مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ کی ہاں کا مطلب ہاں ہوتا ہے؟‏

کیا آپ کی ہاں کا مطلب ہاں ہوتا ہے؟‏

ذرا اِس منظر کا تصور کریں۔‏ ایک بزرگ جو ہسپتال رابطہ کمیٹی کا رُکن ہے،‏ اُس نے ایک جوان بھائی کے ساتھ اِتوار کی صبح مُنادی کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔‏ لیکن اتوار کی صبح اُس بزرگ کو ایک بھائی کا فون آتا ہے جس کی بیوی گاڑی کے حادثے میں زخمی ہو گئی ہے اور ہسپتال میں ہے۔‏ وہ بھائی اُس بزرگ سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اُسے کسی ایسے ڈاکٹر کے بارے میں بتائے جو خون کے بغیر علاج کرنے پر راضی ہوگا۔‏ بزرگ نے جس جوان بھائی کے ساتھ مُنادی کرنے کا بندوبست بنایا تھا،‏ بزرگ اُسے بتاتا ہے کہ وہ اُس کے ساتھ مُنادی کے لیے نہیں جا سکتا کیونکہ اِس ہنگامی صورتحال میں اُس خاندان کو اُس کی مدد کی ضرورت ہے۔‏

اب دوسرے منظر کا تصور کریں۔‏ ایک ماں جو اکیلی اپنے دو بچوں کی پرورش کر رہی ہے،‏ اُسے اپنی کلیسیا میں ایک میاں‌بیوی کی طرف سے دعوت ملتی ہے۔‏ جب وہ یہ بات اپنے بچوں کو بتاتی ہے تو بچوں کے چہرے خوشی سے چمک اُٹھتے ہیں۔‏ وہ بڑی بےتابی سے اُس دن کا اِنتظار کرنے لگتے ہیں۔‏ لیکن دعوت سے ایک دن پہلے وہ میاں‌بیوی اُس بہن کو بتاتے ہیں کہ کسی وجہ سے اب وہ پروگرام نہیں ہو سکتا جو اُنہوں نے بنایا تھا۔‏ بعد میں اُس بہن کو پتہ چلتا ہے کہ دراصل اُس میاں‌بیوی کو اُن کے دوستوں نے اپنے گھر دعوت پر بلا لیا تھا اِس لیے اُنہوں نے اِس بہن کے ساتھ بنائے ہوئے پروگرام کو ختم کر دیا۔‏

بِلاشُبہ مسیحیوں کے طور پر ہمیں اپنی بات کا پکا ہونا چاہیے۔‏ ’‏ہمارے کلام میں ہاں اور نہیں دونوں نہیں پائی‘‏ جانی چاہئیں۔‏ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم کوئی وعدہ کرتے ہیں تو ہمیں اُسے کسی ٹھوس وجہ کے بغیر توڑنا نہیں چاہیے۔‏ (‏۲-‏کر ۱:‏۱۸‏)‏ لیکن پہلے منظر سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض صورتوں میں ہمارے پاس کسی پروگرام کو ختم کرنے کے علاوہ اَور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔‏ ایک بار پولُس رسول کو بھی ایسا کرنا پڑا تھا۔‏

کیا پولُس اپنے وعدوں کے پکے نہیں تھے؟‏

پولُس رسول ۵۲ء میں تیسری بار مختلف علاقوں میں مُنادی کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔‏ اِس سفر کے دوران اُنہوں نے ۵۵ء میں شہر اِفسس میں کچھ دیر کے لیے قیام کِیا۔‏ اُن کا اِرادہ تھا کہ وہ وہاں سے سمندر کے راستے شہر کُرنتھس کو جائیں گے اور پھر مکدینہ (‏یعنی مقدونیہ)‏ کو روانہ ہوں گے۔‏ اور جب وہ واپس یروشلیم جائیں گے تو راستے میں کُرنتھس کی کلیسیا سے دوبارہ ملیں گے تاکہ اُن سے وہ عطیات لے سکیں جو اُنہوں نے یروشلیم کے بہن‌بھائیوں کے لیے اِکٹھے کیے ہوں گے۔‏ (‏۱-‏کر ۱۶:‏۳‏)‏ یہ بات کہ پولُس رسول کُرنتھس کے مسیحیوں سے دو بار ملنے کا اِرادہ رکھتے تھے،‏ ۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۱۵،‏ ۱۶ سے ظاہر ہوتی ہے۔‏ اِن آیتوں میں لکھا ہے:‏ ”‏اِسی بھروسے پر مَیں نے یہ اِرادہ کِیا تھا کہ پہلے تمہارے پاس آؤں تاکہ تمہیں ایک اَور نعمت ملے۔‏ اور تمہارے پاس ہوتا ہوا مکدؔینہ کو جاؤں اور مکدؔینہ سے پھر تمہارے پاس آؤں اور تُم مجھے یہوؔدیہ کی طرف روانہ کر دو۔‏“‏

 لگتا ہے کہ پولُس رسول نے پہلے سے ہی ایک خط میں کُرنتھس کے مسیحیوں کو اپنے منصوبے کے بارے میں بتا دیا تھا۔‏ (‏۱-‏کر ۵:‏۹‏)‏ لیکن یہ خط لکھنے کے تھوڑے عرصے بعد پولُس رسول نے خلوئے کے گھر والوں سے سنا کہ کُرنتھس کی کلیسیا میں ”‏جھگڑے ہو رہے ہیں۔‏“‏ (‏۱-‏کر ۱:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ پولُس رسول نے جو منصوبہ پہلے بنایا تھا،‏ اُنہوں نے اُس میں ردوبدل کِیا۔‏ اُس وقت کُرنتھس جانے کی بجائے اُنہوں نے وہاں کے مسیحیوں کو خط لکھا۔‏ آجکل اِس خط کو ہم ۱-‏کرنتھیوں کے نام سے جانتے ہیں۔‏ اِس خط میں پولُس رسول نے بڑی محبت سے کُرنتھس کی کلیسیا کی اِصلاح کی۔‏ اُنہوں نے اِن مسیحیوں کو یہ بھی بتایا کہ اُنہوں نے اپنا منصوبہ بدل دیا ہے اور اب وہ پہلے مقدونیہ جائیں گے اور اِس کے بعد کُرنتھس آئیں گے۔‏—‏۱-‏کر ۱۶:‏۵،‏ ۶‏۔‏ *

ایسا لگتا ہے کہ جب کُرنتھس کے مسیحیوں کو پولُس رسول کا خط ملا تو وہاں کے کچھ ’‏افضل رسولوں‘‏ نے اُن پر اِلزام لگایا کہ وہ اپنے وعدوں کے پکے نہیں ہیں اِس لیے اُن پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔‏ اِس کے جواب میں پولُس رسول نے کہا:‏ ”‏کیا تُم لوگ یہ سوچتے ہو کہ مَیں نے اپنا اِرادہ بدل دیا اور مَیں ایسا دُنیادار ہوں کہ پکا اِرادہ کر ہی نہیں سکتا؟‏ اور اگر کرتا ہوں تو اُس میں ”‏ہاں،‏ ہاں“‏ بھی ہوتی ہے اور ”‏نہیں،‏ نہیں“‏ بھی۔‏“‏—‏۲-‏کر ۱:‏۱۷‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن؛‏ ۲-‏کر۱۱:‏۵۔‏

ہم شاید سوچیں کہ کیا اِس معاملے میں پولُس رسول واقعی اپنے اِرادے کے پکے نہیں تھے؟‏ ایسی با ت نہیں ہے۔‏ پولُس رسول نے یہ سوال اُٹھایا کہ ’‏کیا مَیں ایسا دُنیادار ہوں کہ پکا اِرادہ کر ہی نہیں سکتا؟‏‘‏ اِس سے کُرنتھس کے مسیحیوں کو سمجھ جانا چاہیے تھا کہ پولُس نے اپنا منصوبہ اِس لیے نہیں بدلا کیونکہ وہ اپنی بات کے پکے نہیں تھے۔‏

پولُس رسول نے افضل رسولوں کے اِلزام کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ”‏خدا کی سچائی کی قسم کہ ہمارے اُس کلام میں جو تُم سے کِیا جاتا ہے ہاں اور نہیں دونوں پائی نہیں جاتیں۔‏“‏ (‏۲-‏کر ۱:‏۱۸‏)‏ یقیناً پولُس رسول نے کُرنتھس کے بہن‌بھائیوں کی بھلائی کے لیے ہی اپنا منصوبہ بدلا تھا۔‏ دوسرا کرنتھیوں ۱:‏۲۳ میں اُنہوں نے کہا کہ ”‏مَیں .‏ .‏ .‏ اِس واسطے نہیں آیا کہ مجھے تُم پر رحم آتا تھا۔‏“‏ اصل میں پولُس رسول چاہتے تھے کہ اُنہیں اِس معاملے میں کُرنتھس کے مسیحیوں کی مزید اِصلاح نہ کرنی پڑے۔‏ وہ اُنہیں موقع دے رہے تھے کہ اُن کے وہاں جانے سے پہلے بہن‌بھائی اپنے مسئلے حل کر لیں۔‏ اور ایسا ہی ہوا۔‏ جب پولُس مقدونیہ میں تھے تو طِطُس نے آ کر اُنہیں یہ بتایا کہ اُن کے خط کا کُرنتھس کے بہن‌بھائیوں پر اچھا اثر ہوا ہے اور وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہیں اور اُنہوں نے اپنے جھگڑے نپٹا لیے ہیں۔‏ یہ خبر سُن کر پولُس رسول کو بڑی خوشی ہوئی۔‏—‏۲-‏کر ۶:‏۱۱؛‏ ۷:‏۵-‏۷‏۔‏

‏’‏خدا کے وعدے یسوع میں ہاں کے ساتھ ہیں‘‏

ہم دیکھ چکے ہیں کہ افضل رسولوں نے پولُس پر اِلزام لگایا کہ وہ اپنے وعدوں کے پکے نہیں۔‏ یوں وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ پولُس کی تعلیم بھی ناقابلِ‌بھروسا ہے۔‏ لیکن پولُس نے اِس بات پر زور دیا کہ اُنہوں نے کُرنتھس کے مسیحیوں کو یسوع مسیح کا پیغام دیا ہے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏خدا کا بیٹا یسوؔع مسیح جس کی مُنادی ہم نے یعنی مَیں نے اور سلوؔانس اور تیمتھیسؔ نے تُم میں کی اُس میں ہاں اور نہیں دونوں نہ تھیں بلکہ اُس میں ہاں ہی ہاں ہوئی۔‏“‏ (‏۲-‏کر ۱:‏۱۹‏)‏ پولُس رسول،‏ یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتے تھے۔‏ کیا یسوع مسیح بھروسے کے لائق تھے؟‏ جی‌ہاں۔‏ وہ ہمیشہ سچ بولتے تھے۔‏ (‏یوح ۱۴:‏۶؛‏ ۱۸:‏۳۷‏)‏ اگر یسوع مسیح کی ہر بات اور تعلیم پر بھروسا کِیا جا سکتا ہے تو پھر پولُس رسول کی مُنادی اور تعلیم پر بھی بھروسا کِیا جا سکتا ہے کیونکہ اُنہوں نے وہی پیغام دیا جو یسوع مسیح کا تھا۔‏

یہوواہ ’‏سچائی کا خدا‘‏ ہے۔‏ (‏زبور ۳۱:‏۵‏)‏ یہ حقیقت پولُس رسول کی اِس بات سے ظاہر ہوتی ہے:‏ ”‏خدا کے جتنے وعدے ہیں وہ سب [‏یسوع مسیح]‏ میں ہاں کے ساتھ ہیں۔‏“‏ یسوع مسیح اپنی آخری سانس تک خدا کے وفادار رہے۔‏ یہ اِس بات کی ضمانت تھی کہ یہوواہ خدا کے وعدے پورے ہوں گے۔‏ پولُس رسول نے یہ بھی کہا:‏ ”‏اِسی لئے [‏یسوع]‏ کے ذریعہ سے آمین بھی ہوئی تاکہ ہمارے وسیلہ سے خدا کا جلال ظاہر ہو۔‏“‏ (‏۲-‏کر ۱:‏۲۰‏)‏ یسوع مسیح کس لحاظ سے ”‏آمین“‏ ثابت ہوئے؟‏ دراصل اُنہی کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ یہوواہ خدا کے وعدے پورے ہوں۔‏

واقعی یسوع مسیح اور یہوواہ خدا کی طرح پولُس رسول بھی اپنی بات کے پکے تھے۔‏ (‏۲-‏کر ۱:‏۱۹‏)‏ پولُس رسول ایک قابلِ‌بھروسا اِنسان تھے۔‏  وہ ’‏ایسے دُنیادار نہیں تھے کہ پکا اِرادہ ہی نہ کر پاتے۔‏‘‏ (‏۲-‏کر ۱:‏۱۷‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ اِس کی بجائے وہ ’‏روح کے موافق چلتے‘‏ تھے۔‏ (‏گل ۵:‏۱۶‏)‏ وہ ہمیشہ دوسروں کی بھلائی چاہتے تھے۔‏ اُن کی ”‏ہاں،‏ ہاں“‏ اور ”‏نہیں،‏ نہیں“‏ ہوتی تھی۔‏

کیا آپ اپنے وعدوں کے پکے ہیں؟‏

آجکل بہت سے لوگ چھوٹے موٹے مسئلوں کی وجہ سے اپنے وعدے توڑ دیتے ہیں۔‏ بعض ایسے ہیں جو کوئی بہتر دعوت ملنے پر پہلے سے بنائے ہوئے پروگرام کو ختم کر دیتے ہیں۔‏ کاروباری لوگ بھی اکثر اپنی بات پر قائم نہیں رہتے۔‏ یہاں تک کہ جب وہ تحریری معاہدہ کرتے ہیں تو بھی اکثر اُسے پورا نہیں کرتے۔‏ بہت سے لوگ شادی کے بندھن کو جیون‌بھر کا ساتھ نہیں سمجھتے۔‏ آجکل طلاق کی شرح میں جو اِضافہ ہو رہا ہے،‏ اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ اِس بندھن کو بہت ہی معمولی خیال کرتے ہیں۔‏ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جب چاہیں،‏ اِسے توڑ سکتے ہیں۔‏—‏۲-‏تیم ۳:‏۱،‏ ۲‏۔‏

کیا آپ اپنے وعدوں کے پکے ہیں؟‏ جیسا کہ ہم نے اِس مضمون کے شروع میں دیکھا،‏ جب ہم کسی کے ساتھ کوئی بندوبست بناتے ہیں تو بعض صورتوں میں ہمیں اُسے ختم کرنا پڑ سکتا ہے۔‏ اِس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم اپنی بات کے پکے نہیں بلکہ شاید حالات ہمارے بس سے باہر ہیں۔‏ لیکن ایک مسیحی کے طور پر جب آپ کوئی وعدہ کرتے ہیں تو آپ کو اُسے نبھانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔‏ (‏زبور ۱۵:‏۴؛‏ متی ۵:‏۳۷‏)‏ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو لوگ جانیں گے کہ آپ قابلِ‌بھروسا ہیں اور ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔‏ (‏افس ۴:‏۱۵،‏ ۲۵؛‏ یعقو ۵:‏۱۲‏)‏ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ وہ روزمرہ معاملات میں آپ پر بھروسا کر سکتے ہیں تو شاید وہ آپ کے پیغام کو سننے کی طرف زیادہ مائل ہوں۔‏ لہٰذا عزم کریں کہ آپ کی ہاں کا مطلب ہاں ہی ہو۔‏

^ پیراگراف 7 پہلا کرنتھیوں کا خط لکھنے کے تھوڑے عرصے بعد پولُس رسول شہر تروآس سے ہو کر مقدونیہ گئے۔‏ وہاں اُنہوں نے ۲-‏کرنتھیوں کا خط لکھا۔‏ (‏۲-‏کر ۲:‏۱۲؛‏ ۷:‏۵‏)‏ اِس کے کچھ عرصے بعد وہ کُرنتھس گئے۔‏