مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدا کی راہنمائی پر چلتے رہیں

خدا کی راہنمائی پر چلتے رہیں

خدا کی راہنمائی پر چلتے رہیں

‏”‏یہی خدا ابدالآباد ہمارا خدا ہے۔‏ یہی موت تک ہمارا ہادی رہے گا۔‏“‏—‏زبور ۴۸:‏۱۴‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ ہمیں اپنی عقل پر بھروسا کرنے کی بجائے یہوواہ خدا کی راہنمائی پر کیوں چلنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں کونسے اہم سوالات پر غور کِیا جائے گا؟‏

انسانوں کے لئے باطل اور اہم چیزوں میں فرق کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔‏ ہم باطل چیزوں کو بڑی آسانی سے اہم خیال کر سکتے ہیں۔‏ (‏امثا ۱۲:‏۱۱‏)‏ جب ہم کوئی ایسا کام کرنا چاہتے ہیں جو مسیحیوں کے لئے مناسب نہیں تو ہمارا دل ایسے بہت سے بہانے تلاش کرنے لگتا ہے جو اِس کام کو جائز قرار دیتے ہیں۔‏ (‏یرم ۱۷:‏۵،‏ ۹‏)‏ اِسی لئے زبور نویس نے یہوواہ خدا سے یہ دُعا کی تھی:‏ ”‏اپنے نُور اور اپنی سچائی کو بھیج۔‏ وہی میری رہبری کریں۔‏“‏ (‏زبور ۴۳:‏۳‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زبورنویس کو اپنی عقل پر نہیں بلکہ یہوواہ خدا کی راہنمائی پر بھروسا تھا۔‏ اُس کی نظر میں صرف یہوواہ خدا ہی صحیح راہنمائی فراہم کر سکتا تھا۔‏ پس زبورنویس کی طرح ہمیں بھی یہوواہ خدا کی راہنمائی کے طالب ہونا چاہئے۔‏

۲ تاہم،‏ اِس سلسلے میں چند سوال غورطلب ہیں:‏ ہمیں یہوواہ خدا کی راہنمائی پر کیوں بھروسا کرنا چاہئے؟‏ ہمیں کن صورتحال میں یہوواہ کی راہنمائی کے طالب ہونا چاہئے؟‏ یہوواہ خدا کی راہنمائی سے فائدہ اُٹھانے کے لئے مسیحیوں کو کیسا رویہ ظاہر کرنا چاہئے؟‏ اور آجکل خدا کیسے ہماری راہنمائی کرتا ہے؟‏ اِس مضمون میں ہم اِن اہم سوالات کے جواب حاصل کریں گے۔‏

یہوواہ خدا کی راہنمائی پر کیوں بھروسا کریں؟‏

۳-‏۵.‏ ہم کیوں یہوواہ خدا کی راہنمائی پر مکمل بھروسا رکھ سکتے ہیں؟‏

۳ یہوواہ خدا ہمارا آسمانی باپ ہے۔‏ (‏۱-‏کر ۸:‏۶‏)‏ وہ ہم میں سے ہر ایک سے اچھی طرح واقف ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ ہمارے دلوں میں کیا ہے۔‏ (‏۱-‏سمو ۱۶:‏۷؛‏ امثا ۲۱:‏۲‏)‏ داؤد بادشاہ نے خدا سے کہا تھا:‏ ”‏تُو میرا اُٹھنا بیٹھنا جانتا ہے۔‏ تُو میرے خیال کو دُور سے سمجھ لیتا ہے۔‏ دیکھ!‏ میری زبان پر کوئی ایسی بات نہیں جِسے تُو اَے [‏یہوواہ]‏!‏ پورے طور پر نہ جانتا ہو۔‏“‏ (‏زبور ۱۳۹:‏۲،‏ ۴‏)‏ چونکہ یہوواہ خدا ہمیں اچھی طرح جانتا ہے اس لئے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ہمارے لئے کیا اچھا ہے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ یہوواہ خدا لامحدود حکمت کا مالک ہے۔‏ انسانوں کی نسبت وہ معاملات کو بہت گہرائی سے جانچتا ہے۔‏ نیز جب کوئی بات واقع ہوتی ہے تو اِس کے ساتھ ہی وہ اُس کے انجام کے بارے میں جانتا ہے۔‏ (‏یسع ۴۶:‏۹-‏۱۱؛‏ روم ۱۱:‏۳۳‏)‏ اِسی لئے رومیوں ۱۶:‏۲۷ میں خدا کو ”‏واحد حکیم خدا“‏ کہا گیا ہے۔‏

۴ اِس کے علاوہ،‏ یہوواہ خدا ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہمیشہ ہمارا بھلا چاہتا ہے۔‏ (‏یوح ۳:‏۱۶؛‏ ۱-‏یوح ۴:‏۸‏)‏ ایک پُرمحبت اور شفیق خدا کے طور پر وہ ہمیں بڑی فیاضی کے ساتھ مختلف چیزیں عطا کرتا ہے۔‏ اِس کے بارے میں یسوع کے شاگرد یعقوب نے لکھا:‏ ”‏ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام اوپر سے ہے اور نوروں کے باپ کی طرف سے ملتا ہے جس میں نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ گردش کے سبب سے اُس پر سایہ پڑتا ہے۔‏“‏ (‏یعقو ۱:‏۱۷‏)‏ جو لوگ خدا کی راہنمائی میں چلتے ہیں وہ اُس کی فیاضی سے مستفید ہوتے ہیں۔‏

۵ فیاض ہونے کے ساتھ ساتھ یہوواہ قادرِمطلق یعنی تمام قدرت کا مالک بھی ہے۔‏ اس سلسلے میں زبورنویس نے کہا:‏ ”‏جو حق‌تعالیٰ کے پردہ میں رہتا ہے۔‏ وہ قادرِمطلق کے سایہ میں سکونت کرے گا۔‏ مَیں [‏یہوواہ]‏ کے بارے میں کہوں گا وہی میری پناہ اور میرا گڑھ ہے۔‏ وہ میرا خدا ہے جس پر میرا توکل ہے۔‏“‏ (‏زبور ۹۱:‏۱،‏ ۲‏)‏ یہوواہ خدا کو اپنا رہبر بنا لینے سے ہم درحقیقت اُسے اپنی پناہ‌گاہ بنا رہے ہوتے ہیں۔‏ وہ ہمیں کبھی بھی بےیارومددگار نہیں چھوڑتا۔‏ خواہ ہمیں مخالفت کا سامنا ہی کیوں نہ ہو یہوواہ ہمیشہ ہماری مدد کے لئے تیار رہتا ہے۔‏ وہ ہمیں کبھی مایوس نہیں ہونے دیتا۔‏ (‏زبور ۷۱:‏۴،‏ ۵‏؛‏ برائےمہربانی امثال ۳:‏۱۹-‏۲۶ کو پڑھیں۔‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ خدا جانتا ہے کہ ہمیں کس وقت کیسی راہنمائی کی ضرورت ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کی راہنمائی میں چلیں اور وہ بہترین راہنمائی فراہم کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔‏ پس اِس راہنمائی کو نظرانداز کرنا کتنی بڑی حماقت ہوگی!‏ مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کن صورتحال میں یہوواہ خدا سے راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے؟‏

ہمیں یہوواہ کی راہنمائی کی ضرورت کب ہوتی ہے؟‏

۶،‏ ۷.‏ ہمیں کن صورتحال میں یہوواہ خدا کی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے؟‏

۶ درحقیقت ہمیں اپنی زندگیوں میں ہر وقت خدا کی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ زبورنویس نے کہا تھا:‏ ”‏یہی خدا ابدالآباد ہمارا خدا ہے۔‏ یہی موت تک ہمارا ہادی رہے گا۔‏“‏ (‏زبور ۴۸:‏۱۴‏)‏ اِس آیت سے ہم سیکھتے ہیں کہ جب تک ہم زندہ ہیں یہوواہ خدا ہماری راہنمائی اور رہبری کر سکتا اور ہمیں ہدایت فراہم کر سکتا ہے۔‏ اس لئے سچے مسیحی زبورنویس کی مانند ہمیشہ یہوواہ خدا کی راہنمائی کے طالب رہتے ہیں۔‏

۷ بِلاشُبہ زندگی میں بعض ایسے لمحے بھی ہوتے ہیں جب ہمیں خاص مدد یا راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ بعض‌اوقات اذیت،‏ شدید بیماری یا اچانک ملازمت چھوٹ جانے کی صورت میں ہم سخت ”‏مصیبت“‏ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔‏ (‏زبور ۶۹:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ ایسے اوقات میں یہوواہ خدا سے دُعا کرنے سے بہت تسلی ملتی ہے۔‏ ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں اِس صورتحال کو برداشت کرنے کی طاقت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ درست فیصلے کرنے میں بھی مدد دے گا۔‏ (‏زبور ۱۰۲:‏۱۷ کو پڑھیں۔‏)‏ لیکن ہمیں اَور بہت سے موقعوں پر بھی خدا کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب ہم مؤثر طور پر لوگوں کو بائبل میں سے خدا کی بادشاہی کے بارے میں پیغام دینا چاہتے ہیں تو اِس کے لئے ہمیں یہوواہ خدا کی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں تفریح،‏ بناؤسنگھار،‏ دوستوں کے انتخاب،‏ ملازمت یا تعلیم کے بارے میں فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔‏ اِن معاملات میں ہم خدا کے کلام میں درج اُصولوں کی بنیاد پر ہی دانشمندانہ فیصلے کر سکتے ہیں۔‏ بِلاشُبہ،‏ ہمیں زندگی کے ہر حلقے میں یہوواہ خدا کی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔‏

یہوواہ کی راہنمائی کے طالب نہ ہونے کے خطرات

۸.‏ حوا نے ممنوع درخت کے پھل میں سے کیوں کھایا؟‏

۸ یاد رکھیں کہ ہمیں خدا کی راہنمائی کو قبول کرنے کے لئے تیار بھی ہونا چاہئے۔‏ اگر ہم خدا کی راہنمائی کے مطابق نہیں چلنا چاہتے تو وہ ہمیں مجبور نہیں کرتا۔‏ حوا وہ پہلی انسان تھی جس نے یہوواہ کی راہنمائی کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ اُس کی مثال ظاہر کرتی ہے کہ ایسا فیصلہ کرنا کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‏ اِس بات پر بھی غور کریں کہ حوا نے اُس درخت کے پھل میں سے کھانے کا فیصلہ کیوں کِیا جس سے خدا نے منع کِیا تھا۔‏ اُس نے ممنوع درخت کے پھل میں سے اس لئے کھایا تھا کیونکہ وہ ’‏خدا کی مانند نیک‌وبد کو جاننے والی بننا‘‏ چاہتی تھی۔‏ (‏پید ۳:‏۵‏)‏ یوں وہ خدا کی طرف سے فراہم‌کردہ راہنمائی پر چلنے کی بجائے خود اپنے لئے اچھے اور بُرے کا فیصلہ کرنا چاہتی تھی۔‏ اِس طرح وہ یہوواہ خدا کے اختیار سے باغی ہو گئی اور اپنی من‌مانی کرنے لگی۔‏ اُس کے شوہر آدم نے بھی ایسا ہی کِیا۔‏—‏روم ۵:‏۱۲‏۔‏

۹.‏ (‏ا)‏ یہوواہ خدا کی راہنمائی کو نظرانداز کرنے سے ہم درحقیقت کیا کر رہے ہوں گے؟‏ (‏ب)‏ یہ سب سے بڑی حماقت کیوں ہوگی؟‏

۹ اِسی طرح،‏ آجکل ہم بھی یہوواہ کی راہنمائی کو قبول نہ کرنے سے اُس کے اختیار کو رد کر رہے ہوں گے۔‏ ایک ایسے شخص کی مثال پر غور کریں جسے فحش یا قابلِ‌شرم پروگرام دیکھنے کی عادت پڑ گئی ہے۔‏ اگر وہ مسیحی کلیسیا کے ساتھ رفاقت رکھتا ہے تو وہ جانتا ہوگا کہ اِس سلسلے میں یہوواہ کے پاک کلام میں کونسی ہدایات دی گئی ہیں۔‏ فحش پروگرام دیکھنا تو دُور کی بات،‏ بائبل بیان کرتی ہے کہ مسیحیوں کو اِن ناپاک چیزوں کا ذکر تک نہیں کرنا چاہئے۔‏ (‏افس ۵:‏۳‏)‏ یہوواہ خدا کی فراہم‌کردہ ہدایات کو نظرانداز کرنے سے ایک شخص درحقیقت اُس کے اختیار اور اُس کی سرداری کو رد کر رہا ہوگا۔‏ (‏۱-‏کر ۱۱:‏۳‏)‏ یہ سب سے بڑی حماقت ہوگی کیونکہ یرمیاہ نبی نے اِس سلسلے میں کہا تھا:‏ ”‏انسان اپنی روِش میں اپنے قدموں کی راہنمائی نہیں کر سکتا۔‏“‏—‏یرم ۱۰:‏۲۳‏۔‏

۱۰.‏ اگرچہ ہمیں فیصلے کرنے کی صلاحیت کے ساتھ خلق کِیا گیا ہے توبھی ہمیں کیا یاد رکھنا چاہئے؟‏

۱۰ بعض لوگ شاید یرمیاہ کے اِن الفاظ سے متفق نہ ہوں۔‏ وہ شاید کہیں کہ چونکہ خدا نے ہمیں فیصلے کرنے کی صلاحیت کے ساتھ خلق کِیا ہے اس لئے جب ہم اپنی مرضی سے کام کرتے ہیں تو اُسے اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔‏ لیکن یاد رکھیں کہ فیصلے کرنے کی صلاحیت ایک ایسی بخشش ہے جس کے ساتھ ذمہ‌داری بھی آتی ہے۔‏ ہم جوکچھ کہتے یا کرتے ہیں اُس کے لئے خدا کے حضور جوابدہ ہیں۔‏ (‏روم ۱۴:‏۱۰‏)‏ یسوع مسیح نے فرمایا تھا:‏ ”‏جو دل میں بھرا ہے وہی مُنہ پر آتا ہے۔‏ کیونکہ بُرے خیال۔‏ خونریزیاں۔‏ زناکاریاں۔‏ حرامکاریاں۔‏ چوریاں۔‏ جھوٹی گواہیاں۔‏ بدگوئیاں دل ہی سے نکلتی ہیں۔‏“‏ (‏متی ۱۲:‏۳۴؛‏ ۱۵:‏۱۹‏)‏ پس ہماری بات‌چیت اور کام ہمارے دل کی حالت کے علاوہ یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ہم حقیقت میں کیسے شخص ہیں۔‏ اِسی لئے ایک دانا مسیحی ہر معاملے میں یہوواہ خدا کی راہنمائی کا طالب ہوتا ہے۔‏ پس ایسے ”‏راست دل“‏ مسیحی کے ساتھ یہوواہ خدا ”‏بھلائی“‏ کرتا ہے۔‏—‏زبور ۱۲۵:‏۴‏۔‏

۱۱.‏ قدیم اسرائیل کی مثال سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

۱۱ قدیم اسرائیل کے ساتھ جوکچھ واقع ہوا اُسے کبھی نہ بھولیں۔‏ جب اُس قوم نے اچھے فیصلے کئے اور یہوواہ خدا کے حکموں پر چلے تو اُس نے اُن کی حفاظت کی۔‏ (‏یشو ۲۴:‏۱۵،‏ ۲۱،‏ ۳۱‏)‏ لیکن بارہا اُنہوں نے فیصلے کرنے کی اِس صلاحیت کا غلط استعمال کِیا۔‏ یرمیاہ نبی کے دنوں میں،‏ یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل کی بابت فرمایا:‏ ”‏اُنہوں نے نہ سنا نہ کان لگایا بلکہ اپنی مصلحتوں اور اپنے بُرے دل کی سختی پر چلے اور برگشتہ ہوئے اور آگے نہ بڑھے۔‏“‏ (‏یرم ۷:‏۲۴-‏۲۶‏)‏ یہ کتنے افسوس کی بات ہے!‏ ہمیں کبھی بھی یہوواہ خدا کی راہنمائی کو رد کرکے اپنی عقل کے مطابق نہیں چلنا چاہئے۔‏ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دل کی سختی اور اپنی من‌مانی کرنے کی وجہ سے ’‏برگشتہ ہو جائیں اور آگے نہ بڑھ سکیں‘‏!‏

خدا کی راہنمائی پر چلنے کے لئے کیا ضروری ہے؟‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ (‏ا)‏ کونسی خوبی ہمیں یہوواہ خدا کی راہنمائی پر چلنے کی تحریک دیتی ہے؟‏ (‏ب)‏ ایمان کیوں ضروری ہے؟‏

۱۲ یہوواہ خدا کے لئے محبت ہمیں اُس کی راہنمائی پر چلنے کی تحریک دیتی ہے۔‏ (‏۱-‏یوح ۵:‏۳‏)‏ لیکن پولس رسول نے ہماری توجہ ایک دوسری ضروری چیز کی طرف دلانے کے لئے ۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۶،‏ ۷ میں لکھا:‏ ”‏ہم ایمان پر چلتے ہیں نہ کہ آنکھوں دیکھے پر۔‏“‏ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایمان کیوں ضروری ہے؟‏ اگرچہ یہوواہ خدا ہمیں ”‏صداقت کی راہوں پر لے چلتا ہے“‏ لیکن یہ راہیں ہمیں اِس دُنیا میں مال‌ودولت یا اعلیٰ مرتبہ حاصل کرنے کی طرف نہیں لے جاتیں۔‏ (‏زبور ۲۳:‏۳‏)‏ اِس لئے ہمیں ایمان کے ساتھ اُن شاندار روحانی برکات پر نظر رکھنی چاہئے جو یہوواہ خدا کی خدمت کرنے سے حاصل ہوتی ہیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۱۷،‏ ۱۸ کو پڑھیں۔‏)‏ پس اگر ہمارے اندر ایمان ہے تو ہم روزمرّہ زندگی کے لئے درکار بنیادی چیزوں پر قناعت کرنے کے قابل ہوں گے۔‏—‏۱-‏تیم ۶:‏۸‏۔‏

۱۳ یسوع مسیح نے بیان کِیا کہ خدا کی عبادت کرنے کے لئے ہمارے اندر اپنی خواہشات یا مفادات کو قربان کرنے کا جذبہ ہونا چاہئے۔‏ ایسا جذبہ پیدا کرنے کے لئے بھی ایمان درکار ہے۔‏ (‏لو ۹:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ خدا کے بعض وفادار خادموں نے اُس کی خاطر بہت سی قربانیاں دی ہیں جن میں غربت کی زندگی،‏ ظلم‌وستم،‏ تعصب اور شدید اذیت برداشت کرنا شامل ہے۔‏ (‏۲-‏کر ۱۱:‏۲۳-‏۲۷؛‏ مکا ۳:‏۸-‏۱۰‏)‏ وہ مضبوط ایمان کی بدولت ہی اِن سب مشکلات کو خوشی سے برداشت کرنے کے قابل ہوئے تھے۔‏ (‏یعقو ۱:‏۲،‏ ۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ مضبوط ایمان کی وجہ سے ہمیں اِس بات کا یقین ہے کہ یہوواہ خدا کی راہنمائی پر چلنے سے ہمیں ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے۔‏ ایسا کرنے میں ہی ہماری بہتری ہے۔‏ ہمیں اِس بات کا بھی پورا یقین ہے کہ جو لوگ وفاداری کے ساتھ مشکلات برداشت کرتے ہیں اُنہیں اتنا بڑا حاصل اجر ہوگا کہ موجودہ مسائل اُن کے سامنے کچھ بھی نہیں۔‏—‏عبر ۱۱:‏۶‏۔‏

۱۴.‏ ہاجرہ کو فروتنی ظاہر کرنے کی ضرورت کیوں تھی؟‏

۱۴ اب دیکھیں کہ یہوواہ خدا کی راہنمائی پر چلنے میں فروتنی کیا کردار ادا کرتی ہے۔‏ اِس سلسلے میں سارہ کی لونڈی ہاجرہ کی مثال پر غور کریں۔‏ جب سارہ کو یقین ہو گیا کہ وہ اولاد پیدا نہیں کر سکتی تو اُس نے اپنی لونڈی ہاجرہ،‏ ابرہام کو دے دی۔‏ کچھ ہی عرصہ بعد ہاجرہ حاملہ ہو گئی۔‏ غرور میں آکر وہ اپنی مالکن سارہ کو جو کہ بےاولاد تھی حقیر جاننے لگی۔‏ اِس کے نتیجے میں،‏ سارہ ”‏اُس پر سختی کرنے لگی“‏ اور ہاجرہ اُس کے پاس سے بھاگ گئی۔‏ اِس کے بعد یہوواہ کا فرشتہ ہاجرہ کے پاس آیا اور اُس سے کہا:‏ ”‏تُو اپنی بی‌بی کے پاس لوٹ جا اور اپنے کو اُس کے قبضہ میں کر دے۔‏“‏ (‏پید ۱۶:‏۲،‏ ۶،‏ ۸،‏ ۹‏)‏ اِس صورتحال میں فرشتے کی ہدایت پر عمل کرنا شاید ہاجرہ کے لئے آسان نہیں تھا کیونکہ اُسے غرور کو اپنے اندر سے نکالنے کی ضرورت تھی۔‏ لیکن سرگزشت بیان کرتی ہے کہ ہاجرہ نے فروتنی کے ساتھ فرشتے کی ہدایت پر عمل کِیا۔‏ اِس کے نتیجے میں اُس کے بیٹے اسمٰعیل کی پیدائش بیابان کی بجائے اُس کے باپ ابرہام کے گھر میں ہوئی۔‏

۱۵.‏ چند ایسی صورتحال کا ذکر کریں جن میں ہمیں یہوواہ خدا کی راہنمائی پر چلنے کے لئے فروتنی ظاہر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‏

۱۵ یہوواہ خدا کی راہنمائی پر چلنے کے لئے ہمیں بھی فروتن بننے کی ضرورت ہے۔‏ کلیسیا میں بعض مسیحیوں کو شاید یہ سمجھنے کی ضرورت ہو کہ جس طرح کی تفریح وہ پسند کرتے ہیں اُسے یہوواہ خدا پسند نہیں کرتا۔‏ دوسری صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ اگر ایک مسیحی نے کلیسیا کے کسی دوسرے مسیحی کو دُکھ پہنچایا ہے تو اُسے اُس سے معافی مانگنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔‏ یا شاید ایک مسیحی نے خطا کی ہے اور اب اُسے اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔‏ لیکن جب کسی مسیحی سے کوئی سنگین گُناہ ہو جاتا ہے تو اِس صورت میں اُسے کیا کرنا چاہئے؟‏ اُسے فروتن بننے اور بزرگوں کے سامنے اپنے گناہ کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہے۔‏ اگر ایک مسیحی کو کلیسیا سے خارج کر دیا جاتا ہے تو کلیسیا میں واپس آنے کے لئے اُسے فروتنی کے ساتھ توبہ کرنے اور رجوع لانے کی ضرورت ہے۔‏ اِن مختلف صورتحال میں امثال ۲۹:‏۲۳ کا صحیفہ بہت تسلی‌بخش ہے:‏ ”‏آدمی کا غرور اُس کو پست کرے گا لیکن جو دل سے فروتن ہے عزت حاصل کرے گا۔‏“‏

یہوواہ خدا ہماری راہنمائی کیسے کرتا ہے؟‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ ہم خدا کے کلام کی راہنمائی سے کیسے بھرپور فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟‏

۱۶ راہنمائی حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ خدا کا پاک کلام ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷ کو پڑھیں۔‏)‏ ہمیں خدا کے کلام سے مفید راہنمائی حاصل کرنے کے لئے اُس وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہئے جب ہم مشکل حالات کا شکار ہو جاتے ہیں بلکہ ہمیں ہر روز بائبل پڑھنی چاہئے۔‏ (‏زبور ۱:‏۱-‏۳‏)‏ اِس طرح ہم خدا کے الہامی کلام سے اچھی طرح واقف ہو جائیں گے۔‏ جس نگاہ سے یہوواہ خدا حالات کو دیکھتا ہے ہم بھی اُسی نگاہ سے حالات کو دیکھنے کے قابل ہوں گے اور ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں گے۔‏

۱۷ اِس کے علاوہ،‏ ہم جوکچھ بائبل میں پڑھتے ہیں اُس پر سوچ‌بچار کرنا اور اِس کے بارے میں دُعا کرنا بھی بہت ضروری ہے۔‏ جب ہم بائبل کی آیات پر غور کرتے ہیں تو ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ ان آیات کا اطلاق کونسی صورتحال میں کِیا جا سکتا ہے۔‏ (‏۱-‏تیم ۴:‏۱۵‏)‏ جب ہمیں سنگین مسائل کا سامنا ہوتا ہے تو ہم مدد اور راہنمائی کے لئے یہوواہ خدا سے دُعا کر سکتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا کی پاک رُوح ہمیں ایسے مفید صحیفائی اُصول یاد دلانے میں مدد دے گی جو ہم بائبل میں یا بائبل پر مبنی کتابوں اور رسالوں میں پڑھ چکے ہیں۔‏—‏زبور ۲۵:‏۴،‏ ۵ کو پڑھیں۔‏

۱۸.‏ یہوواہ خدا کن مختلف طریقوں سے مسیحی برادری کو ہماری راہنمائی کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے؟‏

۱۸ یہوواہ خدا سے راہنمائی حاصل کرنے کا ایک اَور اہم ذریعہ ہماری مسیحی برادری ہے۔‏ اِس مسیحی برادری کا اہم حصہ ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ جماعت ہے جس کی نمائندگی گورننگ باڈی کرتی ہے۔‏ ہمارے لئے باقاعدگی کے ساتھ روحانی خوراک فراہم کرنے کے لئے گورننگ باڈی بائبل پر مبنی کتابیں اور رسالے شائع کرتی اور عبادت کے مختلف اجتماعات کا بندوبست کرتی ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏؛‏ برائےمہربانی اعمال ۱۵:‏۶،‏ ۲۲-‏۳۱ پر غور کریں۔‏)‏ اِس کے علاوہ،‏ مسیحی برادری میں روحانی طور پر پُختہ اشخاص بھی ہیں جو ہمیں ذاتی طور پر مدد اور پاک کلام سے مشورت فراہم کر سکتے ہیں۔‏ (‏یسع ۳۲:‏۱‏)‏ مسیحی برادری میں موجود نوجوان ایک اَور ذریعے سے بھی راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا نے والدین کو اپنے بچوں کی راہنمائی کرنے کا اختیار بخشا ہے اور والدین خود بھی ہمیشہ خدا سے راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔‏—‏افس ۶:‏۱-‏۳‏۔‏

۱۹.‏ یہوواہ خدا کی راہنمائی پر چلنے سے ہمیں کونسی برکات حاصل ہوتی ہیں؟‏

۱۹ پس ہم نے سیکھ لیا ہے کہ یہوواہ خدا مختلف طریقوں سے راہنمائی فراہم کرتا ہے۔‏ ہمیں اِس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏ اُس وقت کا ذکر کرتے ہوئے جب اسرائیلی قوم یہوواہ خدا کی وفادار تھی،‏ داؤد بادشاہ نے لکھا:‏ ”‏ہمارے باپ‌دادا نے تجھ پر توکل کِیا۔‏ اُنہوں نے توکل کِیا اور تُو نے اُن کو چھڑایا۔‏ اُنہوں نے تجھ سے فریاد کی اور رہائی پائی۔‏ اُنہوں نے تجھ پر توکل کِیا اور شرمندہ نہ ہوئے۔‏“‏ (‏زبور ۲۲:‏۳-‏۵‏)‏ اگر ہم بھی یہوواہ خدا کی راہنمائی قبول کرتے ہیں تو ہم کبھی ’‏شرمندہ نہیں ہوں گے‘‏ کیونکہ یہوواہ اپنے تمام وعدوں کو پورا کرے گا۔‏ اپنی حکمت پر بھروسا کرنے کی بجائے اگر ہم ’‏اپنی راہ [‏یہوواہ]‏ پر چھوڑ دیتے ہیں‘‏ تو ہم آج بھی بےشمار برکات حاصل کر سکتے ہیں۔‏ (‏زبور ۳۷:‏۵‏)‏ اِس کے علاوہ اگر ہم وفاداری کے ساتھ یہوواہ خدا کی راہنمائی پر چلتے رہیں گے تو ہم ابد تک اِن برکات سے لطف‌اندوز ہوں گے۔‏ اِس سلسلے میں داؤد بادشاہ نے لکھا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ انصاف کو پسند کرتا ہے اور اپنے مُقدسوں کو ترک نہیں کرتا۔‏ وہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔‏“‏—‏زبور ۳۷:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• ہم یہوواہ خدا کی راہنمائی پر کیوں بھروسا رکھتے ہیں؟‏

‏• یہوواہ خدا کی راہنمائی کو رد کرنے سے ہم درحقیقت کیا ظاہر کر رہے ہوں گے؟‏

‏• ایک مسیحی کو کونسی صورتحال میں فروتنی کی ضرورت ہو سکتی ہے؟‏

‏• آجکل یہوواہ خدا کن طریقوں سے ہماری راہنمائی کرتا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویر]‏

کیا آپ زندگی کے ہر حلقے میں یہوواہ کی راہنمائی پر بھروسا رکھتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۹ کی تصویر اُردو میں نہیں ہے]‏

 

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

فرشتے کی ہدایت پر عمل کرنے کے لئے ہاجرہ کو کونسی خوبی ظاہر کرنے کی ضرورت تھی؟‏