مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

برّے کی شادی کی خوشیاں منائیں

برّے کی شادی کی خوشیاں منائیں

‏”‏آؤ ہم خوشی کریں اور نہایت شادمان ہوں .‏ .‏ .‏ اِس لئے کہ برّہ کی شادی آ پہنچی۔‏“‏—‏مکا ۱۹:‏۷‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ‏(‏الف)‏ آسمان پر کس کی شادی کی خوشیاں منائی جائیں گی؟‏ (‏ب)‏ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

شادی کی تیاری میں ہمیشہ بہت وقت لگتا ہے۔‏ اِس مضمون میں ہم ایک ایسی شادی پر غور کریں گے جس کی تیاریاں ۲۰۰۰ سال سے چل رہی ہیں۔‏ یہ ایک بہت ہی خاص بلکہ شاہی شادی ہے۔‏ اب اِس شان‌دار تقریب کا وقت قریب آ رہا ہے۔‏ جلد ہی بادشاہ کا محل شہنائیوں کی آواز سے گونجنے لگے گا اور فرشتے یہ نغمہ گائیں گے:‏ ”‏ہللویاہ!‏ اِس لئے کہ [‏یہوواہ]‏ ہمارا خدا قادرِمطلق بادشاہی کرتا ہے۔‏ آؤ ہم خوشی کریں اور نہایت شادمان ہوں اور اُس کی تمجید کریں۔‏ اِس لئے کہ برّہ کی شادی آ پہنچی اور اُس کی بیوی نے اپنے آپ کو تیار کر لیا۔‏“‏—‏مکا ۱۹:‏۶،‏ ۷‏۔‏

۲ جس ’‏برّے‘‏ کی شادی کی وجہ سے آسمان پر خوشیاں منائی جائیں گی،‏ وہ یسوع مسیح ہیں۔‏ (‏یوح ۱:‏۲۹‏)‏ وہ شادی کے موقعے پر کون‌سا لباس پہنیں گے؟‏ دُلہن کون ہے؟‏ اِسے شادی کے لیے کیسے تیار کِیا جا رہا ہے؟‏ شادی کب ہوگی؟‏ کیا آسمان کے علاوہ زمین پر بھی خوشیاں منائی جائیں گی؟‏ بےشک ہم اِن سوالوں کے جواب جاننے کے مشتاق ہیں۔‏ اِس لیے آئیں،‏ زبور ۴۵ کی باقی آیتوں کا جائزہ لیں۔‏

 دُلہے کے ”‏لباس سے .‏ .‏ .‏ خوشبو آتی ہے“‏

۳،‏ ۴.‏ ‏(‏الف)‏ دُلہے کے لباس کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟‏ اور اُس کی خوشی کیوں دوبالا ہوتی ہے؟‏ (‏ب)‏”‏شاہزادیاں“‏ اور ”‏ملکہ“‏ کون ہیں؟‏

۳ زبور ۴۵:‏۸،‏ ۹ کو پڑھیں۔‏ دُلہا یسوع مسیح شادی کا شان‌دار لباس پہنتے ہیں۔‏ اُن کے لباس سے ’‏خاص خاص خوشبودار مصالحوں‘‏ یعنی مُر اور تج کی خوشبو آ رہی ہے۔‏ یہ دونوں مصالحے اُس پاک تیل میں شامل تھے جسے اِسرائیل میں مسح کرنے کے لیے اِستعمال کِیا جاتا تھا۔‏—‏خر ۳۰:‏۲۳-‏۲۵‏۔‏

۴ جیسے جیسے شادی کا وقت قریب آ رہا ہے،‏ آسمانی  محل میں موسیقی گونج رہی ہے جس سے دُلہے کی خوشی دوبالا ہو رہی ہے۔‏ اُس کی خوشی میں ”‏ملکہ“‏ یعنی خدا کی تنظیم کا آسمانی حصہ بھی شریک ہے۔‏ اِس میں ”‏شاہزادیاں“‏ یعنی فرشتے شامل ہیں۔‏ اِن فرشتوں کے مُنہ سے یہ خوب‌صورت گیت نکلتا ہے:‏ ”‏آؤ ہم خوشی کریں اور نہایت شادمان ہوں .‏ .‏ .‏ اِس لئے کہ برّہ کی شادی آ پہنچی۔‏“‏

دُلہن کو شادی کے لیے تیار کِیا جاتا ہے

۵.‏ ‏”‏برّہ کی بیوی“‏ کون ہے؟‏

۵ زبور ۴۵:‏۱۰،‏ ۱۱ کو پڑھیں۔‏ ہم نے دیکھا ہے کہ دُلہا یسوع مسیح ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اُن کی دُلہن کون ہے؟‏ یہ کوئی حقیقی عورت نہیں بلکہ ایک لاکھ ۴۴ ہزار ممسوح مسیحیوں کی کلیسیا ہے جس کے سربراہ یسوع مسیح ہیں۔‏ ‏(‏افسیوں ۵:‏۲۳،‏ ۲۴ کو پڑھیں۔‏)‏ یہ ممسوح مسیحی بادشاہ یسوع مسیح کے ساتھ حکمرانی کریں گے۔‏ (‏لو ۱۲:‏۳۲‏)‏ وہ ”‏برّہ کے پیچھےپیچھے چلتے ہیں۔‏ جہاں کہیں وہ جاتا ہے۔‏“‏ (‏مکا ۱۴:‏۱-‏۴‏)‏ جب وہ ”‏برّہ کی بیوی“‏ بن جائیں گے تو وہ اُس کے آسمانی ”‏مکان“‏ میں رہیں گے۔‏—‏مکا ۲۱:‏۹؛‏ یوح ۱۴:‏۲،‏ ۳‏۔‏

۶.‏ ‏(‏الف)‏ ممسوح مسیحیوں کو ”‏بادشاہ کی بیٹی“‏ کیوں کہا گیا ہے؟‏ (‏ب)‏اُنہیں ’‏اپنی قوم کو بھول جانے‘‏ کی نصیحت کیوں کی گئی ہے؟‏

۶ دُلہن کو نہ صرف ”‏اَے بیٹی!‏“‏ کہا گیا ہے بلکہ ”‏بادشاہ کی بیٹی“‏ بھی کہا گیا ہے۔‏ (‏زبور ۴۵:‏۱۳‏)‏ یہ ”‏بادشاہ“‏ کون ہے؟‏ ممسوح مسیحی یہوواہ خدا کے ’‏لےپالک فرزند‘‏ ہیں۔‏ (‏روم ۸:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ لہٰذا یہ بادشاہ یہوواہ خدا ہے۔‏ چونکہ ممسوح مسیحی آسمان پر دُلہن بنیں گے اِس لیے اُنہیں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ”‏اپنی قوم اور اپنے باپ کے گھر کو بھول“‏ جائیں جو زمین پر ہیں۔‏ اُنہیں ”‏عالمِ‌بالا کی چیزوں کے خیال میں“‏ رہنا چاہیے،‏ ”‏نہ کہ زمین پر کی چیزوں کے۔‏“‏—‏کل ۳:‏۱-‏۴‏۔‏

۷.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح اپنی دُلہن کو آسمانی شادی کے لیے کیسے تیار کر رہے ہیں؟‏ (‏ب)‏دُلہن کس حد تک دُلہے کا احترام کرتی ہے؟‏

۷ یسوع مسیح پہلی صدی سے لے کر آج تک اپنی دُلہن کو آسمانی شادی کے لیے تیار کر رہے ہیں۔‏ پولُس رسول نے کہا کہ ”‏مسیح نے .‏ .‏ .‏ کلیسیا سے محبت کرکے اپنے آپ کو اُس کے واسطے موت کے حوالہ کر دیا تاکہ اُس کو کلام کے ساتھ پانی سے غسل دے کر اور صاف کرکے مُقدس بنائے اور ایک ایسی جلال والی کلیسیا بنا کر اپنے پاس حاضر کرے جس کے بدن میں داغ یا جھری یا کوئی اَور ایسی چیز نہ ہو بلکہ پاک اور بےعیب ہو۔‏“‏ (‏افس ۵:‏۲۵-‏۲۷‏)‏ پولُس رسول نے شہر کُرنتھس کے مسیحیوں سے کہا:‏ ”‏مجھے تمہاری بابت خدا کی سی غیرت ہے کیونکہ مَیں نے ایک ہی شوہر کے ساتھ تمہاری نسبت کی ہے تاکہ تُم کو پاک‌دامن کنواری کی مانند مسیح کے پاس حاضر کروں۔‏“‏ (‏۲-‏کر ۱۱:‏۲‏)‏ دُلہن اِس لیے دُلہے کی نظر میں حسین ہے کیونکہ دُلہن پاک اور بےعیب طریقے سے خدا کی عبادت کرتی ہے۔‏ وہ دُلہے کو اپنا ”‏خداوند“‏ مانتی ہے اور اُسے ”‏سجدہ“‏ بھی کرتی ہے۔‏

دُلہن ”‏بادشاہ کے حضور پہنچائی“‏ جاتی ہے

۸.‏ دُلہن کو ”‏سرتاپا حسن‌افروز“‏ کیوں کہا گیا ہے؟‏

۸ زبور ۴۵:‏۱۳ آیت کو اور ۱۴ آیت کے پہلے حصے کو پڑھیں۔‏ شادی پر جاتے وقت دُلہن ”‏سرتاپا حسن‌افروز ہے“‏ یعنی بےاِنتہا خوب‌صورت نظر آتی ہے۔‏ مکاشفہ ۲۱:‏۲ میں  بتایا گیا ہے کہ اِس دُلہن نے ”‏اپنے شوہر کے لئے سنگار کِیا“‏ ہوا ہے۔‏ اِس آیت میں اِسے ”‏نئے یرؔوشلیم“‏ سے تشبیہ دی گئی ہے۔‏ اِس آسمانی شہر میں ”‏خدا کا جلال“‏ ہے اور اِس کی ”‏چمک نہایت قیمتی پتھر یعنی اُس یشب کی سی تھی جو بلور کی طرح شفاف“‏ ہے۔‏ (‏مکا ۲۱:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ نئے یروشلیم کی شان کے بارے میں مکاشفہ کی کتاب میں اَور بھی بہت کچھ بتایا گیا ہے۔‏ (‏مکا ۲۱:‏۱۸-‏۲۱‏)‏ یہ حیرانی کی بات نہیں کہ زبور نویس نے دُلہن کے بارے میں کہا کہ وہ ”‏سرتاپا حسن‌افروز“‏ ہے۔‏ اور ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ آخر یہ آسمانی شادی ہے۔‏

۹.‏ دُلہن کس ”‏بادشاہ کے حضور“‏ لائی جاتی ہے؟‏ اور اُس نے کیسا لباس پہن رکھا ہے؟‏

۹ دُلہن کو جس ’‏بادشاہ کے حضور پہنچایا‘‏ جاتا ہے،‏ وہ یسوع مسیح ہیں۔‏ وہ اپنی دُلہن کو ”‏کلام کے ساتھ پانی سے غسل دے کر اور صاف کرکے“‏ شادی کے لیے تیار کرتے آئے ہیں۔‏ دُلہن ”‏پاک اور بےعیب“‏ ہے۔‏ (‏افس ۵:‏۲۶،‏ ۲۷‏)‏ اُس کا لباس اِس خاص موقعے کی مناسبت سے ہونا چاہیے۔‏ اور واقعی ایسا ہے بھی۔‏ دُلہن کا ”‏لباس زربفت کا ہے“‏ اور ”‏وہ بیل‌بوٹےدار لباس میں بادشاہ کے حضور پہنچائی جائے گی۔‏“‏ برّے کی شادی کی تقریب کے لیے اُسے ”‏چمک‌دار اور صاف مہین کتانی کپڑا پہننے کا اِختیار دیا گیا کیونکہ مہین کتانی کپڑے سے مُقدس لوگوں کی راست‌بازی کے کام مُراد ہیں۔‏“‏—‏مکا ۱۹:‏۸‏۔‏

‏”‏شادی آ پہنچی“‏

۱۰.‏ برّے کی شادی کب ہوگی؟‏

۱۰ مکاشفہ ۱۹:‏۷ کو پڑھیں۔‏ برّے کی شادی کب ہوگی؟‏ اگرچہ ”‏اُس کی بیوی نے اپنے آپ کو تیار کر لیا“‏ ہے لیکن اگلی آیتوں میں جو کچھ بتایا گیا ہے،‏ وہ شادی کا منظر پیش نہیں کرتا۔‏  اِس کے بجائے اِن آیتوں میں بڑی مصیبت کے آخری مرحلے میں ہونے والے واقعات بتائے گئے ہیں۔‏ (‏مکا ۱۹:‏۱۱-‏۲۱‏)‏ کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے بادشاہ کی شادی ہوگی اور اِس کے بعد ہی وہ اپنی فتح مکمل کرے گا؟‏ جی‌نہیں۔‏ مکاشفہ کی کتاب میں واقعات جس ترتیب سے بتائے گئے ہیں،‏ وہ اُس ترتیب سے فرق ہے جس میں یہ واقعات دراصل ہوتے ہیں۔‏ لیکن زبور ۴۵ کے مطابق بادشاہ یسوع مسیح پہلے اپنی تلوار کمر سے باندھتے ہیں،‏ پھر وہ ”‏اِقبال‌مندی سے سوار“‏ ہو کر اپنے دُشمنوں پر فتح پاتے ہیں۔‏ اِن واقعات کے بعد ہی شادی ہوتی ہے۔‏—‏زبور ۴۵:‏۳،‏ ۴‏۔‏

۱۱.‏ یسوع مسیح کس ترتیب سے اپنے دُشمنوں کے خلاف کارروائی کریں گے؟‏

۱۱ لہٰذا ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ واقعات اِس ترتیب سے ہوں گے:‏ پہلے ”‏بڑا شہر بابلؔ“‏ نامی ”‏کسبی“‏ یعنی تمام جھوٹے مذاہب کو تباہ کِیا جائے گا۔‏ (‏مکا ۱۷:‏۱،‏ ۵،‏ ۱۶،‏ ۱۷؛‏ ۱۹:‏۱،‏ ۲‏)‏ پھر ہرمجِدّون یعنی ”‏قادرِمطلق خدا کے روزِعظیم کی لڑائی“‏ ہوگی۔‏ اِس کے دوران یسوع مسیح خدا کے فیصلے کے مطابق شیطان کے باقی نظام کو ختم کریں گے۔‏ (‏مکا ۱۶:‏۱۴-‏۱۶؛‏ ۱۹:‏۱۹-‏۲۱‏)‏ آخر میں وہ شیطان اور شیاطین کو اتھاہ گڑھے میں قید کرکے اپنی فتح مکمل کریں گے۔‏ اِس گڑھے میں شیطان اور شیاطین کی حالت ویسی ہی ہوگی جیسی مُردوں کی ہوتی ہے یعنی وہ بالکل بےبس ہوں گے۔‏—‏مکا ۲۰:‏۱-‏۳‏۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ ‏(‏الف)‏ برّے کی شادی کن واقعات کے بعد ہوگی؟‏ (‏ب)‏آسمان پر برّے کی شادی کی خوشیاں کون منائیں گے؟‏

۱۲ اِس آخری زمانے میں جب کوئی ممسوح  مسیحی  مرتا  ہے تو اُسے فوراً آسمان پر زندگی مل جاتی ہے۔‏ بڑے شہر بابل کی تباہی کے بعد یسوع مسیح باقی ممسوح مسیحیوں کو آسمان پر اُٹھا لیں گے۔‏ (‏۱-‏تھس ۴:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ لہٰذا ہرمجِدّون کی جنگ سے پہلے تمام ممسوح مسیحی ”‏دُلہن“‏ کے طور پر آسمان میں موجود ہوں گے۔‏ اِس جنگ کے بعد برّے کی شادی ہوگی۔‏ یہ کتنی خوشی کا موقع ہوگا!‏ مکاشفہ ۱۹:‏۹ میں بتایا گیا ہے کہ ”‏مبارک ہیں وہ جو برّہ کی شادی کی ضیافت میں بلائے گئے ہیں۔‏“‏ بےشک اِس موقعے پر دُلہن یعنی ایک لاکھ ۴۴ ہزار ممسوح مسیحی بےحد خوش ہوں گے۔‏  اور بادشاہ یسوع مسیح کی خوشی کا بھی کوئی ٹھکانا نہیں ہوگا کیونکہ  اُن کے تمام ساتھی حکمران،‏ مجازی معنوں میں ’‏اُن کی بادشاہی میں اُن کے میز پر کھا پی رہے ہوں گے۔‏‘‏ (‏لو ۲۲:‏۱۸،‏ ۲۸-‏۳۰‏)‏ لیکن اِس شادی سے دُلہے اور دُلہن کے علاوہ اَوروں کو بھی خوشی ہوگی۔‏

۱۳ ہم دیکھ چکے ہیں کہ فرشتے یہ نغمہ گاتے ہیں:‏  ”‏آؤ  ہم خوشی کریں اور نہایت شادمان ہوں اور اُس کی تمجید کریں۔‏ اِس لئے کہ برّہ کی شادی آ پہنچی اور اُس کی بیوی نے اپنے آپ کو تیار کر لیا۔‏“‏ (‏مکا ۱۹:‏۶،‏ ۷‏)‏ لیکن کیا زمین پر بھی یہوواہ کے بندے اِس شادی کی خوشیاں منائیں گے؟‏

‏”‏وہ اُن کو خوشی اور خرمی سے لے آئیں گے“‏

۱۴.‏ زبور ۴۵ میں جن ’‏کنواری سہیلیوں‘‏ کا ذکر کِیا گیا ہے،‏ وہ کون ہیں؟‏

۱۴ زبور ۴۵:‏۱۲‏،‏  ۱۴  آیت  کے  آخری  حصے  اور  ۱۵  کو  پڑھیں۔‏ زکریاہ نبی نے پیش‌گوئی کی کہ آخری زمانے میں مختلف قوموں کے لوگ خوشی سے روحانی اِسرائیل کے اُن رُکنوں کا ساتھ دیں گے جو زمین پر باقی ہیں۔‏ زکریاہ نے لکھا:‏ ”‏اُن ایّام میں مختلف اہلِ‌لغت میں سے دس آدمی ہاتھ بڑھا کر ایک یہودی کا دامن پکڑیں گے اور کہیں گے کہ ہم تمہارے ساتھ جائیں گے کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔‏“‏ (‏زک ۸:‏۲۳‏)‏ اِن ’‏دس آدمیوں‘‏ کو زبور ۴۵:‏۱۲ میں ”‏صوؔر کی بیٹی“‏ اور ”‏قوم کے دولت‌مند“‏ کہا گیا ہے۔‏ وہ ممسوح مسیحیوں کے لیے ”‏ہدیہ لے کر“‏ آتے ہیں کیونکہ وہ اُن کے ساتھی بننا چاہتے ہیں اور اُن سے رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‏ سن ۱۹۳۵ء سے لے کر لاکھوں لوگ ممسوح مسیحیوں کی ’‏کوششوں سے صادق ہو گئے‘‏ ہیں۔‏ (‏دان ۱۲:‏۳‏)‏ اُنہوں نے اپنی زندگیاں پاک کر لی ہیں اور یوں روحانی لحاظ سے کنواریاں بن گئے ہیں۔‏ وہ دُلہن کی ”‏کنواری سہیلیاں“‏ ہیں۔‏ اُنہوں نے خود کو یہوواہ خدا کے لیے  وقف کر دیا ہے اور یہ ثابت کِیا ہے کہ وہ بادشاہ یسوع مسیح کے وفادار ہیں۔‏

۱۵.‏ ‏”‏کنواری سہیلیاں“‏ ممسوح مسیحیوں کا ساتھ کیسے دے رہی ہیں؟‏

۱۵ ممسوح مسیحی  ’‏کنواری  سہیلیوں‘‏  کے  شکرگزار  ہیں  کیونکہ وہ بڑی لگن سے تمام دُنیا میں ”‏بادشاہی کی .‏ .‏ .‏ خوش‌خبری کی مُنادی“‏ کرنے میں اُن کا ہاتھ بٹا رہی ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ نہ صرف ”‏روح اور دُلہن کہتی ہیں آ“‏ بلکہ ’‏سننے والے بھی کہتے ہیں آ۔‏‘‏ (‏مکا ۲۲:‏۱۷‏)‏ یسوع مسیح کی ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ نے سنا ہے کہ دُلہن کہہ رہی ہے کہ ”‏آ“‏ اور اب وہ دُلہن کے ساتھ مل کر ساری دُنیا کے باشندوں کو آنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔‏—‏یوح ۱۰:‏۱۶‏۔‏

۱۶.‏ یہوواہ خدا نے ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ کو کون‌سا اعزاز بخشا ہے؟‏

۱۶ ممسوح مسیحی اپنے ساتھیوں سے محبت  کرتے  ہیں۔‏  وہ خوش ہیں کہ دُلہے کے باپ یہوواہ خدا نے ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ کو یہ اعزاز بخشا ہے کہ وہ برّے کی شادی کی خوشی میں شریک ہوں۔‏ پیش‌گوئی کے مطابق اِن کنواری سہیلیوں کو ”‏خوشی اور خرمی سے“‏ لایا جائے گا۔‏ جب آسمان پر برّے کی شادی ہوگی تو ”‏اَور بھی بھیڑیں“‏ بہت خوشی منائیں گی۔‏ مکاشفہ کی کتاب میں ”‏بڑی بِھیڑ“‏ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ”‏تخت اور برّہ کے آگے کھڑی ہے۔‏“‏ اِس کا مطلب ہے کہ وہ خدا کی روحانی ہیکل کے صحن میں یعنی زمین پر اُس کی عبادت کرتی ہے۔‏ (‏مکا ۷:‏۹،‏ ۱۵‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین پر خدا کے بندے بھی برّے کی شادی کی خوشی میں شریک ہوں گے۔‏

دُلہن کی ”‏کنواری سہیلیاں“‏ برّے کی شادی کی خوشیاں مناتی ہیں۔‏ (‏پیراگراف ۱۶ کو دیکھیں۔‏)‏

‏”‏تیرے بیٹے تیرے باپ‌دادا کے جانشین ہوں گے“‏

۱۷،‏ ۱۸.‏ ‏(‏الف)‏ برّے کی شادی سے نئی دُنیا کے باشندوں کو کیا فائدے حاصل ہوں گے؟‏ (‏ب)‏یسوع مسیح اپنی ہزار سالہ حکمرانی میں کن کے باپ بنیں گے؟‏

۱۷ زبور ۴۵:‏۱۶ کو پڑھیں۔‏ مسیح کی آسمانی  دُلہن  کی ”‏کنواری  سہیلیاں“‏ اِس بات سے بھی خوش ہوں گی کہ اِس شادی سے نئی دُنیا کے باشندوں کو کتنے فائدے ہوتے ہیں۔‏ دُلہا اپنے زمینی ”‏باپ‌دادا“‏ کو زندہ کرے گا اور وہ اُس کے زمینی ”‏بیٹے“‏ بنیں گے۔‏ (‏یوح ۵:‏۲۵-‏۲۹؛‏ عبر ۱۱:‏۳۵‏)‏ دُلہا اُنہی میں سے بعض کو ”‏زمین پر سردار [‏یا ”‏شہزادے،‏“‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏]‏ مقرر کرے گا۔‏“‏ وہ آجکل کے بزرگوں میں سے بھی بعض کو نئی دُنیا میں پیشوائی کرنے کے لیے مقرر کرے گا۔‏—‏یسع ۳۲:‏۱‏۔‏

۱۸ مسیح اپنی ہزار سالہ حکمرانی میں اَور لوگوں کے باپ بھی بنیں گے۔‏ نئی دُنیا میں رہنے والے لوگوں کو ہمیشہ کی زندگی اِسی وجہ سے ملے گی کیونکہ وہ یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان رکھتے ہیں۔‏ (‏یوح ۳:‏۱۶‏)‏ لہٰذا یسوع مسیح اُن کے ’‏ابدیت کے باپ‘‏ بنیں گے۔‏—‏یسع ۹:‏۶،‏ ۷‏۔‏

‏’‏اُس کے نام کی یاد کو قائم رکھیں‘‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ زبور ۴۵ میں درج واقعات پر غور کرنے سے تمام مسیحیوں پر کیا اثر ہوتا ہے؟‏

۱۹ زبور ۴۵:‏۱،‏ ۱۷ کو پڑھیں۔‏ زبور ۴۵ میں درج واقعات تمام مسیحیوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔‏ ممسوح مسیحی اُس وقت کے مشتاق ہیں جب وہ دُلہے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ آسمان پر ہوں گے۔‏ زبور ۴۵ پر غور کرنے سے ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ کا یہ عزم مضبوط ہوتا ہے کہ وہ بادشاہ کے تابع رہیں گی۔‏ اِس کے علاوہ وہ اِس اعزاز کی قدر کرتے ہیں کہ وہ اُن لوگوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں جو ایک دن یسوع مسیح کی دُلہن بنیں گے۔‏ شادی کے بعد مسیح اور اُن کی دُلہن زمین کے باشندوں پر بےشمار برکتیں نچھاور کریں گے۔‏—‏مکا ۷:‏۱۷؛‏ ۲۱:‏۱-‏۴‏۔‏

۲۰ بادشاہ مسیح کے بارے میں ”‏نفیس مضمون“‏ میں جن واقعات کا ذکر ہوا ہے،‏ ہم اُنہیں دیکھنے کے بڑے منتظر ہیں۔‏ بےشک ہمیں اُس کے ’‏نام کی یاد کو قائم رکھنے‘‏ کی ترغیب ملتی ہے۔‏ ہماری خواہش ہے کہ ہمارا شمار بھی اُن لوگوں میں ہو جو ’‏ابداُلآباد اُس کی شکرگذاری کریں گے۔‏‘‏