آپبیتی
یہوواہ خدا کی فرمانبرداری برکتوں کا باعث ہے
میرے ابو نے ہمیں بتایا: ”نوح نبی کی زندگی سے ہم بہت سی اچھی باتیں سیکھتے ہیں۔ وہ یہوواہ خدا کے فرمانبردار تھے اور اپنے گھر والوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ نوح اور اُن کے سب گھر والے طوفان سے اِس لئے بچ گئے کیونکہ اُنہوں نے خدا کا کہنا مانا اور کشتی میں چلے گئے۔“
مجھے اپنے ابو کی یہ باتیں آج بھی یاد ہیں۔ وہ بہت خاکسار اور محنتی انسان تھے۔ وہ بہت انصافپسند بھی تھے۔ اِس لئے ۱۹۵۳ء میں جب اُنہوں نے پہلی بار بائبل کا پیغام سنا تو یہ اُنہیں فوراً بھا گیا۔ اُس وقت سے اُنہوں نے اپنی پوری کوشش کی کہ جو تعلیم وہ خود پا رہے ہیں، وہ اپنے بچوں کو بھی دیں۔ میری امی شروعشروع میں کیتھولک مذہب کی رسموں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھیں۔ لیکن وقت کے ساتھساتھ اُنہوں نے بھی بائبل کی تعلیمات کو اپنا لیا۔
میرے امیابو کے لئے ہم بہنبھائیوں کو بائبل سے تعلیم دینا مشکل تھا کیونکہ امی زیادہ پڑھ لکھ نہیں سکتی تھیں اور ابو دیر تک کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ بعض اوقات وہ اِتنا تھک جاتے تھے کہ ہمارے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنے کے دوران اُن کی آنکھ لگ جاتی تھی۔ پھر بھی اُن کی کوششیں رنگ لائیں۔ مَیں اپنے بہنبھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ اِس لئے مَیں نے اپنی بہن اور دو بھائیوں کو بائبل سے تعلیم دینا شروع کی۔ مَیں اُنہیں اکثر وہی بات بتاتی تھی جو ابو بتاتے تھے کہ نوح اپنے گھر والوں سے پیار کرتے تھے اور خدا کا حکم مانتے تھے۔ نوح کی کہانی مجھے بہت پسند تھی۔ جلد ہی ہم سب یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں میں جانے لگے۔ یہ اجلاس اٹلی کے مشرقی ساحل پر واقع ایک شہر میں منعقد ہوتے تھے۔
سن ۱۹۵۵ء میں جب مَیں ۱۱ سال کی تھی تو مَیں اور میری امی شہر روم میں پہلی بار یہوواہ کے گواہوں کے اجتماع پر گئیں۔ وہاں پہنچنے کے لئے ہم نے ایک طویل پہاڑی سفر کِیا۔ اِس اجتماع کے بعد سے مَیں بڑے شوق سے ہر اجتماع پر جاتی ہوں۔
اگلے ہی سال مَیں نے بپتسمہ لے لیا اور جلد ہی کُلوقتی خدمت شروع کر دی۔ جب مَیں ۱۷ سال کی ہوئی تو مَیں خصوصی پہلکار بن گئی اور مجھے خدمت کرنے کے لئے شہر لاطینہ بھیج دیا گیا۔ یہ شہر میرے گھر سے ۳۰۰ کلومیٹر (۱۹۰ میل) دُور تھا۔ اِس شہر کو آباد ہوئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا۔ لوگوں کی آپس میں اِتنی جانپہچان نہیں تھی۔ اِس لئے اُنہیں یہ فکر نہیں تھی کہ اگر وہ ہم سے کتابیں یا رسالے لیں گے تو اُن کے پڑوسی اُن کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ مَیں اور میرے ساتھ خدمت کرنے والی پہلکار بہن بہت سے رسالے اور کتابیں پیش کرتی تھیں۔ مجھے یہاں خدمت کرنے میں بڑا مزہ آ رہا تھا لیکن پھر بھی مجھے گھر کی یاد بہت ستاتی تھی۔ مگر یہوواہ خدا کی مرضی یہ تھی کہ مَیں لاطینہ میں خدمت کروں اور مَیں اُس کی مرضی کے مطابق چلنا چاہتی تھی۔
ہماری شادی کی تصویر
پھر ۱۹۶۳ء میں مجھے شہر میلان بھیج دیا گیا۔ اُس وقت وہاں ایک بینالاقوامی اجتماع کی تیاریاں چل رہی تھیں جس کا موضوع تھا ”ابدی خوشخبری۔“ اور مجھے اِن تیاریوں میں ہاتھ بٹانے کے لئے ہی بھیجا
گیا تھا۔ اِس اجتماع کے دوران مَیں نے رضاکار کے طور پر بہت سارے بہنبھائیوں کے ساتھ کام کِیا۔ اِن میں سے ایک جوان بھائی کا نام پاؤلو پیچولی تھا۔ وہ شہر فلورنس کا رہنے والا تھا۔ اجتماع کے دوسرے دن اُس نے ایک بڑی شاندار تقریر دی جس میں بتایا گیا تھا کہ غیرشادیشُدہ لوگ خدا کی خدمت میں زیادہ وقت صرف کر سکتے ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اُس کی تقریر سُن کر مَیں یہ سوچنے لگی تھی کہ ”یہ بھائی تو کبھی شادی نہیں کرے گا۔“ لیکن اجتماع کے کچھ عرصے بعد ہم ایک دوسرے کو خط لکھنے لگے۔ اِن خطوں سے ہمیں اندازہ ہوا کہ ہمارے منصوبے ایک جیسے ہیں؛ ہم یہوواہ خدا سے محبت کرتے ہیں اور ہمیشہ اُس کے وفادار رہنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ہم نے ۱۹۶۵ء میں شادی کر لی۔پادریوں سے بحث
مَیں نے شہر فلورنس میں دس سال تک پہلکار کے طور پر خدمت کی۔ ہمیں خوشی تھی کہ بہت سے لوگ کلیسیاؤں میں شامل ہو رہے تھے۔ خاص طور پر نوجوانوں کو روحانی طور پر آگے بڑھتے ہوئے دیکھ کر ہمیں بڑی خوشی ہوتی تھی۔ ہم اکثر نوجوانوں کے ساتھ بائبل کے موضوعات پر باتچیت کرتے تھے اور اُن کے ساتھ مل کر تفریح بھی کرتے تھے۔ پاؤلو اکثر اُن کے ساتھ فٹبال کھیلتے تھے۔ ظاہری بات ہے کہ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ وقت گزارنا بہت اچھا لگتا تھا۔ لیکن مَیں سمجھتی تھی کہ کلیسیا میں بہنبھائیوں اور نوجوانوں کو بھی پاؤلو کے وقت اور توجہ کی ضرورت ہے۔
آج بھی مجھے اُن تمام لوگوں کو یاد کرکے بڑی خوشی ملتی ہے جنہیں ہم بائبل سے تعلیم دیتے تھے۔ ہم ایک عورت کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرتے تھے جس کا نام ایڈریانا تھا۔ وہ بائبل سے جو کچھ سیکھتیں، اُس کے بارے میں اپنے پڑوس کے دو گھروں میں جا کر بھی بتاتیں۔ اِن گھروں کے افراد نے ایک پادری اور ہمارے درمیان ایک میٹنگ طے کر دی۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم کچھ عقیدوں پر بات کریں جیسے کہ تثلیث اور غیرفانی روح۔ جب وہ دن آیا تو تین بشپ ہمارے ساتھ بات کرنے چلے آئے۔ اِن عقیدوں کے بارے میں تینوں بشپوں کی وضاحتیں مشکل تھیں۔ اور جن لوگوں کو ہم بائبل سے تعلیم دیتے تھے، وہ سمجھ رہے تھے کہ بشپوں کی باتیں پاک کلام کے مطابق نہیں ہیں۔ اِس میٹنگ سے بہرحال یہ فائدہ ضرور ہوا کہ اِن دو گھروں سے ۱۵ لوگ یہوواہ کے گواہ بن گئے۔
آجکل تو مُنادی کا کام کرنے کا طریقہ بہت بدل گیا ہے۔ لیکن اُس وقت پادریوں کے ساتھ ہماری اکثر بحث ہوتی تھی۔ پاؤلو تو پادریوں کے ساتھ بائبل کے موضوعات پر بات کرنے میں بہت ماہر ہو گئے تھے۔ ایک مرتبہ پادریوں نے بہت سارے لوگوں کو اِکٹھا کِیا۔ اُنہوں نے پہلے سے کچھ لوگوں کو پٹی پڑھائی ہوئی تھی کہ وہ ہم سے مشکل مشکل سوال پوچھیں۔ لیکن اچانک باتچیت کا رُخ ہی پلٹ گیا۔ ایک شخص نے یہ پوچھ لیا کہ کیا چرچ کے رہنماؤں کو سیاست میں حصہ لینا چاہئے کیونکہ ایسا صدیوں سے ہوتا آیا ہے؟ یہ سوال سنتے ہی پادریوں کے طوطے اُڑ گئے۔ پھر اچانک بجلی چلی گئی اور باتچیت وہیں رُک گئی۔ کئی سال بعد ہمیں پتہ چلا کہ اُس شام بجلی جانبُوجھ کر کاٹی گئی تھی۔ یہ پادریوں کا منصوبہ تھا کہ اگر باتچیت کے دوران وہ کہیں پھنس جائیں تو بجلی بند کر دی جائے۔
نئی ذمہداریاں
ہماری شادی کے دس سال بعد پاؤلو کو حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کی ذمہداری دی گئی۔ اُس وقت پاؤلو کے پاس بہت اچھی نوکری تھی جسے چھوڑنا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ لیکن ہم نے اِس معاملے کے بارے میں دُعا کی اور اچھی طرح سوچبچار کرنے کے بعد اِس ذمہداری کو قبول کر لیا۔ جن بہنبھائیوں کے گھروں میں ہم ٹھہرتے تھے، اُن کے ساتھ وقت گزارنے میں ہمیں بڑا مزہ آتا تھا۔ ہم اکثر شام کو اُن کے ساتھ مل کر بائبل کو پڑھتے تھے اور اِس پر باتچیت کرتے تھے۔ بعد میں پاؤلو بچوں کو سکول کا کام کراتے تھے، خاص طور پر ریاضی کا کام۔ پاؤلو کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ جب وہ کوئی دلچسپ یا حوصلہافزا بات پڑھتے تو ہم سب کو بتاتے تھے۔ پیر کے روز اکثر ہم ایسے علاقوں میں مُنادی کا کام کرتے تھے جہاں کوئی یہوواہ کا گواہ نہیں تھا۔ ہم وہاں کے لوگوں کو دعوت دیتے تھے کہ وہ شام کو تقریر سننے کے لئے بھی آئیں۔
ہمیں نوجوانوں کے ساتھ وقت گزارنے میں بڑا مزہ آتا تھا۔ پاؤلو اکثر اُن کے ساتھ فٹبال کھیلتے تھے۔
پاؤلو کو حلقے کے نگہبان کی حیثیت سے خدمت کرتے ابھی دو سال ہی ہوئے تھے کہ ہمیں روم میں بیتایل میں کام کرنے کے لئے بلا لیا گیا۔ پاؤلو کو قانونی معاملات کی نگرانی کرنے کی ذمہداری دی گئی اور مجھے رسالوں کو پیک کرنے کا کام دیا گیا۔ اپنی زندگی کے معمول کو بدلنا آسان تو نہیں تھا مگر ہم نے یہ عزم کر رکھا تھا کہ ہم ہر بات میں خدا کے فرمانبردار رہیں گے۔ ہمیں بڑی خوشی تھی کہ بیتایل میں کام بڑھتا جا رہا تھا اور اٹلی میں بہت سے لوگ یہوواہ کے گواہ بن رہے تھے۔ اِسی عرصے کے دوران اٹلی میں یہوواہ کے گواہوں کو قانونی حیثیت بھی مل گئی۔ ہم بڑی خوشی سے بیتایل میں خدمت کر رہے تھے۔
پاؤلو بیتایل میں اپنا کام بڑی لگن سے کرتے تھے۔
یہ ۱۹۸۲ء یا ۱۹۸۳ء کی بات ہے جب اٹلی میں ایک مقدمے نے ہلچل مچا دی۔ یہ مقدمہ ایک میاںبیوی کے خلاف تھا جو یہوواہ کے گواہ تھے اور جنہوں نے اپنی بیٹی کے علاج کے لئے خون استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اِس لئے اُن پر الزام لگایا گیا کہ وہ اپنی بیٹی کی موت کے ذمہدار ہیں۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ اُن کی بیٹی خون کی ایک بیماری کی وجہ سے مری تھی۔ یہ بیماری اُس وقت اٹلی میں اور آسپاس کے ملکوں میں بڑی عام تھی۔ بیتایل میں کام کرنے والے بھائیوں نے اُن وکیلوں کی بڑی مدد کی جو اِس میاںبیوی کا مقدمہ لڑ رہے تھے۔ ایک پرچہ اور جاگو! کا خصوصی شمارہ بھی شائع کِیا گیا تاکہ لوگ حقیقت سے واقف ہوں اور یہ سمجھیں کہ خون کے استعمال کے سلسلے میں بائبل میں کیا بتایا گیا ہے۔ اُس دوران پاؤلو لگاتار ۱۶ گھنٹے کام کرتے تھے اور مجھ سے جتنا ہو سکا، مَیں نے اُن کی مدد کی۔
ہماری زندگی میں ایک بڑی تبدیلی
ہماری شادی کو ۲۰ سال ہو چکے تھے۔ میری عمر ۴۱ سال تھی اور پاؤلو ۴۹ سال کے تھے۔ اُس وقت ہماری زندگی میں ایک ایسا موڑ آیا جس کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ مَیں نے پاؤلو کو بتایا کہ ”مجھے لگتا ہے کہ مَیں ماں بننے والی ہوں۔“ پاؤلو نے اُس دن اپنی ڈائری میں یہ الفاظ لکھے: ”اَے یہوواہ! اگر یہ سچ ہے تو ہماری مدد کریں کہ ہم کُلوقتی خدمت کرتے رہیں اور آپ کی قربت میں رہیں۔ ہم اپنی اولاد کے لئے اچھی مثال قائم کریں۔ خاص طور پر آپ میری مدد کریں تاکہ مَیں ۳۰ سال سے جو لوگوں کو سکھاتا آیا ہوں، اُس پر خود بھی عمل کر سکوں۔“ آج جب مَیں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو مَیں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ یہوواہ خدا نے ہماری دُعائیں سنی ہیں۔
امثال ۲۴:۱۰ میں درج الفاظ ہم پر لاگو ہوتے ہیں کہ ”اگر تُو مصیبت کے دن بےدل ہو جائے تو تیری طاقت بہت کم ہے۔“ لیکن ہم دونوں نے ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھایا اور ایک دوسرے کو سنبھالا۔
ہمارے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام ہم نے الیریا رکھا۔ الیریا کی پیدائش نے ہماری زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ سچ بتاؤں تو کئی بار ہم دونوں بےحوصلہ ہوئے۔ ہمیں کبھیکبھی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسےالیریا اِس بات سے خوش ہے کہ ہم اُس کی پیدائش کے بعد بھی کُلوقتی خدمت کرتے رہے۔ اُسے کبھی محبت اور توجہ کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ دن کے دوران مَیں ہمیشہ اُس کے ساتھ ہوتی تھی اور شام کو جب پاؤلو گھر آتے تھے تو وہ اُسے پوری توجہ دیتے تھے۔ وہ اُس کے ساتھ کھیلتے تھے اور اُسے سکول کا کام بھی کراتے تھے۔ پاؤلو کے پاس اپنا کام بھی ہوتا تھا لیکن وہ الیریا کو وقت ضرور دیتے تھے حالانکہ اپنا کام کرنے کے لئے اُنہیں رات دوتین بجے تک جاگنا پڑتا تھا۔ الیریا اکثر کہتی تھی: ”میرے ابو میرے سب سے اچھے دوست ہیں۔“
الیریا کی تربیت کرنے کے لئے ہمیں کبھیکبھار اُس کو سختی سے سمجھانا بھی پڑا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ جب وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ کھیل رہی تھی تو اُس کے ساتھ جھگڑ پڑی۔ ہم نے اُسے بائبل کی کچھ آیتیں پڑھ کر سنائیں اور اُسے سمجھایا کہ اُسے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ہمارے کہنے پر اُس نے ہمارے سامنے اپنی سہیلی سے معافی مانگی۔
ہماری بیٹی اِس بات سے بہت متاثر ہے کہ ہم نے ہمیشہ مُنادی کے کام کو اہم سمجھا ہے۔ اِس لئے وہ بھی یہ کام بڑے جوش سے کرتی ہے۔ اب اُس کی شادی ہو چکی ہے۔ اب وہ اِس بات کو اَور بھی اچھی طرح سمجھتی ہے کہ خدا کے حکموں کو ماننا اور اُس کی رہنمائی میں چلنا بہت فائدہمند ہے۔
دُکھ کی گھڑی میں بھی خدا پر آس
سن ۲۰۰۸ء میں ہمیں پتہ چلا کہ پاؤلو کو کینسر ہے۔ شروع میں تو ایسا لگا کہ وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔ اُنہوں نے میرا بڑا حوصلہ بڑھایا۔ ہم نے اُن کا اچھے سے اچھا علاج کرانے کی کوشش کی۔ اِس کے علاوہ مَیں نے اور الیریا نے یہوواہ خدا سے بہت دُعا بھی کی کہ وہ ہمیں صبر اور برداشت عطا کرے۔ وہ آدمی جو کبھی بہت چاکوچوبند ہوتا تھا، اب دنبدن میری نظروں کے سامنے کمزور ہوتا جا رہا تھا۔ سن ۲۰۱۰ء میں پاؤلو کی موت سے مجھے بہت گہرا صدمہ پہنچا۔ لیکن مجھے اِس بات سے تسلی ملتی ہے کہ ہم نے ۴۵ سال اِکٹھے گزارے۔ اِس عرصے کے دوران ہم نے دلوجان سے یہوواہ خدا کی خدمت کی۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہ ہماری خدمت کو کبھی نہیں بھولے گا۔ مجھے اُس وقت کا انتظار ہے جب یوحنا ۵:۲۸، ۲۹ میں درج وعدہ پورا ہوگا اور پاؤلو زندہ ہوں گے۔
”مَیں اندر سے آج بھی وہی ننھی سی بچی ہوں جسے نوح کی کہانی بڑی پسند تھی۔ آج بھی میرا عزم یہی ہے کہ مَیں ہمیشہ یہوواہ خدا کا کہنا مانوں گی۔“
مَیں اندر سے آج بھی وہی ننھی سی بچی ہوں جسے نوح کی کہانی بڑی پسند تھی۔ آج بھی میرا عزم یہی ہے کہ مَیں ہمیشہ یہوواہ خدا کا کہنا مانوں گی۔ مَیں مانتی ہوں کہ کوئی بھی رُکاوٹ، کوئی بھی قربانی یا کوئی بھی نقصان اُن برکتوں کے سامنے کچھ بھی نہیں جو یہوواہ خدا ہمیں دیتا ہے۔ خدا کی فرمانبرداری کرنے سے آپ کو کبھی پچھتاوا نہیں ہوگا۔ یہ میری زندگی کا نچوڑ ہے۔