مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

 آپ‌بیتی

کُلوقتی خدمت کی بدولت مجھے شان‌دار اعزاز ملے

کُلوقتی خدمت کی بدولت مجھے شان‌دار اعزاز ملے

مَیں ۶۵ سال سے کُلوقتی خدمت کر رہا ہوں۔‏ اِس عرصے کے دوران مجھے بہت سی خوشیاں ملی ہیں۔‏ مگر کبھی‌کبھار مجھے مایوسی اور غم کا سامنا بھی ہوا۔‏ (‏زبور ۳۴:‏۱۲؛‏ ۹۴:‏۱۹‏)‏ پھر بھی مَیں پورے یقین سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری زندگی نہایت بامقصد اور پُرمعنی رہی ہے۔‏

مَیں نے ۷ ستمبر ۱۹۵۰ء سے بروکلن کے بیت‌ایل میں خدمت کرنا شروع کی۔‏ اُس وقت وہاں ۳۵۵ بہن‌بھائی خدمت کرتے تھے جن کا تعلق مختلف قوموں سے تھا اور اُن کی عمریں ۱۹ سے ۸۰ کے درمیان تھیں۔‏ اُن میں سے زیادہ‌تر بہن‌بھائی ممسوح تھے۔‏

مَیں یہوواہ کا گواہ کیسے بنا؟‏

بپتسمے کے دن کی تصویر،‏ عمر دس سال

مَیں نے بائبل کی تعلیم اپنی امی سے حاصل کی۔‏ جب وہ یہوواہ کی گواہ بنیں تو مَیں بہت چھوٹا تھا۔‏ مَیں نے یکم جولائی ۱۹۳۹ء میں امریکہ کی ریاست نبراسکا میں ایک حلقے کے اِجتماع پر بپتسمہ لیا۔‏ اُس وقت مَیں دس سال کا تھا۔‏ اِس اِجتماع کے لیے تقریباً ۱۰۰بہن‌بھائی ایک قصبے میں کرائے کے ہال میں جمع تھے۔‏ ہم بھائی رتھرفورڈ کی تقریر کی ریکارڈنگ سُن رہے تھے جس میں بتایا جا رہا تھا کہ خدا کی حکمرانی بہت جلد اِنسانی حکومتوں کو ختم کر دے گی۔‏ ابھی آدھی ہی تقریر ہوئی تھی کہ ہال کے باہر ایک ہجوم اِکٹھا ہو گیا۔‏ وہ زبردستی اندر گھس آیا،‏ اِجلاس کو روک دیا اور ہمیں اُس قصبے سے باہر نکال دیا۔‏ اِس قصبے کے پاس ہی ایک بھائی کا کھیت تھا۔‏ ہم سب وہاں چلے گئے اور باقی کی تقریریں ہم نے وہیں پر سنیں۔‏ اِس دن پر جو کچھ ہوا،‏ اُس کی وجہ سے مَیں اپنے بپتسمے کا دن اور تاریخ آج تک نہیں بھول پایا۔‏

میری امی نے بڑی لگن سے مجھے پاک کلام کی تعلیم دی۔‏ میرے ابو بہت اچھے اِنسان تھے اور ہمیں بہت پیار بھی کرتے تھے۔‏ مگر اُنہیں مذہب سے زیادہ لگاؤ نہیں تھا اِس لیے اُنہوں نے مجھے خدا کے بارے میں کچھ نہیں سکھایا۔‏ لیکن میری امی اور ہماری کلیسیا کے بہن‌بھائیوں نے میری بڑی حوصلہ‌افزائی کی تاکہ مَیں روحانی لحاظ سے آگے بڑھ سکوں۔‏

کُلوقتی خدمت میں میرا پہلا قدم

جب سکول سے فارغ ہونے میں کچھ وقت رہ گیا تو مجھے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ اب مَیں آگے کیا کروں گا۔‏ گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران مَیں ہمیشہ کلیسیا کے دوسرے نوجوانوں کے ساتھ مل کر مددگار پہلکار کے طور پر خدمت کرتا تھا۔‏

گلئیڈ سکول کی ساتویں کلاس سے تربیت حاصل کرنے والے دو جوان کنوارے بھائیوں کو ہمارے علاقے میں سفری نگہبان مقرر کِیا گیا۔‏ ایک کا نام جان چمک‌لس تھا اور دوسرے کا تھیوڈور جیرس تھا۔‏ مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ وہ دونوں کوئی ۲۲یا ۲۳ سال کے تھے۔‏ اُس وقت مَیں ۱۸ سال کا تھا اور جلد ہی سکول سے فارغ ہونے والا تھا۔‏ مجھے آج بھی یاد ہے کہ بھائی چمک‌لس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ مَیں سکول کی پڑھائی ختم ہونے کے بعد کیا کرنا چاہتا ہوں۔‏ جب مَیں نے اُنہیں بتایا کہ مَیں پہلکار کے طور پر خدمت کرنے کا سوچ رہا ہوں تو اُنہوں نے مجھ سے کہا:‏ ”‏اچھی بات ہے،‏ کُلوقتی خدمت  شروع کرنے میں ذرا بھی دیر نہ کریں۔‏ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اِس خدمت کے ذریعے آپ کو کیاکیا اعزاز ملیں گے۔‏“‏ اِس مشورے کا اور اُن دونوں بھائیوں کی اچھی مثال کا مجھ پر گہرا اثر ہوا۔‏ لہٰذا سکول سے فارغ ہونے کے بعد مَیں نے ۱۹۴۸ء میں پہلکار کے طور پر خدمت شروع کر دی۔‏

بیت‌ایل میں خدمت کا آغاز

مَیں جولائی ۱۹۵۰ء میں اپنے امی‌ابو کے ساتھ ایک بین‌الاقوامی اِجتماع پر گیا۔‏ یہ اِجتماع شہر نیویارک کے یانکی سٹیڈیم میں منعقد ہوا۔‏ اِجتماع پر مَیں اُس اِجلاس میں گیا جو اُن بہن‌بھائیوں کے لیے کِیا جاتا ہے جو بیت‌ایل میں خدمت کرنا چاہتے ہیں۔‏ مَیں نے بیت‌ایل میں جانے کے لیے درخواست دے دی۔‏

میرے ابو کو اِس بات پر کوئی اِعتراض نہیں تھا کہ مَیں پہلکار کے طور پر خدمت کر رہا ہوں۔‏ لیکن وہ یہ چاہتے تھے کہ مَیں گھریلو اخراجات اُٹھانے میں اُن کی مدد کروں۔‏ یہ اگست کے مہینے کی بات ہے کہ ایک دن مَیں نوکری کی تلاش میں گھر سے نکلا۔‏ مَیں گھر کے گیٹ پر رُکا اور خطوں والے بکس کو کھولا۔‏ اِس میں ایک خط میرے لیے تھا جو بروکلن سے آیا تھا۔‏ اِس پر بھائی ناتھن نار کے دستخط تھے اور اِس میں لکھا تھا:‏ ”‏آپ کی درخواست مجھے مل گئی ہے۔‏ اِس میں آپ نے اپنی رضامندی ظاہر کی ہے کہ آپ تب تک بیت‌ایل میں خدمت کریں گے جب تک یہوواہ خدا چاہتا ہے۔‏“‏ اِس خط میں مجھے ہدایت کی گئی کہ مَیں ۷ ستمبر ۱۹۵۰ء کو بروکلن کے بیت‌ایل پہنچ جاؤں۔‏

اُس دن جب میرے ابو کام سے لوٹے تو مَیں نے اُنہیں بتایا کہ مجھے نوکری مل گئی ہے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اَرے!‏ یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔‏ کیا کام ملا ہے تمہیں؟‏“‏ مَیں نے کہا:‏ ”‏مجھے بروکلن کے بیت‌ایل میں کا م ملا ہے اور مجھے مہینے کے دس ڈالر ملیں گے۔‏“‏ یہ بات سُن کر اُنہیں ذرا دھچکا لگا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اگر تُم یہی کرنا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے۔‏ لیکن جو بھی کرنا،‏ دل‌وجان سے کرنا۔‏“‏ میرے لیے یہ بڑی خوشی کی بات تھی کہ ۱۹۵۳ء میں یانکی سٹیڈیم میں ایک اِجتماع پر میرے ابو نے بپتسمہ لے لیا۔‏

الفریڈ جس کے ساتھ مَیں پہلکار کے طور پر خدمت کرتا تھا۔‏

میرے دوست الفریڈ نصراللہ کو بھی اُسی دوران بیت‌ایل بلایا گیا تھا جب مجھے بلایا گیا تھا۔‏ مَیں اور الفریڈ کچھ عرصے سے اِکٹھے پہلکار کے طور پر خدمت کر رہے تھے۔‏ ہم دونوں ایک ساتھ بیت‌ایل کے لیے روانہ ہوئے۔‏ بعد میں الفریڈ نے شادی کر لی اور وہ اور اُس کی بیوی گلئیڈ سکول چلے گئے۔‏ وہاں سے تربیت حاصل کرنے کے بعد وہ لبنان خدمت کرنے گئے اور پھر الفریڈ کو امریکہ میں سفری نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کے لیے مقرر کِیا گیا۔‏

بیت‌ایل میں مختلف ذمےداریاں

بیت‌ایل میں سب سے پہلے مجھے کتابوں کے دستوں کو سینے اور اُنہیں جِلدیں کرنے والے شعبے میں کام دیا گیا۔‏ مجھے وہ کتاب اچھی طرح یاد ہے جس پر مَیں نے سب سے پہلے کام کِیا تھا۔‏ اُس کتاب میں بتایا گیا تھا کہ مذہب بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔‏ مَیں نے آٹھ مہینے تک وہاں کام کِیا اور پھر مجھے خدمتی شعبے میں بھیج دیا گیا۔‏ وہاں مَیں نے بھائی تھامس سلےوان کے ساتھ کام کِیا۔‏ وہ ایک لمبے عرصے سے یہوواہ کی تنظیم کے ساتھ کام کر رہے تھے اور مَیں نے اُن کی حکمت اور تجربے سے بہت کچھ سیکھا۔‏

مجھے خدمتی شعبے میں کام کرتے ہوئے تقریباً تین سال ہو گئے تھے۔‏ ایک دن بھائی میکس لارسن میرے پاس آئے جو بیت‌ایل کے چھاپےخانے کے نگہبان تھے۔‏ اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ ”‏بھائی نار آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‏“‏ یہ سُن کر مَیں گھبرا گیا۔‏ مجھے لگا کہ جیسے مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے۔‏ لیکن بھائی نار نے مجھ سے کہا کہ ”‏مجھے کسی ایسے بھائی کی ضرورت ہے جو عارضی طور پر میرا ہاتھ بٹائے۔‏“‏ اُن کی یہ بات سُن کر میری گھبراہٹ دُور ہو گئی۔‏ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ”‏آپ کا بیت‌ایل چھوڑنے کا کوئی اِرادہ تو نہیں ہے؟‏“‏ مَیں نے اُنہیں بتایا کہ ”‏بالکل نہیں۔‏“‏ لہٰذا مَیں اُن کے ساتھ کام کرنے لگا اور مَیں نے تھوڑے عرصے کے لیے نہیں بلکہ اگلے ۲۰ سال تک اُن کے ساتھ کام کِیا۔‏

مجھے بھائی سلےوان اور بھائی نار کے علاوہ بھائی ملٹن ہینشل،‏ کلاؤس جین‌سن،‏ میکس لارسن،‏ ہیوگو ریمر اور گرانٹ سوٹر کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز بھی ملا۔‏ اِن بھائیوں سے مَیں نے جو تعلیم و تربیت حاصل کی،‏ اُس کا کوئی مول نہیں۔‏

 یہ سارے بھائی ہر کام بڑے منظم طریقے سے کرتے تھے۔‏ بھائی نار بہت محنتی تھے۔‏ وہ چاہتے تھے کہ بادشاہت کا پیغام دُنیا کے کونے کونے تک پہنچے۔‏ اُن کے ساتھ کام کرنے والوں کو اُن سے بات کرنے میں کسی قسم کی جھجھک محسوس نہیں ہوتی تھی۔‏ اگر کسی معاملے میں ہماری اُن سے فرق رائے ہوتی تھی تو بھی ہم اُن سے کُھل کر بات کر سکتے تھے اور وہ بُرا نہیں مانتے تھے۔‏

ایک بار بھائی نار نے مجھے بتایا کہ ہمیں معمولی کام کرنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔‏ اِس بات کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے اُنہوں نے مجھے اپنا ایک واقعہ سنایا۔‏ اُنہوں نے بتایا کہ جب وہ چھاپے خانے کے نگہبان ہوتے تھے تو بھائی رتھرفورڈ اُنہیں فون کرکے کہتے تھے:‏ ”‏بھائی نار،‏ میرے پاس ربر ختم ہو گئے ہیں اِس لیے جب آپ کھانے کے لیے آئیں تو میرے لیے ربر لیتے آئیں۔‏“‏ بھائی نار نے کہا کہ وہ فوراً سٹور میں جاتے تھے اور وہاں سے ربر لے کر اپنی جیب میں ڈال لیتے تھے۔‏ پھر جب وہ کھانا کھانے جاتے تھے تو ربر بھائی رتھرفورڈ کو دے دیتے تھے۔‏ یہ بہت معمولی کام تھا۔‏ لیکن اِس سے بھائی رتھرفورڈ کی مدد ہوتی تھی۔‏ پھر بھائی نار نے مجھ سے کہا:‏ ”‏مجھے تیز نوک والی پنسلوں کی ضرورت رہتی ہے۔‏ اِس لیے مہربانی سے کچھ گھڑی ہوئی پینسلیں میرے میز پر رکھ دیا کریں۔‏“‏ کئی سال تک مَیں ایسا کرتا رہا۔‏

بھائی نار اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ جب ہمیں کوئی کام کرنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں تو ہمیں دھیان سے سننا چاہئے۔‏ ایک بار اُنہوں نے مجھے کوئی کام سونپا اور اِس کام کو کرنے کے لیے واضح ہدایات بھی دیں۔‏ لیکن مَیں نے اُن کی بات دھیان سے نہ سنی۔‏ میری وجہ سے اُنہیں بہت شرمندگی اُٹھانی پڑی۔‏ مجھے اِس بات کا بہت دُکھ ہوا۔‏ اِس لیے مَیں نے اُنہیں ایک چھوٹا سا خط لکھا جس میں مَیں نے کہا کہ مَیں اپنے کیے پر بہت شرمندہ ہوں اِس لیے بہتر ہے کہ آپ مجھے کسی اَور شعبے میں بھیج دیں۔‏ اُسی صبح بھائی نار میرے پاس آئے اور کہنے لگے:‏ ”‏مَیں نے آپ کا خط پڑھ لیا ہے۔‏ آپ سے غلطی ہوئی اور مَیں اِس سلسلے میں آپ سے بات کر چُکا ہوں۔‏ مجھے یقین ہے کہ آپ آئندہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔‏ اب آئیں،‏ ہم دونوں کام پر لگ جائیں۔‏“‏ مَیں بھائی نار کا بہت شکر گزار تھا کہ اُنہوں نے اِتنی نرمی سے میری اِصلاح کی۔‏

شادی کا فیصلہ

بیت‌ایل میں خدمت کرتے ہوئے مجھے آٹھ سال ہو گئے تھے اور میرا بیت‌ایل چھوڑنے کا کوئی اِرادہ نہیں تھا۔‏ لیکن پھر ۱۹۵۸ء میں کچھ ایسا ہوا کہ میرا اِرادہ بدل گیا۔‏ مَیں لورین بروکس نامی ایک بہن سے ملا۔‏ اُن سے میری پہلی ملاقات ۱۹۵۵ء میں ہوئی تھی۔‏ اُس وقت وہ کینیڈا کے شہر مونٹریال میں پہلکار کے طور پر خدمت کر رہی تھیں۔‏ اُنہیں کُلوقتی خدمت سے بہت پیار تھا اور وہ کہیں بھی جا کر خدمت کرنے کو تیار تھیں۔‏ مَیں اُن کے اِس جذبے سے بہت متاثر ہوا۔‏ لورین کی خواہش تھی کہ وہ گلئیڈ سکول سے تربیت حاصل کریں اور ۱۹۵۶ء میں اُنہیں گلئیڈ کی ۲۷ویں کلاس میں شامل ہونے کا اعزاز ملا۔‏ اُس وقت وہ ۲۲ سال کی تھیں۔‏ اِس کے بعد اُنہیں برازیل میں خدمت کرنے کے لیے بھیج دیا گیا۔‏ سن ۱۹۵۸ء میں ہماری ملاقات کے بعد مَیں نے اور لورین نے خط‌وخطابت شروع کی۔‏ اُنہوں نے میری شادی کی پیشکش کو قبول بھی کر لیا۔‏ ہم دونوں کا اِرادہ تھا کہ ہم اگلے سال شادی کر لیں گے اور پھر مشنریوں کے طور پر خدمت کریں گے۔‏

جب مَیں نے بھائی نار کو اپنے اِس اِرادے کے بارے میں بتایا تو اُنہوں نے مجھے یہ تجویز دی کہ مَیں تین سال اِنتظار کروں،‏ پھر شادی کروں اور اِس کے بعد بروکلن کے بیت‌ایل میں ہی خدمت کروں۔‏ اُس زمانے میں اگر بیت‌ایل میں خدمت کرنے  والا کوئی بھائی یا بہن شادی کے بعد بیت‌ایل میں رہنا چاہتا تھا تو ضروری تھا کہ دونوں میں سے کوئی ایک دس سال سے بیت‌ایل میں خدمت کر رہا ہو اور دوسرا کم سے کم تین سال سے۔‏ مَیں نے اور لورین نے بھائی نار کی تجویز مان لی۔‏ لہٰذا لورین نے ہماری شادی سے پہلے دو سال کے لیے برازیل کے بیت‌ایل میں اور ایک سال کے لیے بروکلن کے بیت‌ایل میں خدمت کی۔‏

ہماری منگنی کے پہلے دو سال کے دوران ہم ایک دوسرے کو صرف خط لکھا کرتے تھے۔‏ ٹیلیفون کرنا بہت مہنگا تھا اور اُس زمانے میں ای‌میل وغیرہ نہیں تھی۔‏ آخرکار ۱۶ ستمبر ۱۹۶۱ء میں ہماری شادی ہو گئی اور بھائی نار نے ہماری شادی کی تقریر دی۔‏ یہ سچ ہے کہ اِنتظار کے وہ تین سال ہمیں بہت ہی لمبے لگے۔‏ لیکن اب ہماری شادی کو ۵۰ سال سے زیادہ وقت ہو گیا ہے۔‏ جب ہم خوشیوں سے بھرے اُن سالوں کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ وہ اِنتظار ہمارے لیے بہت ہی فائدہ‌مند ثابت ہوا ہے۔‏

ہماری شادی کی تصویر،‏ بائیں طرف سے:‏ ناتھن نار،‏ پیڑیشیا بروکس (‏لورین کی بہن)‏،‏ لورین اور مَیں،‏ کرٹس جانسن،‏ فائے اور روے والن (‏میرے امی‌ابو)‏

ایک نیا اعزاز

سن ۱۹۶۴ء میں مجھے مختلف ملکوں کے برانچ کے دفتروں کا دورہ کرنے کا اعزاز ملا۔‏ اُس وقت جو بھائی ایسے دوروں پر جاتے تھے،‏ اُن کی بیویاں اُن کے ساتھ نہیں جاتی تھیں۔‏ لیکن ۱۹۷۷ء سے یہ تبدیلی ہوئی کہ جب بھائی کسی برانچ کے دفتر کا دورہ کرنے جاتے تھے تو اُن کی بیویاں بھی اُن کے ساتھ جاتی تھیں۔‏ اِسی سال لورین اور مَیں نے بھائی گرانٹ سوٹر اور اُن کی بیوی ایڈتھ کے ساتھ جرمنی،‏ آسٹریا،‏ یونان،‏ قبرص،‏ ترکی اور اِسرائیل کے برانچ کے دفتروں کا دورہ کِیا۔‏ اب تک مَیں کوئی ۷۰ برانچ کے دفتروں میں جا چُکا ہوں۔‏

سن ۱۹۸۰ء میں ہم برازیل کے برانچ کے دفتر گئے۔‏ اِسی دوران ہم برازیل کے شہر بلیم بھی گئے جہاں لورین مشنری کے طور پر خدمت کِیا کرتی تھیں۔‏ اِس کے علاوہ ہم شہر مناؤس بھی گئے جہاں مَیں نے ایک سٹیڈیم میں تقریر پیش کی۔‏ برازیل میں یہ دستور ہے کہ جب عورتیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں تو ایک دوسرے کا مُنہ چُومتی ہیں اور آدمی ہاتھ ملاتے ہیں۔‏ لیکن ہم نے دیکھا کہ سٹیڈیم میں کچھ لوگوں کا ایک گروہ دوسروں سے اِس طرح نہیں مل رہا تھا۔‏ اِس کی کیا وجہ تھی؟‏

اِس گروہ کے لوگ دراصل ہمارے عزیز بہن‌بھائی تھے جو امازون کے جنگل سے کوڑھیوں کی ایک بستی سے آئے تھے۔‏ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے چُھونے سے یہ بیماری بہن‌بھائیوں کو لگ جائے۔‏ اُنہوں نے ہمارے دلوں کو چُھو لیا اور اُن کے چہروں سے جو خوشی چھلک رہی تھی،‏ ہم اُسے بھول نہیں سکتے۔‏ واقعی یسعیاہ نبی کے یہ الفاظ بالکل سچ ہیں:‏ ”‏میرے بندے دل کی خوشی سے گائیں گے۔‏“‏—‏یسع ۶۵:‏۱۴‏۔‏

بامقصد اور پُرمعنی زندگی

ہمیں یہوواہ خدا کی خدمت کرتے ہوئے ۶۰ سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے اور ہم اکثر اِن سالوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔‏ ہم نے ہمیشہ یہوواہ خدا کی تنظیم کی رہنمائی کو قبول کِیا ہے اِس لیے ہمیں خدا کی طرف سے بہت سی برکات ملی ہیں۔‏ اب مَیں پہلے کی طرح دوسرے ملکوں کے برانچ کے دفتروں کا دورہ کرنے نہیں جا سکتا۔‏ لیکن مَیں گورننگ باڈی کے کام میں اُن کا ہاتھ بٹاتا ہوں۔‏ مَیں گورننگ باڈی کی خدمتی کمیٹی اور منتظمین کی کمیٹی کے ساتھ کام کرتا ہوں۔‏ مَیں خوش ہوں کہ اِس طرح سے مَیں دُنیابھر میں اپنے بہن‌بھائیوں کی مدد کر سکتا ہوں۔‏ ہمیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ بہت سے جوان بھائی اور بہنیں کُلوقتی خدمت کو اپنا رہے ہیں۔‏ اِس طرح وہ یسعیاہ نبی جیسا جذبہ ظاہر کر رہے ہیں جنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں حاضر ہوں مجھے بھیج۔‏“‏ (‏یسع ۶:‏۸‏)‏ یہ بہن‌بھائی اُس سفری نگہبان جیسا رُجحان رکھتے ہیں جس نے کئی سال پہلے مجھ سے کہا تھا:‏ ”‏کُلوقتی خدمت شروع کرنے میں ذرا بھی دیر نہ کریں۔‏ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اِس خدمت کے ذریعے آپ کو کیاکیا اعزاز ملیں گے۔‏“‏