یہوواہ کی یاددہانیوں پر بھروسا رکھیں
”[یہوواہ] کی شہادت برحق ہے۔ نادان کو دانش بخشتی ہے۔“—زبور ۱۹:۷۔
۱. ہمارے اِجلاسوں پر اکثر کن موضوعات پر بات کی جاتی ہے؟ اور اِس سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟
کیا مینارِنگہبانی میں مطالعے کے کسی مضمون کی تیاری کرتے وقت کبھی آپ کے ذہن میں یہ بات آئی ہے: ”اِس موضوع پر تو پہلے بھی کئی بار بات کی گئی ہے“؟ اگر آپ کافی عرصے سے یہوواہ کے گواہ ہیں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے اِجلاسوں میں بعض موضوعات پر اکثر بات کی جاتی ہے، جیسے کہ خدا کی بادشاہت، مسیح کی قربانی، مُنادی کا کام، محبت اور ایمان وغیرہ۔ ایسے موضوعات پر باربار بات کرنے سے بائبل کی تعلیمات پر ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور ہم ’کلام پر عمل کرنے والے بنتے ہیں نہ محض سننے والے۔‘—یعقو ۱:۲۲۔
۲. (الف) خدا اپنے بندوں کو اکثر کن باتوں کی یاددہانی کراتا ہے؟ (ب) خدا کے قوانین اور اِنسان کے قوانین میں کیا فرق ہے؟
۲ زبور ۱۹:۷ میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”شہادت“ کِیا گیا ہے، وہ یاددہانی کرانے یعنی کسی بات کو دُہرانے کے معنی دیتا ہے۔ خدا اپنے بندوں کو اکثر اُن قوانین یا حکموں کی یاددہانی کراتا ہے جو اُس نے دئے ہیں۔ اِنسان کے قوانین اور خدا کے قوانین میں بہت فرق ہے۔ اِنسان کے بنائے ہوئے قوانین میں اکثر نقص ہوتا ہے اِس لئے اُن میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔ لیکن یہوواہ خدا کے قانون بےعیب ہیں۔ اِس لئے ہم اِن پر پورا بھروسا کر سکتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ خدا نے ماضی میں کچھ ایسے قوانین دئے جو آج ہم پر لاگو نہیں ہوتے۔ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ناقص تھے۔ زبور نویس نے کہا: ”تیری شہادتیں [یعنی یاددہانیاں] ہمیشہ راست ہیں۔“—زبور ۱۱۹:۱۴۴۔
۳، ۴. (الف) یہوواہ خدا ہمیں اکثر کیا یاد دِلاتا ہے؟ (ب) اگر بنیاِسرائیل، یہوواہ خدا کی یاددہانیوں پر دھیان دیتے تو اُنہیں کیا فائدہ ہوتا؟
۳ یہوواہ خدا اپنے بندوں کو باربار یاد دِلاتا ہے کہ نافرمانی کا انجام کیا ہوتا ہے۔ وہ اپنے نبیوں کے ذریعے بنیاِسرائیل کو خبردار کرتا رہا کہ اگر وہ غلط روِش اِختیار کریں گے تو اُنہیں سخت نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ مثال کے طور پر ملک کنعان میں داخل ہونے سے تھوڑا پہلے موسیٰ نبی نے بنیاِسرائیل سے کہا: ”سو تُم خبردار رہنا تا ایسا نہ ہو کہ تمہارے دل دھوکا کھائیں اور تُم بہک کر اَور معبودوں کی عبادت اور پرستش کرنے لگو۔ اور [یہوواہ] کا غضب تُم پر بھڑکے۔“ (است ۱۱:۱۶، ۱۷) یہوواہ خدا نے اپنے بندوں کو اَور بھی بہت سی مفید یاددہانیاں کرائیں۔
است ۴:۲۹-۳۱؛ ۵:۲۸، ۲۹) یہوواہ خدا نے وعدہ کِیا تھا کہ اگر وہ اُس کی یاددہانیوں پر کان لگائیں گے تو اُنہیں بےشمار برکتیں ملیں گی۔—احبا ۲۶:۳-۶؛ است ۲۸:۱-۴۔
۴ اُس نے کئی بار بنیاِسرائیل کو تاکید کی کہ وہ اُس کا خوف مانیں، اُس کے حکموں پر چلیں اور اُس کا نام پاک مانیں۔ (خدا کی یاددہانیوں کے لئے بنیاِسرائیل کا ردِعمل
۵. یہوواہ خدا نے بادشاہ حزِقیاہ کی خاطر جنگ کیوں لڑی؟
۵ یہوواہ خدا نے وفادار اِسرائیلیوں کے حق میں اپنا وعدہ ہمیشہ نبھایا اور اُن کا ساتھ نہ چھوڑا۔ مثال کے طور پر یہوواہ خدا نے بادشاہ حزِقیاہ اور اُن کے لوگوں کو اسور کے بادشاہ سنحیرب سے بچایا۔ سنحیرب نے یہوداہ میں کچھ شہروں پر قبضہ کر لیا تھا اور اب وہ یروشلیم پر بھی حملہ کرنے والے تھے۔ لیکن یہوواہ خدا نے اپنا ایک فرشتہ بھیجا جس نے ایک ہی رات میں اسور کی فوج کے ”سب زبردست سورماؤں“ کو ہلاک کر دیا۔ اور یوں ”سنحیرب شرمندہ ہو کر اپنے ملک“ کو لوٹ گئے۔ (۲-توا ۳۲:۲۱؛ ۲-سلا ۱۹:۳۵) یہوواہ خدا نے حزِقیاہ کی خاطر جنگ کیوں لڑی؟ کیونکہ حزِقیاہ ”[یہوواہ] سے لپٹا رہا اور اُس کی پیروی کرنے سے باز نہ آیا بلکہ اُس کے حکموں کو مانا۔“—۲-سلا ۱۸:۱، ۵، ۶۔
۶. بادشاہ یوسیاہ نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ خدا پر بھروسا رکھتے ہیں؟
۶ بادشاہ یوسیاہ نے بھی خدا کے حکموں کو مانا۔ آٹھ سال کی عمر سے وہ ایسے کام کرنے لگے جو یہوواہ خدا کی نظر میں ٹھیک تھے۔ اور وہ اُس کی راہوں سے ’دہنے یا بائیں ہاتھ کو نہ مڑے۔‘ (۲-توا ۳۴:۱، ۲) یوسیاہ نے ملک یہوداہ کو بُتوں سے پاک کر دیا اور لوگوں کو سچے خدا یہوواہ کی عبادت کرنے کی تاکید کی۔ یوں اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ خدا پر بھروسا رکھتے ہیں۔ یہوواہ خدا نے نہ صرف بادشاہ یوسیاہ کو بلکہ پوری قوم کو برکتوں سے نوازا۔—۲-تواریخ ۳۴:۳۱-۳۳ کو پڑھیں۔
۷. جب بنیاِسرائیل، یہوواہ خدا کی یاددہانیوں پر بھروسا نہیں کرتے تھے تو اُن کے ساتھ کیا ہوتا تھا؟
۷ افسوس کی بات ہے کہ بنیاِسرائیل نے ہمیشہ اُن باتوں پر بھروسا نہ کِیا جن پر خدا باربار اُن کی توجہ دِلا رہا تھا۔ وہ کبھی تو خدا کی فرمانبرداری کرنے لگتے اور کبھی نافرمانی کرنے پر اُتر آتے۔ جب اُن کا ایمان کمزور پڑتا تو وہ ’ہر ایک تعلیم کے جھوکے سے موجوں کی طرح اُچھلتے بہتے پھرتے۔‘ (افس ۴:۱۳، ۱۴) یہوواہ خدا کی یاددہانیوں پر بھروسا نہ کرنے کی وجہ سے اُنہیں تلخ نتائج کا سامنا کرنا پڑتا۔—احبا ۲۶:۲۳-۲۵؛ یرم ۵:۲۳-۲۵۔
۸. بنیاِسرائیل کی مثال پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟
۸ بنیاِسرائیل کی مثال پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟ جس طرح یہوواہ خدا، بنیاِسرائیل کو اپنے حکم اور معیار باربار یاد دِلاتا رہا اُسی طرح وہ آج ہمیں بھی اپنے حکم اور معیار یاد دِلاتا ہے۔ (۲-پطر ۱:۱۲) جب بھی ہم اُس کا کلام پڑھتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اُس کے حکموں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ لیکن بنیاِسرائیل کی طرح فیصلہ ہمیں کرنا ہوتا ہے کہ ہم اُس کے حکموں پر عمل کریں گے یا پھر ہم ایسی روِش اِختیار کریں گے جو ہمیں صحیح معلوم ہوتی ہے۔ (امثا ۱۴:۱۲) آئیں، دیکھیں کہ یہوواہ خدا کی یاددہانیوں پر بھروسا کرنا کیوں اہم ہے اور اِن پر دھیان دینے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے۔
خدا کی ہدایات پر عمل کریں اور زندگی پائیں
۹. جب بنیاِسرائیل بیابان میں سفر کر رہے تھے تو یہوواہ خدا نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ اُن کے ساتھ ہے؟
۹ مصر سے نکلنے کے بعد بنیاِسرائیل ۴۰ سال تک ”ہولناک بیابان“ میں پھرتے رہے۔ لیکن جب وہ اِس سفر پر روانہ ہوئے تھے تو یہوواہ خدا نے اُنہیں تفصیل سے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ اُن کی حفاظت، رہنمائی اور دیکھبھال کیسے کرے گا۔ پھر بھی اُس نے مختلف طریقوں سے ظاہر کِیا کہ بنیاِسرائیل اُس پر اور اُس کی ہدایات پر بھروسا کر سکتے ہیں۔ یہوواہ خدا دن کو بادل کا ستون اور رات کو آگ کا ستون اُن کے ساتھ رکھتا تھا۔ اِس طرح وہ بنیاِسرائیل کو یاد دِلاتا رہا کہ اِس مشکل سفر میں وہ اُن کے ساتھ ہے۔ (است ۱:۱۹؛ خر ۴۰:۳۶-۳۸) اُس نے اُن کی بنیادی ضروریات کا بھی خیال رکھا۔ ”نہ تُو اُن کے کپڑے پُرانے ہوئے اور نہ اُن کے پاؤں سوجے۔“ واقعی ”وہ کسی چیز کے محتاج نہ ہوئے۔“—نحم ۹:۱۹-۲۱۔
۱۰. آجکل یہوواہ خدا ہماری رہنمائی کیسے کر رہا ہے؟
۱۰ بہت ہی جلد خدا کے بندے نئی دُنیا میں داخل ہوں گے جس میں راستبازی بسی رہے گی۔ کیا ہم یہوواہ خدا پر بھروسا کرتے ہیں کہ وہ ”بڑی مصیبت“ سے بچنے کے لئے ہماری رہنمائی کرے گا؟ (متی ۲۴:۲۱، ۲۲؛ زبور ۱۱۹:۴۰، ۴۱) یہ سچ ہے کہ یہوواہ خدا بادل کے ستون یا آگ کے ستون سے ہماری رہنمائی تو نہیں کرتا لیکن وہ اپنی تنظیم کے ذریعے ہماری مدد کرتا ہے تاکہ ہم ہوشیار رہیں اور جاگتے رہیں۔ مثال کے طور پر آجکل ہماری تنظیم اِس بات پر پہلے سے کہیں زیادہ زور دے رہی ہے کہ ہم ذاتی مطالعہ کرنے، خاندانی عبادت کرنے اور باقاعدگی سے اِجلاسوں میں جانے اور مُنادی کے کام میں حصہ لینے سے خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو اَور مضبوط بنائیں۔ کیا ہم نے اپنی زندگی میں تبدیلیاں کی ہیں تاکہ ہم اِن ہدایات پر عمل کر سکیں؟ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمارا ایمان مضبوط ہوگا، ایسا ایمان جو نئی دُنیا میں جانے کے لئے ضروری ہے۔
۱۱. خدا کس طرح ظاہر کرتا ہے کہ اُس کو ہماری فکر ہے؟
۱۱ خدا کی تنظیم ہمیں ایسی ہدایات بھی دیتی ہے جن پر عمل کرنے سے ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اچھے فیصلے کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ ہم مالودولت کے پیچھے نہ بھاگیں بلکہ سادہ زندگی گزاریں اور فکروں سے بچیں۔ ہمیں لباس اور بناؤسنگھار کے بارے میں بھی مشورے دئے جاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہمیں بعض اقسام کی تفریح کے خطرات سے آگاہ کِیا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنے میں بھی ہماری رہنمائی کی جاتی ہے کہ آیا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں وقت لگانا فائدہمند ہے یا نہیں۔ کئی بار ہمیں ایسی معلومات دی جاتی ہیں جن کی مدد سے ہم ہنگامی صورتحال سے نپٹ سکتے ہیں۔ ہمیں ایسی احتیاطی تدابیر بھی بتائی جاتی ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم اپنے گھروں، گاڑیوں اور عبادتگاہوں کو اچھی حالت میں رکھ سکتے ہیں تاکہ کوئی حادثہ نہ ہو۔ خدا کی تنظیم کی طرف سے ملنے والی ایسی مفید ہدایات اِس بات کا ثبوت ہیں کہ خدا کو ہماری فکر ہے۔
اِبتدائی مسیحیوں کے لئے ضروری یاددہانیاں
۱۲. (الف) یسوع مسیح نے اکثر اپنے شاگردوں کو کیا کرنے کی ہدایت کی؟ (ب) یسوع مسیح کے کس کام نے پطرس رسول کے دلودماغ پر گہرا نقش چھوڑا؟ اور اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
۱۲ پہلی صدی میں بھی خدا نے اپنے بندوں کو ضروری یاددہانیاں کرائیں۔ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کے سامنے باربار عاجزی کی اہمیت پر زور دیا۔ یسوع مسیح نے نہ صرف اُنہیں عاجزی پیدا کرنے کی ہدایت کی بلکہ عاجزی کی ایک عمدہ مثال بھی قائم کی۔ اپنی موت سے پہلے کی رات یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کے ساتھ آخری فسح منائی۔ اِس موقعے پر جب اُن کے شاگرد کھانا کھا رہے تھے تو یسوع مسیح اُٹھے اور اُن کے پاؤں دھونے لگے۔ اُس زمانے میں یہ کام عموماً نوکر کرتے تھے۔ (یوح ۱۳:۱-۱۷) یسوع مسیح کی عاجزی نے شاگردوں کے دلودماغ پر گہرے نقش چھوڑے۔ یہاں تک کہ اِس واقعے کے ۳۰ سال بعد بھی پطرس رسول نے اپنے ہمایمانوں کو اپنے اندر عاجزی پیدا کرنے کی ہدایت کی۔ (۱-پطر ۵:۵) یسوع مسیح کی مثال پر غور کرنے سے ہم سب کو بھی ترغیب ملنی چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ عاجزی سے پیش آئیں۔—فل ۲:۵-۸۔
۱۳. یسوع مسیح جب تک اپنے شاگردوں کے ساتھ رہے، وہ اکثر کس بات پر زور دیتے تھے؟
۱۳ یسوع مسیح نے اکثر اپنے شاگردوں کے ساتھ مضبوط ایمان پیدا کرنے کی اہمیت پر بھی بات کی۔ جب شاگرد ایک لڑکے میں سے بدروح نکالنے میں ناکام ہو گئے تو اُنہوں نے یسوع مسیح سے پوچھا: ”ہم اِس کو کیوں نہ نکال سکے؟“ یسوع مسیح نے جواب دیا: ”اپنے ایمان کی کمی کے سبب سے کیونکہ مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تُم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا تو . . . کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہ ہوگی۔“ (متی ۱۷:۱۴-۲۰) یسوع مسیح زمین پر جب تک اپنے شاگردوں کے ساتھ رہے، وہ اُنہیں سکھاتے رہے کہ مضبوط ایمان رکھنا کس قدر اہم ہے۔ (متی ۲۱:۱۸-۲۲ کو پڑھیں۔) کیا ہم باقاعدگی سے اِجلاسوں اور اِجتماعوں میں جاتے ہیں اور اِن میں پیش کی جانے والی معلومات پر دھیان دیتے ہیں تاکہ ہمارا ایمان اَور مضبوط ہو جائے؟ اِجلاسوں اور اِجتماعوں پر ہم نہ صرف اپنے بہنبھائیوں سے مل کر خوش ہوتے ہیں بلکہ ہمیں یہ ظاہر کرنے کا موقع بھی ملتا ہے کہ ہم یہوواہ خدا پر پورا بھروسا کرتے ہیں۔
۱۴. یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بےلوث محبت کریں؟
۱۴ یونانی صحیفوں میں ہمیں باربار یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں۔ یسوع مسیح نے کہا کہ شریعت میں دوسرا بڑا حکم یہ ہے کہ ہم ’اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھیں۔‘ (متی ۲۲:۳۹) یسوع مسیح کے سوتیلے بھائی یعقوب نے اِس حکم کو ”بادشاہی شریعت“ کہا۔ (یعقو ۲:۸) یوحنا رسول نے لکھا: ”اَے عزیزو! مَیں تمہیں کوئی نیا حکم نہیں لکھتا بلکہ وہی پُرانا حکم جو شروع سے تمہیں ملا ہے۔“ (۱-یوح ۲:۷، ۸) جب یوحنا رسول نے ’پُرانے حکم‘ کا ذکر کِیا تو وہ کس حکم کی طرف اِشارہ کر رہے تھے؟ وہ دراصل آپس میں محبت رکھنے کے حکم کی طرف اِشارہ کر رہے تھے جو یسوع مسیح نے دیا تھا۔ یہ حکم پُرانا اِس لحاظ سے تھا کہ یسوع مسیح نے تقریباً ۶۰ سال پہلے یہ حکم دیا تھا اور جو بھی شخص مسیح کا پیروکار بنتا تھا، اُس کے پاس یہ حکم ”شروع سے“ ہی موجود تھا۔ لیکن یہ حکم نیا اِس لحاظ سے تھا کہ شاگردوں کو بدلتے ہوئے حالات کے پیشِنظر ایک دوسرے کے لئے اپنی جان تک دینے کو تیار رہنا تھا۔ آجکل ہم ایک خودغرض دُنیا میں رہ رہے ہیں اور اِس کے اثر میں آ کر اپنے پڑوسی کے لئے ہماری محبت ٹھنڈی پڑ سکتی ہے۔ اِس لئے ہم اُن ہدایات کی بڑی قدر کرتے ہیں جو اِس خودغرض دُنیا کے اثر سے بچنے کے سلسلے میں ہمیں باربار دی جاتی ہیں۔
۱۵. یسوع مسیح کا بنیادی کام کیا تھا؟
۱۵ یسوع مسیح کو لوگوں سے بڑی محبت تھی۔ اِس وجہ سے وہ بیماروں اور معذوروں کو شفا دیتے تھے۔ یہاں تک کہ اُنہوں نے کچھ مُردوں کو بھی زندہ کِیا۔ لیکن اُن کا بنیادی مقصد لوگوں کو شفا دینا نہیں تھا بلکہ اُنہیں تعلیم دینا تھا۔ اُن کے مُنادی کے کام سے لوگوں کو زیادہ فائدہ ہوا۔ ہم جانتے ہیں کہ یسوع مسیح نے جن لوگوں کو شفا دی یا زندہ کِیا، وہ آخرکار بوڑھے ہوئے اور مر گئے۔ لیکن جن لوگوں نے یسوع مسیح کے پیغام کو قبول کِیا، اُنہیں ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید ملی۔—۱۶. آجکل مُنادی کا کام کتنے وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے؟
۱۶ پہلی صدی میں یسوع مسیح نے جو مُنادی کا کام شروع کِیا تھا، وہ آجکل پوری دُنیا میں ہو رہا ہے۔ اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا تھا کہ ”تُم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ۔“ (متی ۲۸:۱۹) واقعی یسوع مسیح کے شاگردوں نے اِس حکم پر عمل کِیا اور آج ہم بھی کر رہے ہیں۔ ستر لاکھ سے زیادہ یہوواہ کے گواہ اِس وقت ۲۳۰ سے زیادہ ملکوں میں خدا کی بادشاہت کا اِعلان کرنے میں مگن ہیں۔ اور وہ لاکھوں لوگوں کو بائبل سے تعلیم دے رہے ہیں۔ مُنادی کا کام اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہم آخری زمانے میں رہ رہے ہیں۔
یہوواہ خدا کی یاددہانیوں پر بھروسا رکھیں
۱۷. پولسُ رسول اور پطرس رسول نے کونسی نصیحت کی؟
۱۷ پہلی صدی کے مسیحیوں کو جو یاددہانیاں کرائی گئیں، اُن پر دھیان دینے سے اُن کا ایمان مضبوط رہا۔ مثال کے طور پر جب پولسُ رسول روم میں قید تھے تو اُنہوں نے تیمُتھیُس کو نصیحت کی کہ ”جو صحیح باتیں تُو نے مجھ سے سنیں . . . اُن کا خاکہ یاد رکھ۔“ بےشک تیمُتھیُس کو اِس نصیحت سے بہت حوصلہافزائی ملی ہوگی۔ (۲-تیم ۱:۱۳) اِس کے علاوہ پطرس رسول نے مسیحیوں کو ’صبر اور پرہیزگاری‘ جیسی خوبیوں سے کام لینے کی نصیحت کی اور اُن سے کہا: ”مَیں تمہیں یہ باتیں یاد دِلانے کو ہمیشہ مستعد رہوں گا اگرچہ تُم اُن سے واقف اور اُس حق بات پر قائم ہو جو تمہیں حاصل ہے۔“—۲-پطر ۱:۵-۸، ۱۲۔
۱۸. کیا پہلی صدی کے مسیحی باربار کی یاددہانیوں سے تنگ آ گئے تھے؟
۱۸ پولسُ رسول اور پطرس رسول نے جو خط لکھے، اُن میں مسیحیوں کو وہی باتیں یاد دِلائی گئیں ”جو پاک نبیوں نے پیشتر“ کہی تھیں۔ (۲-پطر ۳:۲) کیا پہلی صدی کے مسیحی باربار کی یاددہانیوں سے تنگ آ گئے تھے؟ جینہیں۔ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ خدا اُن سے محبت کرتا ہے اِس لئے وہ اُنہیں یاددہانیاں کراتا ہے۔ اور اِن کی بدولت وہ ”خداوند اور مُنجی یسوؔع مسیح کے فضل اور عرفان میں بڑھتے“ رہیں گے۔—۲-پطر ۳:۱۸۔
۱۹، ۲۰. ہمیں یہوواہ خدا کی یاددہانیوں پر بھروسا کیوں کرنا چاہئے؟ اور اِس سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟
۱۹ آجکل ہم کن وجوہات کی بِنا پر خدا کی یاددہانیوں پر بھروسا کر سکتے ہیں؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہوواہ خدا کے کلام میں لکھی ہوئی ہر بات سچی ہے۔ (یشوع ۲۳:۱۴ کو پڑھیں۔) اِس کے علاوہ بائبل سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں نے خدا کی یاددہانیوں پر دھیان دیا، اُنہیں فائدہ ہوا اور جن لوگوں نے اِنہیں نظرانداز کِیا، اُنہیں نقصان اُٹھانا پڑا۔ (روم ۱۵:۴؛ ۱-کر ۱۰:۱۱) پاک کلام میں درج پیشگوئیاں بھی ایک لحاظ سے یاددہانیاں ہیں۔ جب ہم اِن پیشگوئیوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو خدا کی باتوں پر ہمارا بھروسا اَور مضبوط ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مطابق اِن ”آخری دنوں میں“ لاکھوں لوگ یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کے لئے آ رہے ہیں۔ (یسع ۲:۲، ۳) بائبل میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ دُنیا کے حالات دنبہدن بگڑتے جائیں گے اور آجکل واقعی ایسا ہو رہا ہے۔ اور یہ بات ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ ہمارے مُنادی کے کام کے سلسلے میں یسوع مسیح کی کہی ہوئی بات پوری ہو رہی ہے۔—متی ۲۴:۱۴۔
۲۰ پاک کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے خدا کی ہدایات پر بھروسا کِیا، اُنہیں ہمیشہ برکتیں ملیں۔ کیا ہم بھی خدا کی یاددہانیوں پر بھروسا کرتے ہیں اور اِن پر دھیان دیتے ہیں؟ اِس سلسلے میں روزلین کی اِس بات پر غور کریں: ”جیسے جیسے یہوواہ خدا پر میرا بھروسا بڑھتا گیا، مجھ پر یہ بات واضح ہوتی گئی کہ وہ میری رہنمائی کر رہا ہے اور مجھے سنبھال رہا ہے۔“ اگر ہم بھی یہوواہ خدا کی یاددہانیوں پر بھروسا کریں گے تو ہمیں بھی بہت فائدہ ہوگا۔