مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

صحیح فیصلے کریں اور اپنی میراث پر قبضہ جمائے رکھیں

صحیح فیصلے کریں اور اپنی میراث پر قبضہ جمائے رکھیں

‏”‏بدی سے نفرت رکھو۔‏ نیکی سے لپٹے رہو۔‏“‏ —‏روم ۱۲:‏۹‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ‏(‏الف)‏ آپ نے خدا کی خدمت کرنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے کیا کِیا تھا؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں کن سوالوں پر غور کِیا جائے گا؟‏

لاکھوں لوگوں نے اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کرنے اور یسوع مسیح کے ’‏نقشِ‌قدم پر چلنے‘‏ کا فیصلہ کِیا ہے۔‏ (‏متی ۱۶:‏۲۴؛‏ ۱-‏پطر ۲:‏۲۱‏)‏ یہ ایک نہایت اہم فیصلہ ہے۔‏ اِس لئے ہم نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے پاک کلام پر اچھی طرح تحقیق اور سوچ‌بچار کی۔‏ یوں ہم نے ایک ایسی شاندار میراث کے متعلق سیکھا جو خدا اور مسیح کی پہچان حاصل کرنے والوں کو ملے گی۔‏—‏یوح ۱۷:‏۳؛‏ روم ۱۲:‏۲‏۔‏

۲ خدا کی قربت میں رہنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسے فیصلے کریں جن سے وہ خوش ہو۔‏ اِس سلسلے میں آئیں،‏ چند اہم سوالوں پر غور کریں۔‏ ہماری میراث کیا ہے؟‏ ہمیں اِسے کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏ ہم اِس پر اپنا قبضہ کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟‏ ہم صحیح فیصلے کیسے کر سکتے ہیں؟‏

ہماری میراث کیا ہے؟‏

۳.‏ ‏(‏الف)‏ ممسوح مسیحیوں کی میراث کیا ہے؟‏ (‏ب)‏ مسیح کی ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ کو کیا میراث ملے گی؟‏

۳ ممسوح مسیحی ”‏ایک غیرفانی اور بےداغ اور لازوال میراث“‏ حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہیں۔‏ یہ میراث آسمان میں یسوع مسیح کے ساتھ حکمرانی کرنے کا اعزاز ہے۔‏ (‏۱-‏پطر ۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ اِسے پانے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ”‏نئے سرے سے پیدا“‏ ہوں۔‏ (‏یوح ۳:‏۱-‏۳‏)‏ یسوع مسیح کی لاکھوں ”‏اَور بھی بھیڑیں ہیں“‏ جو ممسوح مسیحیوں کے ساتھ مل کر بادشاہت کی خوش‌خبری سنا رہی ہیں۔‏ اِن لاکھوں مسیحیوں کو کیا میراث ملے گی؟‏ (‏یوح ۱۰:‏۱۶‏)‏ اِنہیں وہی میراث ملے گی جو آدم اور حوا نے کھو دی تھی یعنی ہر طرح کے دُکھ‌تکلیف اور موت کی تلخی سے پاک زندگی۔‏ (‏مکا ۲۱:‏۱-‏۴‏)‏ جب یسوع مسیح سولی پر تھے تو اُنہوں نے ایک ڈاکو سے اِسی میراث کا وعدہ کِیا تھا۔‏ اُنہوں نے اُس سے کہا کہ ”‏تُو میرے ساتھ فردوس میں ہوگا۔‏“‏—‏لو ۲۳:‏۴۳‏۔‏

۴.‏ ہم کن برکتوں سے لطف اُٹھا رہے ہیں؟‏

۴ ہماری میراث میں کچھ ایسی برکتیں بھی شامل ہیں جن سے ہم ابھی لطف اُٹھا رہے ہیں۔‏ یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان رکھنے سے ہمیں اطمینان اور خدا کی قربت حاصل ہوتی ہے۔‏ (‏روم ۳:‏۲۳-‏۲۵‏)‏ ہم مستقبل کے بارے میں بائبل کی پیشین‌گوئیوں کو سمجھتے ہیں۔‏ ہم ایک ایسی عالمگیر تنظیم کا حصہ ہیں جس کے ارکان ایک دوسرے سے بڑی محبت کرتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں کائنات کے خالق،‏ یہوواہ خدا کے گواہ ہونے کا شاندار شرف حاصل ہے۔‏ ایسی انمول برکات کی وجہ سے ہم اپنی میراث کی دل سے قدر کرتے ہیں۔‏

۵.‏ ‏(‏الف)‏ شیطان،‏خدا کے بندوں کو کیا کرنے پر اُکساتا رہتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم شیطان کے ”‏منصوبوں کے مقابلہ میں قائم“‏ کیسے رہ سکتے ہیں؟‏

۵ اپنی میراث پر قبضہ جمائے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم شیطان کی چالوں سے خبردار رہیں۔‏ وہ شروع سے ہی خدا کے بندوں کو غلط فیصلے کرنے پر اُکساتا رہا ہے تاکہ وہ اُس میراث سے محروم ہو جائیں جو خدا اُنہیں دینا چاہتا ہے۔‏ (‏گن ۲۵:‏۱-‏۳،‏ ۹‏)‏ شیطان جانتا ہے کہ اُس کا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔‏ اِس لئے اُس نے ہمیں گمراہ کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔‏ ‏(‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۲،‏ ۱۷ کو پڑھیں۔‏)‏ اگر ہم ”‏اِبلیس کے منصوبوں کے مقابلہ میں قائم“‏ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہماری میراث کے لئے ہماری قدر کبھی کم نہ ہو۔‏ (‏افس ۶:‏۱۱‏)‏ آئیں،‏ اِضحاق کے پہلوٹھے بیٹے عیسو کی مثال پر غور کریں اور دیکھیں کہ ہم اُن سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏

عیسو کی طرح نہ بنیں

۶،‏ ۷.‏ عیسو کون تھے؟‏ اور اُنہیں کون‌سی میراث ملنی تھی؟‏

۶ تقریباً ۴۰۰۰ سال پہلے اِضحاق اور ربقہ کے ہاں دو جڑواں لڑکے پیدا ہوئے۔‏ ایک کا نام عیسو اور دوسرے کا نام یعقوب رکھا گیا۔‏ جیسےجیسے یہ دونوں بڑے ہوئے،‏ یہ بات واضح ہو گئی کہ اُن کا مزاج اور اُن کے شوق ایک دوسرے سے بالکل فرق ہیں۔‏ ”‏عیسوؔ شکار میں ماہر ہو گیا .‏ .‏ .‏ اور یعقوؔب سادہ مزاج ڈیروں میں رہنے والا آدمی تھا۔‏“‏ (‏پید ۲۵:‏۲۷‏)‏ اِس آیت میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”‏سادہ مزاج“‏ کِیا گیا ہے،‏ بائبل کے ایک عالم کے مطابق یہ لفظ ایک راست‌باز شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‏

۷ جب عیسو اور یعقوب ۱۵ سال کے ہوئے تو اُن کے دادا ابرہام وفات پا گئے۔‏ لیکن یہوواہ خدا کا وعدہ قائم رہا جو اُس نے ابرہام سے کِیا تھا۔‏ بعد میں یہوواہ خدا نے اِضحاق کے سامنے وہی وعدہ دہرایا کہ ”‏زمین کی سب قومیں [‏ابرہام کی]‏ نسل کے وسیلہ سے برکت پائیں گی۔‏“‏ ‏(‏پیدایش ۲۶:‏۳-‏۵ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس وعدے کے مطابق وہ ”‏نسل“‏ جس کا پیدایش ۳:‏۱۵ میں ذکر کِیا گیا ہے،‏ ابرہام کی اولاد سے آئے گی۔‏ چونکہ عیسو،‏ اِضحاق کے بڑے بیٹے تھے اِس لئے اصولی طور پر ”‏نسل“‏ یعنی مسیح کو عیسو کی اولاد سے آنا چاہئے تھا۔‏ یہ واقعی عیسو کے لئے بڑے شرف کی بات تھی۔‏ کیا اُنہوں نے اپنی اِس میراث کی قدر کی؟‏

اپنی میراث کو داؤ پر نہ لگائیں۔‏

۸،‏ ۹.‏ ‏(‏الف)‏ عیسو نے اپنی میراث کے سلسلے میں کیا فیصلہ کِیا؟‏ (‏ب)‏ بعد میں عیسو کو کیا احساس ہوا؟‏ اور اُنہوں نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟‏

۸ ایک دن جب عیسو جنگل سے تھکےہارے آئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ یعقوب دال پکا رہے ہیں۔‏ عیسو نے یعقوب سے کہا کہ ”‏یہ جو لال لال ہے مجھے کھلا دے کیونکہ مَیں بےدم ہو رہا ہوں۔‏“‏ تب یعقوب نے کہا ”‏تُو آج اپنا پہلوٹھے کا حق میرے ہاتھ بیچ دے۔‏“‏ اِس پر عیسو نے کیا فیصلہ کِیا؟‏ اُنہوں نے یعقوب کو جواب دیا:‏ ”‏پہلوٹھے کا حق میرے کس کام آئے گا؟‏“‏ عیسو نے دال کے ایک پیالے کے بدلے ”‏اپنا پہلوٹھے کا حق یعقوؔب کے ہاتھ بیچ دیا۔‏“‏ یعقوب نے اِس بات کو پکا کرنے کے لئے عیسو سے کہا:‏ ”‏[‏تُو]‏ آج ہی مجھ سے قسم کھا۔‏“‏ عیسو نے فوراً قسم اُٹھا لی۔‏ اِس کے بعد ”‏یعقوؔب نے عیسوؔ کو روٹی اور مسور کی دال دی۔‏ وہ کھا پی کر اُٹھا اور چلا گیا۔‏ یوں عیسوؔ نے اپنے پہلوٹھے کے حق کو ناچیز جانا۔‏“‏—‏پید ۲۵:‏۲۹-‏۳۴‏۔‏

۹ اِس واقعے کو کئی سال گزر گئے۔‏ اب اِضحاق بہت عمررسیدہ ہو چکے تھے۔‏ اُن کی بیوی ربقہ نے منصوبہ بنایا کہ اِضحاق اپنی وفات سے پہلے یعقوب کو برکت دیں کیونکہ پہلوٹھے کا حق اب یعقوب کے پاس تھا۔‏ جب برکت یعقوب کو مل گئی تو عیسو کو احساس ہوا کہ اُنہوں نے کتنا غلط فیصلہ کِیا تھا۔‏ اُنہوں نے اپنے باپ اِضحاق سے منت کی:‏ ”‏مجھ کو بھی دُعا دے۔‏ اَے میرے باپ!‏ مجھ کو بھی۔‏ .‏ .‏ .‏ کیا تُو نے میرے لئے کوئی برکت نہیں رکھ چھوڑی ہے؟‏“‏ جب اِضحاق نے بتایا کہ جو برکت یعقوب کو مل گئی ہے،‏ اب وہ بدلی نہیں جا سکتی تو ”‏عیسوؔ چلّا چلّا کر رویا۔‏“‏—‏پید ۲۷:‏۳۰-‏۳۸‏۔‏

۱۰.‏ یہوواہ خدا نے عیسو اور یعقوب کو کیسا خیال کِیا؟‏ اور کیوں؟‏

۱۰ اِس واقعے سے ہم عیسو کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏ اُن کی نظر میں اپنی میراث کی نسبت اپنی خواہشوں کو پورا کرنا زیادہ اہم تھا۔‏ اُنہوں نے پہلوٹھے ہونے کے حق کی ناقدری کی اور اُنہیں خدا سے بھی محبت نہیں تھی۔‏ اِس کے علاوہ اُنہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اُن کے فیصلے کا اُن کی آنے والی نسل پر کیا اثر ہوگا۔‏ عیسو کے برعکس یعقوب نے پہلوٹھے ہونے کے حق کی قدر کی۔‏ اُنہوں نے ایسے فیصلے کئے جن سے ظاہر ہوا کہ وہ اِس میراث کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے شادی کے سلسلے میں اپنے ماں‌باپ کے مشورے پر عمل کِیا۔‏ (‏پید ۲۷:‏۴۶–‏۲۸:‏۳‏)‏ یہوواہ خدا کی عبادت کرنے والی بیوی پانے کے لئے اُنہیں انتظار کرنا پڑا اور سخت محنت بھی کرنی پڑی۔‏ لیکن اُنہیں اِس کا اَجر یہ ملا کہ مسیح اُن کی نسل سے آیا۔‏ یہوواہ خدا نے عیسو اور یعقوب کو کیسا خیال کِیا؟‏ اُس نے ملاکی نبی کے ذریعے فرمایا:‏ ”‏مَیں نے یعقوبؔ سے محبت رکھی۔‏ لیکن عیسوؔ سے نفرت کی۔‏“‏—‏ملا ۱:‏۲،‏ ۳‏،‏ کیتھولک ترجمہ۔‏

۱۱.‏ ‏(‏الف)‏ عیسو کی مثال سے ہم نے جو باتیں سیکھیں،‏ وہ ہمارے لئے کیا اہمیت رکھتی ہیں؟‏ (‏ب)‏ پولس رسول نے ایک حرام‌کار شخص اور عیسو کا اِکٹھے ذکر کیوں کِیا؟‏

۱۱ عیسو کی مثال سے ہم نے جو باتیں سیکھیں،‏ وہ ہمارے لئے کیا اہمیت رکھتی ہیں؟‏ پولس رسول نے مسیحیوں کو یہ نصیحت کی کہ اُن میں کوئی بھی ”‏حرام‌کار یا عیسوؔ کی طرح بےدین [‏نہ]‏ ہو جس نے ایک وقت کے کھانے کے عوض اپنے پہلوٹھے ہونے کا حق بیچ ڈالا۔‏“‏ (‏عبر ۱۲:‏۱۶‏)‏ یہ نصیحت آج بھی ہم پر لاگو ہوتی ہے۔‏ ہمیں خدا کے وعدوں اور برکتوں کے لئے اپنے دل میں قدر قائم رکھنی چاہئے تاکہ ہم اپنی غلط خواہشوں میں نہ پھنسیں اور اپنی میراث سے محروم نہ ہوں۔‏ لیکن پولس رسول نے ایک حرام‌کار شخص اور عیسو کا اِکٹھے ذکر کیوں کِیا؟‏ جس طرح عیسو اپنی خواہشوں کے تابع ہو گئے اور غلط کام کِیا اُسی طرح اگر ہم اپنی خواہشوں کے تابع ہو جائیں گے تو آسانی سے کسی گُناہ میں پڑ سکتے ہیں جیسے کہ حرام‌کاری۔‏ یوں ہم اپنی میراث کو داؤ پر لگا بیٹھیں گے۔‏

اپنے دل کو تیار کریں

۱۲.‏ ‏(‏الف)‏ شیطان ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کیسے کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ جب ہمیں غلط کام کرنے پر اُکسایا جاتا ہے تو ہمیں کن مثالوں پر غور کرنا چاہئے؟‏

۱۲ خدا کے بندوں کے طور پر ہم ایسے ماحول سے بچنے کی پوری کوشش کرتے ہیں جو ہمیں بدکاری کے گڑھے میں دھکیل سکتا ہے۔‏ ہم یہ دُعا کرتے ہیں کہ جب کوئی ہمیں غلط کام کرنے پر اُکسائے تو خدا ہمیں وفادار رہنے کی توفیق عطا کرے۔‏ (‏متی ۶:‏۱۳‏)‏ ہم اِس بدکار دُنیا میں نیکی کی راہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن شیطان ہماری راہ میں روڑے اٹکاتا ہے۔‏ (‏افس ۶:‏۱۲‏)‏ وہ اِس جہان کا خدا ہے اور ہماری کمزوریوں سے واقف ہے۔‏ وہ اِن سے فائدہ اُٹھانا خوب جانتا ہے۔‏ (‏۱-‏کر ۱۰:‏۸‏)‏ فرض کریں کہ آپ کو اپنی کوئی خواہش غلط طریقے سے پوری کرنے کا موقع ملتا ہے۔‏ آپ اِس صورت میں کیا کریں گے؟‏ کیا آپ عیسو کی مانند بنیں گے جو آزمائش کے آگے جھک گئے؟‏ یا پھر آپ آزمائش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے جیسے یعقوب کے بیٹے یوسف نے کِیا تھا۔‏ اُنہیں فوطیفار کی بیوی نے حرام‌کاری کرنے پر اُکسایا مگر وہ اُس کے جال میں نہ پھنسے۔‏‏—‏پیدایش ۳۹:‏۱۰-‏۱۲ کو پڑھیں۔‏

۱۳.‏ ‏(‏الف)‏ ہمارے بہت سے بہن‌بھائی کس لحاظ سے یوسف کی طرح ہیں اور کچھ بہن‌بھائی عیسو کی طرح ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ ہم عیسو کی طرح نہ بنیں؟‏

۱۳ ہمارے بہت سے بہن‌بھائی ایسے حالات سے گزرے ہیں جن میں اُنہیں فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ عیسو کی طرح بنیں گے یا یوسف کی طرح۔‏ بہت سے بہن‌بھائیوں نے یوسف کی طرح صحیح فیصلہ کِیا اور یہوواہ خدا کا دل شاد کِیا۔‏ (‏امثا ۲۷:‏۱۱‏)‏ لیکن کچھ بہن‌بھائی،‏ عیسو کی طرح آزمائش کے آگے جھک گئے۔‏ اُنہوں نے اپنی میراث کو داؤ پر لگا دیا۔‏ دراصل ہر سال کلیسیا سے جو لوگ خارج ہوتے ہیں،‏ اُن میں سے زیادہ‌تر بدکاری کی وجہ سے خارج ہوتے ہیں۔‏ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ ہم کسی اِمتحان یا آزمائش میں پڑنے سے پہلے اپنے دل کو تیار کریں۔‏ ہم آزمائشوں کا مقابلہ کرنے اور صحیح فیصلے کرنے کے لئے کم‌ازکم دو کام کر سکتے ہیں۔‏ آئیں،‏ اِن پر غور کریں۔‏

ہم آزمائشوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

حکمت کو ڈھونڈیں اور آزمائشوں کا مقابلہ کریں۔‏

۱۴.‏ کن سوالوں پر غور کرنے سے ہم ’‏بدی سے نفرت کرنے‘‏ اور ’‏نیکی سے لپٹے رہنے‘‏ کے قابل ہوں گے؟‏

۱۴ غور کریں کہ آپ کے کاموں کا دوسروں پر کیا اثر پڑے گا۔‏ ہم جتنی زیادہ یہوواہ خدا سے محبت کریں گے اُتنی ہی ہم اپنی میراث کی قدر کریں گے کیونکہ یہ میراث اُسی نے ہمیں دی ہے۔‏ اگر ہم کسی سے محبت کرتے ہیں تو ہم اُس کا دل دُکھانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے بلکہ ہم اُسے خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ لہٰذا ہمیں اِس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اگر ہم اپنی خواہشوں کے دباؤ میں آکر غلط کام کریں گے تو اِس کا ہم پر اور دوسروں پر کیا اثر ہوگا۔‏ ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے:‏ ”‏اگر مَیں کوئی غلط کام کروں گا تو یہوواہ خدا کے ساتھ میری دوستی پر کیا اثر پڑے گا؟‏ اِس کا میرے گھر والوں پر کیا اثر ہوگا؟‏ اور میرے مسیحی بہن‌بھائیوں پر کیا اثر ہوگا؟‏ کیا میرے غلط کام کی وجہ سے دوسروں کو ٹھوکر لگ سکتی ہے؟‏“‏ (‏فل ۱:‏۱۰‏)‏ اِس کے علاوہ اِن سوالوں پر بھی غور کریں:‏ ”‏کیا میری نظر میں چند لمحوں کی لذت اِس قدر اہم ہے کہ مَیں باقی سب چیزوں کو داؤ پر لگانے کے لئے تیار ہوں؟‏ کیا مَیں یہ چاہتا ہوں کہ میرا حال بھی عیسو جیسا ہو اور مجھے بعد میں اپنے فیصلے پر آنسو بہانے پڑیں؟‏“‏ (‏عبر ۱۲:‏۱۷‏)‏ ایسے سوالوں پر غور کرنے سے ہم ’‏بدی سے نفرت کرنے‘‏ اور ’‏نیکی سے لپٹے رہنے‘‏ کے قابل ہوں گے۔‏ (‏روم ۱۲:‏۹‏)‏ یہوواہ خدا سے محبت رکھنے کی وجہ سے ہم اپنی میراث پر بھی قبضہ جمائے رکھیں گے۔‏—‏زبور ۷۳:‏۲۸‏۔‏

۱۵.‏ آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم کیسے تیار رہ سکتے ہیں؟‏

۱۵ آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلے سے تیار رہیں۔‏ یہوواہ خدا ہمیں بتاتا ہے کہ ہم آزمائشوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر وہ ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ ہم روزانہ پاک کلام کو پڑھیں،‏ باقاعدگی سے اجلاسوں میں جائیں،‏ مُنادی کے کام میں مگن رہیں اور دُعا کرنے میں مشغول رہیں۔‏ (‏۱-‏کر ۱۵:‏۵۸‏)‏ ہر بار جب ہم خدا کے ساتھ اپنے دل کی باتیں کرتے ہیں اور جوش سے مُنادی کا کام کرتے ہیں تو آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمارا عزم اَور مضبوط ہوتا ہے۔‏ ‏(‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۲،‏ ۱۹ کو پڑھیں۔‏)‏ جتنا زیادہ ہم اِن کاموں میں مگن رہیں گے اُتنا ہی ہم آزمائشوں کو رد کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔‏ (‏گل ۶:‏۷‏)‏ اِسی بات کو امثال کی کتاب کے دوسرے باب میں اُجاگر کِیا گیا ہے۔‏

‏’‏حکمت کی ایسی تلاش کریں جیسے خزانوں کی‘‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ ہم صحیح فیصلے کرنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟‏

۱۶ امثال دو باب میں ہمیں ہدایت کی گئی ہے کہ ہم حکمت اور فہم حاصل کریں۔‏ اِن کی بدولت ہم اچھائی اور بُرائی میں فرق کر سکتے ہیں اور اپنی خواہشوں کے غلام بننے کی بجائے اِنہیں قابو میں رکھ سکتے ہیں۔‏ لیکن حکمت اور فہم ہمیں آسانی سے نہیں ملیں گے۔‏ اِنہیں پانے کے لئے ہمیں سخت محنت کرنی پڑے گی۔‏ اِس سلسلے میں بائبل کہتی ہے:‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ اگر تُو میری باتوں کو قبول کرے اور میرے فرمان کو نگاہ میں رکھے۔‏ ایسا کہ تُو حکمت کی طرف کان لگائے اور فہم سے دل لگائے بلکہ اگر تُو عقل کو پکارے اور فہم کے لئے آواز بلند کرے اور اُس کو ایسا ڈھونڈے جیسے چاندی کو اور اُس کی ایسی تلاش کرے جیسے پوشیدہ خزانوں کی تو تُو [‏یہوواہ]‏ کے خوف کو سمجھے گا اور خدا کی معرفت کو حاصل کرے گا کیونکہ [‏یہوواہ]‏ حکمت بخشتا ہے۔‏ علم‌وفہم اُسی کے مُنہ سے نکلتے ہیں۔‏“‏—‏امثا ۲:‏۱-‏۶‏۔‏

۱۷ واقعی ہم صحیح فیصلے کرنے کے قابل تبھی ہوں گے جب ہم امثال ۲:‏۱-‏۶ میں دی گئی ہدایات پر عمل کریں گے۔‏ ہم آزمائشوں کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ہم خدا کے کلام کو اپنے دل میں جگہ دیں،‏ خدا سے رہنمائی مانگتے رہیں اور اُس کے علم کی ایسی تلاش کریں ”‏جیسے پوشیدہ خزانوں کی۔‏“‏

۱۸.‏ آپ کا عزم کیا ہے اور کیوں؟‏

۱۸ یہوواہ خدا علم،‏ حکمت،‏ فہم اور عقل اُنہی کو بخشتا ہے جو اِنہیں تلاش کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔‏ جتنا زیادہ ہم اِنہیں ڈھونڈیں گے اور کام میں لائیں گے اُتنا ہی ہم یہوواہ خدا کے قریب ہوں گے۔‏ یہوواہ خدا کی قربت میں رہنے سے ہم آزمائشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں گے اور بدی سے دُور رہیں گے۔‏ (‏زبور ۲۵:‏۱۴؛‏ یعقو ۴:‏۸‏)‏ خدا کے دوستوں کے طور پر آئیں،‏ ہمیشہ ایسے فیصلے کریں جن سے اُسے خوشی ملے اور ہماری میراث پر ہمارا قبضہ مضبوط رہے۔‏