مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باطل چیزوں کے پیچھے نہ بھاگیں

باطل چیزوں کے پیچھے نہ بھاگیں

باطل چیزوں کے پیچھے نہ بھاگیں

‏”‏بطالت کا پیرو بےعقل ہے۔‏“‏—‏امثا ۱۲:‏۱۱‏۔‏

۱.‏ یہوواہ نے ہمیں کن بیش‌قیمت چیزوں سے نوازا ہے اور اِن کا بہترین استعمال کیسے کِیا جا سکتا ہے؟‏

ہم سب کسی نہ کسی طرح کی بیش‌قیمت چیزوں کے مالک ہیں۔‏ اِن میں اچھی صحت،‏ دماغی صلاحیتیں یا مال‌ودولت شامل ہو سکتے ہیں۔‏ کیونکہ ہم یہوواہ خدا سے محبت رکھتے ہیں اس لئے ہم اِن چیزوں اور صلاحیتوں کو اُس کی خدمت میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔‏ اِس طرح ہم امثال ۳:‏۹ میں درج الہامی نصیحت پر عمل کر رہے ہوں گے:‏ ’‏اپنے مال سے یہوواہ کی تعظیم کر۔‏‘‏

۲.‏ بائبل باطل چیزوں کے سلسلے میں کیسے خبردار کرتی ہے،‏ اور اِس آگاہی سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

۲ اِس کی دوسری طرف بائبل میں بطالت،‏ بطلان یا باطل چیزوں کا بھی ذکر کِیا گیا ہے۔‏ اس کا مطلب جھوٹی،‏ بیکار،‏ بےاصل اور نکمی چیزیں ہیں۔‏ بائبل ہمیں اپنا وقت اور طاقت ایسی چیزوں کے پیچھے بھاگنے میں ضائع کرنے سے خبردار کرتی ہے۔‏ اِس سلسلے میں امثال ۱۲:‏۱۱ میں درج الفاظ پر غور کریں:‏ ”‏جو اپنی زمین میں کاشتکاری کرتا ہے روٹی سے سیر ہوگا لیکن بطالت کا پیرو بےعقل ہے۔‏“‏ اِس مثل سے ہم سیکھتے ہیں کہ اگر ایک شخص اپنا وقت اور توانائی اپنے خاندان کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لئے صرف کرتا ہے تو یقیناً وہ اور اُس کا خاندان کسی حد تک جسمانی اور مالی طور پر مطمئن ہوں گے۔‏ (‏۱-‏تیم ۵:‏۸‏)‏ لیکن اگر ایک شخص اپنے تمام‌تر وسائل باطل یا بیکار چیزوں کو حاصل کرنے میں خرچ کر دیتا ہے تو وہ ”‏بےعقل“‏ ثابت ہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھداری کی کمی ظاہر کرتا ہے۔‏ یقیناً ایسا شخص ضروریاتِ‌زندگی کے لئے محتاج ہوگا۔‏

۳.‏ باطل چیزوں کے بارے میں بائبل کی آگاہی کا اطلاق خدا کی عبادت پر کیسے ہوتا ہے؟‏

۳ ہم امثال ۱۲:‏۱۱ میں درج اُصول کا اطلاق خدا کی عبادت کے سلسلے میں بھی کر سکتے ہیں۔‏ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب ایک مسیحی مستعدی اور وفاداری کے ساتھ یہوواہ خدا کی خدمت کرتا ہے تو وہ حقیقت میں مطمئن ہوگا۔‏ وہ نہ صرف اب خدا کی برکات سے لطف‌اندوز ہو سکتا ہے بلکہ مستقبل کے لئے بھی یقینی اُمید رکھ سکتا ہے۔‏ (‏متی ۶:‏۳۳؛‏ ۱-‏تیم ۴:‏۱۰‏)‏ لیکن جب ایک مسیحی باطل یا بیکار چیزوں کے پیچھے بھاگتا ہے تو وہ یہوواہ خدا کے ساتھ اپنے رشتے کو نقصان پہنچاتا اور ہمیشہ کی زندگی کے امکان کو کھو دینے کے خطرے میں ہوتا ہے۔‏ ہم اِس خطرے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ ہمیں اپنی زندگیوں میں ’‏باطل چیزوں‘‏ کو پہچاننے اور پھر اُنہیں ترک کرنے کے لئے پُرعزم رہنا چاہئے۔‏—‏ططس ۲:‏۱۱،‏ ۱۲ کو پڑھیں۔‏

۴.‏ عام طور پر کونسی چیزیں باطل یا بیکار ہیں؟‏

۴ پس ہم کن چیزوں کو باطل یعنی بیکار یا نکما کہہ سکتے ہیں؟‏ ہر وہ چیز باطل یا بیکار ہے جو ہمارے لئے پورے دل سے یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کی راہ میں رُکاوٹ بنتی ہے۔‏ اِس میں مختلف طرح کی تفریح بھی شامل ہو سکتی ہے۔‏ سچ ہے کہ سیروتفریح ضروری ہے۔‏ لیکن جب ہم حد سے زیادہ وقت تفریح میں صرف کرتے ہیں اور خدا کی عبادت کے لئے ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں بچتا توپھر تفریح بھی باطل چیز بن جاتی ہے کیونکہ یہ خدا کے ساتھ ہمارے رشتے کو کمزور کر دیتی ہے۔‏ (‏واعظ ۲:‏۲۴؛‏ ۴:‏۶‏)‏ ایسی صورتحال سے بچنے کے لئے ایک مسیحی کو تفریح کے سلسلے میں توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔‏ اُسے اِس بات پر خاص توجہ دینی چاہئے کہ وہ اپنے قیمتی وقت کو کیسے استعمال کرتا ہے۔‏ (‏کلسیوں ۴:‏۵ کو پڑھیں۔‏)‏ تاہم بہت سی ایسی باطل چیزیں بھی ہیں جو تفریح سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔‏ اِن میں جھوٹے معبود یعنی بُت شامل ہیں۔‏

بُتوں کی پوجا نہ کریں

۵.‏ عبرانی زبان میں لفظ ”‏باطل“‏ اکثر کن چیزوں کے لئے استعمال ہوا ہے؟‏

۵ دلچسپی کی بات ہے کہ پاک صحائف میں جب لفظ بُت آتا ہے تو بیشتر صورتوں میں عبرانی زبان میں اِس کے ساتھ لفظ ”‏باطل“‏ استعمال ہوا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ یہوواہ خدا نے بنی اسرائیل کو حکم دیا:‏ ”‏تُم اپنے لئے [‏باطل]‏ بُت نہ بنانا اور نہ کوئی تراشی ہوئی مورت یا لاٹ اپنے لئے کھڑی کرنا اور نہ اپنے مُلک میں کوئی شبِیہ‌دار پتھر رکھنا کہ اُسے سجدہ کرو اس لئے کہ مَیں [‏یہوواہ]‏ تمہارا خدا ہوں۔‏“‏ (‏احبا ۲۶:‏۱‏)‏ داؤد بادشاہ نے بھی لکھا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ بزرگ اور نہایت ستایش کے لائق ہے۔‏ وہ سب معبودوں سے زیادہ مہیب ہے۔‏ اس لئے کہ اور قوموں کے سب معبود محض [‏باطل]‏ بُت ہیں لیکن [‏یہوواہ]‏ نے آسمانوں کو بنایا۔‏“‏—‏۱-‏توا ۱۶:‏۲۵،‏ ۲۶‏۔‏

۶.‏ جھوٹے معبود کیوں باطل ہیں؟‏

۶ داؤد بادشاہ نے بیان کِیا کہ ہمارے اِردگِرد یہوواہ کی عظمت کا ثبوت دینے والی بیشمار چیزیں موجود ہیں۔‏ (‏زبور ۱۳۹:‏۱۴؛‏ ۱۴۸:‏۱-‏۱۰‏)‏ پس اسرائیلیوں کے لئے یہوواہ خدا کے ساتھ ایک بیش‌قیمت رشتہ رکھنا کتنا بڑا شرف تھا!‏ لہٰذا اُن کے لئے یہوواہ خدا سے دُور جانا اور تراشی ہوئی مورتوں یا بُتوں کی بوچا کرنا کتنی بڑی حماقت تھی!‏ مشکل اوقات میں اُن کے جھوٹے معبود واقعی باطل ثابت ہوئے کیونکہ وہ نہ تو خود کو اور نہ ہی اپنے پرستاروں کو بچانے کے قابل تھے۔‏—‏قضا ۱۰:‏۱۴،‏ ۱۵؛‏ یسع ۴۶:‏۵-‏۷‏۔‏

۷،‏ ۸.‏ ”‏دولت“‏ ہماری زندگیوں میں ایک معبود کیسے بن سکتی ہے؟‏

۷ آجکل بھی بہت سے ملکوں میں لوگ انسان کے بنائے ہوئے بُتوں کی پوجا کرتے ہیں۔‏ یہ معبود ماضی کی طرح آج بھی باطل ہیں۔‏ (‏۱-‏یوح ۵:‏۲۱‏)‏ تاہم،‏ بائبل میں بُتوں کے علاوہ دیگر چیزوں کو بھی معبود کا درجہ دیا گیا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ یسوع مسیح کے اِن الفاظ پر غور کریں:‏ ”‏کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت۔‏ یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔‏ تُم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔‏“‏—‏متی ۶:‏۲۴‏۔‏

۸ ‏”‏دولت“‏ کیسے معبود بن سکتی ہے؟‏ اس سلسلے میں ماضی کی ایک مثال پر غور کریں۔‏ قدیم اسرائیل میں اگر کسی شخص کی زمین یا کھیت سے کوئی پتھر نکل آتا تھا تو اُسے گھر یا دیوار تعمیر کرنے کے لئے استعمال کِیا جا سکتا تھا۔‏ اِس کی دوسری طرف اگر اِسی پتھر سے ایک ”‏تراشی ہوئی مورت“‏ بنا کر اُسے سجدہ کِیا جاتا تو یہی پتھر خدا کے لوگوں کے لئے ٹھوکر کھانے کا باعث بن سکتا تھا۔‏ (‏احبا ۲۶:‏۱‏)‏ اِسی طرح روپیہ‌پیسہ بھی ایک ضروری چیز ہے کیونکہ روزمرّہ زندگی کے لئے درکار چیزیں خریدنے کے لئے ہمیں پیسے کی ضرورت پڑتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ،‏ ہم پیسے کو یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔‏ (‏واعظ ۷:‏۱۲؛‏ لو ۱۶:‏۹‏)‏ لیکن جب ہم پیسہ کمانے میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ خدا کی خدمت کرنے کے لئے ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں بچتا تو پیسہ درحقیقت ہمارے لئے ایک معبود بن جاتا ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۹،‏ ۱۰ کو پڑھیں۔‏)‏ آج کی دُنیا میں مال‌ودولت کا حصول لوگوں کی زندگیوں میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔‏ اس لئے ہمیں روپےپیسے کو حد سے زیادہ اہمیت دینے سے خبردار رہنا چاہئے۔‏—‏۱-‏تیم ۶:‏۱۷-‏۱۹‏۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ (‏ا)‏ ایک مسیحی کو تعلیم کی بابت کیا نظریہ رکھنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے کونسے خطرات ہیں؟‏

۹ ایک اَور چیز پر غور کریں جو ہمارے لئے بہت ضروری ہے لیکن بیکار چیز بھی بن سکتی ہے۔‏ ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں تاکہ وہ گزربسر کرنے کے لئے روزگار حاصل کر سکیں۔‏ لیکن اِس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اچھی تعلیم حاصل کرنے سے ایک مسیحی بائبل کو بہتر طور پر پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہوتا ہے اور سمجھداری کے ساتھ اپنے مسائل حل کر سکتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ وہ دوسروں کو بھی مؤثر طریقے سے بائبل کی سچائیاں سکھا سکتا ہے۔‏ پس اچھی تعلیم حاصل کرنے میں اگرچہ وقت لگتا ہے توبھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا یہ وقت ضائع ہوا ہے۔‏

۱۰ تاہم،‏ مسیحیوں کو اعلیٰ تعلیم کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏ عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لئے یونیورسٹی یا اسی طرح کے کسی دوسرے ادارے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔‏ تاہم،‏ ایسی تعلیم کی جستجو میں بہتیرے لوگ دُنیا کی نقصان‌دہ فیلسوفی کا شکار ہو گئے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ،‏ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں اُن کی زندگی کے بہت سے قیمتی سال ضائع ہو جاتے ہیں جنہیں وہ یہوواہ کی خدمت میں استعمال کر سکتے تھے۔‏ (‏واعظ ۱۲:‏۱‏)‏ ایسے ممالک میں جہاں بہتیرے لوگوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے وہاں زیادہ‌تر لوگ خالق پر ایمان کھو بیٹھے ہیں۔‏ پس ایک مسیحی کو زندگی میں اطمینان اور خوشحالی حاصل کرنے کے لئے اعلیٰ تعلیم کی بجائے خدا کی ذات پر بھروسا رکھنا چاہئے۔‏—‏امثا ۳:‏۵‏۔‏

جسمانی خواہشات کو معبود کا درجہ نہ دیں

۱۱،‏ ۱۲.‏ پولس رسول نے بعض لوگوں کے بارے میں یہ کیوں کہا تھا کہ ”‏اُن کا خدا پیٹ ہے“‏؟‏

۱۱ فلپیوں کے نام اپنے خط میں پولس رسول نے ایک اَور چیز کی نشاندہی کی جو ہماری زندگیوں میں ایک معبود کا درجہ لے سکتی ہے۔‏ ایسے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جو کبھی اُس کے ہم‌ایمان ہوا کرتے ہوئے تھے پولس لکھتا ہے:‏ ”‏بہتیرے ایسے ہیں جن کا ذکر مَیں نے تُم سے بارہا کِیا ہے اور اب بھی رو رو کر کہتا ہوں کہ وہ اپنے چال‌چلن سے مسیح کی صلیب کے دشمن ہیں۔‏ اُن کا انجام ہلاکت ہے۔‏ اُن کا خدا پیٹ ہے۔‏ وہ .‏ .‏ .‏ دُنیا کی چیزوں کے خیال میں رہتے ہیں۔‏“‏ (‏فل ۳:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ کسی شخص کا پیٹ کیسے اُس کے لئے خدا بن سکتا ہے؟‏

۱۲ اِن آیات سے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جن لوگوں کا پولس ذکر کر رہا تھا اُن کے لئے جسمانی خواہشات اتنی اہم بن گئی تھیں کہ وہ خدا کی خدمت کرنے کو نظرانداز کر رہے تھے۔‏ اِن میں سے بعض تو شاید واقعی کھانےپینے میں حد سے زیادہ مگن ہو کر پیٹو یا کھاؤ بن گئے تھے۔‏ (‏امثا ۲۳:‏۲۰،‏ ۲۱‏؛‏ اِس کے علاوہ استثنا ۲۱:‏۱۸-‏۲۱ پر غور کریں۔‏)‏ اِس کے علاوہ پہلی صدی میں بعض شاید زندگی کی مختلف آسائشوں سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش میں یہوواہ خدا کی خدمت سے غافل ہو گئے تھے۔‏ پس دُعا ہے کہ ایک پُرآسائش زندگی گزارنے کی خواہش کہیں ہمیں بھی یہوواہ خدا کی خدمت میں سُست نہ کر دے۔‏—‏کل ۳:‏۲۳،‏ ۲۴‏۔‏

۱۳.‏ (‏ا)‏ لالچ کسے کہتے ہیں اور پولس رسول نے اِس سلسلے میں کیا لکھا؟‏ (‏ب)‏ ہم لالچ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

۱۳ پولس رسول نے جھوٹی پرستش کے ایک دوسرے پہلو کا بھی ذکر کِیا۔‏ اُس نے لکھا:‏ ”‏پس اپنے اُن اعضا کو مُردہ کرو جو زمین پر ہیں یعنی حرامکاری اور ناپاکی اور شہوت اور بُری خواہش اور لالچ کو جو بُت‌پرستی کے برابر ہے۔‏“‏ (‏کل ۳:‏۵‏)‏ دراصل لالچ ایک ایسی چیز کی شدید خواہش کو کہتے ہیں جو ہمارے پاس نہیں ہے۔‏ مثال کے طور پر لالچ مادی چیزوں کا بھی ہو سکتا ہے اور ناجائز جنسی تعلقات کا بھی۔‏ (‏خر ۲۰:‏۱۷‏)‏ ذرا سوچیں کہ ایسی خواہشات رکھنا بُت‌پرستی کرنے کے برابر ہے!‏ یسوع مسیح نے ایک تمثیل کے ذریعے یہ ظاہر کِیا تھا کہ ایسی غلط خواہشات پر قابو پانا کتنا اہم ہے۔‏—‏مرقس ۹:‏۴۷ کو پڑھیں؛‏ ۱-‏یوح ۲:‏۱۶‏۔‏

بطالت کی باتوں سے خبردار رہیں

۱۴،‏ ۱۵.‏ (‏ا)‏ یرمیاہ کے دنوں میں کونسی چیز بہت سے لوگوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بنی؟‏ (‏ب)‏ موسیٰ کی باتیں کیوں مفید اور کارآمد تھیں؟‏

۱۴ باطل چیزوں میں بیہودہ باتیں بھی شامل ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ یہوواہ خدا نے یرمیاہ نبی سے کہا:‏ ”‏انبیا میرا نام لیکر جھوٹی نبوّت کرتے ہیں۔‏ مَیں نے نہ اُن کو بھیجا اور نہ حکم دیا اور نہ اُن سے کلام کِیا۔‏ وہ جھوٹی رویا اور جھوٹا علمِ‌غیب اور بطالت اور اپنے دلوں کی مکاری نبوّت کی صورت میں تُم پر ظاہر کرتے ہیں۔‏“‏ (‏یرم ۱۴:‏۱۴‏)‏ جھوٹے نبی یہوواہ خدا کے نام سے نبوّت کرنے کا دعویٰ کر رہے تھے مگر حقیقت میں وہ اپنے نظریات کا چرچا کر رہے تھے۔‏ اس لئے اُن کی باتیں ”‏بطالت“‏ کی باتیں تھیں۔‏ واقعی اُن کی بیکار باتیں یہوواہ کے لوگوں کے لئے خطرناک تھیں۔‏ سن ۶۰۷ قبل‌ازمسیح میں اِن باطل باتوں پر کان لگانے والے بہتیرے اسرائیلی بابلی سپاہیوں کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے۔‏

۱۵ اِس کے برعکس،‏ موسیٰ نے اسرائیلیوں سے کہا:‏ ”‏جو باتیں مَیں نے تُم سے آج کے دن بیان کی ہیں اُن سب سے تُم دل لگانا .‏ .‏ .‏ کیونکہ یہ تمہارے لئے کوئی بےسود بات نہیں بلکہ یہ تمہاری زندگانی ہے اور اِسی سے اُس مُلک میں جہاں تُم یرؔدن پار جا رہے ہو کہ اُس پر قبضہ کرو تمہاری عمر دراز ہوگی۔‏“‏ (‏است ۳۲:‏۴۶،‏ ۴۷‏)‏ جی‌ہاں،‏ خدا نے موسیٰ کو یہ باتیں کہنے کا الہام بخشا تھا۔‏ اس لئے یہ مفید اور کارآمد باتیں تھیں جو قوم کی بھلائی کے لئے بہت ضروری تھیں۔‏ اِن باتوں پر دھیان دینے والے لوگ لمبی عمر اور خوشحال زندگی سے لطف‌اندوز ہوئے۔‏ دُعا ہے کہ ہم بھی باطل باتوں سے بھاگیں اور سچائی سے لپٹے رہیں۔‏

۱۶.‏ ہم سائنسدانوں کے ایسے بیانات کو کیسا خیال کرتے ہیں جو خدا کے کلام سے ٹکراتے ہیں؟‏

۱۶ کیا ہمارے زمانے میں بھی باطل باتیں سننے میں آتی ہیں؟‏ جی ہاں۔‏ مثال کے طور پر،‏ بعض سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ارتقا کا نظریہ اور مختلف میدانوں میں ہونے والی سائنسی ترقی اِس بات کا ثبوت ہے کہ اب ہمیں خدا پر ایمان رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ اُن کا دعویٰ ہے کہ ہر چیز قدرتی عوامل کے ذریعے ہی وجود میں آئی ہے۔‏ کیا ہمیں ایسی متکبرانہ باتوں پر دھیان دینا چاہئے؟‏ ہرگز نہیں!‏ انسانی حکمت اور خدائی حکمت میں بہت فرق ہے۔‏ (‏۱-‏کر ۲:‏۶،‏ ۷‏)‏ تاہم،‏ ہم جانتے ہیں کہ جب انسانی تعلیمات خدا کی تعلیمات سے ٹکراتی ہیں تو ہمیشہ انسان کی تعلیمات ہی غلط ہوتی ہیں۔‏ (‏رومیوں ۳:‏۴ کو پڑھیں۔‏)‏ اگرچہ سائنس‌دانوں نے بعض حلقوں میں بڑی ترقی کی ہے لیکن انسانی حکمت کے سلسلے میں بائبل کا یہ بیان بالکل سچ ثابت ہوا ہے کہ ”‏دُنیا کی حکمت خدا کے نزدیک بیوقوفی ہے۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ جب خدا کی لامحدود حکمت کا مقابلہ انسانی حکمت کے ساتھ کِیا جاتا ہے تو انسانی حکمت ہمیشہ باطل ثابت ہوتی ہے۔‏—‏۱-‏کر ۳:‏۱۸-‏۲۰‏۔‏

۱۷.‏ ہمیں نام‌نہاد مسیحیوں اور برگشتہ لوگوں کی باتوں کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏

۱۷ باطل باتوں کی ایک اَور مثال نام‌نہاد مسیحی پیشواؤں کی باتیں ہیں۔‏ وہ خدا کے نام سے کلام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اُن کی زیادہ‌تر باتیں پاک کلام کے مطابق نہیں ہوتیں۔‏ وہ بےمعنی باتیں کہتے ہیں۔‏ اِسی طرح خدا کی تنظیم سے برگشتہ ہو جانے والے لوگ بھی ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ سے زیادہ حکمت رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اُن کی باتیں بھی باطل اور بیہودہ ہوتی ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏)‏ کیونکہ برگشتہ لوگ اپنی حکمت سے کلام کرتے ہیں اور اُن کی باتیں جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں اس لئے وہ اپنے سننے والوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بنتے ہیں۔‏ (‏لو ۱۷:‏۱،‏ ۲‏)‏ ہم اُن کی باطل اور جھوٹی باتوں میں آنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

ہم بطالت کی باتوں کو کیسے رد کر سکتے ہیں؟‏

۱۸.‏ ہم ۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۲۱ میں درج مشورت کا اطلاق کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۸ اِس سلسلے میں پولس رسول نے بڑی عمدہ مشورت دی۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۲۱ کو پڑھیں۔‏)‏ پولس رسول کی اِس نصیحت کی مطابقت میں ہم مُنادی کے دوران لوگوں کی ہمیشہ یہ حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں کہ جوکچھ وہ سیکھتے ہیں اُس کا موازنہ بائبل کے ساتھ ضرور کریں۔‏ اِس اُصول پر عمل کرنا ہمارے لئے بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔‏ اگر ہم ایسی باتیں سنتے ہیں جن سے خدا کے کلام میں پائی جانے والی سچائی پر نکتہ‌چینی کی بُو آتی ہے یا جن سے خدا کی کلیسیا،‏ بزرگوں یا دوسرے بہن‌بھائیوں پر الزامات لگائے جاتے ہیں تو ہمیں جانچ‌پڑتال کئے بغیر اُن کا یقین نہیں کرنا چاہئے۔‏ ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے:‏ ”‏کیا ایسی باتیں پھیلانے والے شخص کا چال‌چلن بائبل کے مطابق ہے؟‏ کیا اُس کی باتیں خدا کے مقصد کو فروغ دیتی ہیں؟‏ کیا اِن باتوں سے کلیسیا کا اَمن بڑھے گا؟‏“‏ کوئی بھی بات جو ہماری مسیحی برادری کے اتحاد کو بڑھانے کی بجائے کلیسیا میں تفرقے پیدا کرتی ہے وہ باطل ہے۔‏—‏۲-‏کر ۱۳:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

۱۹.‏ بزرگ باطل باتیں کرنے سے باز رہنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟‏

۱۹ جہاں تک بطالت یا بےبنیاد باتوں کا تعلق ہے تو کلیسیا کے بزرگوں کو بھی اِس سلسلے میں خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔‏ جب بزرگ کلیسیا کے کسی رُکن کو مشورت دیتے ہیں تو وہ اِس بات کو بخوبی یاد رکھتے ہیں کہ اُن کا علم محدود ہے۔‏ وہ کبھی بھی صرف اپنے ذاتی علم یا تجربے کی بنیاد پر مشورت پیش نہیں کرتے۔‏ وہ ہمیشہ بائبل میں سے مشورت دیتے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں ۱-‏کرنتھیوں ۴:‏۶ میں درج پولس رسول کے یہ الفاظ بزرگوں کے لئے واضح ہدایت فراہم کرتے ہیں:‏ ”‏لکھے ہوئے سے تجاوز نہ کرو۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ بزرگ تعلیم دیتے وقت بائبل کی ہدایات کی پابندی کرتے ہیں۔‏ نہ صرف یہ بلکہ بزرگ بائبل پر مبنی اُس مشورت سے بھی تجاوز نہیں کرتے جو دیانتدار اور عقلمند نوکر مختلف کتابوں اور رسالوں کے ذریعے فراہم کرتا ہے۔‏

۲۰.‏ ہم باطل چیزوں کو کیسے رد کر سکتے ہیں؟‏

۲۰ باطل چیزیں خواہ معبود ہوں،‏ باتیں ہوں یا اَور چیزیں،‏ یہ انتہائی نقصان‌دہ ہیں۔‏ اِسی لئے ہم ہمیشہ یہوواہ خدا سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اِن باطل چیزوں کو پہچاننے اور اُنہیں رد کرنے کی توفیق عطا کرے۔‏ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم درحقیقت زبور ۱۱۹:‏۳۷ میں درج زبورنویس کے اِن الفاظ سے متفق ہوتے ہیں:‏ ”‏میری آنکھوں کو بطلان پر نظر کرنے سے باز رکھ اور مجھے اپنی راہوں میں زندہ کر۔‏“‏ اگلے مضمون میں ہم اِس بات پر غور کریں گے کہ ہمیں یہوواہ خدا کی راہنمائی کیوں قبول کرنی چاہئے۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• ہم کس طرح کی چیزوں کو ”‏باطل“‏ کہہ سکتے ہیں؟‏

‏• ہم روپےپیسے کو خدا کا درجہ دینے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

‏• جسمانی خواہشیں کن معنوں میں ہمارے لئے ایک معبود بن سکتی ہیں؟‏

‏• ہم بطالت کی باتوں کو کیسے رد کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۳ پر تصویر]‏

اسرائیلیوں کی حوصلہ‌افزائی کی گئی تھی کہ باطل چیزوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے وہ ’‏اپنی زمین میں کاشتکاری کریں‘‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

مادی چیزوں کے لالچ کی خاطر یہوواہ خدا کی خدمت کو پسِ‌پُشت نہ ڈالیں

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر]‏

بزرگوں کی باتیں ہمارے لئے فائدہ‌مند ثابت ہو سکتی ہیں