موسیٰ جیسا ایمان رکھیں
”ایمان ہی سے موسیٰؔ نے بڑے ہو کر فرؔعون کی بیٹی کا بیٹا کہلانے سے اِنکار کِیا۔“—عبر ۱۱:۲۴۔
۱، ۲. (الف) موسیٰ نے ۴۰ سال کی عمر میں کونسا فیصلہ کِیا؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔) (ب) موسیٰ نے خدا کے بندوں کے ساتھ تکلیفیں اُٹھانے کا فیصلہ کیوں کِیا؟
موسیٰ کا تعلق مصر کے شاہی گھرانے سے تھا۔ اُنہوں نے امیر لوگوں کے گھروں اور طرزِزندگی کو دیکھا تھا۔ موسیٰ نے ”مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی“ تھی۔ اِن میں غالباً ستاروں کا علم، تاریخ، ریاضی اور دیگر علوم شامل تھے۔ (اعما ۷:۲۲) وہ دولت، اِختیار، مرتبہ اور ہر وہ چیز حاصل کر سکتے تھے جس کا ایک عام مصری صرف خواب ہی دیکھتا تھا۔ موسیٰ واقعی مصر میں عیشوآرام کی زندگی گزار سکتے تھے۔
۲ فرعون کی بیٹی نے موسیٰ کو پالا تھا۔ لیکن جب موسیٰ ۴۰ سال کے ہوئے تو اُنہوں نے ایک ایسا فیصلہ کِیا جس نے مصر کے شاہی گھرانے کو حیران کر دیا۔ اُنہوں نے شاہی طرزِزندگی کو رد کر دیا۔ کیا وہ ایک عام مصری کی طرح زندگی گزارنا چاہتے تھے؟ جینہیں۔ اُنہوں نے اُن لوگوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کِیا جو مصریوں کے غلام تھے۔ اُنہوں نے ایسا کس وجہ سے کِیا؟ ایمان کی وجہ سے۔ (عبرانیوں ۱۱:۲۴-۲۶ کو پڑھیں۔) ایمان کی آنکھوں سے موسیٰ نے یہوواہ خدا کو دیکھا۔ وہ ”اَندیکھے“ خدا اور اُس کے وعدوں پر پکا ایمان رکھتے تھے۔—عبر ۱۱:۲۷۔
۳. اِس مضمون میں ہم کن تین سوالوں پر غور کریں گے؟
۳ ہمیں بھی موسیٰ نبی جیسا ایمان رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اِس دُنیا کی چیزوں پر دھیان دینے کی بجائے اَندیکھی چیزوں پر دھیان دیں۔ ہمیں یہوواہ خدا اور اُس کے وعدوں پر مضبوط ایمان رکھنا چاہیے۔ (عبر ۱۰:۳۸، ۳۹) اپنے ایمان کو اَور مضبوط کرنے کے لیے آئیں، ہم عبرانیوں ۱۱:۲۴-۲۶ کا جائزہ لیں جن میں موسیٰ نبی کے مثالی ایمان کا ذکر کِیا گیا ہے۔ اِس جائزے کے دوران اِن سوالوں پر غور کریں: موسیٰ نے اِس دُنیا کی رنگینیوں کو رد کیوں کر دیا؟ وہ خدا کی خدمت کی اِتنی قدر کیوں کرتے تھے حالانکہ اِس کی وجہ سے اُنہیں بڑی لعنطعن اُٹھانی پڑی؟ موسیٰ کی ”نگاہ اجر پانے“ پر کیوں تھی؟
موسیٰ نے دُنیا کی رنگینیوں کو رد کِیا
۴. موسیٰ کونسی حقیقت پہچان گئے تھے؟
۴ موسیٰ نے ایمان کی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا کہ ’گُناہ سے چند روز‘ تک ہی لطف اُٹھایا جا سکتا ہے۔ لیکن دوسرے اِسرائیلیوں نے شاید یہ سوچا ہو کہ مصری لوگ بُتپرستی اور جادوگری تو کرتے ہیں پھر بھی وہ کامیاب اور طاقتور ہیں جبکہ یہوواہ خدا کے بندے غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر موسیٰ جانتے تھے کہ خدا اِس صورتحال کو بدل سکتا ہے۔ دُنیا کی رنگینیوں کا مزہ اُٹھانے والے لوگ بڑے کامیاب دِکھائی دے رہے تھے لیکن موسیٰ کو معلوم تھا کہ بُرے لوگوں کا انجام بھی بُرا ہی ہوگا۔ لہٰذا وہ ”گُناہ کا چند روزہ لطف“ اُٹھانا نہیں چاہتے تھے۔
۵. کن باتوں پر غور کرنے سے ہم گُناہ سے بچ سکتے ہیں؟
۵ آپ گُناہ کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ یاد رکھیں کہ گُناہ سے ملنے والی لذت محض عارضی ہوتی ہے۔ اِس کے علاوہ ایمان کی آنکھوں سے یہ دیکھیں کہ ”دُنیا اور اُس کی خواہش دونوں“ جلد مٹنے والی ہیں۔ (۱-یوح ۲:۱۵-۱۷) پھر بُرے لوگوں کے انجام پر بھی غور کریں۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ وہ ”پھسلنی جگہوں میں“ ہیں اور وہ ”بالکل فنا“ ہو جائیں گے۔ (زبور ۷۳:۱۸، ۱۹) جب آپ کے دل میں کوئی غلط کام کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو خود سے پوچھیں: ”کیا مَیں اِس دُنیا کے ساتھ مٹنا چاہتا ہوں یا ہمیشہ تک زندہ رہنا چاہتا ہوں؟“
۶. (الف) موسیٰ نے ”فرؔعون کی بیٹی کا بیٹا کہلانے سے اِنکار“ کیوں کِیا؟ (ب) آپ کے خیال میں موسیٰ کا فیصلہ صحیح کیوں تھا؟
۶ موسیٰ نے ایمان کی بِنا پر ہی یہ فیصلہ کِیا کہ وہ زندگی میں کیا کریں گے۔ ”ایمان ہی سے موسیٰؔ نے بڑے ہو کر فرؔعون کی بیٹی کا بیٹا کہلانے سے اِنکار کِیا۔“ (عبر ۱۱:۲۴) اُنہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ کوئی شاہی مرتبہ حاصل کرکے اپنی دولت اور اِختیار کو اپنے اِسرائیلی بھائیوں کی مدد کرنے کے لیے اِستعمال کریں گے۔ اِس کی بجائے اُن کا عزم یہ تھا کہ وہ ”اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے [یہوواہ] اپنے خدا سے محبت“ رکھیں گے۔ (است ۶:۵) اِس فیصلے کی وجہ سے وہ بہت سی تکلیفوں اور نقصان سے بچ گئے۔ مصر کی زیادہتر دولت اُس وقت لٹ گئی جب بنیاِسرائیل مصر سے نکلے۔ (خر ۱۲:۳۵، ۳۶) فرعون کو ذلت اور موت کا سامنا کرنا پڑا۔ (زبور ۱۳۶:۱۵) لیکن موسیٰ کی جان بچ گئی اور خدا نے اُنہیں یہ اعزاز بخشا کہ وہ بنیاِسرائیل کو مصر سے صحیحسلامت نکال کر لے جائیں۔ اُن کی زندگی واقعی بڑی بامقصد ثابت ہوئی۔
۷. (الف) متی ۶:۱۹-۲۱ کے مطابق ہمیں کیسے منصوبے بنانے چاہئیں اور کیوں؟ (ب) ایک مثال دیں جس سے زمین پر مال جمع کرنے اور آسمان پر مال جمع کرنے میں فرق ظاہر ہو۔
۷ اگر آپ جوان ہیں اور یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں تو آپ بھی ایمان کی بِنا پر یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آپ زندگی میں کیا کریں گے۔ مستقبل کے لیے پہلے سے منصوبے بنانا عقلمندی کی بات ہے۔ لیکن کیا آپ ایسے منصوبے بناتے ہیں جن سے آپ کو صرف وقتی طور پر فائدہ ہوگا؟ یا کیا آپ خدا کے وعدوں پر ایمان رکھتے ہوئے ایسے منصوبے بناتے ہیں جن سے آپ کو ہمیشہ تک فائدہ ہوگا؟ (متی ۶:۱۹-۲۱ کو پڑھیں۔) ہماری ایک مسیحی بہن کو اِنہی سوالوں کا سامنا تھا۔ اُس کا نام سوفی ہے۔ وہ بہت اچھی ڈانسر تھی۔ امریکہ میں ڈانس پروگرام منعقد کرنے والی کمپنیوں نے سوفی کو اپنے ہاں کام کرنے اور ڈانس کی مزید تربیت حاصل کرنے کی پیشکش کی۔ وہ کہتی ہیں: ”مجھے لوگوں کی واہ واہ سننا بڑا اچھا لگتا تھا۔ دراصل مَیں خود کو اپنے ساتھیوں سے بڑا سمجھنے لگی تھی۔ لیکن مَیں ذرا بھی خوش نہیں تھی۔“ پھر سوفی نے ہماری تنظیم کی ایک ویڈیو دیکھی جس میں بتایا گیا ہے کہ بعض نوجوانوں نے اپنی زندگی کے بارے میں کیا فیصلہ کِیا ہے۔ * وہ کہتی ہیں: ”مَیں یہ سمجھ گئی کہ دُنیا میں مجھے کامیابی اور واہ واہ تو مل رہی ہے مگر اِس کی وجہ سے مَیں یہوواہ خدا سے دُور ہوتی جا رہی ہوں۔ لہٰذا مَیں نے دل کی گہرائیوں سے دُعا کی۔ پھر مَیں نے ڈانس پروگرام کرنے چھوڑ دیے۔“ سوفی اپنے اِس فیصلے کے بارے میں کیسا محسوس کرتی ہیں؟ وہ کہتی ہیں: ”مجھے اپنے فیصلے پر ذرا پچھتاوا نہیں۔ آج میں ۱۰۰ فیصد خوش ہوں۔ مَیں اپنے شوہر کے ساتھ پہلکار کے طور پر خدمت کر رہی ہوں۔ ہمیں لوگوں کی واہ واہ نہیں ملتی اور نہ ہی ہمارے پاس دولت ہے۔ لیکن ہمارے پاس یہوواہ کی خوشنودی ہے، ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم لوگوں کو بائبل سے تعلیم دیتے ہیں اور ہمارا پکا اِرادہ ہے کہ خدا کی خدمت جاری رکھیں گے۔“
۸. پاک کلام کی کونسی نصیحت نوکری کا اِنتخاب کرنے کے سلسلے میں جوان بہنبھائیوں کی مدد کر سکتی ہے؟
۸ یہوواہ خدا جانتا ہے کہ آپ کی بھلائی کس میں ہے۔ موسیٰ نے کہا: ”[یہوواہ] تیرا خدا تجھ سے اِس کے سوا اور کیا چاہتا ہے کہ تُو [یہوواہ] اپنے خدا کا خوف مانے اور اُس کی سب راہوں پر چلے اور اُس سے محبت رکھے اور اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان سے [یہوواہ] اپنے خدا کی بندگی کرے۔ اور [یہوواہ] کے جو احکام اور آئین مَیں تجھ کو آج بتاتا ہوں اُن پر عمل کرے تاکہ تیری خیر ہو؟“ (است ۱۰:۱۲، ۱۳) اپنی جوانی میں ایسی نوکری کا اِنتخاب کریں جس کے ذریعے آپ کو یہوواہ خدا کے لیے محبت ظاہر کرنے اور ”اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان سے“ اُس کی خدمت کرنے کا موقع ملے۔ یقین رکھیں کہ ایسا کرنے سے ’آپ کی خیر ہوگی‘ یعنی آپ کو فائدہ ہوگا۔
موسیٰ نے اپنی ذمےداری کی دل سے قدر کی
۹. موسیٰ کو اپنی ذمےداری نبھانا مشکل کیوں لگا ہوگا؟
۹ موسیٰ نے ”مسیح کے لئے لعنطعن اُٹھانے کو مصرؔ کے خزانوں سے بڑی دولت جانا۔“ (عبر ۱۱:۲۶) عبرانی زبان میں یہ آیت یوں ہے کہ موسیٰ نے ”مسیح کے طور پر لعنطعن اُٹھانے کو مصرؔ کے خزانوں سے بڑی دولت جانا۔“ موسیٰ کس لحاظ سے ”مسیح“ یعنی خدا کے ممسوح تھے؟ دراصل یہوواہ خدا نے اُنہیں بنیاِسرائیل کو مصر کی غلامی سے چھڑانے کے لیے مقرر کِیا تھا۔ موسیٰ جانتے تھے کہ اِس ذمےداری کو پورا کرنا آسان نہیں یہاں تک کہ اُنہیں اِس کی وجہ سے ’لعنطعن اُٹھانی‘ پڑے گی۔ ایک اِسرائیلی شخص نے پہلے ہی اُن پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”تجھے کس نے ہم پر حاکم یا منصف مقرر کِیا؟“ (خر ۲:۱۳، ۱۴) کچھ عرصے بعد موسیٰ نے خود بھی یہوواہ خدا سے کہا: ”فرؔعون میری کیوں کر سنے گا؟“ (خر ۶:۱۲) موسیٰ نے یہوواہ خدا کو اپنے خدشات اور فکروں کے بارے میں بتایا تاکہ وہ ہر طرح کی مخالفت اور لعنطعن کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہوواہ نے اِس مشکل ذمےداری کو نبھانے میں موسیٰ کی مدد کیسے کی؟
۱۰. یہوواہ خدا نے موسیٰ کی مدد کیسے کی تاکہ وہ اپنی ذمےداری کو نبھا سکیں؟
۱۰ سب سے پہلے تو یہوواہ خدا نے موسیٰ سے کہا کہ ”مَیں ضرور تیرے ساتھ رہوں گا۔“ (خر ۳:۱۲) دوسری بات یہ کہ اُس نے موسیٰ کو اُمید اور حوصلہ دینے کے لیے اپنے نام کے ایک پہلو کو اُن پر آشکارا کِیا۔ اُس نے کہا: ”مَیں جو ہوں سو مَیں ہوں۔“ * (خر ۳:۱۴) تیسری بات یہ کہ اُس نے موسیٰ کو معجزے کرنے کی طاقت بخشی جس سے یہ ثابت ہوا کہ موسیٰ کو خدا نے بھیجا ہے۔ (خر ۴:۲-۵) چوتھی بات یہ کہ یہوواہ خدا نے موسیٰ کا ساتھ دینے کے لیے ہارون کو مقرر کِیا۔ (خر ۴:۱۴-۱۶) موسیٰ نے اپنے تجربے سے یہ سیکھ لیا تھا کہ یہوواہ خدا جب اپنے خادموں کو کوئی ذمےداری سونپتا ہے تو وہ اُسے پورا کرنے کے لیے اُن کی مدد بھی کرتا ہے۔ اِسی یقین کے ساتھ موسیٰ نے یشوع سے کہا تھا: ”[یہوواہ] ہی تیرے آگے آگے چلے گا۔ وہ تیرے ساتھ رہے گا۔ وہ تجھ سے نہ دستبردار ہوگا نہ تجھے چھوڑے گا سو تُو خوف نہ کر اور بےدل نہ ہو۔“—است ۳۱:۸۔
۱۱. موسیٰ اپنی ذمےداری کی دل سے قدر کیوں کرتے تھے؟
۱۱ یہوواہ خدا کی مدد سے موسیٰ نے ایک کٹھن ذمےداری کو اچھے طریقے سے نبھایا اور اِس کی دل سے قدر کی۔ اُن کی نگاہ میں یہ ایک ایسا اعزاز تھا جو ”مصرؔ کے خزانوں“ سے بھی زیادہ قیمتی تھا۔ بھلا خدا کی خدمت کرنے کے مقابلے میں فرعون کی خدمت کرنا کیا ہے؟ اور ظاہر سی بات ہے کہ خدا کے ”مسیح“ کے طور پر زندگی گزارنا ایک مصری شہزادے کی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔ چونکہ موسیٰ اپنی ذمےداری کی دل سے قدر کرتے تھے اِس لیے یہوواہ خدا نے اُنہیں اِس کا صلہ دیا۔ اُنہیں یہوواہ خدا کی قربت حاصل تھی۔ اُسی کی مدد سے موسیٰ نے ”بڑی ہیبت کے کام کر دِکھائے“ اور بنیاِسرائیل کو اُس ملک تک لے گئے جس کا یہوواہ خدا نے وعدہ کِیا تھا۔—است ۳۴:۱۰-۱۲۔
۱۲. ہمیں کس اعزاز کی قدر کرنی چاہیے؟
۱۲ ہمیں بھی ایک اہم ذمےداری سونپی گئی ہے۔ جس طرح یہوواہ خدا نے پولُس رسول اور دوسرے اِبتدائی مسیحیوں کو ”اپنی خدمت کے لئے مقرر کِیا“ تھا اُسی طرح اُس نے اپنے بیٹے کے ذریعے ہمیں بھی مقرر کِیا ہے۔ (۱-تیمتھیس ۱:۱۲-۱۴ کو پڑھیں۔) اُس نے ہم سب کو بادشاہت کی خوشخبری سنانے کا اعزاز بخشا ہے۔ (متی ۲۴:۱۴؛ ۲۸:۱۹، ۲۰) بعض بہنبھائی کُلوقتی طور پر خدمت کر رہے ہیں۔ کچھ بھائی کلیسیا میں خادموں اور بزرگوں کے طور پر خدمت کر رہے ہیں۔ لیکن آپ کے گھر والے یا دوسرے لوگ جو یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں، شاید یہ سوچیں کہ آپ کی خدمت کی کوئی قدر نہیں ہے یہاں تک کہ وہ آپ کو لعنطعن کریں۔ (متی ۱۰:۳۴-۳۷) اگر وہ آپ کو بےحوصلہ کرتے ہیں تو شاید آپ بھی یہ سوچنے لگیں کہ ”جو خدمت مَیں کر رہا ہوں، کیا اُس کی کوئی اہمیت ہے؟“ یا شاید آپ یہ سوچیں کہ ”اب مَیں خدا کی خدمت جاری نہیں رکھ سکتا۔“ ایسی صورت میں آپ کا ایمان ثابتقدم رہنے میں آپ کی مدد کیسے کرے گا؟
۱۳. یہوواہ خدا کن طریقوں سے ہماری مدد کرتا ہے تاکہ ہم اپنی خدمت جاری رکھ سکیں؟
۱۳ پورے ایمان کے ساتھ یہوواہ خدا سے مدد مانگیں۔ اُسے اپنی فکروں اور خدشوں کے بارے میں بتائیں۔ اُسی نے آپ کو اپنی خدمت کے لیے مقرر کِیا ہے اور وہی اِسے انجام دینے میں آپ کی مدد بھی کرے گا۔ جس طرح اُس نے موسیٰ کی مدد کی تھی، وہ آپ کی بھی مدد کرتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ وہ آپ کو یقین دِلاتا ہے کہ ”مَیں تجھے زور بخشوں گا۔ مَیں یقیناً تیری مدد کروں گا اور مَیں اپنی صداقت کے دہنے ہاتھ سے تجھے سنبھالوں گا۔“ (یسع ۴۱:۱۰) دوسری بات یہ کہ اُس نے ہمیں بتایا ہے کہ اُس کے وعدے سچے ہیں۔ اُس کے کلام میں لکھا ہے: ”مَیں ہی نے یہ کہا اور مَیں ہی اِس کو وقوع میں لاؤں گا۔ مَیں نے اِس کا اِرادہ کِیا اور مَیں ہی اِسے پورا کروں گا۔“ (یسع ۴۶:۱۱) تیسری بات یہ کہ وہ آپ کو ”حد سے زیادہ قدرت“ عطا کرتا ہے تاکہ آپ خوشخبری سنانے کا کام جاری رکھ سکیں۔ (۲-کر ۴:۷) چوتھی بات یہ کہ اُس نے ہمیں ایسے بہنبھائی دیے ہیں جو ”ایک دوسرے کو تسلی“ دیتے ہیں اور ”ایک دوسرے کی ترقی کا باعث“ بنتے ہیں۔ اِن بہنبھائیوں کی مدد سے ہم اپنی خدمت کو جاری رکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ (۱-تھس ۵:۱۱) جب یہوواہ خدا کی طرف سے آپ کو مدد ملتی ہے تو اُس پر آپ کا ایمان اَور مضبوط ہوتا ہے۔ اور آپ اپنی خدمت کو دُنیا کے ہر خزانے سے زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں۔
موسیٰ کی ”نگاہ اجر پانے پر تھی“
۱۴. موسیٰ کو یہ یقین کیوں تھا کہ یہوواہ خدا اُنہیں اجر دے گا؟
۱۴ موسیٰ کی ”نگاہ اجر پانے پر تھی۔“ (عبر ۱۱:۲۶) حالانکہ وہ مستقبل کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے پھر بھی جو تھوڑا بہت وہ جانتے تھے، اُسی کی بِنا پر اُنہوں نے بہت اہم فیصلے کیے۔ ابرہام کی طرح موسیٰ یہ ایمان رکھتے تھے کہ خدا مُردوں کو زندہ کر سکتا ہے۔ (لو ۲۰:۳۷، ۳۸؛ عبر ۱۱:۱۷-۱۹) موسیٰ نے مصر سے بھاگنے کے بعد ۴۰ سال مِدیان میں گزارے اور پھر اُنہوں نے ۴۰ سال بیابان میں بنیاِسرائیل کی رہنمائی کرنے میں گزارے۔ لیکن مستقبل میں ملنے والی برکات پر نگاہ رکھنے کی وجہ سے اُنہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اُن کی زندگی کے ۸۰ سال ضائع ہو گئے ہیں۔ وہ یہ بات پوری طرح سے تو نہیں جانتے تھے کہ خدا اپنے وعدوں کو کیسے پورا کرے گا پھر بھی وہ ایمان کی آنکھوں سے اُس اجر کو دیکھ سکتے تھے جو خدا اُنہیں دینا چاہتا تھا۔
۱۵، ۱۶. (الف) ہماری نگاہ اجر پر کیوں ہونی چاہیے؟ (ب) نئی دُنیا میں آپ کن برکتوں سے لطف اُٹھانے کے مشتاق ہیں؟
۱۵ کیا آپ کی ’نگاہ بھی اجر پانے پر ہے‘؟ موسیٰ کی طرح ہم بھی پوری طرح سے نہیں جانتے کہ خدا اپنے وعدوں کو کیسے پورا کرے گا۔ مثال کے طور پر ہم نہیں جانتے کہ بڑی مصیبت کب آئے گی۔ (مر ۱۳:۳۲، ۳۳) لیکن نئی دُنیا کے بارے میں ہم موسیٰ سے کہیں زیادہ جانتے ہیں۔ خدا نے ہمیں اِس کے بارے میں اِتنی معلومات دی ہیں کہ ہم اپنے ذہن میں اِس کی ایک تصویر بنا سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہمیں یہ ترغیب ملے گی کہ ہم بادشاہت کو اپنی زندگی میں پہلا مقام دیں۔ ذرا سوچیں کہ اگر آپ نے ایک گھر اچھی طرح سے دیکھا نہیں تو کیا آپ اُسے خریدیں گے؟ یقیناً نہیں۔ اِسی طرح اگر آپ نے نئی دُنیا میں زندگی کا کبھی تصور ہی نہیں کِیا تو آپ اُس میں داخل ہونے کا بھی نہیں سوچیں گے۔ لہٰذا ہمیں ایمان کی آنکھوں سے اُن برکات کو دیکھنا چاہیے جو خدا کی بادشاہت کے تحت ہمیں ملیں گی۔
۱۶ جب آپ خود کو نئی دُنیا میں دیکھتے ہیں تو وہاں زندگی گزارنے کی اُمید آپ کے لیے اَور حقیقی بن جاتی ہے۔ لہٰذا جب آپ ذاتی مطالعہ کرتے ہیں تو اپنے ذہن کی آنکھوں کو نئی دُنیا پر لگائیں۔ مثال کے طور پر جب آپ خدا کے ایسے بندوں کی زندگی پر غور کرتے ہیں جو یسوع مسیح سے پہلے زمین پر تھے تو سوچیں کہ جب وہ زندہ ہوں گے تو آپ اُن سے کیاکیا پوچھیں گے۔ تصور کریں کہ وہ آپ سے آخری زمانے میں آپ کی زندگی کے متعلق کیا جاننا چاہیں گے۔ سوچیں کہ وہ کتنی خوشی کا وقت ہوگا جب آپ اپنے صدیوں پُرانے پُرکھوں سے ملیں گے اور اُنہیں یہ بتائیں گے کہ یہوواہ خدا نے اُن کے لیے کیا کچھ کِیا ہے۔ پھر اُس خوشی کا تصور کریں جو آپ کو جنگلی جانوروں کے قریب جانے اور اُن کے بارے میں سیکھنے سے ملے گی۔ سب سے بڑھ کر اِس بات پر غور کریں کہ جوںجوں آپ گُناہ کے اثرات سے پاک ہوتے جائیں گے، آپ اپنے خدا یہوواہ کے اَور قریب ہوتے جائیں گے۔
۱۷. اپنی نگاہ اجر پر رکھنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟
۱۷ اگر ہم اپنی نگاہ اجر پر رکھتے ہیں تو ہماری خوشی قائم رہے گی، ہم خدمت کرنا جاری رکھیں گے اور ایسے فیصلے کریں گے جن سے ظاہر ہوگا کہ ہم ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ پولُس رسول نے ممسوح مسیحیوں کو لکھا: ”جس چیز کو نہیں دیکھتے اگر ہم اُس کی اُمید کریں تو صبر سے اُس کی راہ دیکھتے ہیں۔“ (روم ۸:۲۵) یہ بات اُن تمام مسیحیوں کے لیے بھی ہے جو زمین پر ہمیشہ کی زندگی پانے کی اُمید رکھتے ہیں۔ ہم نے ابھی تک اپنا اجر حاصل تو نہیں کِیا پھر بھی ہمارا ایمان اِتنا مضبوط ہے کہ ہم بڑے صبر سے اِسے پانے کا اِنتظار کر رہے ہیں۔ موسیٰ کی طرح ہم بھی یہ نہیں سمجھتے کہ خدا کی خدمت کرنے میں ہماری زندگی کے قیمتی سال ضائع ہو رہے ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ ”دیکھی ہوئی چیزیں چند روزہ ہیں مگر اَندیکھی چیزیں ابدی ہیں۔“—۲-کرنتھیوں ۴:۱۶-۱۸ کو پڑھیں۔
۱۸، ۱۹. (الف) ہمیں اپنے ایمان کو قائم رکھنے کی کوشش کیوں کرنی چاہیے؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
۱۸ ایمان کی بدولت ہم ”اَندیکھی چیزوں کا ثبوت“ دیکھ سکتے ہیں۔ (عبر ۱۱:۱) ایک ”نفسانی آدمی“ یعنی ایک دُنیادار شخص یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کی اہمیت کو سمجھ نہیں سکتا۔ اُس کی نظر میں روحانی باتیں ”بےوقوفی کی باتیں“ ہوتی ہیں۔ (۱-کر ۲:۱۴) ہمیں اُمید ہے کہ ہمیں ہمیشہ کی زندگی ملے گی اور مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔ لیکن دُنیا کے لوگوں کے نزدیک یہ بےوقوفی کی باتیں ہیں اور وہ اِن کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جس طرح پولُس رسول کو اُس زمانے کے عالم جاہل اور ”بکواسی“ سمجھتے تھے اُسی طرح بہت سے لوگ ہمارے پیغام اور اُمید کی وجہ سے ہمیں بےوقوف سمجھتے ہیں۔—اعما ۱۷:۱۸۔
۱۹ ہم ایک ایسی دُنیا میں رہ رہے ہیں جس میں بہت سے لوگ خدا اور اُس کے وعدوں پر ایمان نہیں رکھتے۔ اِس لیے ہمیں اپنے ایمان کو مضبوط اور قائم رکھنے کے لیے سخت کوشش کرنی چاہیے۔ یہوواہ خدا سے دُعا کرتے رہیں کہ آپ کا ”ایمان جاتا نہ رہے۔“ (لو ۲۲:۳۲) موسیٰ کی طرح آپ بھی یاد رکھیں کہ گُناہ کرنے کا انجام ہمیشہ بُرا ہوتا ہے، یہوواہ خدا کی خدمت کرنا ایک بہت بڑا اعزاز ہے اور اُس نے ہمیشہ کی زندگی دینے کا وعدہ کِیا ہے۔ لیکن موسیٰ کی مثال سے ہم اَور بہت کچھ بھی سیکھتے ہیں۔ اگلے مضمون میں ہم سیکھیں گے کہ موسیٰ اپنے ایمان کی بدولت ”اَندیکھے“ خدا کو دیکھنے کے قابل کیسے ہوئے تھے۔—عبر ۱۱:۲۷۔
^ پیراگراف 7 اِس ویڈیو کا عنوان ہے:What Will I Do With My Life? Young People Ask —
^ پیراگراف 10 خروج ۳:۱۴ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک عالم نے لکھا: ”خدا کو اپنا مقصد پورا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ . . . یہ نام [یعنی یہوواہ] بنی اِسرائیل کے لیے ایک پناہگاہ تھا اور یہی اُن کے لیے تسلی اور اُمید کا سرچشمہ تھا۔“