مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دوسروں کے ساتھ بھلائی کریں

دوسروں کے ساتھ بھلائی کریں

دوسروں کے ساتھ بھلائی کریں

‏”‏تُم .‏ .‏ .‏ بھلا کرو۔‏“‏—‏لو ۶:‏۳۵‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنا اکثر مشکل کیوں ہوتا ہے؟‏

دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنا اکثر مشکل ہوتا ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہم جن لوگوں کے لئے محبت ظاہر کریں وہ ہمارے لئے محبت نہ دکھائیں۔‏ اِس کے باوجود،‏ ہم اِن لوگوں کی مدد کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔‏ ہم اُنہیں ”‏خدایِ‌مبارک“‏ اور اُس کے بیٹے کے ’‏جلال کی خوشخبری‘‏ سناتے ہیں۔‏ شاید وہ اِس خوشخبری میں دلچسپی نہ لیں اور اِس کے لئے شکرگزاری ظاہر نہ کریں۔‏ (‏۱-‏تیم ۱:‏۱۱‏)‏ بہتیرے لوگ ”‏مسیح کی صلیب کے دُشمن“‏ ہیں۔‏ (‏فل ۳:‏۱۸‏)‏ مسیحیوں کے طور پر ہمیں اُن کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہئے؟‏

۲ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏تُم اپنے دُشمنوں سے محبت رکھو اور بھلا کرو۔‏“‏ (‏لو ۶:‏۳۵‏)‏ آئیں اِس مشورت پر غور کرتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ،‏ ہم دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے کے سلسلے میں یسوع کے دیگر بیانات پر بھی غور کریں گے۔‏ یہ ہمارے لئے بہت فائدہ‌مند ثابت ہوگا۔‏

‏”‏اپنے دُشمنوں سے محبت رکھو“‏

۳.‏ (‏ا)‏ متی ۵:‏۴۳-‏۴۵ کا خلاصہ کریں۔‏ (‏ب)‏ پہلی صدی میں مذہبی پیشواؤں میں یہودیوں اور غیریہودیوں کے بارے میں کونسی غلط سوچ پیدا ہو گئی تھی؟‏

۳ یسوع مسیح نے پہاڑی وعظ میں لوگوں کو بتایا کہ وہ اپنے دُشمنوں سے محبت رکھیں اور اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کریں۔‏ (‏متی ۵:‏۴۳-‏۴۵ کو پڑھیں۔‏)‏ اُس موقع پر وہاں موجود لوگ یہودی تھے اور خدا کے اِس حکم سے واقف تھے:‏ ”‏تُو انتقام نہ لینا اور نہ اپنی قوم کی نسل سے کینہ رکھنا بلکہ اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبت کرنا۔‏“‏ (‏احبا ۱۹:‏۱۸‏)‏ موسوی شریعت میں اسرائیلیوں کو یہ حکم بھی دیا گیا تھا کہ وہ دوسری قوموں سے الگ رہیں۔‏ اِس سے اُن میں یہ غلط سوچ پیدا ہو گئی کہ تمام غیریہودی اُن کے دُشمن ہیں اور اُن سے نفرت کی جانی چاہئے۔‏ اِس لئے پہلی صدی میں یہودی مذہبی پیشواؤں کا خیال تھا کہ ”‏اپنی قوم کی نسل“‏ اور ”‏اپنے ہمسایہ“‏ سے مُراد صرف یہودی لوگ ہیں۔‏

۴.‏ یسوع کے شاگردوں نے اپنے دُشمنوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا تھا؟‏

۴ تاہم،‏ یسوع مسیح نے بیان کِیا:‏ ”‏اپنے دُشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کرو۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۴۴‏)‏ لہٰذا،‏ اُس کے شاگردوں کو اُن لوگوں سے محبت رکھنی تھی جو اُن سے عداوت رکھتے تھے۔‏ لوقا کی انجیل کے مطابق،‏ یسوع مسیح نے فرمایا:‏ ”‏مَیں تُم سننے والوں سے کہتا ہوں کہ اپنے دُشمنوں سے محبت رکھو۔‏ جو تُم سے عداوت رکھیں اُن کا بھلا کرو۔‏ جو تُم پر لعنت کریں اُن کے لئے برکت چاہو۔‏ جو تمہاری تحقیر کریں اُن کے لئے دُعا کرو۔‏“‏ (‏لو ۶:‏۲۷،‏ ۲۸‏)‏ ہم بھی پہلی صدی کے مسیحیوں کی طرح یسوع کی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔‏ اِس لئے جو لوگ ہم سے ”‏عداوت“‏ رکھتے ہیں ہم اُن کا ”‏بھلا“‏ کرتے ہیں۔‏ اِس سے مُراد ہے کہ ہم اُن کے ساتھ نیکی کرتے ہیں۔‏ ہم اُن لوگوں کے لئے جو ہم پر ’‏لعنت کرتے ہیں برکت چاہتے ہیں۔‏‘‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہم اُن کے ساتھ بڑی نرمی سے بات کرتے ہیں۔‏ نیز ہم ”‏اپنے ستانے والوں“‏ یعنی اُن لوگوں کے لئے ”‏دُعا“‏ کرتے ہیں جو ہمیں ظلم‌وتشدد کا نشانہ بناتے اور دیگر طریقوں سے ہماری ”‏تحقیر“‏ کرتے ہیں۔‏ اِن دُعاؤں میں ہم یہوواہ خدا سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ مخالفین کے دل سچائی کی طرف مائل ہوں تاکہ وہ خدا کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔‏ اِس طرح ہم یہوواہ خدا کے حکم کے مطابق اپنے دُشمنوں سے محبت رکھتے ہیں۔‏

۵،‏ ۶.‏ ہمیں اپنے دُشمنوں سے محبت کیوں رکھنی چاہئے؟‏

۵ ہمیں اپنے دُشمنوں کے لئے محبت کیوں ظاہر کرنی چاہئے؟‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏تاکہ تُم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۴۵‏)‏ یہوواہ خدا ”‏اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔‏“‏ لوقا کی انجیل بیان کرتی ہے کہ خدا ”‏ناشکروں اور بدوں پر بھی مہربان ہے۔‏“‏ (‏لو ۶:‏۳۵‏)‏ لہٰذا،‏ اگر ہم اپنے دُشمنوں سے محبت رکھتے ہیں تو ہم خدا کی نقل کرتے ہیں۔‏ اِس طرح ہم اُس کے ”‏بیٹے“‏ بن جاتے ہیں۔‏

۶ یسوع مسیح نے اِس بات پر زور دیا کہ اُس کے شاگردوں کے لئے اپنے دُشمنوں سے محبت رکھنا بہت اہم ہے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏اگر تُم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارے لئے کیا اَجر ہے؟‏ کیا محصول لینے والے بھی اَیسا نہیں کرتے؟‏ اور اگر تُم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرو تو کیا زیادہ کرتے ہو؟‏ کیا غیر قوموں کے لوگ بھی ایسا نہیں کرتے؟‏“‏ (‏متی ۵:‏۴۶،‏ ۴۷‏)‏ اگر ہم صرف اُن لوگوں سے محبت رکھتے ہیں جو ہم سے محبت رکھتے ہیں تو ہم خدا سے ”‏اَجر“‏ یا اُس کی خوشنودی حاصل نہیں کر سکتے۔‏ محصول لینے والے بھی اُن لوگوں کے لئے محبت دکھاتے تھے جو اُن سے محبت رکھتے تھے۔‏—‏لو ۵:‏۳۰؛‏ ۷:‏۳۴‏۔‏

۷.‏ اگر ہم صرف اپنے ”‏بھائیوں“‏ کو سلام کرتے ہیں تو ہم کیوں ”‏زیادہ“‏ نہیں کرتے؟‏

۷ یہودی کسی شخص کو سلام کرتے وقت عموماً یہ کہا کرتے تھے:‏ ”‏تیری سلامتی ہو۔‏“‏ (‏قضا ۱۹:‏۲۰؛‏ یوح ۲۰:‏۱۹‏)‏ یہ کہنے سے وہ اِس خواہش کا اظہار کرتے تھے کہ اُس شخص کی صحت،‏ مال‌ودولت اور خوشحالی برقرار رہے۔‏ اگر ہم صرف اُن لوگوں کو سلام کرتے ہیں جنہیں ہم اپنے ’‏بھائی‘‏ خیال کرتے ہیں تو ہم کچھ ”‏زیادہ“‏ نہیں کرتے۔‏ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”‏غیرقوموں کے لوگ“‏ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔‏

۸.‏ جب یسوع نے کہا کہ ”‏تُم کامل ہو“‏ تو وہ کس بات کے لئے لوگوں کی حوصلہ‌افزائی کر رہا تھا؟‏

۸ آدم سے ورثے میں ملنے والے گُناہ کی وجہ سے یسوع مسیح کے شاگرد بھی گنہگار تھے۔‏ (‏روم ۵:‏۱۲‏)‏ تاہم،‏ یسوع نے اپنے اِس بیان کا اختتام اِن الفاظ سے کِیا:‏ ”‏تُم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۴۸‏)‏ یسوع مسیح لوگوں کی حوصلہ‌افزائی کر رہا تھا کہ وہ اپنے ”‏آسمانی باپ“‏ یہوواہ کی طرح محبت میں کامل بنیں یعنی اپنے دُشمنوں سے بھی محبت رکھیں۔‏ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔‏

ہمیں دوسروں کو معاف کیوں کرنا چاہئے؟‏

۹.‏ اِن الفاظ کا کیا مطلب ہے کہ ”‏ہمارے قرض ہمیں معاف کر“‏؟‏

۹ جب کوئی شخص ہمارے خلاف گُناہ کرتا ہے اور ہم اُسے معاف کر دیتے ہیں تو ہم اُس کے ساتھ بھلائی کر رہے ہوتے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو یوں دُعا کرنا سکھایا:‏ ”‏جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کِیا ہے تُو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۱۲‏)‏ اِس آیت میں مالی قرض معاف کرنے کی بات نہیں کی گئی ہے۔‏ لوقا کی انجیل بیان کرتی ہے:‏ ”‏ہمارے گُناہ معاف کر کیونکہ ہم بھی اپنے ہر قرضدار کو معاف کرتے ہیں۔‏“‏ (‏لو ۱۱:‏۴‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب یسوع مسیح نے متی کی انجیل میں ”‏قرض“‏ کا ذکر کِیا تو دراصل وہ گُناہ کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔‏

۱۰.‏ معاف کرنے کے سلسلے میں ہم یہوواہ خدا کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۰ یہوواہ خدا توبہ کرنے والے اشخاص کو کثرت سے معاف کرتا ہے۔‏ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏ایک دوسرے پر مہربان اور نرم‌دل ہو اور جس طرح خدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے ہیں تُم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔‏“‏ (‏افس ۴:‏۳۲‏)‏ زبورنویس داؤد نے گیت گایا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ رحیم اور کریم ہے۔‏ قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی۔‏ .‏ .‏ .‏ اُس نے ہمارے گُناہوں کے موافق ہم سے سلوک نہیں کِیا اور ہماری بدکاریوں کے مطابق ہم کو بدلہ نہیں دیا۔‏ .‏ .‏ .‏ جیسے پورب پچھّم سے دُور ہے ویسے ہی اُس نے ہماری خطائیں ہم سے دُور کر دیں جیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے ویسے ہی [‏یہوواہ]‏ اُن پر جو اُس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے۔‏ کیونکہ وہ ہماری سرِشت سے واقف ہے۔‏ اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔‏“‏—‏زبور ۱۰۳:‏۸-‏۱۴‏۔‏

۱۱.‏ یہوواہ خدا کن لوگوں کو معاف کرتا ہے؟‏

۱۱ خدا اُسی صورت میں ہمارے گُناہ معاف کرتا ہے جب ہم اُن لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں جو ہمارے خلاف گُناہ کرتے ہیں۔‏ (‏مر ۱۱:‏۲۵‏)‏ اِس بات پر زور دیتے ہوئے،‏ یسوع مسیح نے فرمایا:‏ ”‏اگر تُم آدمیوں کے قصور معاف کرو گے تو تمہارا آسمانی باپ بھی تُم کو معاف کرے گا۔‏ اور اگر تُم آدمیوں کے قصور معاف نہ کرو گے تو تمہارا باپ بھی تمہارے قصور معاف نہ کرے گا۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ جی‌ہاں،‏ خدا صرف اُنہی لوگوں کو معاف کرتا ہے جو دوسروں کو معاف کرتے ہیں۔‏ پولس رسول کی اِس مشورت پر عمل کرنے سے ہم دوسروں کے ساتھ بھلائی کرتے رہیں گے:‏ ”‏جیسے [‏یہوواہ]‏ نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تُم بھی کرو۔‏“‏—‏کل ۳:‏۱۳‏۔‏

‏”‏عیب‌جوئی نہ کرو“‏

۱۲.‏ یسوع مسیح نے عیب‌جوئی کرنے کے سلسلے میں کیا مشورت دی؟‏

۱۲ یسوع مسیح نے پہاڑی وعظ میں دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے کے ایک اَور طریقے کا ذکر کِیا۔‏ اُس نے لوگوں سے کہا کہ وہ دوسروں کی عیب‌جوئی نہ کریں یعنی دوسروں پر نکتہ‌چینی نہ کریں۔‏ اِس بات پر زور دیتے ہوئے اُس نے ایک مثال پیش کی۔‏ (‏متی ۷:‏۱-‏۵ کو پڑھیں۔‏)‏ آئیں دیکھیں کہ جب یسوع نے یہ کہا کہ ”‏عیب‌جوئی نہ کرو“‏ تو اِس کا کیا مطلب تھا۔‏

۱۳.‏ یسوع کے سامعین نے ”‏خلاصی“‏ کیسے دینی تھی؟‏

۱۳ متی کی انجیل میں یسوع مسیح کے اِس بیان کو یوں درج کِیا گیا ہے:‏ ”‏عیب‌جوئی نہ کرو کہ تمہاری بھی عیب‌جوئی نہ کی جائے۔‏“‏ (‏متی ۷:‏۱‏)‏ لوقا کی انجیل کے مطابق،‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏عیب‌جوئی نہ کرو۔‏ تمہاری بھی عیب‌جوئی نہ کی جائے گی۔‏ مُجرم نہ ٹھہراؤ۔‏ تُم بھی مُجرم نہ ٹھہرائے جاؤ گے۔‏ خلاصی دو۔‏ تُم بھی خلاصی پاؤ گے۔‏“‏ (‏لو ۶:‏۳۷‏)‏ پہلی صدی میں فریسی اپنی غیرصحیفائی روایات کی بِنا پر دوسروں پر نکتہ‌چینی کرتے تھے۔‏ لہٰذا،‏ یسوع کے سامعین میں سے جو لوگ عیب‌جوئی یا نکتہ‌چینی کرنے کی عادت میں مبتلا تھے اُنہیں اِسے ترک کرنا تھا۔‏ اُنہیں دوسروں کو ”‏خلاصی“‏ دینی تھی یعنی اُن کی غلطیوں کو معاف کرنا تھا۔‏ جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں،‏ پولس رسول نے بھی معاف کرنے کے بارے میں اِسی طرح کی مشورت دی تھی۔‏

۱۴.‏ لوگوں کو معاف کرنے سے یسوع کے شاگرد اُنہیں کیا کرنے کی تحریک دیتے تھے؟‏

۱۴ جب یسوع کے شاگرد لوگوں کو معاف کرتے تھے تو وہ اُنہیں یہ تحریک دیتے تھے کہ وہ بھی دوسروں کو معاف کریں۔‏ یسوع مسیح نے کہا تھا:‏ ”‏جس طرح تُم عیب‌جوئی کرتے ہو اُسی طرح تمہاری بھی عیب‌جوئی کی جائے گی اور جس پیمانہ سے تُم ناپتے ہو اُسی سے تمہارے واسطے ناپا جائے گا۔‏“‏ (‏متی ۷:‏۲‏)‏ پس لوگوں کے ساتھ پیش آتے وقت ہم جوکچھ بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔‏—‏گل ۶:‏۷‏۔‏

۱۵.‏ یسوع مسیح نے یہ کیسے ظاہر کِیا کہ دوسروں پر تنقید کرنا غلط ہے؟‏

۱۵ یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ دوسروں پر تنقید کرنا غلط ہے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏تُو کیوں اپنے بھائی کی آنکھ کے تنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر غور نہیں کرتا؟‏ اور جب تیری ہی آنکھ میں شہتیر ہے تو تُو اپنے بھائی سے کیونکر کہہ سکتا ہے کہ لا تیری آنکھ میں سے تنکا نکال دوں؟‏“‏ (‏متی ۷:‏۳،‏ ۴‏)‏ دوسروں پر تنقید کرنے والا شخص اپنے بھائی کی ”‏آنکھ“‏ کے تنکے یعنی اُس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر نظر رکھتا ہے۔‏ درحقیقت،‏ تنقید کرنے والا یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اُس کا بھائی سمجھداری سے کام نہیں لے رہا ہے۔‏ چاہے ایک شخص کی خامی تنکے کی طرح بالکل معمولی سی ہو،‏ تنقید کرنے والا اُس سے یہ کہتا ہے کہ ”‏لا تیری آنکھ میں سے تنکا نکال دوں۔‏“‏ ایسا کرنے سے وہ ریاکاری سے اپنے شہتیر یعنی اپنی بڑی غلطی کو نظرانداز کرکے اپنے بھائی کی مدد کے لئے خود کو پیش کرتا ہے۔‏

۱۶.‏ یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ فریسیوں کی آنکھ میں ”‏شہتیر“‏ تھا؟‏

۱۶ خاص طور پر،‏ یہودیوں کے مذہبی پیشوا دوسروں پر بہت زیادہ تنقید کرتے تھے۔‏ اِس سلسلے میں یوحنا کی انجیل میں درج اِس واقعے پر غور کریں۔‏ جب یسوع مسیح نے ایک اندھے کو بینائی بخشی تو وہ یہ گواہی دینے لگا کہ یسوع خدا کی طرف سے آیا ہے۔‏ اِس پر فریسیوں نے اُس سے کہا:‏ ”‏تُو تو بالکل گُناہوں میں پیدا ہوا۔‏ تُو ہم کو کیا سکھاتا ہے؟‏“‏ (‏یوح ۹:‏۳۰-‏۳۴‏)‏ فریسیوں کے اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ معاملات کے بارے میں یہوواہ خدا جیسی سوچ نہیں رکھتے تھے اور سمجھداری سے کام نہیں لیتے تھے۔‏ اُن کی آنکھ میں ”‏شہتیر“‏ تھا یعنی وہ روحانی طور پر اندھے تھے۔‏ اِس لئے یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏اَے ریاکار پہلے اپنی آنکھ میں سے تو شہتیر نکال پھر اپنے بھائی کی آنکھ میں سے تنکے کو اچھی طرح دیکھکر نکال سکے گا۔‏“‏ (‏متی ۷:‏۵؛‏ لو ۶:‏۴۲‏)‏ اگر ہم نے دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے کا ارادہ کِیا ہے تو ہم اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا نہیں دیکھیں گے یعنی اُس پر تنقید نہیں کریں گے۔‏ اِس کی بجائے،‏ ہم اِس بات کو تسلیم کریں گے کہ چونکہ ہم بھی گُناہ کرتے ہیں اِس لئے ہمیں اپنے بہن بھائیوں پر تنقید نہیں کرنی چاہئے۔‏

ہمیں دوسروں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہئے؟‏

۱۷.‏ متی ۷:‏۱۲ کے مطابق،‏ ہمیں دوسروں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہئے؟‏

۱۷ پہاڑی وعظ میں یسوع مسیح نے اِس بات کو نمایاں کِیا کہ یہوواہ خدا اپنے خادموں کی دُعاؤں کا جواب دینے سے اُن کے لئے ایک باپ جیسے احساسات ظاہر کرتا ہے۔‏ (‏متی ۷:‏۷-‏۱۲ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس کے علاوہ،‏ یسوع مسیح نے اِس اصول کو بھی لاگو کِیا:‏ ”‏جوکچھ تُم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تُم بھی اُن کے ساتھ کرو۔‏“‏ (‏متی ۷:‏۱۲‏)‏ دوسروں کے ساتھ اِس طرح کا برتاؤ کرنے سے ہم یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم یسوع مسیح کے سچے پیروکار ہیں۔‏

۱۸.‏ ”‏توریت“‏ میں یہ کیسے ظاہر کِیا گیا ہے کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرنا چاہئے جیسا ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کریں؟‏

۱۸ یسوع مسیح نے یہ کہنے کے بعد کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرنا چاہئے جیسا ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کریں،‏ مزید کہا:‏ ”‏توریت اور نبیوں کی تعلیم یہی ہے۔‏“‏ جب ہم دوسروں کے ساتھ اُسی طرح پیش آتے ہیں جس طرح یسوع مسیح نے کہا تھا تو ہم ”‏توریت“‏ پر عمل کرتے ہیں۔‏ توریت سے مراد بائبل میں درج پیدایش سے استثنا کی کتابیں ہیں۔‏ یہ کتابیں ۱۵۱۳ قبل‌ازمسیح میں موسیٰ کے ذریعے بنی‌اسرائیل کو دی گئی تھیں۔‏ اِن میں خدا کی طرف سے اسرائیلیوں کو دئے گئے احکام شامل ہیں۔‏ اِن میں بیان کِیا گیا ہے کہ یہوواہ خدا ایک نسل کو برپا کرے گا جو بُرائی کو ختم کرے گی۔‏ (‏پید ۳:‏۱۵‏)‏ توریت میں اِس بات کو بھی واضح کِیا گیا ہے کہ اسرائیلیوں کو انصاف‌پسند ہونا چاہئے،‏ طرفداری نہیں کرنی چاہئے اور مصیبت‌زدہ لوگوں اور اجنبیوں کے ساتھ بھلائی کرنی چاہئے۔‏—‏احبا ۱۹:‏۹،‏ ۱۰،‏ ۱۵،‏ ۳۴‏۔‏

۱۹.‏ ”‏نبیوں“‏ نے یہ کیسے ظاہر کِیا کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنی چاہئے؟‏

۱۹ متی ۷:‏۱۲ میں ”‏نبیوں“‏ کا ذکر کرتے وقت یسوع کے ذہن میں عبرانی صحائف کی نبوّتی کتابیں تھیں۔‏ اِن کتابوں میں وہ پیشینگوئیاں درج ہیں جن کی تکمیل یسوع مسیح پر ہوئی۔‏ اِن میں بھی یہ ظاہر کِیا گیا کہ جو لوگ خدا کی مرضی کے مطابق کام کرتے اور دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں خدا اُنہیں برکت دیتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ یسعیاہ نبی کی پیشینگوئی میں اسرائیلیوں کو یہ مشورت دی گئی:‏ ”‏عدل کو قائم رکھو اور صداقت کو عمل میں لاؤ .‏ .‏ .‏ مبارک ہے وہ انسان جو اِس پر عمل کرتا ہے اور وہ آدمزاد جو اِس پر قائم رہتا ہے .‏ .‏ .‏ اور اپنا ہاتھ ہر طرح کی بدی سے باز رکھتا ہے۔‏“‏ (‏یسع ۵۶:‏۱،‏ ۲‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ خدا اپنے لوگوں سے دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے کی توقع کرتا ہے۔‏

ہمیشہ دوسروں کے ساتھ بھلائی کریں

۲۰،‏ ۲۱.‏ (‏ا)‏ یسوع کے پہاڑی وعظ کو سُن کر بِھیڑ نے کیسا ردِعمل دکھایا؟‏ (‏ب)‏ آپ کو پہاڑی وعظ پر کیوں غوروخوض کرنا چاہئے؟‏

۲۰ اگرچہ ہم نے یسوع کے شاندار پہاڑی وعظ کے محض چند نکات پر غور کِیا ہے توبھی ہم اِس وعظ کو سننے والے لوگوں کے ردِعمل کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏جب یسوؔع نے یہ باتیں ختم کیں تو ایسا ہوا کہ بِھیڑ اُس کی تعلیم سے حیران ہوئی۔‏ کیونکہ وہ اُن کے فقیہوں کی طرح نہیں بلکہ صاحبِ‌اختیار کی طرح اُن کو تعلیم دیتا تھا۔‏“‏—‏متی ۷:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

۲۱ یسوع مسیح کے بارے میں پیشینگوئی کی گئی تھی کہ وہ ”‏عجیب مشیر“‏ ہوگا۔‏ (‏یسع ۹:‏۶‏)‏ پہاڑی وعظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح اِس بات سے اچھی طرح واقف تھا کہ یہوواہ خدا معاملات کے بارے میں کیسی سوچ رکھتا ہے۔‏ اِس وعظ میں حقیقی خوشی حاصل کرنے،‏ بداخلاقی سے گریز کرنے،‏ راستبازی کی راہ اختیار کرنے،‏ ایک شاندار مستقبل حاصل کرنے اور دیگر کئی معاملات کے بارے میں بتایا گیا ہے۔‏ کیوں نہ متی ۵ تا ۷ باب کو دوبارہ پڑھیں؟‏ اِن ابواب میں درج یسوع کی مشورت پر غور کریں۔‏ یسوع مسیح نے اپنے پہاڑی وعظ میں جوکچھ کہا اِس پر عمل کریں۔‏ اِس طرح آپ یہوواہ خدا کو خوش کرنے،‏ دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور بھلائی کرنے کے قابل ہوں گے۔‏

آپ کا جواب کیا ہوگا؟‏

‏• ہمیں اپنے دُشمنوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہئے؟‏

‏• ہمیں دوسروں کو معاف کیوں کرنا چاہئے؟‏

‏• یسوع نے دوسروں پر نکتہ‌چینی کرنے کے بارے میں کیا کہا؟‏

‏• متی ۷:‏۱۲ کے مطابق،‏ ہمیں دوسروں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر عبارت]‏

کیا آپ جانتے ہیں کہ یسوع مسیح نے کیوں کہا کہ ”‏عیب‌جوئی نہ کرو“‏؟‏

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویر]‏

ہمیں اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کیوں کرنی چاہئے؟‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

کیا آپ لوگوں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتے ہیں جیسا آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کے ساتھ کریں؟‏