خدا کی خدمت میں اپنی خوشی قائم رکھیں
”اگر آدمی برسوں زندہ رہے تو اُن میں خوشی کرے۔“—واعظ ۱۱:۸۔
۱. یہوواہ خدا ہمیں کونسی نعمتیں دیتا ہے جن سے ہمیں خوشی ملتی ہے؟
یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم خوش رہیں۔ وہ ہمیں بہت سی نعمتیں دیتا ہے جن سے ہمیں خوشی ملتی ہے۔ مثال کے طور پر اُس نے ہمیں زندگی دی ہے اور ہمیں اپنی طرف کھینچا ہے۔ اِس لیے ہم اپنی زندگی کو اُس کی بڑائی کرنے کے لیے اِستعمال کر سکتے ہیں۔ (زبور ۱۴۴:۱۵؛ یوح ۶:۴۴) اُس نے یہ ثابت کِیا ہے کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور وہ ہماری مدد کرتا ہے تاکہ ہم اُس کی خدمت جاری رکھ سکیں۔ (یرم ۳۱:۳؛ ۲-کر ۴:۱۶) ہم ایک ایسے روحانی فردوس میں رہ رہے ہیں جس میں ہم روحانی خوراک اور بہنبھائیوں کی محبت سے لطفاندوز ہوتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہمارے پاس ایک شاندار مستقبل کی اُمید بھی ہے۔
۲. خدا کے کچھ وفادار بندے کس طرح کے احساسات کا شکار ہو جاتے ہیں؟
۲ حالانکہ ہمارے پاس خوش ہونے کی اِتنی وجوہات ہیں لیکن پھر بھی خدا کے کچھ وفادار بندے مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا کی نظر میں نہ تو اُن کی کوئی قدر ہے اور نہ ہی اُن کی خدمت کی۔ جو لوگ ایسے احساسات میں مبتلا رہتے ہیں، اُنہیں ’برسوں زندہ رہنے‘ کے خیال سے کوئی خوشی نہیں ملتی۔ اُنہیں لگتا ہے کہ اُن کی زندگی میں تاریکی ہی تاریکی ہے۔—واعظ ۱۱:۸۔
۳. کچھ بہنبھائی کس وجہ سے اپنی خوشی کھو بیٹھتے ہیں؟
۳ ایسے بہنبھائی مختلف وجوہات کی بِنا پر اپنی خوشی کھو بیٹھتے ہیں، مثلاً بیماری اور بڑھاپے کی مشکلات کی وجہ سے یا پھر اُن کی کوئی توقع پوری نہیں ہوتی۔ (زبور ۷۱:۹؛ امثا ۱۳:۱۲؛ واعظ ۷:۷) اِس کے علاوہ ہمارا دل حیلہباز ہے اور کبھیکبھار اُس صورت میں بھی ہم پر اِلزام لگاتا ہے جب خدا ہم سے خوش ہے۔ (یرم ۱۷:۹؛ ۱-یوح ۳:۱۹، ۲۰) اِبلیس بھی خدا کے بندوں پر جھوٹے اِلزام لگاتا ہے اور جو لوگ اُس جیسی سوچ رکھتے ہیں، وہ شاید یہ کہیں کہ خدا کی نظر میں ہماری کوئی اہمیت نہیں۔ ایسے لوگ ایوب کے دوست الیفز کی طرح ہیں۔ لیکن یہ بات ایوب کے زمانے میں بھی جھوٹی تھی اور آج بھی جھوٹی ہے۔—ایو ۴:۱۸، ۱۹۔
۴. اِس مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
۴ یہوواہ خدا نے اپنے کلام میں صافصاف بتایا ہے کہ وہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو ’موت کے سایے کی وادی میں سے گزرتے ہیں۔‘ (زبور ۲۳:۴) وہ ہمارا ساتھ کیسے دیتا ہے؟ وہ اپنے کلام کے ذریعے ہمیں سہارا دیتا ہے۔ اُس کا کلام ”قلعوں کو ڈھا دینے کے قابل“ ہے۔ لہٰذا اگر ہم خود کو اُس کی خدمت کے حوالے سے بےکار سمجھتے ہیں تو بائبل ایسی سوچ پر غالب آنے کی طاقت رکھتی ہے۔ (۲-کر ۱۰:۴، ۵) آئیں، اِس بات پر غور کریں کہ ہم خدا کی خدمت میں اپنی خوشی قائم رکھنے کے لیے بائبل کو کیسے کام میں لا سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اِس مضمون کے ذریعے آپ کو ذاتی طور پر بڑا فائدہ ہو۔ اِس کے علاوہ آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ آپ دوسروں کی حوصلہافزائی کیسے کر سکتے ہیں۔
بائبل کی مدد سے اپنی خوشی برقرار رکھیں
۵. اپنی خوشی قائم رکھنے کے لیے ہمیں خود کو کس کسوٹی پر پرکھنا چاہیے؟
۵ پولُس رسول نے کچھ ایسی باتوں کا ذکر کِیا جن پر غور کرنے سے ہم اپنی خوشی برقرار رکھ سکیں گے۔ اُنہوں نے کُرنتھس کی کلیسیا کو نصیحت کی: ”اپنے آپ کو آزماؤ کہ ایمان پر ہو یا نہیں۔“ (۲-کر ۱۳:۵) اِس آیت میں ایمان سے مراد وہ تمام تعلیمات ہیں جو بائبل میں پائی جاتی ہیں۔ اگر ہماری باتیں اور کام اِن تعلیمات کے مطابق ہیں تو ہم آزمائش میں کھرے اُتریں گے اور یہ ثابت ہو جائے گا کہ ہم ’ایمان پر ہیں۔‘ بےشک ہمیں اپنی زندگی میں تمام مسیحی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم کچھ حکم مانیں گے اور کچھ نہیں مانیں گے۔—یعقو ۲:۱۰، ۱۱۔
۶. ہمیں یہ کیوں آزمانا چاہیے کہ آیا ہم ایمان پر ہیں یا نہیں؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
۶ آپ شاید خود کو پرکھنا نہ چاہیں کیونکہ آپ کو ڈر ہے کہ کہیں آپ اِس آزمائش میں ناکام نہ ہو جائیں۔ لیکن ہمارے بارے میں ہمارا اپنا نظریہ زیادہ اہم نہیں بلکہ خدا کا نظریہ زیادہ اہم ہے اور اُس کے خیال ہمارے خیالوں سے کہیں بلند ہیں۔ (یسع ۵۵:۸، ۹) وہ اپنے بندوں کی جانچ کرتا ہے۔ لیکن وہ اُن میں نقص نکالنے کے لیے ایسا نہیں کرتا بلکہ وہ اُن کی خوبیاں دیکھنا چاہتا ہے اور اُن کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ جب آپ پاک کلام کے ذریعے خود کو آزماتے ہیں کہ آیا آپ ’ایمان پر ہیں یا نہیں‘ تو آپ خود کو یہوواہ خدا کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یوں آپ اِس سوچ کو ترک کر دیں گے کہ خدا آپ کی قدر نہیں کرتا اور یہ سوچ اپنا لیں گے کہ خدا آپ کو بیشقیمت خیال کرتا ہے۔ اِس طرح آپ کی زندگی میں ایسی روشنی آئے گی جیسی پردہ ہٹنے سے اندھیرے کمرے میں آتی ہے۔
۷. ہمیں خدا کے اُن وفادار بندوں کی مثال پر غور کرنے سے کیا فائدہ ہوگا جن کا بائبل میں ذکر کِیا گیا ہے؟
۷ خود کو آزمانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم خدا کے اُن وفادار بندوں کی مثال پر غور کریں جن کا بائبل میں ذکر کِیا گیا ہے۔ اُن کے حالات اور احساسات کا موازنہ اپنے حالات اور احساسات سے کریں۔ اور پھر یہ دیکھیں کہ اگر آپ اُن کی جگہ ہوتے تو آپ کیا کرتے۔ آئیں، ہم تین لوگوں کی مثال پر غور کریں۔ ایسا کرنے سے ہم یہ دیکھ سکیں گے کہ آیا ہم ’ایمان پر ہیں یا نہیں‘ اور یوں ہم اپنی خوشی برقرار رکھ سکیں گے۔
غریب بیوہ کی مثال
۸، ۹. (الف) غریب بیوہ کے حالات کیسے تھے؟ (ب)غریب بیوہ کن باتوں کے بارے میں سوچ کر بےحوصلہ ہو سکتی تھی؟
۸ یسوع مسیح نے ہیکل میں ایک غریب بیوہ کو دیکھا۔ اُس بیوہ کی مثال پر غور کرنے سے ہم مشکلات کے باوجود اپنی خوشی قائم رکھ سکتے ہیں۔ (لوقا ۲۱:۱-۴ کو پڑھیں۔) ذرا اُس بیوہ کے حالات کا تصور کریں۔ اُس نے نہ صرف اپنا شوہر کھو دیا تھا بلکہ وہ ایک ایسے معاشرے میں بھی رہ رہی تھی جس میں مذہبی رہنما بےسہارا لوگوں کی مدد کرنے کی بجائے اُن کے ”گھروں کو دبا بیٹھتے“ تھے۔ (لو ۲۰:۴۷) اُس کی غربت کا اندازہ اِس بات سے ہوتا ہے کہ اُس نے جتنے پیسے عطیے کے طور پر دیے اُتنے پیسے ایک مزدور چند منٹوں میں کما لیتا تھا۔
۹ ذرا تصور کریں کہ جب وہ بیوہ اپنے ہاتھ میں دو سکے لیے ہیکل کے صحن میں داخل ہوئی تو اُسے کیسا محسوس ہوا ہوگا۔ کیا وہ یہ سوچ رہی تھی کہ ”میرا ہدیہ تو بہت ہی معمولی ہے لیکن اگر میرا شوہر زندہ ہوتا تو مَیں زیادہ ہدیہ دیتی“؟ کیا اُسے اِس بات سے شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ دوسرے لوگ اِتنا زیادہ عطیہ ڈال رہے ہیں اور وہ بہت ہی کم؟ کیا وہ یہ سوچ رہی تھی کہ دوسروں کے ہدیے کے مقابلے میں اُس کے ہدیے کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہوگی؟ ہو سکتا ہے کہ اُس کے ذہن میں ایسے سوال آئے ہوں پھر بھی سچی عبادت کے فروغ کے لیے وہ جو کچھ کر سکتی تھی، اُس نے کِیا۔
۱۰. یسوع مسیح نے کیسے ظاہر کِیا کہ یہوواہ خدا کی نظر میں اُس بیوہ کی بڑی قدر ہے؟
۱۰ یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ یہوواہ خدا اُس بیوہ اور اُس کے ہدیے دونوں کی بڑی قدر کرتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اُس بیوہ نے ”سب [امیروں] سے زیادہ ڈالا“ ہے۔ اُس بیوہ کے سکے دوسرے لوگوں کے پیسوں کے ساتھ مل گئے۔ بعد میں جب یہ چھوٹے سکے خزانچیوں کی نظر سے گزرے تو اُنہیں یہ گمان بھی نہیں تھا کہ یہوواہ کی نظر میں اِن سکوں کی اور اِنہیں ڈالنے والے کی کتنی قدر ہے۔ لیکن یسوع مسیح نے اِس بیوہ کی خاص طور پر تعریف کی۔ اِس بیوہ کے بارے میں یہوواہ خدا کا نظریہ زیادہ اہم تھا، دوسرے لوگوں کا یا اُس بیوہ کا اپنا نظریہ اہم نہیں تھا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا آپ ایمان پر ہیں یا نہیں، کیا آپ اِس بیوہ کی مثال کو اِستعمال کر سکتے ہیں؟
۱۱. آپ بیوہ کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۱ آپ کے حالات اِس بات پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں کہ آپ خدا کی خدمت میں کتنا کچھ کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر بعض بہنبھائی بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے مُنادی کے کام میں زیادہ وقت صرف نہیں کر پاتے۔ لہٰذا شاید وہ یہ سوچیں کہ وہ تو بہت تھوڑی مُنادی کرتے ہیں اِس لیے اُن کے رپورٹ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن کیا اُن کی یہ سوچ درست ہے؟ اگر آپ بوڑھے یا بیمار نہیں بھی ہیں تو بھی شاید آپ یہ سوچیں کہ ”خدا کے بندے ہر سال مُنادی کے کام میں جتنا وقت صرف کرتے ہیں، اُس میں میرے چند گھنٹے شامل ہونے سے بھلا کیا فرق پڑے گا؟“ ایسی صورت میں ہم بیوہ کی مثال سے یہ سیکھتے ہیں کہ ہم یہوواہ خدا کے لیے جو بھی کام کرتے ہیں، وہ اُن کی قدر کرتا ہے، خاص طور پر ایسے کام جو ہم مشکل حالات میں کرتے ہیں۔ پچھلے سال آپ نے یہوواہ خدا کی جو خدمت کی، ذرا اُسے یاد کریں۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ آپ کو مُنادی یا اِجلاس میں جانے کے لیے کوئی قربانی دینی پڑی؟ آپ یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا اُس وقت کی بڑی قدر کرتا ہے جو آپ نے اِن کاموں میں صرف کِیا۔ جب آپ بھی غریب بیوہ کی طرح خدا کی خدمت کی خاطر وہ سب کچھ کرتے ہیں جو آپ کے بس میں ہے تو اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ’ایمان پر ہیں۔‘
”میری جان کو لے لے“
۱۲-۱۴. (الف) ایلیاہ نبی اپنے بارے میں کیسا محسوس کرنے لگے؟ (ب)ایلیاہ نبی ایسے احساسات کا شکار کیوں ہو گئے؟
۱۲ ایلیاہ نبی، یہوواہ خدا کے وفادار بندے تھے اور اُس پر مضبوط ایمان رکھتے تھے۔ پھر بھی ایک بار وہ اِتنے مایوس ہو گئے کہ اُنہوں نے خدا سے موت مانگی۔ اُنہوں نے کہا: ”بس ہے۔ اب تُو اَے [یہوواہ] میری جان کو لے لے۔“ (۱-سلا ۱۹:۴) جن لوگوں کو کبھی ایسی مایوسی کا سامنا نہیں ہوا، اُنہیں شاید ایلیاہ کی یہ بات بڑی ہی بےتکی اور نامناسب معلوم ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بات ایلیاہ کے دل سے نکلی تھی۔ البتہ غور کریں کہ یہوواہ خدا نے ایلیاہ کو ڈانٹا نہیں بلکہ بڑے پیار سے اُن کی مدد کی۔
۱۳ ایلیاہ اِتنے مایوس کیوں ہو گئے تھے؟ ابھی کچھ دیر پہلے اُنہوں نے بعل کے پجاریوں اور اِسرائیلیوں کو کرمل کے پہاڑ پر جمع کرکے یہ ثابت کِیا تھا کہ یہوواہ ہی سچا خدا ہے۔ اِس کے بعد اُنہوں نے بعل کے ۴۵۰ پجاریوں کو موت کے گھاٹ اُتارا تھا۔ (۱-سلا ۱۸:۳۷-۴۰) ایلیاہ کو اُمید تھی کہ لوگ اب یہوواہ کی طرف لوٹ آئیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔ ملکہ اِیزِبل نے ایلیاہ کو پیغام بھیجا کہ وہ اُنہیں زندہ نہیں چھوڑے گی۔ یہ سُن کر ایلیاہ اپنی جان بچانے کے لیے یہوداہ کے بیابان کو بھاگ گئے۔—۱-سلا ۱۹:۲-۴۔
۱۴ وہاں تنہائی میں ایلیاہ نے سوچا کہ نبی کے طور پر اُن کی خدمت بالکل بےکار ثابت ہوئی ہے۔ اِس لیے اُنہوں نے یہوواہ خدا سے کہا: ”مَیں اپنے باپدادا سے بہتر نہیں ہوں۔“ اُن کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے مرے ہوئے باپدادا کی ہڈیوں کی طرح خود کو بےکار محسوس کر رہے ہیں۔ دراصل اُنہوں نے اپنے ہی معیاروں کے مطابق خود کو آزمایا اور اِس نتیجے پر پہنچے کہ یہوواہ اور دوسرے لوگوں کی نظر میں اب اُن کی کوئی قدر نہیں رہی۔
۱۵. خدا نے ایلیاہ نبی کو کیسے یقین دِلایا کہ وہ اُن کی قدر کرتا ہے؟
۱۵ لیکن یہوواہ خدا، ایلیاہ کے بارے میں بالکل فرق محسوس کر رہا تھا۔ اُس کی نظر میں ایلیاہ کی ابھی بھی بڑی اہمیت تھی اور اُس نے اِس بات کو ایلیاہ پر ظاہر بھی کِیا۔ اُس نے ایک فرشتے کے ذریعے ایلیاہ کی حوصلہافزائی کی اور اُن کو خوراک اور پانی بھی مہیا کِیا۔ یوں ایلیاہ کو اِتنی طاقت ملی کہ وہ ۴۰ دن کا سفر کرکے کوہِحورب تک جا سکے۔ اِس کے علاوہ خدا نے ایلیاہ نبی کی یہ غلطفہمی دُور کی کہ اِسرائیل میں اب اُن کے سوا کوئی اَور شخص یہوواہ خدا کا وفادار نہیں رہا۔ خدا نے اُنہیں ایک نیا کام سونپا اور ایلیاہ نے اِسے قبول کر لیا۔ ایلیاہ کو یہوواہ خدا کی مدد سے بڑا حوصلہ ملا اور اُنہوں نے نبی کے طور پر اپنی خدمت کو جوشوجذبے سے جاری رکھا۔—۱-سلا ۱۹:۵-۸، ۱۵-۱۹۔
۱۶. یہوواہ خدا کن طریقوں سے آپ کو سنبھالتا آیا ہے؟
۱۶ ایلیاہ کی مثال پر غور کرنے سے آپ خود کو آزما سکیں گے کہ آیا آپ ایمان پر ہیں یا نہیں اور یوں آپ اپنی خوشی برقرار رکھ سکیں گے۔ پہلے تو اِس بات پر سوچبچار کریں کہ یہوواہ خدا کن طریقوں سے آپ کو سنبھالتا آیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی بزرگ یا کسی اَور بہن یا بھائی نے ضرورت کے وقت آپ کی حوصلہافزائی کی ہو۔ (گل ۶:۲) یا پھر شاید آپ کو بائبل سے، ہماری کسی کتاب یا رسالے سے یا اِجلاسوں سے طاقت ملی ہو۔ لہٰذا آئندہ جب آپ کو کسی ایسے طریقے سے مدد ملے تو اِس بات کو یاد رکھیں کہ اصل میں یہ مدد کہاں سے آ رہی ہے اور پھر اپنے آسمانی باپ کا شکر ادا کریں۔—زبور ۱۲۱:۱، ۲۔
۱۷. یہوواہ خدا کس بِنا پر اپنے بندوں کی قدر کرتا ہے؟
۱۷ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم اپنے معیاروں کے مطابق خود کو آزماتے ہیں تو ہم غلط نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ خدا ہمیں کیسا خیال کرتا ہے۔ (رومیوں ۱۴:۴ کو پڑھیں۔) یہوواہ خدا ہماری محبت اور وفاداری کی قدر کرتا ہے۔ وہ ہماری قدر کا اندازہ اِس بات سے نہیں لگاتا کہ ہم نے اُس کی خدمت میں کیا کچھ کِیا ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ ایلیاہ کی طرح ہم خود پہچان نہیں پاتے کہ ہم نے خدا کی خدمت میں کتنا کچھ انجام دیا ہے۔ کلیسیا میں ضرور ایسے بہنبھائی ہوں گے جن کو آپ کی باتوں اور کاموں سے فائدہ ہوا ہے۔ اور مُنادی کے کام کے ذریعے بھی آپ نے بہت سے لوگوں کو سچائی سیکھنے کا موقع دیا ہے۔
۱۸. یہوواہ خدا نے آپ کو جو بھی کام دیا ہے، اُس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟
۱۸ تیسری بات یہ ہے کہ یہوواہ خدا آپ کو جو بھی کام سونپتا ہے، اُسے اِس بات کا ثبوت سمجھیں کہ وہ آپ کے ساتھ ہے۔ (یرم ۲۰:۱۱) ہو سکتا ہے کہ ایلیاہ کی طرح آپ بھی اِس لیے مایوس ہو جائیں کیونکہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی خدمت بےکار ہے یا پھر آپ کو لگتا ہے کہ خدا کی خدمت کے حوالے سے آپ کے کچھ منصوبے پورے نہیں ہو سکتے۔ اِس کے باوجود آپ کو ایک بہت بڑا اعزاز حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ خدا کے نام سے کہلاتے ہیں اور اُس کی بادشاہت کی مُنادی کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمیشہ یہوواہ خدا کے وفادار رہیں۔ یوں یسوع مسیح کی ایک تمثیل کے یہ الفاظ آپ پر پورے ہوں گے: ”اپنے مالک کی خوشی میں شریک ہو۔“—متی ۲۵:۲۳۔
”مصیبتزدہ کی دُعا“
۱۹. زبور ۱۰۲ کا لکھنے والا کس حالت میں تھا؟
۱۹ زبور ۱۰۲ کا لکھنے والا بہت دُکھی تھا۔ وہ ”مصیبتزدہ“ تھا اور جسمانی اور ذہنی کرب سے گزر رہا تھا۔ اُس میں اپنے مسئلوں سے نپٹنے کی طاقت نہ رہی۔ (زبور ۱۰۲ کی تمہید) اُس کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تنہائی اور دُکھ میں ڈوبا ہوا تھا۔ (زبور ۱۰۲:۳، ۴، ۶، ۱۱) اُسے لگ رہا تھا کہ یہوواہ خدا اُس سے ناراض ہے۔—زبور ۱۰۲:۱۰۔
۲۰. دُکھ میں مبتلا شخص کی دُعا کا کیا اثر ہو سکتا ہے؟
۲۰ اِس کٹھن صورتحال کے باوجود زبور نویس اپنی زندگی کے ذریعے یہوواہ خدا کی بڑائی کرتا رہا۔ (زبور ۱۰۲:۱۹-۲۱ کو پڑھیں۔) اِس زبور سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ ”ایمان پر“ ہیں، اُنہیں بھی بعض اوقات اپنے دُکھ اور تکلیف کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ زبور نویس کو لگا کہ وہ ’اُس پرندے کی مانند ہے جو چھت پر اکیلا ہو۔‘ (زبور ۱۰۲:۷، نیو اُردو بائبل ورشن) اگر آپ کو ایسا محسوس ہو تو زبور نویس کی طرح یہوواہ خدا کو اپنے احساسات کے بارے میں بتائیں۔ ”مصیبتزدہ کی دُعا“ یعنی آپ کی دُعا سے آپ کو دُکھ اور پریشانی سے نپٹنے کی طاقت ملے گی۔ یہوواہ خدا کا وعدہ ہے کہ وہ ’بےکسوں کی دُعا پر توجہ کرے گا اور اُن کی دُعا کو حقیر نہ جانے گا۔‘ (زبور ۱۰۲:۱۷) اِس وعدے پر پورا بھروسا رکھیں۔
۲۱. ہم مایوسی کے عالم سے کیسے نکل سکتے ہیں؟
۲۱ زبور ۱۰۲ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہم مایوسی کے عالم سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ زبور نویس نے اپنا دھیان اپنی مصیبتوں سے ہٹا کر یہوواہ خدا کے ساتھ اپنی دوستی پر لگایا۔ (زبور ۱۰۲:۱۲، ۲۷) اُسے اِس بات سے بڑی تسلی ملی کہ یہوواہ خدا ہمیشہ اپنے بندوں کو مشکلات میں سنبھالتا ہے۔ اگر آپ کسی مشکل کی وجہ سے خدا کی خدمت میں اِتنا زیادہ نہیں کر سکتے جتنا آپ کرنا چاہتے ہیں تو دُعا کریں۔ خدا سے اِلتجا کریں کہ وہ آپ کی دُعا نہ صرف اِس لیے سنے کہ آپ کو آرام ملے بلکہ اِس لیے بھی کہ ”اُس کی تعریف“ ہو۔—زبور ۱۰۲:۲۰، ۲۱۔
۲۲. ہم سب یہوواہ خدا کو خوش کیسے کر سکتے ہیں؟
۲۲ ہم نے دیکھا ہے کہ ہم اپنے ایمان کو آزمانے اور اپنی خوشی برقرار رکھنے کے لیے بائبل کو کیسے کام میں لا سکتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم فیالحال مایوسی اور دُکھ سے مکمل طور پر بچ نہیں سکتے۔ پھر بھی ہم سب یہوواہ خدا کی خدمت میں ثابتقدم رہنے سے اُسے خوش کر سکتے ہیں اور یوں نجات حاصل کر سکتے ہیں۔—متی ۲۴:۱۳۔