مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

 آپ‌بیتی

یہوواہ خدا نے ہمیشہ میری مدد کی ہے

یہوواہ خدا نے ہمیشہ میری مدد کی ہے

مَیں اپنی نئی نویلی دُلہن،‏ ایولن کے ساتھ کینیڈا کے ایک چھوٹے سے قصبے کے ریلوے سٹیشن پر اُترا۔‏ اِس قصبے کا نام ہورن‌پین ہے جس کے آس پاس گھنے جنگل ہیں۔‏ صبح کا وقت تھا اور بلا کی سردی تھی۔‏ ایک بھائی ہمیں لینے آیا ہوا تھا۔‏ ہم اُس کے گھر پہنچ کر اُس کی بیوی اور بیٹے سے ملے اور پھر ہم نے اُن تینوں کے ساتھ مل کر بھاری ناشتہ کِیا۔‏ باہر بہت برف پڑی ہوئی تھی پھر بھی ہم اُس پر چلتے ہوئے گھرگھر جا کر لوگوں کو بادشاہت کا پیغام سنانے لگے۔‏ اُسی شام مَیں نے حلقے کے نگہبان کے طور پر اپنی پہلی تقریر دی جس پر صرف ہم پانچ ہی حاضر تھے۔‏

یہ بات ۱۹۵۷ء کی ہے۔‏ مجھے یہ فکر نہیں تھی کہ میری تقریر صرف چار لوگ سُن رہے تھے۔‏ دراصل مَیں بچپن ہی سے بہت شرمیلا ہوں۔‏ جب ہمارے گھر مہمان آتے تھے تو مَیں چھپ جایا کرتا تھا۔‏ یہاں تک کہ مَیں ایسے لوگوں کے سامنے بھی نہیں آتا تھا جنہیں مَیں جانتا تھا۔‏

لہٰذا یہ جان کر شاید آپ کو حیرت ہوگی کہ مَیں یہوواہ خدا کی تنظیم میں بہت سے ایسے کام انجام دے چُکا ہوں جن کے سلسلے میں مجھے بہت سے بہن‌بھائیوں اور دیگر لوگوں سے ملنا پڑتا تھا۔‏ لیکن مَیں ابھی تک اِس مسئلے پر پوری طرح قابو نہیں پا سکا۔‏ اِس لیے مَیں نے آج تک جو کچھ بھی کِیا ہے،‏ اُس میں میرا کوئی کمال نہیں۔‏ میرے حق میں یہوواہ خدا کا یہ وعدہ بالکل سچ ثابت ہوا ہے:‏ ”‏مَیں تجھے زور بخشوں گا۔‏ مَیں یقیناً تیری مدد کروں گا اور مَیں اپنی صداقت کے دہنے ہاتھ سے تجھے سنبھالوں گا۔‏“‏ (‏یسع ۴۱:‏۱۰‏)‏ یہوواہ خدا نے خاص طور پر کلیسیا کے بہن‌بھائیوں کے ذریعے میری بڑی مدد کی ہے۔‏ مَیں آپ کو اِن میں سے کچھ بہن‌بھائیوں کے بارے میں بتاتا ہوں۔‏ چلیں،‏ میرے بچپن سے ہی شروع کرتے ہیں۔‏

ہمیں سچائی کی راہ دِکھانے والی

اونٹاریو میں میری بچپن کی تصویر

ہم کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے جنوب‌مغرب میں رہتے تھے۔‏ میرے والدین کسان تھے۔‏ ایک اِتوار کی صبح یہوواہ کی ایک گواہ نے جس کا نام ایلسی تھا،‏ ہمارے  دروازے پر دستک دی۔‏ میری امی نے دروازہ کھولا اور اُن کی بات سننے لگیں۔‏ میرے ابو بھی شرمیلی طبیعت کے مالک تھے۔‏ ہم دونوں گھر کے اندر بیٹھے اُن کی باتیں سُن رہے تھے۔‏ میرے ابو کو لگا کہ باہر سامان بیچنے والی کوئی عورت آئی ہے اور میری امی اُس سے کوئی ایسی چیز خرید لیں گی جس کی ہمیں ضرورت نہیں۔‏ اِس لیے وہ خود ہی باہر چلے گئے اور کہا:‏ ”‏ہم آپ سے کچھ نہیں لینا چاہتے۔‏“‏ بہن نے کہا:‏ ”‏تو کیا آپ بائبل کا مطالعہ نہیں کرنا چاہتے؟‏“‏ میرے ابو نے کہا:‏ ”‏کیوں نہیں،‏ ہم بائبل ضرور سیکھنا چاہتے ہیں۔‏“‏

بہن ایلسی بڑے ہی صحیح وقت پر ہمارے گھر آئی تھیں۔‏ میرے امی‌ابو باقاعدگی سے چرچ جاتے تھے مگر حال ہی میں اُنہوں نے چرچ جانا چھوڑ دیا تھا۔‏ دراصل وہاں کے پادری چندہ دینے والے لوگوں کے ناموں کی ایک فہرست چرچ میں لگاتے تھے۔‏ جو شخص سب سے زیادہ چندہ دیتا تھا،‏ اُس کا نام سب سے اُوپر ہوتا تھا اور جو کم چندہ دیتا تھا،‏ اُس کا سب سے نیچے۔‏ چونکہ ہم لوگ زیادہ امیر نہیں تھے اِس لیے ہمارا نام اکثر فہرست کے آخر میں ہی ہوتا تھا۔‏ چرچ کے بزرگ ہم پر دباؤ ڈالتے تھے کہ ہم زیادہ چندہ دیا کریں۔‏ چرچ کے ایک پادری نے یہ تسلیم کِیا کہ وہ لوگوں کو ایسی باتیں سکھاتا ہے جن پر وہ خود ایمان نہیں رکھتا۔‏ اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی نوکری گنوانا نہیں چاہتا۔‏ اِنہی سب باتوں کی وجہ سے ہم نے چرچ جانا تو چھوڑ دیا مگر ابھی بھی ہم بائبل کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔‏

اُس وقت کینیڈا میں یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی تھی۔‏ اِس لیے جب بہن ایلسی ہمارے ساتھ مطالعہ کرتی تھیں تو وہ صرف بائبل اور اپنی ایک ڈائری اِستعمال کرتی تھیں جس میں اُنہوں نے کچھ نوٹس لکھے ہوتے تھے۔‏ لیکن جب اُنہیں یقین ہو گیا کہ ہم اُنہیں پولیس کے حوالے نہیں کریں گے تو وہ ہمیں کتابیں اور رسالے دینے لگیں۔‏ بہن ایلسی کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم یہ کتابیں اور رسالے چھپا دیا کرتے تھے۔‏ *

میرے امی‌ابو نے ۱۹۴۸ء میں بپتسمہ لیا۔‏

مخالفت اور دیگر مشکلات کے باوجود بہن ایلسی پوری لگن سے بادشاہت کی خوش‌خبری سناتی رہیں۔‏ مَیں اُن کے جوش‌وجذبے سے بہت متاثر ہوا اور مَیں بھی اُن کی طرح خدا کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔‏ میرے امی‌ابو کے بپتسمے کے ایک سال بعد مَیں نے بھی خود کو یہوواہ کے لیے وقف کِیا اور ۲۷ فروری ۱۹۴۹ء میں بپتسمہ لے لیا۔‏ میرا بپتسمہ لوہے کے ایک ٹب میں ہوا جس میں جانوروں کو پانی پلایا جاتا ہے۔‏ اُس وقت مَیں ۱۷ سال کا تھا اور میرا اِرادہ تھا کہ مَیں کُلوقتی خدمت شروع کروں۔‏

 یہوواہ نے مجھے دلیری بخشی

سن ۱۹۵۲ء میں مجھے بیت‌ایل میں خدمت کرنے کے لیے بلایا گیا۔‏

مَیں نے بپتسمے کے فوراً بعد پہلکار کے طور پر خدمت شروع نہیں کی۔‏ میرا خیال تھا کہ مجھے پہلکار بننے سے پہلے کچھ پیسے جمع کرنے چاہئیں۔‏ اِس لیے مَیں نے کچھ عرصے کے لیے ایک بینک میں اور پھر ایک دفتر میں کام کِیا۔‏ لیکن مَیں جتنے بھی پیسے کماتا تھا،‏ اُنہیں اکثر اِدھر اُدھر خرچ کر دیتا تھا۔‏ پھر ایک بھائی جن کا نام ٹیڈ سارجنٹ تھا،‏ اُنہوں نے میری حوصلہ‌افزائی کی کہ مَیں پیسے جمع کرنے کی کوشش چھوڑ دوں اور یہوواہ پر بھروسا رکھوں۔‏ (‏۱-‏توا ۲۸:‏۱۰‏)‏ اُن کی بات میرے دل پر اثر کر گئی اور مَیں نومبر ۱۹۵۱ء میں پہلکار کے طور پر خدمت کرنے لگا۔‏ میرے پاس صرف ۴۰ ڈالر،‏ ایک پُرانی سائیکل اور ایک نیا بیگ تھا۔‏ لیکن یہوواہ نے ہمیشہ میری ضرورتیں پوری کی ہیں۔‏ مَیں بھائی ٹیڈ کی طرف سے ملنے والی حوصلہ‌افزائی کے لیے بہت شکرگزار ہوں۔‏ پہلکار کے طور پر خدمت کرنے سے میرے لیے اَور بہت سے دروازے کُھل گئے۔‏

سن ۱۹۵۲ء میں اگست کے آخر میں مجھے کینیڈا کے برانچ کے دفتر سے فون آیا۔‏ مجھے ستمبر کے مہینے سے شہر ٹورانٹو میں بیت‌ایل میں خدمت شروع کرنے کے لیے کہا گیا۔‏ حالانکہ مَیں کبھی وہاں نہیں گیا تھا مگر مَیں نے دوسرے پہلکاروں سے بیت‌ایل کے بارے میں بہت سی اچھی باتیں سُن رکھی تھیں۔‏ اِس لیے شرمیلا ہونے کے باوجود مَیں وہاں جانے کے لیے خوشی سے راضی ہو گیا۔‏ اور جلد ہی میرا وہاں دل لگ گیا۔‏

‏”‏بہن‌بھائیوں کے لیے اپنی محبت ظاہر کریں“‏

بیت‌ایل میں خدمت شروع کرنے کے دو سال بعد مجھے ٹورانٹو کی ایک کلیسیا کی نگہبانی کرنے کی ذمےداری سونپی گئی۔‏ مَیں اُس وقت صرف ۲۳ سال کا تھا اور مجھے ایسی بھاری ذمےداری اُٹھانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔‏ مگر بھائی بِل یاکوس جو مجھ سے پہلے یہ ذمےداری نبھا رہے تھے،‏ اُنہوں نے بڑی عاجزی اور پیار سے میری مدد کی۔‏ سب سے بڑھ کر یہوواہ خدا نے میرا ساتھ دیا۔‏

بھائی یاکوس چھوٹے قد کے بھاری بھرکم اِنسان تھے اور اُن کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔‏ وہ بہن‌بھائیوں سے بہت پیار کرتے تھے اور بہن‌بھائی بھی اُنہیں بہت چاہتے تھے۔‏ وہ صرف بہن‌بھائیوں کے مشکل وقت میں ہی نہیں بلکہ ویسے بھی اُن سے ملنے جاتے تھے۔‏ بھائی یاکوس نے مجھے بھی ایسا ہی کرنے کا مشورہ دیا۔‏ اُنہوں نے میری حوصلہ‌افزائی کی کہ مَیں مُنادی میں سب بہن‌بھائیوں کے ساتھ کام کروں۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏بہن‌بھائیوں کے لیے اپنی محبت ظاہر کریں۔‏ اگر اُنہیں آپ کی محبت کا یقین ہے تو وہ آپ کی خامیوں کو نظرانداز کرنے کو تیار ہوں گے۔‏“‏

میری بیوی کا ساتھ—‏ایک برکت

جنوری ۱۹۵۷ء میں یہوواہ نے مجھے ایک خاص برکت بخشی۔‏ اُس مہینے میں میری اور ایولن کی شادی ہوئی۔‏ ایولن نے گلئیڈ کی ۱۴ویں کلاس سے تربیت حاصل کی تھی۔‏ ہماری شادی سے پہلے وہ کینیڈا کے صوبے کیوبک میں خدمت کر رہی تھی جہاں فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے۔‏ اُس زمانے میں وہاں رومن کیتھولک چرچ کا بڑا اثرورسوخ تھا۔‏ اِس لیے ایولن کے لیے وہاں خدمت کرنا آسان نہیں تھا۔‏ پھر بھی وہ وفاداری سے وہاں خدمت کرتی رہی۔‏

سن ۱۹۵۷ء میں ہماری شادی کی تصویر

ایولن نے میری بڑی حمایت اور مدد کی۔‏ (‏افس ۵:‏۳۱‏)‏ بعض اوقات اُسے میری مدد کرنے کی خاطر کچھ قربانیاں دینی پڑیں۔‏ مثال کے طور پر ہمارا منصوبہ تھا کہ ہم ہنی‌مون منانے کے لیے امریکہ کی ریاست فلوریڈا جائیں گے۔‏ مگر شادی کے اگلے ہی دن کینیڈا کے برانچ کے دفتر سے یہ خبر ملی کہ مجھے وہاں ہفتے بھر کے  لیے ایک اِجلاس میں جانا ہے۔‏ اِس کی وجہ سے ہمارا منصوبہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔‏ لیکن ہم دونوں یہوواہ خدا کی ہدایت پر چلنا چاہتے تھے۔‏ لہٰذا ہم نے ہنی‌مون پر جانے کا منصوبہ ترک کر دیا۔‏ میری غیرموجودگی میں ایولن بیت‌ایل کے نزدیکی علاقے میں مُنادی کا کام کرتی رہی۔‏ اگرچہ یہ علاقہ کیوبک سے بہت فرق تھا پھر بھی اُس نے دل لگا کر مُنادی کی۔‏

اِس اِجلاس کے بعد مجھے بتایا گیا کہ مجھے کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے شمالی علاقے میں حلقے کا نگہبان مقرر کِیا گیا ہے۔‏ یہ سُن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی۔‏ مَیں صرف ۲۵ سال کا تھا،‏ ابھی ابھی میری شادی ہوئی تھی اور مجھے اِس کام کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔‏ پھر بھی ہم دونوں یہوواہ خدا پر بھروسا کرکے چل دئے۔‏ سخت سردی میں ہم نے رات کی ٹرین لی جس میں ہمارے ساتھ بہت سے تجربہکار سفری نگہبان تھے۔‏ وہ اُن علاقوں کو لوٹ رہے تھے جہاں وہ خدمت کرتے تھے۔‏ اُنہوں نے ہماری بڑی حوصلہ‌افزائی کی۔‏ ایک بھائی نے ٹرین کے ایک ڈبے میں برتھیں لی ہوئی تھیں۔‏ اُس نے اِصرار کِیا کہ ہم اُس ڈبے میں چلے جائیں تاکہ ہمیں ساری رات بیٹھ کر نہ کاٹنی پڑے۔‏ اگلی صبح مَیں نے حلقے کے نگہبان کے طور پر ہورن‌پین میں اُس گروپ کی خدمت شروع کی جس کے متعلق مَیں نے شروع میں بتایا ہے۔‏ اُس وقت ہماری شادی کو صرف ۱۵ دن ہوئے تھے۔‏

اگلے چند سالوں میں ہمیں اَور ذمےداریاں سونپی گئیں۔‏ مجھے صوبائی نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کا اعزاز بھی دیا گیا۔‏ پھر ۱۹۶۰ء کے آخر میں مجھے گلئیڈ سکول کی ۳۶ویں کلاس میں آنے کی دعوت دی گئی۔‏ یہ کورس دس ماہ کا تھا اور فروری ۱۹۶۱ء سے بروکلن میں شروع ہونا تھا۔‏ مَیں بہت خوش تھا مگر افسوس اِس بات کا تھا کہ ایولن کو میرے ساتھ آنے کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔‏ اُس وقت جن بھائیوں کو اِس کورس کے لیے بلایا گیا،‏ اُن کی بیویوں کو ایک خط میں بتانا تھا کہ وہ دس مہینے کے لیے اپنے شوہروں کی جُدائی سہنے کو تیار ہیں۔‏ ایولن نے بھی خط میں اپنی رضامندی ظاہر کی۔‏ وہ بہت روئی لیکن ہم دونوں نے فیصلہ کِیا کہ مَیں اِس کورس کے لیے جاؤں اور وہاں سے ملنے والی تربیت سے فائدہ حاصل کروں۔‏

اِس عرصے کے دوران ایولن نے کینیڈا کے بیت‌ایل میں کام کِیا۔‏ اُسے ایک ممسوح بہن مارگریٹ لووِل کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہنے کا اعزاز ملا۔‏ بےشک ہم دونوں ایک دوسرے کو بہت یاد کرتے تھے۔‏ مگر یہوواہ کی مدد سے جلد ہی ہمارا دل ہمارے کام میں لگ گیا۔‏ مَیں ایولن کے قربانی کے جذبے کی بہت قدر کرتا ہوں۔‏ اُس کے اِس جذبے کی بدولت ہم خدا کی تنظیم کے بہت کام آئے۔‏

مجھے گلئیڈ سکول میں گئے ابھی تین مہینے ہوئے تھے کہ بھائی ناتھن نار نے مجھے بتایا کہ وہ مجھے ایک نئی ذمےداری دینا چاہتے ہیں۔‏ اُس وقت وہ پوری دُنیا میں مُنادی کے کام کی نگرانی کر رہے تھے۔‏ وہ چاہتے تھے کہ مَیں گلئیڈ سکول بیچ میں ہی چھوڑ کر کینیڈا چلا جاؤں اور کچھ عرصے کے لیے وہاں بادشاہتی خدمتی سکول میں بھائیوں کو تربیت دوں۔‏ اُنہوں نے کہا کہ مجھے ایسا کرنے پر مجبور نہیں کِیا جا رہا۔‏ اگر مَیں چاہوں تو گلئیڈ سکول کا کورس مکمل کر سکتا ہوں جس کے بعد شاید مَیں مشنری بن جاؤں۔‏ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر مَیں کینیڈا جانے کا فیصلہ کرتا ہوں تو شاید مجھے دوبارہ گلئیڈ سکول میں آنے کا موقع نہ ملے۔‏ اور بادشاہتی خدمتی سکول کے بعد غالباً مجھے دوبارہ کینیڈا میں ہی کسی علاقے میں مُنادی کے کام کے لیے بھیج دیا جائے۔‏ اُنہوں نے یہ فیصلہ ایولن اور مجھ پر چھوڑ دیا۔‏

 لیکن مَیں جانتا تھا کہ یہوواہ کی تنظیم کی طرف سے ملنے والی ذمےداریوں کے متعلق ایولن کا نظریہ کیا ہے۔‏ اِس لیے مَیں نے فوراً بھائی نار سے کہا:‏ ”‏یہوواہ کی تنظیم ہمیں جو بھی کرنے کو کہے گی،‏ ہم خوشی سے کریں گے۔‏“‏ شروع سے ہی ہمارا عزم یہ تھا کہ ہم ہر وہ کام کریں گے جو یہوواہ خدا کی تنظیم ہمیں دے گی۔‏

لہٰذا مَیں اپریل ۱۹۶۱ء میں کینیڈا لوٹ آیا۔‏ بادشاہتی خدمتی سکول کے بعد ہم بیت‌ایل میں خدمت کرنے لگے۔‏ حیرانی کی بات تھی کہ کچھ عرصے بعد مجھے گلئیڈ سکول کی ۴۰ویں کلاس سے تربیت حاصل کرنے کی دعوت ملی جو ۱۹۶۵ء میں شروع ہونی تھی۔‏ ایک بار پھر ایولن کو خط میں یہ بتانا تھا کہ وہ میری جُدائی برداشت کرنے کو تیار ہے۔‏ مگر چند ہفتے بعد ایولن کو بھی میرے ساتھ گلئیڈ سکول آنے کی دعوت مل گئی۔‏ یہ ہم دونوں کے لیے بہت ہی خوشی کی بات تھی۔‏

جب ہم گلئیڈ سکول پہنچے تو بھائی نار نے ہمیں بتایا کہ اِس کورس کے دوران جو طالبِ‌علم فرانسیسی زبان سیکھیں گے،‏ اُنہیں افریقہ بھیجا جائے گا۔‏ لیکن جب ہماری تربیت ختم ہوئی تو ہمیں واپس کینیڈا بھیج دیا گیا اور مجھے برانچ کا نگہبان مقرر کِیا گیا۔‏ (‏آجکل اِسے برانچ کی کمیٹی کا منتظم کہا جاتا ہے۔‏)‏ میری عمر ۳۴ سال تھی اِس لیے مَیں نے بھائی نار سے کہا کہ ”‏مجھے اِتنی بڑی ذمےداری اُٹھانے کا بھلا کیا تجربہ؟‏“‏ مگر اُنہوں نے میری ہمت بندھائی۔‏ جب بھی مجھے کوئی اہم فیصلہ کرنا ہوتا تھا تو مَیں بیت‌ایل کے عمررسیدہ اور تجربہکار بھائیوں سے مشورہ کرتا تھا۔‏

بیت‌ایل—‏تربیت پانے اور دینے کی جگہ

بیت‌ایل میں خدمت کرنے کے دوران مَیں نے دوسروں سے بہت کچھ سیکھا۔‏ مَیں برانچ کی کمیٹی کے دیگر رُکنوں کی بڑی عزت اور قدر کرتا ہوں۔‏ اب تک مَیں مختلف کلیسیاؤں میں اور بیت‌ایل میں سینکڑوں ایسے بہن‌بھائیوں سے مل چُکا ہوں جن سے مَیں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔‏

اِس تصویر میں مَیں کینیڈا کے بیت‌ایل میں صبح کی عبادت میں پیشوائی کر رہا ہوں۔‏

بیت‌ایل میں خدمت کرنے کے دوران مَیں نے بھی دوسروں کو تربیت دی ہے۔‏ پولُس رسول نے تیمُتھیُس سے کہا تھا:‏ ”‏جو باتیں تُو نے بہت سے گواہوں کے سامنے مجھ سے سنی ہیں اُن کو ایسے دیانت‌دار آدمیوں کے سپرد کر جو اَوروں کو بھی سکھانے کے قابل ہوں۔‏“‏ (‏۲-‏تیم ۲:‏۲؛‏ ۳:‏۱۴‏)‏ بعض اوقات بہن‌بھائی مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ”‏بیت‌ایل میں آپ نے جو ۵۷ سال خدمت کی،‏ اُن سے آپ نے کیا کچھ سیکھا ہے؟‏“‏ مَیں بہن‌بھائیوں کو یہی جواب دیتا ہوں کہ ”‏یہوواہ کی تنظیم آپ کو جو بھی ذمےداری سونپے،‏ اُسے نبھانے کے لیے تیار رہیں اور اُسے پورا کرنے کے لیے یہوواہ خدا سے مدد مانگیں۔‏“‏

کل کی بات لگتی ہے کہ مَیں بیت‌ایل میں آیا تھا۔‏ مَیں کتنا شرمیلا اور ناتجربہکار تھا۔‏ مگر اِس تمام عرصے کے دوران یہوواہ نے میرا ”‏دہنا ہاتھ پکڑ“‏ کر مجھے راستہ دِکھایا ہے۔‏ خاص طور پر بہن‌بھائیوں کی مدد اور مہربانی کے ذریعے اُس نے مجھے یہ یقین دِلایا ہے کہ ”‏مت ڈر۔‏ مَیں تیری مدد کروں گا۔‏“‏—‏یسع ۴۱:‏۱۳‏۔‏

^ پیراگراف 10 ۲۲ مئی ۱۹۴۵ء کو کینیڈا کی حکومت نے ہمارے کام پر سے پابندی ہٹا لی۔‏