یہوواہ خدا کے غلام بنیں
”[تُم] خدا کے غلام ہو۔“ —روم ۶:۲۲۔
۱. (الف) بہت سے لوگ غلامی کو کیسا خیال کرتے ہیں؟ (ب) رومیوں ۶:۲۲ میں جن غلاموں کا ذکر کِیا گیا ہے، وہ کس جذبے سے خدمت کرتے ہیں؟
بہت سے لوگ غلامی کو ایک لعنت خیال کرتے ہیں۔ وہ غلاموں کو بہت ہی مظلوم اور مصیبتوں کا مارا ہوا سمجھتے ہیں۔ لیکن پاک کلام میں ایسے غلاموں کا ذکر کِیا گیا ہے جن کا مالک اُن سے بڑی محبت کرتا ہے اور وہ خوشی سے اپنے مالک کی خدمت کرتے ہیں۔ پولسُ رسول نے پہلی صدی کے مسیحیوں کو ”خدا کے غلام“ کہا جو خدا سے محبت کی بِنا پر اُس کی خدمت کر رہے تھے۔ (روم ۶:۲۲) ”خدا کے غلام“ بننے میں کیا کچھ شامل ہے؟ ہم شیطان اور اُس کی دُنیا کے غلام بننے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ غلاموں کے طور پر خدا کی خدمت کرنے سے کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں؟
’مَیں اپنے آقا سے محبت رکھتا ہوں‘
۲. (الف) ایک عبرانی غلام کس بِنا پر آزاد ہونے کا موقع ٹھکرا دیتا تھا؟ (ب) غلام کا کان کیوں چھیدا جاتا تھا؟
۲ موسیٰ کی شریعت میں دئے گئے ایک قانون سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کے غلام بننے میں کیا شامل ہے۔ قانون یہ تھا کہ ’عبرانی غلام کو چھ برس کی خدمت کے بعد ساتویں برس آزاد کر دیا جائے۔‘ (خر ۲۱:۲) لیکن اگر کوئی غلام اپنے مالک سے بہت پیار کرتا تھا اور اُسے چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا تھا تو شریعت میں یہ گنجائش تھی کہ وہ اپنے مالک کے پاس رہ سکتا ہے۔ اِس صورت میں مالک اُسے ’دروازے پر یا دروازے کی چوکھٹ پر لا‘ کر اُس کا کان چھیدتا تھا۔ (خر ۲۱:۵، ۶) غلام کا کان کیوں چھیدا جاتا تھا؟ جو عبرانی لفظ حکم ماننے کے معنی رکھتا ہے، وہ کسی کی بات سننے کا خیال بھی پیش کرتا ہے۔ لہٰذا کان چھیدنا اِس بات کا نشان تھا کہ غلام ہمیشہ اپنے مالک کی خدمت کرتا رہے گا۔ جب ہم خدا کے لئے اپنی زندگی وقف کرتے ہیں تو ہم بھی وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ہمیشہ اپنے خدا کی بات سنیں گے اور محبت کی بِنا پر اُس کی خدمت کرتے رہیں گے۔
۳. ہم سب نے اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لئے کیوں وقف کی ہے؟
۳ ہم نے بپتسمہ لینے سے پہلے ہی اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کرنے یعنی اُس کے غلام بننے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ہم نے ایسا اِس لئے کِیا تھا کیونکہ ہم خدا کا حکم ماننا چاہتے تھے اور اُس کی مرضی بجا لانا چاہتے تھے۔ کسی نے ہمیں یہ فیصلہ کرنے پر مجبور نہیں کِیا تھا۔ یہاں تک کہ یہوواہ کے گواہوں کے بچے اور نوجوان بھی اپنی مرضی سے خود ۱-یوح ۵:۳۔
کو وقف کرتے ہیں اور بپتسمہ لیتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کو خوش کرنے کے لئے ایسا نہیں کرتے۔ ہم سب نے اپنے آسمانی مالک یہوواہ سے محبت کی بِنا پر اپنی زندگی اُس کے نام کی ہے۔ یوحنا رسول نے لکھا: ”خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اُس کے حکموں پر عمل کریں۔“—گُناہ سے آزاد اور راستبازی کے غلام
۴. ”راستبازی کے غلام“ بننے کے لئے کیا کرنا ضروری ہے؟
۴ ہم خدا کے شکر گزار ہیں کہ اُس نے یسوع مسیح کی قربانی کی بدولت ہمیں اپنے غلام بننے کا اعزاز بخشا ہے۔ مسیح کی قربانی پر ایمان لانے سے ہم گُناہ کی غلامی سے آزاد ہو سکتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم گُناہ سے پاک تو نہیں ہیں پھر بھی ہمیں یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے غلام بننے کا موقع ملا ہے۔ پولسُ رسول نے اِس بات کو واضح کرتے ہوئے لکھا: ”تُم . . . اپنے آپ کو گُناہ کے اِعتبار سے مُردہ مگر خدا کے اِعتبار سے مسیح یسوؔع میں زندہ سمجھو۔“ (روم ۶:۱۱) اِس کے بعد اُنہوں نے مسیحیوں سے کہا: ”کیا تُم نہیں جانتے کہ جب تُم کسی کی خدمت کرنے کے لیے خود کو اُس کا غلام بن جانے دیتے ہو تو وہ تمہارا مالک بن جاتا ہے اور تُم اُس کی فرمانبرداری کرنے لگتے ہو۔ اِس لیے اگر گُناہ کی غلامی میں رہو گے تو اِس کا انجام موت ہے۔ اگر خدا کے فرمانبردار بن جاؤ گے تو اُس کا انجام راستبازی ہے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اگرچہ پہلے تُم گُناہ کے غلام تھے لیکن اب دل سے اُس تعلیم کے تابع ہو گئے ہو جو تمہارے سپرد کی گئی۔ تُم گُناہ کی غلامی سے آزادی پا کر راستبازی کی غلامی میں آ گئے۔“ (روم ۶:۱۶-۱۸، نیو اُردو بائبل ورشن) غور کریں کہ پولسُ رسول نے ’دل سے فرمانبرداری‘ کرنے پر زور دیا۔ دراصل خدا کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے سے ہم ”راستبازی کے غلام“ بن جاتے ہیں۔
۵. ہمارا ایک دُشمن کون ہے جس کے خلاف ہمیں لڑنا پڑتا ہے؟
۵ خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا وعدہ نبھانا اِتنا آسان نہیں ہے۔ اِس وعدے کو پورا کرنے کے لئے ہمیں دو دُشمنوں کے خلاف جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ پہلا دُشمن تو ہمارا اپنا عیبدار جسم ہے۔ اِس دُشمن سے تو پولسُ رسول کا بھی سامنا ہوا تھا۔ اُنہوں نے کہا: ”باطنی اِنسانیت کی رُو سے تو مَیں خدا کی شریعت کو بہت پسند کرتا ہوں۔ مگر مجھے اپنے اعضا میں ایک اَور طرح کی شریعت نظر آتی ہے جو میری عقل کی شریعت سے لڑ کر مجھے اُس گُناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی ہے جو میرے اعضا میں موجود ہے۔“ (روم ۷:۲۲، ۲۳) پولسُ رسول کی طرح ہمیں بھی اپنی ایسی خواہشوں اور خیالوں کو قابو میں رکھنے کی مسلسل کوشش کرنی چاہئے جو خدا کو پسند نہیں۔ پطرس رسول نے یہ نصیحت کی: ”اپنے آپ کو آزاد جانو مگر اِس آزادی کو بدی کا پردہ نہ بناؤ بلکہ اپنے آپ کو خدا کے بندے [یعنی غلام] جانو۔“—۱-پطر ۲:۱۶۔
۶، ۷. شیطان نے اِس دُنیا کو کیسے پُرکشش بنا دیا ہے؟
۶ ہمارا دوسرا دُشمن یہ دُنیا ہے جو شیطان کے قبضے میں ہے۔ شیطان ہم پر طرحطرح کے ہتھیاروں کے ساتھ وار کرتا ہے تاکہ ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے وفادار نہ رہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کی دُنیا کا حصہ بن جائیں اور یوں اُس کی غلامی میں آ جائیں۔ (افسیوں ۶:۱۱، ۱۲ کو پڑھیں۔) اپنے اِس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اُس نے اِس دُنیا کو اِتنا رنگین بنا دیا ہے کہ لوگ اِس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ یوحنا رسول نے مسیحیوں کو خبردار کِیا: ”جو کوئی دُنیا سے محبت رکھتا ہے اُس میں باپ کی محبت نہیں۔ کیونکہ جو کچھ دُنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دُنیا کی طرف سے ہے۔“—۱-یوح ۲:۱۵، ۱۶۔
۷ ساری دُنیا میں لوگ مالودولت حاصل کرنی کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ شیطان اِس سوچ کو فروغ دے رہا ہے کہ خوشی صرف پیسے سے ہی ملتی ہے۔ آجکل جگہجگہ سُپرسٹور ہیں جہاں لوگ اپنی خوشی کا سامان خرید سکتے ہیں۔ اِشتہاربازی کے ذریعے لوگوں کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ طرحطرح کی چیزیں خریدنا اور تفریح کرنا زندگی کو حسین بناتا ہے۔ مثال کے طور پر بعض کمپنیاں ہمیں خوبصورت مقامات کی سیر کرنے کی ترغیب دیتی ہیں حالانکہ اِس طرح کے اِنتظامات میں شامل ہونے سے اکثر ہمیں
اُن لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا پڑتا ہے جو خدا کے دوست نہیں۔ واقعی یہ دُنیا ہمیں یہ یقین دِلانے کی پوری کوشش کر رہی ہے کہ اگر ہم اِس کے طورطریقوں اور معیاروں کو اپنائیں گے تو ہماری زندگی بہتر ہوگی اور ہمیں خوشی ملے گی۔۸، ۹. ہم سب کس غلامی میں پڑ سکتے ہیں؟ اور یہ اِتنی خطرناک کیوں ہے؟
۸ پہلی صدی میں کچھ مسیحی دُنیا کے رنگ میں رنگ گئے تھے۔ ایسے مسیحیوں کے بارے میں پطرس رسول نے کہا: ”اِن کو دندہاڑے عیاشی کرنے میں مزا آتا ہے۔ یہ داغ اور عیب ہیں۔ جب تمہارے ساتھ کھاتے پیتے ہیں تو اپنی طرف سے محبت کی ضیافت کرکے عیشوعشرت کرتے ہیں۔ وہ گھمنڈ کی بےہودہ باتیں بکبک کر شہوتپرستی کے ذریعہ سے اُن لوگوں کو جسمانی خواہشوں میں پھنساتے ہیں جو گمراہوں میں سے نکل ہی رہے ہیں۔ وہ اُن سے تو آزادی کا وعدہ کرتے ہیں اور آپ خرابی کے غلام بنے ہوئے ہیں کیونکہ جو شخص جس سے مغلوب ہے وہ اُس کا غلام ہے۔“—۲-پطر ۲:۱۳، ۱۸، ۱۹۔
۹ ”آنکھوں کی خواہش“ کو پورا کرنے والے لوگ دراصل آزاد نہیں ہوتے۔ وہ اِس جہان کے خدا یعنی شیطان کے غلام ہوتے ہیں۔ (۱-یوح ۵:۱۹) مالودولت کے غلام بننے کا خطرہ اپنی جگہ موجود ہے۔ اور جو لوگ اِس غلامی میں آ جاتے ہیں، اُن کے لئے اِس سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
کُلوقتی خدمت خوشی اور اِطمینان کا باعث ہے
۱۰، ۱۱. (الف) آجکل شیطان خاص طور پر کن کو اپنا نشانہ بناتا ہے؟ (ب) اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کیا خطرہ موجود ہے؟
۱۰ شیطان نے باغِعدن میں حوا کو اپنا نشانہ بنایا کیونکہ وہ آدم جتنی تجربہکار نہیں تھیں۔ اِسی طرح شیطان آجکل نوجوانوں کو اپنا نشانہ بناتا ہے۔ جب بھی کوئی نوجوان یا کوئی بھی شخص خدا کی خدمت کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو شیطان جلبھن جاتا ہے۔ شیطان ہمارے خدا کا دُشمن ہے۔ اِس لئے وہ چاہتا ہے کہ خدا کی خدمت اِختیار کرنے والے لوگ اُس کے وفادار نہ رہیں۔
۱۱ ذرا اُس غلام کی مثال پر دوبارہ غور کریں جو اپنے مالک کے ساتھ رہنے کے لئے اپنا کان چھیدوا لیتا تھا۔ اِس غلام کو درد اور تکلیف تو ضرور ہوتی تھی مگر یہ جلد ہی ختم ہو جاتی تھی۔ لیکن اُس کی غلامی کا نشان ہمیشہ کے لئے رہ جاتا تھا۔ اِسی طرح ایک نوجوان مسیحی کے لئے اپنے دوستوں سے بالکل الگ راہ اِختیار کرنا مشکل یہاں تک کہ تکلیفدہ ہو سکتا ہے۔ شیطان اِس سوچ کو فروغ دے رہا ہے کہ اِس دُنیا میں قدم جمانے سے خوشی اور اِطمینان ملتا ہے۔ لیکن مسیحی مانتے ہیں کہ سچی خوشی اور اِطمینان یہوواہ خدا کی قربت میں رہنے سے ملتا ہے۔ یسوع مسیح نے کہا تھا: ”اُن لوگوں کو خوشی حاصل ہے جن کو احساس ہے کہ اُنہیں خدا کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔“ (متی ۵:۳، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن) یہوواہ خدا کے بندوں کی زندگی کا مقصد اُس کی مرضی پر چلنا ہے نہ کہ شیطان کی۔ اُن کی ’خوشنودی خدا کی شریعت میں ہے اور دنرات اُن کا دھیان اِسی پر رہتا ہے۔‘ (زبور ۱:۱-۳ کو پڑھیں۔) لیکن آجکل ایسی بہت سی ڈگریاں ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لئے طالبِعلموں کو ہر روز پڑھائی میں بہت زیادہ وقت لگانا پڑتا ہے۔ اگر خدا کا کوئی بندہ اِنہیں حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو شاید اُس کے پاس بائبل کو پڑھنے اور اِس پر سوچبچار کرنے کے لئے وقت نہ بچے۔
۱۲. آجکل بہت سے مسیحی نوجوانوں کے سامنے کونسا اِنتخاب ہے؟
۱۲ پولسُ رسول کے زمانے میں بعض مسیحی ایسے لوگوں کے غلام تھے جو اُنہیں یہوواہ خدا کی عبادت نہیں کرنے دیتے تھے۔ پولسُ رسول نے مسیحیوں کو لکھا: ”اگر تُو غلامی کی حالت میں بلایا گیا تو فکر نہ کر لیکن اگر تُو آزاد ہو سکے تو اِسی کو اِختیار کر۔“ (۱-کر ۷:۲۱) لہٰذا اگر کسی مسیحی کا مالک یہوواہ خدا کی خدمت کرنے میں رُکاوٹ بنتا تھا تو اُس سے آزاد ہونا ہی بہتر تھا۔ آجکل بہت سے ملکوں میں بچوں کو ایک خاص عمر تک تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے۔ اِس کے بعد اُن کی اپنی مرضی ہوتی ہے کہ وہ آگے پڑھیں گے یا نہیں۔ اگر وہ دولت کمانے کی غرض سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا اِنتخاب کرتے ہیں تو یہ کُلوقتی خدمت کرنے میں رُکاوٹ بن سکتا ہے۔—۱-کرنتھیوں ۷:۲۳ کو پڑھیں۔
خدا کی خدمت کرنا اعلیٰ تعلیم پانے سے افضل ہے
۱۳. یہوواہ خدا کے بندوں کے لئے کس قسم کی تعلیم حاصل کرنا سب سے زیادہ فائدہمند ہوگا؟
۱۳ پولسُ رسول نے کُلسّے میں رہنے والے مسیحیوں کو لکھا: ”خبردار کوئی شخص تُم کو اُس فیلسوفی اور لاحاصل فریب سے شکار نہ کر لے جو اِنسانوں کی روایت اور دُنیوی اِبتدائی باتوں کے موافق ہیں نہ کہ مسیح کے موافق۔“ (کل ۲:۸) اکثر یونیورسٹیوں میں جو تعلیم دی جاتی ہے، وہ ’فیلسوفی اور اِنسانوں کی لاحاصل روایتوں‘ پر مبنی ہوتی ہے۔ اِس لئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں میں ایسے ہنر بہت ہی کم ہوتے ہیں جو روزمرہ زندگی میں کام آتے ہیں۔ اِس کے برعکس خدا کے بندے ایسے کورس کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں جن کی بِنا پر اُنہیں ایسی نوکری مل جائے جس سے وہ اپنا گزارہ بھی کر سکیں اور خدا کی خدمت بھی کر سکیں۔ وہ پولسُ رسول کی اِس نصیحت پر عمل کرتے ہیں: ”دینداری قناعت کے ساتھ بڑے نفع کا ذریعہ ہے۔ پس اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اُسی پر قناعت کریں۔“ (۱-تیم ۶:۶، ۸) لہٰذا سچے مسیحی بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرنے کی بجائے دوسرے لوگوں کو پاک کلام سے تعلیم دینے پر دھیان دیتے ہیں۔ جب لوگ مسیح کے شاگرد بن جاتے ہیں تو وہ مسیحیوں کے لئے ”نیکنامی کے خط“ ثابت ہوتے ہیں۔—۲-کرنتھیوں ۳:۱-۳ کو پڑھیں۔
۱۴. یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی خدمت کرنے کے بارے میں پولسُ رسول کیسا محسوس کرتے تھے؟
فل ۳:۸) پولسُ رسول کی مثال پر غور کرنے سے مسیحی نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں ایک اچھا فیصلہ کر پائیں گے اور اُن کے والدین اِس میں اُن کی رہنمائی کر سکیں گے۔ (تصویروں کو دیکھیں۔)
۱۴ ذرا پولسُ رسول کی مثال پر غور کریں۔ اُنہوں نے شریعت کے جانے مانے اُستاد گملیایل سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اُنہوں نے اپنے زمانے کی اعلیٰ تعلیم پائی تھی۔ لیکن یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی خدمت کرنے کے اعزاز کے مقابلے میں اُنہیں اپنی تعلیم کیسی لگی؟ اُنہوں نے لکھا: ”مَیں اپنے خداوند مسیح یسوؔع کی پہچان کی بڑی خوبی کے سبب سے سب چیزوں کو نقصان سمجھتا ہوں۔ جس کی خاطر مَیں نے سب چیزوں کا نقصان اُٹھایا اور اُن کو کوڑا سمجھتا ہوں تاکہ مسیح کو حاصل کروں۔“ (خدا کے تعلیمی پروگرام سے فائدہ حاصل کریں
۱۵، ۱۶. یہوواہ خدا اپنی تنظیم کے ذریعے کونسا تعلیمی پروگرام چلا رہا ہے؟ اور اِس کا مقصد کیا ہے؟
۱۵ آجکل کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ماحول کیسا ہے؟ کیا وہ سیاسی سرگرمیوں کے گڑھ نہیں ہیں؟ (افس ۲:۲) اِس کے برعکس یہوواہ خدا اپنے بندوں کو کلیسیا کے اندر پُرامن ماحول میں بہترین تعلیم دے رہا ہے۔ ہم سب ہر ہفتے مسیحی خدمتی سکول میں تعلیم پاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ غیرشادیشُدہ بھائیوں کے لئے اور شادیشُدہ جوڑوں کے لئے بھی سکول منعقد ہوتے ہیں۔ اِن سکولوں سے حاصل ہونے والی تعلیم سے ہم اپنے آسمانی مالک یہوواہ خدا کی مرضی بجا لانے کے قابل ہوتے ہیں۔
۱۶ ہماری تنظیم بہت سی کتابیں اور رسالے بھی شائع کرتی ہے۔ اِن کے ذریعے ہم پاک کلام کی سچائیوں کے بارے میں تحقیق کر سکتے ہیں۔ اِس سارے تعلیمی پروگرام کا مقصد یہوواہ خدا کی عبادت کو فروغ دینا ہے۔ اِس پروگرام کی بدولت ہم ”خدا سے میل ملاپ“ یعنی صلح کرنے میں دوسرے لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ (۲-کر ۵:۲۰) اِس کے نتیجے میں وہ لوگ ”اَوروں کو بھی سکھانے کے قابل“ ہو جاتے ہیں۔—۲-تیم ۲:۲۔
خدا کی غلامی کرنے کا اِنعام
۱۷. خدا کی تنظیم سے تعلیم پانے کے کیا فائدے ہیں؟
۱۷ یسوع مسیح کی توڑوں والی تمثیل میں بتایا گیا ہے کہ دو وفادار نوکروں کو اپنے مالک سے شاباش ملتی ہے اور اُنہیں مزید ذمےداریاں سونپی جاتی ہیں۔ یوں وہ اپنے مالک کی خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ (متی ۲۵:۲۱، ۲۳ کو پڑھیں۔) خدا کی تنظیم سے تعلیم پانے کا فیصلہ کرنے والوں کو خوشیاں اور برکتیں ملتی ہیں۔ اِس سلسلے میں ایک بھائی کی مثال پر غور کریں جن کا نام مائیکل ہے۔ اُنہوں نے سکول کے اِمتحان کو بڑے اچھے نمبروں سے پاس کِیا۔ اِس لئے اُن کے ٹیچر اُن سے ملے اور کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مائیکل اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ لیکن وہ یہ جان کر بہت حیران ہوئے کہ مائیکل کوئی چھوٹا سا کورس کرنا چاہتے ہیں جس کی بِنا پر اُنہیں نوکری مل جائے اور وہ پہلکار کے طور پر خدمت کر سکیں۔ کیا مائیکل کو اپنے اِس فیصلے پر کوئی پچھتاوا ہے؟ اُنہوں نے کہا: ”مَیں نے یہوواہ خدا کی تنظیم میں ایک پہلکار اور بزرگ کے طور پر جو تعلیم حاصل کی ہے، وہ میرے لئے نہایت فائدہمند ثابت ہوئی ہے۔ جتنی خوشیاں اور اعزاز مجھے اب ملے ہیں، وہ مَیں دُنیا جہاں کی دولت کمانے سے بھی حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ مَیں خوش ہوں کہ مَیں نے اعلیٰ تعلیم کی جستجو نہیں کی۔“
۱۸. آپ نے خدا کی تنظیم سے تعلیم پانے کا فیصلہ کیوں کِیا ہے؟
۱۸ خدا کی تنظیم سے ملنے والی تعلیم کی بدولت ہم اپنے آسمانی آقا یہوواہ خدا کی مرضی کو جاننے اور اِسے بجا لانے کے قابل ہوتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہمیں ”فنا کے قبضہ سے چُھوٹ“ جانے اور آخرکار ”خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں داخل“ ہونے کی اُمید حاصل ہوتی ہے۔ (روم ۸:۲۱) سب سے بڑھ کر ہم یہ سیکھتے ہیں کہ ہم اپنے عظیم مالک یہوواہ خدا سے گہری محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں۔—خر ۲۱:۵۔