پہاڑوں کے سائے میں ایک خطرناک کام
ایک عورت صبح سویرے اپنے گھر سے نکلتی ہے اور دیکھتی ہے کہ ایک پارسل اُس کی دہلیز پر رکھا ہے۔ وہ اُسے اُٹھاتی ہے اور اِدھراُدھر دیکھتی ہے کہ اِسے کون رکھ گیا ہے لیکن اُسے گلی میں کوئی نظر نہیں آتا۔ شاید کسی نے اِسے رات کو اُس کے دروازے کے باہر رکھ دیا ہوگا۔ وہ پارسل کو کھولنا شروع کرتی ہے اور چونک اُٹھتی ہے۔ وہ فوراً اندر آ کر جھٹ سے دروازہ بند کر دیتی ہے۔ اُس پارسل میں ایسا کیا تھا جس نے اُسے چونکا دیا؟ اِس میں یہوواہ کے گواہوں کی کتابیں اور رسالے تھے جن پر اُس وقت پابندی لگی ہوئی تھی۔ عورت اِس پارسل کو سینے سے لگا کر یہوواہ خدا کا شکر ادا کرتی ہے کہ اُس نے یہ بیشقیمت روحانی خوراک فراہم کی ہے۔
ایک زمانے میں جرمنی میں ایسے واقعات اکثر ہوتے تھے۔ جب ۱۹۳۳ء میں نازیوں کی حکومت آئی تو جرمنی کی زیادہتر ریاستوں میں یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی لگا دی گئی۔ بھائی رِخارڈ رُوڈولف * جن کی عمر اب ۱۰۰ سال سے زیادہ ہے، اُنہوں نے بتایا: ”ہمیں یقین تھا کہ کوئی اِنسانی قانون یہوواہ خدا اور اُس کے نام کی مُنادی کو روک نہیں سکتا۔ ہمیں مطالعہ کرنے اور مُنادی کرنے کے لئے اپنی تنظیم کی کتابوں اور رسالوں کی ضرورت تھی۔ لیکن پابندی کی وجہ سے اب اِنہیں حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ اب مُنادی کا کام آگے کیسے چلے گا۔“ لیکن کچھ ہی دیر بعد بھائی رِخارڈ کو ایک ایسے کام میں حصہ لینے کا اعزاز ملا جس کے ذریعے بہنبھائیوں کو روحانی خوراک ملتی رہی۔ یہ کام ’پہاڑوں کے سائے‘ میں انجام پایا۔—قضا ۹:۳۶۔
سمگلروں کے راستوں کا نیا اِستعمال
دریائےاِلبے یورپ کا ایک بڑا دریا ہے۔ اِس کا سرچشمہ ایک پہاڑی سلسلے میں ہے جو دیوقامت پہاڑ کہلاتا ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ چیک ریپبلک اور پولینڈ کی سرحد پر ہے۔ حالانکہ اِس پہاڑی سلسلے کی اُونچائی صرف ۱۶۰۰ میٹر (۵۲۵۰ فٹ) ہے پھر بھی وہاں کا موسم اِنتہائی سرد ہے۔ سال میں پانچ یا چھ مہینے تک وہاں برف رہتی ہے اور اِس کی گہرائی ۳ میٹر (۱۰ فٹ) تک ہوتی ہے۔ وہاں کا موسم اچانک بدل جاتا ہے اور پہاڑوں کی چوٹیاں اکثر دُھند سے ڈھکی رہتی ہیں۔
دیوقامت پہاڑ کئی صدیوں سے مختلف صوبوں، ملکوں اور ریاستوں کی قدرتی
سرحد رہے ہیں۔ اِن پہاڑوں کے دشوار راستوں پر ہر وقت گشت لگانا مشکل تھا۔ اِس لئے ماضی میں یہ راستے سمگلنگ کے لئے اِستعمال ہوتے تھے۔ سن ۱۹۳۳ء میں دیوقامت پہاڑ چیکوسلواکیہ اور جرمنی کی سرحد بنے۔ اُس وقت کچھ یہوواہ کے گواہوں نے سمگلنگ کے اِن پُرانے راستوں کو اِستعمال کرنا شروع کر دیا۔ مگر کس لئے؟ وہ اِن راستوں سے اپنی تنظیم کی کتابیں اور رسالے لاتے لے جاتے تھے۔ اُن دلیر گواہوں میں بھائی رِخارڈ بھی شامل تھے۔ایک خطرناک کام
بھائی رِخارڈ نے بتایا: ”ہفتے اور اِتوار کو ہم میں سے سات آٹھ بھائی پیدل پہاڑوں کو پار کرتے تھے۔ ہم ایسے کپڑے پہنتے تھے جن سے یہ لگے کہ ہم صرف سیر کے لئے نکلے ہیں۔ جرمنی سے سرحد پار ایک گاؤں تک پہنچنے میں ہمیں تقریباً تین گھنٹے لگتے تھے۔“ یہ کوئی ساڑھے ۱۶ کلومیٹر (۱۰ میل) کا راستہ تھا۔ اُس زمانے میں چیکوسلواکیہ کے اِس علاقے میں بہت سے جرمن لوگ رہتے تھے۔ اِن میں ایک ایسا کسان تھا جو بھائیوں کی مدد کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ وہ اپنی گھوڑاگاڑی میں ریلوے سٹیشن سے کتابوں اور رسالوں کے ایسے ڈبے لاد کر لاتا تھا جو شہر پراگ سے ریل کے ذریعے آتے تھے۔ وہ اِن ڈبوں کو اپنے گھر لے آتا تھا اور اُنہیں جانوروں کے چارے میں چھپا دیتا تھا۔ پھر جرمنی سے آنے والے بھائی اِن کتابوں اور رسالوں کو لے جاتے تھے۔
بھائی رِخارڈ نے آگے بتایا: ”اُس کسان کے گھر پہنچ کر ہم کتابوں اور رسالوں کو اپنے اپنے بیگ میں ڈال لیتے تھے۔ یہ بیگ خاص طور پر بھاری بوجھ اُٹھانے کے لئے بنائے گئے تھے۔ ہم میں سے ہر ایک تقریباً ۵۰ کلوگرام (۱۰۰ پونڈ) وزن اُٹھاتا تھا۔“ وہ رات کے اندھیرے میں سفر کرتے تھے تاکہ پکڑے نہ جائیں اور سورج نکلنے سے پہلے واپس پہنچتے تھے۔ بھائی ارنسٹ ویزنر جو اُس وقت جرمنی میں حلقے کے نگہبان تھے، اُنہوں نے بتایا کہ پہاڑوں کے پار جانے والے بھائی خاص حفاظتی تدابیر پر عمل کرتے تھے۔ اُنہوں نے کہا: ”دو بھائی آگے آگے چلتے تھے اور باقی اُن سے کوئی ۱۰۰ میٹر [۳۲۸ فٹ] پیچھے چلتے تھے۔ جب آگے چلنے والے بھائی کسی سے ملتے تو وہ اپنی ٹارچ جلا کر پیچھے آنے والے بھائیوں کو چھپنے کا اِشارہ دیتے تھے۔ اِشارہ پاتے ہی بھائی اپنا اپنا بیگ لے کر جھاڑیوں کے پیچھے چھپ جاتے تھے۔ وہ اُس وقت تک چھپے رہتے تھے جب تک آگے چلنے والے دو بھائی واپس آ کر اُنہیں کوئی خفیہ کوڈ نہیں بتاتے تھے۔ یہ کوڈ ہر ہفتے بدلتا تھا۔“ بہرحال اِن بھائیوں کو صرف جرمن پولیس سے ہی خطرہ نہیں تھا۔
بھائی رِخارڈ نے بتایا کہ ”ایک دن مجھے اپنے کام پر دیر ہو گئی۔ اِس لئے مَیں اکیلا اُن بھائیوں کے پیچھے نکل پڑا جو چیکوسلواکیہ کی طرف روانہ ہو چکے تھے۔ اندھیرا اور دُھند بےتحاشا تھے۔ مَیں بارش میں بھیگتا اور سردی سے کانپتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ صنوبر کے درختوں کے بیچ چلتے چلتے مَیں راستہ بھول گیا اور کئی گھنٹے بھٹکتا رہا۔ اِس طرح کے حالات میں اکثر جان گنوانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اپنے بھائیوں سے میری ملاقات تب ہوئی جب وہ واپس آ رہے تھے۔“
تقریباً تین سال تک یہ بھائی ہر ہفتے پہاڑوں کے پار جاتے رہے۔ سردی کے موسم میں وہ کبھیکبھار اپنے بیگ برفگاڑی پر لاد کر لاتے تھے۔ کچھ موقعوں پر تقریباً ۲۰ بھائی دن کے وقت بھی سرحد کے پار جاتے تھے۔ اُن کے ساتھ کچھ بہنیں بھی جاتی تھیں تاکہ ایسا لگے کہ وہ صرف سیر کرنے نکلے ہیں۔ کچھ بہنیں آگے آگے چلتی تھیں اور جب اُنہیں کوئی خطرہ محسوس ہوتا تو وہ اپنی ٹوپیاں ہوا میں اُچھالتی تھیں۔
جب بھائی صبح کے وقت واپس پہنچتے تھے تو کتابوں اور رسالوں کے ساتھ کیا کِیا جاتا تھا؟ اُنہیں فوراً آگے بھیج دیا جاتا تھا۔ کیسے؟ اِنہیں اِس طرح پیک کِیا جاتا تھا کہ یہ دِکھنے میں بالکل صابن کے پارسل لگتے تھے۔ پھر اِنہیں ہِرشبرگ کے ریلوے سٹیشن لے جایا جاتا تھا جہاں سے اِنہیں جرمنی کے مختلف علاقوں میں بھیج دیا جاتا تھا۔ اِس کے بعد بہنبھائی اِنہیں چوریچھپے دوسرے گواہوں تک پہنچا دیتے تھے جیسے کہ اِس مضمون کے شروع میں بتایا گیا ہے۔ کتابیں اور رسالے بانٹنے کے کام میں اِتنے سارے لوگ شامل تھے کہ اگر اِن میں سے ایک بھی پکڑا جاتا تو سب کو خطرہ ہوتا۔ اور ایک دن ایسا ہی ہوا۔
سن ۱۹۳۶ء میں پولیس نے شہر برلن کے قریب ایک ایسی جگہ پر چھاپا مارا جہاں بھائی کتابیں وغیرہ چھپاتے تھے۔ برآمد ہونے والی چیزوں میں تین پارسل تھے جو کسی نامعلوم شخص نے ہِرشبرگ سے بھیجے تھے۔ پولیس نے پارسلوں پر پائی جانے والی لکھائی کی گہری جانچ کی اور یوں اُنہیں ایک ایسے بھائی کا سُراغ مل گیا جو کتابیں اور رسالے سمگل کرتا تھا۔ جلد ہی دو اَور لوگ گِرفتار ہو گئے جن میں بھائی رِخارڈ بھی شامل تھے۔ چونکہ اِن بھائیوں نے ساری ذمےداری اپنے سر لے لی اِس لئے دوسرے بھائی کچھ وقت تک کتابوں اور رسالوں کو لانے لے جانے کا کام کرتے رہے حالانکہ خطرہ پہلے سے زیادہ بڑھ گیا تھا۔
ہمارے لئے سبق
ہماری کتابیں وغیرہ دیوقامت پہاڑ کے راستے سے جرمنی کے بہنبھائیوں تک پہنچتی رہیں۔ لیکن ہماری کتابیں اور رسالے دوسرے راستوں سے بھی جرمنی آتے تھے۔ سن ۱۹۳۹ء تک (جب جرمن فوج نے چیکوسلواکیہ پر قبضہ کر لیا) جرمنی اور چیکوسلواکیہ کی سرحد پر دوسری جگہوں پر بھی ایسے ہی راستوں کو اِستعمال کِیا جاتا تھا۔ جرمنی کے بہنبھائیوں تک روحانی خوراک پہنچانے کے کام میں اُس کے پڑوسی ملکوں یعنی فرانس، نیدرلینڈ اور سوئٹزرلینڈ کے گواہوں نے بھی حصہ لیا۔ اِس مہم میں شامل سب گواہوں نے بڑا خطرہ مول لیا۔
آجکل ہم میں سے زیادہتر بہنبھائی جتنی چاہیں اور جیسی بھی شکل میں چاہیں، کتابیں اور رسالے وغیرہ حاصل کر سکتے ہیں۔ جب آپ کو اپنے کنگڈمہال میں کوئی نئی کتاب یا رسالہ ملتا ہے یا پھر آپ ہماری ویبسائٹ jw.org سے کچھ ڈاؤنلوڈ کرتے ہیں تو ذرا سوچیں کہ اِس کتاب یا رسالے کو آپ تک پہنچانے کے لئے کتنی محنت کی گئی ہے۔ شاید ایسا کرنے کے لئے کسی کو رات کے اندھیرے میں برفپوش پہاڑوں کو تو پار نہیں کرنا پڑا۔ پھر بھی بہت سے بہنبھائیوں نے آپ تک روحانی خوراک پہنچانے میں اَنتھک محنت کی ہے۔
^ پیراگراف 3 بھائی رِخارڈ رُوڈولف شہر ہِرشبرگ کی کلیسیا میں خدمت کرتے تھے۔ یہ شہر اُس وقت جرمنی میں شامل تھا لیکن آجکل یہ جنوبمغربی پولینڈ کا حصہ ہے۔