مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مناسب حد تک نرم‌مزاجی اور تابع‌داری ظاہر کریں

مناسب حد تک نرم‌مزاجی اور تابع‌داری ظاہر کریں

مناسب حد تک نرم‌مزاجی اور تابع‌داری ظاہر کریں

‏”‏اُن کو یاد دلا کہ .‏ .‏ .‏ نرم‌مزاج ہوں۔‏“‏—‏طط ۳:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ بائبل میں نرم‌مزاجی کے بارے میں کیا کہا گیا ہے؟‏ (‏ب)‏ مسیحیوں کو نرم‌مزاجی اور تابعداری سے کیوں کام لینا چاہئے؟‏

یہوواہ خدا کی حکمت لامحدود ہے۔‏ وہ ہمارا ہادی ہے اور ہماری راہنمائی کرتا ہے۔‏ (‏زبور ۴۸:‏۱۴‏)‏ یعقوب نے خدا کے الہام سے لکھا کہ ”‏جو حکمت اُوپر سے آتی ہے اوّل تو وہ پاک ہوتی ہے۔‏ پھر ملنسار،‏ حلیم [‏یا نرم‌مزاج]‏ اور تربیت‌پذیر۔‏ رحم اور اچھے پھلوں سے لدی ہوئی۔‏ بےطرفدار اور بےریا ہوتی ہے۔‏“‏—‏یعقو ۳:‏۱۷‏۔‏

۲ پولس رسول نے مسیحیوں کو تاکید کی کہ ”‏تمہاری نرم‌مزاجی سب آدمیوں پر ظاہر ہو۔‏“‏ * (‏فل ۴:‏۵‏)‏ یسوع مسیح کلیسیا کا سردار ہے اِس لئے ہم میں سے ہر ایک کو اُس کے تابع رہنا چاہئے اور ایک دوسرے کا لحاظ رکھنا چاہئے۔‏—‏افس ۵:‏۲۳‏۔‏

۳،‏ ۴.‏ (‏ا)‏ نرم‌مزاجی اور تابع‌داری ظاہر کرنے کے کچھ فائدے بتائیں۔‏ (‏ب)‏ ہم اِس مضمون میں کن باتوں پر غور کریں گے؟‏

۳ جہاں تک موزوں ہو ہمیں نرم‌مزاجی اور تابع‌داری ظاہر کرنی چاہئے۔‏ اِس کے بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر جب برطانیہ میں دہشت‌گردوں کے ایک منصوبے کا پتہ چلا تو مسافروں کو ہوائی جہاز میں چند ایسی چیزیں لے جانے سے منع کر دیا گیا جن کی پہلے اجازت تھی۔‏ زیادہ‌تر مسافروں نے بڑی نرم‌مزاجی اور تابع‌داری سے اِس ہدایت پر عمل کِیا جس کی وجہ سے ہوائی جہاز میں سفر کرنا زیادہ محفوظ ہو گیا۔‏ ایک اَور مثال پر غور کریں۔‏ گاڑی چلاتے وقت ہم اکثر دوسروں کا لحاظ رکھتے ہوئے اُنہیں راستہ دیتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے حادثے کا امکان کم ہو جاتا ہے اور ٹریفک کا نظام متاثر نہیں ہوتا۔‏

۴ یہ بات درست ہے کہ نرم‌مزاجی اور تابع‌داری جیسی خوبیاں پیدا کرنا آسان نہیں ہوتا۔‏ اس لئے آئیں دیکھیں کہ ہمیں یہ خوبیاں کیوں پیدا کرنی چاہئیں،‏ ہمیں اُن لوگوں کو کیسا خیال کرنا چاہئے جن کو اختیار سونپا گیا ہے اور ہمیں کس حد تک تابع‌داری ظاہر کرنی چاہئے۔‏

ہمیں نرم‌مزاجی اور تابع‌داری کیوں ظاہر کرنی چاہئے؟‏

۵.‏ کئی اسرائیلی،‏ غلام کیوں رہنا چاہتے تھے؟‏

۵ نرم‌مزاجی اور تابع‌داری جیسی خوبیوں کی اہمیت ہم اِس مثال سے دیکھ سکتے ہیں:‏ موسیٰ کی شریعت میں بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اگر ایک اسرائیلی کسی کا غلام بن جائے تو اُسے سات سال کے بعد رہا کر دیا جائے اور اگر اِس سے پہلے یوبلی کا سال آ جائے تو اُسے اِس موقعے پر رہا کر دیا جائے۔‏ لیکن اگر ایک غلام آزاد ہونے کی بجائے اپنے آقا کے پاس رہنا چاہتا تو اُسے ایسا کرنے کی بھی اجازت تھی۔‏ (‏خروج ۲۱:‏۵،‏ ۶ کو پڑھیں۔‏)‏ کئی اسرائیلی،‏ غلام کیوں رہنا چاہتے تھے؟‏ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر کسی اسرائیلی غلام کا آقا اُس کا لحاظ رکھتا اور اُس کے ساتھ اچھی طرح سے پیش آتا تو اُس کے دل میں اپنے آقا کے لئے محبت پیدا ہو سکتی تھی۔‏

۶.‏ نرم‌مزاجی اور تابع‌داری کا محبت سے کیا تعلق ہے؟‏

۶ اسی طرح ہمیں بھی یہوواہ خدا سے گہری محبت ہے۔‏ اس وجہ سے ہم نے اپنی زندگی اُس کی خدمت کرنے کے لئے وقف کر دی ہے۔‏ (‏روم ۱۴:‏۷،‏ ۸‏)‏ اس سلسلے میں یوحنا رسول نے لکھا:‏ ”‏خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اُس کے حکموں پر عمل کریں اور اُس کے حکم سخت نہیں۔‏“‏ (‏۱-‏یوح ۵:‏۳‏)‏ خدا سے محبت رکھنے والے لوگ اپنی بہتری کی بجائے دوسروں کی بہتری چاہتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کر ۱۳:‏۴،‏ ۵‏)‏ مسیحی ہونے کے ناطے ہم دوسروں سے محبت رکھتے ہیں۔‏ اس لئے ہم اپنے فائدہ کا نہیں بلکہ دوسروں کے فائدے کا خیال رکھتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ ہم خودغرض بننے کی بجائے دوسروں کو اپنے سے بہتر سمجھتے ہیں۔‏—‏فل ۲:‏۲،‏ ۳‏۔‏

۷.‏ منادی کے کام میں ہم دوسروں کا لحاظ کیسے رکھ سکتے ہیں؟‏

۷ مسیحیوں کو نہ تو اپنی باتوں سے اور نہ ہی اپنے کاموں سے دوسروں کے لئے ٹھوکر کا باعث بننا چاہئے۔‏ (‏افس ۴:‏۲۹‏)‏ ہمیں اُن لوگوں سے محبت رکھنی چاہئے جن کو ہم بادشاہت کی خوشخبری سناتے ہیں۔‏ اگر وہ کسی دوسری قوم یا طبقے سے تعلق رکھتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ کسی ایسی بات کو بُرا خیال کریں جو ہماری نظر میں بُری نہیں ہے۔‏ اُن کے احساسات کا لحاظ رکھتے ہوئے ہم ایسی باتوں سے کنارہ کریں گے جو اُن کے لئے یہوواہ خدا کے نزدیک آنے میں رُکاوٹ بن سکتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر جب مسیحی بہنیں مشنری کے طور پر کسی غیرملک میں منادی کرتی ہیں تو وہ کوئی ایسا فیشن نہیں کریں گی جس سے وہاں کے باشندے اُن کو بُرا خیال کرنے لگیں یا ٹھوکر کھائیں۔‏—‏۱-‏کر ۱۰:‏۳۱-‏۳۳‏۔‏

۸.‏ اگر ہم یہوواہ خدا سے محبت رکھتے ہیں تو ہمیں خود کو ”‏سب سے چھوٹا“‏ خیال کرنا آسان کیوں لگے گا؟‏

۸ یہوواہ خدا سے محبت رکھنے کی وجہ سے ہم اپنے دل میں سے غرور کو بھی دُور کر پائیں گے۔‏ ایک بار جب یسوع کے شاگرد آپس میں اِس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ اُن میں سے کون بڑا ہے تو یسوع نے ایک بچے کو لے کر اُن کے بیچ میں کھڑا کِیا۔‏ پھر اُس نے کہا:‏ ”‏جو کوئی اِس بچہ کو میرے نام پر قبول کرتا ہے وہ مجھے قبول کرتا ہے اور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبول کرتا ہے کیونکہ جو تُم میں سب سے چھوٹا ہے وہی بڑا ہے۔‏“‏ (‏لو ۹:‏۴۸؛‏ مر ۹:‏۳۶‏)‏ ہو سکتا ہے کہ ہمیں خود کو ”‏سب سے چھوٹا“‏ خیال کرنا آسان نہ لگے۔‏ ہم سب نے گُناہ ورثے میں پایا ہے اس لئے اکثر ہم غرور کرتے ہیں۔‏ لیکن اگر ہم دوسروں کو اپنے سے بہتر سمجھیں گے تو ہم خود کو اُن سے بڑا خیال نہیں کریں گے۔‏—‏روم ۱۲:‏۱۰‏۔‏

۹.‏ تابع‌داری اور نرم‌مزاجی ظاہر کرنے میں اَور کیا شامل ہے؟‏

۹ تابع‌داری اور نرم‌مزاجی ظاہر کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اُن لوگوں کا احترام کریں جن کو یہوواہ خدا نے اختیار سونپا ہے۔‏ سب مسیحیوں کو پولس رسول کی اِس بات کو ذہن‌نشین کرنا چاہئے کہ ”‏ہر مرد کا سر مسیح اور عورت کا سر مرد اور مسیح کا سر خدا ہے۔‏“‏—‏۱-‏کر ۱۱:‏۳‏۔‏

۱۰.‏ خدا کے اختیار کو قبول کرنے سے ہم کیا ظاہر کرتے ہیں؟‏

۱۰ ہم خدا کے اختیار کو قبول کرنے سے ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں اُس پر بھروسہ ہے۔‏ وہ جانتا ہے کہ ہمیں کن مشکلات کا سامنا ہے اور وہ ہمیں وفاداری کا اَجر دیتا ہے۔‏ ہمیں اِس بات کو خاص طور پر اُس وقت یاد رکھنا چاہئے جب کوئی شخص غصے میں آ کر ہماری بےعزتی کرتا ہے۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏جہاں تک ہو سکے تُم اپنی طرف سے سب آدمیوں کے ساتھ میل ملاپ [‏”‏صلح،‏“‏ کیتھولک ترجمہ‏]‏ رکھو۔‏“‏ پھر اُس نے لکھا:‏ ”‏اَے عزیزو!‏ اپنا انتقام نہ لو بلکہ [‏خدا کے]‏ غضب کو موقع دو کیونکہ یہ لکھا ہے کہ [‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے انتقام لینا میرا کام ہے۔‏ بدلہ مَیں ہی دوں گا۔‏“‏—‏روم ۱۲:‏۱۸،‏ ۱۹‏۔‏

۱۱.‏ ہم کیسے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم یسوع مسیح کے اختیار کو قبول کرتے ہیں؟‏

۱۱ ہمیں اُن بھائیوں کے بھی تابع رہنا چاہئے جنہیں کلیسیا میں اختیار سونپا گیا ہے۔‏ مکاشفہ کے پہلے باب میں بتایا گیا ہے کہ یسوع مسیح کے دہنے ہاتھ میں کلیسیاؤں کے ”‏سات ستارے“‏ ہیں۔‏ (‏مکا ۱:‏۱۶،‏ ۲۰‏)‏ یہ سات ستارے کلیسیا کے بزرگوں کی جماعتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔‏ تمام بزرگ یسوع مسیح کو اپنے سردار کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔‏ وہ یسوع مسیح کی نقل کرتے ہوئے دوسروں کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آتے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ جماعت کا انتظام کِیا ہے جو مسیحیوں کو وقت پر روحانی خوراک فراہم کرتی ہے۔‏ سچے مسیحی اِس جماعت کے اختیار کو قبول کرتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏)‏ اِس جماعت کی فراہم کی ہوئی کتابوں اور رسالوں کا مطالعہ کرنے اور اِن میں بتائی گئی باتوں پر عمل کرنے سے ہم یسوع کے اختیار کو قبول کرتے ہیں۔‏ اس طرح کلیسیا میں امن اور اتحاد برقرار رہتا ہے۔‏—‏روم ۱۴:‏۱۳،‏ ۱۹‏۔‏

ہمیں کس حد تک نرم‌مزاجی اور تابع‌داری ظاہر کرنی چاہئے؟‏

۱۲.‏ مسیحی کس حد تک حکومتوں کی تابع‌داری کرتے ہیں؟‏

۱۲ یہ بات درست ہے کہ بائبل میں ہمیں اُن لوگوں کا تابع‌دار رہنے کے لئے کہا گیا ہے جو اختیار رکھتے ہیں۔‏ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں اُن کی بات ماننے کی خاطر خدا کے حکموں کو نظرانداز کرنا چاہئے۔‏ یاد کریں کہ جب مذہبی پیشواؤں نے یسوع کے شاگردوں کو مُنادی کرنے سے منع کِیا تو پطرس رسول نے دلیری سے یہ جواب دیا:‏ ”‏ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔‏“‏ (‏اعما ۴:‏۱۸-‏۲۰؛‏ ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ اسی طرح آج بھی جب حکومتیں ہمیں مُنادی کرنے سے منع کرتی ہیں تو ہم منادی کرنے سے باز نہیں آتے۔‏ لیکن ایسی صورتحال میں شاید ہم مُنادی کرنے کے دوسرے طریقے اپنائیں۔‏ مثال کے طور پر اگر ہمیں گھر گھر جا کر مُنادی کرنے سے منع کِیا جاتا ہے تو ہم دوسرے موقعوں اور جگہوں پر لوگوں کو خوشخبری سنائیں گے۔‏ اسی طرح اگر ’‏اعلیٰ حکومتیں‘‏ ہمیں عبادت کے لئے جمع ہونے سے منع کرتی ہیں تو ہم چھوٹے گروہوں میں جمع ہوں گے۔‏—‏روم ۱۳:‏۱؛‏ عبر ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏

۱۳.‏ یسوع نے اختیار والوں کے تابع رہنے کی اہمیت کیسے واضح کی؟‏

۱۳ یسوع نے اپنے پہاڑی وعظ میں اختیار والوں کے تابع رہنے کی اہمیت کو واضح کِیا۔‏ اُس نے کہا کہ ”‏اگر کوئی تجھ پر نالش کرکے تیرا کُرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اُسے لے لینے دے۔‏ اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اُس کے ساتھ دو کوس چلا جا۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۴۰،‏ ۴۱‏)‏  * اگر ہم دوسروں کی بہتری چاہتے ہیں تو ہم اُن کے لئے صرف وہ نہیں کریں گے جو ہمارا فرض بنتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ کچھ کرنے کی کوشش کریں گے۔‏—‏۱-‏کر ۱۳:‏۵؛‏ طط ۳:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۱۴.‏ ہمیں برگشتہ لوگوں سے کیوں دُور رہنا چاہئے؟‏

۱۴ البتہ نرم‌مزاج اور تابع‌دار ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم برگشتہ لوگوں کی باتوں کو سنیں گے۔‏ ہمیں ایسے لوگوں سے دُور رہنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ کلیسیا کا اتحاد اور خدا کے کلام کی سچائی برقرار رہے۔‏ ”‏جھوٹے بھائیوں“‏ کے بارے میں پولس رسول نے لکھا کہ ”‏اُن کے تابع رہنا ہم نے گھڑی بھر بھی منظور نہ کِیا تاکہ خوشخبری کی سچائی تُم میں قائم رہے۔‏“‏ (‏گل ۲:‏۴،‏ ۵‏)‏ لہٰذا جب ہمیں برگشتگی کا سامنا ہوتا ہے تو ہم خدا کے کلام کی سچائیوں پر قائم رہتے ہیں۔‏

کلیسیا کے بزرگوں کو نرم‌مزاج اور تابع‌دار ہونا چاہئے

۱۵.‏ جب بزرگ کلیسیا کے معاملوں کے بارے میں بات کرنے کے لئے جمع ہوتے ہیں تو وہ نرم‌مزاجی کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

۱۵ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏نگہبان .‏ .‏ .‏ حلیم ہو۔‏“‏ (‏۱-‏تیم ۳:‏۲،‏ ۳‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ جن بھائیوں کو کلیسیا میں نگہبان کے طور پر مقرر کِیا جاتا ہے اُنہیں نرم‌مزاج اور تابع‌دار ہونا چاہئے۔‏ بزرگوں کو خاص طور پر اُس وقت اِن خوبیوں کو ظاہر کرنا چاہئے جب وہ کلیسیا کے معاملوں کے بارے میں بات کرنے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔‏ کلیسیا کے بزرگ کسی معاملے کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلے کُھل کر اپنی اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔‏ اگرچہ یہ لازمی نہیں ہے کہ ہر ایک بزرگ اپنی رائے پیش کرے۔‏ بات‌چیت کے دوران بزرگ خدا کے کلام میں سے ایسے اصولوں کا ذکر کرتے ہیں جو اُس معاملے پر لاگو ہوتے ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ اِن اصولوں پر غور کرنے کے بعد ایک بزرگ کی رائے بدل جائے۔‏ اگر وہ پُختہ مسیحی ہے تو وہ اپنی رائے پر ڈٹے رہنے کی بجائے اِسے بدلنے کو تیار ہوگا۔‏ ہو سکتا ہے کہ بزرگ شروع میں ایک معاملے کے بارے میں فرق فرق رائے رکھیں لیکن دُعا کرنے اور بائبل کے اصولوں پر غور کرنے کے بعد وہ متحد ہو کر ایک ہی نتیجے پر پہنچیں گے۔‏ اِس سے ثابت ہوگا کہ یہ بزرگ حلیم ہیں۔‏—‏۱-‏کر ۱:‏۱۰‏؛‏ برائےمہربانی افسیوں ۴:‏۱-‏۳ کو پڑھیں۔‏

۱۶.‏ کلیسیا کے نگہبانوں کو اپنی من‌مانی کرنے کی بجائے کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۶ نگہبان کو اپنی من‌مانی کرنے کی بجائے یہوواہ خدا کی تنظیم کی تابع‌داری کرنی چاہئے۔‏ اُسے یہ بات کلیسیا کے مسیحیوں کی گلّہ‌بانی کرتے وقت بھی یاد رکھنی چاہئے۔‏ یوں وہ دوسروں کا لحاظ رکھے گا اور اُن کے ساتھ نرمی سے پیش آئے گا۔‏ وہ جانتا ہے کہ وہ ”‏خدا کے .‏ .‏ .‏ گلّہ کی گلّہ‌بانی“‏ کر رہا ہے اِس لئے وہ ’‏لاچاری سے نگہبانی نہیں کرے گا بلکہ خدا کی مرضی کے موافق خوشی سے،‏ اور ناجائز نفع کے لئے نہیں بلکہ دلی شوق سے۔‏‘‏—‏۱-‏پطر ۵:‏۲‏۔‏

۱۷.‏ کلیسیا کے تمام مسیحی نرم‌مزاجی اور تابع‌داری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

۱۷ کلیسیا کے عمررسیدہ مسیحی،‏ جوان مسیحیوں کی مدد قبول کرتے ہیں اور اُن کی قدر کرتے ہیں۔‏ جوان مسیحی،‏ عمررسیدہ مسیحیوں کے ساتھ احترام سے پیش آتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ مسیحی بڑے عرصے سے یہوواہ خدا کی خدمت کرتے آ رہے ہیں۔‏ (‏۱-‏تیم ۵:‏۱،‏ ۲‏)‏ کلیسیا کے بزرگ لائق بھائیوں کو ذمہ‌داریاں سونپتے ہیں اور اُنہیں خدا کے گلّے کی گلّہ‌بانی کرنے کی تربیت دیتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیم ۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ ہر ایک مسیحی کو چاہئے کہ وہ پولس رسول کی اِس نصیحت پر دل لگائے:‏ ”‏اپنے پیشواؤں کے فرمانبردار اور تابع رہو کیونکہ وہ تمہاری روحوں کے فائدہ کے لئے اُن کی طرح جاگتے رہتے ہیں جنہیں حساب دینا پڑے گا تاکہ وہ خوشی سے یہ کام کریں نہ کہ رنج سے کیونکہ اِس صورت میں تمہیں کچھ فائدہ نہیں۔‏“‏—‏عبر ۱۳:‏۱۷‏۔‏

خاندان میں نرم‌مزاجی اور تابع‌داری ظاہر کریں

۱۸.‏ خاندان کے افراد کو نرم‌مزاج اور تابع‌دار کیوں ہونا چاہئے؟‏

۱۸ خاندان کے افراد کو بھی نرم‌مزاج اور تابع‌دار ہونا چاہئے۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۱۸-‏۲۱ کو پڑھیں۔‏)‏ بائبل میں خاندان کے ہر فرد کی ذمہ‌داریاں بتائی گئی ہیں۔‏ مرد اپنی بیوی کا سر ہے۔‏ اس کے علاوہ خدا نے بچوں کی تربیت کرنے کی ذمہ‌داری اوّل تو باپ کو سونپی ہے۔‏ عورت کو اپنے شوہر کے اختیار کو قبول کرتے ہوئے اُس کے تابع رہنا چاہئے۔‏ بچوں کو اپنے ماں‌باپ کا کہنا ماننا چاہئے تاکہ وہ یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔‏ جب خاندان کا ہر فرد مناسب حد تک نرم‌مزاجی اور تابع‌داری سے کام لیتا ہے تو خاندان میں امن اور اتحاد ہوتا ہے۔‏ لیکن خاندان میں مناسب حد تک نرم‌مزاجی اور تابع‌داری ظاہر کرنے کا کیا مطلب ہے؟‏ آئیں اِس سلسلے میں بائبل کی چند مثالوں پر غور کریں۔‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ (‏ا)‏ عیلی نے نرم‌مزاجی ظاہر کرنے کے سلسلے میں کونسی بُری مثال دی؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا فرشتوں سے کیسے پیش آیا؟‏ (‏ج)‏ والدین اِن مثالوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۹ خاندان میں نرم‌مزاجی ظاہر کرنے کے سلسلے میں پہلے تو عیلی کی مثال پر غور کریں۔‏ عیلی کے بیٹے حُفنی اور فینحاس ”‏بہت شریر تھے۔‏ اُنہوں نے [‏یہوواہ]‏ کو نہ پہچانا۔‏“‏ یہاں تک کہ وہ اُن عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتے جو خیمۂ‌اجتماع میں خدا کی خدمت کرنے کے لئے آتیں۔‏ لوگوں نے عیلی کو اُس کے بیٹوں کی بدکاریوں کے بارے میں بتایا۔‏ اِس پر عیلی نے کیا کِیا؟‏ اُس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ اگر وہ یہوواہ کا گُناہ کریں گے تو اُن کی خاطر کوئی بھی دُعا نہیں سنی جائے گی۔‏ لیکن عیلی نے نہ تو اپنے بیٹوں کو تنبیہ کی اور نہ ہی اُن کی اصلاح کی۔‏ لہٰذا اُس کے بیٹوں نے اپنی بدکاریاں جاری رکھیں۔‏ آخرکار یہوواہ خدا نے اُن کو سزائےموت سنا دی۔‏ جب عیلی کو خبر ملی کہ اُس کے بیٹے مر گئے ہیں تو وہ خود بھی مر گیا۔‏ جی‌ہاں،‏ عیلی حد سے زیادہ نرم‌مزاج تھا۔‏ اس لئے اُس نے اپنے بیٹوں کو غلط کام کرنے سے نہیں روکا اور اِس کے نتیجے میں اُس کے خاندان پر آفت ٹوٹ پڑی۔‏—‏۱-‏سمو ۲:‏۱۲-‏۱۷،‏ ۲۲-‏۲۵،‏ ۳۴،‏ ۳۵؛‏ ۴:‏۱۷،‏ ۱۸‏۔‏

۲۰ آئیں اب ہم مناسب حد تک نرم‌مزاج ہونے کی اچھی مثال پر غور کرتے ہیں۔‏ خدا کے نبی میکایاہ نے ایک رویا میں یہوواہ خدا کو فرشتوں سے مشورہ لیتے ہوئے دیکھا۔‏ خدا نے پوچھا کہ بنی‌اسرائیل کے بادشاہ اخی‌اب کو کون بہکائے گا تاکہ وہ مار دیا جائے۔‏ اِس پر فرشتوں نے طرح طرح کی تجاویز پیش کیں اور یہوواہ خدا نے اُن کی باتوں پر غور کِیا۔‏ پھر ایک فرشتے نے کہا کہ مَیں اُسے بہکاؤں گا۔‏ یہوواہ خدا نے اُس سے پوچھا کہ وہ یہ کام کیسے انجام دے گا۔‏ فرشتے کی تجویز اچھی تھی لہٰذا یہوواہ خدا نے اُسے اخی‌اب کو بہکانے کی ذمہ‌داری سونپی۔‏ (‏۱-‏سلا ۲۲:‏۱۹-‏۲۳‏)‏ خاندان کے افراد اِس مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ ایک مسیحی مرد کو چاہئے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے مشوروں اور تجاویز کو خاطر میں لائے۔‏ اور بیوی بچوں کو اِس بات کی توقع نہیں کرنی چاہئے کہ اُن کی ہر تجویز پر عمل کِیا جائے کیونکہ خدا نے خاندان کے معاملوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کی ذمہ‌داری مرد کو سونپی ہے۔‏

۲۱ ہم یہوواہ خدا کے شکرگزار ہیں کہ وہ ہمیں نرم‌مزاجی اور تابع‌داری جیسی خوبیاں پیدا کرنے کی یاددہانی کراتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۹۹‏)‏ اگلے مضمون میں ہم اِس بات پر غور کریں گے کہ شادی‌شُدہ جوڑے اِن خوبیوں کو کیسے کام میں لا سکتے ہیں تاکہ اُن کی شادی کامیاب رہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 2 دراصل اِس آیت میں لفظ ”‏نرم‌مزاجی“‏ ایک ایسے یونانی لفظ کا ترجمہ ہے جس کا ایک لفظ سے ترجمہ کرنا ممکن نہیں۔‏ اُردو بائبل میں اِس لفظ کا ترجمہ ”‏حلیم،‏“‏ ”‏نرم‌مزاج“‏ اور ”‏تابع رہنا“‏ کِیا گیا ہے۔‏ پولس رسول نے جو یونانی لفظ استعمال کِیا ہے اِس کے دو مطلب ہیں:‏ (‏۱)‏ دوسروں کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنا حق چھوڑ دینا۔‏ (‏۲)‏ اختیار رکھنے والوں کے تابع رہنا۔‏

^ پیراگراف 13 اس سلسلے میں مضمون ”‏جب کوئی تجھے بیگار میں لے جائے“‏ کو دیکھیں جو فروری ۱۵،‏ ۲۰۰۵ کے مینارِنگہبانی کے صفحہ ۲۳-‏۲۶ پر شائع ہوا ہے۔‏

آپ کا جواب کیا ہوگا؟‏

‏• ہمیں نرم‌مزاجی اور تابع‌داری کی خوبیاں کیوں پیدا کرنی چاہئیں؟‏

‏• کلیسیا کے بزرگ نرم‌مزاجی اور تابع‌داری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

‏• خاندان کے ہر فرد کو نرم‌مزاجی اور تابع‌داری کیوں ظاہر کرنی چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

۲۱.‏ اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

‏[‏صفحہ ۴ پر تصویر]‏

یسوع مسیح کی طرح کلیسیا کے بزرگ بھی دوسروں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر]‏

جب بزرگ جمع ہوتے ہیں تو وہ نرم‌مزاجی اور تابع‌داری ظاہر کرتے ہیں جس کی وجہ سے کلیسیا کا اتحاد برقرار رہتا ہے