مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مُنادی کے کام کے لیے ایک سنہرا اصول

مُنادی کے کام کے لیے ایک سنہرا اصول

‏”‏جو کچھ تُم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تُم بھی اُن کے ساتھ کرو۔‏“‏—‏متی ۷:‏۱۲‏۔‏

۱.‏ مُنادی کے کام میں ہم لوگوں سے جیسا سلوک کرتے ہیں،‏ اِس کا اُن پر کیا اثر ہوتا ہے؟‏ مثال دیں۔‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

چند سال پہلے ملک فیجی میں ایک میاں‌بیوی لوگوں کو یسوع مسیح کی موت کی یادگاری تقریب میں آنے کی دعوت دے رہے تھے۔‏ وہ ایک عورت کے گھر کے باہر اُس سے بات کر رہے تھے کہ اچانک بارش شروع ہو گئی۔‏ بھائی نے عورت کو ایک چھتری دی اور اپنی بیوی کے ساتھ دوسری چھتری کے نیچے آ گیا۔‏ یادگاری تقریب والے دن وہ عورت بھی آئی۔‏ اُسے دیکھ کر میاں‌بیوی بہت خوش ہوئے۔‏ عورت نے بتایا کہ اُسے بعد میں اچھی طرح سے یاد نہیں تھا کہ اُنہوں نے کیا بات‌چیت کی تھی لیکن وہ گواہوں کے اچھے سلوک سے بہت متاثر ہوئی تھی اور اِسی لیے وہ یادگاری تقریب میں آئی تھی۔‏ اِن گواہوں کی کامیابی کا راز کیا تھا؟‏ اُنہوں نے یسوع مسیح کے ایک سنہرے اصول پر عمل کِیا۔‏

۲.‏ ‏(‏الف)‏ ہم اِس مضمون میں کس سنہرے اصول پر بات کریں گے؟‏ (‏ب)‏ اِس اصول پر عمل کرنے میں کونسے دو قدم شامل ہیں؟‏

۲ ہم کس سنہرے اصول کی بات کر رہے ہیں؟‏ یہ وہ اصول ہے جو یسوع مسیح نے متی ۷:‏۱۲ میں دیا تھا:‏ ”‏جو کچھ تُم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تُم بھی اُن کے ساتھ کرو۔‏“‏ ہم اِس اصول پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ اِس میں دو قدم شامل ہیں۔‏ پہلے ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے کہ ”‏اگر مَیں اُس شخص کی جگہ ہوتا تو مَیں اُس سے کس قسم کے سلوک کی توقع کرتا؟‏“‏ اور پھر جس حد تک ممکن ہو،‏ ہمیں اُس شخص کے ساتھ بالکل ویسا ہی سلوک کرنا چاہیے۔‏—‏۱-‏کر ۱۰:‏۲۴‏۔‏

۳،‏ ۴.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح کا سنہرا اصول صرف ہم‌ایمانوں کے ساتھ ہمارے سلوک پر کیوں لاگو نہیں ہوتا؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

 ۳ ہم اکثر اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں سے پیش آتے وقت اِس سنہرے اصول پر عمل کرتے ہیں۔‏ لیکن یسوع مسیح یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ ہمیں صرف اپنے ہم‌ایمانوں کا ہی لحاظ رکھنا چاہیے۔‏ جب یسوع مسیح نے اِس اصول کا ذکر کِیا تو وہ دراصل سبھی لوگوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں بات کر رہے تھے جن میں دُشمن بھی شامل ہیں۔‏ ‏(‏لوقا ۶:‏۲۷،‏ ۲۸،‏ ۳۱،‏ ۳۵ کو پڑھیں۔‏)‏ اگر ہمیں اپنے دُشمنوں کے ساتھ پیش آتے وقت اِس اصول پر عمل کرنا چاہیے تو ظاہری بات ہے کہ یہ مُنادی کے کام میں ملنے والے لوگوں کے ساتھ ہمارے سلوک پر بھی لاگو ہوتا ہے۔‏ اِن میں تو بہت سے ایسے لوگ شامل ہیں جو سچائی جاننا چاہتے ہیں۔‏

۴ اب ہم چار سوالوں پر بات کریں گے جنہیں ہم مُنادی کے کام کے دوران ذہن میں رکھ سکتے ہیں:‏ مجھے کس طرح کے لوگ ملتے ہیں؟‏ مَیں اُن سے کہاں ملتا ہوں؟‏ لوگوں سے ملنے کا بہترین وقت کون‌سا ہے؟‏ مَیں اُن سے بات‌چیت کیسے شروع کر سکتا ہوں؟‏ اِن سوالوں پر غور کرنے سے ہم مُنادی کے کام میں ملنے والے لوگوں کے احساسات کو سمجھ سکیں گے اور اِس کے مطابق اپنی پیشکش کو ڈھال سکیں گے۔‏—‏۱-‏کر ۹:‏۱۹-‏۲۳‏۔‏

مجھے کس طرح کے لوگ ملتے ہیں؟‏

۵.‏ لوگوں سے ملتے وقت ہمیں خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

۵ ہمیں مُنادی کے کام میں طرح‌طرح کے لوگ ملتے ہیں۔‏ اُن کے پس‌منظر فرق‌فرق ہوتے ہیں اور ہر ایک کے اپنے اپنے مسئلے ہوتے ہیں۔‏ (‏۲-‏توا ۶:‏۲۹‏)‏ جب آپ مُنادی کے کام میں کسی سے ملتے ہیں تو خود سے پوچھیں:‏ ”‏اگر وہ شخص میرے پاس آتا اور مجھے جانے بغیر ہی میرے بارے میں کوئی رائے قائم کرتا تو مجھے کیسا لگتا؟‏ یا کیا مجھے یہ اچھا لگتا کہ وہ میرے حالات اور نظریات کو سمجھنے کی کوشش کرے؟‏“‏ اِن سوالوں پر غور کرنے سے ہمیں یاد رہے گا کہ ہمارے علاقے کے سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔‏

۶،‏ ۷.‏ اگر ہم کسی ایسے شخص سے ملتے ہیں جو بدمزاج لگتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

۶ کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہتا کہ دوسرے لوگ اُس کے بارے میں بُری رائے قائم کریں۔‏ ذرا اِس مثال پر غور کریں:‏ مسیحیوں کے طور پر ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہماری باتیں ہمیشہ ”‏دل‌پسند“‏ ہوں۔‏ (‏کل ۴:‏۶‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ مگر خطاکار ہونے کی وجہ سے ہم اکثر ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جن پر ہم بعد میں پچھتاتے ہیں۔‏ (‏یعقو ۳:‏۲‏)‏ شاید ہم نے اِس لیے کسی سے سختی سے بات کی کیونکہ ہماری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔‏ ایسی صورت میں ہم یہ نہیں چاہتے کہ وہ شخص ہمیں بدمزاج سمجھنے لگے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہماری صورتحال کو سمجھے۔‏ لہٰذا کیا ہمیں بھی دوسروں کی صورتحال کا لحاظ نہیں رکھنا چاہیے؟‏

۷ اگر ہم مُنادی کے کام میں کسی ایسے شخص سے ملتے ہیں جو بدمزاج اور جھگڑالو لگتا ہے تو کیوں نہ اُس کی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کریں۔‏ کیا اُسے ملازمت کی جگہ پر بہت کام کرنا پڑتا ہے؟‏ یا پھر کیا سکول کا کام بہت زیادہ ہے؟‏ کیا اُس کی طبیعت خراب ہے؟‏ اکثر ایسا ہوا ہے کہ صاحبِ‌خانہ نے گواہوں کے ساتھ غصے میں بات کی مگر جب گواہ اُس کے ساتھ ”‏نرم‌مزاجی اور احترام“‏ سے پیش آئے تو اُس کا رویہ بدل گیا۔‏—‏۱-‏پطر ۳:‏۱۵‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن؛‏ امثا ۱۵:‏۱‏۔‏

۸.‏ ہمیں ہر طرح کے لوگوں کو بادشاہت کا پیغام کیوں سنانا چاہیے؟‏

۸ طرح‌طرح کے لوگ بادشاہت کا پیغام قبول کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر پچھلے چند سالوں سے مینارِنگہبانی میں مضامین کا سلسلہ ”‏پاک کلام کی تعلیم زندگی سنوارتی ہے“‏ شائع ہو رہا ہے۔‏ انگریزی زبان میں اِس میں ۶۰ سے زیادہ لوگوں کے تجربے شائع ہوئے ہیں۔‏ اِن میں بعض لوگ چور،‏ شرابی،‏ غنڈے یا نشےباز تھے۔‏ کچھ سیاست‌دان یا مذہبی رہنما تھے۔‏ کچھ پیسہ کمانے میں مگن تھے یا بدچلن زندگی گزار رہے تھے۔‏ لیکن اُن سب نے خوش‌خبری سُن کر بائبل کا مطالعہ شروع کِیا،‏ اپنی زندگی میں تبدیلیاں کیں اور خود کو یہوواہ خدا کے لیے وقف کِیا۔‏ لہٰذا ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے  کہ فلاں شخص تو کبھی سچائی کو قبول نہیں کرے گا۔‏ ‏(‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹‏-‏۱۱کو پڑھیں۔‏)‏ ہم یہ بات ذہن میں رکھتے ہیں کہ ہر طرح کے لوگ خوش‌خبری کو قبول کر سکتے ہیں۔‏—‏۱-‏کر ۹:‏۲۲‏۔‏

مَیں لوگوں سے کہاں ملتا ہوں؟‏

۹.‏ جب ہم لوگوں کے گھروں پر جاتے ہیں تو ہمیں اُن کا لحاظ کیوں رکھنا چاہیے؟‏

۹ زیادہ‌تر وقت ہم لوگوں سے اُن کے گھروں پر ملتے ہیں۔‏ (‏متی ۱۰:‏۱۱-‏۱۳‏)‏ جب لوگ ہمارے گھر آتے ہیں تو ہم اُن سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارا لحاظ رکھیں اور کچھ آداب کی پابندی کریں۔‏ آخر ہم اپنے گھر کی چاردیواری میں محفوظ محسوس کرنا چاہتے ہیں۔‏ اِس لیے جب ہم مُنادی کے کام کے سلسلے میں گھرگھر جاتے ہیں تو ہمیں بھی لوگوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔‏ لہٰذا ہمیں پہلے سے یہ سوچنا چاہیے کہ اِس میں کیا کچھ شامل ہے۔‏—‏اعما ۵:‏۴۲‏۔‏

۱۰.‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم مُنادی کے کام میں لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث نہ بنیں؟‏

۱۰ چونکہ آجکل جرائم میں بہت اِضافہ ہو رہا ہے اِس لیے بہت سے لوگ اجنبیوں کو مشکوک سمجھتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱-‏۵‏)‏ اِس لیے ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس کی وجہ سے اُن کا شک اَور بڑھ جائے۔‏ مثال کے طور پر فرض کریں کہ ہم کسی دروازے پر دستک دیتے ہیں اور کوئی باہر نہیں آتا۔‏ ایسی صورت میں شاید ہم کھڑکی یا دیوار سے جھانک کر صاحبِ‌خانہ کو ڈھونڈنے لگیں۔‏ لیکن کیا اِس سے صاحبِ‌خانہ پریشان نہیں ہو جائے گا؟‏ اُس کے پڑوسی کیا سوچیں گے؟‏ سچ ہے کہ ہم مُنادی کے کام میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خوش‌خبری سنانا چاہتے ہیں اور اچھی نیت سے لوگوں کے پاس جاتے ہیں۔‏ (‏روم ۱:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ لیکن ہم کوئی بھی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس کی وجہ سے لوگ پریشان ہوں۔‏ پولُس رسول نے لکھا:‏ ”‏ہم کسی بات میں ٹھوکر کھانے کا کوئی موقع نہیں دیتے تاکہ ہماری خدمت پر حرف نہ آئے۔‏“‏ (‏۲-‏کر ۶:‏۳‏)‏ جب ہم لوگوں کے گھر جا کر اُن کا لحاظ رکھتے ہیں اور کچھ آداب کی پابندی کرتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ بادشاہت کا پیغام سننے کی طرف مائل ہو جائیں۔‏‏—‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۲ کو پڑھیں۔‏

گھرگھر کی مُنادی میں ہم کوئی بھی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس کی وجہ سے لوگ پریشان ہو جائیں۔‏ (‏پیراگراف ۱۰ کو دیکھیں۔‏)‏

لوگوں سے ملنے کا بہترین وقت کون‌سا ہے؟‏

۱۱.‏ جب لوگ ہمارا حد سے زیادہ وقت نہیں لیتے تو ہم اِس بات کی قدر کیوں کرتے ہیں؟‏

۱۱ مسیحیوں کی زندگیاں بہت مصروف ہیں۔‏ اپنی ساری ذمےداریوں کو پورا کرنے کے لیے ہم پہلے سے طے کرتے ہیں کہ ہم کون‌سا کام کب کریں گے۔‏ (‏افس ۵:‏۱۶‏)‏ اگر کسی وجہ سے ہمارے کسی کام میں خلل پڑتا ہے تو ہمیں اچھا نہیں لگتا۔‏ اِس لیے جب لوگ مناسب وقت پر ہمارے پاس آتے ہیں اور ہمارا زیادہ وقت نہیں لیتے تو ہم اِس بات کی قدر کرتے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں ہم مُنادی کے کام میں یسوع مسیح کے سنہرے اصول پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

۱۲.‏ ہم یہ اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں کہ مُنادی کا کام کرنے کا بہترین وقت کون‌سا ہے؟‏

۱۲ ہمیں یہ اندازہ لگانا چاہیے کہ لوگوں سے ملنے کے لیے بہترین وقت کون‌سا ہے۔‏ ہمارے علاقے میں لوگ عام طور پر کس وقت گھر پر ہوتے ہیں؟‏ وہ کس وقت ہماری بات سننے کے لیے زیادہ مائل ہوتے ہیں؟‏ یہ اچھا ہوگا کہ ہم اُسی وقت مُنادی کے کام کے لیے جائیں۔‏ بعض ملکوں میں شام کے وقت گھرگھر کی مُنادی کرنا زیادہ مؤثر ثابت ہوا ہے۔‏ اگر آپ کے علاقے میں بھی ایسا ہے تو کیوں نہ اُس وقت مُنادی کرنے کا بندوبست بنائیں۔‏ ‏(‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۲۴ کو پڑھیں۔‏)‏ اگر ہم ایسے وقت پر مُنادی کا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب زیادہ لوگ گھر پر مل سکتے ہیں تو شاید اِس کے لیے ہمیں کچھ قربانیاں دینی پڑیں گی مگر یہوواہ خدا ہمیں اِس کا اجر ضرور دے گا۔‏

۱۳.‏ ہم مُنادی کے کام میں ملنے والے لوگوں کا لحاظ کیسے رکھ سکتے ہیں؟‏

۱۳ ہم مُنادی کے کام میں ملنے والے لوگوں کا اَور کس طرح سے لحاظ رکھ سکتے ہیں؟‏ جب کوئی شخص ہماری بات سننے کے لیے تیار ہو جاتا ہے تو ہمیں اُسے اچھی طرح گواہی تو دینی چاہیے مگر اُس کا حد سے زیادہ وقت نہیں لینا چاہیے۔‏ شاید صاحبِ‌خانہ  کو اُس وقت کوئی ضروری کام کرنا ہو۔‏ اِس لیے اگر وہ کہتا ہے کہ وہ مصروف ہے تو ہم اُس سے کہہ سکتے ہیں کہ ”‏مَیں آپ سے بس مختصر سی بات کروں گا“‏ اور پھر ہمیں اپنی اِس بات پر قائم رہنا چاہیے۔‏ (‏متی ۵:‏۳۷‏)‏ جب کوئی شخص ہمارے پیغام میں دلچسپی ظاہر کرتا ہے تو ہم اپنی بات‌چیت کے آخر میں اُس سے پوچھ سکتے ہیں کہ ہم اُس سے دوبارہ کب مل سکتے ہیں۔‏ کچھ مبشر یہ کہتے ہیں:‏ ”‏مجھے آپ سے دوبارہ مل کر بڑی خوشی ہوگی۔‏ کیا مَیں آنے سے پہلے آپ کو فون کروں یا میسج بھیجوں؟‏“‏ جب ہم اُس وقت لوگوں سے ملنے جاتے ہیں جب اُن کے پاس وقت ہے تو ہم پولُس رسول کی مثال پر عمل کر رہے ہوتے ہیں جنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں .‏ .‏ .‏ اپنا نہیں بلکہ بہتوں کا فائدہ ڈھونڈتا ہوں تاکہ وہ نجات پائیں۔‏“‏—‏۱-‏کر ۱۰:‏۳۳‏۔‏

مَیں لوگوں سے بات‌چیت کیسے شروع کر سکتا ہوں؟‏

۱۴-‏۱۶.‏ ‏(‏الف)‏ ہمیں لوگوں کو فوراً اپنے آنے کا مقصد کیوں بتانا چاہیے؟‏ مثال دیں۔‏ (‏ب)‏ ایک سفری نگہبان نے بات‌چیت شروع کرنے کا کون‌سا طریقہ مؤثر پایا ہے؟‏

۱۴ فرض کریں کہ ایک دن آپ کو کوئی فون آتا ہے۔‏ آپ فون کرنے والے کی آواز نہیں پہچانتے۔‏ یہ اجنبی آپ سے پوچھتا ہے کہ ”‏آپ کس قسم کے کھانے پسند کرتے ہیں؟‏“‏ آپ سوچنے لگتے ہیں کہ یہ شخص کون ہے اور کیا چاہتا ہے؟‏ آپ شاید اُس سے تھوڑی سی بات کریں گے لیکن پھر جلدی سے ظاہر کریں گے کہ آپ بات‌چیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔‏ لیکن اگر وہ شخص شروع میں ہی اپنا تعارف کراتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ وہ صحت‌مند خوراک کے حوالے سے لوگوں کو معلومات دے رہا ہے تو ہم اُس کی بات سننے  کی طرف زیادہ مائل ہوں گے۔‏ عموماً ہمیں اچھا لگتا ہے جب لوگ فوراً بتاتے ہیں کہ وہ کون ہیں اور وہ ہم سے کیوں بات کرنا چاہتے ہیں۔‏ اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں مُنادی کے کام میں لوگوں کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے؟‏

۱۵ بہت سے علاقوں میں لوگ یہ توقع کرتے ہیں کہ ہم فوراً ہی اُنہیں اپنے آنے کا مقصد بتائیں۔‏ سچ ہے کہ ہمارے پاس بہت سی اہم معلومات ہیں جن سے صاحبِ‌خانہ کو فائدہ ہوگا۔‏ لیکن فرض کریں کہ ہم ٹھیک طرح سے اپنا تعارف کرائے بغیر ہی اُس سے یہ سوال پوچھتے ہیں:‏ ”‏اگر آپ کے پاس اِتنی طاقت ہوتی کہ اِس دُنیا سے کسی مسئلے کو ختم کر سکیں تو آپ کس مسئلے کو حل کرتے؟‏“‏ اِس سوال کا مقصد تو یہ ہے کہ ہم صاحبِ‌خانہ کی سوچ جان سکیں اور پھر اُس کی توجہ بائبل کی طرف دِلا سکیں۔‏ لیکن شاید وہ سوچے کہ ”‏یہ اجنبی کون ہے؟‏ وہ یہ سوال کیوں پوچھ رہا ہے اور مجھ سے کیا چاہتا ہے؟‏“‏ ہم صاحبِ‌خانہ کو اِس قسم کی اُلجھن میں نہیں ڈالنا چاہتے۔‏ (‏فل ۲:‏۳،‏ ۴‏)‏ تو پھر مُنادی کے دوران بات‌چیت شروع کرنے کا بہتر طریقہ کیا ہوگا؟‏

۱۶ ایک سفری نگہبان نے اِس طریقے کو بڑا مؤثر پایا ہے:‏ گھر والے کو سلام دُعا کرنے کے بعد وہ اُسے پرچہ کیا آپ سچائی جاننے کی خواہش رکھتے ہیں؟‏ دیتا ہے اور کہتا ہے:‏ ”‏ہم اِس علاقے میں سب لوگوں کو یہ پرچہ دے رہے ہیں۔‏ اِس میں چھ سوالوں پر بات کی گئی ہے جو بہت سے لوگ پوچھتے ہیں۔‏ یہ آپ کے لیے ہے۔‏“‏ بھائی نے بتایا کہ جب لوگوں کو ہمارے آنے کا مقصد پتہ چل جاتا ہے تو وہ اکثر مطمئن ہو جاتے ہیں اور ہم سے بات‌چیت کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔‏ پھر بھائی صاحبِ‌خانہ سے پوچھتا ہے:‏ ”‏کیا آپ کے ذہن میں کبھی ایسا کوئی سوال آیا ہے؟‏“‏ اگر صاحبِ‌خانہ کسی ایک سوال کا اِنتخاب کرتا ہے تو بھائی پرچہ کھولتا ہے اور اُسے دِکھاتا ہے کہ بائبل میں اِس کا کیا جواب دیا گیا ہے۔‏ اگر صاحبِ‌خانہ کوئی سوال نہیں چن پاتا تو بھائی اُسے اُلجھن سے نکالنے کے لیے خود ہی کسی سوال پر بات‌چیت شروع کرتا ہے۔‏ یقیناً بات‌چیت شروع کرنے کے بہت سے مختلف طریقے ہیں۔‏ کچھ علاقوں میں لوگ توقع کرتے ہیں کہ ہم اپنے آنے کا مقصد بتانے سے پہلے اُن کے ساتھ کچھ رسمی بات‌چیت کریں۔‏ بہرحال اچھا ہوگا کہ ہم مُنادی کے کام میں بات‌چیت کو اِس طرح شروع کریں جس طرح ہمارے علاقے میں لوگوں کو پسند ہے۔‏

مُنادی کے کام میں سنہرے اصول پر عمل کرتے رہیں

۱۷.‏ اِس مضمون میں ہم نے یسوع مسیح کے سنہرے اصول کے حوالے سے کیا سیکھا ہے؟‏

۱۷ ہم نے مُنادی کے کام میں یسوع مسیح کے سنہرے اصول پر عمل کرنے کے حوالے سے کیا سیکھا؟‏ ہمیں صاحبِ‌خانہ کے حالات اور نظریات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‏ جب ہم لوگوں کے گھروں میں جاتے ہیں تو ہمیں اُن کا لحاظ رکھنا چاہیے۔‏ ہمیں اُس وقت گھرگھر کی مُنادی کرنی چاہیے جب زیادہ‌تر لوگ گھر پر ہوں اور ہماری بات سننے کے لیے زیادہ مائل ہوں۔‏ اور ہمیں اپنی بات‌چیت اِس طرح شروع کرنی چاہیے جس طرح ہمارے علاقے میں لوگوں کو پسند ہے۔‏

۱۸.‏ مُنادی کے کام میں یسوع مسیح کے سنہرے اصول پر عمل کرنے کے کونسے فائدے ہیں؟‏

۱۸ جب ہم لوگوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے ہیں جیسا ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کریں تو اِس سے بہت فائدے ہوتے ہیں۔‏ لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے اور اُن کا لحاظ رکھنے سے ہماری ’‏روشنی آدمیوں کے سامنے چمکتی‘‏ ہے۔‏ وہ دیکھتے ہیں کہ بائبل کے اصول فائدہ‌مند ہیں اور یوں ہمارے آسمانی باپ کی تمجید ہوتی ہے۔‏ (‏متی ۵:‏۱۶‏)‏ جب ہم مُنادی کے کام میں ملنے والے لوگوں کا لحاظ رکھتے ہیں تو شاید زیادہ لوگ سچائی کو قبول کریں۔‏ (‏۱-‏تیم ۴:‏۱۶‏)‏ چاہے لوگ بادشاہت کے پیغام کو قبول کریں یا نہ کریں،‏ ہمیں یہ اِطمینان ہے کہ ہم اپنی خدمت کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیم ۴:‏۵‏)‏ آئیں،‏ ہم سب پولُس رسول کی مثال پر عمل کریں جنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں سب کچھ اِنجیل کی خاطر کرتا ہوں تاکہ اَوروں کے ساتھ اُس میں شریک ہوؤں۔‏“‏ (‏۱-‏کر ۹:‏۲۳‏)‏ لہٰذا مُنادی کے کام میں ہمیشہ یسوع مسیح کے سنہرے اصول پر عمل کریں۔‏