مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ خدا منظم طریقے سے کام کرتا ہے

یہوواہ خدا منظم طریقے سے کام کرتا ہے

‏”‏خدا بدنظمی کا نہیں بلکہ امن کا بانی ہے۔‏“‏—‏۱-‏کر ۱۴:‏۳۳‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

۱‏،‏ ۲.‏ ‏(‏الف)‏ خدا نے سب سے پہلے کسے خلق کِیا؟‏ اور خدا نے اُسے کونسے کردار دیے؟‏ (‏ب)‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ فرشتے منظم ہیں؟‏

کائنات کا خالق یہوواہ خدا ہر کام بڑے منظم طریقے سے کرتا ہے۔‏ اُس کی پہلی مخلوق اُس کا اِکلوتا بیٹا تھا۔‏ اِس بیٹے کو ”‏کلام“‏ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ خدا کا سب سے اہم ترجمان ہے۔‏ وہ اَن‌گنت صدیوں سے اپنے باپ کی خدمت کرتا آ رہا ہے۔‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏اِبتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا۔‏“‏ اِس میں یہ بھی لکھا ہے:‏ ”‏سب چیزیں [‏کلام]‏ کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔‏“‏ تقریباً ۲۰۰۰ سال پہلے خدا نے اپنے بیٹے کو زمین پر بھیجا۔‏ یہاں یہ بیٹا یسوع مسیح کے نام سے مشہور ہو گیا اور اُس نے بےعیب اِنسان کے طور پر اپنے باپ کی مرضی پوری کی۔‏—‏یوح ۱:‏۱-‏۳،‏ ۱۴‏۔‏

۲ زمین پر آنے سے پہلے خدا کا بیٹا ”‏ماہر کاریگر“‏ کے طور پر اپنے باپ کی خدمت کرتا تھا۔‏ (‏امثا ۸:‏۳۰‏)‏ اُس کے ذریعے خدا نے آسمان پر لاکھوں فرشتے خلق کئے۔‏ (‏کل ۱:‏۱۶‏)‏ اِن فرشتوں کے بارے میں بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏ہزاروں ہزار [‏یہوواہ]‏ کی خدمت میں حاضر تھے اور لاکھوں لاکھ اُس کے حضور کھڑے تھے۔‏“‏ (‏دان ۷:‏۱۰‏)‏ بائبل کے مطابق یہ لاتعداد فرشتے ’‏لشکر‘‏ کی طرح یعنی منظم طریقے سے خدا کی خدمت کرتے ہیں۔‏—‏زبور ۱۰۳:‏۲۱‏۔‏

۳.‏ ستاروں اور سیاروں کی تعداد کتنی ہے؟‏ اور اِن کو کیسے ترتیب دیا گیا ہے؟‏

 ۳ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کائنات میں کتنے سیارے اور ستارے ہیں؟‏ امریکہ کے ایک اخبار میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ تحقیق کی بِنا پر ”‏سائنس‌دان اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ستاروں کی تعداد اُن کے سابقہ اندازے سے تین گُنا زیادہ ہے۔‏“‏ اِس اخبار میں یہ بھی بتایا گیا ہے:‏ ”‏ستاروں کی تعداد ایک کھرب ضرب ۳۰ کھرب ہے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ ۳ کے ہندسے کے بعد ۲۳ صفر لگتے ہیں۔‏“‏ ستاروں کو کیسے ترتیب دیا گیا ہے؟‏ لاتعداد ستارے مل کر کہکشائیں بناتے ہیں اور ایک کہکشاں میں اربوں یا کھربوں ستارے اور اَن‌گنت سیارے ہو سکتے ہیں۔‏ بہت سی کہکشائیں مل کر جُھرمٹ بناتی ہیں اور جُھرمٹوں کے بھی جُھرمٹ ہوتے ہیں۔‏

۴.‏ ہم یہ توقع کیوں رکھ سکتے ہیں کہ زمین پر خدا کے بندے منظم ہوں؟‏

۴ ہم نے دیکھا ہے کہ آسمان پر خدا کے وفادار فرشتے منظم ہیں اور ستاروں کو بھی شان‌دار طریقے سے ترتیب دیا گیا ہے۔‏ (‏یسع ۴۰:‏۲۶‏)‏ لہٰذا ظاہری بات ہے کہ خدا زمین پر بھی اپنے بندوں کو منظم کرتا ہے۔‏ خدا چاہتا ہے کہ اُس کے بندے منظم طریقے سے کام کریں کیونکہ اُنہیں بہت اہم کام سونپا گیا ہے۔‏ ماضی اور حال میں خدا کے بندوں نے وفاداری سے اِس کام کو انجام دیا۔‏ اُن کی مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا ہمیشہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے اور وہ ”‏ابتری کا نہیں بلکہ امن کا بانی ہے۔‏“‏‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۴:‏۳۳،‏ ۴۰ کو پڑھیں۔‏

قدیم زمانے میں خدا کی منظم قوم

۵.‏ زمین کے لیے خدا کا جو مقصد تھا،‏ وہ ابھی تک پورا کیوں نہیں ہوا؟‏

۵ جب خدا نے آدم اور حوا کو بنایا تو اُس نے اُنہیں حکم دیا:‏ ”‏پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورومحکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرندوں اور کُل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اِختیار رکھو۔‏“‏ (‏پید ۱:‏۲۸‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا چاہتا تھا کہ اِنسان منظم طریقے سے زمین پر آباد ہوں اور پوری زمین کو فردوس بنا دیں۔‏ لیکن آدم اور حوا کی نافرمانی کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔‏ (‏پید ۳:‏۱-‏۶‏)‏ کچھ عرصے بعد ”‏[‏یہوواہ]‏ نے دیکھا کہ زمین پر اِنسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اُس کے دل کے تصور اور خیال سدا بُرے ہی ہوتے ہیں۔‏“‏ اِس کے نتیجے میں ”‏زمین خدا کے آگے ناراست ہو گئی تھی اور وہ ظلم سے بھری تھی۔‏“‏ اِس لیے خدا نے فیصلہ کِیا کہ وہ بُرے لوگوں کو طوفان کے ذریعے ہلاک کر دے گا۔‏—‏پید ۶:‏۵،‏ ۱۱-‏۱۳،‏ ۱۷‏۔‏

۶‏،‏ ۷.‏ ‏(‏الف)‏ نوح،‏ یہوواہ خدا کی نظر میں مقبول کیوں تھے؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ نوح کے زمانے کے بُرے لوگوں کے ساتھ کیا ہوا؟‏

۶ لیکن ”‏نوؔح [‏یہوواہ]‏ کی نظر میں مقبول“‏ تھے۔‏ وہ ’‏مردِ راست‌باز اور اپنے زمانے کے لوگوں میں بےعیب تھے اور وہ خدا کے ساتھ‌ساتھ چلتے رہے۔‏‘‏ اِس لیے خدا نے اُنہیں ایک بڑی سی کشتی بنانے کا حکم دیا۔‏ (‏پید ۶:‏۸،‏ ۹،‏ ۱۴-‏۱۶‏)‏ اُس کشتی کو اِس طرح سے بنایا گیا کہ اِس کے اندر موجود اِنسان اور جانور آنے والے طوفان سے بچ جائیں۔‏ ”‏نوؔح نے وہ سب جیسا [‏یہوواہ]‏ نے اُسے حکم دیا تھا کِیا۔‏“‏ اپنے گھر والوں کی مدد سے اُنہوں نے کشتی کو بنانے کا سارا کام بڑے منظم طریقے سے مکمل کِیا۔‏ جب نوح جانوروں کو کشتی کے اندر لے آئے تو ”‏[‏یہوواہ]‏ نے اُس کو باہر سے بند کر دیا۔‏“‏—‏پید ۷:‏۵،‏ ۱۶‏۔‏

۷ پھر جب ۲۳۷۰ قبل‌ازمسیح میں طوفان آیا تو جتنے بھی لوگ اور جانور کشتی سے باہر تھے،‏ وہ ”‏سب کے سب زمین پر سے مر مٹے۔‏“‏ لیکن یہوواہ خدا نے نوح اور اُن کے گھر والوں کو بچا لیا۔‏ (‏پید ۷:‏۲۳‏)‏ آج زمین پر جتنے بھی اِنسان موجود ہیں،‏ وہ سب نوح اور اُن کے بیٹوں کی نسل ہیں۔‏ لیکن جو لوگ کشتی سے باہر تھے،‏ وہ سب ہلاک ہو گئے کیونکہ اُنہوں نے ”‏راست‌بازی کے مُنادی کرنے والے“‏ نوح کے پیغام پر کان نہیں لگایا۔‏—‏۲-‏پطر ۲:‏۵‏۔‏

منظم طریقے سے کام کرنے سے آٹھ لوگ طوفان سے بچ گئے۔‏ (‏پیراگراف ۶ اور ۷ کو دیکھیں۔‏)‏

۸.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ بنی‌اِسرائیل ملک کنعان میں داخل ہوتے وقت بڑے منظم تھے؟‏

 ۸ طوفان کے کوئی ۸۰۰ سال بعد یہوواہ خدا نے بنی‌اِسرائیل کو ایک قوم کے طور پر منظم کِیا۔‏ اُنہیں خدا کے اِنتظام کے مطابق زندگی گزارنی تھی اور اُس کی عبادت کرنی تھی۔‏ مثال کے طور پر کاہن اور لاوی منظم طریقے سے خدا کی خدمت کرتے تھے۔‏ اِس کے علاوہ کچھ ”‏خدمت گذار عورتیں خیمۂ‌اِجتماع کے دروازہ پر خدمت کرتی تھیں۔‏“‏ (‏خر ۳۸:‏۸‏)‏ جب یہوواہ خدا نے بنی‌اِسرائیل کو ملک کنعان میں داخل ہونے کی ہدایت کی تو زیادہ‌تر اِسرائیلیوں نے خدا کی نافرمانی کی۔‏ اِس لیے خدا نے کہا:‏ ”‏اِن میں سے کوئی اُس ملک میں جس کی بابت مَیں نے قسم کھائی تھی کہ تُم کو وہاں بساؤں گا جانے نہ پائے گا سوا یفنہؔ کے بیٹے کالبؔ اور نوؔن کے بیٹے یشوؔع کے۔‏“‏ اِس کی وجہ یہ تھی کہ کالب اور یشوع اُس ملک کے بارے میں اچھی خبر لائے تھے۔‏ (‏گن ۱۴:‏۳۰،‏ ۳۷،‏ ۳۸‏)‏ یہوواہ خدا کی ہدایت کے مطابق موسیٰ نے یشوع کو بنی‌اِسرائیل کے اگلے پیشوا کے طور پر مقرر کِیا۔‏ (‏گن ۲۷:‏۱۸-‏۲۳‏)‏ جب یشوع،‏ بنی‌اِسرائیل کو ملک کنعان لے جانے والے تھے تو خدا نے اُن سے کہا:‏ ”‏مضبوط ہو جا اور حوصلہ رکھ خوف نہ کھا اور بےدل نہ ہو کیونکہ [‏یہوواہ]‏ تیرا خدا جہاں جہاں تُو جائے تیرے ساتھ رہے گا۔‏“‏—‏یشو ۱:‏۹‏۔‏

۹.‏ راحب یہوواہ خدا اور اُس کی قوم کے لیے کیسے احساسات رکھتی تھیں؟‏

۹ یہوواہ خدا واقعی قدم قدم پر یشوع کے ساتھ تھا۔‏ مثال کے طور پر ذرا غور کریں کہ جب بنی‌اِسرائیل نے کنعان کے شہر یریحو کے قریب ڈیرے ڈالے تھے تو کیا ہوا۔‏ سن ۱۴۷۳ قبل‌ازمسیح میں یشوع نے دو آدمیوں کو یریحو بھیجا تاکہ وہ اُس شہر کی جاسوسی کریں۔‏ وہاں یہ جاسوس ایک فاحشہ سے ملے جس کا نام راحب تھا۔‏ جب یریحو کے بادشاہ نے اِن جاسوسوں کو پکڑنے کے لیے آدمی بھیجے تو راحب نے جاسوسوں کو اپنے  گھر کی چھت پر چھپا دیا۔‏ راحب نے اُن سے کہا:‏ ”‏مجھے یقین ہے کہ [‏یہوواہ]‏ نے یہ ملک تُم کو دیا ہے .‏ .‏ .‏ کیونکہ ہم نے سُن لیا ہے کہ .‏ .‏ .‏ [‏یہوواہ]‏ نے تمہارے آگے بحرِقلزؔم کے پانی کو سُکھا دیا اور تُم نے اموریوں کے دونوں بادشاہوں سیحوؔن اور عوؔج سے .‏ .‏ .‏ کیا کیا کِیا۔‏“‏ اُنہوں نے یہ بھی کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ تمہارا خدا ہی اُوپر آسمان کا اور نیچے زمین کا خدا ہے۔‏“‏ (‏یشو ۲:‏۹-‏۱۱‏)‏ راحب نے یہوواہ کی قوم کا ساتھ دیا جو اُس وقت خدا کی تنظیم کا زمینی حصہ تھی۔‏ اِس لیے جب بنی‌اِسرائیل نے یریحو کو فتح کر لیا تو خدا نے راحب اور اُن کے گھر والوں کو زندہ رکھا۔‏ (‏یشو ۶:‏۲۵‏)‏ راحب نے ایمان ظاہر کِیا،‏ خدا کا خوف مانا اور اُس کی قوم کا احترام کِیا۔‏

پہلی صدی میں خدا کی تنظیم

۱۰.‏ یسوع مسیح نے یہودی رہنماؤں سے کیا کہا؟‏ اور کیوں؟‏

۱۰ یشوع کی پیشوائی میں بنی‌اِسرائیل ایک کے بعد ایک شہر کو فتح کرتے چلے گئے اور آخرکار اُنہوں نے ملک کنعان پر قبضہ کر لیا۔‏ لیکن اگلی صدیوں کے دوران کیا ہوا؟‏ بنی‌اِسرائیل باربار خدا کے حکموں کو توڑتے تھے اور اُن نبیوں کو رد کرتے تھے جن کو خدا نے اُن کے پاس بھیجا۔‏ جب خدا نے اپنے بیٹے کو زمین پر بھیجا تو یہ قوم اِتنی بگڑ چکی تھی کہ یسوع مسیح نے یروشلیم کے بارے میں کہا کہ وہ ”‏نبیوں کو قتل کرتا“‏ ہے۔‏ ‏(‏متی ۲۳:‏۳۷،‏ ۳۸ کو پڑھیں۔‏)‏ خدا نے یہودی رہنماؤں کو اُن کی نافرمانی کی وجہ سے رد کر دیا۔‏ اِس لیے یسوع مسیح نے اُن سے کہا:‏ ”‏خدا کی بادشاہی تُم سے لے لی جائے گی اور اُس قوم کو جو اُس کے پھل لائے دے دی جائے گی۔‏“‏—‏متی ۲۱:‏۴۳‏۔‏

۱۱‏،‏ ۱۲.‏ ‏(‏الف)‏ پہلی صدی میں یہ کیسے ثابت ہوا کہ یہوواہ خدا یہودیوں کو رد کرکے ایک نئی تنظیم کی حمایت کرنے لگا؟‏ (‏ب)‏ خدا کی نئی تنظیم میں کون شامل تھے؟‏

۱۱ پہلی صدی عیسوی میں یہوواہ خدا نے اِسرائیلی قوم کو رد کر دیا۔‏ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اب زمین پر یہوواہ خدا کی کوئی تنظیم نہیں تھی۔‏ یہوواہ خدا ایک ایسی تنظیم کو اِستعمال کرنے لگا جس کے رُکن یسوع مسیح اور اُن کی تعلیمات کو مانتے تھے۔‏ اِس تنظیم کی بنیاد ۳۳ء کی عیدِپنتِکُست پر ڈالی گئی۔‏ یسوع مسیح کے تقریباً ۱۲۰ شاگرد یروشلیم میں جمع تھے ”‏کہ یکایک آسمان سے ایسی آواز آئی جیسے زور کی آندھی کا سناٹا ہوتا ہے اور اُس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے گونج گیا۔‏ اور اُنہیں آگ کے شعلہ کی سی پھٹتی ہوئی زبانیں دِکھائی دیں اور اُن میں سے ہر ایک پر آ ٹھہریں۔‏ اور وہ سب روحُ‌القدس سے بھر گئے اور غیرزبانیں بولنے لگے جس طرح روح نے اُنہیں بولنے کی طاقت بخشی۔‏“‏ (‏اعما ۲:‏۱-‏۴‏)‏ اِس حیرت‌انگیز واقعے سے ثابت ہو گیا کہ یہوواہ خدا اُس نئی تنظیم کی حمایت کر رہا تھا جو یسوع مسیح کے پیروکاروں پر مشتمل تھی۔‏

۱۲ اُس دن ”‏تین ہزار آدمیوں کے قریب“‏ یسوع مسیح کے پیروکاروں میں شامل ہو گئے۔‏ اِس کے بعد بھی یہوواہ خدا ہر روز نئے شاگردوں کو ”‏اُن میں ملا دیتا تھا۔‏“‏ (‏اعما ۲:‏۴۱،‏ ۴۷‏)‏ پہلی صدی کے یہ مسیحی اِتنی محنت سے خوش‌خبری سناتے تھے کہ ”‏خدا کا کلام پھیلتا رہا اور یرؔوشلیم میں شاگردوں کا شمار بہت ہی بڑھتا گیا“‏ یہاں تک کہ ”‏کاہنوں کی بڑی گروہ اِس دین کے تحت میں ہو گئی۔‏“‏ (‏اعما ۶:‏۷‏)‏ بہت سے لوگوں نے اُن سچائیوں کو قبول کِیا جو اِس نئی تنظیم کے رُکن سنا رہے تھے۔‏ بعد میں جب ”‏غیرقوموں“‏ کے لوگ بھی مسیحی کلیسیا میں شامل ہونے لگے تو خدا نے پھر سے اِس بات کا ثبوت دیا کہ وہ اِس نئی تنظیم کی حمایت کر رہا ہے۔‏‏—‏اعمال ۱۰:‏۴۴،‏ ۴۵ کو پڑھیں۔‏

۱۳.‏ خدا کی نئی تنظیم کو کون‌سا کام سونپا گیا؟‏

۱۳ یہ بات بالکل واضح تھی کہ خدا نے یسوع مسیح کے پیروکاروں کو کون‌سا کام سونپا ہے۔‏ اِس کام کے سلسلے میں یسوع مسیح نے اُن کے لیے مثال قائم کی۔‏ وہ بپتسمہ لینے کے تھوڑے ہی عرصے بعد ”‏آسمان کی بادشاہی“‏ کی مُنادی کرنے  لگے۔‏ (‏متی ۴:‏۱۷‏)‏ اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو یہی کام کرنے کا حکم دیا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏تُم .‏ .‏ .‏ یرؔوشلیم اور تمام یہوؔدیہ اور ساؔمریہ میں بلکہ زمین کی اِنتہا تک میرے گواہ ہوگے۔‏“‏ (‏اعما ۱:‏۸‏)‏ اِبتدائی مسیحی اِس حکم کو بہت سنجیدہ خیال کرتے تھے۔‏ مثال کے طور پر پولُس اور برنباس نے پِسدیہ کے انطاکیہ میں یہودی مخالفین سے کہا:‏ ”‏ضرور تھا کہ خدا کا کلام پہلے تمہیں سنایا جائے لیکن چُونکہ تُم اُس کو رد کرتے ہو اور اپنے آپ کو ہمیشہ کی زندگی کے ناقابل ٹھہراتے ہو تو دیکھو ہم غیرقوموں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔‏ کیونکہ [‏یہوواہ]‏ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ مَیں نے تجھ کو غیرقوموں کے لئے نور مقرر کِیا تاکہ تُو زمین کی اِنتہا تک نجات کا باعث ہو۔‏“‏ (‏اعما ۱۳:‏۱۴،‏ ۴۵-‏۴۷‏)‏ پہلی صدی عیسوی سے خدا اپنی تنظیم کے زمینی حصے کے ذریعے لوگوں کو نجات کی راہ دِکھا رہا ہے۔‏

یروشلیم تباہ ہوا لیکن خدا کے بندے بچ گئے

۱۴.‏ پہلی صدی میں یروشلیم کے ساتھ کیا ہوا؟‏ لیکن کون بچ گئے؟‏

۱۴ زیادہ‌تر یہودیوں نے خوش‌خبری کو قبول نہیں کِیا۔‏ اِس لیے اُن پر مصیبت آنے والی تھی۔‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو آگاہ کِیا تھا:‏ ”‏جب تُم یرؔوشلیم کو فوجوں سے گِھرا ہوا دیکھو تو جان لینا کہ اُس کا اُجڑ جانا نزدیک ہے۔‏ اُس وقت جو یہوؔدیہ میں ہوں پہاڑوں پر بھاگ جائیں اور جو یرؔوشلیم کے اندر ہوں باہر نکل جائیں اور جو دیہات میں ہوں شہر میں نہ جائیں۔‏“‏ (‏لو ۲۱:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ یسوع مسیح کی یہ پیش‌گوئی پوری ہوئی۔‏ سن ۶۶ء میں سیسٹیئس گیلس نے یہودیوں کی بغاوت کو روکنے کے لیے یروشلیم کو گھیر لیا۔‏ مگر اچانک ہی رومی فوج وہاں سے چلی گئی اور یوں یسوع مسیح کے پیروکاروں کو یروشلیم اور یہودیہ سے بھاگنے کا موقع مل گیا۔‏ تاریخ‌دان یوسیبیس کے مطابق بہت سے مسیحی دریائےیردن پار کرکے پیریہ کے شہر پیلا کو چلے گئے۔‏ سن ۷۰ء میں رومی جنرل طِطُس اپنی فوج کے ساتھ یروشلیم آئے اور اِسے تباہ‌وبرباد کر دیا۔‏ لیکن جن مسیحیوں نے یسوع مسیح کی آگاہی پر دھیان دیا،‏ وہ بچ گئے۔‏

۱۵.‏ پہلی صدی میں کن حالات کے باوجود مسیحیوں کی تعداد بڑھتی گئی؟‏

۱۵ مشکلات،‏ اذیت اور دوسری آزمائشوں کے باوجود پہلی صدی میں مسیحیوں کی تعداد بڑھتی گئی۔‏ (‏اعما ۱۱:‏۱۹-‏۲۱؛‏ ۱۹:‏۱،‏ ۱۹،‏ ۲۰‏)‏ اِس کی وجہ یہ تھی کہ اُنہیں خدا کی برکت حاصل تھی۔‏—‏امثا ۱۰:‏۲۲‏۔‏

۱۶.‏ مضبوط ایمان رکھنے کے لیے ہر مسیحی کو کیا کرنا تھا؟‏

۱۶ مضبوط ایمان رکھنے کے لیے ہر مسیحی کو بڑی کوشش کرنی تھی۔‏ اُن کے لیے ضروری تھا کہ وہ پاک کلام کا گہرا مطالعہ کریں،‏ باقاعدگی سے عبادت کے لیے جمع ہوں اور پوری لگن سے مُنادی کے کام میں حصہ لیں۔‏ اِس سے کلیسیائیں روحانی لحاظ سے مضبوط ہوئیں اور اُن کا اِتحاد بھی بڑھا جیسا کہ آج بھی ہے۔‏ کلیسیائیں بڑی منظم تھیں اور سب افراد کو نگہبانوں اور خادموں کی محنت سے بڑا فائدہ ہوا۔‏ (‏فل ۱:‏۱؛‏ ۱-‏پطر ۵:‏۱-‏۴‏)‏ اِس کے علاوہ کلیسیاؤں کو پولُس جیسے سفری نگہبانوں کے دوروں سے بھی بڑا فائدہ ہوا۔‏ (‏اعما ۱۵:‏۳۶،‏ ۴۰،‏ ۴۱‏)‏ ذرا سوچیں کہ اُس وقت اور آج کی کلیسیاؤں کا اِنتظام کتنا ملتا جلتا ہے۔‏ ہم یہوواہ خدا کے شکرگزار ہیں کہ اُس نے ماضی اور حال میں اپنے بندوں کو اِتنی اچھی طرح منظم کِیا۔‏ *

۱۷.‏ اگلے مضمون میں کس موضوع پر بات کی جائے گی؟‏

۱۷ جوں‌جوں شیطان کی دُنیا کا خاتمہ نزدیک آ رہا ہے،‏ یہوواہ کی تنظیم کا زمینی حصہ اَور بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔‏ کیا آپ بھی اِس کے ساتھ‌ساتھ چل رہے ہیں؟‏ کیا آپ روحانی لحاظ سے ترقی کر رہے ہیں؟‏ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 16 مینارِنگہبانی،‏ ۱۵ جولائی ۲۰۰۲ء میں مضمون ‏”‏مسیحی رُوح اور سچائی سے پرستش کرتے ہیں“‏ اور ‏”‏وہ سچائی پر چلتے ہیں“‏ کو دیکھیں۔‏