مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ خدا ہمارا سب سے اچھا دوست

یہوواہ خدا ہمارا سب سے اچھا دوست

‏”‏اؔبرہام .‏ .‏ .‏ [‏یہوواہ]‏ کا دوست کہلایا۔‏“‏—‏یعقو ۲:‏۲۳‏۔‏

۱.‏ چونکہ ہم خدا کی صورت پر بنائے گئے اِس لیے ہم میں کون‌سی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں؟‏

آپ نے یہ کہاوت تو ضرور سنی ہوگی کہ ”‏جیسا باپ ویسا بیٹا۔‏“‏ اور یہ سچ بھی ہے کیونکہ بچے اکثر اپنے ماں‌باپ کی طرح ہوتے ہیں۔‏ بچوں کی بہت سی خصوصیات اُنہیں پیدائشی طور پر اپنے والدین سے ملتی ہیں۔‏ یہوواہ خدا ہمارا آسمانی باپ ہے اور اُسی نے ہمیں زندگی کی نعمت عطا کی ہے۔‏ (‏زبور ۳۶:‏۹‏)‏ اِس لیے اُس کی خوبیاں کسی حد تک ہم میں بھی پائی جاتی ہیں۔‏ ہم اُس کی صورت پر بنائے گئے ہیں۔‏ اِس لیے ہم سوچنے سمجھنے اور فیصلے کرنے کے قابل ہیں۔‏ اور ہم دوستیاں قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے قابل بھی ہیں۔‏—‏پید ۱:‏۲۶‏۔‏

۲.‏ ہم خدا کے دوست کیوں بن سکتے ہیں؟‏

۲ یہوواہ خدا سے بہتر دوست کوئی اَور نہیں ہو سکتا۔‏ ہم صرف اِس لیے اُس کے دوست بن سکتے ہیں کیونکہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اُس پر اور اُس کے بیٹے پر ایمان رکھتے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔‏“‏ (‏یوح ۳:‏۱۶‏)‏ بائبل میں ایسے بہت سے لوگوں کی مثالیں پائی جاتی ہیں جو خدا کے قریبی دوست تھے۔‏ آئیں،‏ اِن میں سے دو مثالوں پر غور کریں۔‏

‏’‏میرا دوست ابرہام‘‏

۳،‏ ۴.‏ خدا کے ساتھ دوستی کے حوالے سے ابرہام اور اُن کی اولاد میں کیا فرق تھا؟‏

۳ یہوواہ خدا نے بنی‌اِسرائیل کے باپ ابرہام کو ’‏میرا دوست‘‏ کہا۔‏ (‏یسع ۴۱:‏۸‏)‏ دوسری تواریخ  ۲۰:‏۷ میں بھی اُنہیں خدا کا دوست کہا گیا ہے۔‏ خدا اُن کا اِتنا پکا دوست کیوں بن گیا تھا؟‏ کیونکہ ابرہام خدا پر مضبوط ایمان رکھتے تھے۔‏—‏پید ۱۵:‏۶؛‏ یعقوب ۲:‏۲۱-‏۲۳ کو پڑھیں۔‏

۴ شروع شروع میں تو خدا بنی‌اِسرائیل کا باپ اور دوست تھا۔‏ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اِس قوم نے خدا کے ساتھ دوستی توڑ دی۔‏ ایسا کیوں ہوا؟‏ کیونکہ خدا کے وعدوں پر اُن کا ایمان کمزور پڑ گیا تھا۔‏

۵،‏ ۶.‏ ‏(‏الف)‏ خدا کے ساتھ آپ کی دوستی کیسے قائم ہوئی؟‏ (‏ب)‏ ہمیں خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

۵ جتنا زیادہ ہم یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھتے ہیں  اُتنا  ہی اُس پر ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور اُس کے لیے ہماری محبت بڑھتی ہے۔‏ ذرا وہ وقت یاد کریں جب آپ نے سیکھا تھا کہ آپ خدا کے ساتھ ایک دوست کی طرح بات کر سکتے ہیں اور اُس کی قربت حاصل کر سکتے ہیں۔‏ آپ نے یہ بھی سیکھا تھا کہ آدم کی نافرمانی کی وجہ سے ہم پیدائشی طور پر گُناہگار ہیں۔‏ آپ سمجھ گئے کہ زیادہ‌تر اِنسان ’‏خدا کے دُشمن‘‏ ہیں۔‏ (‏کل ۱:‏۲۱،‏ ۲۲‏)‏ پھر آپ نے یہ جان لیا کہ ہمارا آسمانی باپ کوئی ایسی ہستی نہیں جو ہم سے بہت دُور ہے۔‏ جب آپ نے سیکھا کہ اُس نے اپنے بیٹے کو ہماری خاطر قربان کِیا ہے اور جب آپ یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان لائے تو خدا کے ساتھ آپ کی دوستی کی شروعات ہوئی۔‏

۶ اب شاید بہت سال گزر چکے ہیں۔‏ لہٰذا ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏کیا خدا کے ساتھ میری دوستی اَور بھی گہری ہو گئی ہے؟‏ کیا خدا پر میرا بھروسا مضبوط ہو گیا ہے؟‏ اور کیا اُس سے میری محبت دن‌بہ‌دن بڑھ رہی ہے؟‏“‏ قدیم زمانے میں خدا کا ایک اَور قریبی دوست جدعون تھا۔‏ آئیں،‏ اب اُن کی مثال پر غور کریں۔‏

‏”‏یہوواہ امن‌واِطمینان ہے“‏

۷-‏۹.‏ ‏(‏الف)‏ جدعون کے ساتھ کون‌سا حیرت‌انگیز واقعہ پیش آیا؟‏ اور اِس کا اُن پر کیا اثر ہوا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ خدا کے ساتھ ہماری دوستی اَور گہری کیسے ہو سکتی ہے؟‏

۷ قاضی جدعون بنی‌اِسرائیل کی تاریخ کے ایک نہایت  مشکل دَور میں رہ رہے تھے۔‏ بنی‌اِسرائیل ملک کنعان پر قبضہ کر چکے تھے۔‏ لیکن ابھی بھی اُنہیں مِدیانیوں کی طرف سے خطرہ تھا۔‏ قضاة ۶ باب میں بتایا گیا ہے کہ خدا کا فرشتہ عفرہ میں جدعون کے پاس آیا۔‏ اُس وقت جدعون کُھلے میدان کی بجائے مے کے کولھو میں گیہوں جھاڑ رہے تھے تاکہ وہ دُشمن کے آنے پر گیہوں کو جلدی سے چھپا سکیں۔‏ جب فرشتے نے جدعون کو ”‏اَے زبردست سورما“‏ کہا تو وہ بہت حیران ہوئے۔‏ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ خدا نے بنی‌اِسرائیل کو مصر سے چھڑایا تھا پھر بھی وہ شک کر رہے تھے کہ آیا وہ اب اُنہیں مِدیانیوں سے بچائے گا یا نہیں۔‏ لیکن یہوواہ خدا نے اِس فرشتے کے ذریعے جدعون کو یقین دِلایا کہ وہ ضرور اُن کی مدد کرے گا۔‏

۸ جدعون سوچ رہے تھے کہ ”‏بھلا مَیں بنی‌اِسرائیل کو مِدیانیوں کے ہاتھ سے کیسے چھڑا سکتا ہوں؟‏“‏ یہوواہ خدا نے اِس کا واضح جواب دیا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں ضرور تیرے ساتھ ہوں گا اور تُو مِدیانیوں کو ایسا مار لے گا جیسے ایک آدمی کو۔‏“‏ (‏قضا ۶:‏۱۱-‏۱۶‏)‏ جدعون کو ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اِس کام میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔‏ اِس لیے اُنہوں نے خدا سے ایک نشان مانگا۔‏ اِس بات‌چیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ جدعون نے یہوواہ خدا کو ایک ایسا دوست خیال کِیا جس سے وہ کُھل کر بات کر سکتے ہیں۔‏

۹ اِس کے بعد جو کچھ ہوا،‏ اُس سے جدعون کا ایمان اَور مضبوط ہو گیا اور وہ خدا کے اَور قریب آ گئے۔‏ اُنہوں نے کھانا تیار کرکے فرشتے کو پیش کِیا۔‏ جب فرشتے نے اپنے عصا کی نوک سے کھانے کو چُھوا تو کھانا بھسم ہو گیا۔‏ اِس سے جدعون کو یقین ہو گیا کہ فرشتہ واقعی یہوواہ خدا کا نمائندہ ہے۔‏ جدعون ڈر گئے اور اُنہوں نے کہا:‏ ”‏افسوس ہے اَے مالک [‏یہوواہ]‏ کہ مَیں نے [‏یہوواہ]‏ کے فرشتہ کو روبرو دیکھا۔‏“‏ (‏قضا ۶:‏۱۷-‏۲۲‏)‏ لیکن کیا اِس واقعے سے جدعون اور یہوواہ کی دوستی میں کوئی دراڑ آ گئی تھی؟‏ بالکل نہیں۔‏ بلکہ اُن کی دوستی اَور گہری ہو گئی۔‏ جدعون،‏ یہوواہ خدا کو اَور اچھی طرح جاننے لگے اور اِس طرح اُنہیں اُس کے حضور اِطمینان محسوس ہوا۔‏ ہم یہ اِس لیے کہہ سکتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے جو قربانگاہ بنائی،‏ اُس کا نام اُنہوں  نے ”‏یہوؔواہ‌سلوم“‏ رکھا جس کا مطلب ہے:‏ ”‏یہوواہ امن‌واِطمینان ہے۔‏“‏ ‏(‏قضاة ۶:‏۲۳،‏ ۲۴ کو پڑھیں۔‏)‏ جب ہم اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ خدا ہر روز ہمارے لیے کیا کچھ کرتا ہے تو ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ وہ ہمارا سچا دوست ہے۔‏ باقاعدگی سے دُعا کرنے سے ہمیں زیادہ اِطمینان محسوس ہوتا ہے اور اُس کے ساتھ ہماری دوستی اَور بھی گہری ہوتی ہے۔‏

‏’‏یہوواہ کے خیمے میں کون رہے گا؟‏‘‏

۱۰.‏ زبور ۱۵:‏۳،‏ ۵ کے مطابق ہمیں خدا کے دوست رہنے کے لیے کن شرائط پر پورا اُترنا پڑتا ہے؟‏

۱۰ اگر ہم یہوواہ خدا کے ساتھ دوستی قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں کچھ شرائط پوری کرنی پڑیں گی۔‏ زبور ۱۵ میں داؤد نے بتایا کہ کس طرح کے لوگ ’‏یہوواہ کے خیمے میں رہ سکتے ہیں‘‏ یعنی اُس کے دوست رہ سکتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۵:‏۱‏)‏ آئیں،‏ ہم اِن شرائط میں سے دو پر غور کریں۔‏ پہلی شرط یہ ہے کہ ہم جھوٹی باتیں نہ پھیلائیں اور دوسری یہ کہ ہم ہر معاملے میں دیانت‌داری سے کام لیں۔‏ اِس سلسلے میں داؤد نے کہا کہ صرف وہ شخص خدا کے خیمے میں رہ سکتا ہے ”‏جو اپنی زبان سے جھوٹے اِلزام نہیں لگاتا .‏ .‏ .‏ اور بےگُناہ کے خلاف رشوت نہیں لیتا۔‏“‏—‏زبور ۱۵:‏۳،‏ ۵‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

۱۱.‏ ہمیں دوسروں کے بارے میں جھوٹی باتیں کیوں نہیں پھیلانی چاہئیں؟‏

۱۱ ایک اَور زبور میں داؤد نے یہ ہدایت دی:‏ ”‏اپنی زبان کو بدی سے باز رکھ۔‏“‏ (‏زبور ۳۴:‏۱۳‏)‏ اگر ہم اِس ہدایت پر عمل نہیں کرتے تو یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی میں دراڑ آ سکتی ہے۔‏ دراصل خدا کا سب سے بڑا دُشمن شیطان جھوٹی باتیں پھیلانے کے لیے مشہور ہے۔‏ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏اِبلیس“‏ کِیا گیا ہے،‏ اُس کا مطلب ”‏جھوٹی باتیں پھیلانے والا“‏ ہے۔‏ لہٰذا جب ہم دوسروں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمیں اپنی زبان کو قابو میں رکھنا چاہیے تاکہ ہم خدا کی دوستی سے محروم نہ ہو جائیں۔‏ یہ خاص طور پر اُس وقت اہم ہے جب ہم ایسے بھائیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جو کلیسیا میں ذمےداریاں رکھتے ہیں۔‏—‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۷؛‏ یہوداہ ۸ کو پڑھیں۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ ‏(‏الف)‏ ہمیں ہر معاملے میں دیانت‌داری سے کیوں کام لینا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ ہماری دیانت‌داری کا دوسروں پر کیا اثر ہوتا ہے؟‏

۱۲ یہوواہ خدا کے سچے خادم ہر معاملے میں دیانت‌داری سے کام بھی لیتے ہیں۔‏ پولُس رسول نے لکھا:‏ ”‏ہمارے واسطے دُعا کرو کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ہمارا دل صاف ہے اور ہم ہر بات میں نیکی [‏یا ”‏دیانت‌داری،‏“‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏]‏ کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔‏“‏ (‏عبر ۱۳:‏۱۸‏)‏ چونکہ ہمارا عزم بھی یہی ہے اِس لیے ہم اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کا فائدہ نہیں اُٹھاتے۔‏ مثال کے طور پر اگر وہ ہمارے لیے ملازمت کرتے ہیں تو ہم اُن سے دوسرے ملازموں کی نسبت زیادہ کام لینے کی کوشش نہیں کریں گے اور اُنہیں وقت پر پوری تنخواہ دیں گے۔‏ سچے مسیحی نہ صرف اپنے ملازموں کے ساتھ بلکہ دوسروں کے ساتھ بھی دیانت‌داری سے پیش آتے ہیں۔‏ اگر ہم کسی مسیحی بھائی یا بہن کے لیے کام کرتے ہیں تو ہم اُس سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ دوسروں کی نسبت ہمارا خاص خیال رکھے۔‏

۱۳ لوگ اکثر یہوواہ کے گواہوں کی دیانت‌داری کی تعریف کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ایک کمپنی کے ڈائریکٹر نے دیکھا کہ  یہوواہ کے گواہ اپنی بات کے پکے ہیں۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏آپ لوگ  معاہدے میں جو بھی طے کرتے ہیں،‏ اِسے پورا بھی کرتے ہیں۔‏“‏ (‏زبور ۱۵:‏۴‏)‏ ایسے چال‌چلن سے یہوواہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی برقرار رہتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ ہمارے آسمانی باپ کی بڑائی بھی ہوتی ہے۔‏

خدا کے دوست بننے میں دوسروں کی مدد کریں

ہم یہوواہ خدا کے دوست بننے میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف ۱۴ اور ۱۵ کو دیکھیں۔‏)‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ مُنادی کے کام میں ہم لوگوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں تاکہ وہ خدا کے دوست بن جائیں؟‏

۱۴ مُنادی کے کام میں ہم جن لوگوں سے ملتے ہیں،‏ اُن میں سے زیادہ‌تر خدا کو مانتے تو ہیں لیکن اُسے اپنا سب سے اچھا دوست خیال نہیں کرتے۔‏ ہم ایسے لوگوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏ اِس سلسلے میں اُن ہدایات پر غور کریں جو یسوع مسیح نے اپنے ۷۰ شاگردوں کو دی تھیں۔‏ جب اُنہوں نے اُن شاگردوں کو دو دو کرکے مُنادی کرنے بھیجا تو اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جس گھر میں داخل  ہو پہلے کہو کہ اِس گھر کی سلامتی ہو۔‏ اگر وہاں کوئی سلامتی کا فرزند ہوگا تو تمہارا سلام اُس پر ٹھہرے گا نہیں تو تُم پر لوٹ آئے گا۔‏“‏ (‏لو ۱۰:‏۵،‏ ۶‏)‏ اگر ہم لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ سچائی کی طرف کھنچ آئیں۔‏ اور اگر ہم اُن لوگوں کے ساتھ بھی خوش‌اخلاقی سے پیش آتے ہیں جو ہماری مخالفت کرتے ہیں تو شاید اُن کا رویہ بدل جائے اور آئندہ وہ ہمارا پیغام سننے کو تیار ہوں۔‏

۱۵ جب ہم ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جو جھوٹے مذہب کے کٹر پیروکار ہیں تو ہم اُن کے ساتھ بھی نرمی سے پیش آتے ہیں۔‏ مضامین کے سلسلے ”‏پاک کلام کی تعلیم زندگی سنوارتی ہے“‏ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آجکل بہت سے لوگ جدید معاشرے کی سوچ اور مسائل سے بیزار ہو گئے ہیں۔‏ لیکن جب وہ دیکھتے ہیں کہ یہوواہ کے گواہ فرق ہیں تو وہ ہمارے خدا کے بارے میں سیکھنا چاہتے ہیں۔‏ جب ایسے لوگ ہمارے اِجلاسوں پر آتے ہیں تو ہم خوشی سے اُن سے ملتے ہیں۔‏

اپنے سب سے اچھے دوست کے ساتھ کام کریں

۱۶.‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ ہم یہوواہ خدا کے دوست ہونے کے ساتھ‌ساتھ ’‏اُس کے ساتھ کام کرنے والے‘‏ بھی ہیں؟‏

۱۶ اکثر اُن لوگوں میں قریبی دوستی ہو جاتی ہے جو اِکٹھے کام کرتے ہیں۔‏ جن لوگوں نے اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لیے وقف کی ہے،‏ وہ اُس کے دوست اور ’‏اُس کے ساتھ کام کرنے والے ہیں۔‏‘‏ ‏(‏۱-‏کرنتھیوں ۳:‏۹ کو پڑھیں۔‏)‏ لہٰذا جب ہم مُنادی کرنے اور شاگرد بنانے کے کام میں حصہ لیتے ہیں تو ہم اپنے آسمانی باپ کی خوبیوں سے اَور اچھی طرح واقف ہو جاتے ہیں۔‏ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پاک روح ہم میں یہ قابلیت پیدا کرتی ہے کہ ہم خوش‌خبری سنانے کی ذمےداری کو پورا کریں۔‏

۱۷.‏ ہمارے اِجتماعوں پر ملنے والی روحانی خوراک سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا ہمارا دوست ہے؟‏

۱۷ جتنا زیادہ ہم شاگرد بنانے کے کام میں حصہ لیں گے اُتنا ہی ہم یہوواہ خدا کے قریب آ جائیں گے۔‏ مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمارے مخالفین کی کوششوں کو ناکام بناتا ہے۔‏ ذرا پچھلے چند سالوں کے بارے میں سوچیں۔‏ کیا ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ یہوواہ خدا ہماری رہنمائی کرتا ہے؟‏ ہم یہ دیکھ کر بہت خوش ہیں کہ ہمیں اعلیٰ معیار کی روحانی خوراک باقاعدگی سے مل رہی ہے۔‏ ہمارے اِجتماعوں کے پروگرام سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا آسمانی باپ ہمارے مسئلوں اور ہماری ضروریات کو سمجھتا ہے۔‏ ایک خاندان نے ایک صوبائی اِجتماع کے لیے اپنی شکرگزاری ظاہر کرنے کے لیے خط لکھا جس میں اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اِس اِجتماع کے پروگرام نے ہمارے دلوں پر گہرا اثر کِیا۔‏ ہم نے محسوس کِیا کہ یہوواہ خدا ہم سب سے پیار کرتا ہے اور ہمیں خوش دیکھنا چاہتا ہے۔‏“‏ آئرلینڈ میں ایک بین‌الاقوامی اِجتماع کے بعد جرمنی کے ایک شادی‌شُدہ جوڑے نے اِس بات کے لیے شکرگزاری کا اِظہار کِیا کہ بہن‌بھائی اُن سے بڑی خوشی سے ملے اور اُن کا خیال رکھا۔‏ پھر اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ہم سب سے زیادہ یہوواہ خدا اور اُس کے بادشاہ یسوع مسیح کے شکرگزار ہیں۔‏ اُنہوں نے ہمیں اِس متحد قوم میں شامل ہونے کا موقع دیا۔‏ ہم اِتحاد کے بارے میں صرف باتیں ہی  نہیں کرتے بلکہ ہم میں اِتحاد پایا بھی جاتا ہے۔‏ اِس بین‌الاقوامی اِجتماع پر ہم نے جو کچھ دیکھا ہے،‏ اِس سے ہمارے دل میں اِس بات کی قدر بڑھ گئی ہے کہ ہم آپ سب کے ساتھ مل کر ہمارے عظیم خدا کی عبادت کرتے ہیں۔‏“‏

بات کرنے سے دوستی مضبوط ہوتی ہے

۱۸.‏ یہوواہ خدا سے بات کرنے کے سلسلے میں ہمیں خود سے کیا پوچھنا چاہیے؟‏

۱۸ جب دوست باقاعدگی سے آپس میں بات  کرتے  ہیں  تو اُن  کی دوستی زیادہ گہری ہو جاتی ہے۔‏ آجکل اِنٹرنیٹ اور موبائل فون کے ذریعے لوگ سارا وقت ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔‏ اِس کے مدِنظر خود سے پوچھیں:‏ ”‏مَیں اپنے سب سے اچھے دوست یہوواہ خدا کے ساتھ بات کرنے کے لیے کتنا وقت نکالتا ہوں؟‏“‏ وہ ’‏دُعا کا سننے والا‘‏ تو ہے لیکن ہم دن میں کتنی بار اُس سے بات کرتے ہیں؟‏—‏زبور ۶۵:‏۲‏۔‏

۱۹.‏ اگر ہمیں یہوواہ خدا کو اپنے دل کی بات بتانا مشکل لگتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

۱۹ بعض مسیحیوں کو خدا کے ساتھ کُھل کر بات کرنا اور اُسے اپنے احساسات کے بارے میں بتانا آسان نہیں لگتا۔‏ لیکن یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم یہی کریں۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۴۵؛‏ نوحہ ۳:‏۴۱‏)‏ اگر آپ کو اپنے دل کی بات لفظوں میں بیان کرنا مشکل لگتا ہے تو مایوس نہ ہوں۔‏ پولُس رسول نے روم کے مسیحیوں کو لکھا:‏ ”‏جس طور سے ہم کو دُعا کرنا چاہئے ہم نہیں جانتے مگر روح خود ایسی آہیں بھربھر کر ہماری شفاعت [‏یعنی سفارش]‏ کرتا ہے جن کا بیان نہیں ہو سکتا۔‏ اور دلوں کا پرکھنے والا جانتا ہے کہ روح کی کیا نیت ہے کیونکہ وہ خدا کی مرضی کے موافق مُقدسوں کی شفاعت کرتا ہے۔‏“‏ (‏روم ۸:‏۲۶،‏ ۲۷‏)‏ جب ہم بائبل میں درج باتوں پر سوچ‌بچار کرتے ہیں مثلاً ایوب،‏ زبور اور امثال میں درج دُعاؤں پر تو ہمیں ایسے الفاظ مل جائیں گے جن سے ہم اپنے احساسات کا اِظہار کر پائیں گے۔‏

۲۰،‏ ۲۱.‏ فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷ میں درج پولُس رسول کی نصیحت پر عمل کرنے سے ہمیں تسلی کیوں ملتی ہے؟‏

۲۰ جب آپ پر کوئی مصیبت آتی ہے تو پولُس رسول کی  اِس نصیحت پر عمل کریں:‏ ”‏کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور مِنت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔‏“‏ اگر ہم اِس طرح سے اپنے سب سے اچھے دوست کو اپنے احساسات بتائیں گے تو ہمیں تسلی اور حوصلہ ملے گا۔‏ پولُس رسول نے آگے کہا:‏ ”‏خدا کا اِطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھے گا۔‏“‏ (‏فل ۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ ہمیں ہمیشہ یہوواہ خدا کے شکرگزار ہونا چاہیے کہ وہ ہمیں اِطمینان بخشتا ہے کیونکہ اِس سے واقعی ہمارے دل اور خیال محفوظ رہتے ہیں۔‏

دُعا کے ذریعے خدا کے ساتھ ہماری دوستی اَور مضبوط کیوں ہوتی ہے؟‏ (‏پیراگراف ۲۱ کو دیکھیں۔‏)‏

۲۱ دُعا کے ذریعے خدا کے ساتھ ہماری دوستی اَور  بھی  پکی  ہو جاتی ہے۔‏ اِس لیے ’‏بِلاناغہ دُعا کریں۔‏‘‏ (‏۱-‏تھس ۵:‏۱۷‏)‏ یقیناً اِن دو مضامین کا مطالعہ کرنے سے ہم یہوواہ خدا کے اَور قریب آ جائیں گے اور اُس کے معیاروں پر پورا اُترنے کا ہمارا عزم اَور مضبوط ہوگا۔‏ آئیں،‏ اُن سب برکات پر سوچ‌بچار کریں جو ہمیں اِس لیے ملتی ہیں کیونکہ یہوواہ ہمارا باپ،‏ ہمارا خدا اور ہمارا دوست ہے۔‏