مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

طلاق‌یافتہ مسیحی—‏آپ اُن کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

طلاق‌یافتہ مسیحی—‏آپ اُن کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

بِلاشُبہ آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہوں گے جس کی طلاق ہوئی ہے۔‏ یہ اِس لیے ہے کیونکہ آجکل طلاق بہت عام ہو گئی ہے۔‏ مثال کے طور پر پولینڈ میں جن لوگوں کی عمر 30 سال ہے اور جن کی شادی کو 3 سے 6 سال ہو گئے ہیں،‏ اُن میں طلاق کی شرح سب سے زیادہ ہے۔‏ لیکن طلاق صرف اِسی عمر کے لوگوں میں عام نہیں ہے۔‏

خاندانی زندگی پر تحقیق کرنے والے ایک ہسپانوی اِدارے کے مطابق ”‏اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ [‏یورپ میں]‏ شادی‌شُدہ لوگوں کی آدھی تعداد کی کبھی نہ کبھی طلاق ہو جائے گی۔‏“‏ دوسرے ترقی‌یافتہ ممالک میں بھی ایسی ہی صورتحال پائی جاتی ہے۔‏

شدید جذبات کا طوفان

طلاق لینے والے شخص پر کیا گزرتی ہے؟‏ ایک ماہر جو مشرقی یورپ میں شادی‌شُدہ جوڑوں کی مدد کرتی ہیں،‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏طلاق اُن مسائل کو محض قانونی شکل دیتی ہے جو پہلے سے پیدا ہوئے ہیں۔‏ اِس سے پہلے جوڑے کا رشتہ بگڑ جاتا ہے اور نوبت علیٰحدگی تک پہنچ جاتی ہے۔‏ یہ صورتحال بڑے دُکھ کا باعث بنتی ہے۔‏“‏ وہ یہ بھی کہتی ہیں:‏ ”‏یوں اُن کی زندگی میں شدید جذبات کا طوفان آ جاتا ہے،‏ مثلاً غصہ،‏ پچھتاوا،‏ مایوسی،‏ اُداسی اور شرمندگی۔‏“‏ اِس صورتحال میں کبھی‌کبھار خودکُشی کرنے کے خیال بھی آ سکتے ہیں۔‏ یہ ماہر آگے کہتی ہیں:‏ ”‏جب عدالت میں طلاق کو قانونی شکل دی جاتی ہے تو اگلا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔‏ طلاق‌یافتہ شخص کھوکھلےپن اور احساسِ‌تنہائی کا شکار ہو کر یہ سوچنے لگتا ہے کہ اب مَیں آگے کیا کروں گا؟‏ میری زندگی کا کیا مقصد ہے؟‏“‏

چند سال پہلے اِیوا نامی بہن کی طلاق ہوئی۔‏ اُنہوں نے بتایا:‏ ”‏جب میرے پڑوسی اور ساتھ کام کرنے والے مجھے طلاق‌یافتہ عورت کہتے تھے تو شروع میں مجھے بہت شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔‏ مجھے اپنے حالات کی وجہ سے بہت غصہ بھی آتا تھا۔‏ مجھے اکیلے اپنے دو بچوں کی پرورش کرنی پڑی اور مجھے ماں اور باپ دونوں کا کردار ادا کرنا پڑا۔‏“‏ * جب آدم کی طلاق ہوئی تو وہ 12 سال سے بزرگ کے طور پر خدمت کر رہے تھے۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں اپنی نظروں میں بہت گِر چُکا ہوں۔‏ اِس لیے کبھی‌کبھار مجھے بہت غصہ آ جاتا ہے اور میرا دل چاہتا ہے کہ دوسروں سے الگ رہوں۔‏“‏

نئی صورتحال سے نپٹنے کی جدوجہد

کچھ طلاق‌یافتہ اشخاص کو اپنی صورتحال سے نپٹنا اِس لیے مشکل لگتا ہے کیونکہ وہ اپنے مستقبل کے لیے پریشان رہتے ہیں۔‏ کبھی‌کبھار ایسی پریشانی کئی سالوں تک اُن کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔‏ اُن کو شاید لگے کہ دوسروں کو اُن کی فکر نہیں ہے۔‏ ایک کالم‌نگار جو طلاق‌یافتہ لوگوں کی زندگی کے بارے میں لکھتی ہے،‏ وہ کہتی ہے:‏  ‏”‏اب اُن کو ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جن کے وہ عادی نہیں ہیں اور اُنہیں اپنے مسئلوں سے خود نپٹنا پڑتا ہے۔‏“‏

سٹانیس‌لو بتاتے ہیں:‏ ”‏ہماری طلاق کے بعد میری بیوی مجھے ہماری بیٹیوں سے ملنے نہیں دیتی تھی۔‏ اِس لیے مجھے لگتا تھا کہ کسی کو میری فکر نہیں ہے اور شاید یہوواہ خدا نے بھی مجھے چھوڑ دیا ہے۔‏ مَیں زندگی سے اُکتا گیا تھا۔‏ لیکن کچھ عرصے کے بعد مجھے ہوش آیا کہ میری سوچ کتنی غلط ہے۔‏“‏ وانڈا نامی ایک طلاق‌یافتہ بہن کو بھی اپنے مستقبل کی فکر ستاتی تھی۔‏ وہ بتاتی ہیں:‏ ”‏مجھے یقین تھا کہ کچھ عرصے کے بعد لوگ،‏ یہاں تک کہ کلیسیا کے بہن‌بھائی بھی میری اور میرے بچوں کی مدد کرنا بند کر دیں گے۔‏ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہن‌بھائیوں نے کبھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا۔‏ اُن کی مدد سے مَیں اپنے بچوں کی اچھی تربیت کر پائی اور آج وہ یہوواہ کی عبادت کر رہے ہیں۔‏“‏

اِن بیانات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ طلاق ایک شخص کے جذبات پر کتنا گہرا اثر ڈالتی ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ سوچنے لگے کہ اُس کی کوئی قدر نہیں ہے اور وہ اِس لائق نہیں ہے کہ اُس میں دلچسپی لی جائے۔‏ شاید اُسے لگے کہ سب اُس کے خلاف ہیں۔‏ اِس لیے شاید وہ یہ سمجھے کہ کلیسیا میں محبت اور ہمدردی کا جذبہ نہیں ہے۔‏ لیکن سٹانیس‌لو اور وانڈا کے تجربے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکثر طلاق‌یافتہ شخص کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ کلیسیا کے بہن‌بھائیوں کو اُس کی فکر ہے۔‏ حقیقت یہ ہے کہ کلیسیا کے بہن‌بھائی مدد ضرور کرتے ہیں،‏ چاہے شروع میں ایک شخص کو اِس بات کا احساس ہو یا نہ ہو۔‏

احساسِ‌تنہائی کا مقابلہ

یاد رکھیں کہ ہماری سب کوششوں کے باوجود طلاق‌یافتہ بہن‌بھائی وقتاًفوقتاً احساسِ‌تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔‏ خاص طور پر طلاق‌یافتہ بہنوں کو شاید لگے کہ اُن کا کوئی دوست نہیں ہے۔‏ الیشا بتاتی ہیں:‏ ”‏میری طلاق کو آٹھ سال ہو چکے ہیں۔‏ لیکن ابھی بھی مجھے کبھی‌کبھار ایسا لگتا ہے کہ مَیں کسی کام کی نہیں ہوں۔‏ ایسے اوقات میں مَیں اکیلی رہنا چاہتی ہوں اور مجھے اپنی حالت پر بہت رونا آتا ہے۔‏“‏

بہت سے طلاق‌یافتہ لوگوں میں ایسے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔‏ لیکن بائبل میں ہمیں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ ہم خود کو دوسروں سے الگ نہ رکھیں۔‏ اگر ہم اِس نصیحت پر عمل نہیں کرتے تو شاید ہم ”‏ہر معقول بات“‏ کو رد کرنے لگیں۔‏ (‏امثا 18:‏1‏)‏ جو شخص تنہا محسوس کرتا ہے،‏ اُسے یہ سمجھنا چاہیے کہ معقول بات یہ ہے کہ وہ باربار کسی مخالف جنس کے پاس مشورے لینے یا تسلی حاصل کرنے کے لیے نہ جائے۔‏ یوں وہ نامناسب جذبات پیدا کرنے سے بچا رہے گا۔‏

طلاق‌یافتہ بہن‌بھائیوں کو شاید طرح‌طرح کے جذبات سے نپٹنا پڑے۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ مستقبل کے لیے پریشان ہوں،‏ تنہائی محسوس کریں اور خود کو بےکار سمجھیں۔‏ لیکن ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ایسے جذبات غیرمعمولی نہیں ہیں اور اِن پر قابو پانے میں وقت لگتا ہے۔‏ اِس لیے ہمیں یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کرتے ہوئے ایسے بہن‌بھائیوں کا سہارا بننا چاہیے۔‏ (‏زبور 55:‏22؛‏ 1-‏پطر 5:‏6،‏ 7‏)‏ یقیناً ایسے بہن‌بھائی ہماری مدد کی بڑی قدر کرتے ہیں۔‏ واقعی اُنہیں کلیسیا میں سچے دوست مل جائیں گے۔‏—‏امثا 17:‏17؛‏ 18:‏24‏۔‏

^ پیراگراف 6 کچھ نام فرضی ہیں۔‏