مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ قربانی کا جذبہ کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟‏

آپ قربانی کا جذبہ کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟‏

‏”‏اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا اِنکار کرے۔‏“‏—‏متی ۱۶:‏۲۴‏۔‏

۱.‏ یسوع مسیح نے قربانی دینے کے سلسلے میں بہترین مثال کیسے قائم کی؟‏

جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو اُنہوں نے قربانی دینے کے سلسلے میں بہترین مثال قائم کی۔‏ خدا کی مرضی پر چلنے کے لیے وہ اپنے آرام اور خواہشات کو قربان کر دیتے تھے۔‏ (‏یوح ۵:‏۳۰‏)‏ سُولی پر اپنی جان دے کر اُنہوں نے ثابت کِیا کہ اُن کے قربانی کے جذبے کی کوئی حد نہیں۔‏—‏فل ۲:‏۸‏۔‏

۲.‏ ‏(‏الف)‏ ہم قربانی کا جذبہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ہمیں یہ جذبہ کیوں ظاہر کرنا چاہیے؟‏

۲ یسوع مسیح کے پیروکار ہونے کے ناتے ہمیں بھی قربانی کا جذبہ ظاہر کرنا چاہیے۔‏ جس شخص میں قربانی کا جذبہ ہوتا ہے،‏ وہ دوسروں کی خاطر اپنی خواہشات قربان کرنے کو تیار رہتا ہے۔‏ ایسا شخص خود غرض نہیں ہوتا۔‏ ‏(‏متی ۱۶:‏۲۴ کو پڑھیں۔‏)‏ ایک بےغرض شخص اپنے احساسات اور ترجیحات کی بجائے دوسروں کے احساسات اور ترجیحات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔‏ (‏فل ۲:‏۳،‏ ۴‏)‏ یسوع مسیح نے سکھایا کہ قربانی دینے کے جذبے کا ہماری عبادت سے گہرا تعلق ہے۔‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏ کیونکہ یہ جذبہ محبت کی بدولت پروان چڑھتا ہے۔‏ اور محبت یسوع مسیح کے سچے شاگردوں کی پہچان ہے۔‏ (‏یوح ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ اِس کے علاوہ ہمیں بےغرض اور بےلوث برادری کا حصہ ہونے کی وجہ سے بہت سی برکتیں ملتی ہیں۔‏

۳.‏ ہمارا قربانی کا جذبہ کیوں ٹھنڈا پڑ سکتا ہے؟‏

۳ لیکن ایک ایسا دُشمن ہے جو ہمارے قربانی کے جذبے پر آہستہ‌آہستہ غالب آ سکتا ہے۔‏ ہمارا  یہ دُشمن خودغرضی ہے۔‏ ذرا سوچیں کہ آدم اور حوا نے کس طرح خودغرضی سے کام لیا تھا۔‏ حوا خدا کی مانند بننا چاہتی تھیں اور آدم اپنی بیوی کی مرضی کے خلاف نہیں جانا چاہتے تھے۔‏ یوں اُن دونوں نے صرف اپنے فائدے کا سوچا۔‏ (‏پید ۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ آدم اور حوا کو گمراہ کرنے کے بعد شیطان نے اَور بہت سے لوگوں کو خودغرضی کے پھندے میں پھنسایا ہے۔‏ اُس نے تو یسوع مسیح کو بھی اِسی پھندے میں پھنسانے کی کوشش کی تھی۔‏ (‏متی ۴:‏۱-‏۹‏)‏ شیطان کا یہ حربہ آج بھی کامیاب ہے۔‏ لوگ زندگی کے مختلف پہلوؤں میں خودغرضی سے کام لیتے ہیں۔‏ لہٰذا ہمیں خبردار رہنا چاہیے کیونکہ خودغرضی کی وبا ہمیں بھی متاثر کر سکتی ہے۔‏—‏افس ۲:‏۲‏۔‏

۴.‏ ‏(‏الف)‏ کیا ہم خودغرضی پر ابھی پوری طرح قابو پا سکتے ہیں؟‏ وضاحت کریں۔‏ (‏ب)‏اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

۴ ہم خودغرضی کو زنگ سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔‏ اگر لوہے کی کسی چیز کو کُھلی فضا میں رکھ دیا جائے تو اُسے زنگ لگنے لگتا ہے۔‏ اگر اِسے روکنے کے لیے کچھ نہ کِیا جائے تو وہ چیز پوری طرح خراب اور بےکار ہو سکتی ہے۔‏ ہمیں بھی پیدائشی طور پر خودغرضی کا زنگ لگا ہوا ہے۔‏ اگرچہ ہم ابھی پوری طرح اِس پر قابو نہیں پا سکتے پھر بھی ہمیں اِس کے خطرات سے خبردار رہنا چاہیے اور اِس کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنی چاہیے۔‏ (‏۱-‏کر ۹:‏۲۶،‏ ۲۷‏)‏ ہم یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ ہمارے اندر خودغرضی کے آثار پائے جاتے ہیں؟‏ ہم قربانی کے جذبے کو کیسے بڑھا سکتے ہیں؟‏

بائبل کے ذریعے اپنے اندر خودغرضی کے آثار کو پہچانیں

۵.‏ ‏(‏الف)‏ بائبل ایک آئینے کی طرح کیسے ہے؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏اگر ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے اندر خودغرضی کے آثار ہیں یا نہیں تو ہمیں کیا کرنے سے گریز کرنا چاہیے؟‏

۵ جس طرح ہم آئینے میں اپنی شکلوصورت کا جائزہ لیتے ہیں اُسی طرح ہم اپنے اندر کے اِنسان کا جائزہ لینے کے لیے بائبل کو اِستعمال کر سکتے ہیں۔‏ اور اگر ہمیں اِس میں کوئی نقص نظر آتا ہے تو ہم اِسے ٹھیک کر سکتے ہیں۔‏ ‏(‏یعقوب ۱:‏۲۲-‏۲۵ کو پڑھیں۔‏)‏ لیکن آئینے سے ہمیں فائدہ تبھی ہوگا جب ہم اِسے صحیح طرح اِستعمال کریں گے۔‏ مثال کے طور پر اگر ہم آئینے پر سرسری سی نگاہ ڈالتے ہیں تو شاید ہم ایک چھوٹا مگر نمایاں داغ نہ دیکھ پائیں۔‏ یا پھر ہو سکتا ہے کہ ہم آئینے کو ترچھے زاویے سے دیکھیں اور اِس میں ہمیں کوئی اَور شخص نظر آئے۔‏ اِسی طرح اگر ہم اپنے اندر خودغرضی جیسی خامیوں کو پہچاننے کے لیے بائبل کو اِستعمال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اِسے کبھی‌کبھار نہیں بلکہ باقاعدگی سے پڑھنا چاہیے اور اِس پر سوچ‌بچار کرنا چاہیے۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں اِسے دوسروں کی خامیاں دیکھنے کے لیے اِستعمال نہیں کرنا چاہیے۔‏

۶.‏ ہم ”‏کامل شریعت“‏ پر کیسے قائم رہ سکتے ہیں؟‏

۶ ہو سکتا ہے کہ بائبل کو ہر روز پڑھنے کے باوجود ہم یہ بھانپ نہ سکیں کہ خودغرضی ہمارے اندر پَل رہی ہے۔‏ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟‏ جب یعقوب نے آئینے کی مثال دی تو اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ اُس شخص نے اپنے آپ کو آئینے میں ٹھیک طرح سے دیکھا نہیں تھا۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے لکھا کہ وہ شخص ’‏اپنے آپ کو دیکھتا ہے۔‏‘‏ یعقوب نے یہاں جو یونانی لفظ اِستعمال کِیا،‏ وہ جانچ کرنے یا جائزہ لینے کے معنی رکھتا ہے۔‏ تو پھر اُس شخص نے کیا غلطی کی؟‏ یعقوب نے بتایا کہ وہ شخص ”‏چلا جاتا اور فوراً بھول جاتا ہے کہ مَیں کیسا تھا۔‏“‏ اُس شخص نے خود کو آئینے میں دیکھا مگر جو نقص اُسے نظر آیا،‏ وہ اُسے ٹھیک کیے بغیر ہی چلا گیا۔‏ اِس کے برعکس یعقوب نے ایک اَور شخص کا ذکر کِیا جو ”‏آزادی کی کامل شریعت پر غور سے نظر کرتا رہتا ہے۔‏“‏ ایسا شخص خدا کے کلام کو نظرانداز کرنے کی بجائے اِس کی تعلیمات پر قائم رہتا ہے اور اِن پر عمل کرتا رہتا ہے۔‏ یسوع مسیح نے بھی اِسی بات پر زور دیتے ہوئے کہا:‏ ”‏اگر تُم میرے کلام پر قائم رہو گے تو حقیقت میں میرے شاگرد ٹھہرو گے۔‏“‏—‏یوح ۸:‏۳۱‏۔‏

۷.‏ اپنے اندر خودغرضی کے آثار کو پہچاننے کے لیے ہم بائبل کو کیسے اِستعمال کر سکتے ہیں؟‏

۷ خودغرضی کے خلاف جنگ میں کامیاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پورے دھیان سے بائبل کو پڑھیں۔‏ یوں آپ اپنی زندگی کے ایسے پہلوؤں کو دیکھ سکیں گے جن میں آپ کو بہتری لانے کی ضرورت ہے۔‏ لیکن صرف اِتنا ہی کافی نہیں ہے۔‏ جب آپ بائبل میں کسی صورتحال کے بارے میں پڑھتے ہیں تو اُس پر گہری تحقیق کریں۔‏ پھر اپنے آپ کو اُس صورتحال میں رکھ کر خود سے  پوچھیں:‏ ”‏اگر مَیں اِس صورتحال میں ہوتا تو مَیں کیا کرتا؟‏ کیا مَیں صحیح قدم اُٹھاتا؟‏“‏ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب آپ بائبل کی کسی بات پر سوچ‌بچار کر لیتے ہیں تو پھر اُس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں۔‏ (‏متی ۷:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ آئیں،‏ ہم بادشاہ ساؤل اور پطرس رسول کی مثال پر غور کریں اور دیکھیں کہ قربانی کے جذبے کو قائم رکھنے کے سلسلے میں ہم اِن دونوں سے کیا سیکھتے ہیں۔‏

ساؤل کی بُری مثال پر نہ چلیں

۸.‏ جب ساؤل،‏ اِسرائیل کے بادشاہ بنے تو وہ کس طرح کے اِنسان تھے؟‏ اور ہم یہ کیسے جانتے ہیں؟‏

۸ بنی‌اِسرائیل کے بادشاہ ساؤل کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ خودغرضی ہمارے قربانی کے جذبے کو دیمک کی طرح چاٹ سکتی ہے۔‏ جب ساؤل،‏ اِسرائیل کے بادشاہ بنے تو وہ بہت ہی خاکسار اِنسان تھے۔‏ (‏۱-‏سمو ۹:‏۲۱‏)‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے اُن اِسرائیلیوں کو سزا نہ دی جو اُن کی حکمرانی کے خلاف تھے حالانکہ وہ ایسا کر بھی سکتے تھے کیونکہ خدا نے اُنہیں بادشاہ مقرر کِیا تھا۔‏ (‏۱-‏سمو ۱۰:‏۲۷‏)‏ اُنہوں نے عمونیوں کے خلاف جنگ لڑنے کے سلسلے میں خدا کی پاک روح کی رہنمائی کو قبول کِیا۔‏ یوں اُنہوں نے جنگ میں فتح حاصل کی اور بڑی خاکساری سے یہ تسلیم کِیا کہ اِس فتح کا سہرا یہوواہ کے سر ہے۔‏—‏۱-‏سمو ۱۱:‏۶،‏ ۱۱-‏۱۳‏۔‏

۹.‏ ساؤل میں خودغرضی کیسے پیدا ہو گئی؟‏

۹ جس طرح زنگ آہستہ‌آہستہ لگتا ہے اُسی طرح خودغرضی اور غرور نے بھی آہستہ‌آہستہ ساؤل کے دل میں جڑ پکڑ لی۔‏ جب اُنہوں نے عمالیقیوں کو شکست دی تو اُنہوں نے خدا کی فرمانبرداری کرنے کی بجائے اپنی ذات کو زیادہ اہمیت دی۔‏ لالچ میں آ کر ساؤل نے لُوٹ کا مال رکھ لیا اور یوں خدا کا حکم توڑا۔‏ اور غرور میں آ کر اُنہوں نے اپنے لیے ایک یادگار کھڑی کی۔‏ (‏۱-‏سمو ۱۵:‏۳،‏ ۹،‏ ۱۲‏)‏ جب سموئیل نبی نے اُن کو بتایا کہ یہوواہ خدا اُن سے ناراض ہے تو ساؤل نے اپنی صفائیاں پیش کرنا شروع کر دیں۔‏ اُنہوں نے خدا کے حکم کے اُس پہلو پر زور دیا جس پر اُنہوں نے عمل کِیا تھا اور اپنی غلطی کے لیے دوسروں کو قصوروار ٹھہرایا۔‏ (‏۱-‏سمو ۱۵:‏۱۶-‏۲۱‏)‏ ساؤل کا غرور اِس بات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہیں خدا کو خوش کرنے کی نہیں بلکہ اپنی عزت بچانے کی فکر تھی۔‏ (‏۱-‏سمو ۱۵:‏۳۰‏)‏ ہم ساؤل کی مثال کو ایک آئینے کی طرح کیسے اِستعمال کر سکتے ہیں تاکہ ہم اپنے قربانی کے جذبے کو قائم رکھ سکیں؟‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ ‏(‏الف)‏ قربانی کے جذبے کو قائم رکھنے کے سلسلے میں ہم ساؤل کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ہم ساؤل جیسی روِش اِختیار کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

۱۰ ساؤل کی مثال سے ہم پہلی بات یہ سیکھتے ہیں کہ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اگر ہم نے ماضی میں قربانی کا جذبہ ظاہر کِیا ہے تو ہم کسی کوشش کے بغیر آئندہ بھی ایسا کرتے رہیں گے۔‏ (‏۱-‏تیم ۴:‏۱۰‏)‏ یاد رکھیں کہ ساؤل نے کچھ عرصے تک تو قربانی کا جذبہ ظاہر کِیا تھا اور اُنہیں خدا کی خوشنودی حاصل تھی۔‏ لیکن جب اُن کے دل میں خودغرضی نے جڑ پکڑ لی تو اُنہوں نے اُس کے خلاف کوئی قدم نہ اُٹھایا۔‏ لہٰذا یہوواہ خدا نے اُن کی نافرمانی کی وجہ سے اُنہیں رد کر دیا۔‏

۱۱ دوسری بات ہم یہ سیکھتے ہیں کہ ہمیں اپنی زندگی کے اُن پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے جن میں ہمیں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔‏ اگر ہم صرف اُن پہلوؤں پر زور دیتے ہیں جن میں ہم اچھے ہیں تو ہم ایسے شخص کی طرح ہوں گے جو آئینے میں اپنے نئے کپڑوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے مگر اپنے چہرے پر لگی ہوئی مٹی کو نہیں دیکھتا۔‏ شاید ہم ساؤل جتنے خودغرض تو نہ ہوں پھر بھی ہمیں ہر ایسی سوچ سے دُور رہنے کی کوشش کرنی چاہیے جس سے ہم اُن جیسی غلطی کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔‏ جب ہماری اِصلاح کی جاتی ہے تو ہمیں اپنی غلطی کے لیے کوئی عُذر پیش نہیں کرنا چاہیے،‏ مسئلے کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور دوسروں کو قصوروار نہیں ٹھہرانا چاہیے۔‏ ساؤل نے تو اِصلاح کو قبول نہیں کِیا تھا لیکن ہمیں ایسا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‏‏—‏زبور ۱۴۱:‏۵ کو پڑھیں۔‏

۱۲.‏ اگر ہم سے کوئی سنگین گُناہ ہو جاتا ہے تو قربانی کا جذبہ ظاہر کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟‏

۱۲ اگر ہم سے کوئی سنگین گُناہ ہو جاتا ہے تو قربانی کا جذبہ ظاہر کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟‏ ساؤل کو اِس بات کی فکر تھی کہ لوگ اُن کے بارے میں کیا سوچیں گے اور اِس وجہ سے اُنہوں نے کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھایا جس سے اُنہیں دوبارہ خدا کی خوشنودی  حاصل ہو جاتی۔‏ اِس کے برعکس اگر ہم اپنی ذات کو حد سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تو ہم مدد حاصل کرنے میں شرم محسوس نہیں کریں گے۔‏ (‏امثا ۲۸:‏۱۳؛‏ یعقو ۵:‏۱۴-‏۱۶‏)‏ اِس سلسلے میں ایک بھائی کی مثال پر غور کریں جسے ۱۲ سال کی عمر سے ہی فحش تصویریں دیکھنے کی عادت پڑ گئی تھی اور وہ تقریباً دس سال تک ایسا کرتا رہا۔‏ اُس نے بتایا:‏ ”‏اپنی بیوی اور بزرگوں کے سامنے اِس بات کا اِعتراف کرنا بڑا مشکل تھا۔‏ لیکن اِعتراف کرنے کے بعد میرے سینے سے بہت بڑا بوجھ اُتر گیا ہے۔‏ جب مَیں کلیسیا میں خادم نہ رہا تو میرے دوستوں کو مجھ سے بڑی مایوسی ہوئی۔‏ لیکن مَیں یہ جانتا ہوں کہ یہوواہ خدا پہلے کی نسبت اب میری خدمت سے زیادہ خوش ہے۔‏ اور اُس کا نظریہ میرے لیے سب سے اہم ہے۔‏“‏

پطرس رسول خودغرضی پر غالب آئے

۱۳،‏ ۱۴.‏ یہ کیسے ظاہر ہوا کہ پطرس رسول خودغرضی کی طرف مائل تھے؟‏

۱۳ جب یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کی تربیت کی تو ظاہر ہوا کہ پطرس رسول قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں۔‏ (‏لو ۵:‏۳-‏۱۱‏)‏ پھر بھی اُنہیں خودغرضی کے خلاف لڑنا پڑتا تھا۔‏ مثال کے طور پر جب یعقوب اور یوحنا رسول نے خدا کی بادشاہت میں یسوع مسیح کے ساتھ خاص مرتبہ حاصل کرنے کا منصوبہ گھڑا تو پطرس کو بہت غصہ آیا۔‏ شاید وہ سوچ رہے تھے کہ ایسا مرتبہ اُنہی کو ملنا چاہیے کیونکہ یسوع مسیح پہلے یہ کہہ چکے تھے کہ پطرس کو کوئی خاص کردار حاصل ہوگا۔‏ (‏متی ۱۶:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ بہرحال یسوع مسیح نے یعقوب اور یوحنا کے علاوہ پطرس اور دوسرے رسولوں کو بھی ایک دوسرے پر حکومت چلانے سے خبردار کِیا۔‏—‏مر ۱۰:‏۳۵-‏۴۵‏۔‏

۱۴ حالانکہ یسوع مسیح نے کئی بار پطرس کی اِصلاح کی پھر بھی پطرس کو حد سے زیادہ خوداعتمادی کے خلاف سخت جدوجہد کرنی پڑی۔‏ جب یسوع مسیح نے رسولوں سے کہا کہ ”‏تُم کچھ عرصے کے لیے مجھے چھوڑ دو گے“‏ تو پطرس نے دوسروں کو نیچا دِکھاتے ہوئے بڑی شیخی سے کہا کہ ”‏مَیں آپ کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔‏“‏ (‏متی ۲۶:‏۳۱-‏۳۳‏)‏ لیکن پطرس کا یہ دعویٰ بالکل غلط ثابت ہوا۔‏ اُسی رات وہ قربانی کا جذبہ ظاہر کرنے میں ناکام رہے۔‏ اُنہوں نے اپنی جان بچانے کے چکر میں تین بار یسوع مسیح کو پہچاننے سے اِنکار کر دیا۔‏—‏متی ۲۶:‏۶۹-‏۷۵‏۔‏

۱۵.‏ پطرس رسول کی مثال پر غور کرنے سے ہمیں حوصلہ کیوں ملتا ہے؟‏

۱۵‏-‏پطرس رسول کی غلطیوں کے باوجود ہمیں اُن کی مثال پر غور  کرنے سے بڑا حوصلہ ملتا ہے۔‏ وہ پاک روح کی مدد سے اور ذاتی کوشش سے اپنی خامیوں پر غالب آئے۔‏ اُنہوں نے اپنے جذبات پر قابو رکھنا اور بےغرض محبت ظاہر کرنا سیکھا۔‏ (‏گل ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ بعد میں وہ ایسے اِمتحانوں میں کامیاب ہوئے جو شاید اُن اِمتحانوں سے زیادہ مشکل تھے جن میں وہ پہلے ناکام ہوئے تھے۔‏ مثال کے طور پر جب پولُس رسول نے دوسروں کے سامنے اُن کی اِصلاح کی تو پطرس نے خاکساری سے اُسے قبول کِیا۔‏ (‏گل ۲:‏۱۱-‏۱۴‏)‏ اِصلاح پانے کے بعد پطرس نے یہ نہیں سوچا کہ پولُس نے اُن کو دوسروں کے سامنے نیچا دِکھایا ہے۔‏ وہ پولُس سے ناراض نہیں تھے بلکہ اُن سے محبت کرتے رہے۔‏ (‏۲-‏پطر ۳:‏۱۵‏)‏ پطرس کی مثال پر غور کرنے سے ہمارا قربانی کا جذبہ بڑھ سکتا ہے۔‏

اِصلاح پانے کے بعد پطرس نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟‏ کیا آپ بھی ایسا ردِعمل دِکھائیں گے؟‏ (‏پیراگراف ۱۵ کو دیکھیں۔‏)‏

۱۶.‏ آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت ہم قربانی کا جذبہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

۱۶ ذرا سوچیں کہ جب آپ پر کوئی آزمائش آتی ہے تو آپ کیسا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔‏ جب پطرس اور دوسرے رسولوں کو مُنادی کرنے کی وجہ سے قید کر دیا گیا اور کوڑے لگائے گئے تو وہ خوش ہوئے کیونکہ وہ ’‏یسوع مسیح کے نام کی خاطر بےعزت ہونے کے لائق ٹھہرے۔‏‘‏ (‏اعما ۵:‏۴۱‏)‏ پطرس رسول کی طرح آپ بھی اذیت کو قربانی کا جذبہ ظاہر کرنے کا موقع خیال کر سکتے ہیں اور یوں یسوع مسیح کے نقشِ‌قدم پر چل سکتے ہیں۔‏ ‏(‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۰،‏ ۲۱ کو پڑھیں۔‏)‏ اِسی طرح جب بزرگ آپ کی اِصلاح کرتے ہیں تو آپ اِسے بھی قربانی کا جذبہ ظاہر کرنے کا موقع خیال کر سکتے ہیں۔‏ ایسی صورت میں ناراض ہونے کی بجائے پطرس کی مثال پر عمل کریں۔‏—‏واعظ ۷:‏۹‏۔‏

۱۷،‏ ۱۸.‏ ‏(‏الف)‏ ہم خدا کی خدمت سے تعلق رکھنے والے منصوبوں کے سلسلے میں خود سے کیا پوچھ سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏اگر ہمیں اپنے دل میں کسی حد تک خودغرضی نظر آتی ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

۱۷ آپ کو پطرس کی مثال سے اُس صورت میں بھی فائدہ ہوگا اگر آپ خدا کی خدمت کو بڑھانے یا اِس میں بہتری لانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔‏ اگر آپ لگن سے اِن منصوبوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ظاہر ہوگا کہ آپ قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں۔‏ لیکن خبردار رہیں کہ آپ دوسروں کی نظر میں عزت پانے کی نیت سے ایسا نہ کریں۔‏ خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا مَیں خدا کی خدمت کے سلسلے میں منصوبے اِس لیے باندھتا ہوں کہ لوگ میری واہ واہ کریں اور مجھے زیادہ اِختیار حاصل ہو؟‏“‏ یاد رکھیں کہ یعقوب اور یوحنا نے اِسی خواہش کی بِنا پر یسوع مسیح سے خاص عہدہ مانگا تھا۔‏

۱۸ اگر آپ کو اپنے دل میں کسی حد تک خودغرضی نظر آتی ہے تو یہوواہ خدا سے مدد مانگیں تاکہ آپ اپنی سوچ اور نیت کو درست کر سکیں۔‏ اور پھر اپنی بڑائی چاہنے کی بجائے یہوواہ خدا کی بڑائی کرنے پر زیادہ زور دیں۔‏ (‏زبور ۸۶:‏۱۱‏)‏ ایسے کام کرنے کے منصوبے بھی بنائیں جن میں صرف آپ ہی نمایاں نظر نہ آئیں۔‏ مثال کے طور پر آپ روح کے پھل کے کسی ایسے پہلو میں بہتری لانے کی کوشش کر سکتے ہیں جس کی آپ میں کمی ہے۔‏ یا پھر اگر آپ اپنی تقریروں کو تو بڑی محنت سے تیار کرتے ہیں لیکن کنگڈم‌ہال کی صفائی کرنا آپ کو اِتنا اچھا نہیں لگتا تو رومیوں ۱۲‏:‏۱۶میں دی گئی ہدایت پر عمل کرنے کا منصوبہ بنائیں۔‏ ‏(‏اِس آیت کو پڑھیں۔‏)‏

۱۹.‏ ہمیں کیا یاد رکھنا چاہیے تاکہ ہم خود کو پاک کلام کے آئینے میں دیکھ کر مایوس نہ ہوں؟‏

۱۹ جب ہم پاک کلام کے آئینے میں خود کو دیکھتے ہیں اور ہمیں خودغرضی جیسی خامیاں نظر آتی ہیں تو شاید ہم مایوس ہو جائیں۔‏ اگر آپ کے ساتھ ایسا ہو تو یعقوب کی مثال کے اُس شخص کو یاد کریں جو خود کو آئینے میں دیکھ کر بھولتا نہیں۔‏ یعقوب نے اِس بات پر زور نہیں دیا کہ اُس شخص نے کتنی جلدی اپنی خامیوں کو دُور کر لیا یا پھر ساری کی ساری خامیوں کو ٹھیک کر لیا۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے کہا کہ وہ شخص ”‏کامل شریعت پر غور سے نظر کرتا رہتا ہے۔‏“‏ (‏یعقو ۱:‏۲۵‏)‏ اُس آدمی نے یاد رکھا کہ اُس نے آئینے میں کیا دیکھا ہے اور پھر اُس نے بہتری لانے کی کوشش جاری رکھی۔‏ لہٰذا اپنی خامیوں کی وجہ سے بےحوصلہ نہ ہوں۔‏ ‏(‏واعظ ۷:‏۲۰ کو پڑھیں۔‏)‏ کامل شریعت پر نظر کرتے رہیں اور قربانی کا جذبہ قائم رکھنے کی کوشش جاری رکھیں۔‏ یہوواہ خدا نے آپ کے بہت سے ایسے بہن‌بھائیوں کی مدد کی ہے جن میں طرح‌طرح کی خامیاں ہیں۔‏ لیکن اِن کے باوجود اُنہیں خدا کی خوشنودی اور برکت ملی ہے۔‏ لہٰذا اِعتماد رکھیں کہ یہوواہ خدا آپ کی بھی مدد کرے گا۔‏