور یہ کہا کہ مریم کو دُکھ اُٹھانا ہوگا۔‏ یہ بات اُس وقت پوری ہوئی جب یسوع کو سُولی پر لٹکا کر مار ڈالا گیا۔‏ ذرا شمعون کی خوشی کا تصور کریں جب اُس نے ”‏[‏یہوواہ]‏ کے مسیح“‏ کو اپنی گود میں لیا تھا۔‏ واقعی شمعون نے خدا کے خادموں کے لئے خداترسی کی عمدہ مثال قائم کی۔‏

۱۹ حنّاہ ایک بیوہ تھی۔‏ اِس خداترس عورت کی عمر ۸۴ سال تھی اور وہ ”‏ہیکل سے جُدا نہ ہوتی تھی۔‏“‏ وہ ”‏رات دن روزوں اور دُعاؤں کے ساتھ عبادت کِیا کرتی تھی۔‏“‏ جب ننھے یسوع کو ہیکل میں لایا گیا تو حنّاہ بھی وہاں موجود تھی۔‏ وہ اِس بات کے لئے بہت شکرگزار تھی کہ اُسے اُس بچے کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا جسے ایک دن مسیحا بننا تھا۔‏ حنّاہ فوراً ”‏وہاں آ کر خدا کا شکر کرنے لگی اور اُن سب سے جو یرؔوشلیم کے چھٹکارے کے منتظر تھے [‏یسوع]‏ کی بابت باتیں کرنے لگی۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ حنّاہ اتنی خوش تھی کہ وہ تمام لوگوں کو یسوع کے بارے میں بتانے لگی۔‏ شمعون اور حنّاہ کی طرح عمررسیدہ مسیحی آج بھی اِس بات کے لئے بہت شکرگزار ہیں کہ اُنہیں بڑھتی ہوئی عمر کے باوجود یہوواہ خدا کے بارے میں گواہی دینے کا شرف حاصل ہے۔‏

۲۰.‏ تمام مسیحیوں کو کیا کرنا چاہئے اور یہ اتنا اہم کیوں ہے؟‏

۲۰ چاہے ہم بوڑھے ہوں یا جوان،‏ ہمیں ہمیشہ یہوواہ خدا کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔‏ پھر جب ہم لوگوں کو یہوواہ خدا کی سلطنت اور قدرت کے بارے میں بتائیں گے تو وہ ہماری کوششوں کو برکت دے گا۔‏ (‏زبور ۷۱:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ ۱۴۵:‏۱۰-‏۱۳‏)‏ لیکن اگر ہم یہوواہ خدا کی ستائش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں خود میں ایسی خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں جو اُسے پسند ہیں۔‏ آئیں اگلے مضمون میں دیکھتے ہیں کہ ہم بائبل میں درج واقعات پر غور کرنے سے اِن خوبیوں کے بارے میں کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏

آپ کا جواب کیا ہوگا؟‏

‏• ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہماری دُعائیں سنتا ہے؟‏

‏• ہمیں ہر بات میں خدا کا فرمانبردار کیوں رہنا چاہئے؟‏

‏• ہمیں اُس وقت بھی یہوواہ خدا پر بھروسہ کیوں کرنا چاہئے جب ہم نااُمید اور پریشان ہوتے ہیں؟‏

‏• خدا اپنی پاک روح کے ذریعے اپنے خادموں کی مدد کیسے کرتا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۴ پر تصویر]‏

نحمیاہ کی دُعا سنی گئی

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

نعومی کی مثال پر غور کرنے سے ہم یہوواہ خدا پر بھروسہ کرنا سیکھ جاتے ہیں