مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ خدا کی راہوں پر چلیں

یہوواہ خدا کی راہوں پر چلیں

یہوواہ خدا کی راہوں پر چلیں

‏”‏مبارک ہے ہر ایک جو [‏یہوواہ]‏ سے ڈرتا اور اُس کی راہوں پر چلتا ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۲۸:‏۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ خوشی حاصل کرنا ممکن ہے؟‏

ہر انسان خوشی حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔‏ لیکن آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ بہت سے لوگ جو خوشی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اِسے حاصل نہیں کر پاتے۔‏

۲ البتہ خوشی حاصل کرنا ممکن ہے۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏مبارک [‏یا ”‏خوش،‏“‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏]‏ ہے ہر ایک جو [‏یہوواہ]‏ سے ڈرتا اور اُس کی راہوں پر چلتا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۲۸:‏۱‏)‏ ہم اُسی صورت میں خوشی حاصل کریں گے جب ہم خدا کی خدمت کریں گے اور اُس کی مرضی پوری کریں گے۔‏ خدا کی راہوں پر چلنے سے ہمارے چال‌چلن اور ہماری شخصیت پر کیسا اثر پڑے گا؟‏

خود کو قابلِ‌بھروسہ ثابت کریں

۳.‏ ہم اپنے بپتسمہ کے سلسلے میں خود کو وعدے کا پکا کیسے ثابت کر سکتے ہیں؟‏

۳ خدا سے ڈرنے والوں کو قابلِ‌بھروسہ اور اپنے وعدوں کا پکا ہونا چاہئے کیونکہ یہوواہ خدا بھی ایسا ہی ہے۔‏ یہوواہ خدا نے ہر ایک وعدے کو پورا کِیا جو اُس نے اسرائیلوں سے کِیا تھا۔‏ (‏۱-‏سلا ۸:‏۵۶‏)‏ جب ہم بپتسمہ لیتے ہیں تو ہم خدا سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اُس کی خدمت کریں گے۔‏ یہ ہماری زندگی کا سب سے اہم وعدہ ہے۔‏ اگر ہم خدا سے باقاعدگی سے دُعا کرتے رہیں گے تو وہ اس وعدے کو نبھانے میں ہماری مدد کرے گا۔‏ ہم زبورنویس داؤد کی طرح دُعا کر سکتے ہیں:‏ ”‏اَے خدا تُو نے میری منتیں قبول کی ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ مَیں ہمیشہ تیری مدح‌سرائی کروں گا تاکہ روزانہ اپنی منتیں پوری کروں۔‏“‏ (‏زبور ۶۱:‏۵،‏ ۸؛‏ واعظ ۵:‏۴-‏۶‏)‏ خدا کے دوست بننے کے لئے ہمیں اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہئے اور اس طرح خود کو قابلِ‌بھروسہ ثابت کرنا چاہئے۔‏—‏زبور ۱۵:‏۱،‏ ۴‏۔‏

۴.‏ افتاح اور اُس کی بیٹی نے خدا سے کئے ہوئے وعدے کو کتنا اہم خیال کِیا؟‏

۴ اسرائیلی قاضیوں کے زمانے میں افتاح نے بنی‌عمون پر فتح حاصل کرنے کی دُعا کی۔‏ اُس نے یہوواہ خدا سے وعدہ کِیا کہ اگر وہ جنگ سے فتح‌مند ہو کر گھر لوٹے گا تو جو کوئی سب سے پہلے اُس کا استقبال کرے گا وہ اُس کو ”‏سوختنی قربانی“‏ کے طور پر یہوواہ کو دے دے گا۔‏ افتاح کا استقبال کرنے کے لئے سب سے پہلے اُس کی اکلوتی بیٹی گھر سے نکلی۔‏ یہوواہ خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے افتاح اور اُس کی بیٹی نے افتاح کے وعدے کو پورا کِیا۔‏ حالانکہ اسرائیل میں شادی اور اولاد کو بہت اہم خیال کِیا جاتا تھا لیکن پھر بھی افتاح کی بیٹی کنواری رہ کر خدا کی خدمت کرنے پر راضی ہو گئی۔‏—‏قضا ۱۱:‏۲۸-‏۴۰‏۔‏

۵.‏ حنّہ کس طرح وعدے کی پکی ثابت ہوئی؟‏

۵ خدا کی خادمہ حنّہ بھی وعدے کی پکی ثابت ہوئی۔‏ وہ افرائیم کے پہاڑی علاقے میں اپنے شوہر القانہ اور اُس کی دوسری بیوی فننہ کے ساتھ رہتی تھی۔‏ فننہ کے بچے ہو چکے تھے لیکن حنّہ بانجھ تھی۔‏ اِس وجہ سے فننہ،‏ حنّہ کو طعنے دیتی رہتی تھی،‏ خاص کرکے جب پورا خاندان خیمۂ‌اجتماع کو جاتا تھا۔‏ ایک ایسے موقعے پر حنّہ نے خدا سے وعدہ کِیا کہ اگر اُس کا بیٹا ہوا تو وہ اُسے خدا کی خدمت کے لئے وقف کر دے گی۔‏ کچھ عرصہ بعد حنّہ کا بیٹا ہوا اور اُس کا نام سموئیل رکھا گیا۔‏ جب سموئیل کا دودھ چھڑایا گیا تو حنّہ نے اُسے خیمۂ‌اجتماع میں لے جا کر ”‏اُسے زندگی‌بھر کے لئے یہوواہ کو نذر“‏ کر دیا۔‏ (‏۱-‏سمو ۱:‏۱۱‏)‏ اِس طرح حنّہ نے خدا سے کِیا ہوا اپنا وعدہ نبھایا حالانکہ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ آئندہ اُس کے اَور بھی بچے ہوں گے یا نہیں۔‏—‏۱-‏سمو ۲:‏۲۰،‏ ۲۱‏۔‏

۶.‏ تخکس نے خود کو قابلِ‌بھروسہ کیسے ثابت کِیا؟‏

۶ پہلی صدی کا مسیحی تخکس ایک قابلِ‌بھروسہ شخص اور ”‏دیانتدار خادم“‏ تھا۔‏ (‏کل ۴:‏۷‏)‏ تخکس نے پولس رسول کے ساتھ یونان،‏ مکدنیہ،‏ ایشیائےکوچک اور شاید یروشلیم کا بھی سفر کِیا۔‏ (‏اعما ۲۰:‏۲-‏۴‏)‏ ممکن ہے کہ تخکس ہی وہ ”‏بھائی“‏ تھا جس نے یہودیہ میں ضرورتمند بہن‌بھائیوں کے لئے خیرات بانٹنے میں ططس کی مدد کی۔‏ (‏۲-‏کر ۸:‏۱۸،‏ ۱۹؛‏ ۱۲:‏۱۸‏)‏ جب پولس رسول کو پہلی بار روم میں قید کِیا گیا تو تخکس اُس کے ساتھ تھا۔‏ وہ ایک قابلِ‌بھروسہ نمائندے کے طور پر افسس اور کُلسّے کی کلیسیاؤں تک پولس رسول کے خط پہنچاتا رہا۔‏ (‏افس ۶:‏۲۱،‏ ۲۲؛‏ کل ۴:‏۸،‏ ۹‏)‏ جب پولس رسول کو روم میں دوسری بار قید کِیا گیا تو اُس نے تخکس کو افسس بھیج دیا۔‏ (‏۲-‏تیم ۴:‏۱۲‏)‏ اگر ہم بھی قابلِ‌بھروسہ ثابت ہوں گے تو ہمیں بھی خدا کی خدمت میں بہت سی برکات حاصل ہوں گی۔‏

۷،‏ ۸.‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ داؤد اور یونتن پکے دوست تھے؟‏

۷ خدا چاہتا ہے کہ ہم ایسے دوست ثابت ہوں جن پر بھروسہ کِیا جا سکے۔‏ ‏(‏امثا ۱۷:‏۱۷‏)‏ بادشاہ ساؤل کے بیٹے یونتن نے داؤد کے ساتھ دوستی کی۔‏ جب یونتن نے سنا کہ داؤد نے جاتی جولیت کو مار ڈالا تو ”‏یونتنؔ کا دل داؔؤد کے دل سے اَیسا مل گیا کہ یونتنؔ اُس سے اپنی جان کے برابر محبت کرنے لگا۔‏“‏ (‏۱-‏سمو ۱۸:‏۱،‏ ۳‏)‏ یونتن نے داؤد کو اِس بات سے آگاہ کِیا کہ بادشاہ ساؤل اُس کو مار ڈالنا چاہتا ہے۔‏ جب داؤد فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تو یونتن نے اُس کے ساتھ ملاقات کی اور اُس کے ساتھ دوستی کا عہد باندھا۔‏ یونتن نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بادشاہ ساؤل کے ساتھ داؤد کے بارے میں بات بھی کی۔‏ خطرے کے باوجود یونتن نے داؤد کے ساتھ دوبارہ سے ملاقات کی اور اپنی دوستی کو برقرار رکھنے کا عہد باندھا۔‏ (‏۱-‏سمو ۲۰:‏۲۴-‏۴۱‏)‏ اُن کی آخری ملاقات پر یونتن نے ”‏خدا میں [‏داؤد]‏ کا ہاتھ مضبوط کِیا۔‏“‏—‏۱-‏سمو ۲۳:‏۱۶-‏۱۸‏۔‏

۸ فلستیوں کے خلاف جنگ کے دوران یونتن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔‏ (‏۱-‏سمو ۳۱:‏۶‏)‏ اِس پر داؤد نے ایک نہایت سوگوار گیت گایا جس کے بول یہ تھے:‏ ”‏اَے میرے بھائی یونتنؔ!‏ مجھے تیرا غم ہے۔‏ تُو مجھ کو بہت ہی مرغوب تھا۔‏ تیری محبت میرے لئے عجیب تھی۔‏ عورتوں کی محبت سے بھی زیادہ۔‏“‏ (‏۲-‏سمو ۱:‏۲۶‏)‏ داؤد،‏ یونتن سے جس قسم کی محبت رکھتا تھا اِس میں جنسی عنصر نہیں تھا بلکہ یہ قریبی دوستوں میں پائی جانے والی محبت تھی۔‏

‏’‏فروتن بنیں‘‏

۹.‏ قضاۃ کے نویں باب میں فروتن بننے کی اہمیت کو کیسے بیان کِیا گیا ہے؟‏

۹ خدا کے دوست بننے کے لئے ہمیں ’‏فروتن بننا‘‏ ہوگا ‏(‏۱-‏پطر ۳:‏۸؛‏ زبور ۱۳۸:‏۶‏)‏ قضاۃ کی کتاب کے نویں باب میں اس بات کی اہمیت کو بیان کِیا گیا ہے۔‏ اِس میں جدعون کے بیٹے یوتام نے ایک تمثیل بتائی:‏ ”‏ایک زمانہ میں درخت چلے تاکہ کسی کو مسح کرکے اپنا بادشاہ بنائیں۔‏“‏ یوتام نے اِس تمثیل میں زیتون کے درخت،‏ انجیر کے درخت اور انگور کی بیل کا ذکر کِیا۔‏ یہ اُن لائق اشخاص کی علامت تھے جنہوں نے اپنے ساتھی اسرائیلوں پر حکومت جتانے کی کوشش نہیں کی۔‏ پھر اُس نے اُونٹکٹارے کا ذکر کِیا جو محض ایندھن کے لئے استعمال کِیا جاتا ہے۔‏ یہ مغرور ابی‌ملک کی حکمرانی کی علامت تھی۔‏ وہ ایک قاتل تھا اور دوسروں پر ظلم ڈھاتا تھا۔‏ ابی‌ملک ”‏اسرائیلیوں پر تین برس حاکم رہا“‏ اور پھر اُسے مار ڈالا گیا۔‏ (‏قضا ۹:‏۸-‏۱۵،‏ ۲۲،‏ ۵۰-‏۵۴‏)‏ اُس کے انجام سے ہم ’‏فروتن بننے‘‏ کی اہمیت سیکھ سکتے ہیں۔‏

۱۰.‏ آپ نے اِس بات سے کیا سیکھا ہے کہ ہیرودیس نے ”‏خدا کی تمجید نہ کی“‏؟‏

۱۰ پہلی صدی عیسوی میں یہودیہ کے مغرور بادشاہ ہیرودیس اگرپا اور صور اور صیدا کے لوگوں کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے۔‏ صور اور صیدا کے لوگ اِن اختلافات کو دُور کرنا چاہتے تھے۔‏ اِس لئے جب ہیرودیس ایک تقریر میں ان سے مخاطب ہوا تو اُنہوں نے جوش میں آ کر کہا:‏ ’‏یہ تو خدا کی آواز ہے نہ کہ انسان کی۔‏‘‏ مغرور ہیرودیس نے اِس ستائش کو قبول کر لیا۔‏ اِس پر یہوواہ خدا کے فرشتہ نے اُسے مار ڈالا ”‏اس لئے کہ اُس نے خدا کی تمجید نہ کی۔‏“‏ (‏اعما ۱۲:‏۲۰-‏۲۳‏)‏ اگر ہم تقریر دینے میں یا بائبل کی تعلیم دینے میں ہنرمند ہیں تو ہمیں خدا کی تمجید کرنی چاہئے جس نے ہمیں یہ ہنر عطا کِیا ہے۔‏—‏۱-‏کر ۴:‏۶،‏ ۷؛‏ یعقو ۴:‏۶‏۔‏

دلیر بنیں

۱۱،‏ ۱۲.‏ حنوک کی مثال سے ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے خادموں کو طاقت بخشتا ہے اور دلیر بننے میں مدد دیتا ہے؟‏

۱۱ اگر ہم فروتنی سے خدا کی راہ پر چلیں گے تو وہ ہمیں طاقت بخشے گا اور دلیر بنائے گا۔‏ ‏(‏است ۳۱:‏۶-‏۸،‏ ۲۳‏)‏ خدا کا خادم حنوک،‏ آدم سے ساتویں پُشت میں تھا۔‏ اپنے زمانے کے بُرے لوگوں کے برعکس حنوک دلیری سے خدا کی راہ پر چلتا رہا۔‏ (‏پید ۵:‏۲۱-‏۲۴‏)‏ خدا نے حنوک کو طاقت بخشی تاکہ وہ بُرے لوگوں کو اُن پر آنے والے عذاب کے بارے میں بتائے۔‏ (‏یہوداہ ۱۴،‏ ۱۵ کو پڑھیں۔‏)‏ کیا آپ بھی دلیری سے لوگوں کو اِس بُری دُنیا پر آنے والے عذاب کے بارے میں بتاتے ہیں؟‏

۱۲ حنوک کی پیشینگوئی کی تکمیل میں خدا نے نوح کے زمانے میں بُرے لوگوں کو طوفان کے ذریعے تباہ کر دیا۔‏ البتہ حنوک کی پیشینگوئی ہمارے لئے بھی حوصلے کا باعث ہے کیونکہ بہت جلد خدا ہمارے زمانے میں رہنے والے بےدین لوگوں کو تباہ کر دے گا۔‏ (‏مکا ۱۶:‏۱۴-‏۱۶؛‏ ۱۹:‏۱۱-‏۱۶‏)‏ جب ہم دلیری سے مُنادی کرنے کے لئے دُعا کرتے ہیں تو خدا ہمیں طاقت بخشتا ہے۔‏ اس طرح ہم لوگوں تک یہوواہ خدا کے پیغامات پہنچانے کے قابل ہو جاتے ہیں چاہے یہ دُنیا پر آنے والے عذاب کے بارے میں ہوں یا پھر آنے والی برکات کے بارے میں۔‏

۱۳.‏ ہم کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ جب ہمیں پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے تو خدا ہماری مدد کرتا ہے؟‏

۱۳ جب ہمیں پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے تو ہمیں خدا کی طرف سے قوت اور دلیری کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ جب عیسو نے دو حتی عورتوں سے شادی کی تو یہ عورتیں اُس کے والدین ”‏اِضحاؔق اور ربقہؔ کے لئے وبالِ‌جان ہوئیں۔‏“‏ یہاں تک کہ ربقہ نے کہا:‏ ”‏مَیں حتی لڑکیوں کے سبب سے اپنی زندگی سے تنگ ہوں۔‏ سو اگر یعقوؔب حتی لڑکیوں میں سے جیسی اِس مُلک کی لڑکیاں ہیں کسی سے بیاہ کر لے تو میری زندگی میں کیا لطف رہے گا؟‏“‏ (‏پید ۲۶:‏۳۴،‏ ۳۵؛‏ ۲۷:‏۴۶‏)‏ اِس پر اِضحاق نے یعقوب کو اپنے رشتہ‌داروں کے پاس بھیجا تاکہ وہ یہوواہ کے خادموں میں سے بیوی چن لے۔‏ اِضحاق اور ربقہ کی پریشانی کا باعث تو دُور نہیں ہوا لیکن خدا نے اُنہیں دانشمندی،‏ دلیری اور قوت بخشی تاکہ وہ اِن مشکل حالات میں بھی اُس کے وفادار رہ سکیں۔‏ اگر ہم خدا کی مدد کے لئے دُعا مانگیں گے تو وہ ہمارے لئے بھی ایسا کرے گا۔‏—‏زبور ۱۱۸:‏۵‏۔‏

۱۴.‏ ایک چھوٹی اسرائیلی لڑکی نے کیسے دلیری ظاہر کی؟‏

۱۴ ذرا اِس واقعے پر بھی غور کریں۔‏ ایک چھوٹی اسرائیلی لڑکی کو ارامی سپہ‌سالار نعمان کے گھر میں غلام کے طور پر رکھا گیا تھا۔‏ نعمان کو کوڑھ تھا۔‏ اسرائیلی لڑکی کو پتا تھا کہ خدا کا نبی الیشع معجزے کرتا ہے اور اُس نے دلیری سے نعمان کی بیوی سے کہا کہ اگر میرا آقا اِس نبی کے پاس جائے گا تو وہ اُسے کوڑھ سے شفا دے دے گا۔‏ نعمان نے اِس مشورے پر عمل کرتے ہوئے شفا پائی۔‏ (‏۲-‏سلا ۵:‏۱-‏۳‏)‏ یہ چھوٹی اسرائیلی لڑکی اُن بچوں اور نوجوانوں کے لئے کتنی اچھی مثال ہے جو خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے دلیری سے اپنے اُستادوں اور ہم‌جماعتوں کو یہوواہ خدا کے بارے میں گواہی دیتے ہیں۔‏

۱۵.‏ عبدیاہ نے دلیری کیسے ظاہر کی؟‏

۱۵ خدا ہمیں دلیر بننے میں مدد دیتا ہے تاکہ ہم اذیت کا سامنا کر سکیں۔‏ عبدیاہ کی مثال پر غور کریں جو ایلیاہ نبی کے زمانے میں بادشاہ اخی‌اب کے گھر کا مختار تھا۔‏ جب ملکہ ایزبل نے یہوواہ خدا کے نبیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تو عبدیاہ نے اِن میں سے سو نبیوں کو لیکر ”‏پچاس پچاس کرکے اُن کو ایک غار میں چھپایا۔‏“‏ (‏۱-‏سلا ۱۸:‏۱۳؛‏ ۱۹:‏۱۸‏)‏ کیا آپ بھی دلیری کے ساتھ اپنے اُن مسیحی بہن‌بھائیوں کی مدد کرنے کو تیار ہیں جو اذیت سہہ رہے ہیں؟‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ ارسترخس اور گیس نے اذیت کا سامنا کرتے وقت کس قسم کا ردِعمل دکھایا؟‏

۱۶ آپ اذیت کا سامنا کرتے وقت اِس بات پر پورا بھروسہ کر سکتے ہیں کہ خدا آپ کی مدد کرے گا۔‏ (‏روم ۸:‏۳۵-‏۳۹‏)‏ شہر افسس میں پولس رسول کے ساتھی ارسترخس اور گیس کو ہزاروں فسادیوں پر مشتمل ایک بِھیڑ کا سامنا کرنا پڑا۔‏ اِس فساد کو دیمیتریس نامی ایک سنار نے شروع کِیا تھا۔‏ دیمیتریس اور اُس کے ساتھی،‏ دیوی ارتمس کی مورتیاں بناتے تھے۔‏ لیکن اُن کا یہ کاروبار خطرے میں تھا کیونکہ پولس رسول کی مُنادی کے نتیجے میں افسس کے بہت سے لوگوں نے بُت‌پرستی کو ترک کر دیا تھا۔‏ فسادی،‏ ارسترخس اور گیس کو تماشاگاہ تک گھسیٹ کر لے گئے اور ”‏چلّا چلّا کر کہنے لگے کہ افسیوں کی ارتمس بڑی ہے۔‏“‏ ارسترخس اور گیس کو ایسا لگا ہوگا کہ اب وہ نہیں بچ پائیں گے لیکن شہر کا محرر فسادیوں کو ٹھنڈا کرنے میں کامیاب رہا۔‏—‏اعما ۱۹:‏۲۳-‏۴۱‏۔‏

۱۷ اگر یہ واقعہ آپ کے ساتھ پیش آتا تو آپ آئندہ کیا کرنے کا ارادہ کرتے؟‏ کیا آپ مشکلات سے بچنے کے لئے مُنادی کے کام سے کنارہ کرنے کا ارادہ کر لیتے؟‏ ارسترخس اور گیس نے اِس واقعے کے بعد بھی ہمت نہ ہاری۔‏ چونکہ ارسترخس شہر تھسلنیکے کا رہنے والا تھا اس لئے وہ جانتا تھا کہ خوشخبری کی منادی کرنے کے نتیجے میں مسیحیوں کو اذیت کا سامنا ہو سکتا ہے۔‏ چند سال پہلے جب پولس رسول نے تھسلنیکے میں منادی کی تھی تو وہاں بھی فساد ہوئے تھے۔‏ (‏اعما ۱۷:‏۵؛‏ ۲۰:‏۴‏)‏ ارسترخس اور گیس خدا کی راہ پر چل رہے تھے اس لئے خدا نے اُنہیں مضبوط اور دلیر ہونے میں مدد دی۔‏

دوسروں کے فائدے کا خیال رکھیں

۱۸.‏ پرِسکہ اور اکوِلہ نے ’‏دوسروں کے احوال پر نظر‘‏ کیسے رکھی؟‏

۱۸ ہمیں نہ صرف اذیت کے وقت بلکہ دوسرے اوقات پر بھی اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کی فکر رکھنی چاہئے۔‏ پرِسکہ اور اکوِلہ ”‏دوسروں کے احوال“‏ پر بھی نظر رکھتے تھے یعنی وہ دوسروں کے فائدے کا خیال رکھتے تھے۔‏ (‏فلپیوں ۲:‏۴ کو پڑھیں۔‏)‏ ممکن ہے کہ اُنہوں نے شہر افسس میں پولس رسول کی رہائش کا انتظام کِیا ہو۔‏ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں اُس شہر میں دیمیتریس نے فساد شروع کِیا تھا۔‏ ہو سکتا ہے کہ پرِسکہ اور اکوِلہ نے اِس واقعے کے سلسلے میں پولس رسول کی جان کے لئے ’‏اپنا سر دے رکھا ہو۔‏‘‏ (‏روم ۱۶:‏۳،‏ ۴؛‏ ۲-‏کر ۱:‏۸‏)‏ آج جب ہمارے مسیحی بہن‌بھائیوں کو اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو ہم اُن کے فائدے کا خیال رکھتے ہوئے ”‏سانپوں کی مانند ہوشیار“‏ ہو جاتے ہیں۔‏ (‏متی ۱۰:‏۱۶-‏۱۸‏)‏ اس کا مطلب ہے کہ ایسی صورتحال میں ہم مُنادی کرنے میں احتیاط سے کام لیں گے اور دُشمنوں کو اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کے بارے میں معلومات نہیں دیں گے۔‏

۱۹.‏ تبیتا دوسروں کے فائدے کا کیسے خیال رکھتی تھی؟‏

۱۹ ہم اَور طریقوں سے بھی دوسروں کے فائدے کا خیال رکھ سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہم ضرورتمند مسیحی بہن‌بھائیوں کی کچھ ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔‏ (‏افس ۴:‏۲۸؛‏ یعقو ۲:‏۱۴-‏۱۷‏)‏ پہلی صدی میں یافا کی کلیسیا میں تبیتا نامی ایک مہربان عورت تھی۔‏ (‏اعمال ۹:‏۳۶-‏۴۲ کو پڑھیں۔‏)‏ تبیتا ”‏بہت ہی نیک کام اور خیرات کِیا کرتی تھی۔‏“‏ (‏اعما ۹:‏۳۶-‏۴۲‏)‏ وہ ضرورتمند بیواؤں کے لئے کپڑے بناتی تھی۔‏ جب وہ سن ۳۶ میں فوت ہوئی تو کلیسیا کی بیوائیں بہت افسردہ ہو گئیں۔‏ لیکن خدا نے پطرس رسول کے ذریعے تبیتا کو زندہ کر دیا۔‏ بلاشُبہ تبیتا نے اپنی باقی زندگی بادشاہت کی خوشخبری سنانے اور نیکی کرنے میں گزار دی۔‏ ہم کتنے خوش ہیں کہ آج بھی نیکی کرنے والی ایسی مسیحی عورتیں ہمارے ساتھ خدمت کر رہی ہیں۔‏

۲۰،‏ ۲۱.‏ (‏ا)‏ دوسروں کے احوال پر نظر رکھنے میں اَور کیا شامل ہے؟‏ (‏ب)‏ دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے لئے آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏

۲۰ ہم دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے سے بھی اُن کے احوال پر نظر رکھ سکتے ہیں۔‏ ‏(‏روم ۱:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ پولس رسول کے ساتھی سیلاس نے دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کی۔‏ سن ۴۹ کے لگ‌بھگ جب یروشلیم میں رسولوں اور بزرگوں نے ختنہ کے مسئلے پر فیصلہ دیا تو اُنہوں نے چند بھائیوں کے ہاتھ دوسرے علاقوں میں خط بھیجے تاکہ وہاں کی کلیسیاؤں کو بھی اِس فیصلے سے آگاہ کِیا جائے۔‏ سیلاس،‏ یہوداہ،‏ برنباس اور پولس رسول اِس خط کو انطاکیہ لے گئے۔‏ وہاں پر سیلاس اور یہوداہ نے ”‏بھائیوں کو بہت نصیحت کرکے تسلی دی اور مضبوط کِیا۔‏“‏—‏اعما ۱۵:‏۳۲‏،‏ کیتھولک ترجمہ۔‏

۲۱ بعد میں پولس رسول اور سیلاس کو شہر فلپی میں قید کر دیا گیا لیکن ایک زلزلے کی وجہ سے وہ قید سے رہا ہو گئے۔‏ اُنہوں نے قیدخانے کے داروغہ کو یہوواہ خدا کا کلام سنایا جس کے نتیجے میں اُس نے اور اُس کے گھروالوں نے بپتسمہ لے لیا۔‏ یہ پولس رسول اور سیلاس کے لئے کتنی خوشی کا باعث بنا ہوگا۔‏ اُس شہر سے روانہ ہونے سے پہلے پولس رسول اور سیلاس نے بھائیوں سے ملاقات کی اور اُنہیں تسلی دے کر اُن کا حوصلہ بڑھایا۔‏ (‏اعما ۱۶:‏۱۲،‏ ۴۰‏)‏ اُن کی طرح آپ بھی اپنے تبصروں اور تقریروں کے ذریعے اور منادی کے کام میں پیش آنے والے اچھے تجربے سنانے سے دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کر سکتے ہیں۔‏ جب بھی آپ کے پاس کوئی حوصلہ‌افزا بات ہو تو اِسے دوسروں کو بتائیں۔‏

یہوواہ خدا کی راہوں پر چلتے رہیں

۲۲،‏ ۲۳.‏ ہم خدا کے کلام میں پائے جانے والے واقعات سے کیسے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں؟‏

۲۲ ہمیں اِس بات کے لئے شکرگزار ہونا چاہئے کہ ’‏تسلی کے خدا‘‏ نے ہمارے لئے اپنے کلام میں ایسے واقعات درج کروائے ہیں جن سے ہم حوصلہ پا سکتے ہیں۔‏ (‏۲-‏کر ۱:‏۳‏)‏ بائبل میں درج واقعات سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے ہمیں سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنا اور خدا کی روح کی راہنمائی کے مطابق چلنا چاہئے۔‏—‏گل ۵:‏۲۲-‏۲۵‏۔‏

۲۳ بائبل میں پائے جانے والے واقعات پر غوروخوض کرنے سے ہم خود میں خدا کی خوبیاں پیدا کر سکیں گے۔‏ اس کے علاوہ ہم اُس خدا کے اَور زیادہ نزدیک ہو جائیں گے جو ہمیں ”‏حکمت اور دانائی اور خوشی بخشتا ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۲:‏۲۶‏)‏ اِس طرح ہم خدا کے دل کو شاد کریں گے۔‏ (‏امثا ۲۷:‏۱۱‏)‏ دُعا ہے کہ ہم خدا کی راہوں پر چلنے سے ہمیشہ اُس کے دل کو شاد کرتے رہیں۔‏

آپ کا جواب کیا ہوگا؟‏

‏• آپ قابلِ‌بھروسہ کیسے ثابت ہو سکتے ہیں؟‏

‏• ہمیں فروتن کیوں ہونا چاہئے؟‏

‏• بائبل میں پائے جانے والے واقعات پر غور کرنے سے ہمیں دلیر بننے میں مدد کیسے مل سکتی ہے؟‏

‏• ہم دوسروں کے فائدے کا کیسے خیال رکھ سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویر]‏

افتاح اور اُس کی بیٹی وعدے کے پکے ثابت ہوئے حالانکہ یہ اُن کے لئے مشکل تھا

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

نوجوانو،‏ آپ نے اسرائیلی لڑکی سے کیا سیکھا ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

تبیتا نے ضرورتمند مسیحیوں کی مدد کیسے کی؟‏